درس الهدایة في النحو

درس نمبر 23: بحث مجرورات

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

مجرور کی اقسام اور مضاف کی بحث

مجرورات

"الْمَقْصَدُ الثَّالِثُ فِي الْمَجْرُورَاتِ الْأَسْمَاءُ الْمَجْرُورَةُ هِيَ الْمُضَافُ إِلَيْهِ فَقَطْ"۔ ابتداء کتاب میں مصنف نے فرمایا تھا کہ میری کتاب میں ایک مقدمہ ہو گا، تین اقسام اور ایک خاتمہ ہو گا۔ قسم اول اسم کے بارے میں، قسم ثانی فعل کے بارے میں، قسم ثالث حرف کے بارے میں، اور باقی پھر خاتمے میں مشترکات۔ قسم اول میں فرمایا تھا ایک مقدمہ ہو گا اور تین مقاصد اور ایک خاتمہ۔ مقصد اول مرفوعات کے بارے میں تھا، مقصد ثانی منصوبات کے بارے میں تھا، اور آج مقصد ثالث ہے مجرورات۔

 مجرور کی اقسام

فرماتے ہیں: اسماء مجرور ہ "هِيَ الْمُضَافُ إِلَيْهِ فَقَطْ" فقط مضاف الیہ مجرورہ ہوتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ مجرورات فرماتے ہیں دو قسم کے ہوتے ہیں۔ کبھی مجرور "بِحَرْفِ الْجَرِّ" ہوتا ہے اور کبھی مجرور "بِالْإِضَافَةِ"۔ یعنی جو اسماء بھی مجرور ہوتے ہیں تمام اسماء مجرورہ کبھی وہ "بِحَرْفِ الْجَرِّ" مجرور ہوتے ہیں یعنی ان پہ حرف جر باقاعدہ ذکر ہوتا ہے اور کبھی مجرور بالاضافہ، ہوتا ان میں بھی حرف جر ہے لیکن جہاں حرف جر کا ذکر ہو وہاں اصطلاح استعمال کرتے ہے  جار مجرور۔ جیسے "بِزَيْدٍ" ہم کہتے ہیں باء جار زید مجرور۔ اور جہاں حرف جر کو لفظاً ذکر نہ کیا گیا ہو فقط اضافت ہو وہ بھی مجرور ہے، وہاں استعمال کی جاتی ہے اصطلاح اضافت کی جیسے ہم کہتے ہیں: غلامُ زیدٍ، ہم کہتے ہیں: غلام مضاف زیدٍ مضاف الیہ۔ "بِزَيْدٍ" میں بھی زید مجرور ہے غلامُ زیدٍ میں بھی زید مجرور ہے لیکن "بِزَيْدٍ" میں ہم کہتے ہیں کہ یہ جار مجرور ہیں جبکہ غلامُ زیدٍ میں ہم کہتے ہیں مضاف مضاف الیہ ہیں، ہیں دونوں جگہ پر مجرور۔

مضاف کے قواعد

فرماتے ہیں:  جب کوئی اسم مضاف ہو گا اور مضاف ہو کر دوسرے اسم کو جر دے رہا ہو گا تو مضاف میں کچھ چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ نمبر ایک: مضاف پر تنوین نہیں آسکتی یعنی غلامُ زیدٍ کہہ سکتے ہیں غلامٌ زیدٍ یہ درست نہیں  تنوین نہیں آسکتی۔ نمبر دو: جو قائم مقام تنوین ہے،  قائم مقام تنوین سے مراد کیا؟ جیسے نون تثنیہ یعنی غلامانِ کو اگر ہم مضاف کریں گے تو غلاما زیدٍ  پڑھیں گے نون جو ہے تثنیہ کی گرا دیں گے غلامانِ زیدٍ نہیں پڑھیں گے۔ اسی طرح مسلمونَ نون جمع کی ہے اگر اس کو مضاف کرنا ہے تو مسلمو پاکستان پڑھیں گے مسلمونَ پاکستان نہیں پڑھ سکتے۔ یہ چند ایک چیزیں ہیں جو مضاف کے ساتھ خاص ہیں یعنی جو مضاف ہو گا اس پر تنوین بھی نہیں آسکتی اور اس پر نون تثنیہ بھی نہیں آسکتی اور نون جمع بھی نہیں آسکتی۔ 

مقصد ثالث کی وضاحت

"الْمَقْصَدُ الثَّالِثُ فِي الْمَجْرُورَاتِ"۔ تیسرا مقصد ہے یعنی مقصد اول تھا مرفوعات کے بارے میں اسماء مرفوعہ کے بارے میں۔ مقصد ثانی تھا اسماء منصوبات کے بارے میں اور مقصد ثالث ہے اسماء مجرورہ کے بارے "الْأَسْمَاءُ الْمَجْرُورَةُ" اسماء مجرورہ کتنے ہیں؟ جواب میں کہتے ہیں "هِيَ الْمُضَافُ إِلَيْهِ فَقَطْ" فقط مضاف الیہ وہ ہے کہ جو مجرور ہوتا ہے۔

