درس الهدایة في النحو

درس نمبر 24: بحث تابع 1

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

توابع کی اقسام اور ان کی تعریف

"الْخَاتِمَةُ فِي التَّوَابِعِ"

قسم اول اسم کی بحث تھی۔ پھر قسم اول کے باب اول میں اسم معرب کی بحث تھی۔ پھر اس باب اول میں تین مقاصد تھے۔ مقصد اول مرفوعات کے بارے میں، مقصد ثانی منصوبات کے بارے میں اور مقصد ثالث مجرورات کے بارے میں۔ تین مقاصد کی میں مکمل ہونے کے بعد جیسے انہوں نے کہا تھا کہ آخر میں ایک خاتمہ ہوگا آج وہ خاتمہ اور اس خا  تمے پر پھر گویا باب اول اسم معرب کی بحث مکمل ہو جائے گی پھر آگے آئے گا باب ثانی مبنی کے بارے میں۔

اعراب کی اقسام: اصالتاً اور بالواسطہ

فرماتے ہیں وہ تین مقاصد ہم نے پیچھے آپ کو بیان   کیے جن اسمائے معرب کی بحث ہم نے کی کہ فلاں مرفوع ہوگا، فلاں منصوب ہوگا۔ وہ وہ اسماء    تھے کہ جن کا اعراب "اصالتاً" تھا۔ "اصالتاً" کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو عامل جس اسم پر جیسا داخل ہوا بس اسی عامل کے مطابق ہم نے اس اسم پر وہی اعراب پڑھ دیا۔ ڈائریکٹ، مثلاً رأیتُ آیا اس نے زید کو ڈائریکٹ نصب دے دیا، مثلاً۔ مررتُ بزیدٍ باء جار داخل ہوئی تو زید کو اس نے جر دے دیا۔ تو ان اسماء کا جو بھی اعراب ہوتا تھا رفع یا نصب یا جر وہ ان کا اصلی تھا یعنی پیچھے جیسا عامل آیا ویسا ان پر اعراب پڑھ دیا۔ لیکن آج جو شروع فرما رہے ہیں کچھ اسماء ا یسے ہوتے ہیں کہ عامل ڈائریکٹ ان پر داخل نہیں ہوتا جس کو آپ کہتے ہیں ان کا اعراب بالواسطہ ہوتا ہے، ان کا اعراب ان ڈائریکٹ کہ عامل کسی اور پر داخل ہوتا ہے لیکن ان اسماء پر بھی وہی اعراب پڑھا جاتا ہے جو ان سے پہلے پر پڑھا جا رہا تھا۔

 توابع کا تعارف اور اقسام

یعنی یہ اعراب میں اس کے تابع ہوتے ہیں کہ ان کا اپنا کوئی ذاتی اعراب نہیں ہوتا بلکہ یہ اپنے اعراب میں اسی اپنے ماقبل کے محتاج ہوتے ہیں۔ تو جن، جو جو اسماء اعراب میں کسی اور کے تابع ہوتے ہیں اس کو کہا جاتا ہے توابع۔ توابع جمع ہے تابع کی۔ تابع ہوتا ہے کسی کی اتباع میں ہونا۔ چونکہ یہ بھی اعراب میں اور دیگر چیزوں میں آگے ان شاءاللہ آئے گا، کسی اور کی اتباع میں ہوتے ہیں اس لیے ان کو توابع کہا جاتا ہے۔ کتنے ہیں توابع؟ پانچ ہیں۔

۱۔نعت جس کو ہم صفت کہتے ہیں۔ ۲۔ عطف بالحروف۔  ۳۔تاکید۔ ۴۔بدل۔ ۵۔ عطف البیان۔

 یہ پانچ توابع ہیں۔ ان کا اعراب اپنا نہیں بلکہ یہ محتاج ہوتے ہیں یعنی تابع ہوتے ہیں اپنے ما قبل کے جس کو ہم متبوع کہتے ہیں کہ وہ متبوع ہوگا یہ اس کے تابع ہوں گے۔ متبوع یعنی جس کی اتباع کی جائے، تابع یعنی جو اتباع کرے۔

"الْخَاتِمَةُ فِي التَّوَابِعِ"

