درس الهدایة في النحو

درس نمبر 57: حروف مشبّهة بالفعل 1

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

حروف مشبّهة بالفعل کون سے ہیں

"اَلْحُرُوفُ الْمُشَبَّهَةُ بِالْفِعْلِ سِتَّةٌ" قسمِ ثالث حرف کے بارے میں تھی۔ حروفِ جر کی بحث بحمداللہ مکمل ہو گئی۔ اب فرما رہے ہیں کہ اگلی فصل ہے ان حروف کے بارے میں جن کو حروفِ مشبہ بالفعل کہا جاتا ہے۔ جیسے فعل ایک اسم کو رفع دیتا ہے، ایک اسم کو نصب دیتا ہے، ایک کو بطور فاعل دوسرے کو مفعول، یہ ہیں تو حروف لیکن جیسے جر فقط ایک اسم کو جر دے دیتے تھے لیکن یہ حروف چونکہ ایک اسم کو نصب دیتے ہیں اور ایک کو جر دیتے ہیں، دو عمل کرتے ہیں تو فرماتے ہیں اس لیے ہم کہتے ہیں حروفِ مشبہ بالفعل۔ حروفِ مشبہ بالفعل چھ ہیں، یہ بھی آپ پڑھ چکے ہیں: "إِنَّ"، "أَنَّ"، "كَأَنَّ"، "لَيْتَ"، "لَكِنَّ"، "لَعَلَّ"۔ چھ ہو گئے۔ حروفِ مشبہ بالفعل جملہ اسمیہ پر یعنی دو اسموں پر داخل ہوتے ہیں، جو پہلا ہوتا ہے جو مبتدا اور خبر پر داخل ہوتے ہیں دوسرے الفاظ میں، پہلے اسم کو نصب دیتے ہیں جو ان کا اسم کہلاتا ہے اور دوسرے کو رفع دیتے ہیں جو ان کی خبر کہلاتی ہے۔ ابتدا میں اگرچہ "زَيْدٌ قَائِمٌ" مبتدا اور خبر تھے جب اس پر "إِنَّ" آ جائے گا اب پڑھیں گے "إِنَّ زَيْدًا قَائِمٌ"۔ زید کو انہوں نے نصب دیا اپنا اسم بنا لیا اور قائم پر جو رفع ہے وہ اس کے خبر ہونے کی بنیاد پر ہے۔ ۔

مَا كَافَّة

فرماتے ہیں: ہاں کبھی کبھی ان پر "مَا كَافَّة" گزارش کر دی ہے پہلے بھی "كَافَّة" یعنی "كَافَّة" سے مراد یہ ہے کبھی ان کے ساتھ "مَا" آ جاتی ہے۔ جب "مَا" آ جائے گی تو پھر یہ ان کو عمل سے روک دیتی ہے یعنی "إِنَّ" سے جب "إِنَّمَا" بن جائے گا اس وقت یہ عمل وہ نہیں کریں گے اس وقت پھر یہ جملہ اسمیہ نہیں بلکہ یہ جملہ فعلیہ پر بھی داخل ہوتے ہیں۔ اگلی بحث ہے جس کو انشاءاللہ آپ نے بڑے سکون سے لکھنا بھی ہے اور پڑھنا بھی ہے پھر مزہ آئے گا۔ پھر اگر کوئی پوچھے جناب یہ "إِنَّ" پر "إِنَّمَا" بناتے کیوں ہیں؟ جیسے سوال اگر ہو کہ "إِنَّ" سے "إِنَّمَا" بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ "إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ" آپ کہیں گے اس لیے کہ جب متکلم حصر کا ارادہ کرنا چاہتا ہے، ایک چیز کو حصر کا، تو اس وقت وہ ان پر "مَا" کو داخل کرتا ہے یا اس میں کوئی تاکید کا معنی لانا چاہتا ہے، تاکید مزید جسے کہتے ہیں وہ کرنا چاہتا ہے پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس وقت یہ ما ہوتا ہے۔ "إِنَّمَا يَخْشَى اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ"۔ 