 مضاف الیہ کی تعریف

فرماتے ہی: "وَهُوَ كُلُّ اسْمٍ نُسِبَ إِلَيْهِ شَيْءٌ بِوَاسِطَةِ حَرْفِ الْجَرِّ"۔ مضاف الیہ سے مراد یعنی ہر وہ اسم جس کی طرف کسی شئ کو نسبت دی گئی ہو حرف جر کے ذریعے۔ اب کبھی تو وہ حرف جر لفظاً ذکر ہو گا اور کبھی وہ حرف جر لفظاً ذکرنہیں ہو گا لیکن تقدیر میں ہو گا۔ لفظاً ذکر ہو گا جیسے "مَرَرْتُ بِزَيْدٍ" یہاں پر باء حرف جر ہے جس نے زید کو مجرور کیا ہوا ہے۔ "يُعَبَّرُ عَنْ هٰذَا التَّرْكِيبِ فِي الْاِصْطِلَاحِ" تو جہاں پر حرف جر لفظاً موجود ہو گا تو ہم اس کو اصطلاح میں کہتے ہیں کہ یہ جار اور مجرور ہے یعنی "بِزَيْدٍ" کو ہم جب پڑھیں گے تو کہیں گے مررتُ فعل انا فاعل باء جار زید مجرور یوں پڑھیں گے چونکہ باء حرف جر لفظاً موجود ہے۔ "وَتَقْدِيرًا" اور بسا اوقات  حرف جر ہوتا ہے لیکن مقدر ہوتا ہے جیسے ہم کہتے ہیں غلامُ زیدٍ اب زید پر جر ہے لیکن یہاں پر حرف جر مقدر ہے "تَقْدِيرُهُ" یعنی اصل میں تھی عبارت "غُلَامٌ لِزَيْدٍ" اس زید سے پہلے لام مقدر ہے۔ جہاں حرف جر لفظاً موجود نہ ہو گا مقدر ہو گا "يُعَبَّرُ عَنْهُ فِي الْاِصْطِلَاحِ" ہم اپنی نحوی علم اصطلاح میں اس کو کہتے ہیں کہ "مُضَافٌ وَمُضَافٌ إِلَيْهِ" کہ یہ مضاف مضاف الیہ ہیں۔ اب آپ ذرا غور کریں جیسے میں نے پہلے بتایا ہے "مَرَرْتُ بِزَيْدٍ" میں بھی زید مجرور ہے غلامُ زیدٍ میں بھی زید مجرور ہے لیکن چونکہ پہلی مثال میں حرف جر لفظاً موجود ہے وہاں ہم کہیں گے باء جار زید مجرور لیکن غلامُ زیدٍ میں کہیں گے کہ غلام مضاف زید مضاف الیہ یعنی وہاں زید کو ڈائرکٹ مجرور کہتے ہیں جبکہ یہاں پر زید کو مضاف الیہ کا نام دیتے ہیں۔ 

مضاف کی تجرید

فرماتے ہیں :"وَيَجِبُ تَجْرِيدُ الْمُضَافِ" جب حرف جر مقدر ہو گا اور ہم ایک چیز کو دوسری شئ کی طرف نسبت دے رہے ہوں گے تو جو مضاف ہو گا اس مضاف کے لیے واجب ہے "تَجْرِيدُ الْمُضَافِ عَنِ التَّنْوِينِ" کہ وہ تنوین سے خالی ہو یعنی مضاف پر تنوین... پس غلامُ زیدٍ کہتے ہیں غلامٌ زیدٍ جائز نہیں۔ چونکہ مضاف کو تنوین سے خالی کرنا ہے۔ اسی طرح "أَوْ مَا يَقُومُ مَقَامَهُ" یا ہر اس نون سے جو تنوین کی قائم مقام ہو۔ وہ تنوین کی قائم مقام کون سی نون ہوتی ہے؟ وہ ہوتی ہے تثنیہ کی نون جیسے غلامانِ، جمع کی نون جیسے مسلمونَ۔ تو اب جب اس غلامانِ کو  مسلمونَ کو اضافت دیں گے تو پھر یہ تنوین جیسے گر گئی تھی غلامون سے جو غلامُ زیدٍ پڑھا تھا یہ تثنیہ اور جمع کی نون بھی ساقط ہو جائے گی۔ پس ہم پڑھیں گے جاءني غلامُ زیدٍ تنوین سے خالی۔ جاءني غلاما زیدٍ یہاں نون تثنیہ سے خالی۔ جاءني مسلمو مصرٍ یعنی مسلمونَ کی نون جو ہے وہ یہاں پر ہٹا دی جائے گی، حذف کر دی جائے گی۔مجرور کیا ہوتا ہے؟ جواب ہمارا:  مضاف الیہ مجرور ہوتا ہے البتہ کبھی اس میں حرف جر لفظاً موجود ہوتا ہے اور کبھی حرف جر اس میں تقدیری ہوتا ہے۔

