درس الهدایة في النحو

درس نمبر 27: بحث تابع 4

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

بدل کی تعریف اور اس کی اقسام

بدل کی تعریف

"الْبَدَلُ تَابِعٌ يُنْسَبُ إِلَيْهِ مَا نُسِبَ إِلَى مَتْبُوعِهِ وَهُوَ الْمَقْصُودُ بِالنِّسْبَةِ دُونَ مَتْبُوعِهِ"۔ توابع کی اقسام خمسه میں سے چوتھا تابع هے البدل۔ بدل وه لفظ هے، بدل وه تابع هے، بدل وه اسم هوتا هے که "يُنْسَبُ إِلَيْهِ مَا نُسِبَ إِلَى مَتْبُوعِهِ" که جو نسبت اس کے متبوع کی طرف دی جاتی ہے وهی نسبت اس تابع کی طرف دی جاتی هے، لیکن یہاں مقصود بالنسبة  ہوتا ہے، متبوع نہیں۔ یاد هوگا عطف بالحرف میں هم نے کها تها که جو نسبت متبوع کی طرف ہوتی ہے وهی تابع کی طرف ہوتی هے، لیکن وہاں معطوف اور معطوف علیه، عطف نسق میں ، دونوں مقصود بالنسبة هوتے هیں ۔ "جَاءَنِي زَيْدٌ وَعَمْرٌو" یعنی دونوں آئے، آنے کی نسبت زید کی طرف بھی تھی اور امر کی طرف بھی تھی۔ لیکن بدل میں یه ہوتا ہے که جو نسبت پہلے متبوع کی طرف دی گئی ہوتی ہے، وهی نسبت اس تابع  یعنی بدل کی طرف هوتی ہے۔ لیکن مقصود بالنسبة  وه بدل ہوتا ہے، یہاں تابع ہے، متبوع نہیں۔ 

بدل کی چار قسمیں

فرماتے ہیں: بدل کی چار قسمیں ہیں۔ بهت مشهور ہے نحو میں، بدل کی چار قسمیں هیں۔ بدل الکل، بدل البعض، بدل الاشتمال اور بدل الغلط، مشهور ہیں۔ 

۱۔اگر بدل مبدل منه کا کل ہو، یعنی عین مبدل منه ہو۔ اس بدل الکل  کو کهتے ہیں ۔

۲۔ اگر بدل کا مدلول مبدل منہ، متبوع کے مدلول کا جزء ہو تو اس کو بدل البعض  کهتے ہیں ۔

۳۔ اگر بدل مبدل منہ یعنی متبوع کا متعلق ہو، نه عین ہو، نه جزء اس سے متعلق  ہو اس کا اس سے رابطه هو، اس کو بدل الاشتمال  کهتے هیں۔

۴۔ هم نے پهلے متبوع کو غلط ذکر کیا، اس کے بعد اس کا بدل لائے جو که صحیح تھا، اس کو  بدل الغلط کهتے ہیں۔ یه چار مشهور قسمیں ہیں بدل کی۔ بدل الکل، بدل البعض، بدل الاشتمال اور  بدل الغلط۔

 متن کی تطبیق

"الْبَدَلُ تَابِعٌ" یعنی توابع میں سے چوتھا تابع  بدل  ہے ۔ بدل وه تابع ہے، "يُنْسَبُ إِلَيْهِ" که اس بدل کی طرف بھی وهی نسبت دی جاتی ہے "مَا نُسِبَ إِلَى مَتْبُوعِهِ" جو نسبت اس کے متبوع کی طرف دی گئی تھی۔ جو نسبت متبوع کی طرف تھی، اس تابع، بدل کی طرف بھی وهی نسبت ہوتی هے ، "هُوَ الْمَقْصُودُ بِالنِّسْبَةِ" لیکن اس نسبت سے مقصود، یه مقصود بالنسبة بدل هوتا هے "دُونَ مَتْبُوعِهِ" اس کا متبوع مقصود بالنسبة نهیں ہوتا۔ یعنی اس نسبت سے اصل جو قصد کیا جاتا ہے،جو بدل کا کیا جاتا ہے،مبدل منه کا نهیں کیا جاتا۔ 