"فَصْلٌ الْحُرُوفُ الْمُشَبَّهَةُ بِالْفِعْلِ" حروفِ مشبہ بالفعل چھ ہیں: ۱۔"إِنَّ"۲۔ "أَنَّ"۳۔ "كَأَنَّ"۴۔ "لَكِنَّ"۵۔"لَيْتَ"۶۔ "لَعَلَّ"

  "هَذِهِ الْحُرُوفُ تَدْخُلُ عَلَى الْجُمْلَةِ الْاِسْمِيَّةِ" یہ حروف جملہ اسمیہ پر داخل ہوتے ہیں۔ کیا مطلب؟ یعنی یہ حروف مبتدا اور خبر پر داخل ہوتے ہیں "تَنْصِبُ الْاِسْمَ وَتَرْفَعُ الْخَبَرَ"۔ جو پہلے مبتدا تھی اب یہ اس کو نصب دیں گے وہ ان کی اسم کہلاتی ہے اور جو پہلے مبتدا کی خبر تھی اب وہ ان کی خبر بنے گی اس کو یہ رفع دیتے ہیں۔ جیسے "زَيْدٌ قَائِمٌ"، "زَيْدٌ" مبتدا، "قَائِمٌ" خبر، لیکن جب اس پر حروفِ مشبہ بالفعل داخل ہو جائیں گے اور ہم کہتے ہیں مثلاً "إِنَّ زَيْدًا قَائِمٌ"۔ اب زید کو نصب دے دیا اس کو اپنا اسم بنا لیا اور قائم کو رفع دیا ہے اپنا، اپنی خبر بنا کر۔ اب قائم "زَيْدٌ" مبتدا کی خبر نہیں بلکہ "إِنَّ" کی خبر ہے۔ "وَ قَدْ يَلْحَقُهَا مَا الْكَافَّةُ"۔ لیکن کبھی کبھار ان پر "مَا كَافَّة" داخل ہو جاتی ہے۔ "كَافَّة" کا معنی کئی دفعہ بتایا ہے یعنی روکنے والی۔ "فَتَكُفُّهَا عَنِ الْعَمَلِ" جب وہ آ جاتی ہے پھر وہ ان کو عمل سے روک دیتی ہے۔ وہ جو انہوں نے اسم کو نصب اور خبر کو رفع دینا تھا اس سے روک دیتی ہے "وَحِينَئِذٍ"۔ حینئذ کا معنی کیا ہے؟ یعنی جب ان کے ساتھ "مَا كَافَّة" آ جائے گی "تَدْخُلُ عَلَى الْأَفْعَالِ" اس وقت یہ افعال پر داخل ہوتے ہیں۔ "إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ"، "إِنَّمَا يَخْشَى اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ"، "إِنَّمَا قَامَ زَيْدٌ"۔ اس ما کی وجہ سے اب یہ افعال پر داخل ہوئے ہیں ورنہ انہوں نے داخل نہیں ہونا تھا۔