 اضافت کی اقسام

اگلا حصہ اضافت سے متعلق ہے۔ فرماتے ہیں: اضافت دو قسم کی ہوتی ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں: یہ مضاف اور فلاں مضاف الیہ، یہ اضافت دو قسم کی ہوتی ہے۔  ایک کو کہا جاتا ہے اضافتِ لفظیہ اور ایک کو کہا جاتا ہے اضافتِ معنویہ۔ اضافتِ لفظیہ اور اضافتِ معنویہ میں کیا فرق ہے؟ فرق یہ ہے کہ جس اسم کو مضاف کیا جا رہا ہے اگر وہ مضاف ہونے والا اسم صیغۂ صفت کا نہ ہو جو اپنے معمول کی طرف مضاف ہو رہا ہو تو یہ اضافت اضافتِ معنویہ کہلائے گی اور اگر وہ صیغہ صفت کا ہو اور اپنے معمول کی طرف مضاف ہو رہا ہو تو وہ اضافت اضافتِ لفظیہ کہلاتی ہے۔ اضافت کی دو قسمیں ہیں، ایک ہے اضافت لفظیہ اور ایک ہے اضافت معنویہ۔ اب سوال بنا لیں، اضافت لفظیہ کسے کہتے ہیں؟ آپ کہیں: اگر اسم مضاف صیغۂ صفت کا ہو اور وہ مضاف ہو رہا ہو اپنے معمول کی طرف تو یہ اضافت اضافتِ لفظیہ ہے۔ اور اگر اسم مضاف صیغہ صفت کا نہ ہو اور جو اپنے معمول کی طرف مضاف ہوتا ہے تو وہ اضافت اضافتِ معنویہ ہوگی۔ مثال، غلامُ زیدٍ، ضاربُ زیدٍ۔ اب غلام صیغہ صفت کا نہیں ہے لہذا اور نہ ہی اپنے کسی معمول کی طرف مضاف ہو رہا ہے لہذا یہ اضافت اضافتِ معنویہ ہے۔ جبکہ ضاربُ زیدٍ میں ضاربٌ صیغہ صفت کا ہے وہ اپنے معمول زید کی طرف مضاف ہو رہا ہے تو اس کو اضافتِ لفظیہ  کہتے ہیں ۔

4

اضافت کی دو قسمیں

"وَاعْلَمْ أَنَّ الْإِضَافَةَ عَلَىٰ قِسْمَيْنِ" اضافت کی دو قسمیں ہیں، "مَعْنَوِيَّةٌ وَلَفْظِيَّةٌ" 

۱۔ اضافت معنویہ ۲۔اضافت لفظیہ۔

 "أَمَّا الْمَعْنَوِيَّةُ" اضافت معنویہ کسے کہتے ہیں؟ "فَهِيَ أَنْ يَكُونَ الْمُضَافُ غَيْرَ صِفَةٍ مُضَافَةٍ إِلَىٰ مَعْمُولِهَا"۔ کہ جہاں پر مضاف صفت نہ ہو یعنی مضاف صیغۂ صفت کا نہ ہو جو صفت اپنے معمول کی طرف مضاف ہو رہی ہوتی ہے یا اس کو دوسرے الفاظ میں یوں آسان کہہ لیں کہ اضافت معنویہ وہاں ہو گی جہاں صفت اپنے معمول کی طرف مضاف نہ ہو رہی ہو، صفت اپنے معمول کی طرف مضاف نہ ہو رہی ہو وہاں اضافت اضافتِ معنویہ ہوتی ہے۔ اب، یہ جو اضافت معنویہ ہے فرماتے ہیں "وَهِيَ إِمَّا بِمَعْنَى اللَّامِ" یا یہ اضافت لامیہ یعنی اس میں حرف جر لام مقدر ہوتا ہے جو آگے اسم کو جر دے رہا ہوتا ہے جیسے غلامُ زیدٍ اصل میں تھا "غُلَامٌ لِزَيْدٍ" یہ اضافت لامیہ کہلاتی ہے۔ "أَوْ بِمَعْنَى مِنْ" یا اضافت بمعنی من کی ہوگی، کیا مطلب؟ یعنی وہاں پر حرف جر تقدیری من ہو گا جیسے ہم کہتے ہیں: خاتمُ فضةٍ اصل میں تھا "خَاتَمٌ مِنْ فِضَّةٍ" یعنی چاندی کی انگوٹھی۔ "أَوْ بِمَعْنَى فِي" یا اضافتِ فی، کیا مطلب؟ یعنی وہاں پر حرف جر مقدر فی ہو گا جیسے ہم کہتے ہیں صلاةُ اللیلِ اصل میں ہے "صَلَاةٌ فِي اللَّيْلِ" یہاں فی مقدر ہے۔ 

سوال: اس اضافتِ معنویہ کا فائدہ کیا ہے؟ فرماتے ہیں اضافت معنویہ کا فائدہ ہے، "وَفَائِدَتُهَا هَذِهِ الْإِضَافَةُ" وہ کیا ہے؟ "تَعْرِيفُ الْمُضَافِ إِنْ أُضِيفَ إِلَى مَعْرِفَةٍ"۔ یعنی اگر اس اسمِ نکرہ کو اسمِ معرفہ کی طرف مضاف کیا جا رہا ہوگا تو اس کا فائدہ ہوگا کہ پھر مضاف بھی معرفہ ہو جائے گا۔ یعنی غلام ویسے نکرہ ہے، ہر غلام کو غلام کہتے ہیں، لیکن جب اس کو معرفہ زید کی طرف مضاف کریں گے اور ہم کہیں گے غلامِ زیدٍ تو اب یہ بھی معرفہ بن گیا، اب ہر غلام مراد نہیں ہے فقط ایک غلام مراد ہے۔