فرماتے ہیں: "وَأَقْسَامُ الْبَدَلِ أَرْبَعَةٌ"۔ بدل کی چار قسمیں ہیں۔ یه  بات بڑی مشهور ہے۔ بدل کی چار قسمیں هیں۔

 ۱۔"بَدَلُ الْكُلِّ مِنَ الْكُلِّ"۔ یه کیا ہوتا ہے؟ "هُوَ مَا کَانَ مَدْلُولُهُ مَدْلُولَ الِمَتْبُوعِ" که جس بدل کا مدلول عین مدلول متبوع ہو، یعنی بدل جس پر دلالت کر رہا ہے، اس کا متبوع بھی بعینہٖ اسی پر دلالت کر رہا ہو، یعنی دونوں کا مدلول ایک ہو، اس کو کهتے ہیں بدل الکل من الکل جیسے "جَاءَنِي زَيْدٌ أَخُوكَ"۔ میرے پاس آیا زید اور آگے ہے أَخُوكَ۔ اب أَخُوكَ  کا مدلول بھی وہی زید ہے اور زید کا مدلول بھی وہی ہے۔ یعنی وہی شخص ہے جس کو اس نے زید کها پهلے اور پھر کها أَخُوكَ، تیرا بھائی۔ اب یہاں  جَاءَ کی جو نسبت ہے، آنے کی، وه مقصود بالنسبة  یهی  أَخُوكَ  ہے چونکه مدلول زید اور  أَخُوكَ کا  ایک ہی ہے۔ 

۲۔ "بَدَلُ الْبَعْضِ مِنَ الْكُلِّ"۔ بدل البعض من الکل سے بعض، وه کیا ہے؟ "مَا مَدْلُولُهُ" یعنی جس بدل کا مدلول متبوع کے مدلول کا جزء هو۔ یعنی بدل جس پر دلالت کر رہا ہے وه مبدل منه کے مدلول کا جزء ہے، جیسے "ضَرَبْتُ زَيْدًا رَأْسَهُ" میں نے مارا زید کو، آگے کهتا ہے رأسہ۔ اب یه ضربت میں جو نسبت تھی مارنے کی، اب یه ہے، پهلے  نسبت دی گئی زید کی طرف، بعد میں ہے رأسہ، تو جو نسبت زید کی طرف تھی وہی راس کی طرف ہے، لیکن مقصود بالذات یہاں رأسہ  ہے، زید نہیں۔ اور رأسہ یعنی اس کا سر، اب یه سر، راس کا جو مدلول ہے، یه اس زید کا جزء ہے۔ اس کو کهتے ہیں:  بدل البعض من الکل۔

۳۔"بَدَلُ الْاِشْتِمَالِ"، بدل الاشتمال کیا ہے؟ "هُوَ مَا کَانَ مَدْلُولُهُ مُتَعَلِّقَ الْمَتْبُوعِ" یعنی جس کا مدلول اس متبوع کے متعلق ہو، یعنی اس کا اس سے تعلق ہو، اس کا اس سے رابط ہو، جیسے ہم کهتے ہیں:"سُلِبَ زَيْدٌ ثَوْبُهُ"۔ سلب کی نسبت جو زید کی طرف دی گئی ہے، یهی نسبت دی گئی ہے اس کے کپڑوں کی طرف لیکن یہاں مقصود بالنسبة ثوب ہے، زید نہیں۔ سلب یعنی چھینا گیا زید، پھر کهتا ہے،  ثَوْبُهُ اس کے کپڑے۔ تو گویا یہاں بتانا چاہتے ہیں که اس کے کپڑے چھینے گئے۔ اور یه جو ثوب ہے، نه زید کی جزء ہے، نه زید کا عین یعنی  کل ہے، بلکه یه اس سکےمتعلق ہے۔ چونکه یه کپڑے اسی کے  تھے، اس کا اس سے اس حوالے سے ربط ہے۔

