درس الهدایة في النحو

درس نمبر 25: بحث تابع 2

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

عطف بالحرف کی تعریف اور شرائط

 حروف عاطفہ

 "الْعَطْفُ بِالْحُرُوفِ"۔ بحث ہو رہی تھی ہماری توابع کی، ان توابع میں سے پہلا تابع تھا نعت اور دوسرا ہے  "الْعَطْفُ بِالْحُرُوفِ عطف بالحرف۔

عطف بالحرف کی تعریف اور شرائط

عطف بالحرف توابع میں سے دوسرا تابع ہے۔ اسی کو عطف نسق بھی کہتے ہیں۔عطف بالحروف وہ تابع ہے کہ اس کی طرف بھی وہی نسبت دی جائے جو نسبت اس کے متبوع کی طرف دی گئی تھی اور تابع اور متبوع دونوں اس نسبت میں مقصود بھی ہوں۔ نمبر ایک:  تابع کی طرف بھی وہی نسبت جو اس تابع کے متبوع کی طرف نسبت ہے۔ نمبر دو: جیسے متبوع مقصود بالنسبت ہو یہ تابع بھی مقصود بالنسبت ہو۔ تو ایسے تابع کو کہتے ہیں العطف بالحرف یا اس کو کہتے ہیں عطف نسق۔  یعنی جو نسبت معطوف کی طرف ہے وہی اس کی طرف بھی ہو لیکن اس میں شرط کیا ہے؟ کہ اس عطف اور معطوف کے درمیان، اس تابع اور متبوع کے درمیان حروف عاطفہ میں سے کوئی ایک حرف ضرور ہو۔ حروف عاطفہ کونسے ہیں؟ انشاءاللہ آگے آئے گا۔ حروف کی بحث میں اور وہ ہیں واو، فا، حتی، ثم، او، ام، لا، بل، لکن ہیں لیکن انشاءاللہ آگے پوری ان کی بحث آئے گی۔ 

تطبیق

 دوسری قسم  توابع کی:   "الْعَطْفُ بِالْحُرُوفِ" عطف بالحروف"تَابِعٌ" وہ تابع ہے "يُنْسَبُ إِلَيْهِ" کہ اس تابع کی طرف بھی وہی نسبت دی جائے "مَا نُسِبَ إِلَى مَتْبُوعِهِ" جو نسبت اس کے متبوع کی طرف دی گئی ہے، نسبت وہی ہو، "وَكِلَاهُمَا مَقْصُودَانِ بِتِلْكَ النِّسْبَةِ" اور اس نسبت میں تابع بھی مقصود ہو اور متبوع بھی مقصود ہو، یعنی دونوں اس نسبت میں مقصود ہوں، "يُسَمَّى عَطْفَ النَّسَقِ" اس کا نام رکھا جاتا ہے عطف نسق۔ "وَشَرْطُهُ" لیکن اس کی شرط کیا ہے؟ آگے مثال دیتا ہوں۔ "أَنْ يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ مَتْبُوعِهِ"اس تابع یعنی جو تابع ہو گا عطف بالحروف والا ، اس تابع "وَبَيْنَ مَتْبُوعِهِ" اور متبوع کے درمیان موجود ہو "أَحَدُ حُرُوفِ الْعَطْفِ" حروف عاطفہ میں سے کوئی ایک۔ "سَيَأْتِي ذِكْرُهَا" انشاءاللہ حروف عاطفہ ہم قسم ثالث میں بتائیں گے۔ مثال "قَامَ زَيْدٌ وَعَمْرٌو"۔ عمرو کی طرف بھی وہی نسبت ہے جو زید کی طرف ہے، یعنی کھڑے ہونے  کی۔ اور دونوں مقصود بالنسبہ ہیں یعنی یہ بتانا چاہتے ہیں کہ زید بھی کھڑا ہوا اور عمرو بھی کھڑا ہوا اور آپ نے دیکھا کہ زید معطوف متبوع ہے، عمرو تابع ہے عطف بالحرف ہے اور درمیان میں واو حرف عطف بھی موجود ہے۔

