درس الهدایة في النحو

درس نمبر 28: اسم مبنی

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

اسم مبنی کی تعریف

جب ابتداء میں کہا تھا کہ تین اقسام ہوں گی، قسم اول ہو گی اسم کے بارے میں، قسم دوم فعل، قسم ثانی حرف۔ قسم اول میں پھر فرمایا تھا کہ اس میں باب اول ہو گا اسم معرب کے بارے میں اور باب ثانی ہے اسم مبنی کے بارے میں۔ باب اول اسم معرب کی بحث الحمدللہ مکمل ہو گئی۔ اب باب ثانی ہے اسم مبنی کے بارے میں۔

اس میں بھی کافی تفصیلی بحث ہے۔ کہ مبنی، اسم مبنی کسے کہتے ہیں؟ پھر وہ اسم مبنی کون کون سے ہیں؟ پھر آئے گا کہ کون سا اسم کس حرکت پر مبنی ہو گا؟ یہ ساری ان شاء اللہ تفصیلات یہاں پر آئیں گی۔

اسم مبنی کی تعریف

پہلا سوال: اسم مبنی کسے کہتے ہیں؟ جواب: ہر وہ اسم جو مرکب واقع نہ ہو، اسے مبنی کہتے ہیں۔ یہ حروف تہجی الف، با، تا، ثا وغیرہ جب تک یہ کسی کے ساتھ ملے ہوئے نہ ہوں، فقط حروف تہجی، فقط الف ہے، فقط با، فقط تا، یہ مبنی ہیں۔ واحد، اثنان، ثلاثہ اگر ان کے ساتھ کوئی اور ملا ہوا نہیں ہے، ان کے ساتھ کوئی اور نہیں ہے، یہ مبنی ہیں۔ لفظ زید، لفظ علی، لفظ حسن اگر ان کے ساتھ کوئی اور مرکب نہیں ہے یعنی یہ کسی فعل کے بعد نہیں ہیں یا ان کے بعد کوئی اور خبر وغیرہ نہیں ہے وغیرہ۔ یعنی مراد کیا ہے؟ کہ جب یہ کسی اور کے ساتھ مل کر نہیں ہوں گے تو یہ مبنی ہے۔ البتہ ہم ان کو کہتے ہیں کہ یہ بالفعل مبنی ہے لیکن بالقوہ معرب ہے۔ بالفعل اور بالقوہ کا مطلب آغا جان یہ ہوتا ہے یہ بالفعل یعنی یہ ابھی ابھی اور اس وقت، جس آپ انگریزی والے کہتے ہیں کرنٹ صورتحال اس کی جو ہے، اس وقت وہ مبنی ہے، لیکن جب کوئی عامل آ جائے گا پھر یہ معرب ہو جائے گا۔ جیسے ہم جاء زیدٌ کہتے ہیں، ان زیداً بھی کہتے ہیں، بزیدٍ بھی، اس میں معرب ہونے کی قوت موجود ہے لیکن فعلاً چونکہ کسی کے ساتھ ملا نہیں ہے لہذا یہ مبنی ہے۔

اسی طرح وہ اسم بھی مبنی ہوتا ہے جو مبنی اصل کے مشابہ ہو۔  مبنی اصل کے مشابہ ہو،ان شاء اللہ آگے بتائیں گے کہ مبنی اصل کون کون سے ہیں، مشابہ ہو نے کا مطلب  یہ ہے، جیسے وہ محتاج ہوتا ہے، اپنا معنی دینے میں کسی اور کا، تو  ہر وہ اسم جو اپنے معنی پر دلالت کرنے میں محتاج ہو گا کسی اور چیز کا، قرینہ وغیرہ کا، اس کو کہتے ہیں مشابہ مبنی اصل اور وہ بھی مبنی شمار ہو گا، دو ہو گئے۔ اسی طرح یا وہ حرف، یا وہ لفظ، یا وہ اسم، تین حروف سے کم سے ملا ہو یعنی اس  میں جو حروف ہیں وہ تین سے کم ہوں، فقط دو ہوں، یہ بھی مبنی ہو گا یا ہیں تو زیادہ، لیکن معنی حروف کو متضمن ہیں یعنی ان میں کوئی نہ کوئی معنی حرفی پایا جاتا ہے۔ ان شاء اللہ یہ آگے تفصیل سے بیان کریں گے، یہ سارے مبنی ہیں۔ 

