درس الهدایة في النحو

درس نمبر 29: مضمرات

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

مضمر کی تعریف اور ضمائر کی تقسیم بندی

فصل: مضمر کی تعریف

  اب یہ فصل مضمرات کے بارے میں ہے۔ انہوں نے کہا ہے  کہ اسم مبنی کی آٹھ قسمیں ہیں، ان آٹھ قسموں میں پہلی قسم تھی مضمرات، مضمرات جمع ہے مضمر کی، اگر مضمر مشتق ہو اضمار سے تو اضمار کا معنی ہوتا ہے چھپانا تو مضمر یعنی جسے چھپایا گیا ہو۔ چونکہ یہ ضمیر بھی بسا اوقات چھپی ہوتی ہے ان شاء اللہ آگے آپ کو بتائیں گے تو اس لحاظ سے شاید اس کو مضمر کہتے ہیں۔

اسم مضمر کی تعریف اور مرجع

اسم مضمر، جس کو ہم ضمیر کہتے ہیں۔ مضمر وہ اسم ہے جو دلالت کرتا ہے متکلم، مخاطب یا غائب پر کہ جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہو، مضمر یعنی آپ کو کہا جائے ضمیر  کسے کہتے ہیں؟ آپ کہیں گے یہ وہ اسم ہے جو وضع کیا گیا ہے  تاکہ یہ دلالت کرے متکلم، مخاطب یا غائب پر کہ جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہو، یہ بات علیحدہ ہے۔ اب جو ذکر گزرا ہو اس ذکر کے بھی تین طریقے ہیں، تین صورتیں ہیں۔ ممکن ہے ذکر لفظاً گزرا ہو، ممکن ہے ذکر معناً گزرا ہو اور ممکن ہے ذکر

 گزرا ہو، جیسے "عَلِيٌّ جَاءَ"۔ اب جاء میں "هُوَ" کی ضمیر ہے یا علیٌ "جَاءَ أَخُوهُ"۔ بلکہ یوں کہتے ہیں علیٌ "جَاءَ أَخُوهُ"۔ اب اخوہ میں جو "هُو" کی ضمیر ہے یہ دلالت کر رہی ہے علی پر غائب پر کہ جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ یا اس کا ذکر گزرا ہو معناً، جیسے "اِعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ"۔ اب یہ "هُوَ" کہاں جا رہا ہے؟ فرماتے ہیں اعدلوا فعل تھا چونکہ کہا تھا تم عدل کرو تو اس میں جو معنی عدل تھا وہ چونکہ اس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے لہذا "هُوَ" کا مرجع وہی عدل ہو گا جو اعدلوا میں ہے۔ "أَوْ حُكْمًا"۔ حکماً کیسے؟ کہ سیاق کلام میں وہ قرآن مجید کی آیت بھی حضرت نوح کی کشتی کے بارے میں کہ "وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِّ" کہ وہ وہ جودی پر ٹھہر گئی تو اب واستوت میں جو ضمیر تھی "هِيَ" کی وہ جا رہی ہے اس سفینہ نوح کی طرف کہ جس کا ذکر پہلے سے گزر رہا تھا۔ بہرحال اب اس کو، اگلی بات چونکہ میں نے سمجھانی ہے۔ پس سوال، مضمر کسے کہتے ہیں؟ ضمیر کسے کہتے ہیں؟ جواب، یہ وہ اسم ہے جس کو وضع کیا گیا ہے تاکہ یہ دلالت کرے متکلم پر یا مخاطب پر یا غائب پر کہ جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہو، چاہے لفظاً گزرا ہو، چاہے معناً گزرا ہو، چاہے حکماً گزرا ہو۔

 ضمیر کی اقسام

 ضمیر دو قسم کی ہوتی ہے ایک کو کہا جاتا ہے :ضمیر متصل اور ایک کو کہا جاتا ہے: ضمیر منفصل۔ ضمیر متصل وہ ہوتی ہے جو علیحدہ استعمال نہیں ہوتی بلکہ وہ فعل کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے اور ضمیر منفصل ہوتی ہے کہ نہیں جو علیحدہ بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ جیسے آپ کہتے ہیں "أَنَا زَيْدٌ"، اب أنا ضمیر منفصل ہے جو علیحدہ ہے لیکن "ضَرَبْتُ" میں جو "تُ" ہے وہ ضمیر متصل ہے وہ علیحدہ استعمال نہیں ہوتی۔

 ضمائر کی تقسیم بندی

اب یہ بڑا مشہور چیز ہے۔ اس کو میں چاہتا ہوں کہ آپ کاپی پہ لکھ بھی لیں چونکہ یہاں ساری لکھی ہوئی نہیں ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ میں آپ کو خود سنا دیتا ہوں اور آپ ان کو پھر کاپی میں آرام سے سب کو لکھ لیں تو یہ پھر بہترین ہو جائے گا۔ پھر اس کا ترجمہ بعد میں کرتا ہوں۔

۱۔ضمیر، ممکن ہے غائب کی ہو، ممکن ہے حاضر کی ہو، ممکن ہے متکلم کی ہو۔ممکن ہے مذکر کی ہو۔

