درس الهدایة في النحو

درس نمبر 22: منصوبات 7

 
1

خطبه

2

ابتدائی عبارتیں

3

خبر كان وأخواتها

"فَصْلٌ"خبر "كَانَ" و اخواتہا

اسمائے منصوبه کی نویں قسم ہے۔

افعال ناقصه کی خبر۔ مرفوعات میں ہم نے پڑھا تھا کہ افعال ناقصہ کا اسم مرفوع ہوتا ہے اور اب ہم پڑھ رہے ہیں کہ ان کی خبر

منصوب ہوتی ہے۔بالکل آسان سی ہے، اس میں خاص چیزیں نہیں ہیں۔

کہ "كَانَ" و اخواتہا۔ "كَانَ"

اور اس کے اخوات پہلے بھی کئی دفعہ پڑھ کے بتائے ہیں، "كَانَ" کے اخوات کون سے ہیں؟

"صَارَ، أَصْبَحَ، أَمْسَى، أَضْحَى، ظَلَّ، بَاتَ، مَا زَالَ، مَا بَرِحَ، مَا دَامَ، مَا انْفَكَّ، مَا فَتِئَ" اور"لَيْسَ"۔

خبر کانا کی تعریف اور مثال

"فَصْلٌ" خبر "كَانَ" و اخواتہا

وہ ہے "كَانَ" اور اس اخوات کی خبر یعنی کیا، افعال ناقصه کی خبر۔

"هُوَ الْمُسْنَدُ بَعْدَ دُخُولِهَا"، جب اس پر افعال ناقصہ میں سے کوئی ایک فعل داخل ہو جاتا ہے تو یہ مسند ہوتی ہے۔ جیسے "كَانَ زَيْدٌ قَائِمًا"، "كَانَ" فعل از افعال ناقصہ ہے، "زَيْدٌ" اس کا اسم ہے، وہ ہم پیچھے پڑھ چکے ہیں"قَائِمًا" اس کی خبر ہے۔

 خبر کان کا حکم

"وَحُكْمُهُ كَحُكْمِ خَبَرِ الْمُبْتَدَأِ"

"كَانَ" اورافعال ناقصه کی خبر کا حکم بھی وہی ہے جو مبتدا کی خبر کا ہوتا ہے۔ یعنی جو چیز مبتدا کی خبر واقع ہوتی ہے وہ ان کی خبر بھی ہو سکتی ہے۔"إِلَّا أَنَّهُ يَجُوزُ تَقْدِيمُهُ عَلَى أَسْمَائِهَا مَا كَوْنُهُ مَعْرِفَةً"۔ فرق فقط اتنا ہے، ایک نکتہ ہے کہ مبتدا کی خبر مبتدا پر و یسے

مقدم نہیں ہوتی لیکن افعال ناقصه کی خبر کو "كَانَ" اور اس کے اخوات کی خبر کو افعال ناقصه کے اسماء پر، اس کے اسموں پر مقدم کرنا جائز ہے کب؟ "مَا كَوْنُهُ مَعْرِفَةً"، اگر وہ خبر معرفہ ہو تو۔ اگر خبر معرفہ ہو تو اس کو ان کے اسم پر مقدم کرنا جائز ہے۔

بخلاف خبر المبتدا، جبکہ مبتدا کی خبر میں ایسا جائز نہیں ہے۔ وہاں ہم نے پڑھا تھا کہ اگر دونوں معرفہ ہوں تو پھر مبتدا کو مقدم کرنا جائز، لازم ہے۔ جیسے "كَانَ الْقَائِمَ زَيْدٌ"، اب یہاں "الْقَائِمَ" چونکہ الف لام کی وجہ سے معرفہ ہو گیا لہذا یہ خبر مقدم ہے اور "زَيْدٌ" اسم مؤخر ہے، اسی "كَانَ" فعل ناقصہ کا۔

4

اسم إنَّ وأخواتها

اسم ان و اخواتہا

دسویں قسم، بالکل آسان ہے

اسم "إِنَّ" و اخواتہا۔ جن کو ہم نے نام دیا تھا حروف مشبه بالفعل۔

یعنی دسویں قسم اسم منصوب کی کیا ہے، وہ ہے

"إِنَّ" اور اس کے اخوات کا اسم یعنی حروف مشبه بالفعل کا اسم منصوب ہوتا ہے۔ "هُوَ الْمُسْنَدُ إِلَيْهِ بَعْدَ دُخُولِهَا" جب یہ اس پر داخل ہوتے ہیں تو وہ مسند الیہ بن جاتا ہے۔ جیسے "إِنَّ زَيْدًا قَائِمٌ"، چونکہ ہم نے مرفوعات میں پڑھا تھا کہ افعال کہ حروف مشبه بالفعل کی خبر مرفوع ہوتی ہے اور ان کے داخل ہونے کے بعد وہ مسند ہوتی ہے۔ اب یہاں "إِنَّ" حرف حروف مشبه بالفعل سے، "زَيْدًا" اس کا اسم ہے جو کہ منصوب ہے، مسند الیہ ہے اور اس کی طرف جو نسبت دی جا رہی ہے وہ ہے "قَائِمٌ" جو اس کی خبر ہے۔