"أَوْ تَخْصِيصُهُ إِنْ أُضِيفَ إِلَى نَكِرَةٍ"۔ لیکن اگر ایک اسمِ نکرہ کو دوسرے اسمِ نکرہ کی طرف مضاف کیا جا رہا ہے اور اضافت بھی اضافتِ معنویہ ہے، اگرچہ دونوں نکرہ ہیں لیکن اس اضافت کی وجہ سے یہ اضافت مفیدِ تخصیص ہوگی یعنی وہ عموم اس میں نہیں ہوگا جو پہلے تھا۔ مثال: غلامِ رجلٍ,  غلام نکرہ ہے، دنیا میں ہر غلام کو غلام کہا جاتا ہے، ہر مرد کو رجل کہا جاتا ہے۔ لیکن جب ہم اس غلام کو اضافت دیں گے رجل کی طرف، مرد کا غلام، تو اس میں تخصیص آ گئی کہ کم از کم عورتوں والے جو غلام ہیں وہ اس سے خارج ہو گئے۔ خنثی والے غلام اس سے خارج ہو گئے تو کچھ نہ کچھ تخصیص آ گئی کہ یہ فقط رجل کے غلام کے ساتھ ہے کسی اور کے ساتھ نہیں ہے۔  بس جب کوئی اسم نکرہ مضاف ہوگا معرفہ کی طرف تو اضافت فائدہ تعریف کا دے گی اور اگر وہ مضاف ہوگا کسی اور نکرہ کی طرف تو اضافت فائدۂ تخصیص کا دے گی ۔

"أَمَّا اللَّفْظِيَّةُ" لیکن اگر یہ اضافت، اضافتِ لفظیہ ہو، اضافتِ لفظیہ کسے کہتے ہیں؟ جواب: "أَنْ يَكُونَ الْمُضَافُ صِفَةً" کہ وہ اسمِ مضاف صفت ہو، صیغۂ صفت کا ہو، "مُضَافَةً إِلَى مَعْمُولِهَا" جو اپنے ہی معمول کی طرف مضاف ہو کے استعمال ہو رہا ہو۔ "وَهِيَ فِي تَقْدِيرِ الِانْفِصَالِ" جبکہ واقع میں وہ اس کے ساتھ جڑا ہوا نہیں ہے یعنی واقع میں وہ علیحدہ تھا۔ مثال: ضاربِ زیدٍ، ضارب صیغۂ صفت کا ہے، زید اس کا معمول ہے، لیکن ضارب زید کی طرف مضاف ہو رہا ہے اور زید کو جر دے رہا ہے ضاربِ زیدٍ، جبکہ تقدیرًا یہ اصل میں یعنی ضارب کا یا ضارب کا فاعل ہوگا، مرفوع ہوگا یا اس کا منصوب ہوگا کیونکہ یہ ضارب کا معمول ہے۔ اسی طرح وَ حَسَنُ الْوَجْهِ میں بھی یہ حسن الوجہ مییں اضافت اضافتِ لفظیہ ہے، چونکہ حسن یہ صیغۂ اور صفت مشبہ کا ہے۔

"وَفَائِدَتُهَا" جناب اس اضافت کا فائدہ کیا ہے؟ اس کا فائدہ تو یا تعریف تھا یا تخصیص، فرماتے ہیں: اس اضافت لفظیہ کا فائدہ ہوتا ہے "تَخْفِيفٌ فِي اللَّفْظِ" فقط لفظ میں تخفیف ہو جاتی ہے۔ تخفیف بمعنی ہو جاتی ہے کہ ظاہر ہے اس میں تنوین گر جاتی ہے، نونِ تثنیہ یا جمع ہو تو وہ گر جاتے ہیں وغیرہ۔ یہ اس کا ایک لفظًا فائدہ  ہوتا ہے۔

5

یاء متکلم کی طرف اضافت

 یاء متکلم کی طرف اضافت کا بیان

"وَاعْلَمْ" آگے ایک اور نکتہ جو اسی سے مربوط ہوتا ہے وہ یہ ہے، فرماتے ہیں اگر کوئی اسمِ صحیح یا جاری مجریٰ صحیح ہو۔ صحیح کی تعریف میں نے پہلے بھی گزارش کی تھی کہ نحوی صحیح اس کو کہتے ہیں جس کے آخر میں واو یا یاء نہ ہو۔ اور صرفی تو کہتے تھے  کہ جس کے تین حروف میں سے کسی کے مقابل میں حرف علت نہ ہو، لیکن یہ کہتے ہیں کہ جس کے آخر میں وا یا یاء نہ ہو اس کو صحیح کہتے ہیں اور جاری مجریٰ صحیح کسے کہتے تھے یہ والے؟ کہ جس کے آخر میں وا یا یاء ہو اور اس کا ماقبل کیا تھا؟ ماقبل ساکن ہو۔ جیسے "دَلْوٌ"، "ظَبْيٌ" تھا۔ 