۲۔ ممکن ہے مؤنث کی ہو۔

۳۔ ممکن ہے واحد کی ہو، ممکن ہے تثنیہ کی ہو، ممکن ہے جمع کی ہو۔ ضمیر ممکن ہے واحد کے لیے ہو، ممکن ہے تثنیہ کے لیے، ممکن ہے جمع کے لیے۔ ممکن ہے مذکر کے لیے، ممکن ہے مؤنث کے لیے۔ ممکن ہے ہو سکتا ہے ضمیر غائب کے لیے ہو، ہو سکتا ہے مخاطب کے لیے ہو، ہو سکتا ہے حاضر کے لیے ہو۔ پھر ان میں سے ہر ایک، ہو سکتا ہے وہ ضمیر، ضمیر متصل ہو، ہو سکتا ہے وہ ضمیر، ضمیر منفصل ہو۔ مجموعی طور پر ستر ضمیریں بنتی ہیں۔

4

ضمیروں کی تفصیل

ضمیروں کی تفصیل

اب کتاب سے ہٹ کر، اب میں بولتا ہوں آپ ان کو اسی طرح لکھ لیں باقی ان شاء اللہ تر  جمے میں کتاب کے جو ہے وہ حل کر لیں گے۔ اب آپ اس کو یوں لکھتے جائیں۔ مثلاً ہم شروع یہاں سے کرتے ہیں۔

 ضمیر مرفوع متصل۔ "ضَرَبْتُ"، "ضَرَبْنَا"، "ضَرَبْتَ"، "ضَرَبْتُمَا"، "ضَرَبْتُمْ"، "ضَرَبْتِ"، "ضَرَبْتُمَا"، "ضَرَبْتُنَّ"، "ضَرَبَ"، "ضَرَبَا"، "ضَرَبُوا"، "ضَرَبَتْ"، "ضَرَبَتَا"، "ضَرَبْنَ"۔ یہاں پر جو ضمائر ہیں ان کو کہا جاتا ہے ضمیر مرفوع متصل۔ ان میں سے ضربتُ، ضربنا، ضربتَ، ان کو کہا جاتا ہے ضمیر مرفوع متصل بارز چونکہ یہ لفظاً باقاعدہ لکھی جا رہی ہے جبکہ ضربَ یا ضربت میں بھی "هُوَ" یا "هِيَ" کی ضمیریں ہیں لیکن وہ مستتر ہیں، چھپی ہیں، ان کو لفظاً ذکر نہیں ہے۔ اب ذرا آغا یاد کرو، یہ کتنی ہو گئیں؟ چودہ ضمیریں ہو گئیں ناں؟ "ضَرَبْتُ"، "ضَرَبْنَا"، "ضَرَبْتَ"، "ضَرَبْتُمَا"، "ضَرَبْتُمْ"، "ضَرَبْتِ"، "ضَرَبْتُمَا"، "ضَرَبْتُنَّ"، "ضَرَبَ"، "ضَرَبَا"، "ضَرَبُوا"، "ضَرَبَتْ"، "ضَرَبَتَا"، "ضَرَبْنَ"۔ یہ ہو گئی چودہ ضمیر مرفوع متصل۔

 ضمیر مرفوع منفصل

اب چودہ ضمیریں ہوں گی ضمیر مرفوع منفصل۔  وہ بھی چودہ ہیں۔ وہ کون سی ہیں؟  "أَنَا"، "نَحْنُ"۔ "أَنْتَ"، "أَنْتُمَا"، "أَنْتُمْ"، "أَنْتِ"، "أَنْتُمَا"، "أَنْتُنَّ"، "هُوَ"، "هُمَا"، "هُمْ"، "هِيَ"، "هُمَا"، "هُنَّ"۔ پہلی دو ہو گئیں متکلم کی، بعد میں تین آ گئیں مخاطب مذکر کے لیے، پھر اگلی تین مخاطب مؤنث کے لیے، پھر تین مذکر غائب کے لیے، پھر تین مؤنث غائب کے لیے۔ یہ ہو گئی چودہ۔ چودہ اور چودہ کتنی ہو گئیں؟ اٹھائیس۔

 ضمیر منصوب متصل

اسی طرح ضمیر منصوب متصل بھی ہوتی ہے، ضمیر منصوب متصل: "ضَرَبَنِي"، "ضَرَبَنَا"، "ضَرَبَكَ"، "ضَرَبَكُمَا"، "ضَرَبَكُمْ"، "ضَرَبَكِ"، "ضَرَبَكُمَا"، "ضَرَبَكُنَّ"، "ضَرَبَهُ"، "ضَرَبَهُمَا"، "ضَرَبَهُمْ"، "ضَرَبَهَا"، "ضَرَبَهُمَا"، "ضَرَبَهُنَّ"۔  ضمیریں منصوب کی ہیں، مفعول کی ہیں لیکن  فعل کے ساتھ متصل ہیں۔

 ضمیر منصوب منفصل

اور ضمیر منصوب منفصل بھی ہوتی ہے: "إِيَّايَ"، "إِيَّانَا"، "إِيَّاكَ"، "إِيَّاكُمَا"، "إِيَّاكُمْ"، "إِيَّاكِ"، "إِيَّاكُمَا"، "إِيَّاكُنَّ"، "إِيَّاهُ"، "إِيَّاهُمَا"، "إِيَّاهُمْ"، "إِيَّاهَا"، "إِيَّاهُمَا"، "إِيَّاهُنَّ"۔ اب اٹھائیس وہ اور اٹھائیس یہ، کتنی ہو گئی؟ چھپن(۵۶)۔

