درس الهدایة في النحو

درس نمبر 26: بحث تابع 3

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

تاکید کی تعریف اور اقسام

 تاکید کی تعریف اور اقسام کا تعارف

توابع کی اقسام خمسہ میں سے تیسری قسم تابع کی ہے تاکید۔ تاکید کے بارے میں فرماتے ہیں: کہ تاکید وہ تابع ہےجو دلالت کرتا ہے

"عَلَى تَقْرِيرِ الْمَتْبُوعِ" یہ تقریر کاف کشش والی کے ساتھ نہیں ہے اس کا معنیٰ ہوتا ہے تکرار کرنا یعنی بار بار کرنا۔ یہ تقریر قاف کے ساتھ ہے دو نقطی۔ یعنی متبوع  کی تقریر پر کیا مطلب؟ یعنی جو نسبت میرے متبوع کی طرف دی گئی ہے وہ اس میں مقرر ہے وہ اس میں پکی ہے، پختہ ہے، کنفرم ہے آپ انگریزی والوں کے نزدیک یعنی اس کی پختگی کے اوپر دلالت کرتا ہے کہ یہ بالکل بات ایسے ہی ہے جیسے جو نسبت اس کی طرف دی گئی ہے۔تاکیدیہ ہے۔یا تاکید یہ بیان کرتی ہےکہ یہ حکم   جو میرے متبوع کی طرف یا میرے متبوع پر لگایا گیا ہے یہ حکم میرے متبوع کے ہر ہر فرد کو شامل ہے۔مثالیں بڑی آسان ہیں ان شاء اللہ بعد میں آئیں گی۔ مثلا پہلے کی مثال"جَاءَنِي زَيْدٌ نَفْسُهُ"۔ میرے پاس آیا زید۔ اب نفسہ اسی کی تاکید ہے۔ اب یہ بیان کر رہا ہے کہ وہ جو آنے کی نسبت زید کی طرف دی گئی ہے یہ پختہ ہے نفسہ وہ خود آیا ہے بھائی خود آیا ہے اس کا لیٹر نہیں آیا، اس کا کوئی ملازم نہیں آیا۔ یعنی وہ نسبت جو متبوع کی طرف ہے اس کو پختہ کرتا ہے۔

یا کہتے ہیں  کہ یہ تاکید دلالت کرتی ہے کہ یہ حکم میرے متبوع کے تمام افراد کو شامل ہے۔ جیسے قرآن مجید کی آیت ہے "فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ"۔ اب ان شاء اللہ آگے ہم پڑھیں گے کل اور اجمعون یہ تاکید کے لیے ہیں اور یہ بتا رہے ہیں کہ  ملائکہ کوجو سجدے والا حکم ہے یہ ملائکہ کے ہر ہر فرد کو شامل ہے یعنی جو بھی تھے سب نے کیا۔

تاکید کی اقسام: لفظی و معنوی

فرماتے ہیں:  تاکید کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک ہوتی ہے تاکید لفظی اور ایک ہوتی ہے تاکید معنوی۔

تاکید لفظی تو یہ ہوتی ہے کہ ایک ہی لفظ کو دوبارہ کہہ دیں یعنی وہ لفظ جو متبوع والا ہے اس کو دوبارہ کہہ دیں تو دوسرا اس کی تاکید اور تابع بن جائے گا جیسے "جَاءَنِي زَيْدٌ زَيْدٌ"۔ جو دوسرا زید ہو گا یہ تابع ہو گا اور تاکید ہو گا اسی پہلے زید کی، وہ متبوع ہو گا۔

 یہ تو ہو گئی تاکید لفظی۔ لیکن تاکید معنوی کیا ہوتی ہے؟  تاکید معنوی کے کچھ خاص الفاظ ہیں، کچھ خاص کلمات ہیں کہ وہ کلمات بھی تاکید کا معنی دیتے ہیں۔ جب کسی بھی متبوع کے بعد ان خاص الفاظ کے ساتھ اس کی تاکید کی جائے گی اس تاکید کو کہا جاتا ہے تاکید معنوی۔