فرماتے ہیں: "وَاعْلَمْ أَنَّكَ إِذَا أَضَفْتَ الِاسْمَ الصَّحِيحَ"، اگر آپ کسی اسمِ صحیح کو مضاف کریں یاء متکلم کی طرف آگے آ رہا ہے۔ "أَوِ الْجَارِيَ مَجْرَى الصَّحِيحِ"، یا کسی ایسے اسم کو جو صحیح کا قائم مقام ہو ، فرماتے ہیں: اگر آپ کسی اسمِ صحیح یا جاری مجریٰ صحیح کو مضاف کرنا چاہتے ہیں "إِلَى يَاءِ الْمُتَكَلِّمِ"، یاء متکلم کی طرف، بہت توجہ، تو اس کا طریقہ کیا ہوگا؟ فرماتے ہیں :اس کا طریقہ یہ ہوگا "كَسَرْتَ آخِرَهُ"، اس اسم کے آخر کو کسرہ دیں گے اور "وَسَكَّنْتَ الْيَاءَ" اور یاء کو ساکن کر دیں گے "أَوْ فَتَحْتَهَا" یا اس کو فتحہ دیں گے۔ یہ اس کا طریقہ ہے۔اب ذرا غور، کیسے آخر کو کسرہ دے کر یاء کو ساکن کریں، جیسے غلامی، غلام مضاف یاء مضاف الیہ۔ دلوی، دلو مضاف یاء مضاف الیہ یا ظبیی۔ یا پھر اس کے آخر کو آپ فتحہ دیں گے۔ اب اس کی مثالیں آ رہی ہیں جیسے عصایا، رحایا۔

فرماتے ہیں: "وَإِنْ كَانَ آخِرُ الِاسْمِ أَلِفًا" تو اس میں اگر آخرِ اسم میں الف ہو، جیسے عصا آخر میں الف ہے، یا رحا آخر میں الف ہے۔ فرماتے ہیں: اگر آخر میں الف ہو تو اس الف کو ثابت رکھیں گے یعنی اس الف کو گرائیں گے نہیں، اس الف کو حذف نہیں کریں گے، اسی طرح جیسے ہے باقی رکھیں گے۔ جیسے ہم کہتے ہیں عصایا، عصا کے بعد الف ہے موجود ہے۔ یا رحا میں ہے رحایا، یہ موجود ہے۔ البتہ ہذیل نحوی وہ کہتا ہے کہ نہیں عصایا اور رحایا نہیں بلکہ اس کو پڑھیں گے عصیّا اور رحیّا۔ یعنی وہ اس الف کو بھی یاء میں تبدیل کرتا ہے پھر یاء کو یاء میں ادغام کرتا ہے پھر اس کے ماقبل کو کسرہ دیتا ہے یاء کی مناسبت کے لیے۔ 

اگلا حکم:  "وَإِنْ كَانَ الِاسْمُ يَاءً مَقْصُورًا مَا قَبْلَهَا" اگر اس اسم کے آخر میں پہلے سے ہی یاء ہے۔ اور وہ یاء ایسی ہے کہ جس کا ماقبل مقصور ہے۔ اور ہم اس یاء والے اسم کو پھر مضاف کرنا چاہتے ہیں یاء متکلم کی طرف، کہ وہ ایک ایسا اسم ہے کہ پہلے سے ہی اس کے آخر میں یاء ہے یعنی "إِنْ كَانَ آخِرُ الِاسْمِ يَاءً" کہ پہلے سے ہی اس اسم کے آخر میں یاء ہے۔ "مَقْصُورًا مَا قَبْلَهَا" اور اس یاء کا ماقبل مقصور ہے۔ اور اب ہم اس کو اضافت دینا چاہتے ہیں ایک اور یاء یعنی یائے متکلم کی طرف۔ مثال: جیسے قاضی۔ اب قاضی کے آخر میں یاء ہے، یاء کا ماقبل مقصور ہے قا ضی۔ اب ہم اس کو مضاف کرنا چاہتے ہیں یاء متکلم کی طرف۔ اب کیا کریں؟ فرماتے ہیں: کوئی مشکل نہیں،  دو یاء اکٹھی ہو جائیں گی ،  "أَدْغَمْتَ الْيَاءَ فِي الْيَاءِ"،  باب مضارع کا قانون، یہاں پہلی یاء کو دوسری یاء میں یعنی قاضی والی یاء کو یاء متکلم میں ادغام کر دیں گے "وَفَتَحْتَ الْيَاءَ الثَّانِيَةَ" اور دوسری یاء کو فتحہ دے دیں گے، کیوں؟ تاکہ دو ساکن اکٹھے نہ ہو جائیں۔ لہٰذا آپ قاضی کو جب یاء متکلم کی طرف مضاف کریں گے تو آپ کہیں گے قاضیَّ  اس یاء کو دوسری یاء میں ادغام کر دیا۔ 