5

لائے نفی جنس کے اسم کی بحث

لائے نفی جنس کا اسم

گیارہویں قسم اسمائے منصوبه میں سے جو گیارہویں قسم ہے وہ ہے وہ اسم    جسے لائے نفی جنس نے نصب دیا ہو۔ لائے نفی جنس نے۔

جب اس پر لائے نفی جنس داخل ہوتی ہے تو وہ مسند الیہ ہوتا ہے۔اچھا، اب تھوڑا سا غور کرنا ہے۔فرماتے ہیں لائے نفی جنس جس اسم کو نصب دیتا ہے۔وہ کیسا ہوتا ہے؟ فرماتے ہیں اس لائے نفی جنس کا جو اسم آتا ہے، اس کے بعد فرماتے ہیں ایک وہ نکرہ ہوتا ہے جو مضاف ہو کر استعمال ہوتا ہے یا مشابہ مضاف ہوتا ہے۔ ذرا غور کرنا ہے۔یعنی لائے نفی جنس جس اسم کو نصب دیتا ہے جو لائے نفی جنس کی وجہ سے منصوب ہوتا ہے اب ایک سوال ہے اور اس کا ذرا جواب توجہ سے سن لیں۔انہوں نے کہا ہے کہ وہ اسم جو لائے نفی جنس کی وجہ سے منصوب ہو، یوں فرمایا ہے۔لیکن یوں نہیں فرمایا کہ لائے نفی جنس کا اسم منصوب ہوتا ہے۔ بہت توجہ کے ساتھ۔

ایک جملہ یہ ہوتا ہے کہ لائے نفی جنس کا اسم منصوب ہوتا ہے۔ایک دفعہ ہے کہ وہ اسم جس کو لائے نفی جنس نصب دے۔ ان دو میں فرق کیا ہے؟ فرق یہ ہے۔اگر کہتے کہ لائے نفی جنس کا اسم تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ لائے نفی جنس کا اسم ہمیشہ منصوب ہوتا ہے۔

حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ کبھی اس پر نصب ہوتا ہے اور کبھی وہ مبنی ہوتا ہے اور کبھی مرفوع ہوتا ہے۔

تو اس   لیے کہا کہ وہ اسم جس کو یہ نصب دے رہا ہو یعنی جو اس کی وجہ سے منصوب ہوگا ہم اس کی بات کر رہے ہیں جو منصوب نہیں ہوتے وہ بے شک اس کا اسم ہوتا ہے لیکن منصوب نہیں ہے لیکن ہمارا چونکہ موضوع بحث اسمائے منصوبه ہیں تو لہذا ہم فقط اسی اسم کی بات کر رہے ہیں جس کو لائے نفی جنس کیا کرے گا؟

 اسم لائے نفی جنس کے نصب کی شرائط

کب نصب دے گا؟فرماتے ہیں اس لائے نفی جنس کے بعد یہ دے گا جب اس کے ساتھ کیا ہو؟ "لَا" کے ساتھ وہ 

۱۔متصل ہو۔۲۔نکرہ ہو( نکرہ کا مطلب کیا؟ یعنی معرفہ نہ ہو۔مضاف ہو کر استعمال ہو)۔۳۔ اس لا اور اس کے درمیان کوئی فاصلہ بھی نہ ہو۔ اس وقت یہ اسم منصوب ہوگا۔یا مشابہ مضاف ہو، وہ آگے ان شاءاللہ آ رہا ہے۔

اس کے بعد ایک اگلی بحث ہے وہ بڑی مشہور بحث ہے اس کو میں ذرا علیحدہ کر کے آپ کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں۔

"فَصْلٌ المنصوب بلاالتی لنفی الجنس" 

فرماتے ہیں "الْمَنْصُوبُ بِلَا النَّفْيِ لِلْجِنْسِ" یعنی وہ اسم جو منصوب ہو یعنی جس کو نصب دیا گیا ہو لائے نفی جنس کی وجہ سے، جس کو لائے نفی جنس نے نصب دیا ہو۔تو وہ منصوب ہو گا۔

