تطبیق
"التَّأْكِيدُ" یعنی توابع میں سے تیسری قسم ہے تابع کی تاکید۔"التَّأْكِيدُ تَابِعٌ"۔ تاکید وہ تابع ہے "يَدُلُّ" جو دلالت کرتا ہے "عَلَى تَقْرِيرِ الْمَتْبُوعِ" اپنے متبوع کی تقریر پر، پختگی پر۔کس میں؟ "فِيمَا نُسِبَ" اس چیز میں جو نسبت اس کے متبوع کی طرف دی گئی ہوتی ہے، جیسے جَاءَنِي زَيْدٌ نَفْسُهُ"۔ یہ نفسہ تاکید کر رہا ہے کس کی؟ کہ جو نسبت دی گئی زید کی طرف کہ میرے پاس آیا زید وہ آنے کی نسبت پختہ ہے یعنی کنفرم ہے کہ نفسہ وہ خود آیا ہے کوئی اس کا لیٹر، کوئی اس کا نمائندہ، وہ مراد نہیں ہے۔یا تاکید دلالت کرتی ہے کس پر؟ 
"عَلَى شُمُولِ الْحُكْمِ لِكُلِّ فَرْدٍ مِنْ أَفْرَادِ الْمَتْبُوعِ"۔ یعنی تاکید وہ تابع ہے جو دلالت کرتی ہے کہ یہ حکم شامل ہے میرے متبوع کے افراد میں سے ہر ہر فرد کو یعنی یہ حکم میرے متبوع کے تمام افراد کے لیے ہے۔
 جیسے "فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ"۔ یہ کل بتا رہا ہے کہ تمام ملائکہ نے سجدہ کیا یعنی ملائکہ کے فرد فرد نے یہ حکم جو سجدے والا اس کو شامل ہے۔"وَالتَّأْكِيدُ عَلَى قِسْمَيْنِ"۔ تاکید کی دو قسمیں ہیں "لَفْظِيٌّ وَمَعْنَوِيٌّ" تاکید لفظی بھی ہوتی ہے اور تاکید معنوی بھی ہوتی ہے۔ 
تاکید لفظی کیا ہوتی ہے؟ تاکید لفظی سے مراد ہے "هُوَ تَقْرِيرُ اللَّفْظِ الْأَوَّلِ"۔ اسی پہلے لفظ کو یعنی متبوع والے لفظ کا تکرار کرنا اسی کو دوبارہ ذکر کر دینا بس یہ تاکید بن جائے گی۔ جیسے ہم کہتے ہیں:  "جَاءَنِي زَيْدٌ زَيْدٌ" اب پہلا زید متبوع بن جائے گا، دوسرا زید  تابع اور تاکید بن جائے گا۔ یا ہم کہتے ہیں:"جَاءَ جَاءَ زَيْدٌ" اب پہلا جاء جو ہے وہ متبوع ہوگا، دوسرا جاء اس کا تابع اور تاکید ہوگی۔ چونکہ اسی لفظ کا تکرار یہ تاکید لفظی کہلاتا ہے۔
"وَمَعْنَوِيٌّ" اور تاکید معنوی کیا ہے؟ فرماتے ہیں : "هُوَ بِأَلْفَاظٍ مَعْدُودَةٍ" تاکید لفظی کے لیے کچھ الفاظ معین ہیں، مختص ہیں، مشخص ہیں، معدود ہیں کہ ان الفاظ کے ساتھ اگر تاکید ہوگی تو وہ تاکید معنوی کہلائے گی۔
 تاکید معنوی: نفس اور عین کا استعمال
اچھا۔ تاکید معنوی کونسی ہے؟ فرماتے ہیں""هِيَ النَّفْسُ وَالْعَيْنُ"۔ مثلاًلفظ نفس، لفظ عین،  "لِلْوَاحِدِ وَالْمُثَنَّى وَالْمَجْمُوعِ باخْتِلَافِ الصِّيغَةِ وَالضَّمِيرِ"یعنی لفظ عین اور لفظ نفس کے ساتھ جو تاکید اور بھی ہیں آگے آ رہا ہے جیسے میں نے پہلے آپ کو نو الفاظ بتائے ہیں۔
کے ساتھ تاکید کی جائے گی یہ تاکید تاکید معنوی ہے۔ البتہ یہ خیال رکھنا ہے کہ جب واحد کے لیے ہوگی تو صیغہ بھی واحد کا ہوگا، تثنیہ اور جمع کا ہوگا تو صیغہ بھی بدل جائے گا اور ہر ایک کے ساتھ ضمیر بھی بدل جائے گی۔ یعنی اگر واحد ہوگا تو نفس کے ساتھ ضمیر واحد کی ہوگی، تثنیہ اور جمع ہوں گے تو پھر ان کے ساتھ ضمیریں بھی اسی تثنیہ اور جمع کی ہوں گی، مثال:"جَاءَنِي زَيْدٌ نَفْسُهُ"اب زیدمفرد تھا، نفس مفرد ہے اور نفسہ میں ضمیر بھی مفرد ہے۔"جَاءَنِي الزَّيْدَانِ أَنْفُسُهُمَا"یا "نَفْسَاهُمَا" دونوں صحیح ہیں چونکہ زیدان تثنیہ آ گیا لہذا ہم نے لفظ کو بھی تثنیہ "نَفْسَاهُمَا" یا "أَنْفُسُهُمَا" کوئی حرج نہیں اور ضمیر بھی ساتھ ھما کی لگا دی۔