متن کی تطبیق

"اَلْبَابُ الثَّانِي فِي الْاِسْمِ الْمَبْنِيِّ" دوسرا باب ہے اسم مبنی کے بارے میں۔ باب تھا اسم معرب کے بارے میں، اس کی بحث مکمل ہوئی۔ دوسرا باب ہے اسم مبنی کے بارے میں، "وَهُوَ" یعنی یہ اسم مبنی، اس کی تعریف کیا ہے؟ کون سا اسم مبنی کہلاتا ہے؟ جواب: "هُوَ اسْمٌ" ہر وہ اسم "وَقَعَ غَيْرَ مُرَكَّبٍ مَعَ غَيْرِهِ" جو غیر کے ساتھ مرکب ہو کر، مل کر واقع نہ ہوا ہوکہ جو کسی غیر کے ساتھ مرکب نہ ہو، جیسے الف، با، تا، ثا، یہ حروف تہجی ایک ایک جب ہوں۔ یا واحد، اثنان، ثلاثہ۔ "وَكَـلَفْظَةِ زَيْدٍ وَحْدَهُ" یا جیسے لفظ زید، وحدہ سے مراد کیا ہے؟ جب زید اکیلا ہو یعنی اس کے پیچھے کوئی عامل کسی قسم کا نہ ہو، بس اکیلا زید۔ "فَاِنَّهُ مَبْنِيٌّ بِالْفِعْلِ عَلَى السُّكُونِ" جب تک یہ اکیلا ہے، جب تک اس کے ساتھ کسی قسم کا کوئی عامل نہیں ہے، تب تک یہ مبنی علی السکون ہے یعنی ہم اس کو پڑھیں گے زید، نہ زیداً پڑھا ہے، نہ زیدٌ  پڑھنا ہے، نہ زیدٍ  پڑھنا ہے، اس لیے کوئی عامل ہی نہیں ہے۔ لہذا اس کو پڑھیں گے مبنی علی السکون یعنی آخر میں ساکن، زید۔ "مُعْرَبٌ بِالْقُوَّةِ" البتہ بالقوہ معرب ہے، بالقوہ سے مراد کیا ہے کہ اگر کوئی عامل آ گیا تو پھر اس پر اعراب حرکت آ جائے گی، مثلاً اِنَّ آ گیا تو زیداً بن جائے گا، باء آ گیا تو بزیدٍ بن جائے گا، جاء آ گیا تو جاء زیدٌ بھی بن سکتا ہے۔ اس میں قوت ہے معرب ہونے کی، لیکن فی الحال معرب ہے نہیں۔

 یا وہ اسم بھی مبنی کہلاتا ہے، "اَوْ شَابَهَ مَبْنِيَّ الْأَصْلِ"۔ کہ ہر وہ اسم جو مبنی اصل کے مشابہ ہو،کس میں؟ شباہت کا مطلب کیا ہے؟ مبنی اصل آگے بتا دیں گے کہ مبنی اصل کون کون سی چیزیں ہیں؟ فرماتے ہیں: "بِأَنْ يَكُونَ فِي الدَّلَالَةِ عَلَى مَعْنَاهُ مُحْتَاجًا إِلَى قَرِينَةٍ" کہ جو اپنے معنی پر دلالت کرنے میں محتاج الی قرینۃ، کسی قرینے کا محتاج ہو، جب تک وہ نہ ہو، یہ اپنے معنی پر دلالت نہ کر سکتا ہو۔ تو اس کا محتاج ہونا، یہ بتاتا ہے کہ یہ مشابہ ہے مبنی اصل کے، چونکہ مبنی اصل بھی محتاج ہوتا ہے۔ "كَالْإِشَارَةِ" جیسے اسماء اشارہ ہیں، جیسے ہم کہتے ہیں ھؤلاء۔ ھؤلاء وہاں اپنے معنی پر دلالت کرے گا کہ جب کوئی قرینہ موجود ہو گا، کوئی مشار الیہ ہو گا۔