 تاکید معنوی کے مخصوص الفاظ

اب فرماتے ہیں: کہ وہ خاص الفاظ کونسے ہیں؟وہ معینہ الفاظ کونسے ہیں کہ جن کے ذریعے تاکید کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ تاکید تاکید معنوی ہے۔ اب ان کو لکھ لیں شاید دوبارہ کہیں ان کا ذکر بھی آئے گا۔وہ ہیں

"نَفْسٌ""عَيْنٌ"، "كُلٌّ"، "كِلَا"، "كِلْتَا"، "أَجْمَعُ"، "أَكْتَعُ"، "أَبْتَعُ" اور "أَبْصَعُ"۔ تو آپ کہیں گے: اگر کسی متبوع کا تابع

یا کسی کی تاکید ان نو الفاظ میں سے کسی لفظ کے ساتھ کی جائے گی تو پھر وہاں کہا جاتا ہے کہ یہ تاکید تاکید معنوی ہے۔

اب پھر یہ مفرد ہوگا تو نفس کہیں گے، تثنیہ یا جمع ہوگا تو اس کے لیے پھر صیغہ جمع کا ہوتا ہے انفس ہوتا ہے یا اعین ہوتا ہے۔ ان شاء اللہ آگے مثالیں آئیں گی تو پھر وہ واضح ہو جائیں گی۔

4

تاکید معنوی کے الفاظ اور ان کا استعمال

تطبیق

"التَّأْكِيدُ" یعنی توابع میں سے تیسری قسم ہے تابع کی تاکید۔"التَّأْكِيدُ تَابِعٌ"۔ تاکید وہ تابع ہے "يَدُلُّ" جو دلالت کرتا ہے "عَلَى تَقْرِيرِ الْمَتْبُوعِ" اپنے متبوع کی تقریر پر، پختگی پر۔کس میں؟ "فِيمَا نُسِبَ" اس چیز میں جو نسبت اس کے متبوع کی طرف دی گئی ہوتی ہے، جیسے جَاءَنِي زَيْدٌ نَفْسُهُ"۔ یہ نفسہ تاکید کر رہا ہے کس کی؟ کہ جو نسبت دی گئی زید کی طرف کہ میرے پاس آیا زید وہ آنے کی نسبت پختہ ہے یعنی کنفرم ہے کہ نفسہ وہ خود آیا ہے کوئی اس کا لیٹر، کوئی اس کا نمائندہ، وہ مراد نہیں ہے۔یا تاکید دلالت کرتی ہے کس پر؟ 

"عَلَى شُمُولِ الْحُكْمِ لِكُلِّ فَرْدٍ مِنْ أَفْرَادِ الْمَتْبُوعِ"۔ یعنی تاکید وہ تابع ہے جو دلالت کرتی ہے کہ یہ حکم شامل ہے میرے متبوع کے افراد میں سے ہر ہر فرد کو یعنی یہ حکم میرے متبوع کے تمام افراد کے لیے ہے۔

 جیسے "فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ"۔ یہ کل بتا رہا ہے کہ تمام ملائکہ نے سجدہ کیا یعنی ملائکہ کے فرد فرد نے یہ حکم جو سجدے والا اس کو شامل ہے۔"وَالتَّأْكِيدُ عَلَى قِسْمَيْنِ"۔ تاکید کی دو قسمیں ہیں "لَفْظِيٌّ وَمَعْنَوِيٌّ" تاکید لفظی بھی ہوتی ہے اور تاکید معنوی بھی ہوتی ہے۔ 

تاکید لفظی کیا ہوتی ہے؟ تاکید لفظی سے مراد ہے "هُوَ تَقْرِيرُ اللَّفْظِ الْأَوَّلِ"۔ اسی پہلے لفظ کو یعنی متبوع والے لفظ کا تکرار کرنا اسی کو دوبارہ ذکر کر دینا بس یہ تاکید بن جائے گی۔ جیسے ہم کہتے ہیں:  "جَاءَنِي زَيْدٌ زَيْدٌ" اب پہلا زید متبوع بن جائے گا، دوسرا زید  تابع اور تاکید بن جائے گا۔ یا ہم کہتے ہیں:"جَاءَ جَاءَ زَيْدٌ" اب پہلا جاء جو ہے وہ متبوع ہوگا، دوسرا جاء اس کا تابع اور تاکید ہوگی۔ چونکہ اسی لفظ کا تکرار یہ تاکید لفظی کہلاتا ہے۔

