درس صرف میر

درس نمبر 33: ثلاثی مزید فیہ کے ابواب 7

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

تطبیق: باب تفعل

[بابِ تفعل کے معانی]

ثلاثی مزید فیه کے ابواب میں ایک باب تفعُّل ہے جیسے: تَصَرَّفَ، یَتَصَرَّفُ، تَصَرُّفاً۔

اسی باب سے قرآن  کریم میں یہ دو آیتیں بھی ہیں:

﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ﴾؛سوره مائده، آیت ۲۷۔

” اور آپ انہیں آدم کے دونوں بیٹوں کا حقیقی قصہ سنائیں جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی تو اس نے کہا: میں تجھے ضرور قتل کروں گا، (پہلے نے)کہا: اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے“۔

اس آیت میں بابِ تَفَعل سے ایک فعلِ ماضی مجہول (تُقُبِّلَ)،فعلِ مضارع مجہول و مجزوم (لَمْ يُتَقَبَّلْ) اور فعلِ مضارع معلوم ( يَتَقَبَّلُ) استعمال کیا گیا ہے۔

 ﴿وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ﴾؛ سورہ طلاق، آیت۳۔

”اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے پس اس کے لیے اللہ کافی ہے“۔

اس آیہ میں  يَتَوَكَّلْ، بابِ تفعُّل سے فعلِ مضارع معلوم، مفرد مذکّر غائب کا صیغہ ہے اور مْنِ شرطیہ کی وجہ سے مجزوم ہے۔

بابِ تفعُّل کے نو معانی ہیں جن میں سے مُصنّف نے تین معانی بیان کئے ہیں:

پہلا معنی: مُطاوَعَہ 

مُصنّف اس بارے میں کہتے ہیں:

"باب تفعّل اين باب مطاوعه فعل باشد چون قَطَعْتُهُ فَتَقَطَّع"

بابِ تفعُّل فَعَلَ کے مُطاوَعہ کے لئےآتاہے جیسے: قَطَعْتُهُ فَتَقَطَّع: میں نے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کیا پس وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔

 وضاحت:

مُطاوعت کا معنی یہ ہے کہ ایک فعل کے بعد دوسرے فعل کو اس مقصد کے لئے لایا جاتا ہے تاکہ یہ بتایا جاسکے کہ مفعول نے اثر کو قبول کر لیا ہے۔

مُصنّف نے فَعَلَ کے مُطاوَعَہ کو بیان کیا ہے جبکہ صاحِبِ صرفِ سادہ  کہتے ہیں کہ بابِ تَفَعُّل، بابِ تفعیل کے مُطاوَعَہ کے لئے آتاہے جیسے: اَدّبتُ زیدًا فَتَاَدَّبَ: میں نے زید کو ادب سکھایا تو وہ با ادب بن گیا۔

بابِ تَفَعُلّ کا بابِ تفعیل کے مُطاوَعَہ کے لئے ہونے  کا مطلب یہ ہے کہ باب تفعل کا باب تفعیل کے بعد اس غرض سے آنا کہ مفعول نے پہلے فعل کے فاعل کے اثر کو قبول کیا ہے، ھَذَّبتُ بَکرا فَتَھَذَّبَ: میں نے بکر کی اصلاح کی تو وہ مُہذّب (اصلاح والا) ہوگیا؛ قَطَّعتُ الخَشَبَ فَتَقَطَّعَ : میں نے لکڑی کو ٹکڑے ٹکڑے کیا پس وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔

دوسرا معنی: تَکَلُّف و تَشبُّہ (کسی انسان کا خود کو کسی دوسرے شخص کے مشابہ ظاہر کرنا)

مُصنّف اس بارے میں کہتے ہیں:

"و به معنى تكلّف و تشبّه نيز آيد چون تَحَلَّمَ و تَزَهَّدَ  "