4

ضمیر پر عطف کا قاعدہ

 ضمیر مرفوع متصل پر عطف کا قاعدہ

 یہ تو تھا اسم ظاہر کا عطف اسم ظاہر پر تو اس کا طریقہ تو یہ ہو گیا۔ اب اگلا حصہ علیحدہ سمجھاتے ہیں۔ فرماتے ہیں اگر آپ کسی اسم ظاہر کا عطف کرنا چاہتے ہیں ضمیر متصل پر تو اس ضمیر متصل کے ساتھ ضمیر منفصل کو بطور تاکید لانا واجب ہو گا۔ لیکن اگر ضمیر متصل اور اس کے عطف بالحرف جو تابع ہے جو عطف بالحرف کے ذریعے تابع ہے، اگر ان کے درمیان کوئی فاصلہ آ جائے تو پھر فرماتے ہیں:  ضروری نہیں ہے کہ آپ ایک ضمیر منفصل بھی لائیں۔ فرماتے ہیں: "إِذَا عُطِفَ عَلَى الضَّمِيرِ الْمَرْفُوعِ الْمُتَّصِلِ" اگر ضمیر مرفوع متصل پر عطف بالحرف کیا جاتا ہے کسی اسم ظاہر کا، یہ لفظی ترجمہ ہو گیا یا یوں کہیں۔ اگر آپ کسی ضمیر کو، ضمیر مرفوع متصل کو متبوع قرار دے کر اس کا تابع ، عطف بالحرف اسم ظاہر کو لانا چاہتے ہیں تو فرماتے ہیں: "يَجِبُ تَأْكِيدُهُ" اس ضمیر مرفوع متصل کی تاکید ضمیر منفصل کے لانا واجب ہے۔ یعنی اس متصل کے لیے جو بھی ضمیر منفصل ہو گی اس کے ذریعے تاکید واجب ہے۔ یہ ضمائر ہیں ، ضمیر مرفوع بھی ہوتی ہیں، منصوب بھی ہوتی ہیں، مجرور بھی ہوتی ہیں، متصل بھی اور منفصل بھی۔ اب آپ نے شاید ان ضمائر کی بحث اگر کہیں پڑھی ہے یا نہیں تو شاید کہیں آئے گی جیسے ضمیر مرفوع متصل اگر کہا جائے کہ ضمائر مرفوع متصلہ سناؤ تو ہم کہیں گے: ضربتُ، ضربنا، ضربتَ، ضربتما، ضربتم، ضربتِ، ضربتما، ضربتن۔ اب ضربتُ میں جو ضمیر ہے یہاں ضمیر مرفوع متصل ہے اور اگر اسی مرفوع ضمیر کو مرفوع منفصل پڑھا جائے تو پھر کہیں گے: أنا، نحن، أنتَ، أنتما، أنتم۔ یعنی وہ ضربتُ میں جو تُ ضمیر مرفوع متصل تھی اس کی ضمیر مرفوع منفصل أنا ہوتی ہے۔ ضربنا میں اگر نا تھی تو اس کی ضمیر منفصل نحن ہوتی ہے۔ اگر ضربتَ میں تَ تھی تو اس کی ضمیر منفصل أنتَ ہوتی ہے الی آخرہ۔ جیسے نحو "ضَرَبْتُ أَنَا وَزَيْدٌ"۔ اب زید کا ہم عطف کرنا چاہتے تھے ضربتُ میں تُ ضمیر مرفوع منفصل پر تو فرماتے ہیں:  عطف بالحرف کرنا چاہتے تھے تو اب واجب ہے کہ تُ کے بعد اسی کی ضمیر منفصل چونکہ یہ تُ بھی ضمیر مرفوع ہے لیکن یہ ضمیر مرفوع متصل ہے اور أنا ضمیر مرفوع منفصل ہے تو اس تُ کے ساتھ تاکید لگانا أنا کی واجب ہے۔ لہذا آپ پڑھیں گے ضربتُ أنا وزیدٌ ، "إِلَّا إِذَا فُصِلَ" لیکن اگر اس ضمیر متصل اور اس کے عطف بالحرف کے درمیان کوئی فاصلہ آ جائے تو پھر ضمیر مرفوع متصل کی تاکید لگانا واجب نہیں ہے جیسے "ضَرَبْتُ الْيَوْمَ وَزَيْدٌ" یہاں زید کا عطف اگرچہ ضربتُ کی تُ پر ہے، ضمیر مرفوع متصل پر ہے لیکن چونکہ درمیان میں الیومَ آ گیا ہے اور یہ فاصلہ آ گیا ہے اب یہاں پر ضربتُ کے بعد أنا ضمیر مرفوع منفصل لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔

