درس الهدایة في النحو

درس نمبر 56: حروف جارہ 3

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

تاء قسم اور باء قسم کے بارے میں

انیس حروفِ جر میں سے غالباً یہ دسواں حرف ہے وہ ہے تَاءِ قَسَم۔ فرماتے ہیں:  تَاءِ قَسَم "هِيَ تَخْتَصُّ بِاللهِ وَحْدَهُ"۔ تا مختص ہے لفظِ اللہ کے ساتھ۔ یعنی اگر تاء کے ساتھ قسم اٹھانی ہے تو پھر اس کو فقط لفظِ اللہ پر استعمال کرنا ہے یعنی "تَاللهِ" کہنا صحیح ہے۔ لفظِ اللہ کے علاوہ بے شک وہ اسمائے مبارکہ، مبارکہ الٰہیہ ہی کیوں نہ ہوں تا کے ذریعے ان کے ساتھ قسم اٹھانا صحیح نہیں۔ لہٰذا "الرَّحْمَنُ" بے شک اللہ پاک کا اسم مبارک ہے لیکن اگر قسم اٹھانی ہے تو "تَالرَّحْمَنِ" نہیں۔ تا کے ساتھ قسم اٹھانی ہے تو فقط "تَاللهِ" لفظِ اللہ کے ساتھ۔ کوئی کہے جناب ہم نے عربوں سے سنا ہے عرب "تَرَبِّ الْكَعْبَةِ" کہتے ہیں، ربِ کعبہ کی قسم یعنی تَاءِ قَسَمِيَّة لاتے ہیں اور آگے "رَبِّ الْكَعْبَةِ" کہتے ہیں۔ فرماتے ہیں "شَاذٌّ" یہ شاذ و نادر ہے، شاذ "كَالْمَعْدُومِ" ہوتا ہے۔ اس سے یعنی قاعدے اور قانون پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 

"بَاءُ الْقَسَمِ"

۔حروفِ جر میں سے گیارہواں  حرف ہے "بَاءُ الْقَسَمِ"۔ بَاءِ قَسَمِيَّہ کہ  جس کے ساتھ قسم اٹھائی جاتی ہے۔ "هِيَ تَدْخُلُ عَلَى الظَّاهِرِ وَالْمُضْمَرِ"۔ بڑی توجہ کے ساتھ۔ باء اسم ظاہر پر بھی داخل ہوتی ہے، ضمیر پر بھی داخل ہوتی ہے۔ باء کے ذریعے لفظِ اللہ سے بھی قسم اٹھائی جا سکتی ہے اور لفظِ اللہ کے غیر سے بھی قسم اٹھائی جا سکتی ہے۔  پس ہم کہہ سکتے ہیں "بِاللهِ" یہ بھی صحیح، اللہ کی قسم۔ "بِالرَّحْمَنِ" رحمن کی قسم، یہ بھی صحیح۔ "بِكَ" ضمیر پر داخل کریں یعنی تیری قسم۔