یہ باب، تَکَلُّف اور تَشبُّہ کے معنی میں بھی آتا ہے جیسے: تَحَلَّمَ  زیدٌ: زید نے خود کو بردبار ظاہر کیا؛ تَزَهَّدَ  زیدٌ: زید نے خود کو زاہد ظاہر کیا۔ 

وضاحت:

تکلّف سے مراد یہ ہے کہ فاعل کا مصنوعی طور پر خود کو ماخذ سے متصف ظاہر کرنا، یا فاعل کا خود کو بناوٹی طور پر ماخذ کی طرف منسوب کرنا، پہلی مثال: َشَجَّعَ زیدٌ: زید نے خود کو شجاع ظاہر کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ زید شجاع نہیں تھا لیکن وہ  دکھاوا اس طرح کرتا ہے کہ شجاع ہے۔ اس مثال میں ماخذ شجاعت ہے، اور زید نے اپنے آپ کو ماخذ سے متصف ظاہر کیا۔

دوسری مثال: تَمَرَّضَ زیدٌ: زید نے خود کو مریض ظاہر کیا۔ ان دونوں مثالوں میں فاعل "زید" نے مصنوعی طور پر اپنے آپ کو شجاعت یا مرض سے متصف ظاہر کیا۔

تیسری مثال: تَکَوَّفَ زیدٌ: زید نے بناوٹی طور پر خود کو کوفہ کی طرف منسوب کیا۔

یاد رہے کہ کوفہ، عراق کے قدیمی تاریخی شہر کا نام ہے، حضرت امیرُ المومین علی بن ابی طالب علیہ السّلام نےاسے اپنا دارُ الخلافہ قرار دیا تھا، اُسی سےفعل تَکَوَّفَ بنایا گیا ہے؛ تَکَوَّفَ: ثلاثی مزید فیہ کے بابِ تفعّل سے فعلِ ماضی معلوم، مفرد، مذکّر غائب ہے۔

چوتھی مثال: تَجَوَّعَ زیدٌ: زید نے خود کو بھوکا ظاہر کیا۔ یعنی زید واقعا بھوکا نہیں تھا لیکن بناوٹی طور پر اپنے آپ کو بھوکا ظاہر کیا۔ اس مثال میں جُوع(بھوک) سے فعل بنایا گیا ہے؛ تَجَوَّعَ: ثلاثی مزید فیہ کے بابِ تفعّل سے فعلِ ماضی معلوم، مفرد، مذکّر غائب ہے۔

تیسرا معنی: مہلت اور تدریج

مُصنّف اس بارے میں کہتے ہیں:

"و به معنى مهلت آيد چون تَجَرَّعَ".

وضاحت:

تدریج: یہ ثلاثی مزید فیہ کے بابَ تفعیل سے مصدر ہے جس کے لغوی معنی ہیں: کسی کام کو آہستہ آہستہ کرنا۔ اصطلاحی معنی ہیں: کسی کام کا بتدریـــج پایا جانا، خواہ اس کا یکدم پانا ممکن ہو یا نہ ہو، پہلی مثال: تَجَرَّعَ زیدٌ: زید نے پانی گھونٹ گھونٹ پیا جبکہ پانی کا یک دم پینا ممکن ہے۔ یاد رہے کہ جُرٛعَۃـٌ گھونٹ کو کہتے ہیں،

 دوسری مثال: تَحَفَّظَ زیدٌ القرآنَ: زید نے قرآن کو بتدریــــج حفظ کیا، قرآن کریم کا یک دم حفظ کرنا ممکن نہیں ہے۔

مُصنّف بابِ تفعّل کے تین معانی بیان کرنے کے بعد بابِ تفعّل، بابِ تفاعُل اور بابِ تفعلُل کے بارے میں مندرجہ ذیل قاعدہ بیان کرتے ہیں:

"و چون در مستقبل باب تفعّل و تفاعل و تفعلل دو تاء جمع شود جايز باشد كه يكى را بيندازند چون «تَنَّزَلُ الْمَلٰئكَةُ و تَزٰاوَرُ عَنْ كهْفِهِمْ و تَصَدّىٰ".