4

«أنَّ»اور «إنَّ» پڑھنے اور ان کا استعمال

إنَّ پڑ  ھنے کی جگہ

 اب تھوڑی سی توجہ آپ کی درکار ہو گی، یہ ہے یہاں سے اب شروع فرمانا چاہتے ہیں کہ کہاں پر "إِنَّ" پڑھنا ضروری ہے اور کہاں پر "أَنَّ" پڑھنا ضروری ہے۔ یہ دو بڑی مشہور باتیں ہیں، مشہور چیزیں ہیں، آپ عربی کی کوئی بھی کتاب اٹھائیں گے چلو قرآن مجید میں تو اعراب لگے ہوتے ہیں آپ ادھر متوجہ نہیں ہوتے جن کتابوں میں، حدیث کی کتابوں میں اعراب نہیں ہوتے اور وہاں لفظ الف اور نون لکھا ہوتا ہے وہاں یہ بہت ہی اہم نکتہ ہے کہ ہم نے اس کو "أَنَّ" پڑھنا ہے یا "إِنَّ" پڑھنا ہے۔ پوری توجہ آغا جان، یہ بہت میرے حساب میں یہ بڑی مشہور بات ہے کہ "إِنَّ" اور "أَنَّ" کے فرق کے استعمال کو سمجھنا۔ کیا؟ کہ "إِنَّ" پڑھنا کہاں واجب ہے اور "أَنَّ" پڑھنا کہاں واجب ہے؟ یہ دو بڑے اہم نکتے ہیں، اب انہی کو سمجھنا ہے تو پھر یہ بات مزے کی بنے گی ورنہ نہیں۔ ٹھیک ہے جی۔ خب، عبارت سے پہلے میں آپ کو ویسے تھوڑا سا، آپ اس کو یوں لکھیں، چار مقامات پر "إِنَّ" پڑھنا لازم ہے۔ چار مقامات ہیں جہاں "إِنَّ" پڑھنا لازم ہے، سات مقام ہیں تقریباً جہاں "أَنَّ" پڑھنا واجب ہے۔ ان کو اسی طرح کاپی میں لکھ لیں۔ مثلاً پہلے ہیڈنگ یہ لکھیں: وہ چار، وہ مقامات جہاں "إِنَّ" پڑھنا واجب ہے۔ جواب: پہلا جب ابتدائے کلام ہو، اولِ کلام ہو وہاں "إِنَّ" پڑھا جاتا ہے "إِنَّ زَيْدًا قَائِمٌ"۔ نمبر دو، اگر باب القول، قول "قَالَ يَقُولُ" کہنا، یعنی "قَالَ يَقُولُ" یا اس کے ہم معنی کسی فعل کے بعد آئے تو وہاں پر بھی "إِنَّ" پڑھا جاتا ہے دو۔ موصول کے بعد آ جائے یہ اسماء موصولہ "الَّذِي"، "الَّتِي" وغیرہ، موصول کے بعد بھی "إِنَّ" پڑھا جاتا ہے تین۔ اور چار، اگر اس اس کی خبر پر لام داخل ہو جائے لامِ تاکید تو وہاں پر بھی "إِنَّ" پڑھا جاتا ہے "إِنَّ زَيْدًا لَقَائِمٌ"۔  یہ چار مقام تھے جہاں "إِنَّ" پڑھنا ہے۔

أَنَّ پڑھنے کی جگہ

سات مقام ہیں جہاں پر "أَنَّ" پڑھنا واجب ہے، حمزہ پر فتح پڑھنا ہے، "أَنَّ" پڑھنا واجب ہے۔ بہت توجہ کے ساتھ آغا ان کو لکھنا ہے۔ بڑی اہم چیز ہے۔ نمبر ایک، پہلا، اگر یہ کسی فعل کا فاعل واقع ہو رہا ہو یعنی یہ حرف مشبہ بالفعل اپنے اسم و خبر کے ساتھ مل کر یہ فاعل واقع ہو رہا ہو وہاں بھی "أَنَّ" پڑھنا ہے جیسے "بَلَغَنِي أَنَّ زَيْدًا قَائِمٌ" چونکہ یہ "أَنَّ زَيْدًا قَائِمٌ" جملہ "بَلَغَنِي" کا فاعل بن رہا ہے لہٰذا "أَنَّ" پڑھنا ہے۔ نمبر دو، جب یہ مفعول واقع ہو رہا ہو اس وقت بھی "أَنَّ" پڑھنا ہے جیسے "كَرِهْتُ أَنَّكَ قَائِمٌ" ٹھیک ہے جی، یہاں بھی "أَنَّ" ہے۔ نمبر تین، جب یہ مضاف الیہ واقع ہو رہا ہو، مثالیں سب کی ان شاءاللہ دیں گے۔ مضاف الیہ واقع ہو رہا ہو، وہاں پر بھی "أَنَّ" پڑھنا ہے جیسے "أَعْجَبَنِي" کیا؟ "اشْتِهَارُ أَنَّكَ فَاضِلٌ" اشتهار مضاف ہے اور نہ اس کا مضاف الیہ واقع ہو رہا ہے پھر ترکیب الگ ہے۔ چوتھا مقام: جب مبتدا واقع ہو رہا ہو وہاں پر بھی "أَنَّ" پڑھنا ہے جیسے "عِنْدِي أَنَّكَ قَائِمٌ"۔ چار ہو گئے۔ نمبر پانچ، اگر یہ مجرور واقع ہو رہا ہو یعنی اس سے پہلے کوئی حرفِ جار آ جائے وہاں پر بھی "أَنَّ" پڑھنا ہے جیسے "عَجِبْتُ مِنْ أَنَّ زَيْدًا قَائِمٌ"۔ اگر یہ "لَوْ" کے بعد آ جائے تو بھی "أَنَّ" پڑھنا ہے جیسے "لَوْ أَنَّكَ عِنْدَنَا"۔ ساتواں، اگر یہ "لَوْلَا" کے بعد ہو تو بھی "أَنَّ" پڑھنا ہے جیسے "لَوْلَا أَنَّهُ حَاضِرٌ لَأَعْلَمْتُكَ" یہ چیزیں بہت اہم ہیں اس لیے کہ آپ کو عربی عبارت جب آگے پڑھیں گے جس پر اعراب، قرآن مجید میں تو اعراب لگے ہوتے ہیں لہٰذا اس میں کوئی مشکل نہیں ہوتی لیکن باقی جو عربی کتب ہیں وہاں پر یہ بہت اہم ہے کہ ہمیں یہ یاد ہو کہ "إِنَّ" کہاں پڑھنا ہے اور "أَنَّ" کہاں پڑھنا لازم اور واجب ہے۔ بڑی اہم بات ہے۔