 جواب قسم

اب فرماتے ہیں:  یہ جو ہم کہہ رہے ہیں قسم قسم، تو قسم کا ایک جوابِ قسم بھی تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟ یقیناً ہو گا۔ اگر قسم اٹھائیں کہ مجھے فلاں کی قسم تو اس کا کوئی جوابِ قسم ہونا چاہیے  جو ہمیں یہ بتائے کہ بھائی یہ جو قسم اٹھائی جا رہی ہے کس کے لیے اٹھائی جا رہی ہے۔  جب بھی آپ واو کے ساتھ قسم اٹھائیں گے تو اس کا ایک جوابِ قسم ہوتا ہے۔ اس، وہ جوابِ قسم کیا ہو گا؟ آپ کہیں گے وہ جوابِ قسم جملہ ہو گا۔ ممکن ہے وہ جملہ اسمیہ ہو، ممکن ہے وہ جملہ فعلیہ ہو۔ کوئی اور نہیں۔ اس جوابِ قسم کو مقسم علیہ کہتے ہیں۔  فرماتے ہیں۔ "وَلَا بُدَّ لِلْقَسَمِ مِنَ الْجَوَابِ"۔ جب ہم نے قسم اٹھا لی اور ہم نے کہا کہ "بِاللهِ"، "بِالرَّحْمَنِ" وغیرہ تو اب ضروری ہے کہ اس قسم کا کوئی جوابِ قسم بھی ہو۔ تو اس کا جوابِ قسم کیا ہوتا ہے؟ "هِيَ جُمْلَةٌ" وہ جملہ ہوتا ہے ممکن ہے جملہ اسمیہ ہو، ممکن ہے جملہ فعلیہ ہو۔ اب ذرا توجہ کے ساتھ۔ قسم کا جوابِ جملہ ہوتا ہے۔ اس جملہ جوابِ قسم کو "تُسَمَّى الْمَقْسَمَ عَلَيْهَا" اس کو مقسم علیہا کہتے ہیں کہ جس چیز پر قسم اٹھائی گئی ہے وہ کیا ہے؟ وہ وہی جملہ ہوتا ہے جس کو جو جوابِ قسم ہوتا ہے۔ اب فرماتے ہیں "فَإِنْ كَانَتْ مُوجَبَةً وَجَبَ دُخُولُ اللَّامِ فِي الْاِسْمِيَّةِ وَالْفِعْلِيَّةِ"۔ اگر وہ جملہ جوابِ قسم، جملہ موجبہ ہے یعنی حکمِ اثباتی ہے، نفی والا نہیں ہے تو پھر وہ چاہے جملہ اسمیہ ہو چاہے جملہ فعلیہ ہو اس پر ایک لام کا داخل کرنا واجب ہے۔اگر قسم کا جوابِ قسم جملہ موجبہ ہو یعنی اثباتی ہو، نفی والا نہ ہو تو چاہے وہ فعلیہ ہو، چاہے وہ اسمیہ ہو اس پر ایک لام کا داخل کرنا واجب ہے جیسے "وَاللهِ لَزَيْدٌ قَائِمٌ"۔ زیدٌ قائم جملہ اسمیہ ہے، موجبہ ہے لہٰذا اس زید سے پہلے لام کا داخل کرنا واجب ہے۔ لہٰذا "وَاللهِ لَزَيْدٌ قَائِمٌ" کہیں گے، "وَاللهِ زَيْدٌ قَائِمٌ" نہیں کہیں گے۔ فعلیہ کی مثال: "وَاللهِ لَأَفْعَلَنَّ كَذَا"۔ اب "أَفْعَلَنَّ" سے پہلے لام کا داخل کرنا واجب ہے۔ لہٰذا "وَاللهِ أَفْعَلَنَّ كَذَا" یہ درست نہیں۔ "وَإِنَّ فِي الْاِسْمِيَّةِ"  اگر جوابِ قسم جملہ اسمیہ ہو تو اس پر "إِنَّ" بھی داخل ہوتا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں "وَاللهِ إِنَّ زَيْدًا لَقَائِمٌ"۔  "وَاللهِ" یہ قسم ہو گیا، جوابِ قسم "إِنَّ زَيْدًا لَقَائِمٌ"۔ یہ ہو گیا۔اسی طرح فرماتے ہیں آگے "وَإِنْ كَانَتْ مَنْفِيَّةً"۔ لیکن اگر جوابِ قسم جملہ منفیہ ہو، "وَجَبَ دُخُولُ مَا وَلَا" وہاں پر جواب میں ما اور لا کا داخل کرنا واجب ہے۔ لہٰذا آپ کہیں گے "وَاللهِ مَا زَيْدٌ قَائِمٌ" یعنی اللہ کی قسم زید قائم نہیں، یہ جملہ اسمیہ کی مثال ہو گی یا "وَاللهِ لَا يَقُومُ زَيْدٌ" یہ فعلیہ کی مثال ہو گئی۔ 