"وَمَعْنَوِيٌّ" اور تاکید معنوی کیا ہے؟ فرماتے ہیں : "هُوَ بِأَلْفَاظٍ مَعْدُودَةٍ" تاکید لفظی کے لیے کچھ الفاظ معین ہیں، مختص ہیں، مشخص ہیں، معدود ہیں کہ ان الفاظ کے ساتھ اگر تاکید ہوگی تو وہ تاکید معنوی کہلائے گی۔

 تاکید معنوی: نفس اور عین کا استعمال

اچھا۔ تاکید معنوی کونسی ہے؟ فرماتے ہیں""هِيَ النَّفْسُ وَالْعَيْنُ"۔ مثلاًلفظ نفس، لفظ عین،  "لِلْوَاحِدِ وَالْمُثَنَّى وَالْمَجْمُوعِ باخْتِلَافِ الصِّيغَةِ وَالضَّمِيرِ"یعنی لفظ عین اور لفظ نفس کے ساتھ جو تاکید اور بھی ہیں آگے آ رہا ہے جیسے میں نے پہلے آپ کو نو الفاظ بتائے ہیں۔

کے ساتھ تاکید کی جائے گی یہ تاکید تاکید معنوی ہے۔ البتہ یہ خیال رکھنا ہے کہ جب واحد کے لیے ہوگی تو صیغہ بھی واحد کا ہوگا، تثنیہ اور جمع کا ہوگا تو صیغہ بھی بدل جائے گا اور ہر ایک کے ساتھ ضمیر بھی بدل جائے گی۔ یعنی اگر واحد ہوگا تو نفس کے ساتھ ضمیر واحد کی ہوگی، تثنیہ اور جمع ہوں گے تو پھر ان کے ساتھ ضمیریں بھی اسی تثنیہ اور جمع کی ہوں گی، مثال:"جَاءَنِي زَيْدٌ نَفْسُهُ"اب زیدمفرد تھا، نفس مفرد ہے اور نفسہ میں ضمیر بھی مفرد ہے۔"جَاءَنِي الزَّيْدَانِ أَنْفُسُهُمَا"یا "نَفْسَاهُمَا" دونوں صحیح ہیں چونکہ زیدان تثنیہ آ گیا لہذا ہم نے لفظ کو بھی تثنیہ "نَفْسَاهُمَا" یا "أَنْفُسُهُمَا" کوئی حرج نہیں اور ضمیر بھی ساتھ ھما کی لگا دی۔

"جَاءَنِي الزَّيْدُونَ أَنْفُسُهُمْ"۔ اب زیدون چونکہ متبوع جمع تھا ہم نے وہ لفظ نفس کو بھی جمع انفس اور ساتھ ضمیر بھی جمع کی لگا دی۔

یا اسی طرح "جَاءَنِي الزَّيْدَانِ عَيْنُهُ" یا "أَعْيُنُهُمَا" یا "عَيْنَاهُمَا" دونوں سے جو "أَعْيُنُهُمْ"۔ اسی طرح "جَاءَتْنِي هِنْدٌ نَفْسُهَا"۔ ھند چونکہ مونث تھی، ضمیر بھی مونث کی لائے،  "جَاءَتْنِي الْهِنْدَانِ أَنْفُسُهُمَا" یا "نَفْسُهُمَا" دونوں صحیح ہیں۔ چونکہ ھما کی ضمیر مفرد مونث دونوں کے لیے آتی ہے۔ "جَاءَتْنِي الْهِنْدَاتُ أَنْفُسُهُنَّ"۔ ہندات جمع مونث تھا، نفس کی بھی ہم جمع انفس لائے اور ضمیر بھی ھن کی جو جمع مونث کی ہوتی ہے تو بس وہ کونسے الفاظ ہیں جن کے ساتھ تاکید معنوی ہوتی ہے؟ نفس اور عین۔