  "اَوْ يَكُونَ اَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَةِ اَحْرُفٍ" یا وہ اسم بھی مبنی کہلاتا ہے جو تین حروف سے کم پر مشتمل ہو۔ یعنی جس کے حروف تین نہ ہوں، جیسے مِنْ، یہ بھی مبنی ہے۔ جیسے ذَا، مبنی ہے۔ کیوں؟ ذا میں ذال اور الف، دو حرف ہیں۔ من میں میم اور نون، دو حرف ہیں،  بس جو بھی تین سے کم حروف پر ہو گا، وہ بھی مبنی ہو گا۔

  "اَوْ تَضَمَّنَ مَعْنَى الْحُرُوفِ" یا حروف جن سے وہ مل کر بنا ہے، وہ تو تین سے زیادہ ہیں لیکن وہ معنی حرفی کو متضمن ہے۔ جیسے "اَحَدَ عَشَرَ" واو کو متضمن ہے یعنی اصل ہے "اَحَدٌ وَ عَشَرٌ"۔ دس اور ایک، لیکن ہم پڑھتے ہیں "اَحَدَ عَشَرَ"۔  "وَهَذَا الْقِسْمُ لَا يَصِيرُ مُعْرَبًا اَصْلًا"۔ اور یہ قسم  جو معنی حرفی کو متضمن ہوتی ہے یا جو دو حروف، تین حروف سے کم پر مشتمل ہو، یہ کبھی بھی معرب نہیں ہوتی، یہ ہمیشہ مبنی ہی رہتی ہے۔ یہاں تک تو ہم نے یہ پڑھ لیا کہ اسم مبنی کسے کہتے ہیں؟ تو اب ہمارا جواب کیا ہو گا؟

 اسم مبنی تین قسم کے ہوتے ہیں۔

۱۔  پہلی قسم کیا ہو گئی؟ یا وہ اسم کسی اور سے مل کر نہ بنا ہو یعنی کسی اور کے ساتھ ملا ہوا نہ ہو، مرکب مع غیر نہ ہو۔ 

۲۔ مبنی اصل کے مشابہ ہو۔

۳۔ یا اس کو دو تین حرفوں سے کم یا معنی حرفی کو متضمن ہو تو وہ بھی مبنی ہوتا ہے۔ یہ بات یہاں پر ختم ہو گئی۔  مبنی اصل، یہ حروف تہجی مبنی الاصل ہیں۔ فعل ماضی یہ مبنی الاصل ہے۔

4

اسم مبنی کا حکم کیا ہے؟

اسم مبنی کا حکم

اب اس کا حکم: کچھ باتیں ہیں جو آگے مزید سمجھنے والی ہیں وہ بہت ضروری ہیں۔ مبنی کی سمجھ تو آ گئی۔ اب یہ ہے کہ اسم مبنی کا حکم کیا ہے؟ اس کا حکم معرب کے برخلاف ہے۔ معرب کیا تھا؟ جیسا عامل ویسی حرکت۔ مبنی کسے کہتے ہیں؟ کہ جو عوامل کے اختلاف سے مختلف نہیں ہوتا۔ اس کا آخر ایک جیسا رہتا ہے، عامل رافع ہو، عامل ناصب ہو، عامل جار ہو، اس کے آخر پر کوئی فرق نہیں پڑتا، ایک جیسا ہوتا ہے ویسا ہی رہتا ہے، اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔"وَحُكْمُهُ" یعنی اسم مبنی کا حکم کیا ہے؟ "اَنْ لَا يَخْتَلِفَ آخِرُهُ" کہ اس کا آخر، عوامل کے اختلاف سے مختلف نہ ہو۔ عامل جیسا بھی آتا رہے، اس کا آخر جس چیز پر مبنی ہوتا ہے، بس وہ اسی پر پڑھا رہتا ہے، اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