تین مقاصد مکمل ہونے کے بعد خاتمہ یعنی اسم معرب کی جو آخری بحث ہے اس کو خاتمہ کا نام دیا ہے۔ فرماتے ہیں اور وہ ہے توابع کے بارے میں۔ "اعْلَمْ أَنَّ الَّتِي مَرَّتْ مِنَ الْأَسْمَاءِ الْمُعْرَبَةِ" کہ ابھی تک جن اسماء معربہ کی بحث گزری ہے یعنی مرفوعات، منصوبات، مجرورات وغیرہ "كَانَ إِعْرَابُهَا بِالْأَصَالَةِ" ان کا اعراب بالاصالہ تھا۔ ان کا اعراب اصلی تھا یعنی ان کا اعراب اپنا تھا، کیسے؟ "بِأَنْ دَخَلَتْهَا الْعَوَامِلُ مِنَ الْمَرْفُوعَاتِ وَالْمَنْصُوبَاتِ وَالْمَجْرُورَاتِ" کہ ان پر جو بھی عامل داخل ہوتا تھا اگر عامل رافع تھا تو ہم اس کو مرفوع پڑھ رہے تھے، اگر عامل ناصب تھا تو ہم اس کو منصوب پڑھ رہے تھے اور اگر عامل جار تھا تو ان پر کو مجرور پڑھ رہے تھے۔ ٹھیک ہے جی؟ لہذا جو بھی عامل تھا ہم اس کو پڑھ رہے تھے۔ لیکن "فَقَدْ يَكُونُ إِعْرَابُ الِاسْمِ بِتَبَعِيَّةِ مَا قَبْلَهُ" کبھی کبھی ایک اسم معرب تو ہوتا ہے لیکن اس اسم کا اعراب اصلی نہیں بلکہ اپنے ماقبل کی تبعیت میں ہوتا ہے۔ یعنی جو اعراب اس کے ماقبل پر پڑھا گیا ہے عامل کے مطابق بس وہی اعراب اب اس پر بھی پڑھ دیں۔ "وَيُسَمَّى التَّابِعَ" اس کا نام رکھا جاتا ہے تابع۔

تابع کی تعریف

پس جو اس کا ماقبل ہوگا اس کو کہیں گے متبوع اور یہ جو بعد میں ہوگا اس کو کہیں گے تابع۔ تابع کو تابع کیوں کہتے ہیں؟ جواب: "لِأَنَّهُ يَتْبَعُ مَا قَبْلَهُ فِي الْإِعْرَابِ" اس   لیے کہ یہ اعراب میں اپنے ماقبل کی اتباع کرتا ہے۔ یعنی جو اعراب اس کے ماقبل کو دیا جاتا ہے جس کو ہم متبوع کہیں گے وہی اعراب اس کو دیں گے، یہ اس کا تابع ہے یعنی اس کی اپنا اس کا کوئی عامل نہیں ہے جو اس کو ڈائریکٹ کوئی اعراب دے رہا ہو۔ ٹھیک ہوگیا جی۔ خوب۔ یہ تو ہو گیا اس کو تابع کہنے کی وجہ۔
اب کون کون سا اسم تابع واقع ہو سکتا ہے؟ آیا ہر اسم؟ فرماتے ہیں نہ، اس تابع کی بھی ایک تعریف ہے، اس تابع بھی ہر اسم نہیں ہوتا بلکہ تابع کی تعریف یہ ہے۔ آپ یوں کہیں گے اگر سوال یہ ہو کہ تابع کو تابع کیوں کہتے ہیں؟ تو آپ جواب دیں گے چونکہ یہ اعراب میں اپنے ماقبل کی اتباع کرتا ہے۔ اگر یوں سوال ہو کہ تابع  کسے کہتے ہیں؟ تابع کی تعریف کیا ہے؟ تو تابع کی تعریف یہ ہے: "هُوَ كُلُّ ثَانٍ مُعْرَبٍ بِإِعْرَابِ سَابِقِهِ مِنْ جِهَةٍ وَاحِدَةٍ"۔ تابع ہر وہ دوسرا اسم ہے، کیونکہ یہ دوسرا بنا نا، "کل ثانٍ"، پہلے کی اتباع  نہیں۔ ہر وہ دوسرا اسم معرب جسے اعراب دیا جاتا ہے "بِإِعْرَابِ سَابِقِهِ" اپنے سے پہلے والے سابق والے اعراب کے ساتھ کیوں؟ "مِنْ جِهَةٍ وَاحِدَةٍ" ایک ہی جہت سے۔ یعنی جس وجہ سے، ذرا توجہ کرنا، ہم اس سے پہلے والے اسم پر رفع پڑھ رہے تھے اس پر بھی وہی رفع اسی عامل کی وجہ سے پڑھ رہے ہیں۔ اگر اس پر نصب پڑھ رہے تھے وہ کسی عامل کی وجہ سے تو اسی وجہ سے اب اس پر بھی نصب پڑھیں گے۔ "هُوَ كُلُّ ثَانٍ مُعْرَبٍ بِإِعْرَابِ سَابِقِهِ" ہر وہ دوسرا اسم جس کو اعراب دیا گیا ہو اپنے سابق والے اعراب کے ساتھ "مِنْ جِهَةٍ وَاحِدَةٍ" ایک ہی جہت سے۔ توابع