تاکید معنوی: کلا اور کلتا کا استعمال

"وَكِلَا وَكِلْتَا لِلتَّثْنِيَةِ"۔ فرق یہ ہے کہ نفس اور عین یہ  مفرد کی تاکید بھی بن سکتے ہیں، تثنیہ اور جمع کی بھی بن سکتے ہیں۔ فقط صیغے کو بدلتے جائیں گے اور ضمیر کو بدلتے جائیں گے۔دو اور الفاظ ہیں جو تاکید کے لیے آتے ہیں۔ وہ ہیں کلا اور کلتا۔ لیکن یہ کلا  تثنیہ مذکر کے لیے اور کلتا تثنیہ مونث کے لیے  یعنی کلا اور کلتا گویا مفرد کے لیے نہیں آتے، جمع کے لیے نہیں آتے۔ تاکید ہیں لیکن یہ تاکیدیں تثنیہ کی ۔ اگر مذکر ہوگا تثنیہ تو اس کے لیے کلا اور اگر مونث ہوگا تو اس کے لیے کلتا۔ فرماتے ہیں: "وَكِلَا وَكِلْتَا"  کلا اور کلتا یہ بھی تاکید کے لیے آتے ہیں۔ ان کے ذریعے جو تاکید ہوگی وہ تاکید معنوی کہلائے گی۔ لیکن کلا و کلتا "لِلْمُثَنَّى خَاصَّةً"۔ یہ بھی تاکید کے لیے آتے ہیں لیکن فقط تثنیہ کی تاکید کے لیے،

جیسے "قَامَ الرَّجُلَانِ كِلَاهُمَا"۔ اب الرجلان تثنیہ مذکر تھا تو اس کی تاکید آئے گی کلاھما۔،"قَامَتِ الْمَرْأَتَانِ كِلْتَاهُمَا"۔ المرأتان تثنیہ مونث تھا تو اس کی تاکید آئے گی کلتاھما کے ساتھ۔ بس اب آپ کہہ سکتے ہیں کلا تثنیہ مذکر کی تاکید کے لیے آتا ہے اور کلتا  تثنیہ مونث کی تاکید کے لیے آتا ہے۔ اور ان کے ذریعے جو تاکید ہوگی وہ تاکید معنوی کہلائے گی۔ 

 تاکید معنوی کے الفاظ اور ان کا استعمال

 فرماتے ہیں: اور بھی لفاظ ہیں کہ جن کے ذریعے تاکید معنوی ہوتی ہے، جیسے میں نے پہلے گزارش کی، وہ ہیں: "وَ کُلٌّ"، "وَ اَجْمَعُ"، "وَ اَکْتَعُ"، "وَ اَبْتَعُ"، "وَ اَبْصَعُ"۔ چار وہ اور پانچ یہ، ٹوٹل کتنے ہو گئے؟ نو۔ "لِغَیْرِ الْمُثَنَّی"۔ یہ تثنیہ کے لیے نہیں آتے  یعنی یہ تثنیہ کی ضمیر نہیں آتی، یہ غیرِ تثنیہ کے لیے آتے ہیں  یعنی کِلا اور کِلتا فقط تثنیہ کے لیے آتے ہیں۔ کِلا اور کِلتا فقط تثنیہ کے لیے۔ نفس اور عین، مفرد، تثنیہ، جمع سب کے لیے  لیکن یہ جو کُل، اَجْمَع، اَکْتَع، اَبْتَع، اَبْصَع ہے یہ تثنیہ کی تاکید کے لیے نہیں آتے۔

"بِاخْتِلَافِ الضَّمِیْرِ فِی کُلٍّ"۔ اسی طرح اگر کُل کے ساتھ ہو گی تو کُل، کُل ہی رہے گا، فقط اس کے ساتھ ضمیر بدلتی جائے گی۔  یعنی اگر جمع ہو گا تو "کُلُّهُمْ"  کُل میں تبدیلی نہیں آئے گی، فقط اس کی ضمیر میں تبدیلی آئے گی۔ مثلاً "کُلُّهُمْ"۔ مثال کے طور پر "جَاءَنِی الْقَوْمُ کُلُّهُمْ"