 حذف حرف نفي

آگے فرماتے ہیں: ایک تھوڑا سا تنبیہ کے طور پر ایک نکتہ سمجھانا چاہتے ہیں۔ وہ تنبیہ آغا جان یہ ہے، اب اس کو غور فرمانا ہے کہ "قَدْ يُحْذَفُ حَرْفُ النَّفْيِ لِزَوَالِ اللَّبْسِ"۔ کبھی کبھی حرفِ نفی کو، بہت توجہ کے ساتھ، حرفِ نفی کو حذف کر دیا جاتا ہے، اس کو ذکر نہیں کیا جاتا۔ کیوں؟ التباس کے خوف کی وجہ سے۔ اچھا، وہ کیسے؟ یہ کب ہو گا؟ فرماتے ہیں جب حرفِ نفی فعلِ مضارع پر داخل ہو وہاں پر حرفِ نفی کو حذف کر دیا جاتا ہے جیسے "تَاللهِ لَا تَفْتَأُ تَذْكُرُ يُوسُفَ"۔ یہاں "تَفْتَأُ" اصل میں ہے "تَاللهِ لَا تَفْتَأُ"۔ اب یہ نکتہ ذرا غور کرنا ہے یہ خاص بات ہے۔ "قَدْ يُحْذَفُ حَرْفُ النَّفْيِ" کبھی کبھی حرفِ نفی کو حذف کیا جاتا ہے کیوں؟ "لِزَوَالِ اللَّبْسِ" التباس کو زائل کرنے کے لیے۔ جیسے آیت مجیدہ ہے "تَاللهِ تَفْتَأُ تَذْكُرُ يُوسُفَ" اصل میں تھا "لَا تَفْتَأُ"۔

 حذف جواب قسم

"وَيُحْذَفُ جَوَابُ الْقَسَمِ إِنْ تَقَدَّمَ مَا يَدُلُّ عَلَيْهِ" کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ جملہ جوابِ قسم کو حذف کر دیا جاتا ہے، جواب جملہ کو حذف کر دیا جاتا ہے۔ وہ کب؟ اگر قسم سے پہلے کوئی ایسا جملہ ہو جو جوابِ قسم پر دلالت کر رہا ہو وہاں جوابِ قسم محذوف ہو جائے گا۔ جیسے "زَيْدٌ قَائِمٌ وَاللهِ"۔ "وَاللهِ" قسم ہے اب اس کا جوابِ قسم محذوف ہے چونکہ پہلا جملہ "زَيْدٌ قَائِمٌ" اس جوابِ قسم پر دلالت کر رہا ہے۔ یا اسی طرح اگر قسم جملہ کے درمیان میں آ جائے تو بھی اس کا جو جملہ ہو گا جوابِ قسم محذوف ہو گا۔ جیسے "زَيْدٌ وَاللهِ قَائِمٌ"۔ ہاں "وَاللهِ" قسم ہے اب اس کے بعد پورا جملہ نہیں ہے بلکہ وہ محذوف ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ "وَاللهِ" قسم درمیان میں آ گئی ہے۔ 

4

عَنْ اور علی کے بارے میں

آگے فرماتے ہیں :حروفِ جارہ میں سے غالباً بارہواں حرف وہ ہے "عَنْ" عین کے ساتھ "عَنْ"۔ "عَنْ" کہاں استعمال ہوتا ہے؟ "عَنْ" کیا معنی دیتا ہے؟ فرماتے ہیں: "عَنْ" آتا ہے "لِلْمُجَاوَزَةِ" مجاوزہ تجاوز سے ہے۔ یعنی کسی چیز کا کسی سے دور ہونا۔  پھینکنا جیسے "رَمَيْتُ السَّهْمَ" میں نے پھینکا تیر کو "عَنِ الْقَوْسِ" کمان سے "إِلَى الصَّيْدِ" شکار کی طرف۔ "عَنِ الْقَوْسِ" کا مطلب کیا ہے کہ وہ تیر چونکہ کمان سے نکل رہا ہوتا ہے تو وہ دور ہو رہا ہے، تجاوز کر رہا ہوتا ہے، مجاوزت کا معنی یہ ہوتا ہے وہ اس کی طرف جا رہا ہوتا ہے "إِلَى الصَّيْدِ" تو اس "عَنْ" نے یہ معنی دیا۔ یعنی ایک جگہ سے تجاوز کرنا، نکلنا دوسری طرف جیسے "رَمَيْتُ السَّهْمَ عَنِ الْقَوْسِ"۔ 