"وَالتَّوَابِعُ خَمْسَةُ أَقْسَامٍ"، توابع پانچ قسمیں ہیں۔ "النَّعْتُ" جس کو ہم صفت کہتے ہیں، "الْعَطْفُ بِالْحُرُوفِ"، "التَّأْكِيدُ"، "الْبَدَلُ" اور "عَطْفُ الْبَيَانِ"۔ ٹھیک ہو گیا جی۔

4

نعت کی بحث

 پہلی قسم: النعت (صفت)

اب، فصل، ہر توابع میں سے ہر تابع کی علیحدہ سے تعریف بیان فرما رہے ہیں۔ خوب۔ فرماتے ہیں توابع خمسہ میں سے ایک ہے "النعت"۔ نعت کسے کہتے ہیں؟ جواب۔ نعت وہ تابع ہے جو دلالت کرتا ہے اس معنی پر جو اس کے متبوع میں پایا جاتا ہے یا متبوع کے متعلق میں پایا جاتا ہے۔ مثال لیں گے بالکل واضح ہو جائے گا کہ نعت وہ تابع ہے جو ایسے معنی پر دلالت کرے جو معنی اس کے متبوع میں پایا جاتا ہو۔ جیسے "جَاءَنِي رَجُلٌ عَالِمٌ" میرے پاس آیا رجل عالم جو عالم تھا۔ اب دیکھو عالم، یہ عالم نعت ہے، یہ صفت ہے۔ یہ دلالت کر رہا ہے ایسے معنی پر کہ جو اس کے متبوع میں یعنی یہ عالم دلالت کر رہا ہے کہ یہ عالم میں جو علم کی صفت ہے وہ میرے متبوع رجل میں پائی جاتی ہے۔ وہ  میرے متبوع رجل میں پائی جاتی ہے۔ ٹھیک ہے جی۔ نعت وہ تابع ہے جو ایسے معنی پر دلالت کرے جو اس کے متبوع کے میں پایا جاتا ہو۔ یا متبوع کے متعلق میں پایا جاتا ہو یعنی خود متبوع میں نہیں، متعلق متبوع جیسے "جَاءَنِي رَجُلٌ عَالِمٌ أَبُوهُ" میرے پاس آیا مرد کہ اس کا باپ عالم تھا۔ اب عالم میں جو علم والی صفت ہے وہ رجل میں نہیں بلکہ متعلق رجل، رجل سے جس کا تعلق ہے وہ ہے اس کا باپ یعنی وہ علم اس کے باپ میں پایا جاتا ہے، خود متبوع میں نہیں بلکہ متبوع کے متعلق میں پایا جاتا ہے۔ آسان ہو گیا۔

پس اب خلاصہ یعنی تعریف دو سطریں بن جائے گی۔ نعت کسے کہتے ہیں؟ جواب: نعت وہ تابع ہے جو دلالت کرے ایسے معنیٰ پر جو اس کے متبوع میں پایا جاتا ہو یا متعلقِ متبوع میں پایا جاتا ہو، ختم۔

نعت کی متبوع کے ساتھ مطابقت

جب نعت اس معنیٰ پر دلالت کر رہی ہو کہ جو اس کے متبوع میں پایا جاتا ہو تو اس صورت میں نعت اپنے متبوع کی دس چیزوں میں اتباع کرے گی۔ ٹھیک ہے جی۔ یا یوں کہیں کہ نعت وہ تابع ہے یعنی صفت وہ تابع ہے جو دلالت کرے ایسے معنیٰ پر جو اس کے متبوع میں پایا جاتا ہو، متبوع یعنی موصوف میں پایا جاتا ہو، تو پس نعت دس چیزوں میں اپنے متبوع کی اتباع کرے گی۔ یا یوں کہیں کہ صفت دس چیزوں میں اپنے موصوف کی تابع ہوتی ہے، دس چیزوں میں۔ اب ان کو ایک کر کر لکھ لیں مثلاً:

