پہلی قسم: النعت (صفت)
اب، فصل، ہر توابع میں سے ہر تابع کی علیحدہ سے تعریف بیان فرما رہے ہیں۔ خوب۔ فرماتے ہیں توابع خمسہ میں سے ایک ہے "النعت"۔ نعت کسے کہتے ہیں؟ جواب۔ نعت وہ تابع ہے جو دلالت کرتا ہے اس معنی پر جو اس کے متبوع میں پایا جاتا ہے یا متبوع کے متعلق میں پایا جاتا ہے۔ مثال لیں گے بالکل واضح ہو جائے گا کہ نعت وہ تابع ہے جو ایسے معنی پر دلالت کرے جو معنی اس کے متبوع میں پایا جاتا ہو۔ جیسے "جَاءَنِي رَجُلٌ عَالِمٌ" میرے پاس آیا رجل عالم جو عالم تھا۔ اب دیکھو عالم، یہ عالم نعت ہے، یہ صفت ہے۔ یہ دلالت کر رہا ہے ایسے معنی پر کہ جو اس کے متبوع میں یعنی یہ عالم دلالت کر رہا ہے کہ یہ عالم میں جو علم کی صفت ہے وہ میرے متبوع رجل میں پائی جاتی ہے۔ وہ  میرے متبوع رجل میں پائی جاتی ہے۔ ٹھیک ہے جی۔ نعت وہ تابع ہے جو ایسے معنی پر دلالت کرے جو اس کے متبوع کے میں پایا جاتا ہو۔ یا متبوع کے متعلق میں پایا جاتا ہو یعنی خود متبوع میں نہیں، متعلق متبوع جیسے "جَاءَنِي رَجُلٌ عَالِمٌ أَبُوهُ" میرے پاس آیا مرد کہ اس کا باپ عالم تھا۔ اب عالم میں جو علم والی صفت ہے وہ رجل میں نہیں بلکہ متعلق رجل، رجل سے جس کا تعلق ہے وہ ہے اس کا باپ یعنی وہ علم اس کے باپ میں پایا جاتا ہے، خود متبوع میں نہیں بلکہ متبوع کے متعلق میں پایا جاتا ہے۔ آسان ہو گیا۔
پس اب خلاصہ یعنی تعریف دو سطریں بن جائے گی۔ نعت کسے کہتے ہیں؟ جواب: نعت وہ تابع ہے جو دلالت کرے ایسے معنیٰ پر جو اس کے متبوع میں پایا جاتا ہو یا متعلقِ متبوع میں پایا جاتا ہو، ختم۔
نعت کی متبوع کے ساتھ مطابقت
جب نعت اس معنیٰ پر دلالت کر رہی ہو کہ جو اس کے متبوع میں پایا جاتا ہو تو اس صورت میں نعت اپنے متبوع کی دس چیزوں میں اتباع کرے گی۔ ٹھیک ہے جی۔ یا یوں کہیں کہ نعت وہ تابع ہے یعنی صفت وہ تابع ہے جو دلالت کرے ایسے معنیٰ پر جو اس کے متبوع میں پایا جاتا ہو، متبوع یعنی موصوف میں پایا جاتا ہو، تو پس نعت دس چیزوں میں اپنے متبوع کی اتباع کرے گی۔ یا یوں کہیں کہ صفت دس چیزوں میں اپنے موصوف کی تابع ہوتی ہے، دس چیزوں میں۔ اب ان کو ایک کر کر لکھ لیں مثلاً:
 نعت تابع ہو گی متبوع کے معرفہ ہونے میں، متبوع معرفہ صفت بھی معرفہ۔ نعت متبوع کے تابع ہو گی نکرہ ہونے میں، نعت متبوع کے تابع ہو گی مفرد ہونے میں، نعت متبوع کے تابع ہو گی تثنیہ ہونے میں، نعت متبوع کے تابع ہو گی جمع ہونے میں، نعت متبوع کے تابع ہو گی مذکر ہونے میں، نعت متبوع کے تابع ہو گی مؤنث ہونے میں، نعت متبوع کے تابع ہو گی مرفوع ہونے میں، نعت متبوع کے تابع ہو گی منصوب ہونے میں، نعت متبوع کے تابع ہو گی مجرور ہونے میں، یہ دس پوری ہو گئیں۔ ٹھیک ہو گیا جی۔ 