5

تاکید کے باقی صیغوں کی بحث

اجمع اور اس کے توابع میں صیغے کی تبدیلی

"وَ الصِّیْغَةُ فِی الْبَوَاقِی"۔ لیکن جو اَجْمَع، اَکْتَع وغیرہ ہیں ان میں پورے کا پورا صیغہ ہی بدل جاتا ہے۔ یعنی وہاں ضمیر کی بات نہیں بلکہ پورے صیغے کو ہی جمع پر تبدیل کرتے ہیں۔ جیسے "جَاءَنِی الْقَوْمُ کُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ"۔ اب کُل، کُل رہا، فقط اس کے ساتھ "هُمْ" کی ضمیر تبدیل ہوئی ہے۔ لیکن باقی آپ اَجْمَعُوْنَ، اَکْتَعُوْنَ، اَبْتَعُوْنَ جو بھی کہیں، یہ مذکر میں۔ یا "جَاءَتِ"، یا "قَامَتِ النِّسَاءُ کُلُّهُنَّ"۔ اب ظاہر ہے النساء تھا تو "هُنَّ" کی ضمیر آ جائے گی۔ کُل میں تبدیلی نہیں، فقط ضمیر میں آئی ہے۔ لیکن باقی الفاظ خود بدل جائیں گے: "جُمَعُ"، "کُتَعُ"، "بُتَعُ"، "بُصَعُ"۔ اسی طرح  کُل کے ساتھ مفرد کے لیے ہم کہیں تو  کیا کہیں گے؟ "قَرَأْتُ الْکِتَابَ کُلَّهُ" کہیں گے۔ کُل کے ساتھ مفرد کی ضمیر آئے گی۔ اگر جمع ہو تو پھر ، "فَسَجَدَ الْمَلَائِکَةُ کُلُّهُمْ"۔ کُل کے ساتھ "هُمْ" کی ضمیر لگائیں گے۔

نفس اور عین کے ساتھ ضمیر کی تاکید کا قاعدہ

اگلا پیرا وہ یہ ہے اگر آپ کسی ضمیر کی تاکید لگانا چاہتے ہیں نفس اور عین کے ساتھ تو اس کا حکم کیا ہے؟  پیچھے ہم نے عطف بالحرف میں پڑھا تھا کہ ضمیر پر اسمِ ظاہر کا عطف جائز تھا، اس کا طریقہ بتایا تھا۔ اب بالکل وہی بات ہے۔ فرماتے ہیں: اگر آپ کسی ضمیرِ مرفوعِ متصل کی تاکید لگانا چاہتے ہیں نفس یا عین کے ساتھ تو پھر واجب ہے کہ اس ضمیرِ مرفوعِ متصل کے بعد ایک ضمیرِ مرفوعِ منفصل ذکر کی جائے اور اس کے بعد پھر فرماتے ہیں کہ اس نفس یا عین کو بطورِ تاکید لایا جائے۔ جب تک ضمیرِ مرفوع متصل کے ساتھ ضمیرِ منفصل کا ذکر نہیں کریں گے تب تک نہیں ہو گا۔  فرماتے ہیں: "اِذَا اَرَدْتَ تَأْكِيْدَ الضَّمِيْرِ الْمَرْفُوْعِ الْمُتَّصِلِ" اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ ضمیرِ مرفوعِ متصل کی تاکید کریں نفس یا عین کے ساتھ، یعنی آپ ان کی تاکیدِ معنوی کرنا چاہتے ہیں لفظِ نفس یا لفظِ عین کے ساتھ، فرماتے ہیں: "یَجِبُ تَأْكِيْدُهُ بِالضَّمِيْرِ الْمُنْفَصِلِ"۔ تو اس لفظِ نفس اور عین سے پہلے خود ضمیرِ مرفوعِ متصل کی تاکید ضمیرِ منفصل کے ساتھ کریں، بعد میں آپ اس ضمیر کو ذکر کریں، جیسے آپ کہتے ہیں: "ضَرَبْتَ أَنْتَ نَفْسَكَ"۔ اب آپ یہ دیکھو کہ ضَرَبْتَ جب کہیں گے، تاء، تو  تاء  کی اگر آپ نے تاکید کرنی ہے نفس کے ساتھ تو اس سے پہلے اَنْتَ کو ذکر کرنا ضروری ہے۔ ٹھیک ہے جی؟ جب تک اَنْتَ نہیں ہو گا تب تک یہ بات نہیں بنے گی، "ضَرَبْتَ أَنْتَ نَفْسَكَ"۔