 إِنَّ کا استعمال

فرماتے ہیں "وَاعْلَمْ أَنَّ إِنَّ الْمَكْسُورَةَ الْهَمْزَةِ" کہ یہ جو "إِنَّ" ہوتا ہے یعنی جس کا ہمزے پہ کسرہ ہوتا ہے، "لَا تَتَغَيَّرُ" یا "لَا تُغَيِّرُ مَعْنَى الْجُمْلَةِ"۔ یہ "إِنَّ" "لَا تُغَيِّرُ" یہ جملہ کے معنی کو تبدیل نہیں کرتا، معنی اس کا وہی رہتا ہے "بَلْ تُؤَكِّدُهَا" بلکہ یہ اس جملہ کے معنی کی تاکید کرتا ہے۔ یعنی "زَيْدٌ قَائِمٌ"، زید قائم ہے، اور جب کہیں گے "إِنَّ زَيْدًا قَائِمٌ" تو اب جملہ کے معنی میں تبدیلی نہیں آئی بلکہ اس نے فقط تاکید کر دی ہے کہ "إِنَّ" تحقیق کہ زید قائم ہے، اس کی تاکید کر دی ہے۔

 أَنَّ کا استعمال

"وَأَمَّا الْمَفْتُوحَةُ الْهَمْزَةِ" لیکن جب ہمزہ مفتوح ہوتا ہے جب ہم "إِنَّ" نہیں بلکہ "أَنَّ" پڑھتے ہیں تو یہ "أَنَّ" "مَعَ مَا بَعْدَهَا مِنَ الْاِسْمِ وَالْخَبَرِ" اب "أَنَّ" کے بعد ظاہر ہے ایک اسم بھی ہو گا، ایک وہ، خبر بھی ہو گا۔ تو یہ "أَنَّ" اپنے اسم اور خبر کے ساتھ مل کر "فِي حُكْمِ الْمُفْرَدِ" یہ حکمِ مفرد میں آ جاتا ہے یعنی پھر وہ جملہ نہیں بلکہ حکمِ مفرد، حکمِ مفرد میں آ جاتا ہے۔ ٹھیک ہے جی۔ اب اس کو ذرا غور سے اس بات کو سمجھنا ہے۔اب فرماتے ہیں چونکہ "أَنَّ" اور "إِنَّ" میں فرق ہے کہ "إِنَّ" فقط معنی جملہ کی تاکید کرتا ہے جبکہ "أَنَّ" اپنے اسم و خبر کے ساتھ مل کر جملہ نہیں بلکہ وہ حکمِ مفرد میں آ جاتا ہے تو لہٰذا اس فرق کو جاننا ضروری ہے کہ کہاں "أَنَّ" پڑھنا ہے اور کہاں "إِنَّ" پڑھنا ہے۔