5

اسماء مبنی کی حرکت اور اقسام

اسماء مبنی کی حرکت

اسماء مبنی کس حرکت پر مبنی ہوتے ہیں؟ فرماتے ہیں کچھ ہوتے ہیں جو مبنی علی الضم، کچھ ہوتے ہیں مبنی علی الفتح، کچھ ہوتے ہیں مبنی علی الکسر، کچھ ہوتے ہیں مبنی علی السکون۔ کیا مطلب؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض مبنی ایسے ہیں کہ اگر آخر میں ضمہ ہے تو ہمیشہ ضمہ ہی رہے گی، کسی عامل کے بدلنے سے اس کا ضمہ تبدیل نہیں ہوگی۔ جومبنی علی الفتح ہوگا، وہ مبنی علی الفتح ہی رہے گا، بے شک عامل جو بھی آتا رہے، اس کے فتح پر فرق نہیں پڑتا۔ جو مبنی علی الکسر ہوگا اس کا حکم بھی یہی ہے۔ حتی کہ جو مبنی علی السکون ہوگا کہ جس کے آخر میں سکون ہوتا ہے، جس پر کوئی حرکت نہیں ہے، جیسا بھی عامل آ جائے، اس کا آخر مختلف نہیں ہوتا۔ آسان جو تعریف یاد کرنی ہے زبانی وہ یہی ہوگی۔ اسم مبنی کا حکم کیا ہے؟ جواب: اس کا حکم یہ ہے کہ عوامل کے اختلاف سے اس کا آخر تبدیل نہیں ہوتا، معرب کا ہوتا تھا، "جَاءَ زَیْدٌ"، "رَأَیْتُ زَیْدًا"، "مَرَرْتُ بِزَیْدٍ"۔ جیسے جیسے عامل بدلتا گیا، اس اسم کا آخر بھی بدلتا گیا لیکن جو مبنی ہے، "حُکْمُهُ أَنْ لَا یَخْتَلِفَ آخِرُهُ"۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس کا آخر مختلف نہیں ہوتا "بِاخْتِلَافِ الْعَوَامِلِ"، عوامل کے اختلاف سے، اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

"وَحَرَکَاتُهُ" اس کی حرکات، فرماتے ہیں اس کی حرکات تین ہیں، "وَحَرَکَاتُهُ" اس کی حرکات "تُسَمَّى ضَمًّا"، یعنی اس کا نام رکھا جاتا ہے کہ یہ مبنی علی الضم ہے، مبنی علی الفتح ہے، مبنی علی الکسر ہے "أَوْ سُکُونٌ وَقْفًا"، یا حالت وقف میں مبنی علی السکون کےہے۔ "جَاءَ هَٰذَا"، "رَأَیْتُ هَٰذَا"، "وَمَرَرْتُ بِهَٰذَا"۔ اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اسم مبنی کی اقسام

"وَهُوَ عَلَىٰ ثَمَانِیَةِ أَنْوَاعٍ" اسم مبنی کی آٹھ قسمیں ہیں۔ نمبر ایک: مضمرات یعنی ضمیریں۔ اسماء اشارات، یہ هذا، ذاک، ذلک۔ موصولات، جیسے الذی، التی، الذین وغیرہ۔ اسماء افعال، جیسے روید، بلہ، ان شاءاللہ اس کی تفصیل آرہی ہے۔ اسی طرح اسماء اصوات، جو آوازوں کو نقل کرنے کے لیے ہیں۔ مرکبات، اس کی بھی تفصیل آئے گی۔ کنایات اور کچھ ظروف۔ اب ہم نے یاد کرنے والی چیز  وہ یہ ہے کہ مبنی کی آٹھ قسمیں ہیں۔