 ضمیر مجرور پر عطف کا قاعدہ

"وَإِذَا عُطِفَ عَلَى الضَّمِيرِ الْمَجْرُورِ" اگر آپ کسی اسم ظاہر کا عطف کرنا چاہتے ہیں کسی ضمیر مجرور پر تو "يَجِبُ إِعَادَةُ حَرْفِ الْجَرِّ" تو پھر معطوف پر بھی یعنی وہ عطف بالحرف جس پر کریں گے اس کے ساتھ اس حرف جر کا اعادہ واجب ہے یعنی ایک دفعہ حرف جر تو پہلے معطوف کے ساتھ استعمال ہوا ہے اور اس عطف یعنی جو معطوف ہو گا اس کے ساتھ بھی حرف جر کو دوبارہ ذکر کریں گے جیسے "مَرَرْتُ بِكَ وَزَيْدٍ" نہیں پڑھنا بلکہ پڑھنا ہے "مَرَرْتُ بِكَ وَبِزَيْدٍ"۔ چونکہ زید کا عطف آپ کرنا چاہ رہے تھے کاف ضمیر مجرور پر تو لہذا اس کے ساتھ باء کا اعادہ یعنی جار کا اعادہ بھی ضروری ہے۔ تو بس اب اس میں ایک نکتہ ہمیں یہ سمجھ آ گیا کونسا؟ کہ اسم ظاہر کا عطف بالحرف ضمیر پر بھی جائز ہوتا ہے البتہ حکم تھوڑا سا مختلف ہے۔ 