5

إِنَّ اور أَنَّ پڑھنے کے مقامات

 إِنَّ پڑھنے کے مقامات

"وَلِذَلِكَ" اس لیے فرماتے ہیں کہ "يَجِبُ"۔ اب یہاں سے وہ جو میں نے پہلے آپ کو علیحدہ کر کے بتائے ہیں ان کا اپنا انداز ہے یہ یوں بیان فرما رہے ہیں۔ فرماتے ہیں: پس واجب ہے "إِنَّ" پر کسر پڑھنا یعنی "إِنَّ" پڑھنا واجب ہے، کہاں پر؟ نمبر ایک "إِذَا كَانَ فِي ابْتِدَاءِ الْكَلَامِ"۔ اگر وہ ہو ابتدائے کلام میں جیسے "إِنَّ زَيْدًا قَائِمٌ"۔ اب یہاں "أَنَّ" نہیں، ابتدائے کلام ہے لہٰذا "إِنَّ" پڑھنا ہے۔ "وَبَعْدَ الْقَوْلِ" یا باب القول یعنی "قَالَ يَقُولُ" یا اس کا ہم معنی یہ جو قول بات کرنے، کہا فلاں نے کہا، فلاں نے اس میں ہو تو اس کے بعد اگر ہو تو بھی "إِنَّ" پڑھنا ہے جیسے آیت مجیدہ بھی یہی ہے۔ "يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ"۔ "أَنَّهَا" نہیں پڑھنا۔ دو۔ "وَبَعْدَ الْمَوْصُولِ" یا اگر ہو موصول کے بعد۔ کس کے بعد؟ موصول کے بعد وہاں پر بھی "إِنَّ" پڑھنا ہے۔  جیسے "مَا رَأَيْتُ الَّذِي إِنَّهُ فِي الْمَسْجِدِ"۔ یا "جَاءَ الَّذِي إِنَّهُ مُجْتَهِدٌ"۔ یعنی "الَّذِي" کے بعد آیا ہے لہٰذا اس پر "إِنَّ" پڑھنا واجب ہے۔ تین ہو گئے۔ اور چوتھا فرماتے ہیں: "إِذَا كَانَ فِي خَبَرِهَا اللَّامُ" اگر اس کی خبر پر لام داخل ہے تو بھی "إِنَّ" پڑھنا ہے یعنی "إِنَّ زَيْدًا لَقَائِمٌ" قائم اس کی خبر تھی اس پر لام داخل تھی تو اس لیے فرماتے ہیں کہ اس کو ہم نے "إِنَّ" پڑھا ہے۔ یہ مہربانی کرنا آغا ان کو لکھ لینا کہ چار مقامات پر "إِنَّ" پڑھنا واجب ہے۔ 

 أَنَّ پڑھنے کے مقامات

"يَجِبُ الْفَتْحُ"۔ حمزہ پر فتح پڑھنا واجب ہے میں نے آپ کو آسان لکھوایا، کیا آپ یوں لکھیں۔ یعنی "أَنَّ" پڑھنا واجب ہے، کہاں پر؟ آگے آ رہے ہیں فلاں فلاں مقام پر "أَنَّ" پڑھنا واجب ہے۔ اچھا، کون سے؟ وہ یہ ہیں۔

۱۔"حَيْثُ يَقَعُ فَاعِلًا" کہ اگر وہ فعل کا فاعل واقع ہو رہا ہو وہاں بھی "أَنَّ" پڑھنا ہے جیسے "بَلَغَنِي أَنَّ زَيْدًا قَائِمٌ" چونکہ یہاں "أَنَّ زَيْدًا قَائِمٌ" یہ جملہ "بَلَغَنِي" کا فاعل واقع ہونا ہے لہٰذا "أَنَّ" پڑھنا ہے، "إِنَّ" نہیں پڑھنا۔

۲۔ "حَيْثُ يَقَعُ مَفْعُولًا" جہاں یہ مفعول واقع ہو رہا ہو وہاں بھی "أَنَّ" پڑھنا ہے جیسے "كَرِهْتُ أَنَّكَ قَائِمٌ"۔ اب کَرِھتُ کا چونکہ یہ "أَنَّكَ قَائِمٌ" مفعول واقع ہو رہا ہے لہٰذا "أَنَّ" پڑھنا ہے۔