۴۔  "بَدَلُ الْغَلَطِ"۔ بدل الغلط کیا ہے؟  "مَا يُذْكَرُ بَعْدَ الْغَلَطِ" که آپ نے پهلے ایک چیز  بیان کی، وه غلط تھی، اس کے بعد آپ نے صحیح چیز کو بیان کیا تو جو صحیح بیان ہوگا وه بدل ہوگا، اس کو کهیں گے بدل الغلط۔ جیسے "جَاءَنِي زَيْدٌ جَعْفَرٌ" یعنی گویا آپ زیدٌ غلطی سے کهه  بیٹھے، بلکه آپ کے پاس زید نهیں بلکه جعفر آیا تھا، پھر آپ نے کها جعفرٌ، یه زید بدل الغلط ہے اور آنے کی نسبت بھی اسی جعفر کی طرف ہے، "رَأَيْتُ رَجُلًا"، پهلے آپ نے کها: میں نے دیکھا رجلًا، ایک مرد، پھر کهتے ہیں حِمَارًا۔ اب یہاں دیکھنے کی جو نسبت ہے وه  حِمَارًا کی طرف ہے   رجلًا غلط کها تھا بلکه حمار دیکھا۔ یه هو گئیں بدل کی چار اقسام۔ اب ان کو ذرا آسان سے یاد کرنا: بدل الکل من الکل، بدل البعض من الکل، بدل الاشتمال اور بدل الغلط۔

فرماتے ہیں: "وَالْبَدَلُ إِنْ كَانَ نَكِرَةً مِنْ مَعْرِفَةٍ يَجِبُ نَعْتُهُ"، ہو سکتا ہے بدل اور مبدل منه، یعنی تابع اور متبوع دونوں معرفه هوں، ہو سکتا ہے دونوں نکره هوں، ہو سکتا ہے متبوع معرفه هو بدل نکره هو، هو سکتا ہے متبوع نکره هو بدل معرفه هو،  تو گویا چار قسمیں بن سکتی هیں۔ اب یہاں بیان فرما رہے هیں ایک قسم کو که اگر کهیں متبوع معرفه هو، مبدل منه معرفه هو، لیکن اس کا بدل یعنی تابع نکره هو، تو اس نکره کے ساتھ صفت کا ذکر کرنا واجب ہے۔ میں نے گزارش کی ہے  که چار قسمیں هیں: یا بدل اور مبدل منه دونوں معرفه هوں گے، ایک، دونوں نکره هوں گے، دو، یا بدل نکره هوگا اور متبوع معرفه هوگا، تین، یا اس کا الٹ، مبدل منه نکره  اور بدل معرفه ہے، چار، اب ان چار میں سے فقط ایک قسم میں، ایک صورت میں  یعنی تیسری ، بدل نکره  اور متبوع معرفه یعنی مبدل منه معرفه ، اس صورت میں بدل کے ساتھ صفت کا لگانا واجب ہے۔ جیسے قرآن مجید میں اس کا شاهد موجود ہے "بِالنَّاصِيَةِ، نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ"۔ "النَّاصِيَةِ" یه مبدل منہ ہے، لیکن چونکه اس پر الف لام ہے، یه معرفه ہے، اس کا بدل آیا "نَاصِيَةٍ"، ناصیۃ چونکه نکره تھا، اس کے ساتھ "كَاذِبَةٍ" کی صفت ذکر هے۔ "لَا يَجِبُ ذَلِكَ فِي عَكْسِهِ" لیکن اگر چوتھی قسم هو، وه کونسی؟ که اگر بدل معرفه هو اور مبدل منه نکره هو، تو پهر اس نکره کے ساتھ بھی صفت لگانے کی ضرورت نهیں ہے۔ اسی طرح "وَلَا فِي الْمُتَجَانِسَيْنِ" اگر پهلی دو قسمیں هوں، که اگر بدل اور متبوع دونوں معرفه هیں یا بدل اور متبوع دونوں نکره هیں، تو پھر بھی نکره کے ساتھ کسی صفت کے لگانے کی ضرورت نهیں ہے۔