 عَلَى

اگلا حرف وہ ہے "عَلَىٰ"۔ "عَلَىٰ" آتا ہے "لِلِاسْتِعْلَاءِ"۔ "لِلِاسْتِعْلَاءِ" یعنی بلندی طلب کرنا، علو۔ بلندی ہو گیا، استعلا طلب کرنا۔ جیسے "زَيْدٌ عَلَى السَّطْحِ"۔ "زَيْدٌ عَلَى السَّطْحِ"۔ زید چھت پر ہے۔ یعنی "عَلَىٰ" استعلاء۔ یاد رکھنا استعلاء یعنی بلندی کے لیے آتا ہے۔ 

عَن اور عَلَى بطور اسم

آگے فرماتے ہیں: "قَدْ يَكُونُ عَنْ وَعَلَىٰ"۔ یہ حروفِ جر جو "عَنْ" اور "عَلَىٰ" ہم نے دو ابھی ذکر کیے ہیں۔ کبھی کبھی یہ "عَنْ" اور "عَلَىٰ"، ذرا توجہ کے ساتھ، حرف نہیں ہوتے بلکہ یہ اسم ہوتے ہیں۔ بہت توجہ۔ اگر کبھی "عَنْ" اور "عَلَىٰ" پر "مِنْ" داخل ہو جائے تو پھر یہ حرفیت سے نکل کر اسمیت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ بہت توجہ۔ اس کا مطلب ہے "عَنْ" اور "عَلَىٰ" یہ حروف میں بھی شمار ہوتے ہیں اور اسماء میں بھی شمار ہوتے ہیں۔ پس اگر ان پر "مِنْ" داخل ہو جائے تو اس وقت یہ حرف نہیں بلکہ اسم ہوں گے۔ بغیر "مِنْ" کے ہوں گے تو یہ حرف ہوں گے۔ "قَدْ يَكُونُ عَنْ وَعَلَىٰ" کبھی کبھی یہ حرفِ جر "عَنْ" اور "عَلَىٰ" "اِسْمَيْنِ" کبھی یہ اسم بھی ہوتے ہیں۔ وہ کیسے پتہ چلے گا کہ اسم ہیں؟ "إِذَا دَخَلَ عَلَيْهِمَا مِنْ" اگر ان پر "مِنْ" داخل ہو جائے، ان سے پہلے "مِنْ" آ جائے۔ "مِنْ عَنْ" یا "مِنْ عَلَىٰ" جیسے آپ کہتے ہیں "جَلَسْتُ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ"۔ اب یہاں "مِنْ" آ گیا اب "عَنْ" یہاں حرفی یا نہیں ہو گا۔ "وَ نَزَلْتُ مِنْ عَلَى الْفَرَسِ"۔ یہاں بھی "عَلَىٰ" جو ہے وہ حرف نہیں ہو گا بلکہ اسم ہو گا۔

5

حرف جر کاف اور مُذْ اور مُنْذُ کے بارے میں

اس کے بعد فرماتے ہیں: غالباً چودہ حرف، چودہ نمبر پر آ جائے گا وہ ہے "وَالْكَافُ"۔ حروفِ جر میں ایک حرف ہے "الْكَافُ"۔ کاف آتی ہے تشبیہ کے لیے۔ جیسے "زَيْدٌ كَعَمْرٍو" زید مشابہِ امر ہے۔ اور کبھی کبھی یہ کاف زائدہ بھی ہوتی ہے۔ زائدہ کا معنی کئی دفعہ گزارش کیا ہے کہ اس کو نکال بھی لیں تو معنی پر فرق نہیں پڑتا۔ جیسے ہم کہتے ہیں "لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ"۔ یہاں "كَمِثْلِهِ" پر کاف زائدہ ہے۔ ٹھیک ہے جی۔ اگر یہ نہ بھی ہو تو معنی پر فرق نہیں پڑتا۔