۳۔ "وَحَيْثُ يَقَعُ مُبْتَدَأً"۔ اگر یہ مبتدا واقع ہو رہا ہو تو بھی اس کو "أَنَّ" پڑھنا ہے جیسے "عِنْدِي أَنَّكَ قَائِمٌ"۔ یہاں "أَنَّ" مبتدا واقع ہو رہا ہے۔ چونکہ عندی ظرف ہے اور وہ خبرِ مقدم ہے۔ 

۴۔"وَحَيْثُ يَقَعُ مُضَافًا إِلَيْهِ" اسی طرح اگر "أَنَّ" مضاف الیہ واقع ہو رہا ہو تو بھی "أَنَّ" پڑھنا واجب ہے یعنی حمزہ پر فتح پڑھنا واجب ہے جیسے "عَجِبْتُ مِنْ طُولِ أَنَّ بَكْرًا قَائِمٌ" چونکہ یہاں "أَنَّ" طُولِ او مضاف کا مضاف الیہ ہو رہا ہے لہٰذا "مِنْ طُولِ إِنَّ" نہیں پڑھنا بلکہ "مِنْ طُولِ أَنَّ بَكْرًا قَائِمٌ"۔

۵۔ "وَحَيْثُ يَقَعُ مَجْرُورًا" اسی طرح جب "أَنَّ" مجرور یعنی اس پر کوئی حرفِ جار داخل ہو جائے تو بھی اس کو "أَنَّ" پڑھنا ہے۔ "عَجِبْتُ مِنْ أَنَّ بَكْرًا قَائِمٌ" چونکہ یہ مِن آ گیا ہے لہٰذا "إِنَّ" نہیں پڑھنا بلکہ "أَنَّ" پڑھنا واجب ہے۔ اسی طرح فرماتے ہیں:

۶۔ اگر "لَوْ" کے بعد ہو تو بھی اس کو "أَنَّ" پڑھنا واجب ہے جیسے "لَوْ أَنَّكَ عِنْدَنَا لَأَكْرَمْتُكَ" 

۷۔ اگر "لَوْلَا" کے بعد ہو تو بھی اس کو "أَنَّ" پڑھنا واجب ہے جیسے کہیں "لَوْلَا أَنَّهُ حَاضِرٌ لَغَابَ زَيْدٌ" چونکہ لولا کے بعد آیا ہے لہٰذا "أَنَّ" پڑھنا واجب ہے۔

"وَيَجُوزُ الْعَطْفُ عَلَى اسْمِ إِنَّ زَيْدٌ قَائِمٌ وَعَمْرٌو وَقُرْآنٌ" فرماتے ہیں: عطف جائز ہے کس کا؟ یعنی "إِنَّ" مقصورہ کے اسم پر رفع و نصب میں باعتبار محل اور لفظ کے عطف بھی جائز ہے جیسے ہم کہیں "إِنَّ زَيْدًا" آگے کیا ہے؟ "قَائِمٌ وَعَمْرٌو" یہ امرٌ درحقیقت اس کا اسم ہے اور یہ اس پر عطف کیا گیا قائم پر جبکہ یہ محلاً مرفوع ہے۔ بس یہ کافی ہے اگلی بات تاکہ علیحدہ ہو جائے پھر آسان ہو جائے گا۔

  وَ صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ مُحَمَّدٍ

شهرنا وفي يومنا.

وحاشا وعَدا وخلا : للاستثناء نحو : جاءني الْقَوْمُ خَلا زَيْدٍ ، وحاشا عَمْروٍ ، وعَدا بَكْرٍ.

فصل : الحروف المشبّهة بالفعل

ستّة : «إنَّ ، وأنَّ ، وكَأَنَّ ، ولَيْتَ ، ولكِنَّ ، ولَعَلَّ». وهذه الحروف تدخل على الجملة الاسميّة فتنصب الاسم وترفع الخبر كما عرفت.

وقد يلحقها «ما الكافّة» فتكفّها عن العمل وحينئذٍ تدخل على الأفعال تقول : إنَّما قامَ زَيْدٌ.