 ضمیر مجرور متصل

باقی رہ گئی چودہ، وہ ہوتی ہیں ضمیر مجرور متصل کیوں؟ مجرور منفصل ہوتا ہی نہیں ہے، مجرور ہوتا ہی وہ ہے کہ جس کے ساتھ کوئی جار ہو، تو ضمیر مجرور منفصل ہوتی ہی نہیں ہے فقط متصل ہوتی ہے۔ جیسے "لِي"، "لَنَا"، "لَكَ"، "لَكُمَا"، "لَكُمْ"، "لَكِ"، "لَكُمَا"، "لَكُنَّ"، "لَهُ"، "لَهُمَا"، "لَهُمْ"، "لَهَا"، "لَهُمَا"، "لَهُنَّ"۔ چھپن کے ساتھ جب چودہ یہ ملائیں گے تو یہ بن جائے گی ستر۔ تو مجموعاً یہ ستر ضمیریں ہوتی ہیں۔ 

چودہ مرفوع متصل کی، چودہ مرفوع منفصل کی، چودہ منصوب متصل کی، چودہ منصوب منفصل کی اور چودہ مجرور کی۔

مجرور متصل، مجرور منفصل ہوتی ہی نہیں ہے۔ کچھ اور ضمیریں بھی ہیں وہ ان شاء اللہ بعد میں ترجمہ میں بتاتا ہوں۔ ایک ضمیر شان ہوتی ہے، ایک ضمیر قصہ ہوتی ہے وغیرہ۔

 کتاب کے متن کی شرح

الفصل: "المضمر اسمٌ" مضمر وہ اسم ہے۔ "وُضِعَ" جس کو وضع کیا گیا ہے،  لِيَدُلَّ تاکہ وہ دلالت کرے متکلم پر یا مخاطب پر یا غائب پر، تَقَدَّمَ ذِكْرُهُ جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہو۔ اب ممکن ہے ان کا ذکر لفظاً گزرا ہو، ممکن ہے ان کا ذکر معناً گزرا ہو، ممکن ہے ان کا ذکر حکماً گزرا ہو۔ اب ان کی مثالیں فقط آپ کو بتا دوں تاکہ آپ کے لیے آسان ہو۔ مثلاً "عَلِيٌّ حَضَرَ غُلَامُهُ"۔ معناً کی مثال: "اِعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ"۔ حکماً کی مثال: "وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِّ"۔ "هُوَ اِعْدِلُوا هُوَ" میں "هُوَ" معناً چونکہ اعدلوا میں مصدر عدل ہے جو اس کی طرف جا رہی ہے لہذا معناً ذکر گزر چکا ہے۔ واستوت میں "هِيَ" ہے تو "هِيَ" کی ضمیر کس طرف جا رہی ہے؟ آپ کہیں گے اس سفینہ کی طرف کہ جس کا قصہ پیچھے سے سیاق کلام میں چل رہا تھا اور "عَلِيٌّ حَضَرَ أَخُوهُ" میں "هُو" کی ضمیر کا ذکر کہاں گزرا ہے؟ آپ کہیں گے علیٌ پیچھے واضح لفظاً گزر چکا ہے یعنی اس کے لیے مرجع کا ہونا، ضمیر کے لیے مرجع کا ہونا ضروری ہے۔ اب وہ مرجع ممکن ہے لفظاً موجود ہو، ممکن ہے معناً ہو، ممکن ہے حکماً ہو۔

5

ضمیر متصل اور منفصل

ضمیر متصل

"وَهُوَ عَلَى قِسْمَيْنِ" مضمر کی، ضمیر کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ہوتی ہے ضمیر متصل۔ متصل کسے کہتے ہیں؟ "وَهُوَ مَا لَا يُسْتَعْمَلُ وَحْدَهُ" جس کو اکیلا استعمال نہ کیا جا سکے یعنی وہ کسی کے ساتھ ملی ہوتی ہے علیحدہ استعمال نہیں ہو سکتی۔ اب "إِمَّا مَرْفُوعٌ" اب وہ ضمیر متصل یا مرفوع ہو گی، میں نے آپ کو ساری سنا دی ہیں، نحو "ضَرَبْتُ" سے لے کر "ضَرَبْنَ" تک۔ وہ کیسے تھیں؟ وہی تھیں "ضَرَبْتُ"، "ضَرَبْنَا"، "ضَرَبْتَ"، "ضَرَبْتُمَا"، "ضَرَبْتُمْ"، "ضَرَبْتِ"، "ضَرَبْتُمَا"، "ضَرَبْتُنَّ"، "ضَرَبَ"، "ضَرَبَا"، "ضَرَبُوا"، "ضَرَبَتْ"، "ضَرَبَتَا"، "ضَرَبْنَ"۔ یا وہ ضمیر متصل منصوب ہو گی۔وہ کون سی؟ یہ بھی میں آپ کو پہلے چودہ صیغے سن چکا ہوں۔ نحو "ضَرَبَنِي" "ضَرَبَهُنَّ" یعنی "ضَرَبَنِي"، "ضَرَبَنَا"، "ضَرَبَكَ"، "ضَرَبَكُمَا"، "ضَرَبَكُمْ"، "ضَرَبَكِ"، "ضَرَبَكُمَا"، "ضَرَبَكُنَّ"، "ضَرَبَهُ"، "ضَرَبَهُمَا"، "ضَرَبَهُمْ"، "ضَرَبَهَا"، "ضَرَبَهُمَا"، "ضَرَبَهُنَّ"۔ "وَإِنَّنِي" یا اس کی دوسری مثال "إِنَّنِي"، "إِنَّنَا"، "إِنَّكَ"، "إِنَّكُمَا"، "إِنَّكُمْ"، "إِنَّكِ"، "إِنَّكُمَا"، "إِنَّكُنَّ"، "إِنَّهُ"، "إِنَّهُمَا"، "إِنَّهُمْ"، "إِنَّهَا"، "إِنَّهُمَا"، "إِنَّهُنَّ"۔ یہ بھی اس کی مثال ہے۔ "أَوْ مَجْرُورٍ" یا وہ ضمیر متصل مجرور ہو گی۔ مجرور کی مثال: "غُلَامِي"، "غُلَامُنَا"، "غُلَامُكَ"، "غُلَامُكُمَا"، "غُلَامُكُمْ"، "غُلَامُكِ"، "غُلَامُكُمَا"، "غُلَامُكُنَّ"، "غُلَامُهُ"، "غُلَامُهُمَا"، "غُلَامُهُمْ"، "غُلَامُهَا"، "غُلَامُهُمَا"، "غُلَامُهُنَّ"۔ یا "لِي"، "لِي لَنَا"، "لَكَ لَكُمَا لَكُمْ"، "لَكِ لَكُمَا لَكُنَّ"، "لَهُ لَهُمَا لَهُمْ"، "لَهَا لَهُمَا لَهُنَّ"۔ اب ضمیر کبھی متصل ہوتی ہے اور کبھی منفصل۔ متصل ہو گی تو کبھی مرفوع ہو گی، کبھی منصوب ہو گی اور کبھی مجرور ہو گی۔ 