۱۔مضمرات

۲۔ اسماء موصولہ

۳۔ اسماء اشارہ

 ۴۔ اسماء افعال

 ۵۔ اسماء اصوات

۶۔ مرکبات

۷۔ کنایات

۸۔ بعض ظروف 

سارے نہیں بعض یہ  آٹھ ہیں۔ یہ ان شاءاللہ آگے بتائیں گے کہ وہ کون کون سے ہیں اور کیا ہیں۔

  وَصَلَّى اللهُ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ

والرابع : بدل الغلط ، وهو ما يذكر بعد الغلط نحو : جاءني زَيْدٌ جَعْفَرٌ ، ورَأَيْتُ رَجُلاً حِماراً.

والبدل إن كان نكرة عن معرفة يجب نعته كقوله تعالى : «بِالنَّاصِيَةِ نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ» (١). ولا يجب ذلك في عكسه ولا في المتجانسين.

القسم الخامس : عطف البيان

وهو تابع غير صفة يوضح متبوعه وهو أشهر اسمي شيء نحو : قامَ أبو حفص عُمَر ، وقامَ أبو عبدُ اللهِ عُمَر ، وقد يلتبس بالبدل لفظاً مثل قول الشاعر :

أنا ابنُ التاركِ البكريّ بِشرٍ

عَلَيْهِ الطّيرُ تَرْقُبُهُ وقُوعاً (٢)

الباب الثاني : في الاسم المبنيّ

وهو ما وقع غير مركّب مع غيره مثل : ألِف ، با ، تا ، ثا ... الخ ، ومثل : أحَد واثْنان وثلاثة مثلاً ، وكلفظ زَيْد وحده ، فإنّه مبنيّ بالفعل

____________________________

(١) العلق : ١٥ و ١٦.

(٢) يعنى منم پسر آنچنان كسى كه واگذارنده است مرد منسوب به قبيله بكر بن وائل را كه اسم آن مرد (بشر) است ، در حالتى كه انتظار مى كشند مرغان ، مردن او را به جهت آنكه واقع شوند بر او و بخورند گوشت او را يا آنكه مرغان انتظار مى‌كشند مردن او را در حالتى كه ايستاده اند بر بالاى سر او.

شاهد در بشر است كه عطف بيان است از ( البكرى ) و مشتبه نمى شود به بدل باعتبار آنكه اگر بدل بوده باشد بايد مبدل منه در حكم سقوط باشد و صحيح باشد گفتن ( التارك بشر ) و حال آنكه جايز نيست به اعتبار آنكه لازم مى آيد اضافه اسم محلّى به لام كه ( التارك ) بوده باشد بسوى اسم خالى از الف و لام كه ( بشر ) است و اين جايز نيست در نزد نحويّين. ( جامع الشواهد ).

على السكون ومعرب بالقوّة ، وما يشابه مبنيّ الأصل بأن يكون في الدلالة على معناه محتاجاً إلى قرينة كأسماء الإشارة نحو : مَنْ هؤُلاءِ ؟ أو يكون على أقلّ من ثلاثة أحرف ، أو تضمّن معنى الحروف وذلك نحو : هذا ، ومِن أحَدَ عَشَرَ إلى تِسْعَة عَشَرَ ، ومثل هذا القسم لا يصير معرباً أصلاً ، وحكمه أن لا يختلف آخره باختلاف العوامل. وحركاته تسمّى ضمّاً وفتحاً وكسراً ، وسكونه وقفاً. وهو على ثمانية أنواع :

المضمرات ، وأسماء الإشارات ، والموصولات ، وأسماء الأفعال والأصوات ، والمركّبات ، والكنايات وبعض الظروف.