 نعت تابع ہو گی متبوع کے معرفہ ہونے میں، متبوع معرفہ صفت بھی معرفہ۔ نعت متبوع کے تابع ہو گی نکرہ ہونے میں، نعت متبوع کے تابع ہو گی مفرد ہونے میں، نعت متبوع کے تابع ہو گی تثنیہ ہونے میں، نعت متبوع کے تابع ہو گی جمع ہونے میں، نعت متبوع کے تابع ہو گی مذکر ہونے میں، نعت متبوع کے تابع ہو گی مؤنث ہونے میں، نعت متبوع کے تابع ہو گی مرفوع ہونے میں، نعت متبوع کے تابع ہو گی منصوب ہونے میں، نعت متبوع کے تابع ہو گی مجرور ہونے میں، یہ دس پوری ہو گئیں۔ ٹھیک ہو گیا جی۔ 

لیکن اگر نعت اس معنیٰ پر دلالت کر رہی ہو جو خود متبوع میں نہیں بلکہ اس کے متعلق میں پائی جاتی ہو تو ایسی صورت میں نعت فقط پانچ چیزوں میں اپنے متبوع کے تابع ہو گی۔ اچھا وہ پانچ چیزیں کونسی ہیں؟ وہ ہیں اعراب یعنی مرفوع ہونے میں، منصوب ہونے میں، مجرور ہونے میں، معرفہ ہونے میں اور نکرہ ہونے میں۔ ٹھیک ہے جی۔

کتاب سے نعت کا بیان

فرماتے ہیں فصل۔ "اَلنَّعْتُ تَابِعٌ" نعت وہ تابع ہے۔ "يَدُلُّ عَلَى مَعْنًى" جو دلالت کرتی ہے ایسے معنیٰ پر "فِي مَتْبُوعِهِ" جو معنیٰ اس کے متبوع میں پایا جاتا ہے۔ جیسے "جَاءَنِي رَجُلٌ عَالِمٌ" "عَالِمٌ" نعت ہے، "عَالِمٌ" صفت ہے، یہ دلالت کر رہی ہے ایسے معنیٰ پر کہ میرا معنیٰ علم یہ میرے متبوع یعنی رجل میں پایا جاتا ہے کہ وہ علم اسی متبوع خود رجل، خود رجل میں پایا جاتا ہے، میرے متبوع میں پایا جاتا ہے۔ "أَوْ فِي مُتَعَلِّقِ مَتْبُوعِهِ" یا نعت دلالت کرے گی ایک ایسے معنیٰ پر کہ جو خود اس کے متبوع میں نہیں لیکن اس کے متبوع کے متعلق میں پایا جاتا ہو جیسے "جَاءَنِي رَجُلٌ عَالِمٌ أَبُوهُ" اب "عَالِمٌ" نعت ہے یہ صفت ہے۔ اب یہ دلالت کر رہا ہے کہ یہ علم میرے متبوع خود رجل میں نہیں بلکہ اس متبوع کے متعلق ابوہ اس کے اب میں پایا جاتا ہے۔ یعنی میرے پاس آیا رجل ایسا مرد "عَالِمٌ أَبُوهُ" کہ اس کا باپ عالم تھا یعنی وہ معنیٰ علم یعنی وہ صفت خود رجل میں نہیں بلکہ اس کے متعلق اس کے باپ میں پائی جاتی تھی۔ تو پس گویا نعت اسی لحاظ سے دو قسمیں ہو گی کہ کبھی نعت اس معنیٰ کو بیان کرتی ہے جو خود متبوع میں پایا جاتا ہے اور کبھی اس کو بیان کرتی ہے جو متبوع کے متعلق میں پایا جاتا ہے۔ "وَيُسَمَّى صِفَةً أَيْضًا" اسی نعت کا دوسرا نام ہوتا ہے صفت۔ یہ جو ہم صفت و موصوف کہتے ہیں یہی نعت اور منعوت ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے جی، اس کو صفت کہیں نعت کہیں ایک ہی بات ہے۔

 نعت کی اقسام اور ان کے احکام

فرماتے ہیں "وَالْقِسْمُ الْأَوَّلُ يَتْبَعُ مَتْبُوعَهُ فِي عَشَرَةِ أَشْيَاءَ" پہلی قسم، پہلی قسم کونسی تھی؟ کہ نعت اس معنیٰ پر دلالت کر رہی ہو جو اس کے متبوع میں پایا جاتا ہے۔ اگر صفت ایسی ہے کہ جو ایسے معنیٰ پر دلالت کرے جو خود اس کے اپنے موصوف میں پایا جاتا ہو تو ایسی نعت و صفت اپنے متبوع کے تابع ہو گی دس چیزوں میں یعنی نعت کی جو پہلی قسم ہے یہ اس متبوع کے یعنی یہ صفت اپنے موصوف کے تابع ہو گی دس چیزوں میں۔ 