ضمیر منفصل اور اس کی اقسام

"وَمُنْفَصِلٌ" دوسری قسم ضمیر کی کیا ہے؟ کہ وہ وہ ضمیر ہوتی ہے جس کو ضمیرِ منفصل کہا جاتا ہے۔ ضمیرِ منفصل کونسی ہے؟ 

"مَا يُسْتَعْمَلُ وَحْدَهُ" کہ جس کو علیحدہ بھی اکیلا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے یعنی کسی کے ساتھ ملانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اب وہ منفصل "إِمَّا مَرْفُوعٌ أَوْ مَنْصُوبٌ" منفصل یا مرفوع ہوتی ہے یا منصوب۔ کوئی ضمیرِ منفصل مجرور نہیں ہوتی اسی لیے کہ مجرور کے ساتھ جار کا ہونا ضروری ہے۔  ضمیرِ منفصل مرفوع کونسی ہے؟ پہلے بتایا ہے۔ انا، نحن متکلم کے   لیے، انتَ، انتما، انتم، انتِ، انتما، انتنَّ خطاب کے لیے، هو، هما، هم، هی، هما، هنَّ غائب کے لیے۔ یہ چودہ ضمیریں اس کی ہوگئیں۔ "أَوْ مَنْصُوبٌ" یا وہ منفصل منصوب ہوگی جیسے ایايَ، ایانا متکلم کے لیے، ایاکَ، ایاکما، ایاکم، ایاکِ، ایاکما، ایاکنَّ مخاطب کے لیے، ایاهُ، ایاهما، ایاهم، ایاها، ایاهما، ایاهنَّ غائب کے لیے مذکر مؤنث کے لیے۔ "فَذَلِكَ سِتُّونَ ضَمِيرًا" تو یہ مجموعاً بن جاتی ہیں ستر ضمیریں۔ میں نے ہر ایک کی آپ کی خدمت میں علیحدہ علیحدہ گزارش کر دی ہے۔

6

ضمیر مستتر اور بارز

ضمیر کا مستتر اور بارز ہونا

فرماتے ہیں آگے ایک اور نکتہ   بیان کرنا چاہتے ہیں جو اس ضمیر سے متعلق ہے کہ یہ جو ضمیر ہوتی ہے کبھی مستتر ہوتی ہے اور کبھی بارز۔ اب اس کو ذرا غور کر کے سمجھیں۔ کیسے؟ فرماتے ہیں "أَنَّ الْمَرْفُوعَ الْمُتَّصِلَ" کہ یہ جو ضمیرِ مرفوعِ متصل ہوتی ہے "خَاصَّةً" یعنی فقط ضمیرِ مرفوعِ متصل، "يَكُونُ مُسْتَتِرًا فِي الْمَاضِي" فعل ماضی میں غائب اور غائبہ کے صیغوں میں یہ مستتر ہوتی ہے۔ غائب اور غائبہ کے صیغوں میں ضمیرِ مرفوع متصل مستتر، مستتر کا معنی کیا ہے؟ یعنی یہ چھپی ہوتی ہے یعنی لفظاً ذکر نہیں ہوتی۔ جیسے "ضَرَبَ" میں "هُوَ" ہے، "ضَرَبَتْ" میں "هِيَ" ہے۔ اسی طرح فرماتے ہیں مضارع متکلم میں بھی، اب وہ متکلم واحد کا صیغہ ہو یا تثنیہ اور جمع مع الغیر کا ہو، اس میں بھی یہ ضمیرِ مرفوع متصل مستتر ہوتی ہے، چھپی ہوتی ہے یعنی لفظاً تحریر نہیں ہوتی۔ جیسے ہم کہتے ہیں "أَضْرِبُ"، "أَضْرِبُ" میں "أَنَا" ضمیرِ مرفوع مستطل مستتر ہے۔ "نَضْرِبُ" میں "نَحْنُ" ضمیرِ مرفوع متصل مستتر ہے یعنی اس کے اندر چھپی ہوئی ہے لفظاً کہیں ذکر نہیں ہے۔ اس طرح آگے فرماتے ہیں "وَلِلْمُخَاطَبِ" مخاطب کے صیغہ میں، مخاطب کے صیغہ میں جیسے "تَضْرِبُ"، اب "تَضْرِبُ" میں بھی "أَنْتَ" ضمیرِ مرفوع متصل مستتر ہے وہ اس میں چھپی ہے یعنی وہ اس میں لفظاً ذکر نہیں ہے۔ ٹھیک۔ اسی طرح فرماتے ہیں للغائب والغائبة، فعل مضارع میں "يَضْرِبُ" میں "هُوَ" اور "تَضْرِبُ" میں "هِيَ"، وہاں پر بھی یہ ضمیرِ مرفوع متصل مستتر ہے یعنی چھپی ہوئی ہے، اس میں ذکر نہیں ہے۔ ٹھیک ہو گیا جی، بالکل آسان۔