 اسمِ صحیح یا جاری مجریٰ صحیح کو مضاف کیا تھا تو اس کا حکم بھی گزر گیا۔ اب ایسا اسم جس کے آخر میں یاء اور ماقبل مقصور ہو اگر اس کو مضاف کرنا ہے یاء متکلم کی طرف تو اس کا حکم بھی گزر گیا۔ اب تیسرا: اگر ایک ایسا اسم ہے کہ جس کے آخر میں واو ہے اور واو کا ماقبل مضموم ہے۔ اور ہم اس کو مضاف کرنا چاہتے ہیں یاء متکلم کی طرف، ایک اسم ہے جس کے آخر میں واو اور ایسی واو کہ جس کا ماقبل مضموم ہے۔ ہم اس اسم کو مضاف کرنا چاہتے ہیں یاء متکلم کی طرف۔ اس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ فرماتے ہیں: اس واو کو یاء میں تبدیل کریں گے، پھر اس یاء کو یاء متکلم جو دوسری یاء ہے اس میں ادغام کریں گے اور اس دوسری یاء کو پھر فتحہ دیں گے۔ مثال بڑی واضح ہے،  لفظ ہے مسلمون، ہم اس مسلمون کو یاء متکلم کی طرف مضاف کرنا چاہتے ہیں۔ فرماتے ہیں: جونہی آپ اس کو مضاف کریں گے تو نون اضافت کی وجہ سے گر جائے گی۔ پھر بن جائے گا مسلموی۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمو جو اسم ہے، آگے تو یاء متکلم آ گئی ، آخر میں واو ہے اور واو کا ماقبل بھی مضموم ہے، جب مضموم ہے تو ہم اس واو کو یاء میں تبدیل کریں گے۔ پھر اس یاء کو یائے متکلم میں ادغام کریں گے۔ یہ بن جائے گا مسلمیّ۔ پھر اس یاء متکلم کو اضافت دیں گے تاکہ دو یاء ساکن اکٹھی نہ ہو جائیں۔ وہ بن جائے گا مسلمیّہ۔ پھر یاء کی مناسبت کے لیے مسلم کی میم کو کسرہ دیں گے تو یہ بن جائے گا مسلمیَّ۔  یہ تین قسم کے اسماء تھے کہ اگر کسی اسم کو ہم یاء متکلم کی طرف مضاف کرنا چاہتے ہیں ان اسماء میں سے کسی اسم کو تو اس کی اضافت کا حکم،اورطریقہ کار کیا ہوگا۔

اس کے بعد آگے یہ بحث پھر علیحدہ ہے۔ پہلے بھی میں نے گزارش کی تھی کہ ہمارے پاس کچھ اسماء ہیں۔ جن کو ہم کہتے ہیں اسمء ستہ۔ اخ ایک، اب دو، حم تین، هن چار، فم پانچ، اور ذو چھ۔ ان کو کہا جاتا ہے اسماء ستہ مکبرہ ۔

 اسماء ستہ مکبرہ کی یاءمتکلم کی طرف اضافت

یہ ہیں چھ اسماء۔ ان میں سے اگر آپ کسی ایک کو یاء متکلم کی طرف مضاف کرنا چاہتے ہیں تو کیسے مضاف ہوں گے؟ جواب: ان اسماء میں سے جو ذو ہے وہ تو ضمیر کی طرف مضاف ہوتا ہی نہیں ہے۔ کیوں؟ چونکہ ذو ہمیشہ مضاف ہوتا ہے البتہ اسم ظاہر کی طرف۔ وہ ضمیر کی طرف مضاف نہیں ہوتا۔ جو باقی ہیں وہ البتہ ضمیر کی طرف مضاف ہوتے ہیں۔ 

"وَفِی الْأَسْمَاءِ السِّتَّةِ" وہ جو اسمائے ستہ مکبرہ جو مشہور ہیں اب، اخ، حم، هن، فم اور ذو۔ فرماتے ہیں: "وَفِی الْأَسْمَاءِ السِّتَّةِ مُضَافَةً إِلَى يَاءِ الْمُتَكَلِّمِ"۔ وہ اسماء ستہ جب وہ مضاف ہو رہے ہوں  یاء متکلم کی طرف، یہ تو لفظی ترجمہ ہو گیا۔ یا یوں کہیں، اگر آپ اسماء ستہ کو یاء متکلم کی طرف مضاف کرنا چاہتے ہیں "تَقُولُ" تو آپ کہیں گے: اخی، ابی، حمی، هنی، وفی۔ اکثر کہتے ہیں کہ  فم کو فی پڑھا جائے اور بعض کہتے ہیں نہیں فم کو فمی پڑھا جائے یعنی اس کی میم کو بھی برقرار رکھا جائے، "وَفَمِي عِندَ قَوْمٍ" بعض لوگ کہتے ہیں کہ فم کو فمی ہی پڑھا جائے فی نہ پڑھا جائے۔ خوب یہ تو ہو گئے پانچ۔