کل اور اجمع کے استعمال کی شرط

"وَلَا يُؤَكَّدُ بِكُلٍّ وَأَجْمَعَ إِلَّا مَا لَهُ أَجْزَاءٌ وَأَبْعَاضٌ"۔ یہ علیحدہ بات ہے، فرماتے ہیں: لفظِ کُل اور لفظِ اَجْمَع، ان دو لفظوں کے ساتھ فقط اسی کی تاکیدِ معنوی کی جا سکتی ہے جس کے لیے اجزاء ہوں، جس کی کوئی جزئیں ہوں، جس کے کوئی حصے ہوں کہ جن کو جدا کرنا ممکن ہو، لیکن اگر جن کو جدا جدا نہ کیا جا سکتا ہو، ان کی تاکید لفظِ کُل اور لفظِ اَجْمَع کے ساتھ نہیں کی جا سکتی۔ یہ علیحدہ بات ہے۔ فرماتے ہیں "لَا يُؤَكَّدُ بِكُلٍّ وَاَجْمَعَ"، لفظِ کُل اور لفظِ اَجْمَع کے ساتھ تاکید نہیں کی جا سکتی "إِلَّا مَا" سوائے اسی کے "لَهُ أَجْزَاءٌ" جن کی اجزاء اور ابعاض ہوں "یَصِحُّ افْتِرَاقُهَا" جن کو جدا کرنا ممکن ہو۔ یعنی آپ کیا کہیں گے؟ آسان اردو میں یوں کہیں گے کہ لفظِ کُل اور لفظِ اَجْمَع کے ساتھ فقط اسی متبوع کی تاکیدِ معنوی کی جا سکتی ہے جس متبوع کو جدا جدا کیا جا سکتا ہو، جس کے حصے کیے جا سکتے ہوں، جس کی جزیں ہوں۔ اب بسا اوقات جدائی حِسّاً ہوتی ہے یعنی واضح نظر آنے والی، جیسے لفظ، جیسے ہے القوم۔ اب قوم کے اجزاء ہیں، جو بھی فرد ہے، وہ بھی فرد ہے، وہ فرد ہے، ہر جز کو علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ اور کبھی ہوتا ہے کہ اس کے اجزاء تو ہیں حِسّاً نہیں، لیکن حُکماً ہیں۔ یعنی فی حکم الاجزاء ہے۔ مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں "جَاءَنِی الْقَوْمُ کُلُّهُمْ"۔ اس لیے کہ قوم کے اجزاء ہو سکتے ہیں، جو جز ہو سکتے ہیں، لہٰذا کُل کے ساتھ اس کی تاکید بھی جائز ہے۔ اور حُکماً کی مثال، یعنی "اِشْتَرَیْتُ الْعَبْدَ کُلَّهُ"۔ اب یہاں عبد کے اجزاء حِسّاً نہیں ہیں لیکن حُکماً ہیں، کیوں؟ چونکہ ہو سکتا ہے میں نے عبد کو آدھا خریدا ہو کہ بھائی آدھا میرا، آدھا تیرا، یا تیسرا حصہ میرا، دو حصے تیرے، تو اب یہاں حُکماً ہے، لہٰذا یہ جائز ہے۔ لیکن "اَکْرَمْتُ الْعَبْدَ کُلَّهُ" یہ جائز نہیں ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ میں اگر کہتا ہوں کہ میں نے عبد کا اکرام کیا، سارے کا سارا، بھائی یہ جائز ہی نہیں ہے کہ آپ کُل کو یہاں تاکید بنائیں، کیوں؟ اس لیے کہ آپ کہہ رہے ہیں اکرمت العبدَ، تو اب یہاں پر عبد کے حصے کرنا،  یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ میں کہوں کہ میں نے آدھے عبد کا احترام کیا اور آدھے کا نہیں کیا۔ نہیں جناب، یہاں اجزاء ممکن ہی نہیں ہیں۔ جب اجزاء ممکن نہیں ہیں تو پھر کُل کے ساتھ اس کی تاکید کرنا بھی صحیح نہیں۔ یہ بات یہاں پر ختم ہو گئی۔ اجزائے حسی جیسے میں نے کہا ہے "جَاءَ الْقَوْمُ کُلُّهُ" اور حکمی جیسے "اِشْتَرَیْتُ الْعَبْدَ کُلَّهُ"۔