 صفت میں ضمیر کا استعمال

اسی طرح فرماتے ہیں "وَفِي الصِّفَةِ" "أَعْنِي اسْمَيِ الْفَاعِلَ"۔ فرماتے ہیں اگر... کہ اسم فاعل، صفت میں، صفت سے مراد کیا ہے؟ یعنی اسم فاعل اور اسم مفعول میں بھی ضمیرِ مرفوعِ متصل کیا ہوتی ہے؟ مستتر ہوتی ہے۔ "ضَارِبٌ" میں "هُوَ" یا "مَضْرُوبٌ" میں "هُوَ" یہ ضمائر مستتر ہیں یعنی ظاہراً اس میں ذکر نہیں ہیں۔ ٹھیک ہو گیا جی۔ خوب۔ "وَفِي الصِّفَةِ أَعْنِي اسْمَ الْفَاعِلِ وَالْمَفْعُولِ وَغَيْرِهِمَا مُطْلَقًا" یعنی ان میں بھی اسم فاعل، اسم مفعول اور ان دونوں کے علاوہ جو باقی آتے ہیں جو صفت کے صیغے ہوتے ہیں ان میں بھی یہ ضمیر کیا ہوتی ہے؟ مستتر ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے جی۔ بلکہ مضارع کے تمام صیغوں میں تقریباً یہ مستتر ہی ہوتی ہے۔

 ضمیر منفصل کے استعمال کا قاعدہ

آگے ایک جملہ فرما رہے ہیں، وہ جملہ یہ ہے۔ "لَا يَجُوزُ اسْتِعْمَالُ الْمُنْفَصِلِ إِلَّا عِنْدَ تَعَذُّرِ الْمُتَّصِلِ"۔ جملہ کو یاد کرنا ہے۔ چونکہ ضمیریں متصل بھی ہیں، چونکہ ضمیریں منفصل بھی ہیں، تو اب یہاں آپ کی مرضی نہیں ہے کہ جہاں چاہے آپ ضمیرِ متصل کو لے آئیں اور جہاں دل چاہے ضمیرِ منفصل کو لائیں، نہ نہ نہ، ایسا نہیں ہے۔ تو پھر کیا ہے؟ فرماتے ہیں وہ یہ ہے کہ ضمیرِ منفصل کو اس وقت لایا جاتا ہے جب ضمیرِ متصل کا استعمال کرنا متعذر ہو۔ بات سمجھ آ گئی؟ اچھا۔ جناب ضمیرِ متصل کا استعمال کہاں متعذر ہوتا ہے؟ بہت سارے مقامات ہیں۔ ان شاءاللہ ہم آگے کہیں پڑھیں گے۔ مثلاً اگر ہم حصر کرنا چا  ہتے ہیں تو اب حصر کے لیے بھی اگر ہم متصل کو لگاتے ہیں تو وہ حصر کا معنی نہیں دیتی۔ مثال ذرا غور سے سمجھو۔ اگر ہم کہیں "نَعْبُدُكَ" ہم عبادت کرتے ہیں تیری۔ یہاں اگر ہم کاف ساتھ لگا دیں تو یہاں پر حصر کا معنی نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم حصر کا معنی دیتے ہیں تو ہماری مجبوری ہے کہ ہم ضمیرِ منفصل لائیں، ہم کہیں "إِيَّاكَ نَعْبُدُ"۔ حصر کیا ہے؟ کہ ہم فقط تیری ہی عبادت کرتے ہیں، یہ فقط والا معنی "إِيَّاكَ" کے ساتھ بنتا ہے، "نَعْبُدُكَ" کے ساتھ نہیں بنتا۔ ٹھیک ہے جی۔اور بھی مقام ہیں، ان شاءاللہ اپنے مقام پر ان کو بیان کریں گے۔ 