چھٹا ذو کا کیا ہوگا؟ جواب۔ "ذُو لَا يُضَافُ إِلَى مُضْمَرٍ أَصْلًا"۔ ذو ضمیر کی طرف مضاف نہیں ہوتا۔ ذو ہمیشہ مضاف ہو کر استعمال ہوتا ہے اور اس کا مضاف الیہ بھی اسم ظاہر ہوتا ہے۔ ان شاء الله اس کی بحث بعد میں آئے گی۔  یعنی اسماء ستہ میں سے ذو ضمیر کی طرف مضاف نہیں ہوتا ،بالکل نہیں ہوتا۔ یہ بات ختم ہو گئی۔

اب یہاں سوال مقدر ہے اگلا اس کا جواب ہے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ جناب ہم آپ کو شاعر کا ایک شعر دکھاتے ہیں کہ اس نے اپنے شعر میں ذو کو ضمیر کی طرف مضاف کیا ہے۔ آپ کیسے کہتے ہیں کہ  ذو اصلا ضمیر کی طرف مضاف نہیں ہوتا؟ فرماتے ہیں:  کہنے والے کا یہ قول کہ جناب میں دکھاتا ہوں آپ کو، کیا دکھاتا ہوں؟ کہ ذو ضمیر کی طرف مضاف ہوتا ہے۔ کیوں؟ شاعر نے کہا ہے: "إِنَّمَا يَعْرِفُ ذَا الْفَضْلِ مِنَ النَّاسِ ذَوُوهُ"۔ اب اس میں دیکھو ذو کو هُ ضمیر کی طرف مضاف کر کے استعمال کیا ہے۔ یہ فرماتے ہیں "قَوْلُ الْقَائِلِ شَاذٌّ"۔ یہ قول شاذ ہے، نادر ہے۔ یہ ضرورت شعری کے لیے اس نے ایسا کیا ہو گا وگرنہ علی القاعدہ ذو ضمیر کی طرف مضاف نہیں ہوتا۔ 

آگے فرماتے ہیں۔ "وَإِذَا قَطَعْتَ هَذِهِ الْأَسْمَاءَ عَنِ الْإِضَافَةِ" اگر آپ ان اسماء ستہ کو بغیر اضافت کے پڑھتے ہیں یعنی ان کو اضافت کے ساتھ نہ پڑھیں، مضاف بنا  کر ان کو نہ پڑھیں گے تو آپ کہیں گے اخٌ، ابٌ، حمٌ، هنٌ، فمٌ۔ لیکن ذو "لَا يُقْطَعُ عَنِ الْإِضَافَةِ"۔ ذو کبھی بھی بغیر اضافت کے نہیں ہوتا یعنی ذو اضافت سے قطع نہیں ہو سکتا۔ ذو ہمیشہ مضاف ہو کر ہی استعمال ہوتا ہے۔

"هَذَا كُلُّهُ بِتَقْدِيرِ حَرْفِ الْجَرِّ"۔ یہ تو ساری اضافت معنوی کی باتیں تھیں کہ جہاں حرف جر مقدر ہوتا ہے۔لیکن جہاں حرف جر لفظا ذکر ہو گا اس کی بات ان شاء الله ہم قسم ثالث جب حروف میں جائیں گے تو وہاں مکمل کریں گے۔

وَصَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ

الخبر بعد إلّا نحو : ما زَيْدٌ إلّا قائِمٌ ، أو تقدّم الخبر نحو : ما قائِمٌ زَيْدٌ ، أو زيدَت «إنْ» بعد ما نحو : ما إنْ زَيْدٌ إلّا قائِمٌ ، بطل العمل كما رأيت هاهنا هذا لغة الحجازيّة ، ودليلهم نحو : «مَا هَـٰذَا بَشَرًا» (١).

وأمّا بنو تميم فلا يُعْمِلونها أصلاً كقول الشاعر من بني تميم :

وَمُهَفْهَفٍ كَالْبَدْرِ قُلْتُ لَهُ انْتَسِبْ

فَأجاب ماقتْلُ المُحِبّ عَلى المحِبّ حرامٌ (٢)

برفع حرام.

المقصد الثالث : في المجرورات

الأسماء المجرورات قسم واحد وهو المضاف إليه فقط ، وهو : كلّ اسم نسب إليه شيء بواسطة حرف الجرّ لفظاً نحو : مَرَرْتُ بِزَيْدٍ ، ويعبّر عن هذا التركيب في الاصطلاح بأنّه جارّ ومجرور ، أو تقديراً نحو : غُلامُ زَيْدٍ ، تقديره : غلامٌ لزيدٍ ، ويعبّر عنه في الاصطلاح بأنّه مضاف ومضاف إليه.

ويجب تجريد المضاف عن التنوين وما يقوم مقامه نحو : غُلامُ زَيْدٍ ، وغُلاما عَمْروٍ ، ومُسْلِمُو مِصْرٍ.

واعلم أنّ الإضافة على قسمين : معنويّة ، ولفظيّة.

____________________________

(١) يوسف : آيه ٣١.

(٢) يعنى : و بسا پسر كوچك شكمى و باريك ميانى كه مثل ماه شب چهارده بود گفتم به او كه بالا بر نسب خود را تا ببينم از كدام قبيله هستى و نسبت بده خود را به قبيله اى پس جواب گفت اين فقره را كه ما قتل المحب حرام يعنى نيست كشتن دوست حرام بر معشوقه.