النوع الأوّل : المضمرات

وهي اسم ما وضع ليدلّ على متكلّم أو مخاطب أو غائب ، تقدّم ذكره لفظاً أو معنىً أو حكماً. وهو على قسمين :

متّصل : وهو ما لا يستعمل وحده ، إمّا مرفوع نحو : ضَرَبْتُ إلى ضَرَبْنَ ، أو منصوب نحو : ضَرَبَني إلى ضَرَبَهُنَّ ، أو مجرور نحو : غُلامي ولي إلى غُلامِهِنَّ ولَهُنَّ.

أو منفصل : وهو ما يستعمل وحده ، وهو أيضاً إمّا مرفوع وهو : أنا إلى هُنَّ ، وإمّا منصوب نحو : إيّاي إلى إيّاهُنَّ. فذلك سبعون ضميراً.

واعلم أنّ المرفوع المتّصل يكون مستتراً ، أي مستكناً في الماضي المغائب والمغائبة ك‍ : ضَرَبَ هُوَ ، وضَرَبَتْ هِيَ ، وفي المضارع المتكلّم مطلقاً نحو : أضْرِبُ ، نَضْرِبُ ، والمخاطب ك‍ : تَضْرِبُ ، والغائب والغائبة ك‍ : يَضْرِبُ وتَضْرِبُ ، وفي الصفة أعني اسم الفاعل والمفعول مطلقاً. ولا يجوز استعمال المنفصل إلّا عند تعذّر المتّصل ك‍ : «إِيَّاكَ نَعْبُدُ» (١) وما

____________________________

(١) الفاتحة : ٤.

ضَرَبَكَ إلّا أنا.

واعلم أنّ لهم ضميراً غائباً يقع قبل جملة يفسّره الجملة المذكورة بعده ويسمّى ضمير الشأن في المذكّر وضمير القصّة في المؤنّث نحو : «قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ» (١) ، وهي هندٌ مليحةٌ ، وإنّها زَيْنَبُ قائِمَةٌ.

وقد يدخل بين المبتدأ والخبر ضمير مرفوع منفصل مطابق للمبتدأ إذا كان الخبر معرفة ، أو أفْعَل مِنْ كَذا ، ويسمّى فصلاً لأنّه يفصل بين المبتدأ والخبر نحو : زَيْدٌ هُوَ الْقائِمُ ، وكانَ زَيْدٌ هُوَ الْقائِمَ ، وزَيْدٌ هُوَ أفْضَلُ مِنْ عَمْروٍ ، وقال الله تعالى : «كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ» (٢).

النوع الثاني : أسماء الإشارات

ما وضع ليدلّ على مشار إليه وهي خمسة ألفاظ لستّة معانٍ : «ذا» للمذكّر ، ولمثنّاه «ذانِ» و «ذَيْنِ» ، وللمؤنّث : «تا وتي وذي وتِه وذه وتِهي وذِهي» ، ولمثنّاها «تانِ» و «تيْنِ» ولجمعهما «اُولاء» بالمدّ والقصر. وقد تدخل بأوائلها هاء التنبيه ، «كهذا» و «هؤُلاءِ».

ويتّصل بأواخرها حرف الخطاب ، وهي خمسة ألفاظ : كَ‍ ، كُما ، كُمْ كِ‍ ، كُما ، كُنَّ. فذلك خمسة وعشرون ، الحاصل من ضرب خمسة في خمسة ، وهي ذاك إلى ذاكُنَّ ، وذانِكَ إلى ذانِكُنَّ ، وكذا البواقي.

واعلم أنّ «ذا» للقريب ، و «ذلك» للبعيد ، و «ذاكَ» للمتوسّط.

النوع الثالث : الموصولات

الموصول : اسم لا يصلح أن يكون جزءً تامّاً من جملة إلّا بصلة بعده

____________________________

(١) سورة الاخلاص : ١.

(٢) المائدة : ١١٧.