"لَا يَجُوزُ اسْتِعْمَالُ الْمُنْفَصِلِ"۔ نکتہ، اپنی مرضی نہیں ہے کہ جہاں چاہیں جس ضمیر کو لے آئیں، فرماتے ہیں نہ، ضمیرِ منفصل کا استعمال جائز نہیں مگر اس صورت میں کہ جب متصل کا استعمال کرنا متعذر ہو، جہاں متصل کا استعمال نہ ہو سکتا ہو۔ جیسے "إِيَّاكَ نَعْبُدُ" چونکہ ہم یہاں پر حصر کو بیان کرنا چا  ہتے    تھے تو حصر "نَعْبُدُكَ" کہنے سے نہیں ہوتا تھا لہذا ہم نے "إِيَّاكَ" ضمیرِ منفصل کو لایا۔ اسی طرح "وَمَا ضَرَبَكَ إِلَّا أَنَا"۔ یہاں پر بھی وہ چونکہ ما نافیہ داخل ہو گئی لہذا "إِلَّا أَنَا"۔ یا "أَنَا زَيْدٌ" یہاں پر چونکہ "أَنَا زَيْدٌ" کیا ہے؟ ہم جواب میں کہیں گے چونکہ اس کا جو عامل ہے وہ معنوی ہے۔ یا "مَا أَنْتَ إِلَّا قَائِمًا" چونکہ ہم اسم ظاہر کا عطف کرنا چاہتے تھے تو وہاں پر بھی ہم ضمیرِ متصل پر نہیں کر سکتے تھے یا اس کا استثناء، استثناء ضمیرِ متصل سے نہیں ہو سکتا تھا بلکہ منفصل سے ہو سکتا تھا۔ خوب ہے جی، یہ چار مثالیں انہوں نے ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ دی ہیں۔ "إِيَّاكَ نَعْبُدُ" یعنی جب حصر کرنا مقصود ہو، وہاں پر۔ اچھا، اسی طرح فرماتے ہیں، "مَا ضَرَبَكَ إِلَّا أَنَا" جب ضمیر اور اس کے عامل میں فاصلہ ہو اور فاصلہ کسی غرض کے لیے ہو تو بھی۔ ٹھیک ہے جی۔ الی آخرہ۔

7

ضمیر الشان و قصة

"وَاعْلَمْ" ایک اور تنبیہ ہے، بلکہ دو تنبیہیں چھوٹی چھوٹی، ان کو یہاں بیان کرتے ہیں اور پھر یہ درس یہاں پر ان شاءاللہ مکمل ہو جائے گا۔ ان ضمائر کے علاوہ، علمائے کرام ایک اور ضمیر کا ذکر بھی کرتے ہیں اس کو کہتے ہیں ضمیرُ الشانِ والقصة ضمیرُ الشان۔ اچھا جی، وہ کیا ہوتا ہے؟ ایک ضمیر ہے جو جملے سے پہلے آئی ہے۔ اور وہ جملہ اس ضمیر کی تفسیر کر رہا ہوتا ہے کہ یہاں اس ضمیر سے مقصود کیا ہے۔ ایک ضمیر پہلے آ جاتی ہے اور جملہ بعد میں آتا ہے، وہی جملہ اس ضمیر کی تفسیر بیان کرتا ہے کہ اس ضمیر سے مراد کیا ہے جو اس کی تفسیر کرتا ہے۔ اس کو کہا جاتا ہے، یہ ایک ضمیر ہے۔ اب وہ مذکر کے لیے ہو تو اس کو ضمیرِ شان کہتے ہیں اور اگر مؤنث کے لیے ہو تو اس کو ضمیرِ قصہ کہتے ہیں۔ بالکل آسان سی بات۔

 فرماتے ہیں "وَاْعلَمْ أَنَّ لَهُمْ ضَمِيرًا" علمائے کرام ایک اور ضمیر، ان ضمیرِ مرفوع، ضمیرِ متصل اور منفصل کے علاوہ یعنی ان ستر ضمائر کے علاوہ ایک اور ضمیر بھی ہے۔ اچھا وہ کیا ہے؟ "يَقَعُ قَبْلَ جُمْلَةٍ" وہ ضمیر جملہ سے پہلے واقع ہوتی ہے، "تُفَسِّرُهُ" اور وہ جملہ اس ضمیر کی کیا کر رہا ہوتا ہے؟ تفسیر کر رہا ہوتا ہے۔ وہ جملہ بتاتا ہے کہ یہاں اس ضمیر سے مراد کیا ہے۔ ٹھیک۔ "وَيُسَمَّى ضَمِيرَ الشَّانِ فِي الْمُذَكَّرِ وَضَمِيرَ الْقِصَّةِ فِي الْمُؤَنَّثِ"۔ اگر وہ مذکر کے لیے ہو تو اس کو ضمیرِ شان نام دیا جاتا ہے اور اگر مؤنث کی ہو تو اس کو ضمیرِ قصہ کہتے ہیں۔

ضمیرِ شان کی مثال "قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ"۔ "هُوَ" پہلے ہے، "اللهُ أَحَدٌ" بعد میں ہے۔ یہ "اللهُ أَحَدٌ" اسی "هُوَ" کی تفسیر کر رہا ہے کہ "هُوَ" سے مقصود کیا ہے۔ "إِنَّهَا زَيْنَبُ قَائِمَةٌ"۔ اب یہاں "زَيْنَبُ قَائِمَةٌ" جملہ بعد میں ہے جبکہ "هَا" ضمیر پہلے ہے۔ یہ "زَيْنَبُ قَائِمَةٌ" اس "هَا" کی تفسیر بیان کر رہا ہے۔ ٹھیک ہو گیا جی۔ یہ بھی ایک بات ہو گئی۔