کاف بطور اسم

"وَ قَدْ يَكْتُبُونَ اسْمًا"۔ او جیسے ہم نے کہا تھا کہ "عَنْ" اور "عَلَىٰ" بسا اوقات اسم ہوتے ہیں اگر ان پر "مِنْ" داخل ہو جائے۔ تو فرماتے ہیں: "وَ قَدْ تَكُونُ اسْمًا" یہ کاف بھی کبھی کبھار اسم ہوتی ہے جیسے شاعر کا یہ شعر ہے۔ کون سا؟ "يَضْحَكْنَ عَنْ كَالْبَرَدِ الْمُنْهَمِّ"۔ ٹھیک ہے جی۔ خب۔ وہ کیا ہے؟ فرماتے ہیں "يَضْحَكْنَ" وہ سب عورتیں ہنسیں۔ "عَنْ كَالْبَرَدِ" یہاں کاف، کاف اسمی ہے یعنی ایسے دانتوں سے جو اولوں کی طرح صاف اور شفاف تھے۔ تو پس کبھی کبھی یہ اسم بن کر بھی آتا ہے۔ ٹھیک ہو گیا جی۔ یہ ہو گئی کاف کی مثال۔ 

مُذْ اور مُنْذُ

پندرہواں اور سولہواں غالباً، حروفِ جر میں سے آتا ہے "مُذْ" اور "مُنْذُ"۔ "مُذْ" اور "مُنْذُ" یہ ساری باتیں تقریباً شرحِ مئۃ عامل میں بھی ہم نے کافی حد تک گزارشات کی تھیں، چھوٹی چھوٹی اس میں فرق آئے ہیں۔ "إِمَّا لِابْتِدَاءِ فِي الْمَاضِي"۔ یا تو یہ ماضی کی ابتداء بتانے کے لیے آتے ہیں یعنی یہ بتاتے ہیں کہ یہ کام جو ماضی میں ہے اس کی ابتداء کب ہوئی تھی۔ "كَمَا تَقُولُ فِي شَعْبَانَ" یعنی آپ کہتے ہیں شعبان میں کہیں "مَا رَأَيْتُهُ مُذْ رَجَبَ" شعبان میں آپ کہہ رہے ہیں کہ میں نے اس کو نہیں دیکھا رجب سے یعنی ماضی کو بیان کر رہے ہیں کہ میرے اس کو نہ دیکھنے کا ماضی کب ہے، کب سے نہیں دیکھا یعنی رجب۔ "أَوْ لِلظَّرْفِيَّةِ فِي الْحَاضِرِ" اور اگر آپ ماضی نہیں بلکہ حاضر کا ابھی بتا رہے ہیں جو چل رہا ہے تو اس میں یہ ظرفیت کا معنی دیتے ہیں جیسے آپ کہتے ہیں "مَا رَأَيْتُهُ مُذْ شَهْرِنَا" میں نے اس کو نہیں دیکھا اس ماہ میں، یہ جو حاضر ہے جو چل رہا ہے اس میں۔ یہاں "مُذْ" ظرفیت کے لیے ہے۔ یا "مَا رَأَيْتُهُ مُنْذُ يَوْمِنَا" یعنی میں نے اس کو نہیں دیکھا اس دن میں یعنی یہ جو دن چل رہا ہے۔ تو درحقیقت "مُذْ شَهْرِنَا" یا "مُنْذُ يَوْمِنَا" کا مراد ہے "فِي شَهْرِنَا" یا "فِي يَوْمِنَا"۔ 

6

حاشا،عَدا اور خلا

اسی طرح فرماتے ہیں آخر میں وہ ہیں "خَلَا"، "عَدَا" اور "حَاشَا"۔  "خَلَا" سترہ نمبر پہ آ جائے گا۔ اور "عَدَا" اٹھارہویں نمبر پر اور "حَاشَا" غالباً انیسویں نمبر پر تو یہ پورے ہو جائیں گے۔ "خَلَا"، "عَدَا" اور "حَاشَا"۔ یہ کس کے لیے آتے ہیں؟ یہ آتے ہیں استثناء کے لیے۔ میں نے گزارش کی تھی کہ عملِ لفظی تو وہی ہو گا کہ اس نے اسم کو جر دینا ہے۔ لیکن معنی کی بات ہم کر رہے ہیں کہ یہ معنی کیا دیتے ہیں؟ یعنی یہ آتے ہیں استثناء کے لیے۔ یعنی فعل کے فاعل سے کچھ افراد کو خارج کرتے ہیں۔ جیسے ہم کہتے ہیں "جَائَنِي الْقَوْمُ" آئی قوم، قوم فاعل تھا، جاء ان کا فعل تھا، اب اس میں سے استثناء کرتے ہیں کچھ افراد کا کہ میرے پاس آئی قوم سوائے زید کے یا "حَاشَا عَمْرٍو" سوائے امر کے یا "عَدَا بَكْرٍ" سوائے بکر کے۔ الحمدللہ حروفِ جارہ کی بحث یہاں پر مکمل ہو گئی۔

  وَ صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ مُحَمَّدٍ

واو القسم : وهي مختصّة بالظاهر فلا يقال : وَكَ.