اور جب بابِ تفعُّل اور تفاعُل کے مضارع میں دو تاء جمع ہوجائیں تو جائز ہے ایک تاء کو گرادیں جیسے: ﴿تَنَزَّلُ ٱلمَلَـٰٓئِكَةُ وَٱلرُّوحُ فِيهَا بِإِذنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمر؛ سورہ قدر، آیہ۴۔

" فرشتے اور روح اس شب میں اپنے رب کے اذن سے تمام (تعیین شدہ) حکم لے کر نازل ہوتے ہیں".

﴿وَ تَرَی الشَّمسَ اِذَا طَلَعَت تَّزٰوَرُ عَنۡ کَھفھِم ذَاتَ الیَمِینِ﴾؛ سورہ کہف، آیہ۱۷۔

 "اور آپ دیکھتے ہیں کہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ان کے غار سے داہنی طرف سمٹ جاتا ہے ".

﴿فَأَنتَ لَهُۥ تَصَدَّىٰ؛ سورہ عبس، آیہ۶۔

"سو آپ اس پر توجہ دے رہے ہیں ".

پہلی آیت میں تَنَّزَلُ، اصل میں تَتَنَّزَلُ تھا ؛ دوسری آیہ میں تَزٰاوَرُ، اصل میں تَتَزٰاوَرُ تھا؛ تیسری آیہ میں تَصَدّىٰ، اصل میں تَتَصَدّىٰ تھا،مذکورہ قاعدے کے مطابق ایک تاء کو گرادیا گیاہے۔

چوتھا معنی: اِتخاذ ، اِتّخاذ کے لغوی معنی ہیں: پکڑنا، اختیار کرنااور بنانا، اصطلاح میں فاعل کا مفعول کو ماخذ بنانا، جیسے: تَوَسَّدَ زیدٌ الحَجَرَ  : زید نے پتھر کو اپنے لئے  تکیہ بنایا۔

اس مثال میں فاعل  "زید" نے مفعول "الحجر" کو ماخذ "وِسَادۃ" (تکیہ) بنایا۔

پانچواں معنی: طلب جیسے:تَعَجّلتُ الشیءَ: میں اس چیز میں عُجلت کا خواہاں ہوا۔

چھٹا معنی: شکایت جیسے: تَظلَّمَ: اس نے ظلم کی شکایت کی۔

ساتوں معنی:  صیرورت: اس سے مراد یہ ہے کہ فاعل کا صاحب ماخذ ہونا، جیسے :تَمَوَّلَ زیدٌ : زید صاحب مال، مال دار ہو گیا۔

آٹھواں معنی: تَجَنُّبٛ: اس کے لغوی معنی ہیں کنارہ کش ہونا، یعنی بچنا، الگ ہونا اور اصطلاحی معنی ہیں : فاعل کا ماخذ سے اجتناب و پرہیز کرنا، جیسے:  تَحَوَّبَ زیدٌ : زید گناہ سے بچا، تَٵثَّمَ زیدٌ : زید نے اپنے آپ کو گناہ سے بچایا۔ اس مثال میں ماخذ "حُوٛب" اور "اِثٛمٌ" ہے، ان  دونوں کے معنی  گناہ کے ہیں۔ 

نواں معنی: بابِ تفعُّل کا ثلاثی مجرّد کے موافق معنی میں استعمال ہونا جیسے:  قَبِلَ زیدٌ: زید نے قبول کیا؛  تَقَبَّلَ زیدٌ: زید نے قبول کیا۔قَبَلَ اور تَقَبَّلَ کا معنی ایک ہے۔ اسی طرح بَسَمَ  زیدٌ: زیدمسکرایا؛ تَبَسَّمَ زیدٌ: زید مسکرایا۔

ملاحظہ کیجئے: (کچھ تصرّف کے ساتھ) سید محمد رضا طباطبائی، صرف سادہ، ص۱۷۴۔

[باب تفعُّل سے ناقصِ یائی]

مصنّف اس سلسلے میں کہتے ہیں:

"ناقص يايى تَمَنّى يَتَمَنّى تَمَنِيّاً". 