واعلم أنّ «إنَّ» المكسورة لا تغيّر معنى الجملة بل تؤكّدها ، و «أنَّ» المفتوحة مع الاسم والخبر في حكم المفرد ، ولذلك يجب الكسر إذا كان في ابتداء الكلام نحو : إنَّ زَيْداً قائِمٌ ، وبعد القول كقوله تعالى : «يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ» (١) ، وبعد الموصول نحو : رَأَيْتُ الَّذي إنَّ أباهُ الْماجِدُ ، وإذا كان في خبرها اللام نحو : إنَّ زَيْداً لَقائِمٌ.

ويجب الفتح حيث تقع فاعلاً نحو : بَلَغَني أنَّ زَيْداً عالِمٌ ، وحيث تقع مفعولاً نحو : كَرِهْتُ أنَّكَ قائِمٌ ، وحيث تقع مضافاً إليه نحو : «أعْجَبَني اشْتِهارُ أنَّكَ فاضِلٌ ، وحيث تقع مبتدأ نحو : عِنْدي أنَّكَ قائِمٌ ، وحيث تقع مجروراً نحو : عَجِبْتُ مِنْ أنَّ زَيْداً قائِمٌ ، وبعد لَوْ نحو : لَوْ أنَّكَ عِنْدَنا لأخْدِمُكَ ، وبعد لَوْ لا نحو : لَو لا أنَّهُ حاضِرٌ.

ويجوز العطف على اسم إنَّ المكسورة بالرفع والنصب باعتبار المحلّ واللفظ نحو : إنَّ زَيْداً قائِمٌ ، وعَمْروٌ وعَمْراً.

____________________________

(١) البقرة : ٦٨.

واعلم أنّ «إنَّ» المكسورة قد تخفّف ويلزمها اللام فرقاً بينها وبين «إنْ» النافية كقوله تعالى : «وَإِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ» (١) ، وَحينئذٍ يجوز إلغاؤها كقوله تعالى : «وَإِن كُلٌّ لَّمَّا جَمِيعٌ لَّدَيْنَا مُحْضَرُونَ» (٢) ، وتدخل على الأفعال نحو قوله تعالى : «وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ» (٣) ، «وَإِن نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ» (٤).

وكذا المفتوحة قد تخفّف ويجب إعمالها في ضمير شأن مقدّر فتدخل على الجملة ، اسميّة كانت نحو : بَلَغَني أنْ زَيْدٌ قائِمٌ ، أو فعليّة ويجب دخول السين ، أو سوف ، أو قد ، أو حرف النفي على الفعل كقوله تعالى : «عَلِمَ أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْضَىٰ» (٥) ، فالضمير المستتر اسم أنْ والجملة خبرها.

و «كَأنَّ» : للتشبيه نحو : كَأنَّ زَيْداً الْأسَدُ ، قيل وهي مركّبة من كاف التشبيه وإنَّ المكسورة وإنّما فتحت لتقديم الكاف عليها تقديرها : إنَّ زَيْداً كَالْأسَدِ. وقد تخفّف فتلغى عن العمل نحو : كَأنْ زَيْدٌ اَلْأسَدُ.

و «لكِنَّ» : للاستدراك ، ويتوسّط بين كلامين متغايرين في اللفظ والمعنى نحو : ما جاءني زَيْدٌ لكِنَّ عَمْراً جاءَ ، وغابَ زَيْدٌ لكِنَّ بَكْراً حاضِرٌ. ويجوز معها الواو نحو : قَامَ زَيْدٌ وَلكِنَّ عَمْراً قاعِدٌ. وتخفّف فتلغى نحو : ذَهَبَ زَيْدٌ لكِنْ عَمْروٌ عِنْدَنا.

و «لَيْتَ» : للتمنّي نحو : لَيْتَ زَيْداً قائِمٌ ، بمعنى أتمنّى.

و «لَعَلَّ» : للترجّي نحو قول الشاعر :

اُحِبُّ الصالِحينَ وَلَسْتُ مِنْهُمْ

لَعَلَّ اللهَ يَرْزُقُني صَلاحاً (٦)

____________________________

(١) هود : ١١١.

(٣) يوسف : ٣.

(٢) يس : ٣٢.

(٤) الشعراء : ١٨٦.

(٥) المزمل : ٢٠.

(٦) يعنى : دوست ميدارم جماعت صالحان را وحال آنكه نيستم از ايشان اميد است كه