5

معطوف اور معطوف علیہ کا حکم

 معطوف اور معطوف علیہ کا حکم

اس کے بعد ایک علیحدہ بات ہے وہ یہ ہے۔ فرماتے ہیں: "وَاعلَم أَنَّ الْمَعْطُوفَ فِي حُكْمِ الْمَعْطُوفِ عَلَيْهِ"۔ یہاں ایک نکتہ یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ یہ جو عطف بالحرف ہے جس کو واو کے ذریعے یا حروف عاطفہ میں سے کسی ایک کے ذریعے جس کا عطف کریں گے وہ معطوف ہو گااور جو متبوع ہو گا  جس پر عطف کریں گے وہ معطوف علیہ یعنی تابع ہو گا معطوف اور متبوع ہو گا معطوف علیہ۔ یہاں فرماتے ہیں کہ معطوف ہمیشہ معطوف علیہ کے حکم میں ہو گا۔ یعنی جب تابع اور متبوع آپس میں معطوف اور معطوف علیہ ہوں گے تو یہ معطوف، معطوف علیہ کے حکم میں ہوتا ہے۔ کیا مطلب؟ یعنی اگر معطوف علیہ صفت ہو گا تو یہ معطوف بھی صفت ہو گا۔ اگر معطوف علیہ خبر ہو گا تو یہ بھی خبر ہو گا۔ اگر وہ صلہ ہو گا تو یہ، یعنی مقصد کیا ہے؟ کہ معطوف ہمیشہ معطوف علیہ کے حکم میں ہوتا ہے۔ جو حکم معطوف علیہ کا ہے وہی حکم اس کا ہو گا۔کیوں؟ فرماتے ہیں:  وجہ یہ ہے چونکہ عطف وہاں جائز ہوتا ہے جہاں معطوف علیہ کا قائم مقام معطوف بن سکتا ہو۔ یعنی اگر ہم معطوف علیہ کو ہٹا کر اس کی جگہ اس معطوف کو رکھ دیں تو بھی کوئی فرق نہ پڑتا ہو تو عطف ایسی جگہ پر جائز ہوتا ہے۔ لیکن جہاں پر معطوف، معطوف علیہ کا قائم مقام نہ بن سکتا ہو، معطوف علیہ کی جگہ معطوف کا لے آنا جائز نہ ہو وہاں سرے سے عطف جائز ہی نہیں ہوتا۔ تو اس لیے ہم کہہ رہے ہیں کہ معطوف، معطوف علیہ کے حکم میں ہوتا ہے۔ "وَاعْلَمْ أَنَّ الْمَعْطُوفَ فِي حُكْمِ الْمَعْطُوفِ عَلَيْهِ"۔ معطوف، معطوف علیہ کے حکم میں ہوتا ہے۔ کیا مطلب؟ آگے وضاحت کر رہے ہیں۔ "أَعْنِي" یعنی  "إِذَا كَانَ الْأَوَّلُ صِفَةً لِشَيْءٍ" مراد کیا ہے؟ کہ اگر معطوف علیہ کسی چیز کی صفت واقع ہو رہا ہے "أَوْ خَبَرًا لِأَمْرٍ" یا کسی امر کی یعنی مبتدا کی خبر واقع ہو رہا ہے "أَوْ صِلَةً" یا کسی موصول کا صلہ واقع ہو رہا ہے "أَوْ حَالًا" یا کسی ذوالحال کا حال واقع ہو رہا ہے "فَالثَّانِي كَذَلِكَ أَيْضًا" تو یہ معطوف بھی اسی کی طرح صفت یا خبر یا صلہ یا حال ہو گا چونکہ یہ اسی کے حکم میں ہوتا ہے۔  کیوں؟ "وَالضَّابِطَةُ فِيهِ" اس لیے کہ قانون یہ ہے عطف بالحرف میں "يَجُوزُ أَنْ يُقَامَ الْمَعْطُوفُ مَقَامَ الْمَعْطُوفِ عَلَيْهِ"  کہ یہ عطف بالحرف وہاں جائز ہوتا ہے جہاں معطوف کا معطوف علیہ کا قائم مقام بننا جائز ہو۔ "جَازَ الْعَطْفُ" وہاں عطف جائز ہوتا ہے۔ "وَحَيْثُ لَا" اور جہاں معطوف، معطوف علیہ کا قائم مقام نہ بن سکتا ہو "فَلَا" وہاں عطف بھی جائز نہیں ہوتا۔ 