4

عطفِ بیان کی تعریف

عطفِ بیان کی تعریف

اس کے بعد فرماتے ہیں: ایک آخری اور وہ یہ ہے کہ پانچویں قسم ہے عطفِ بیان۔  عطف بیان کیا ہے؟ عطفِ بیان وہ تابع ہوتا ہے جو صفت نہیں ہوتا چونکہ اگر صفت ہو گا وہ تو نعت میں آ گیا۔ عطفِ بیان وہ تابع ہے، وہ لفظ ہے، وہ اسم ہے جو اپنے متبوع کی وضاحت کرتا ہے۔ "وَضَّحَ يُوَضِّحُ"، "توضیح" اگر تفعیل ماضی اس کا بنائیں گے باب، عطفِ بیان وہ تابع ہے، وہ اسم ہے، وہ لفظ ہے جو صفت نہیں ہوتا اور اپنے متبوع کی وضاحت کرتا ہے، توضیح کرتا ہے، اس کو مزید کھول کر بیان کرتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ایک چیز کے دو نام ہوتے ہیں، ایک نام ذرا زیادہ مشہور ہوتا ہے۔ اگر پہلے غیر مشہور نام کو ذکر کیا جائے اور بعد میں مشہور کو ذکر کیا جائے تو جو بعد میں مشہور ذکر کیا جاتا ہے اسی کو عطفِ بیان کہا جاتا ہے۔ عطف البیان کیا ہے؟ "تَابِعٌ"۔ عطف بیان وہ، عطف بیان وہ لفظ ہے، عطف بیان وہ تابع ہے، "غَيْرُ صِفَةٍ" جو صفت کا غیر ہوتا ہے، یعنی جو صفت نہیں ہوتا۔ "يُوَضِّحُ مَتْبُوعَهُ" اور اپنے متبوع کی توضیح کرتا ہے، اپنے متبوع کی وضاحت کرتا ہے، اپنے متبوع کو کھول کر بیان کرتا ہے۔ فرماتے ہیں، "هُوَ أَشْهَرُ اِسْمَيْ شَيْءٍ" یعنی ایک شئ کے دو نام ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک اسم زیادہ مشہور ہوتا ہے۔ تو جو زیادہ مشہور ہو گا اس کو جب ذکر کریں گے تو اس کو کہا جاتا ہے عطفِ بیان یعنی اپنے پہلے متبوع کی وضاحت کر رہا ہوتا ہے۔ جیسے ہم کہیں "قَامَ أَبُو حَفْصٍ عُمَرُ"۔ اب ابو حفص بھی اسی بندے کا نام ہے، عمر بھی اسی کا ہے لیکن عمر، ابو حفص کی نسبت زیادہ مشہور ہے، اس عمر کو کہا جائے گا کہ یہ ابو حفص کا عطف البیان ہے۔ "قَامَ عَبْدُ اللهِ ابْنُ عُمَرَ"۔ اب عبدالله بھی وہی بندہ ہے، ابن عمر بھی وہی بندہ ہے لیکن ابن عمر، عبدالله کی نسبت زیادہ مشہور ہے۔ یا جیسے ہم کہتے ہیں، "أَخْبَرَنَا أَمِيرُ المُؤْمِنِينَ عَلِيٌّ"۔ اب امیرالمومنین بھی وہی، علی بھی وہی لیکن علی امیرالمومنین کی بابت زیادہ مشہور ہے۔ "أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الصَّادِقُ"۔ اب ابو عبدالله بھی وہی شخصیت، الصادق بھی وہی شخصیت لیکن الصادق زیادہ مشہور ہے، یہ اس کا عطفِ بیان ہو گا۔