۱،۲،۳۔ "فِي الْإِعْرَابِ" اعراب میں یعنی اعراب کی تین قسمیں ہو گی نا، کہ جہاں متبوع مرفوع وہاں نعت بھی مرفوع، یہ منعوت مرفوع، یہ نعت بھی مرفوع، جہاں منعوت منصوب وہاں نعت بھی منصوب، جہاں منعوت مجرور وہاں نعت بھی مجرور، تین یہ ہو گئے۔

۴،۵"وَالتَّعْرِيفِ وَالتَّنْكِيرِ" معرفہ اور نکرہ ہونے میں۔ اگر منعوت معرفہ ہو گا تو نعت بھی معرفہ ہو گی اگر منعوت نکرہ ہو گا تو نعت بھی نکرہ۔

۶،۷،۸۔"وَالْإِفْرَادِ وَالتَّثْنِيَةِ وَالْجَمْعِ" یعنی اگر منعوت مفرد ہو گا تو نعت بھی مفرد آئے گی، اگر منعوت تثنیہ ہو گا تو نعت بھی تثنیہ آئے گی، اگر منعوت جمع ہو گا تو نعت بھی جمع آئے گی۔

۹،۱۰۔"وَالتَّذْكِيرِ وَالتَّأْنِيثِ" مذکر اور مؤنث ہونے میں یعنی اگر منعوت مذکر تو نعت بھی مذکر اور اگر منعوت مؤنث تو نعت بھی مؤنث۔ مثالیں بالکل بڑی پیاری دی ہیں جیسے "جَاءَنِي رَجُلٌ عَالِمٌ" اب رجل پر بھی رفع ہے عالم پر بھی رفع ہے۔ رجل بھی نکرہ ہے عالم بھی نکرہ ہے۔ رجل بھی مفرد ہے عالم بھی مفرد ہے۔ رجل بھی مذکر ہے عالم بھی مذکر ہے۔ "جَاءَنِي رَجُلَانِ عَالِمَانِ" اب دیکھو رجلان تثنیہ ہے عالمان نعت وہ بھی تثنیہ ہو گی۔ "جَاءَنِي رِجَالٌ عَالِمُونَ" اگر رجال جمع ہو گیا تو عالمون بھی جمع ہو گیا۔ "جَاءَنِي زَيْدٌ الْعَالِمُ" پس یہاں زید معرفہ ہو گیا تو العالم نعت بھی معرفہ ہو گئی۔ "جَاءَتْنِي امْرَأَةٌ عَالِمَةٌ" امراۃ مؤنث تھی تو صفت نعت وہ بھی "عَالِمَةٌ" مؤنث ہو گئی۔ یعنی دس کی دس چیزوں میں یہ نعت پہلی صورت میں اپنے متبوع کے، منعوت کے تابع ہوتی ہے۔

"وَالْقِسْمُ الثَّانِي" لیکن جو نعت کی دوسری قسم ہے کہ نعت اس معنیٰ کو بیان کر رہی ہو کہ جو خود متبوع میں نہیں بلکہ اس کے متعلق میں پایا جاتا ہو "إِنَّمَا يَتْبَعُ مَتْبُوعَهُ" تو وہ اپنے متبوع کے تابع ہوتی ہے۔

"فِي الْخَمْسَةِ الْأُوَلِ" پہلے پانچ چیزوں میں، پہلی پانچ چیزوں میں وہ تابع ہوتی ہے باقی میں نہیں۔ یعنی کون سے؟

"أَعْنِي الْإِعْرَابَ" یعنی  اعراب میں ۱،۲،۳۔ رفع نصب اور جر میں۔ 

۴،۵۔"وَالتَّعْرِيفَ وَالتَّنْكِيرَ" میں۔ جیسے قرآن مجید کی آیت ہے "مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا" "اَلظَّالِمِ أَهْلُهَا" اب آپ نے دیکھا کہ "اَلظَّالِمِ" "اَلْقَرْيَةِ" چونکہ مجرور تھا "اَلظَّالِمِ" بھی مجرور ہے۔ ٹھیک، "اَلْقَرْيَةِ" چونکہ معرفہ تھا "اَلظَّالِمِ" بھی معرفہ ہے۔ ٹھیک ہو گیا جی۔ "أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا" اب یہاں الظالم جس معنیٰ کو بیان کر رہا ہے ظالم یعنی معنیٰ ظلم وہ ظلم اس خود قریہ میں نہیں پایا جاتا بلکہ وہ ظلم کس میں پایا جاتا ہے؟ اس قریہ میں اس گاؤں میں رہنے والوں میں پایا جاتا ہے۔ تو پس یہاں الظالم وہ صفت ہے، وہ نعت ہے جو دلالت کر رہی ہے ایسے معنیٰ پر کہ جو اس کے متعلق میں پایا جاتا ہے نہ کہ خود اس متبوع میں۔ ٹھیک ہو گیا؟ یہ بھی آسان ہو گیا۔