دو مختلف عاملوں کے معمولوں پر عطف

اس کے بعد ایک اور چھوٹا سا پیرا ہے۔ یہ درحقیقت ایک اختلاف ہے نحویوں کا آپس میں اور  اس  کی طرف یہاں صاحبِ هدایة نے اشارہ فرمایا ہے۔ اگرچہ بڑی کتابوں میں اس کی تفصیلی بحث انشاءاللہ وہاں آئے گی۔ ہم یہاں فقط اتنی پڑھتے ہیں کہ جتنی ہمیں اس حد کی کتاب میں ضرورت ہے ہم اسی حد تک اس کو پڑھتے ہیں کیونکہ یہ ایک نحوی اختلاف ہے بڑا اور انشاءاللہ اس پر پھر تفصیلی بحثیں بعد میں آئیں گی۔ جو تفصیلی کتابیں ہوں گی۔ وہ یہ ہے کہ "وَالْعَطْفُ عَلَى مَعْمُوْلَيْ عَامِلَيْنِ مُخْتَلِفَيْنِ"۔ دو مختلف عاملوں کے معمولوں پر عطف جائز ہے کہ ایک معمول کا عامل کوئی اور ہے، دوسرے معمول کا عامل کوئی اور ہے اور ہم ان کا عطف کرنا چاہتے ہیں ایک دوسرے پر تو ایک نظریہ  ہے کہ یہ جائز ہے لیکن کب جائز ہے؟ وہ شرط یہ لگاتے ہیں: "إِنْ كَانَ الْمَعْطُوْفُ عَلَيْهِ مَجْرُوْرًا"، اگر معطوف علیہ مجرور ہو، ایک، "مُقَدَّمًا"، اور وہ مرفوع پر مقدم ہو، "وَالْمَعْطُوْفُ كَذٰلِكَ"، اور معطوف بھی اسی طرح مجرور ہو اور مرفوع پر مقدم ہو تو پھر کوئی حرج نہیں۔ جیسے کہتے ہیں: "فِي الدَّارِ زَيْدٌ وَالْحُجْرَةِ عَمْرٌو"۔  "فِي الدَّارِ"، اب آپ نے دیکھا ہے کہ الدار مجرور ہے، مقدم ہے زید مرفوع پر۔ اسی طرح الحجرة بھی مجرور ہے اور مقدم ہے  مرفوع  پر، وہ کہتے ہیں جائز ہے۔

فراء اور سیبویہ کے نظریات

"وَفِي هَذِهِ الْمَسْئَلَةِ مَذْهَبَانِ آخَرَانِ"۔ اگرچہ یہاں پر دو نظریے اور بھی ہیں۔ فراء کہتا ہے : "يَجُوْزُ مُطْلَقًا"۔ وہ کہتے ہیں نہیں، یہ جو آپ نے شرطیں لگای ہیں کہ اگر معطوف علیہ مجرور ہو، مرفوع پر مقدم ہو، تو جائز ہے، وہ کہتے ہیں مطلقاً جائز ہے، کوئی بھی دو عامل ہوں اور ان کے دو معمول ہوں، ان کا عطف ایک دوسرے پر جائز ہے۔ یہ شرط نہیں کہ حتماً معطوف علیہ مجرور بھی ہو اور مرفوع پر مقدم بھی ہو۔ "وَلَا يَجُوْزُ مُطْلَقًا عِنْدَ سِيْبَوَيْهِ"۔ جبکہ سیبویہ نحوی کہتا ہے کہ نہ، اصلاً دو مختلف عاملوں کے معمولوں کا عطف جائز نہیں ہے۔ وہ کہتا ہے کہ سرے سے یہ جائز ہی نہیں ہے مطلقًا، چاہے وہ معطوف علیہ مجرور ہو اور مرفوع سے پہلے ہو، چاہے نہ ہو، اصلاً جائز ہی نہیں ہے۔ اس کی تفصیل ہے لیکن ان شاءاللہ بڑی کتابوں میں اس کو جا کر آگے پڑھیں گے۔

  وَصَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ

والتّعريف والتّنكير ، نحو قوله تعالى : «مِنْ هَـٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا» (١).

وفائدة النعت تخصيص المنعوت إن كانا نكرتين نحو : جاءني رَجُلٌ عالِمٌ ، وتوضيح منعوته إن كانا معرفتين نحو : جاءني زَيْدٌ الْفاضِلُ ، وقد يكون للثناء والمدح نحو : «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ». وقد يكون للذمّ نحو : أعُوذُ باللهِ مِنْ الشَّيْطانِ الرَّجيم ، وقد يكون للتأكيد نحو قوله تعالى : «نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ» (٢).