5

عطفِ بیان اور بدل میں فرق

عطفِ بیان اور بدل میں فرق

آگے فرماتے ہیں "وَلَا يَلْتَبِسُ بِالبَدَلِ لَفْظًا" یہ عطف بیان:

۱۔ایک تو اس میں یہ ہے کہ یہ صفت کا غیر ہوتا ہے، صیغہ صفت کا نہیں ہوتا، یعنی عطف بیان صیغہ صفت کا جیسے ضاربٌ، قائمٌ وغیرہ یہ نہیں ہوتا۔

۲۔ "وَلَا يَلْتَبِسُ بِالبَدَلِ لَفْظًا" اور لفظاً یہ بدل کے ساتھ التباس بھی نہ ہو یعنی کہیں کہ شاید یہ بدل ہے یا وہ ہے ایسا بھی نہ ہو یعنی اس کا التباس لفظی طور پر یا معنوی طور پر بدل کے ساتھ بھی نہ ہو۔ وہاں عطف بیان ہوتا ہے۔ مثال اس کی انہوں نے ایک شعر دی ہے جبکہ ہمارے پاس مثالیں وہی ہیں جو میں نے آپ کو مثال دی تھی مثلاً "قَالَ أَمِيرُ المُؤْمِنِينَ عَلِيٌّ"۔ اب دیکھو علیٌ علیہ السلام یہ  اس کے  بجائے اسم اشہر ہے۔ 

شعر سے مثال

انہوں نے مثال  ایک شعر دیا ہے، وہ کیا ہے؟ شاعر کا ایک شعر یہ ہے "أَنَا ابْنُ التَّارِكِ البِكْرِيِّ بِشْرٍ عَلَيْهِ الطَّيْرُ تَرْقُبُهُ وُقُوعَا"۔ "أَنَا ابْنُ التَّارِكِ"، تارکِ بکری۔ اب میں تارکِ بکری کا بیٹا ہوں۔ اب تارکِ بکری یہ متبوع ہے، "بِشْرٍ" یہ تابع ہے۔ یہ عطف بیان ہے چونکہ بشر زیادہ مشہور ہے تارکِ بکری سے لہٰذا "بِشْرٍ" عطفِ بیان ہے تارکِ بکری کا۔ اس کا لفظی ترجمہ ہے، انا ابن التارک، میں بیٹا ہوں تارکِ بکری یعنی بشرٍ جو کہ بشر کے نام سے مشہور ہے "عَلَيْهِ الطَّيْرُ تَرْقُبُهُ" جس پر پرندے واقع ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔

اب الحمدلله یہاں پر ہم نے اسمِ معرب کی بحث کو یعنی باب اول اسم میں جو اسم معرب تھا اس کی بحث بحمدلله مکمل کر لی۔ ا   گلے درس میں ان شاءالله باب ثانی اسمِ مبنی کی بحث کو شروع کریں گے۔

وَصَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ

الضمير في كلّ تقول : اشْتَرَيْتُ الْعَبْدَ كُلَّهُ ، وجاءني الْقَوْمُ كُلُّهُمْ ، واشْتَرَيْتُ الْجاريّةَ كُلَّها ، وجاءت النساءُ كُلُّهُنَّ.

وباختلاف الصيغة في البواقي وهي : أجْمَعُ وأخواتها تقول : اشْتَرَيْتُ الْعَبْدَ كُلَّهُ أجْمَعُ أكْتَعُ أبْتَعُ أبْصَعُ ، وجاءني الْقَوْمُ كُلُّهُمْ أجْمَعُونَ أكْتَعُونَ أبْتَعُونَ أبْصَعُونَ ، واشْتَرَيْتُ الْجاريةَ كُلَّها جَمْعاء كَتْعاء بَتْعاء بَصْعاء ، وقامَتِ النساء كُلُّهُنَّ جُمَعُ كُتَعُ بُتَعُ بُصَعُ.