اکتع، ابتع، ابصع کا اجمع کے تابع ہونا

اس کے بعد فرماتے ہیں آگے ایک چھوٹا سا مطلب اور وہاں پر بات کو انہوں نے ختم کر دیا۔ فرماتے ہیں: "وَاعلَم اَنَّ أَكْتَعَ، أَبْتَعَ، أَبْصَعَ" یہ "أَتْبَاعٌ لِأَجْمَعَ" یہ سارے کے سارے یعنی اَکْتَع، اَبْتَع اور اَبْصَع، یہ چار لفظ تابع ہیں اَجْمَع کے۔ یعنی اَجْمَع کے تابع ہیں۔ "لَيْسَ لَهَا مَعْنًی هَاهُنَا بِدُوْنِهِ" بس جب تک اَجْمَع نہیں آئے گا، اَجْمَع کے بغیر ان کا اپنا کوئی معنی نہیں ہے۔ یعنی کیا مطلب؟ یہ اَجْمَع کے بغیر ذکر نہیں ہوتے۔ "فَلَا یَجُوْزُ تَقْدِیْمُهَا عَلَی اَجْمَعَ"۔ بس یہ اس کے بغیر نہیں ہوتے، لہٰذا  اَکْتَع، اَبْتَع اور اَبْصَع کا اَجْمَع پر مقدم کرنا بھی جائز نہیں ہے "وَلَا ذِکْرُهَا بِدُوْنِهِ" اور بغیر اَجْمَع کے ان کا ذکر کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ بس ایک ہی بات ہے، یعنی اَکْتَع، اَبْتَع اور اَبْصَع یہ جو تین لفظ ہیں، یہ اَجْمَع کے تابع ہوتے ہیں اور یہ اَجْمَع کے بغیر نہیں آتے اور نہ ہی اس پر مقدم ہوتے ہیں۔ یعنی یہ وہیں آئیں گے جہاں اَجْمَع ہو گا اور ہوں گے بھی اَجْمَع کے بعد اور ہوں گے بھی اس کے ساتھ، اگر کہیں اَجْمَع نہیں ہو گا تو یہ بھی نہیں ہوں گے۔

 وَ صَلَّی اللهُ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّد

والعطف على معمولي عاملين مختلفين جائز إذا كان عاملين مختلفين جائز إذا كان المعطوف عليه مجروراً ومقدّماً على المرفوع ، والمعطوف كذلك أي مجرور نحو : في الدارِ زَيْدٌ ، وَالْحُجْرَةِ عَمْروٌ. وفي هنا مذهبان آخران وهما الجواز مطلقاً عند الفرّاء ، وعدمه مطلقاً عند سيبويه.

القسم الثالث : التّأكيد

وهو تابع يدلّ على تقرير المتبوع فيما نسب إليه نحو : جاءني زَيْدٌ نَفْسُهُ. أو يدلّ على شمول الحكم لكلّ أفراد المتبوع مثل : «فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ» (١).