 فرماتے ہیں "هُوَ الْمُسْنَدُ إِلَيْهِ"، وہ مسند الیہ بنتا ہے "بَعْدَ دُخُولِهَا" اس لائے نفی جنس کے داخل ہونے کے بعد۔ "يَلِيهَا نَكِرَةٌ" جو اس کے بعد بلا فاصلہ ہوتا ہے، "يَلِيهَا" ملا ہوتا ہے، متصل ہوتا ہے، یعنی لائے نفی جنس کے بعد متصل ہوتا ہے کیا؟ ایک "نَكِرَةٌ"، ایک نکرہ،  وہ نکرہ ہوتا ہے، "مُضَافَةً" اور وہ مضاف ہو کے استعمال ہو رہا ہوتا ہے جیسے "لَا غُلَامَ رَجُلٍ فِي الدَّارِ" اب آپ نے دیکھا کہ "غُلَامَ" اور "لَا" کے درمیان کوئی فاصلہ بھی نہیں ہے اور پھر یہ "غُلَامَ" نکرہ ہے، مضاف ہو کے استعمال ہو رہا ہے "رَجُلٍ" کی طرف، لائے نفی جنس نے اس کو نصب دیا اور کہا "لَا غُلَامَ رَجُلٍ فِي الدَّارِ"

۱۔"أَوْ مُشَابِهًا لَا" یا مشابہ مضاف ہو، میں نے گزشتہ درس میں گزارش کی تھی کہ مشابہ مضاف کیا؟ کہ جیسے مضاف اپنے مضاف الیہ کے ساتھ ملے بغیر معنی تام نہیں کرتا، محتاج ہوتا ہے معنی دینے میں مضاف الیہ کا، بعض اسماء بھی ایسے ہیں کہ جو جب تک ان کی دوسرا اسم ذکر نہ کیا جائے ان کا معنی صحیح نہیں ہوتا، تام نہیں ہوتا۔جیسے "لَا عِشْرِينَ دِرْهَمًا فِي الْكِيسِ"۔

ٹھیک ہے جی، یہ "عِشْرِينَ دِرْهَمًا" مشابہ مضاف ہے اس لیے کہ جب تک "عِشْرِينَ" کے ساتھ "دِرْهَمًا" ذکر نہ ہو، "عِشْرِينَ" کا معنی مکمل نہیں ہوتا، سمجھ نہیں آتی کہ اس سے مراد کیا ہے۔

اسم لائے نفی جنس کے احکام

اب یہ عبارت تھی نہ لیکن آپ اس کو لکھیں گے تو اور طریقے سے، کیا؟

جو اسم لائے نفی جنس کے بعد بلا فاصلہ ہو، ایک، نکرہ ہو، دو، مضاف ہو کے استعمال ہوا ہو یا مشابہ مضاف استعمال ہوا ہو وہ منصوب ہوتا ہے۔ختم یہاں بات۔ آگے بات علیحدہ ہے۔

 جب اسم نکرہ مفرد ہو

۲۔"وَإِنْ كَانَ بَعْدَ لَا نَكِرَةٌ مُفْرَدٌ" اگر اس لائے نفی جنس کے بعد ہے تو نکرہ لیکن وہ نکرہ مفرد ہے۔ مفرد سے مراد تثنیہ جمع نہیں بلکہ مفرد سے مراد ہے یعنی وہ مضاف ہو کے استعمال نہیں ہوا۔اگر لائے نفی جنس کے بعد ایک اسم نکرہ ہو جو مضاف ہو کے استعمال نہ ہوا ہو تو "تُبْنَى عَلَى الْفَتْحِ"، وہ مبنی علی الفتح ہو گا یعنی اس پر ہمیشہ فتح پڑھیں گے۔ جیسے کہتے ہیں "لَا رَجُلَ فِي الدَّارِ"اب "رَجُلَ" نکرہ تو ہے لیکن کسی اسم کی طرف مضاف ہو کے استعمال نہیں ہوا لہذا اس کو ہمیشہ مبنی علی الفتح  پڑھیں گے یعنی اس کو پڑھیں گے "لَا رَجُلَ فِي الدَّارِ"