ضمیر فصل کی وضاحت

آگے فرماتے ہیں۔ ایک اور ضمیر ہوتی ہے اس ضمیر کو کہا جاتا ہے ضمیر فصل۔ یعنی ضمیر شان و قصہ کے علاوہ ایک اور ضمیر ہوتی ہے جس کا نام ہوتا ہے ضمیر فصل۔ اچھا یہ کونسی ہوتی ہے؟ یہاں پر غالباً بات ضمیر کی مکمل ہو جائے گی۔ وہ یہ ہے۔ 

فرماتے ہیں "يَدْخُلُ بَيْنَ الْمُبْتَدَأِ وَالْخَبَرِ صِيغَةُ مَرْفُوعٍ مُنْفَصِلٍ مُطَابِقٌ لِلْمُبْتَدَأِ إِذَا كَانَ الْخَبَرُ مَعْرِفَةً أَوْ أَفْعَلَ مِنْ كَذَا وَيُسَمَّى فَصْلًا"۔ فرماتے ہیں ایک اور، ایک اور ضمیر ہوتی ہے ضمیر مرفوع منفصل۔ ایک ضمیر مرفوع منفصل جو مبتدا اور خبر کے درمیان آتی ہے۔ مبتدا اور خبر کے درمیان آتی ہے، ایک۔ اور مبتدا کے مطابق ہوتی ہے۔ یعنی کیا مطلب؟ یعنی جیسی مبتدا ہوگی ویسی وہ ضمیر ہوگی۔ آگے مثال دیتے ہیں سارا واضح ہو جائے گا۔ پس، وہاں یعنی مبتدا اور خبر کے درمیان ایک ضمیر مرفوع منفصل آتی ہے اور وہ مبتدا کے مطابق ہوتی ہے جب خبر معرفہ ہو یا افعل تفضیل یعنی افعلا منہ ہو یعنی خبر کا صیغہ اسم تفضیل ہو۔ تو اس کو ضمیر فاصل کہتے ہیں۔ مثال انہوں نے بڑی کوئی آسان سی دی ہے۔ فرماتے ہیں وہ کیا ہے؟ "لِأَنَّهُ يَفْصِلُ بَيْنَ الْخَبَرِ وَالصِّفَةِ"۔ ضمیر فصل اسے کہتے ہیں کہ یہ ضمیر بتاتی ہے کہ بعد والا اسم پہلے والی مبتدا کی خبر ہے، صفت نہیں ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں "زَيْدٌ هُوَ الْقَائِمُ"۔ اگر "هُوَ" نہ ہوتا تو ممکن ہے اس القائم کو اس کی صفت بنا دیا جاتا لیکن اس "هُوَ" نے آ کر یہ بتایا ہے کہ یہ القائم زید کی خبر ہے، صفت نہیں ہے۔ "كَانَ زَيْدٌ هُوَ أَفْضَلَ مِنْ أَمْرٍ"۔ اس "هُوَ" نے بتایا ہے کہ یہ افضل من امر زید کے لیے خبر ہے، زید کی صفت نہیں۔ اسی طرح "كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ"۔ اس "أَنْتَ" نے بتایا ہے کہ الرقیب علیہم خبر ہے، اس کے لیے صفت نہیں ہے۔ یہ کام بھی اس نے بتایا ہے کہ یہ "أَنْتَ" ضمیر فصل ہے مبتدا اور خبر کے درمیان۔

و صلی الله علی محمد و آل محمد

على السكون ومعرب بالقوّة ، وما يشابه مبنيّ الأصل بأن يكون في الدلالة على معناه محتاجاً إلى قرينة كأسماء الإشارة نحو : مَنْ هؤُلاءِ ؟ أو يكون على أقلّ من ثلاثة أحرف ، أو تضمّن معنى الحروف وذلك نحو : هذا ، ومِن أحَدَ عَشَرَ إلى تِسْعَة عَشَرَ ، ومثل هذا القسم لا يصير معرباً أصلاً ، وحكمه أن لا يختلف آخره باختلاف العوامل. وحركاته تسمّى ضمّاً وفتحاً وكسراً ، وسكونه وقفاً. وهو على ثمانية أنواع :

المضمرات ، وأسماء الإشارات ، والموصولات ، وأسماء الأفعال والأصوات ، والمركّبات ، والكنايات وبعض الظروف.

النوع الأوّل : المضمرات

وهي اسم ما وضع ليدلّ على متكلّم أو مخاطب أو غائب ، تقدّم ذكره لفظاً أو معنىً أو حكماً. وهو على قسمين :

متّصل : وهو ما لا يستعمل وحده ، إمّا مرفوع نحو : ضَرَبْتُ إلى ضَرَبْنَ ، أو منصوب نحو : ضَرَبَني إلى ضَرَبَهُنَّ ، أو مجرور نحو : غُلامي ولي إلى غُلامِهِنَّ ولَهُنَّ.

أو منفصل : وهو ما يستعمل وحده ، وهو أيضاً إمّا مرفوع وهو : أنا إلى هُنَّ ، وإمّا منصوب نحو : إيّاي إلى إيّاهُنَّ. فذلك سبعون ضميراً.

واعلم أنّ المرفوع المتّصل يكون مستتراً ، أي مستكناً في الماضي المغائب والمغائبة ك‍ : ضَرَبَ هُوَ ، وضَرَبَتْ هِيَ ، وفي المضارع المتكلّم مطلقاً نحو : أضْرِبُ ، نَضْرِبُ ، والمخاطب ك‍ : تَضْرِبُ ، والغائب والغائبة ك‍ : يَضْرِبُ وتَضْرِبُ ، وفي الصفة أعني اسم الفاعل والمفعول مطلقاً. ولا يجوز استعمال المنفصل إلّا عند تعذّر المتّصل ك‍ : «إِيَّاكَ نَعْبُدُ» (١) وما

____________________________

(١) الفاتحة : ٤.