لیکن اگر نعت اس معنیٰ پر دلالت کر رہی ہو جو خود متبوع میں نہیں بلکہ اس کے متعلق میں پائی جاتی ہو تو ایسی صورت میں نعت فقط پانچ چیزوں میں اپنے متبوع کے تابع ہو گی۔ اچھا وہ پانچ چیزیں کونسی ہیں؟ وہ ہیں اعراب یعنی مرفوع ہونے میں، منصوب ہونے میں، مجرور ہونے میں، معرفہ ہونے میں اور نکرہ ہونے میں۔ ٹھیک ہے جی۔
کتاب سے نعت کا بیان
فرماتے ہیں فصل۔ "اَلنَّعْتُ تَابِعٌ" نعت وہ تابع ہے۔ "يَدُلُّ عَلَى مَعْنًى" جو دلالت کرتی ہے ایسے معنیٰ پر "فِي مَتْبُوعِهِ" جو معنیٰ اس کے متبوع میں پایا جاتا ہے۔ جیسے "جَاءَنِي رَجُلٌ عَالِمٌ" "عَالِمٌ" نعت ہے، "عَالِمٌ" صفت ہے، یہ دلالت کر رہی ہے ایسے معنیٰ پر کہ میرا معنیٰ علم یہ میرے متبوع یعنی رجل میں پایا جاتا ہے کہ وہ علم اسی متبوع خود رجل، خود رجل میں پایا جاتا ہے، میرے متبوع میں پایا جاتا ہے۔ "أَوْ فِي مُتَعَلِّقِ مَتْبُوعِهِ" یا نعت دلالت کرے گی ایک ایسے معنیٰ پر کہ جو خود اس کے متبوع میں نہیں لیکن اس کے متبوع کے متعلق میں پایا جاتا ہو جیسے "جَاءَنِي رَجُلٌ عَالِمٌ أَبُوهُ" اب "عَالِمٌ" نعت ہے یہ صفت ہے۔ اب یہ دلالت کر رہا ہے کہ یہ علم میرے متبوع خود رجل میں نہیں بلکہ اس متبوع کے متعلق ابوہ اس کے اب میں پایا جاتا ہے۔ یعنی میرے پاس آیا رجل ایسا مرد "عَالِمٌ أَبُوهُ" کہ اس کا باپ عالم تھا یعنی وہ معنیٰ علم یعنی وہ صفت خود رجل میں نہیں بلکہ اس کے متعلق اس کے باپ میں پائی جاتی تھی۔ تو پس گویا نعت اسی لحاظ سے دو قسمیں ہو گی کہ کبھی نعت اس معنیٰ کو بیان کرتی ہے جو خود متبوع میں پایا جاتا ہے اور کبھی اس کو بیان کرتی ہے جو متبوع کے متعلق میں پایا جاتا ہے۔ "وَيُسَمَّى صِفَةً أَيْضًا" اسی نعت کا دوسرا نام ہوتا ہے صفت۔ یہ جو ہم صفت و موصوف کہتے ہیں یہی نعت اور منعوت ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے جی، اس کو صفت کہیں نعت کہیں ایک ہی بات ہے۔
 نعت کی اقسام اور ان کے احکام
فرماتے ہیں "وَالْقِسْمُ الْأَوَّلُ يَتْبَعُ مَتْبُوعَهُ فِي عَشَرَةِ أَشْيَاءَ" پہلی قسم، پہلی قسم کونسی تھی؟ کہ نعت اس معنیٰ پر دلالت کر رہی ہو جو اس کے متبوع میں پایا جاتا ہے۔ اگر صفت ایسی ہے کہ جو ایسے معنیٰ پر دلالت کرے جو خود اس کے اپنے موصوف میں پایا جاتا ہو تو ایسی نعت و صفت اپنے متبوع کے تابع ہو گی دس چیزوں میں یعنی نعت کی جو پہلی قسم ہے یہ اس متبوع کے یعنی یہ صفت اپنے موصوف کے تابع ہو گی دس چیزوں میں۔ 
۱،۲،۳۔ "فِي الْإِعْرَابِ" اعراب میں یعنی اعراب کی تین قسمیں ہو گی نا، کہ جہاں متبوع مرفوع وہاں نعت بھی مرفوع، یہ منعوت مرفوع، یہ نعت بھی مرفوع، جہاں منعوت منصوب وہاں نعت بھی منصوب، جہاں منعوت مجرور وہاں نعت بھی مجرور، تین یہ ہو گئے۔