شاهد در دلالت نمودن آن پسر تميمى است در اين بيت بر اينكه بنى تميم عمل نمى دهند ما و لا را باعتبار اينكه شاعر سؤال كرده است از نسب او و او تغيير داده است حراماً منصوب را در قول عرب ( ما قتل المحب حراماً ) وبرفع خوانده آن حرام را تا اينكه بداند شاعر باين واسطه كه او از قبيله بنى تميم است ( جامع الشواهد ).

أمّا المعنويّة : فهي أن يكون المضاف غير صفة مضافة إلى معمولها نحو : غُلامُ زَيْدٍ ، وهي إمّا بمعنى «اللام» نحو : غُلامُ زَيْدٍ ، أو بمعنى «مِنْ» كخاتَمُ فِضَّةٍ ، أو بمعنى «في» نحو : صلاةُ اللَّيْلِ.

وفائدة هذه الإضافة : تعريف المضاف إن اُضيف إلى معرفة كما مرّ ، وتخصيصه إن اُضيف إلى نكرة نحو : غُلامُ رَجُلٍ.

وأمّا اللفظيّة : فهي أن يكون المضاف صفة مضافة إلى معمولها ، وهي في تقدير الانفصال في اللفظ نحو : ضاربُ زَيْدٍ ، وفائدتها تخفيف في اللفظ.

واعلم أنّك إذا أضفت الاسم الصحيح أو الجاري مجرى الصحيح إلى ياء المتكلّم كسرت آخره وأسكنت الياء أو فتحت ، كغُلامي ، ودَلْوي ، وظَبْيي. وإن كان آخر الاسم ياء مكسوراً ما قبلها أدغمت الياء في الياء وفتحت الياء الثانية ، لئلّا يلتقي الساكنان ، كما تقول في القاضي : قاضِيَّ ، وفي الرَّامِي : رامِيَّ ، وإن كان في آخره واو مضموم ما قبلها تقلبها ياء ، وعملت كما عملت الآن كما تقول : جاءني مُسْلِميَّ ، وفي الأسماء الستّة كما تقول : أخِيَّ ، وأبِيَّ ، وحَمِيَّ ، وهَنِيَّ ، وفِيَّ عند قوم ، و «ذو» لا يضاف إلى مضمر أصلاً.

وقول الشاعر :

[ أَهْنِأُ المعروف ما لَمْ تُبْتَذَلْ فيه الوجُوُه ]

إنَّما يَعْرفُ ذَا الْفَضْلِ مِنَ الناس ذَووهُ (١)

شاذ.

وإذا قطعت عن الإضافة قلت : أخٌ ، وأبٌ ، وحَمٌ ، وهَنٌ ، وفَمٌ ،

____________________________

(١) يعنى : درست مى نمايم و عطا مى‌كنم بخشش و مال خود را به مردمان مادامى كه مبتذل نشده است در طلب آن رويهاى سائلان و همانا مى شناسد صاحب بخشش و احسان از مردم را صاحب بخشش و كرم ، شاهد در اضافه ذو به ضمير است ، (جامع الشواهد).

ويجوز الحركات الثلاث ، وذو لا يقطع عن الإضافة البتّة أصلاً. هذا كلّه مجرور بتقدير حرف الجرّ ، أمّا ما يذكر فيه حرف الجرّ لفظاً فسيأتيك في القسم الثالث إن شاء الله تعالى.

الخاتمة : في التّوابع

اعلم أنّ الّتي مرّت ذكرها من الأسماء المعربة كان إعرابها بالأصالة بأن دخلها العوامل من المرفوعات والمنصوبات والمجرورات. وقد يكون الاسم إعرابه بتبعيّة ما قبله ، ويسمى التّابع ، لأنّه يتبع ما قبله في الإعراب ، وهو كلّ ثان ، معرب بإعراب سابقه من جهة واحدة.

والتّوابع خمسة أقسام : النّعت ، والعطف بالحروف ، والتأكيد ، وعطف البيان ، والبدل.

القسم الأوّل : النّعت

وهو تابع يدلّ على معنى في متبوعه نحو : جاءني رَجُلٌ عالِمٌ ، أو في متعلّق متبوعه نحو : جاءني رَجُلٌ عالِمٌ أبُوهُ ، ويسمّى الصفة أيضاً.

والقسم الأول : إنّما يتبع متبوعه في أربعة من عشرة أشياء ، فى الإعراب الثلاث : الرفع والنصب والجرّ ، والتعريف والتنكير ، والإفراد والتثنية والجمع ، والتذكير والتأنيث ؛ نحو : جاءني رَجُلٌ عالِمٌ ، وامرأةٌ عالِمَةٌ ، ورَجُلانِ عالِمانِ ، وامرأتانِ عالِمَتانِ ، ورجالٌ عُلماءٌ ، ونِساءٌ عالِماتٌ ، وزَيْدٌ الْعالِمُ ، والزَيْدانِ الْعالِمانِ ، والزَيْدُونَ الْعالِمُونَ ، ورَأَيْتُ رَجُلاً عالِماً ، وكذا البواقي.

والثاني : إنّما يتبع متبوعه في الخمسة الأُول فقط ، أعني الإعراب