ضَرَبَكَ إلّا أنا.

واعلم أنّ لهم ضميراً غائباً يقع قبل جملة يفسّره الجملة المذكورة بعده ويسمّى ضمير الشأن في المذكّر وضمير القصّة في المؤنّث نحو : «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» (١) ، وهي هندٌ مليحةٌ ، وإنّها زَيْنَبُ قائِمَةٌ.

وقد يدخل بين المبتدأ والخبر ضمير مرفوع منفصل مطابق للمبتدأ إذا كان الخبر معرفة ، أو أفْعَل مِنْ كَذا ، ويسمّى فصلاً لأنّه يفصل بين المبتدأ والخبر نحو : زَيْدٌ هُوَ الْقائِمُ ، وكانَ زَيْدٌ هُوَ الْقائِمَ ، وزَيْدٌ هُوَ أفْضَلُ مِنْ عَمْروٍ ، وقال الله تعالى : «كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ» (٢).

النوع الثاني : أسماء الإشارات

ما وضع ليدلّ على مشار إليه وهي خمسة ألفاظ لستّة معانٍ : «ذا» للمذكّر ، ولمثنّاه «ذانِ» و «ذَيْنِ» ، وللمؤنّث : «تا وتي وذي وتِه وذه وتِهي وذِهي» ، ولمثنّاها «تانِ» و «تيْنِ» ولجمعهما «اُولاء» بالمدّ والقصر. وقد تدخل بأوائلها هاء التنبيه ، «كهذا» و «هؤُلاءِ».

ويتّصل بأواخرها حرف الخطاب ، وهي خمسة ألفاظ : كَ‍ ، كُما ، كُمْ كِ‍ ، كُما ، كُنَّ. فذلك خمسة وعشرون ، الحاصل من ضرب خمسة في خمسة ، وهي ذاك إلى ذاكُنَّ ، وذانِكَ إلى ذانِكُنَّ ، وكذا البواقي.

واعلم أنّ «ذا» للقريب ، و «ذلك» للبعيد ، و «ذاكَ» للمتوسّط.

النوع الثالث : الموصولات

الموصول : اسم لا يصلح أن يكون جزءً تامّاً من جملة إلّا بصلة بعده

____________________________

(١) سورة الاخلاص : ١.

(٢) المائدة : ١١٧.

وهي جملة خبريّة ولا بُدّ له من عائد فيها يعود إلى الموصول ، مثاله «الّذي» في قولنا : جاءني الَّذي أبُوهُ فاضِلٌ ، أو قامَ أبُوهُ. «الَّذي» للمذكّر و «الَّتي» للمؤنّث ، و «اللَّذانِ ، واللَّذَيْنِ واللَّتانِ واللَّتَيْنِ» لمثنّاهما ، بالألف في حالة الرفع وبالياء في حالتي النصب والجرّ ، «والأُلي والَّذينَ» لجمع المذكّر ، «واللّاتي واللّواتي واللّائي واللّوائي» لجمع المؤنّث و «ما» و «مَنْ» و «أيّ» و «أيّة» و «ذُو» بمعنى الّذي في لغة بني طيّ كقوله :

فَإنَّ الْماءَ ماءَ أبي وَجَدّي

وَبِئْري ذُو حَفَرْتُ وذُو طَوَيْتُ (١)

أي الّذي حفرت والّذي طويت.

«والألف واللّام» بمعنى الّذي وصلته اسم الفاعل أو المفعول نحو : الضارِبُ زيدٌ ، أي الّذي ضَرَبَ زيدٌ ، والمضروبُ عمروٌ ، أي الّذي ضُرِبَ عمروٌ.

____________________________

(١) هو من ابيات لسنام بن الفحل وهو أحد من بنى اُمّ الكهف من طيّ وقد نازع قومه في ماء لبني اُمّ الكهف وأكثر النزاع ورادم في الدماء فقالوا له : أمجنون أنت أم سكران فانشد الابيات وقبله :

وقالوا قد جننت فقلت كلّا

وربىّ لا جننت ولا انتشبت

ولكني ظلمت فكنت أبكي

من الظلم المبين أو بكيتُ

الفاء في فإنّ للتعليل واللام في الماء للعهد ، أي الماء الذي فيه النزاع ، ماء أبي وجدّي أي : ورثتها إيّاه. وقوله : وبئري أي : البئر المتنازع فيها بئري التي حفرتها وطويتها. يقال حفرت الشيء أي نقبته كما تحفر الأرض بالحديدة ، وطويت البئر بالطاء المهملة والواو والياء إذا بنيتها بالحجارة. يعنى پس به علت آنكه بدرستيكه آن آبى كه در آن نزاع است آب پدر من است كه به ميراث به من رسيده است ، وآن چاهى كه در آن نزاع است چاه من است آنچنان چاهى كه كندم آنرا وآنچنان چاهى كه سنگ چيدم دور آنرا.

شاهد در وقوع لفظ (ذو) است در دو موضع بمعنى (التى) بنابر لغت طىّ باعتبار بودن او صفت از براى مؤنث كه بئر بوده باشد. وحفرت وطويت صله آن (ذو) است وعايد آن محذوف است اى التى حفرتها والتى طويتها. (جامع الشواهد).