ناقصِ یائی جیسے: تَمَنَّى، يَتَمَنَّى،تَمَنِيّاً۔

التَّمَنِّي : خواہش کرنا آرزو کرنا؛

یہ ناقص یائی فعل ہے جو باب تفعّل میں آیاہے۔

فعلِ ماضی معلوم کی گردان:

تَمَنَّى، تَمَنَّيَا، تَمَنَّوْا، تَمَنَّتْ، تَمَنَّتَا، تَمَنَّيْنَ، تَمَنَّيْتَ، تَمَنَّيْتُمَا، تَمَنَّيْتُمْ، تَمَنَّيْتِ، تَمَنَّيْتُمَا، تَمَنَّيْتُنَّ، تَمَنَّيْتُ، تَمَنَّيْنَا۔

فعلِ مضارع معلوم کی گردان:

يَتَمَنَّى، يَتَمَنَّيَانِ، يَتَمَنَّوْنَ، تَتَمَنَّى، تَتَمَنَّيَانِ، يَتَمَنَّيْنَ، تَتَمَنَّى، تَتَمَنَّيَانِ، تَتَمَنَّوْنَ، تَتَمَنَّيْنَ، تَتَمَنَّيَانِ، تَتَمَنَّيْنَ، أَتَمَنَّى، نَتَمَنَّى۔

تَمَنِّيّاً کی تعلیل

مصنّف اس سلسلے میں کہتے ہیں:

(اصل مصدر تَمنُّياً بود ضمه را به جهت ياء بدل به كسره كردند تَمَنّياً شد)

تَمَنِيّاً: مصدر ہے یہ اصل میں تَمَنُّياً تھا، ضمہ کو "یاء" کی وجہ سے  کسرہ میں تبدیل کیا تو تَمَنّياً بن گیا۔

اسم فاعل: مُتَمَنٍّ

اسم مفعول: مُتَمَنًّى

امر حاضر: تَمَنَّ

نہی: لَا يَتَمَنَّ

جحد: لَمْ يَتَمَنَّ

[مضاعف از باب تفعُّل]

التَّحَبُّب : دوستی کرنا

یہ مضاعف فعل باب تفعُّل میں آیاہے۔

ماضی معلوم: تَحَبَّبَ، تَحَبَّبَا، تَحَبَّبُوا، تَحَبَّبَتْ، تَحَبَّبَتَا، تَحَبَّبْنَ، تَحَبَّبْتَ، تَحَبَّبْتُمَا، تَحَبَّبْتُمْ، تَحَبَّبْتِ، تَحَبَّبْتُمَا، تَحَبَّبْتُنَّ، تَحَبَّبْتُ، تَحَبَّبْنَا۔

مضارع معلوم: يَتَحَبَّبُ، يَتَحَبَّبَانِ، يَتَحَبَّبُونَ، تَتَحَبَّبُ، تَتَحَبَّبَانِ، يَتَحَبَّبْنَ، تَتَحَبَّبُ، تَتَحَبَّبَانِ، تَتَحَبَّبُونَ، تَتَحَبَّبِينَ، تَتَحَبَّبَانِ، تَتَحَبَّبْنَ، أَتَحَبَّبُ، نَتَحَبَّبُ۔

4

تطبیق: باب تفاعل

[باب تفاعل کے معانی]

ثلاثی مزید فیه کے ابواب میں ایک باب تفاعُل ہے جیسے: ،  تضٰارَبَ، یَتَضارَبُ، تَضارُباً؛ تَعامَلَ،  يَتَعامَلُ، تَعامُلاً۔

 باب تفاعل کے  مندرجہ ذیل پانچ معانی ہیں:

پہلا معنی: مشارکت۔ (اسے تشارُک سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے)۔