وتاء القسم : وهي مختصّة بالله وحده ، فلا يقال : تا الرَّحْمٰنِ ، وقولهم تَرَبّ الْكَعْبَةِ ، شاذّ.

وباؤه : وهي تدخل على الظاهر والمضمر نحو : بِاللهِ وبِالرَّحْمٰنِ وبِكَ. ولا بدّ للقسم من جواب أو جزاء ، وهي جملة تسمّى مقسماً عليها ، فإن كانت موجبة يجب دخول اللام في الاسميّة والفعليّة نحو : وَاللهِ لَزَيْدٌ قائِمٌ ، ووَاللهِ لَأفْعَلَنَّ كَذا ، ويلزم كونها مع اللام في الاسميّة نحو : وَاللهِ إنَّ زَيْداً لَقائِمٌ ، وإن كانت منفيّة يجب دخول «ما» أو «لا» نحو : وَاللهِ ما زَيْدٌ قائِمٌ ، و وَاللهِ لا يَقُومُ. وقد يحذف حرف النفي لوجود القرينة كقوله تعالى : «تَاللَّـهِ تَفْتَأُ تَذْكُرُ يُوسُفَ» (١) ، أي لا تفتؤ.

واعلم أنّه قد يحذف جواب القسم إن تقدّم ما يدلّ عليه نحو : زيدٌ قائمٌ واللهِ ، أو توسّط بينه نحو : زيدٌ واللهِ قائمٌ.

وعَنْ : للمجاوزة كـ : رَمَيْتُ السهمَ عن القوسِ.

وعلىٰ : للاستعلاء نحو : زيدٌ على السطح ، وقد يكون عَنْ وعلىٰ اسمين إذا دخل عليهما «مِنْ» فيكون عن بمعنى الجانب. تقول : جلَستُ مِنْ عَنْ يمينه. ويكون على بمعنى فوق نحو : نزلتُ مِنْ عَلَى الفرسِ.

والكاف : للتشبيه نحو : زيدٌ كعمروٍ ، وزائدة كقوله تعالى : «لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ» (٢) وقد يكون اسماً كقول الشاعر :

يَضْحَكْنَ عَنْ كَالبَرِدِ المُنْهَمِّ

تَحْتَ غَرَاضيفِ الاُنوف الشمِّ (٣)

ومُذْ ومُنْذُ : لابتداء الزمان في الماضي كما تقول في شعبان : ما رَأَيْتُهُ مُذْ رَجَبٍ. وللظرفيّة في الحاضر نحو : ما رَأَيْتُهُ مُذْ شَهْرِنا ، ومُنْذُ يَوْمِنا ، أي في

____________________________

(١) يوسف : ٨٥.

(٢) الشورى : ١١.

(٣) اوّله : بيضٌ ثلاث.

شهرنا وفي يومنا.

وحاشا وعَدا وخلا : للاستثناء نحو : جاءني الْقَوْمُ خَلا زَيْدٍ ، وحاشا عَمْروٍ ، وعَدا بَكْرٍ.

فصل : الحروف المشبّهة بالفعل

ستّة : «إنَّ ، وأنَّ ، وكَأَنَّ ، ولَيْتَ ، ولكِنَّ ، ولَعَلَّ». وهذه الحروف تدخل على الجملة الاسميّة فتنصب الاسم وترفع الخبر كما عرفت.

وقد يلحقها «ما الكافّة» فتكفّها عن العمل وحينئذٍ تدخل على الأفعال تقول : إنَّما قامَ زَيْدٌ.