واعلم أنّ النكرة توصف بالجملة الخبريّة نحو : مَرَرْتُ بِرَجُلٍ أبُوهُ قائِمٌ ، أو قامَ أبُوهُ. والضمير لا يوصف ولا يوصف به.

القسم الثاني : العطف بالحروف

وهو تابع ينسب إليه ما نسب إلى متبوعه وكلاهما مقصودان بتلك النسبة ، ويسمّى عطف النسق أيضاً.

وشرطه أن يتوسّط بينه وبين متبوعه أحد حروف العطف وسيأتي ذكرها في القسم الثالث نحو : قامَ زَيْدٌ وعَمْروٌ.

وإذا عطف على ضمير مرفوع متّصل يجب تأكيده بضمير منفصل نحو : ضَرَبْتُ أنَا وَزَيْدٌ ، إلّا إذا فصل نحو : ضَرَبْتُ الْيَوْمَ وَزَيْدٌ ، وإذا عطف على الضمير المجرور المتّصل تجب إعادة حرف الجرّ في المعطوف نحو : مَرَرْتُ بِكَ وَبِزَيْدٍ.

واعلم أنّ المعطوف في حكم المعطوف عليه ، أعني : إذا كان الأوّل صفة أو خبراً ، أو صلة ، أو حالاً فالثاني كذلك. والضّابطة فيه أنّه إن كان يجوز أن يقام المعطوف مقام المعطوف عليه جاز العطف ، وحيث لا فلا.

____________________________

(١) النساء : ٧٥.

(٢) الحاقة : ١٤.

والعطف على معمولي عاملين مختلفين جائز إذا كان عاملين مختلفين جائز إذا كان المعطوف عليه مجروراً ومقدّماً على المرفوع ، والمعطوف كذلك أي مجرور نحو : في الدارِ زَيْدٌ ، وَالْحُجْرَةِ عَمْروٌ. وفي هنا مذهبان آخران وهما الجواز مطلقاً عند الفرّاء ، وعدمه مطلقاً عند سيبويه.

القسم الثالث : التّأكيد

وهو تابع يدلّ على تقرير المتبوع فيما نسب إليه نحو : جاءني زَيْدٌ نَفْسُهُ. أو يدلّ على شمول الحكم لكلّ أفراد المتبوع مثل : «فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ» (١).

والتأكيد على قسمين : لفظيّ : وهو تكرير اللفظ الأوّل بعينه نحو : جاءني زَيْدٌ زَيْدٌ ، وقامَ زَيْدٌ زَيْدٌ ، جاءني جاءني زَيْدٌ ، قامَ قامَ زَيْدٌ ، ويجوز في الحروف أيضاً نحو : إنَّ إنَّ زَيْداً قائِمٌ.

ومعنويّ : وهو بألفاظ معدودة وهي : [ نفس وعين ] للواحد والمثنّى والمجموع باختلاف الصيغة والضمير نحو : جاءني زَيْدٌ نَفْسُهُ ، والزَّيْدانِ أنْفُسُهُما أو نَفْساهُما ، والزَّيْدُونَ أنْفُسُهُمْ ، وكذلك عَيْنُهُ وأعْيُنُهُما أو عَيْناهُما وأعْيُنُهُمْ.

وللمؤنّث نحو : جاءتني هِنْدٌ نَفْسُها ، والْهِنْدانِ أنْفُسُهُما أو نَفْساهُما والْهِنْداتُ أنْفُسُهُنَّ ، وكذا عَيْنُها وأعْيُنُهُما أو عَيْناهُما ، وأعْيُنُهُنَّ.

وكِلا وكِلْتا للمثنّى خاصّة نحو : قامَ الرَّجُلانِ كِلاهُما ، وقامَتِ المرأتان كِلْتاهُما.

وكُلّ ، وأجْمَع ، وأكْتَع ، وأبْتَع ، وأبْصَع ، لغير المثنّى باختلاف

____________________________

(١) الحجر : ٣٠.