لا نفی جنس کے بعد معرفہ یا فاصلہ کی صورت

۳۔"إِنْ كَانَ مَعْرِفَةً"، بہت توجہ، اگر لا کے بعد معرفہ ہو "أَوْ نَكِرَةً" یا ہے تو نکرہ لیکن "مَفْصُولًا بَيْنَهُ وَبَيْنَ لَّا" لیکن اس اسم نکرہ اور اس لائے نفی جنس کے درمیان کوئی فاصلہ ہے۔ بہت توجہ۔ اگر لائے نفی جنس کے بعد اسم معرفہ ہے۔ ایک۔ یا ہے تو اسم نکرہ لیکن اس اسم نکرہ اور اس لائے نفی جنس کے درمیان کوئی فاصلہ ہے تو اس صورت میں "كَانَ مَرْفُوعًا"، وہ اسم مرفوع ہوگا۔ایک۔ "وَيَجِبُ تَقْرِيرُ اللَّا مَعَ اسْمٍ آخَرَ" اور اگر بعد میں کوئی اور اسم ہے تو وہاں پر لا کا مقرر کرنا یعنی لا کا تکرار کرنا، لا کو دوبارہ ذکر کرنا واجب ہے۔ مثال: "لَا زَيْدٌ فِي الدَّارِ وَلَا عَمْرٌو"۔ اب یہاں لا کے بعد اسم معرفہ ہے تو ہم نے اس کو اسی وجہ سے زیدٌ پڑھا ہے اور بعد میں جس کا عطف تھا اس پر معطوف تھا اس پر بھی ہم نے لا کا تکرار کیا ہے "وَلَا عَمْرٌو"۔ "لَا فِيهَا رَجُلٌ وَلَا امْرَأَةٌ"۔ اب یہاں پر رجل ہے تو نکرہ لیکن رجل اور لائے نفی جنس کے درمیان فیھا کا فاصلہ ہے یعنی یہ اسم لا کے ساتھ متصل نہیں ہے۔ چونکہ متصل نہیں ہے لہذا ہم اسم نکرہ پر رفع پڑھیں گے اور بعد میں جس کا معطوف آ رہا ہے اس پر بھی ہم لا  کا تکرار کریں گے یعنی اس کو دوبارہ لا کو اس کے ساتھ علیحدہ ذکر کرنا واجب ہے۔ جیسے "لَا رَجُلٌ وَلَا امْرَأَةٌ"

6

لا حَوْلَ وَلا قُوَّة إلّا بِاللهِ کے اعراب

"لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" کے اعراب کی بحث

اب یہ بات یہاں پر ہوگئی ختم ہوگیا۔ اب اگلی جو بات ہے یہ ہماری مدارس میں بڑی مشہور بحث ہے۔ وہ بحث یہ ہے یہ جو ہم عام طور پر پڑھتے ہیں "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" کہ یہ پڑھنے سے شیطان بھاگ جاتا ہے فلاں۔ اس "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ" کے اعراب میں بحث ہے۔ ٹھیک ہے جی۔ علماء کرام میں ایک بحث ہے اور بڑی مشہور بحث ہے۔ وہ کیا ہے؟ کہ اس وہ کہتے ہیں "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ"۔ اب ذرا غور کرنا ہے۔ یہ تو مثال ہوگئی نا، لیکن اصل میں آپ کیا لکھیں گے؟ یعنی وہ مقام جہاں لا کا اسم لا کے ساتھ متصل ہو اور مضاف ہو کر استعمال نہ ہوا ہو اور لا کا تکرار ہو تو ایسے لا کے اسم کے اعراب میں پانچ وجہ جائز ہیں۔ چونکہ اس کا مطلب ہے وہاں دو لا آئیں گے، وہ تکرار جو ہوگیا۔ جب لا دو آئیں گے تو ان کے ساتھ اسم بھی دو آئیں گے، اب آیا ان دو جو لا آئے ہیں ان پر ان کے جو دونوں اسم ہیں ان پر ایک ہی جیسا اعراب پڑھا جائے یا مختلف، فرماتے ہیں نا، فرق ہے، یعنی بلکہ بلکہ یوں کہتے ہیں کہ پانچ قسم کا اعراب پڑھنا جائز ہے۔ کیسے؟ بہت توجہ کے ساتھ۔

۱۔ دونوں اسماء پر فتح پڑھیں۔  "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ"۔ "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ"۔ یہ بھی جائز ہے۔

۲۔ دونوں پر رفع پڑھیں۔ "لَا حَوْلٌ وَلَا قُوَّةٌ"۔ 

۳۔ پہلے اسم پر فتح اور دوسرے پر نصب۔ "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةً"۔

۴۔ پہلے پر فتح اور دوسرے پر رفع۔ "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةٌ"۔ 

۵۔ پہلے پر رفع اور دوسرے پر فتح، "لَا حَوْلٌ وَلَا قُوَّةَ"۔ ٹھیک ہے جی۔ یہ ہو   گئے پانچ اعراب۔

"لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ" کے اعراب کی نحوی توجیہ

اب اس کو اور بھی کرنا ہے۔ "وَيَجُوزُ فِي مِثْلِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ خَمْسَةُ أَوْجُهٍ"۔ "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" جیسی مثال میں اعراب کی پانچ صورتیں جائز ہیں۔ اب انہوں نے مثال دیا "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ" جیسی مثل میں، تو آپ کیا کہیں گے؟ گویا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جہاں پر لا تکراری ہو اور ہر لا کے ساتھ اس کا اسم بھی بلا فاصلہ ہو اور اس کا اسم کسی اور کی طرف مضاف بھی نہ ہو تو ہر اس مقام پر وہاں ان کے ان اسموں پر پانچ قسم کا اعراب پڑھنا جائز ہے۔