بابِ تفاعُل غالبا اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

مصنّف اس سلسلے میں کہتے ہیں:

(باب تفاعل : اصل اين باب آن است كه در ميان دو كس باشد همچنانكه در باب مفاعله لكن اينجا مجموع به حسب صورت ، فاعل باشند چون تَضٰارَبَ زَيْد و عمرو و در مفاعله به حسب صورت يكى فاعل باشد)۔

بابِ تفاعُل کی اصل یہ ہے کہ اس کا فعل دو افراد کے درمیان مشترک ہوتا ہےجیسا کہ بابِ مُفاعَلہ میں لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ اس باب میں ظاہری صورت میں ہر ایک فاعل ہوتا ہے مثال :  تَضٰارَبَ زَيْد و عمرو  جبکہ بابِ مُفاعَلہ میں ظاہری صورت کے اعتبار سے ایک فاعل اور دوسرا مفعول بہ ہوتا ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔

بابِ تفاعُل کی دوسری مثال:  تَشَاتَمَ زیدٌ وَ عَمرٌو؛ زید اور عمرو نے باہم گلم گلوچ کی۔اس مثال میں معنی کے لحاظ سے زید اور عمرو میں سے ہر ایک فاعل بھی ہیں اور مفعول بھی، لیکن ظاہری صورت کے لحاظ سے دونوں فاعل ہیں۔ کبھی کبھار دونوں ہی فاعل ہوتے ہیں اور ان میں مفعول کوئی نہیں ہوتا مثال: تَرَافَعَ زیدٌ و عمرٌو حَجرًا : زید اور عمرو نے ملکر پتھر اٹھایا۔

دوسرا معنی: بابِ مُفاعَلہ کی مطاوعت

اس کا مطلب یہ ہے کہ باب تفاعل کا باب مفاعَلہ کے بعد اس عرض سے آنا کہ مفعول نے پہلے فعل کے اثر کو قبول کیا ہے، جیسے: بَاعَدتُہُ فَتَبَاعَد: میں نے اسے  دور کیا پس وہ دور ہو گيا۔

تیسرا معنی: تظاہُر و تشبُّہ یعنی فاعل کی جانب سے ایسی حالت کا ظاہر کرنا جو اس میں موجود نہیں ہے۔

مصنّف اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

(و شايد كه به معنى اظهار چيزى باشد كه آن چيز حاصل نباشد چون تَجٰاهَلَ زَيْدٌ و تَمٰارَضَ عَمْروٌ يعنى جهل و بيمارى را آشكار كرد و حال آنكه جاهل و بيمار نبودند)۔

 کبھی کبھار یہ باب اُس چیز کو ظاہر کرنے کے معنی میں آتا ہے جو موجود نہیں ہوتی، مثال:  تَجَاھَلَ زیدٌ: زید نے اپنے آپ کو جاہل ظاہر کیا؛ تَمَارَضَ زیدٌ؛ زید نے خود کو بیمار ظاہر کیا؛ جبکہ وہ جاہل اور  بیمار نہیں ہے۔  

چوتھا معنی: تکلُّف، مثال: تَباکی: اس نے گریہ کرنے کے لئے خود کو زحمت میں ڈالا؛ یعنی اس نے بڑی مشکل سے گریہ کیا۔

پانچواں معنی: ثلاثی مجرّد کا معنی ہمراہ با تاکید و مبالغہ ، مثال: تَعَالَی بمعنی عَلا (بُلند ہوا) عَلَا یَعٛلُوٛ : بُلند ہونا۔ اللہُ تعالیٰ: اللہ کی ذات بہت بلند مرتبہ ہے۔

چھٹا معنی: موافقتِ بابِ اِفعال۔

مصنّف اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

( و شايد كه بمعنى أفْعَل آيد چون تسٰاقَط اى أَسْقَط كقوله تعالىٰ تُسٰاقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جنيّاً اى تُسْقِطْ)۔