5

نعت کا فائدہ کیا ہے؟

نعت کا فائدہ

اس نعت کا فائدہ کیا ہوتا ہے؟ یعنی اس صفت کا فائدہ کیا ہوتا ہے؟ بالکل آسان سی بحث ہے۔ اور یہاں غالباً اس کی بحث بھی مکمل ہو جائے گی۔ وہ یہ ہے ذرا توجہ کے ساتھ آسان سی ہے۔ فرماتے ہیں نعت کا فائدہ یہ ہے کہ اگر منعوت بھی نکرہ ہو یعنی اگر موصوف بھی نکرہ ہو اور صفت بھی نکرہ ہو تو صفت کے آنے سے موصوف میں تخصیص آ جاتی ہے یعنی اس کا عموم کم ہو جاتا ہے۔ اور اگر منعوت معرفہ ہو یعنی موصوف معرفہ ہو اور نعت بھی معرفہ ہو تو اس صفت کے آنے سے اس منعوت کی اس موصوف کی تھوڑی وضاحت ہو جاتی ہے۔ چونکہ خاص تو پہلے تھا کیونکہ معرفہ تھا۔ بالکل آسان۔

  "وَفَائِدَةُ النَّعْتِ" نعت کا فائدہ کیا ہے؟ فرماتے ہیں یہ دیکھنا ہو گا۔ کہ "تَخْصِيصُ الْمَنْعُوتِ إِنْ كَانَ نَكِرَتَيْنِ" نعت کا فائدہ کیا ہے؟ فرماتے ہیں نعت اس صورت میں منعوت کی تخصیص کا فائدہ دیتی ہے جب منعوت اور نعت یعنی صفت اور موصوف دونوں نکرہ ہوں۔ اگر دونوں نکرہ ہوں تو اس نعت کا فائدہ ہو گا تخصیص کا اس کے عموم میں خصوص ہو جائے گا، کمی آ جائے گی۔ جیسے "جَاءَنِي رَجُلٌ عَالِمٌ" رجل بھی نکرہ عالم بھی نکرہ، لیکن رجل جب نکرہ تھا اس میں عموم زیادہ تھا، وہ رجل، رجل عالم کو بھی شامل تھا اور رجل جاہل کو بھی شامل تھا لیکن جب عالم کی صفت ساتھ لگ گئی تو اس میں تخصیص آ گئی کہ یہ فقط عالم شخص کی بات کر رہا ہے جاہل کی بات نہیں کر رہا تو عموم میں کمی آ گئی تخصیص آ گئی۔ اسی طرح فرماتے ہیں۔

"وَتَوْضِيحُهُ إِنْ كَانَ مَعْرِفَتَيْنِ" لیکن اگر نعت و منعوت یعنی صفت اور موصوف دونوں معرفہ ہوں نکرہ نہ ہوں بلکہ معرفہ ہوں تو پھر اس نعت کا فائدہ ہو گا توضیعہ یعنی اس منعوت کی وضاحت، اس کو مزید کھول کے بیان کرنا۔ جیسے کہتے ہیں "جَاءَنِي زَيْدٌ الْفَاضِلُ" اب زید بھی معرفہ ہے الفاضل بھی معرفہ ہے لیکن اس فاضل نے زید کی مزید وضاحت کر دی ہے کہ میرے پاس آیا زید کہ جو فاضل ہے اس کی بات، یعنی اس کو مزید اس نے وضاحت کر دی۔