  "فَتْحُهُمَا" "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ"۔ 

"رَفْعُهُمَا" یعنی "لَا حَوْلٌ وَلَا قُوَّةٌ"۔ 

"فَتْحُ الْأَوَّلِ وَنَصْبُ الثَّانِي" یعنی "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةً"۔ 

"فَتْحُ الْأَوَّلِ وَرَفْعُ الثَّانِي" "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةٌ"۔

  "رَفْعُ الْأَوَّلِ وَفَتْحُ الثَّانِي" یعنی "لَا حَوْلٌ وَلَا قُوَّةَ"۔ ٹھیک ہے جی۔

اب کتاب والے نے تو فقط اتنا ہی لکھا ہے لیکن ہم تھوڑا سا اس کو اور واضح کرتے ہیں۔ وہ کیا؟ پہلی قسم، "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ"، "حَوْلَ"، یعنی دونوں حول اور قوة دونوں لائے نفی جنس کے اسم ہوں گے اور یہ لا ان کو نصب دے رہا ہوگا، ٹھیک۔ "لَا حَوْلٌ وَلَا قُوَّةٌ"۔ اچھا جی، دوسرا آ جائے گا "لَا حَوْلٌ وَلَا قُوَّةٌ"۔ اچھا، اب کیا ہوگا جناب؟ دونوں پر جب رفع پڑھیں گے تو فرماتے ہیں "حَوْلٌ" مبتدا ہوگا اور "قُوَّةٌ" بھی مبتدا ہوگا اور باقی پھر ان کی خبر محذوف ہوگی اصل ہوگی یعنی "لَا حَوْلٌ وَلَا قُوَّةٌ مَوْجُودَانِ" یعنی لا، یوں ہوگی "لَا حَوْلٌ مَوْجُودٌ وَلَا قُوَّةٌ مَوْجُودٌ"۔ اب کتاب میں نہیں ہے یعنی لا حولٌ میں حولٌ علیحدہ مبتدا اس کی خبر ہوگی موجودٌ مقدر۔ "وَلَا قُوَّةٌ"، قوةٌ  علیحدہ مبتدا اور موجودٌ اس کی خبر۔ آگے۔ "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةً"۔ اس کا مطلب ہے پہلا لا لائے نفی جنس کا ہے اور حولَ اس کا اسم ہے اور دوسرا لا وہ تاکید کا ہے۔ ٹھیک ہے جی؟

اور قوة کا حول پر ہوگا اور حول چونکہ محلاً منصوب ہے لہذا ہم نے قوة کو قوةً پڑھ کے اس کو منصوب پڑھا "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةً"۔ اچھا۔ اگر ہم پڑھتے ہیں "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةٌ"، پہلا لا مشابہ بلیس ہوگا اور حولٌ پھر مرفوع ہوگا اور قوة کا عطف لا حولَ کے محل پر ہوگا چونکہ وہ محلاً مرفوع ہے تو اسی لیے ہم پڑھیں گے "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةٌ"۔ پہلے پر رفع اور دوسرے پر فتح۔ "لَا حَوْلٌ وَلَا قُوَّةَ"۔ یہاں بھی لا مشابہ بلیس ہوگا "حَوْلٌ" مرفوع ہوگا اس کا اسم بن جائے گا اور دوسرا لا لائے نفی جنس ہوگا اور "قُوَّةَ" اس کی اس کا اسم ہوگا اور مبنی علی الفتح ہوگا۔ "لَا حَوْلٌ وَلَا قُوَّةَ"۔

7

لائے نفی جنس کے اسم کا حذف اور

 لائے نفی جنس کے اسم کا حذف

آگے فرماتے ہیں "وَقَدْ يُحْذَفُ اسْمُ «لا»" کبھی کبھی لائے نفی جنس کے اسم کو حذف بھی کر دیا جاتا ہے۔ لیکن کب؟ "لِقَرِينَةٍ" اگر کوئی قرینہ موجود ہو تو۔ جیسے کہا جاتا ہے "لَا عَلَيْكَ"۔ اصل میں اس کا اسم تھا "بَأْسَ"، یعنی اصل میں تھا "لَا بَأْسَ عَلَيْكَ"۔ ٹھیک ہے جی۔ فرماتے ہیں اس لیے قرینہ کون سا ہے؟ فرماتے ہیں لا کا علیک پر داخل لا کا علی پر داخل ہونا یہ بتاتا ہے کہ لا کا کوئی نہ کوئی اسم محذوف ہے اس لیے کہ لا بھی حرف ہے اور علی بھی اسم ہے ایک حرف دوسرے حرف پر داخل نہیں ہوتا پس یہ قرینہ ہے کہ اس لا کا کوئی اسم ہے جو محذوف ہے اور ہم اس کو پڑھتے ہیں "لَا عَلَيْكَ" یعنی "لَا بَأْسَ عَلَيْكَ"۔ ٹھیک ہے جی۔