یہ باب کبھی کبھار بابِ اِفعال کے معنی میں بھی آتا ہے جیسے: تسٰاقَطکا معنی: أَسْقَط ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

 ﴿وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا﴾؛

”اور کھجور کے تنے کو ہلائیں کہ آپ پر تازہ کھجوریں گریں گی“۔

[ باب تفاعل سے ناقص واوی]

مُصنّف اس بارے میں لکھتے ہیں:

ناقص وٰاوى «التّصابى : عشق بازى كردن» تَصٰابٰا يَتَصٰابٰا تَصٰابِياً ضمّه در مصدر بدل به كسره شد چنانكه در باب تفعل گذشت المُتَصٰابى المُتَصٰابىٰ تَصٰابَ لٰا يَتَصٰابَ

(ناقص وٰاوى «التّصابى : عشق بازى كردن» تَصٰابٰا يَتَصٰابٰا تَصٰابِياً ضمّه در مصدر بدل به كسره شد چنانكه در باب تفعل گذشت المُتَصٰابى المُتَصٰابىٰ تَصٰابَ لٰا يَتَصٰابَ)۔

ناقصِ واوی جیسے: التَّصَابِي : عشق کرنا ۔

فعلِ ماضی معلوم: تَصٰابٰا۔

فعلِ مضارع معلوم: يَتَصَابَىٰ

مصدر: تَصَابِياً  در اصل تھا تَصَابُوً تھا۔

یاد رہے کہ مصدر میں ضمّہ کسرہ میں تبدیل ہوگیا جیسا کی بابِ تفعُّل میں گزرچکا ہے۔

اسم فاعل: المُتَصَابِي؛

اسم مفعول: المُتَصَابَىٰ؛

امر حاضر: تَصَابَ؛

نہی: لَا يَتَصَابَ۔

[ باب تفاعل سے  ناقص یائی]

مُصنّف اس بارے میں لکھتے ہیں:

(ناقص يايى «الترامِى : با يكديگر تير انداختن» تَرامىٰ يَتَرٰامىٰ تَرٰامِياً بر قياس تَصٰابى)۔
التَّرَامِي : ایک دوسرے پر تیر پھینکنا۔

ماضی معلوم: تَرَامَىٰ؛

مضارع معلوم: يَتَرَامَىٰ؛

مصدر: تَرَامِياً۔

 تَصٰابى کے قیاس کے مطابق۔

[باب تفاعل سے مضاعف]

مُصنّف اس بارے میں لکھتے ہیں:

(مضاعف «التَحابب : يكديگر را دوست داشتن» تَحٰابَّ يَتَحٰابُّ تَحٰابُباً فهو و ذاك مُتَحٰابٌّ ، امر حاضر تَحٰابَّ تَحٰابِّ تَحٰابَبْ ، نهى لٰا يَتَحٰابَّ لٰا يَتَحٰابِّ لٰا يَتَحٰابَبْ ، و بر اين قياس بود جحد و امر غايب. و در اين باب ماضى و امر يك صورتند لكن فرق قراين است)۔

التَّحَابُب : ایک دوسرے کو دوست رکھنا؛ ایک دوسرے سے محبّت کرنا۔

فعلِ ماضی معلوم: تَحَابَّ۔

تَحَابَّ کی تعلیل

تَحَابَّ:  در اصل تَحَابَبَ  تھا، باء کو  باءمیں ادغام کیا تو تَحَابَّ بن گیا۔

فعلِ مضارع معلوم: يَتَحَابُّ؛

مصدر: تَحَابُباً؛

اسم فاعل: المُتَحَابُّ؛

اسم مفعول: المُتَحَابُّ؛

فعلِ امر حاضر:تَحَابَّ ،تَحَابِّ ،تَحَابَبْ۔

فعلِ نہی: لَا يَتَحَابَّ ، لَا يَتَحَابِّ

اس باب میں ماضی اور امر کی شکل ایک جیسی ہوتی ہے،  لکن اصل میں فرق ہوتاہے: ماضی معلوم: تَحَابَّ در اصل تھا: تَحَابَبَ  تھا،  امر حاضر:تَحَابَّ در اصل تحابِب تھا۔

وَ صَلَّی اللَهُ عَلیٰ سَیَِدِنا مُحَمَّدٍ وَ آل مُحَمَّدٍ۔

مثال وٰاوى «الاِسْتيجٰاب : سزاوار چيزى شدن».