والتأكيد على قسمين : لفظيّ : وهو تكرير اللفظ الأوّل بعينه نحو : جاءني زَيْدٌ زَيْدٌ ، وقامَ زَيْدٌ زَيْدٌ ، جاءني جاءني زَيْدٌ ، قامَ قامَ زَيْدٌ ، ويجوز في الحروف أيضاً نحو : إنَّ إنَّ زَيْداً قائِمٌ.

ومعنويّ : وهو بألفاظ معدودة وهي : [ نفس وعين ] للواحد والمثنّى والمجموع باختلاف الصيغة والضمير نحو : جاءني زَيْدٌ نَفْسُهُ ، والزَّيْدانِ أنْفُسُهُما أو نَفْساهُما ، والزَّيْدُونَ أنْفُسُهُمْ ، وكذلك عَيْنُهُ وأعْيُنُهُما أو عَيْناهُما وأعْيُنُهُمْ.

وللمؤنّث نحو : جاءتني هِنْدٌ نَفْسُها ، والْهِنْدانِ أنْفُسُهُما أو نَفْساهُما والْهِنْداتُ أنْفُسُهُنَّ ، وكذا عَيْنُها وأعْيُنُهُما أو عَيْناهُما ، وأعْيُنُهُنَّ.

وكِلا وكِلْتا للمثنّى خاصّة نحو : قامَ الرَّجُلانِ كِلاهُما ، وقامَتِ المرأتان كِلْتاهُما.

وكُلّ ، وأجْمَع ، وأكْتَع ، وأبْتَع ، وأبْصَع ، لغير المثنّى باختلاف

____________________________

(١) الحجر : ٣٠.

الضمير في كلّ تقول : اشْتَرَيْتُ الْعَبْدَ كُلَّهُ ، وجاءني الْقَوْمُ كُلُّهُمْ ، واشْتَرَيْتُ الْجاريّةَ كُلَّها ، وجاءت النساءُ كُلُّهُنَّ.

وباختلاف الصيغة في البواقي وهي : أجْمَعُ وأخواتها تقول : اشْتَرَيْتُ الْعَبْدَ كُلَّهُ أجْمَعُ أكْتَعُ أبْتَعُ أبْصَعُ ، وجاءني الْقَوْمُ كُلُّهُمْ أجْمَعُونَ أكْتَعُونَ أبْتَعُونَ أبْصَعُونَ ، واشْتَرَيْتُ الْجاريةَ كُلَّها جَمْعاء كَتْعاء بَتْعاء بَصْعاء ، وقامَتِ النساء كُلُّهُنَّ جُمَعُ كُتَعُ بُتَعُ بُصَعُ.

وإذا أردت تأكيد الضمير المتّصل بالنفس والعين يجب تأكيده بضمير مرفوع منفصل تقول : ضَرَبْتَ أنْتَ نَفْسَكَ.

ولا يؤكّد بكُلّ وأجْمَع إلّا ماله أجزاء وأبعاض يصحّ افتراقها حسّاً كالقوم ، أو حكماً كما تقول : اشْتَرَيْتُ الْعَبْدَ كُلَّهُ ، ولا تقول : أكْرَمْتُ الْعَبْدَ كُلَّهُ.

واعلم أنّ أكْتَع وأخواتها أتباع لأجْمَع إذ ليس لها معنى دونها ، ولا يجوز تقديمها على أجْمَع ولا يجوز ذكرها دونه.

القسم الرابع : البدل

وهو تابع ينسب إليه ما نسب إلى متبوعه وهو المقصود بالنسبة دون متبوعه وأقسام البدل أربعة :

الأوّل : بدل الكلّ من الكلّ ، وهو ما كان مدلوله مدلول المتبوع نحو : جاءني زَيْدٌ أخُوكَ.

والثاني : بدل البعض من الكلّ ، وهو كلّ ما كان مدلوله جزء المتبوع نحو : ضَرَبْتُ زَيْداً رَأسَهُ.

والثالث : بدل الاشتمال ، وهو ما كان مدلوله متعلّق المتبوع نحو : سُلِبَ زَيْدٌ ثَوْبُهُ ، وأعْجَبَني عَمْروٌ عِلْمُهُ.