"مَا" اور "لَا" مشابہ بلیس کی خبر

منصوبات میں سے آخری جو بارہواں منصوب ہے وہ ہے  "مَا" اور "لَا" جو مشابہ ہوتے ہیں "لَيْسَ" کے ان کی خبر۔ "مَا وَاللَّا الْمُشَبَّهَتَيْنِ بِلَيْسَ" کی خبر منصوب ہوتی ہے۔ یعنی آخری قسم منصوبات میں سے ہے ما اور لا جو مشابہ ہیں لیسا کے ان کی خبر۔ بالکل آسان ہے۔ کہ "خَبَرُ مَا وَاللَّا الْمُشَبَّهَتَيْنِ بِلَيْسَ"، ما اور لا جو مشابہ لیسا ہیں ان کی خبر منصوب ہوتی ہے "هُوَ الْمُسْنَدُ بَعْدَ دُخُولِهِمَا" ما یا لا کے داخل ہونے کے بعد وہ مسند ہوتی ہے۔ جیسے "مَا زَيْدٌ قَائِمًا"، "لَا رَجُلٌ حَاضِرًا"۔ "قَائِمًا" اور "حَاضِرًا"، قائماً  ما  کی خبر ہے اور حاضراً اس لا کی خبر ہے اور دونوں منصوب ہیں«ما» و «لا» المشبّهتين بليس کے مشابہ ہونے کی بنیاد پر ان کی خبر ہونے کی بنیاد پر۔

8

ما اور لا کے عمل کے باطل ہونے کی صورتیں

 ما اور لا کے عمل کے باطل ہونے کی صورتیں

فرماتے ہیں "وَإِنْ وَقَعَ الْخَبَرُ بَعْدَ إِلَّا"۔ اگر اس ما اور لا کی خبر الا کے بعد آ جائے، جیسے "مَا زَيْدٌ إِلَّا قَائِمٌ"۔ "أَوْ تَقَدَّمَ الْخَبَرُ عَلَى الِاسْمِ"۔ ما یا لا کی خبر ان کے اسم پر مقدم ہو جائے، جیسے "مَا قَائِمٌ زَيْدٌ"۔ "أَوْ زِيدَتْ إِنْ بَعْدَ مَا"۔ یا ما کے بعد ایک ان کا اضافہ ہو جائے جیسے "مَا إِنْ زَيْدٌ قَائِمٌ"۔ "بَطَلَ الْعَمَلُ"۔ بہت مہربانی، ذرا غور کرنا ہے۔ یعنی اس پہرے میں یہ بیان فرما رہے ہیں کہ اگرچہ ما اور لا جو مشبہتان بلیس ہوتے ہیں ان کی خبر منصوب ہوتی ہے لیکن تین مقام ایسے ہیں جہاں ما  و لا کا عمل باطل ہو جاتا ہے، ختم ہو جاتا ہے۔ یعنی یہ اپنی خبر کو نصب نہیں دیتے۔ تین مقامات پر یہ عمل نہیں کرتے۔ نمبر ایک، جب ان کی خبر الا کے بعد ہو۔ نمبر دو، جب ان کی خبر ان کے اسم پر مقدم ہو۔ نمبر تین، اگر ما کے بعد ان کا اضافہ ہو جائے اس وقت یہ اپنے عمل سے رہ جاتے ہیں یعنی ان کا عمل باطل ہو جاتا ہے۔ پھر یہ اپنی خبر کو نصب نہیں دیتے۔ "مَا زَيْدٌ إِلَّا قَائِمٌ" پڑھیں گے، قائماً نہیں پڑھیں گے چونکہ خبر الا کے بعد آئی ہے۔ "مَا قَائِمٌ زَيْدٌ" پڑھیں گے، ما قائماً نہیں پڑھیں گے چونکہ قائم خبر اسم زید پر مقدم ہے۔ اسی طرح "مَا إِنْ زَيْدٌ قَائِمٌ" پڑھیں گے، "مَا إِنْ زَيْدٌ قَائِمًا" نہیں پڑھنا، قائماً اس لیے نہیں پڑھنا چونکہ ما کے بعد ان کی زیادتی ہو گئی ہے۔ "بَطَلَ الْعَمَلُ كَمَا رَأَيْتَ فِي الْأَمْثِلَةِ" جیسا کہ مثال ہے۔