 نعت کے دیگر فوائد

"وَقَدْ يَكُونُ لِمُجَرَّدِ الثَّنَاءِ وَالْمَدْحِ" کبھی کبھار یہ صفت، یہ نعت نہ تخصیص کے لیے آتی ہے، نہ توضیح کے لیے آتی ہے بلکہ فقط تعریف کے لیے آتی ہے ثناء اور مدح، تعریف کرنے کے لیے موصوف کی تعریف کے لیے اور بس اس کا فائدہ کوئی اور یعنی تخصیص یا توضیح والا نہیں ہوتا فقط مدح کرنے کے لیے تعریف کے لیے صفت کو ذکر کیا جاتا ہے۔ جیسے "بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ" الله منعوت ہے، موصوف ہے، الرحمن اور الرحیم یہ دونوں علیحدہ علیحدہ صفتیں ہیں، یہ نعتیں ہیں لیکن یہ صفات اس الله کی فقط مدح و ثناء کے لیے آئے ہیں ان کا کوئی اور تخصیص یا توضیح کا فائدہ نہیں۔

"وَقَدْ يَكُونُ لِلذَّمِّ" اور کبھی کبھی صفات کسی کی مذمت کرنے کے لیے بھی آتی ہیں کہ جہاں مراد اس موصوف کی مذمت کرنی ہو جیسے "أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ" الرجیم یہاں شیطان کی صفت ہے اور یہ اس کی مذمت کے لیے آیا ہے۔

"وَقَدْ يَكُونُ لِلتَّأْكِيدِ" اور کبھی کبھار یہ صفت فقط تاکید کو بیان کرتی ہے جیسے کہتے ہیں "نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ" نفخہ "فَعْلَةٌ" کا وزن  مرہ  کے لیے آتا ہے، نفخہ کا ویسے بھی معنی ہوتا ہے ایک پھونک مارنا لیکن اب اس کے بعد جو "وَاحِدَةٌ" اس کی نعت ساتھ ذکر ہوئی ہے صفت یہ فقط تاکید کے لیے ہے کوئی اس کا اور مزید کوئی معنیٰ نہیں۔

6

جملہ خبریہ اور ضمیر کا حکم

"وَاعْلَمْ أَنَّ النَّكِرَةَ تُوْصَفُ بِالْجُمْلَةِ الْخَبَرِيَّةِ" آخر میں دو باتیں جس کا ہم کہتے ہیں نا تنبیہ ایک تنبیہ کر رہے ہیں۔ فرماتے ہیں اگر کوئی منعوت، کوئی متبوع، کوئی موصوف نکرہ ہو تو نکرہ کی صفت جملہ خبریہ واقع ہو سکتی ہے۔ اب ہو سکتا ہے وہ جملہ خبریہ اسمیہ ہو، ہو سکتا ہے جملہ خبریہ فعلیہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یعنی جملہ خبریہ نکرہ کی صفت واقع ہو سکتا ہے اس کی صفت ہوگی۔ لیکن اگر ضمیر ہو تو فرماتے ہیں ضمیر نہ موصوف واقع ہوتی ہے اور نہ ہی صفت۔ پس اسم ظاہر ہی ہے جو صفت اور موصوف واقع ہوتے ہیں۔ ضمیر صفت اور یا موصوف واقع نہیں ہوتی۔ "وَاعْلَمْ أَنَّ النَّكِرَةَ تُوْصَفُ بِالْجُمْلَةِ الْخَبَرِيَّةِ" کہ کوئی بھی اگر اسم نکرہ ہو تو اسم نکرہ کی صفت جملہ خبریہ لائی جاتی ہے۔ جملہ خبریہ چاہے وہ جملہ خبریہ اسمیہ ہو، چاہے جملہ خبریہ فعلیہ ہو اس سے کوئی جیسے "جَائَنِيْ رَجُلٌ أَبُوْهُ عَالِمٌ"۔ "أَبُوْهُ عَالِمٌ" جملہ خبریہ اسمیہ ہے جو "رَجُلٌ" کی صفت ہے۔ اور "جَائَنِيْ رَجُلٌ قَامَ أَبُوْهُ"۔ "قَامَ أَبُوْهُ" جملہ خبریہ فعلیہ ہے جو "رَجُلٌ" جو "رَجُلٌ" نکرہ کی صفت ہے۔ پس نکرہ کی صفت جملہ خبریہ ہوتی ہے اور آخر میں ایک بات یہ فرماتے ہیں کہ یہ جو ضمیر ہوتی ہے اس ضمیر کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں ضمیر نہ موصوف بن سکتی ہے اور نہ ہی صفت۔ بلکہ صفت اور موصوف ہمیشہ اسم ظاہر ہی ہوتے ہیں یعنی "الْمُضْمَرُ لَا يُوْصَفُ" یعنی مضمر کو موصوف نہیں بنایا جا سکتا "وَلَا يُوْصَفُ بِهِ" اور نہ ہی ضمیر کے ساتھ کوئی صفت یعنی مراد کیا ہوگا کہ کہ جو ضمیر ہے نہ وہ موصوف ہوتی ہے اور نہ ہی صفت۔

و صلی الله علی محمد و آله

ويجوز الحركات الثلاث ، وذو لا يقطع عن الإضافة البتّة أصلاً. هذا كلّه مجرور بتقدير حرف الجرّ ، أمّا ما يذكر فيه حرف الجرّ لفظاً فسيأتيك في القسم الثالث إن شاء الله تعالى.