"جَاءَنِي الزَّيْدُونَ أَنْفُسُهُمْ"۔ اب زیدون چونکہ متبوع جمع تھا ہم نے وہ لفظ نفس کو بھی جمع انفس اور ساتھ ضمیر بھی جمع کی لگا دی۔
یا اسی طرح "جَاءَنِي الزَّيْدَانِ عَيْنُهُ" یا "أَعْيُنُهُمَا" یا "عَيْنَاهُمَا" دونوں سے جو "أَعْيُنُهُمْ"۔ اسی طرح "جَاءَتْنِي هِنْدٌ نَفْسُهَا"۔ ھند چونکہ مونث تھی، ضمیر بھی مونث کی لائے،  "جَاءَتْنِي الْهِنْدَانِ أَنْفُسُهُمَا" یا "نَفْسُهُمَا" دونوں صحیح ہیں۔ چونکہ ھما کی ضمیر مفرد مونث دونوں کے لیے آتی ہے۔ "جَاءَتْنِي الْهِنْدَاتُ أَنْفُسُهُنَّ"۔ ہندات جمع مونث تھا، نفس کی بھی ہم جمع انفس لائے اور ضمیر بھی ھن کی جو جمع مونث کی ہوتی ہے تو بس وہ کونسے الفاظ ہیں جن کے ساتھ تاکید معنوی ہوتی ہے؟ نفس اور عین۔
تاکید معنوی: کلا اور کلتا کا استعمال
"وَكِلَا وَكِلْتَا لِلتَّثْنِيَةِ"۔ فرق یہ ہے کہ نفس اور عین یہ  مفرد کی تاکید بھی بن سکتے ہیں، تثنیہ اور جمع کی بھی بن سکتے ہیں۔ فقط صیغے کو بدلتے جائیں گے اور ضمیر کو بدلتے جائیں گے۔دو اور الفاظ ہیں جو تاکید کے لیے آتے ہیں۔ وہ ہیں کلا اور کلتا۔ لیکن یہ کلا  تثنیہ مذکر کے لیے اور کلتا تثنیہ مونث کے لیے  یعنی کلا اور کلتا گویا مفرد کے لیے نہیں آتے، جمع کے لیے نہیں آتے۔ تاکید ہیں لیکن یہ تاکیدیں تثنیہ کی ۔ اگر مذکر ہوگا تثنیہ تو اس کے لیے کلا اور اگر مونث ہوگا تو اس کے لیے کلتا۔ فرماتے ہیں: "وَكِلَا وَكِلْتَا"  کلا اور کلتا یہ بھی تاکید کے لیے آتے ہیں۔ ان کے ذریعے جو تاکید ہوگی وہ تاکید معنوی کہلائے گی۔ لیکن کلا و کلتا "لِلْمُثَنَّى خَاصَّةً"۔ یہ بھی تاکید کے لیے آتے ہیں لیکن فقط تثنیہ کی تاکید کے لیے،
جیسے "قَامَ الرَّجُلَانِ كِلَاهُمَا"۔ اب الرجلان تثنیہ مذکر تھا تو اس کی تاکید آئے گی کلاھما۔،"قَامَتِ الْمَرْأَتَانِ كِلْتَاهُمَا"۔ المرأتان تثنیہ مونث تھا تو اس کی تاکید آئے گی کلتاھما کے ساتھ۔ بس اب آپ کہہ سکتے ہیں کلا تثنیہ مذکر کی تاکید کے لیے آتا ہے اور کلتا  تثنیہ مونث کی تاکید کے لیے آتا ہے۔ اور ان کے ذریعے جو تاکید ہوگی وہ تاکید معنوی کہلائے گی۔ 
 تاکید معنوی کے الفاظ اور ان کا استعمال
 فرماتے ہیں: اور بھی لفاظ ہیں کہ جن کے ذریعے تاکید معنوی ہوتی ہے، جیسے میں نے پہلے گزارش کی، وہ ہیں: "وَ کُلٌّ"، "وَ اَجْمَعُ"، "وَ اَکْتَعُ"، "وَ اَبْتَعُ"، "وَ اَبْصَعُ"۔ چار وہ اور پانچ یہ، ٹوٹل کتنے ہو گئے؟ نو۔ "لِغَیْرِ الْمُثَنَّی"۔ یہ تثنیہ کے لیے نہیں آتے  یعنی یہ تثنیہ کی ضمیر نہیں آتی، یہ غیرِ تثنیہ کے لیے آتے ہیں  یعنی کِلا اور کِلتا فقط تثنیہ کے لیے آتے ہیں۔ کِلا اور کِلتا فقط تثنیہ کے لیے۔ نفس اور عین، مفرد، تثنیہ، جمع سب کے لیے  لیکن یہ جو کُل، اَجْمَع، اَکْتَع، اَبْتَع، اَبْصَع ہے یہ تثنیہ کی تاکید کے لیے نہیں آتے۔
"بِاخْتِلَافِ الضَّمِیْرِ فِی کُلٍّ"۔ اسی طرح اگر کُل کے ساتھ ہو گی تو کُل، کُل ہی رہے گا، فقط اس کے ساتھ ضمیر بدلتی جائے گی۔  یعنی اگر جمع ہو گا تو "کُلُّهُمْ"  کُل میں تبدیلی نہیں آئے گی، فقط اس کی ضمیر میں تبدیلی آئے گی۔ مثلاً "کُلُّهُمْ"۔ مثال کے طور پر "جَاءَنِی الْقَوْمُ کُلُّهُمْ"