لغت اہل حجاز

"وَهَذَا لُغَةُ أَهْلِ الْحِجَازِ"۔ یہ تو تھی اہل حجاز کی لغت۔ ٹھیک ہے جی؟ اہل حجاز   یہ کہتے ہیں اگر ایسا ہوگا تو اس کی صورت یہی ہے۔  کہ ما اور لا جو مشابہ لیسا ہیں وہ عمل کرتے ہیں۔ اسم کو رفع، خبر کو نصب دیتے ہیں لیکن تین مقامات پر یہ عمل نہیں کرتے۔ ٹھیک ہو گیا جی۔

 بنو تمیم کا نظریہ

اچھا۔ اب آگے۔ فرماتے ہیں لیکن جو بنو تمیم ہیں، بنو تمیم کیا کہتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں ما  و لا عمل کرتے ہی نہیں ہیں۔ اصلاً سرے سے ما  و لا عامل نہیں ہیں، یہ خبر کو نصب نہیں دیتے۔ خبر کو نصب نہیں دیتے۔ اچھا جی۔ "فَلَا يَعْمَلُوْنَهُمَا"  لیکن جو بنو تمیم یہ سارے عرب قبائل ہیں ان کی لغت ہے بنی تمیم۔ "فَلَا يَعْمَلُوْنَهُمَا" وہ کہتے ہیں کہ نہیں۔ یہ ما  و لاسرے سے عمل کرتے ہی نہیں ہیں۔ اصلاً یعنی بالکل یہ عمل کرتے ہی نہیں ہیں۔

 بنو تمیم کی لغت کی مثال

"قَالَ الشَّاعِرُ عَنْ لِسَانِ بَنِيْ تَمِيْمٍ"۔ ایک شاعر ہے جس نے لغت بنو تمیم کے مطابق یہ شعر کہا ہے۔ یعنی شاعر  دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ جو بندہ ہے یہ کس قبیلے سے اس کا تعلق ہے۔ تو جب اس نے ایک شعر پڑھا، اس شعر سے پتہ چل گیا کہ اس کا تعلق بنو تمیم سے ہے۔شعر کیا تھا؟

 

  "وَمُهَفْهَفٍ كَالْغُصْنِ قُلْتُ لَهُ

فَأَجَابَ مَا قَتْلُ الْمُحِبِّ حَرَامٌ"

 بہت توجہ۔ "مَا قَتْلُ الْمُحِبِّ حَرَامٌ"۔ اس نے "مَا قَتْلُ الْمُحِبِّ حَرَامًا" نہیں کہا بلکہ "مَا قَتْلُ الْمُحِبِّ حَرَامٌ" یعنی حرام پر اس نے رفع پڑھا ہے۔ تو پس یہاں پر رفع سے پتہ چل گیا کہ یہ اس کا تعلق قبیلۂ بنی تمیم سے ہے کہ جو ما کو عمل نہیں دیتے اور حراماً کی بجائے حرامٌ پڑھ رہے ہیں۔ ٹھیک ہے جی؟

شعر کی تشریح

"وَمُهَفْهَفٍ" مہفہف، اب ذرا شعر کا ترجمہ۔ "وَمُهَفْهَفٍ كَالْغُصْنِ" مہفہف کہتے ہیں باریک کمر والے کو۔ یعنی اس کی زمانہ جاہلیت کا شعر ہے کہ باریک کمر والے محبوب "كَالْغُصْنِ" غصن کہتے ہیں شاخ، ٹہنی۔ یہ درختوں کی ٹہنی جس طرح  ہلکی سی جھکی ہوتی ہے ۔ وہ محبوب کہ جو مثل ایک درخت کی شاخ کے تھا، ٹہنی کا تھا۔ "قُلْتُ لَهُ" میں نے اس کو کہا "اِنْتَسِبْ" اپنا نسب بیان کر یعنی تیرا تعلق کس قبیلے سے ہے۔ "فَأَجَابَ" اس نے جواب میں کہا "مَا قَتْلُ الْمُحِبِّ حَرَامٌ" کہ محب عاشق کا قتل حرام نہیں ہے۔ یعنی اس نے جو حرام پر رفع پڑھا ہے، اس رفع پڑھنے سے پتہ چل گیا کس بات کا؟ کہ اس کا تعلق قبیلۂ بنی تمیم سے ہے۔ چونکہ اگر وہ ما کو عامل سمجھتا ہوتا تو پھر وہ حراماً کہتا، حرامٌ نہ کہتا۔ ٹھیک ہے جی۔ الحمدللہ منصوبات کی بحث بھی یہاں پر مکمل ہو گئی۔

  "وَصَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ مُحَمَّدٍ"

القسم التاسع : خبر كان وأخواتها

وهو المسند بعد دخولها نحو : كانَ زَيْدٌ مُنْطَلِقاً. وحكمه كحكم خبر المبتدأ إلّا أنّه يجوز تقديمه على اسمها مع كونه معرفة بخلاف ثمّ نحو : كانَ الْقائِم زَيْدٌ.