واعلم أنّ «إنَّ» المكسورة لا تغيّر معنى الجملة بل تؤكّدها ، و «أنَّ» المفتوحة مع الاسم والخبر في حكم المفرد ، ولذلك يجب الكسر إذا كان في ابتداء الكلام نحو : إنَّ زَيْداً قائِمٌ ، وبعد القول كقوله تعالى : «يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ» (١) ، وبعد الموصول نحو : رَأَيْتُ الَّذي إنَّ أباهُ الْماجِدُ ، وإذا كان في خبرها اللام نحو : إنَّ زَيْداً لَقائِمٌ.

ويجب الفتح حيث تقع فاعلاً نحو : بَلَغَني أنَّ زَيْداً عالِمٌ ، وحيث تقع مفعولاً نحو : كَرِهْتُ أنَّكَ قائِمٌ ، وحيث تقع مضافاً إليه نحو : «أعْجَبَني اشْتِهارُ أنَّكَ فاضِلٌ ، وحيث تقع مبتدأ نحو : عِنْدي أنَّكَ قائِمٌ ، وحيث تقع مجروراً نحو : عَجِبْتُ مِنْ أنَّ زَيْداً قائِمٌ ، وبعد لَوْ نحو : لَوْ أنَّكَ عِنْدَنا لأخْدِمُكَ ، وبعد لَوْ لا نحو : لَو لا أنَّهُ حاضِرٌ.

ويجوز العطف على اسم إنَّ المكسورة بالرفع والنصب باعتبار المحلّ واللفظ نحو : إنَّ زَيْداً قائِمٌ ، وعَمْروٌ وعَمْراً.

____________________________

(١) البقرة : ٦٨.

واعلم أنّ «إنَّ» المكسورة قد تخفّف ويلزمها اللام فرقاً بينها وبين «إنْ» النافية كقوله تعالى : «وَإِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ» (١) ، وَحينئذٍ يجوز إلغاؤها كقوله تعالى : «وَإِن كُلٌّ لَّمَّا جَمِيعٌ لَّدَيْنَا مُحْضَرُونَ» (٢) ، وتدخل على الأفعال نحو قوله تعالى : «وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ» (٣) ، «وَإِن نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ» (٤).

وكذا المفتوحة قد تخفّف ويجب إعمالها في ضمير شأن مقدّر فتدخل على الجملة ، اسميّة كانت نحو : بَلَغَني أنْ زَيْدٌ قائِمٌ ، أو فعليّة ويجب دخول السين ، أو سوف ، أو قد ، أو حرف النفي على الفعل كقوله تعالى : «عَلِمَ أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْضَىٰ» (٥) ، فالضمير المستتر اسم أنْ والجملة خبرها.

و «كَأنَّ» : للتشبيه نحو : كَأنَّ زَيْداً الْأسَدُ ، قيل وهي مركّبة من كاف التشبيه وإنَّ المكسورة وإنّما فتحت لتقديم الكاف عليها تقديرها : إنَّ زَيْداً كَالْأسَدِ. وقد تخفّف فتلغى عن العمل نحو : كَأنْ زَيْدٌ اَلْأسَدُ.

و «لكِنَّ» : للاستدراك ، ويتوسّط بين كلامين متغايرين في اللفظ والمعنى نحو : ما جاءني زَيْدٌ لكِنَّ عَمْراً جاءَ ، وغابَ زَيْدٌ لكِنَّ بَكْراً حاضِرٌ. ويجوز معها الواو نحو : قَامَ زَيْدٌ وَلكِنَّ عَمْراً قاعِدٌ. وتخفّف فتلغى نحو : ذَهَبَ زَيْدٌ لكِنْ عَمْروٌ عِنْدَنا.

و «لَيْتَ» : للتمنّي نحو : لَيْتَ زَيْداً قائِمٌ ، بمعنى أتمنّى.

و «لَعَلَّ» : للترجّي نحو قول الشاعر :

اُحِبُّ الصالِحينَ وَلَسْتُ مِنْهُمْ

لَعَلَّ اللهَ يَرْزُقُني صَلاحاً (٦)

____________________________

(١) هود : ١١١.

(٣) يوسف : ٣.

(٢) يس : ٣٢.

(٤) الشعراء : ١٨٦.

(٥) المزمل : ٢٠.

(٦) يعنى : دوست ميدارم جماعت صالحان را وحال آنكه نيستم از ايشان اميد است كه