وإذا أردت تأكيد الضمير المتّصل بالنفس والعين يجب تأكيده بضمير مرفوع منفصل تقول : ضَرَبْتَ أنْتَ نَفْسَكَ.

ولا يؤكّد بكُلّ وأجْمَع إلّا ماله أجزاء وأبعاض يصحّ افتراقها حسّاً كالقوم ، أو حكماً كما تقول : اشْتَرَيْتُ الْعَبْدَ كُلَّهُ ، ولا تقول : أكْرَمْتُ الْعَبْدَ كُلَّهُ.

واعلم أنّ أكْتَع وأخواتها أتباع لأجْمَع إذ ليس لها معنى دونها ، ولا يجوز تقديمها على أجْمَع ولا يجوز ذكرها دونه.

القسم الرابع : البدل

وهو تابع ينسب إليه ما نسب إلى متبوعه وهو المقصود بالنسبة دون متبوعه وأقسام البدل أربعة :

الأوّل : بدل الكلّ من الكلّ ، وهو ما كان مدلوله مدلول المتبوع نحو : جاءني زَيْدٌ أخُوكَ.

والثاني : بدل البعض من الكلّ ، وهو كلّ ما كان مدلوله جزء المتبوع نحو : ضَرَبْتُ زَيْداً رَأسَهُ.

والثالث : بدل الاشتمال ، وهو ما كان مدلوله متعلّق المتبوع نحو : سُلِبَ زَيْدٌ ثَوْبُهُ ، وأعْجَبَني عَمْروٌ عِلْمُهُ.

والرابع : بدل الغلط ، وهو ما يذكر بعد الغلط نحو : جاءني زَيْدٌ جَعْفَرٌ ، ورَأَيْتُ رَجُلاً حِماراً.

والبدل إن كان نكرة عن معرفة يجب نعته كقوله تعالى : «بِالنَّاصِيَةِ نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ» (١). ولا يجب ذلك في عكسه ولا في المتجانسين.

القسم الخامس : عطف البيان

وهو تابع غير صفة يوضح متبوعه وهو أشهر اسمي شيء نحو : قامَ أبو حفص عُمَر ، وقامَ أبو عبدُ اللهِ عُمَر ، وقد يلتبس بالبدل لفظاً مثل قول الشاعر :

أنا ابنُ التاركِ البكريّ بِشرٍ

عَلَيْهِ الطّيرُ تَرْقُبُهُ وقُوعاً (٢)

الباب الثاني : في الاسم المبنيّ

وهو ما وقع غير مركّب مع غيره مثل : ألِف ، با ، تا ، ثا ... الخ ، ومثل : أحَد واثْنان وثلاثة مثلاً ، وكلفظ زَيْد وحده ، فإنّه مبنيّ بالفعل

____________________________

(١) العلق : ١٥ و ١٦.

(٢) يعنى منم پسر آنچنان كسى كه واگذارنده است مرد منسوب به قبيله بكر بن وائل را كه اسم آن مرد (بشر) است ، در حالتى كه انتظار مى كشند مرغان ، مردن او را به جهت آنكه واقع شوند بر او و بخورند گوشت او را يا آنكه مرغان انتظار مى‌كشند مردن او را در حالتى كه ايستاده اند بر بالاى سر او.

شاهد در بشر است كه عطف بيان است از ( البكرى ) و مشتبه نمى شود به بدل باعتبار آنكه اگر بدل بوده باشد بايد مبدل منه در حكم سقوط باشد و صحيح باشد گفتن ( التارك بشر ) و حال آنكه جايز نيست به اعتبار آنكه لازم مى آيد اضافه اسم محلّى به لام كه ( التارك ) بوده باشد بسوى اسم خالى از الف و لام كه ( بشر ) است و اين جايز نيست در نزد نحويّين. ( جامع الشواهد ).