ماضى معلوم اِسْتَوْجَبَ ، يَسْتَوْجِبُ ، اسْتِيجٰاباً فهو مُسْتَوْجِبٌ ، و ذاك مُسْتَوْجَبٌ ، اسْتَوْجِبْ ، لٰا يَسْتَوْجِبْ بر قياس صحيح.

اجوف وٰاوى «الاِسْتِقٰامَة : راست شدن» اسْتَقٰامَ يَسْتَقيمُ اسْتِقٰامَة المُسْتَقيمُ المُسْتَقامُ اسْتَقِمْ لا يَسْتَقِمْ بر قياس أَقٰامَ يُقيمُ إِقٰامَةً.

ناقص يايى «الاِسْتِخْبٰاء : خيمه زدن» اسْتَخبىٰ يَسْتَخبى اسْتَخبٰاءً المُسْتَخْبى المُسْتَخْبىٰ اسْتَخْبِ لٰا يَسْتَخْبِ.

لفيف مقرون «الاستحيٰاء : شرم داشتن» اِسْتَحْيىٰ يَسْتَحْيى اِسْتِحْيٰاءً فهو مُسْتَحْىٍ و ذاك مُسْتَحْياً اِسْتَحْىِ لا يَسْتَحْىِ و شايد كه گويند اِسْتَحىٰ ، يَسْتَحى ، اِسْتِحٰاءً ، فهو مستحٍ ، وذاك مُسْتَحىً ، امر اِسْتَحِ ، نهى لٰا يَسْتَحِ. و در حَيِىَ جايز است كه ادغام كنند و گويند حَىَّ حَيّا حَيُّوا تا آخر.

مضاعف «الاسِتتْبٰاب : تمام شدن» اِستَتَبّ يَسْتَتِبُّ اِسْتِتْبٰاباً اسم فاعل مُسْتَتِبٌّ اسم مفعول مُسْتَتَبٌّ امر حاضر اِسْتَتَبَّ اِسْتَتَبِّ اِسْتَتْبِبْ و بر اين قياس است امر غايب و نهى و جحد.

باب تفعّل اين باب مطاوعه فعل باشد چون قَطَعْتُهُ فَتَقَطَّع و به معنى تكلّف و تشبّه نيز آيد چون تَحَلَّمَ و تَزَهَّدَ و به معنى مهلت آيد چون تَجَرَّعَ

و چون در مستقبل باب تفعّل و تفاعل و تفعلل دو تاء جمع شود جايز باشد كه يكى را بيندازند چون «تَنَّزَلُ الْمَلٰئكَةُ و تَزٰاوَرُ عَنْ كهْفِهِمْ و تَصَدّىٰ.

ناقص يايى تَمَنّى يَتَمَنّى تَمَنِيّاً اصل مصدر تَمنُّياً بود ضمه را به جهت ياء بدل به كسره كردند تَمَنّياً شد اسم فاعل مُتَمَنٍّ ، اسم مفعول مُتَمَنىًّ ، امر حاضر تَمَنَّ ، نهى لا يَتَمَنَّ ، جحد لَمْ يَتَمَنَّ.

مضاعف «التّحبّب : دوستى نمودن» تَحَبَّبَ يَتَحَبَّبُ تَحَبُّباً المُتَحَبِّبُ المُتَحَبَّبُ تَحَبَّبْ لا يَتَحبَّبْ بر قياس صحيح.

