[بابِ تفعل کے معانی]
ثلاثی مزید فیه کے ابواب میں ایک باب تفعُّل ہے جیسے: تَصَرَّفَ، یَتَصَرَّفُ، تَصَرُّفاً۔
اسی باب سے قرآن  کریم میں یہ دو آیتیں بھی ہیں:
﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ﴾؛سوره مائده، آیت ۲۷۔
” اور آپ انہیں آدم کے دونوں بیٹوں کا حقیقی قصہ سنائیں جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی تو اس نے کہا: میں تجھے ضرور قتل کروں گا، (پہلے نے)کہا: اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے“۔
اس آیت میں بابِ تَفَعل سے ایک فعلِ ماضی مجہول (تُقُبِّلَ)،فعلِ مضارع مجہول و مجزوم (لَمْ يُتَقَبَّلْ) اور فعلِ مضارع معلوم ( يَتَقَبَّلُ) استعمال کیا گیا ہے۔
 ﴿وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ﴾؛ سورہ طلاق، آیت۳۔
”اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے پس اس کے لیے اللہ کافی ہے“۔
اس آیہ میں  يَتَوَكَّلْ، بابِ تفعُّل سے فعلِ مضارع معلوم، مفرد مذکّر غائب کا صیغہ ہے اور مْنِ شرطیہ کی وجہ سے مجزوم ہے۔
بابِ تفعُّل کے نو معانی ہیں جن میں سے مُصنّف نے تین معانی بیان کئے ہیں:
پہلا معنی: مُطاوَعَہ 
مُصنّف اس بارے میں کہتے ہیں:
"باب تفعّل اين باب مطاوعه فعل باشد چون قَطَعْتُهُ فَتَقَطَّع"
بابِ تفعُّل فَعَلَ کے مُطاوَعہ کے لئےآتاہے جیسے: قَطَعْتُهُ فَتَقَطَّع: میں نے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کیا پس وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
 وضاحت:
مُطاوعت کا معنی یہ ہے کہ ایک فعل کے بعد دوسرے فعل کو اس مقصد کے لئے لایا جاتا ہے تاکہ یہ بتایا جاسکے کہ مفعول نے اثر کو قبول کر لیا ہے۔
مُصنّف نے فَعَلَ کے مُطاوَعَہ کو بیان کیا ہے جبکہ صاحِبِ صرفِ سادہ  کہتے ہیں کہ بابِ تَفَعُّل، بابِ تفعیل کے مُطاوَعَہ کے لئے آتاہے جیسے: اَدّبتُ زیدًا فَتَاَدَّبَ: میں نے زید کو ادب سکھایا تو وہ با ادب بن گیا۔
بابِ تَفَعُلّ کا بابِ تفعیل کے مُطاوَعَہ کے لئے ہونے  کا مطلب یہ ہے کہ باب تفعل کا باب تفعیل کے بعد اس غرض سے آنا کہ مفعول نے پہلے فعل کے فاعل کے اثر کو قبول کیا ہے، ھَذَّبتُ بَکرا فَتَھَذَّبَ: میں نے بکر کی اصلاح کی تو وہ مُہذّب (اصلاح والا) ہوگیا؛ قَطَّعتُ الخَشَبَ فَتَقَطَّعَ : میں نے لکڑی کو ٹکڑے ٹکڑے کیا پس وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔
دوسرا معنی: تَکَلُّف و تَشبُّہ (کسی انسان کا خود کو کسی دوسرے شخص کے مشابہ ظاہر کرنا)
مُصنّف اس بارے میں کہتے ہیں:
"و به معنى تكلّف و تشبّه نيز آيد چون تَحَلَّمَ و تَزَهَّدَ  "
یہ باب، تَکَلُّف اور تَشبُّہ کے معنی میں بھی آتا ہے جیسے: تَحَلَّمَ  زیدٌ: زید نے خود کو بردبار ظاہر کیا؛ تَزَهَّدَ  زیدٌ: زید نے خود کو زاہد ظاہر کیا۔ 
وضاحت:
تکلّف سے مراد یہ ہے کہ فاعل کا مصنوعی طور پر خود کو ماخذ سے متصف ظاہر کرنا، یا فاعل کا خود کو بناوٹی طور پر ماخذ کی طرف منسوب کرنا، پہلی مثال: َشَجَّعَ زیدٌ: زید نے خود کو شجاع ظاہر کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ زید شجاع نہیں تھا لیکن وہ  دکھاوا اس طرح کرتا ہے کہ شجاع ہے۔ اس مثال میں ماخذ شجاعت ہے، اور زید نے اپنے آپ کو ماخذ سے متصف ظاہر کیا۔
دوسری مثال: تَمَرَّضَ زیدٌ: زید نے خود کو مریض ظاہر کیا۔ ان دونوں مثالوں میں فاعل "زید" نے مصنوعی طور پر اپنے آپ کو شجاعت یا مرض سے متصف ظاہر کیا۔
تیسری مثال: تَکَوَّفَ زیدٌ: زید نے بناوٹی طور پر خود کو کوفہ کی طرف منسوب کیا۔
یاد رہے کہ کوفہ، عراق کے قدیمی تاریخی شہر کا نام ہے، حضرت امیرُ المومین علی بن ابی طالب علیہ السّلام نےاسے اپنا دارُ الخلافہ قرار دیا تھا، اُسی سےفعل تَکَوَّفَ بنایا گیا ہے؛ تَکَوَّفَ: ثلاثی مزید فیہ کے بابِ تفعّل سے فعلِ ماضی معلوم، مفرد، مذکّر غائب ہے۔
چوتھی مثال: تَجَوَّعَ زیدٌ: زید نے خود کو بھوکا ظاہر کیا۔ یعنی زید واقعا بھوکا نہیں تھا لیکن بناوٹی طور پر اپنے آپ کو بھوکا ظاہر کیا۔ اس مثال میں جُوع(بھوک) سے فعل بنایا گیا ہے؛ تَجَوَّعَ: ثلاثی مزید فیہ کے بابِ تفعّل سے فعلِ ماضی معلوم، مفرد، مذکّر غائب ہے۔
تیسرا معنی: مہلت اور تدریج
مُصنّف اس بارے میں کہتے ہیں:
"و به معنى مهلت آيد چون تَجَرَّعَ".