۴،۵"وَالتَّعْرِيفِ وَالتَّنْكِيرِ" معرفہ اور نکرہ ہونے میں۔ اگر منعوت معرفہ ہو گا تو نعت بھی معرفہ ہو گی اگر منعوت نکرہ ہو گا تو نعت بھی نکرہ۔
۶،۷،۸۔"وَالْإِفْرَادِ وَالتَّثْنِيَةِ وَالْجَمْعِ" یعنی اگر منعوت مفرد ہو گا تو نعت بھی مفرد آئے گی، اگر منعوت تثنیہ ہو گا تو نعت بھی تثنیہ آئے گی، اگر منعوت جمع ہو گا تو نعت بھی جمع آئے گی۔
۹،۱۰۔"وَالتَّذْكِيرِ وَالتَّأْنِيثِ" مذکر اور مؤنث ہونے میں یعنی اگر منعوت مذکر تو نعت بھی مذکر اور اگر منعوت مؤنث تو نعت بھی مؤنث۔ مثالیں بالکل بڑی پیاری دی ہیں جیسے "جَاءَنِي رَجُلٌ عَالِمٌ" اب رجل پر بھی رفع ہے عالم پر بھی رفع ہے۔ رجل بھی نکرہ ہے عالم بھی نکرہ ہے۔ رجل بھی مفرد ہے عالم بھی مفرد ہے۔ رجل بھی مذکر ہے عالم بھی مذکر ہے۔ "جَاءَنِي رَجُلَانِ عَالِمَانِ" اب دیکھو رجلان تثنیہ ہے عالمان نعت وہ بھی تثنیہ ہو گی۔ "جَاءَنِي رِجَالٌ عَالِمُونَ" اگر رجال جمع ہو گیا تو عالمون بھی جمع ہو گیا۔ "جَاءَنِي زَيْدٌ الْعَالِمُ" پس یہاں زید معرفہ ہو گیا تو العالم نعت بھی معرفہ ہو گئی۔ "جَاءَتْنِي امْرَأَةٌ عَالِمَةٌ" امراۃ مؤنث تھی تو صفت نعت وہ بھی "عَالِمَةٌ" مؤنث ہو گئی۔ یعنی دس کی دس چیزوں میں یہ نعت پہلی صورت میں اپنے متبوع کے، منعوت کے تابع ہوتی ہے۔
"وَالْقِسْمُ الثَّانِي" لیکن جو نعت کی دوسری قسم ہے کہ نعت اس معنیٰ کو بیان کر رہی ہو کہ جو خود متبوع میں نہیں بلکہ اس کے متعلق میں پایا جاتا ہو "إِنَّمَا يَتْبَعُ مَتْبُوعَهُ" تو وہ اپنے متبوع کے تابع ہوتی ہے۔
"فِي الْخَمْسَةِ الْأُوَلِ" پہلے پانچ چیزوں میں، پہلی پانچ چیزوں میں وہ تابع ہوتی ہے باقی میں نہیں۔ یعنی کون سے؟
"أَعْنِي الْإِعْرَابَ" یعنی  اعراب میں ۱،۲،۳۔ رفع نصب اور جر میں۔ 
۴،۵۔"وَالتَّعْرِيفَ وَالتَّنْكِيرَ" میں۔ جیسے قرآن مجید کی آیت ہے "مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا" "اَلظَّالِمِ أَهْلُهَا" اب آپ نے دیکھا کہ "اَلظَّالِمِ" "اَلْقَرْيَةِ" چونکہ مجرور تھا "اَلظَّالِمِ" بھی مجرور ہے۔ ٹھیک، "اَلْقَرْيَةِ" چونکہ معرفہ تھا "اَلظَّالِمِ" بھی معرفہ ہے۔ ٹھیک ہو گیا جی۔ "أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا" اب یہاں الظالم جس معنیٰ کو بیان کر رہا ہے ظالم یعنی معنیٰ ظلم وہ ظلم اس خود قریہ میں نہیں پایا جاتا بلکہ وہ ظلم کس میں پایا جاتا ہے؟ اس قریہ میں اس گاؤں میں رہنے والوں میں پایا جاتا ہے۔ تو پس یہاں الظالم وہ صفت ہے، وہ نعت ہے جو دلالت کر رہی ہے ایسے معنیٰ پر کہ جو اس کے متعلق میں پایا جاتا ہے نہ کہ خود اس متبوع میں۔ ٹھیک ہو گیا؟ یہ بھی آسان ہو گیا۔