الخاتمة : في التّوابع

اعلم أنّ الّتي مرّت ذكرها من الأسماء المعربة كان إعرابها بالأصالة بأن دخلها العوامل من المرفوعات والمنصوبات والمجرورات. وقد يكون الاسم إعرابه بتبعيّة ما قبله ، ويسمى التّابع ، لأنّه يتبع ما قبله في الإعراب ، وهو كلّ ثان ، معرب بإعراب سابقه من جهة واحدة.

والتّوابع خمسة أقسام : النّعت ، والعطف بالحروف ، والتأكيد ، وعطف البيان ، والبدل.

القسم الأوّل : النّعت

وهو تابع يدلّ على معنى في متبوعه نحو : جاءني رَجُلٌ عالِمٌ ، أو في متعلّق متبوعه نحو : جاءني رَجُلٌ عالِمٌ أبُوهُ ، ويسمّى الصفة أيضاً.

والقسم الأول : إنّما يتبع متبوعه في أربعة من عشرة أشياء ، فى الإعراب الثلاث : الرفع والنصب والجرّ ، والتعريف والتنكير ، والإفراد والتثنية والجمع ، والتذكير والتأنيث ؛ نحو : جاءني رَجُلٌ عالِمٌ ، وامرأةٌ عالِمَةٌ ، ورَجُلانِ عالِمانِ ، وامرأتانِ عالِمَتانِ ، ورجالٌ عُلماءٌ ، ونِساءٌ عالِماتٌ ، وزَيْدٌ الْعالِمُ ، والزَيْدانِ الْعالِمانِ ، والزَيْدُونَ الْعالِمُونَ ، ورَأَيْتُ رَجُلاً عالِماً ، وكذا البواقي.

والثاني : إنّما يتبع متبوعه في الخمسة الأُول فقط ، أعني الإعراب

والتّعريف والتّنكير ، نحو قوله تعالى : «مِنْ هَـٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا» (١).

وفائدة النعت تخصيص المنعوت إن كانا نكرتين نحو : جاءني رَجُلٌ عالِمٌ ، وتوضيح منعوته إن كانا معرفتين نحو : جاءني زَيْدٌ الْفاضِلُ ، وقد يكون للثناء والمدح نحو : «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ». وقد يكون للذمّ نحو : أعُوذُ باللهِ مِنْ الشَّيْطانِ الرَّجيم ، وقد يكون للتأكيد نحو قوله تعالى : «نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ» (٢).

واعلم أنّ النكرة توصف بالجملة الخبريّة نحو : مَرَرْتُ بِرَجُلٍ أبُوهُ قائِمٌ ، أو قامَ أبُوهُ. والضمير لا يوصف ولا يوصف به.

القسم الثاني : العطف بالحروف

وهو تابع ينسب إليه ما نسب إلى متبوعه وكلاهما مقصودان بتلك النسبة ، ويسمّى عطف النسق أيضاً.

وشرطه أن يتوسّط بينه وبين متبوعه أحد حروف العطف وسيأتي ذكرها في القسم الثالث نحو : قامَ زَيْدٌ وعَمْروٌ.

وإذا عطف على ضمير مرفوع متّصل يجب تأكيده بضمير منفصل نحو : ضَرَبْتُ أنَا وَزَيْدٌ ، إلّا إذا فصل نحو : ضَرَبْتُ الْيَوْمَ وَزَيْدٌ ، وإذا عطف على الضمير المجرور المتّصل تجب إعادة حرف الجرّ في المعطوف نحو : مَرَرْتُ بِكَ وَبِزَيْدٍ.

واعلم أنّ المعطوف في حكم المعطوف عليه ، أعني : إذا كان الأوّل صفة أو خبراً ، أو صلة ، أو حالاً فالثاني كذلك. والضّابطة فيه أنّه إن كان يجوز أن يقام المعطوف مقام المعطوف عليه جاز العطف ، وحيث لا فلا.

____________________________

(١) النساء : ٧٥.

(٢) الحاقة : ١٤.