وضاحت:
تدریج: یہ ثلاثی مزید فیہ کے بابَ تفعیل سے مصدر ہے جس کے لغوی معنی ہیں: کسی کام کو آہستہ آہستہ کرنا۔ اصطلاحی معنی ہیں: کسی کام کا بتدریـــج پایا جانا، خواہ اس کا یکدم پانا ممکن ہو یا نہ ہو، پہلی مثال: تَجَرَّعَ زیدٌ: زید نے پانی گھونٹ گھونٹ پیا جبکہ پانی کا یک دم پینا ممکن ہے۔ یاد رہے کہ جُرٛعَۃـٌ گھونٹ کو کہتے ہیں،
 دوسری مثال: تَحَفَّظَ زیدٌ القرآنَ: زید نے قرآن کو بتدریــــج حفظ کیا، قرآن کریم کا یک دم حفظ کرنا ممکن نہیں ہے۔
مُصنّف بابِ تفعّل کے تین معانی بیان کرنے کے بعد بابِ تفعّل، بابِ تفاعُل اور بابِ تفعلُل کے بارے میں مندرجہ ذیل قاعدہ بیان کرتے ہیں:
"و چون در مستقبل باب تفعّل و تفاعل و تفعلل دو تاء جمع شود جايز باشد كه يكى را بيندازند چون «تَنَّزَلُ الْمَلٰئكَةُ و تَزٰاوَرُ عَنْ كهْفِهِمْ و تَصَدّىٰ".
اور جب بابِ تفعُّل اور تفاعُل کے مضارع میں دو تاء جمع ہوجائیں تو جائز ہے ایک تاء کو گرادیں جیسے: ﴿تَنَزَّلُ ٱلمَلَـٰٓئِكَةُ وَٱلرُّوحُ فِيهَا بِإِذنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمر﴾؛ سورہ قدر، آیہ۴۔
" فرشتے اور روح اس شب میں اپنے رب کے اذن سے تمام (تعیین شدہ) حکم لے کر نازل ہوتے ہیں".
﴿وَ تَرَی الشَّمسَ اِذَا طَلَعَت تَّزٰوَرُ عَنۡ کَھفھِم ذَاتَ الیَمِینِ﴾؛ سورہ کہف، آیہ۱۷۔
 "اور آپ دیکھتے ہیں کہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ان کے غار سے داہنی طرف سمٹ جاتا ہے ".
﴿فَأَنتَ لَهُۥ تَصَدَّىٰ﴾؛ سورہ عبس، آیہ۶۔
"سو آپ اس پر توجہ دے رہے ہیں ".