القسم العاشر : اسم إنَّ وأخواتها

هو المسند إليه بعد دخولها نحو : إنَّ زَيْداً قائِمٌ.

القسم الحادي عشر : المنصوب بلا التي لنفي الجنس

هو المسند إليه بعد دخولها وتليها نكرة مضافة نحو : لا غُلامَ رَجُلٍ في الدار. ومشابهاً به نحو : لا عِشْرينَ دِرْهَماً في الْكيس. وإن كان من بعد «لا» نكرة مفردة يبنى على الفتح نحو : لا رَجُلَ في الدار. وإن كان مفرداً معرفة أو نكرة مفصولاً بينه وبين «لا» كان مرفوعاً ، ويجب حينئذٍ تكرير «لا» مع الاسم الآخر ، تقول : لا زيْدٌ في الدار ولا عَمْروٌ ، ولا فيها رَجُلٌ وَلا امرأةٌ.

واعلم أنّه يجوز في مثل : لا حَوْلَ وَلا قُوَّة إلّا بِاللهِ ، خمسة أوجه ، فتحهما ورفعهما ، وفتح الأوّل ونصب الثاني ، وفتح الأوّل ورفع الثاني ، ورفع الأوّل وفتح الثاني.

وقد يحذف اسم «لا» للقرينة نحو : لا عَلَيْكَ ، أي لا بَأْسَ عَلَيْك.

القسم الثاني عشر : خبر «ما» و «لا» المشبّهتين بليس

هو المسند بعد دخولهما نحو : ما زَيْدٌ قائِماً ، ولا رَجُلٌ حاضراً. وإن وقع

الخبر بعد إلّا نحو : ما زَيْدٌ إلّا قائِمٌ ، أو تقدّم الخبر نحو : ما قائِمٌ زَيْدٌ ، أو زيدَت «إنْ» بعد ما نحو : ما إنْ زَيْدٌ إلّا قائِمٌ ، بطل العمل كما رأيت هاهنا هذا لغة الحجازيّة ، ودليلهم نحو : «مَا هَـٰذَا بَشَرًا» (١).

وأمّا بنو تميم فلا يُعْمِلونها أصلاً كقول الشاعر من بني تميم :

وَمُهَفْهَفٍ كَالْبَدْرِ قُلْتُ لَهُ انْتَسِبْ

فَأجاب ماقتْلُ المُحِبّ عَلى المحِبّ حرامٌ (٢)

برفع حرام.

المقصد الثالث : في المجرورات

الأسماء المجرورات قسم واحد وهو المضاف إليه فقط ، وهو : كلّ اسم نسب إليه شيء بواسطة حرف الجرّ لفظاً نحو : مَرَرْتُ بِزَيْدٍ ، ويعبّر عن هذا التركيب في الاصطلاح بأنّه جارّ ومجرور ، أو تقديراً نحو : غُلامُ زَيْدٍ ، تقديره : غلامٌ لزيدٍ ، ويعبّر عنه في الاصطلاح بأنّه مضاف ومضاف إليه.

ويجب تجريد المضاف عن التنوين وما يقوم مقامه نحو : غُلامُ زَيْدٍ ، وغُلاما عَمْروٍ ، ومُسْلِمُو مِصْرٍ.

واعلم أنّ الإضافة على قسمين : معنويّة ، ولفظيّة.

____________________________

(١) يوسف : آيه ٣١.

(٢) يعنى : و بسا پسر كوچك شكمى و باريك ميانى كه مثل ماه شب چهارده بود گفتم به او كه بالا بر نسب خود را تا ببينم از كدام قبيله هستى و نسبت بده خود را به قبيله اى پس جواب گفت اين فقره را كه ما قتل المحب حرام يعنى نيست كشتن دوست حرام بر معشوقه.

شاهد در دلالت نمودن آن پسر تميمى است در اين بيت بر اينكه بنى تميم عمل نمى دهند ما و لا را باعتبار اينكه شاعر سؤال كرده است از نسب او و او تغيير داده است حراماً منصوب را در قول عرب ( ما قتل المحب حراماً ) وبرفع خوانده آن حرام را تا اينكه بداند شاعر باين واسطه كه او از قبيله بنى تميم است ( جامع الشواهد ).