باب تفاعل : اصل اين باب آن است كه در ميان دو كس باشد همچنانكه در باب مفاعله لكن اينجا مجموع به حسب صورت ، فاعل باشند چون تَضٰارَبَ زَيْد و عمرو و در مفاعله به حسب صورت يكى فاعل باشد و ديگرى مفعول و شايد كه به معنى اظهار چيزى باشد كه آن چيز حاصل نباشد چون تَجٰاهَلَ زَيْدٌ و تَمٰارَضَ عَمْروٌ يعنى جهل و بيمارى را آشكار كرد و حال آنكه جاهل و بيمار نبودند و شايد كه بمعنى أفْعَل آيد چون تسٰاقَط اى أَسْقَط كقوله تعالىٰ تُسٰاقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جنيّاً اى تُسْقِطْ.

ناقص وٰاوى «التّصابى : عشق بازى كردن» تَصٰابٰا يَتَصٰابٰا تَصٰابِياً ضمّه در مصدر بدل به كسره شد چنانكه در باب تفعل گذشت المُتَصٰابى المُتَصٰابىٰ تَصٰابَ لٰا يَتَصٰابَ.

ناقص يايى «الترامِى : با يكديگر تير انداختن» تَرامىٰ يَتَرٰامىٰ تَرٰامِياً بر قياس تَصٰابى.

مضاعف «التَحابب : يكديگر را دوست داشتن» تَحٰابَّ يَتَحٰابُّ تَحٰابُباً فهو و ذاك مُتَحٰابٌّ ، امر حاضر تَحٰابَّ تَحٰابِّ تَحٰابَبْ ، نهى لٰا يَتَحٰابَّ لٰا يَتَحٰابِّ لٰا يَتَحٰابَبْ ، و بر اين قياس بود جحد و امر غايب. و در اين باب ماضى و امر يك صورتند لكن فرق قراين است.

فصل :

بدانكه فاء الفعل ، در باب «تفعّل وتفاعل» هر گاه يكى از يازده حرف باشد كه : تاء و ثاء و دال و ذال و زا و سين و شين و صاد و ضاد و طا و ظا است. روا باشد كه تاء را از جنس فاء كنند و ساكن نمايند و در فاء ادغام كنند و هرجا كه اوّل ساكن باشد همزه وصل درآورند پس در تَطَهَّرَ يَتَطَهَّرُ تَطَهُّراً فهو مُتَطَهِّرٌ و ذاك مُتَطَهَّرٌ گويى اِطَّهَّرَ يَطَّهَّرُ اِطَّهُّراً فهو مُطَّهِّرٌ و ذاك مُطَّهَّرٌ و در تدٰارَكَ يَتَدٰارَكُ تَدٰارُكاً فهو مُتَدٰارِكٌ و ذاك مُتَدٰارَكٌ گويى ادّاٰرَكَ يَدّاٰرَكُ ادّارُكاً فهو مُدّاٰرِكٌ وذاك مُدّاٰرَكٌ.

ودر قرآن مجيد آمده است المُزَّمِّل و المدَّثِّر و ازَّيَّنَتْ فَادّاٰرَأتُم فيهٰا و بر اين قياس بود اتَّرَّبَ يَتَّرَّبُ اتَّرُّبَاً فهو مُتّرِّبٌ و ذاك مُتَّرَّبٌ و اتّابَعَ يَتّابَعُ اتّابُعاً. واثَّبَّتَ يَثَّبَّتُ اثَّبُّتاً واثّٰاقَلَ يَثّاقَلُ اثّٰاقُلاً. و ادَّثَّرَ يَدَّثَّرُ ادَّثُرّاً و ادّاٰرَكَ ـ چنانكه گذشت ـ و اِذَّكَّرَ يَذَّكَّرُ اِذَّكُّراً. و اِذّابَحَ يَذّابَحُ اذّابُحاً. و اِزَّمَّلَ يَزَّمَّل و اِزَّمُّلاً. و اِزّاوَرَ يَزّاوَرُ اِزّاوُراً. و اِسَّرَّعَ يَسَّرَعُ اِسَّرُّعاً و اِسّارَعَ