پہلی آیت میں تَنَّزَلُ، اصل میں تَتَنَّزَلُ تھا ؛ دوسری آیہ میں تَزٰاوَرُ، اصل میں تَتَزٰاوَرُ تھا؛ تیسری آیہ میں تَصَدّىٰ، اصل میں تَتَصَدّىٰ تھا،مذکورہ قاعدے کے مطابق ایک تاء کو گرادیا گیاہے۔
چوتھا معنی: اِتخاذ ، اِتّخاذ کے لغوی معنی ہیں: پکڑنا، اختیار کرنااور بنانا، اصطلاح میں فاعل کا مفعول کو ماخذ بنانا، جیسے: تَوَسَّدَ زیدٌ الحَجَرَ  : زید نے پتھر کو اپنے لئے  تکیہ بنایا۔
اس مثال میں فاعل  "زید" نے مفعول "الحجر" کو ماخذ "وِسَادۃ" (تکیہ) بنایا۔
پانچواں معنی: طلب جیسے:تَعَجّلتُ الشیءَ: میں اس چیز میں عُجلت کا خواہاں ہوا۔
چھٹا معنی: شکایت جیسے: تَظلَّمَ: اس نے ظلم کی شکایت کی۔
ساتوں معنی:  صیرورت: اس سے مراد یہ ہے کہ فاعل کا صاحب ماخذ ہونا، جیسے :تَمَوَّلَ زیدٌ : زید صاحب مال، مال دار ہو گیا۔
آٹھواں معنی: تَجَنُّبٛ: اس کے لغوی معنی ہیں کنارہ کش ہونا، یعنی بچنا، الگ ہونا اور اصطلاحی معنی ہیں : فاعل کا ماخذ سے اجتناب و پرہیز کرنا، جیسے:  تَحَوَّبَ زیدٌ : زید گناہ سے بچا، تَٵثَّمَ زیدٌ : زید نے اپنے آپ کو گناہ سے بچایا۔ اس مثال میں ماخذ "حُوٛب" اور "اِثٛمٌ" ہے، ان  دونوں کے معنی  گناہ کے ہیں۔ 
نواں معنی: بابِ تفعُّل کا ثلاثی مجرّد کے موافق معنی میں استعمال ہونا جیسے:  قَبِلَ زیدٌ: زید نے قبول کیا؛  تَقَبَّلَ زیدٌ: زید نے قبول کیا۔قَبَلَ اور تَقَبَّلَ کا معنی ایک ہے۔ اسی طرح بَسَمَ  زیدٌ: زیدمسکرایا؛ تَبَسَّمَ زیدٌ: زید مسکرایا۔
ملاحظہ کیجئے: (کچھ تصرّف کے ساتھ) سید محمد رضا طباطبائی، صرف سادہ، ص۱۷۴۔
[باب تفعُّل سے ناقصِ یائی]
مصنّف اس سلسلے میں کہتے ہیں:
"ناقص يايى تَمَنّى يَتَمَنّى تَمَنِيّاً". 
ناقصِ یائی جیسے: تَمَنَّى، يَتَمَنَّى،تَمَنِيّاً۔
التَّمَنِّي : خواہش کرنا آرزو کرنا؛
یہ ناقص یائی فعل ہے جو باب تفعّل میں آیاہے۔
فعلِ ماضی معلوم کی گردان:
تَمَنَّى، تَمَنَّيَا، تَمَنَّوْا، تَمَنَّتْ، تَمَنَّتَا، تَمَنَّيْنَ، تَمَنَّيْتَ، تَمَنَّيْتُمَا، تَمَنَّيْتُمْ، تَمَنَّيْتِ، تَمَنَّيْتُمَا، تَمَنَّيْتُنَّ، تَمَنَّيْتُ، تَمَنَّيْنَا۔
فعلِ مضارع معلوم کی گردان:
يَتَمَنَّى، يَتَمَنَّيَانِ، يَتَمَنَّوْنَ، تَتَمَنَّى، تَتَمَنَّيَانِ، يَتَمَنَّيْنَ، تَتَمَنَّى، تَتَمَنَّيَانِ، تَتَمَنَّوْنَ، تَتَمَنَّيْنَ، تَتَمَنَّيَانِ، تَتَمَنَّيْنَ، أَتَمَنَّى، نَتَمَنَّى۔
تَمَنِّيّاً کی تعلیل
مصنّف اس سلسلے میں کہتے ہیں:
(اصل مصدر تَمنُّياً بود ضمه را به جهت ياء بدل به كسره كردند تَمَنّياً شد)
تَمَنِيّاً: مصدر ہے یہ اصل میں تَمَنُّياً تھا، ضمہ کو "یاء" کی وجہ سے  کسرہ میں تبدیل کیا تو تَمَنّياً بن گیا۔
اسم فاعل: مُتَمَنٍّ
اسم مفعول: مُتَمَنًّى
امر حاضر: تَمَنَّ
نہی: لَا يَتَمَنَّ
جحد: لَمْ يَتَمَنَّ
[مضاعف از باب تفعُّل]
التَّحَبُّب : دوستی کرنا
یہ مضاعف فعل باب تفعُّل میں آیاہے۔
ماضی معلوم: تَحَبَّبَ، تَحَبَّبَا، تَحَبَّبُوا، تَحَبَّبَتْ، تَحَبَّبَتَا، تَحَبَّبْنَ، تَحَبَّبْتَ، تَحَبَّبْتُمَا، تَحَبَّبْتُمْ، تَحَبَّبْتِ، تَحَبَّبْتُمَا، تَحَبَّبْتُنَّ، تَحَبَّبْتُ، تَحَبَّبْنَا۔
مضارع معلوم: يَتَحَبَّبُ، يَتَحَبَّبَانِ، يَتَحَبَّبُونَ، تَتَحَبَّبُ، تَتَحَبَّبَانِ، يَتَحَبَّبْنَ، تَتَحَبَّبُ، تَتَحَبَّبَانِ، تَتَحَبَّبُونَ، تَتَحَبَّبِينَ، تَتَحَبَّبَانِ، تَتَحَبَّبْنَ، أَتَحَبَّبُ، نَتَحَبَّبُ۔