[باب اِفتِعال کے معانی]
پہلا معنیٰ: مُطاوَعَہ
اس سلسلے میں مصنّف لکھتے ہیں:
"باب افتِعٰال : اين باب براى مطاوعه فَعَلَ است ؛ چون جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ و نَشَرْتُهُ فَانْتَشَرَ"
بابِ اِفتِعال: یہ باب فَعَلَ کے مُطاوَعَہ کے لئے ہوتا ہے جیسے: جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَع یعنی میں نے اُسے جمع کیا تو وہ جمع ہوگیا؛  نَشَرْتُهُ فَانْتَشَرَ یعنی میں نے اسے پھیلایا تو وہ پھیل گیا۔
"و معنى مطاوعه آن است كه آن چيز آن فعل را قبول كند و ممتنع نشود ، چون «كَسَرْتُ الْكُوزَ فانْكَسَرَ» يعنى شكستم من كوزه را پس او قبول شكستن كرد"
مُطاوَعَہ کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ چیز اُس فعل کو قبول کرے اور اُسے قبول کرنے سے مانع نہ ہو، [دوسرے لفظوں میں:  یہ باب فعل کے کسی چیز پر اثر انداز ہونے اور اس کے رد عمل کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے] جیسے:كَسَرْتُ الْكُوزَ فانْكَسَرَ یعنی  میں نے کوزہ توڑا تو وہ ٹوٹ گیا۔
دوسرا معنیٰ: مُشارکت
اس سلسلے میں مصنّف لکھتے ہیں:
"و شايد كه بين اثنين باشد چون باب تَفٰاعُل چون «اِخْتَصَمَ زَيْدٌ وعَمْروٌ»"
کبھی کبھی باب افتعال، باب تفاعل کی طرح  دو شخصوں کے درمیان ہوتا ہے ( یعنی دو شخص ایک کام میں ایک دوسرے کے شریک ہیں) جیسے:اِخْتَصَمَ زَيْدٌ وعَمْروٌ: زید اور عمرو نے ایک دوسرے سے دشمنی کی؛ زید اور  عمرو ایک دوسرے کے مدِّ مقابل ہوئے۔
تیسرا معنیٰ: ثلاثی مجرد کے معنیٰ میں استعمال ہونا
اس سلسلے میں مصنّف کہتے ہیں:
"و به معنى فَعَلَ باشد چون «جَذَبَ فَاجْتَذَبَ»"
بابِ افتعال فَعَلَ (ثلاثی مجرد)کے معنیٰ میں ہوتا ہے جیسے: جَذَبَ فَاجْتَذَبَ۔ (یعنی ان دونوں کا معنیٰ ایک ہے)۔
چوتھا معنیٰ: اِتِّخاذ 
اِتِّخاذ کا لغوی معنیٰ: پکڑنا، اختیار کرنا اور  بنانا ہےاوراصطلاح میں  فعل کے ماخذ کو مہیّا، تیار اور فراہم کرنے کو کہتے ہیں: جیسے: اِشٛتَوَیٛتُ اللَّحٛمَ : میں نے گوشت بھونا۔ اس مثال میں "شِوَاءٌ " (بھوننا)  ماخذ ہے۔دوسری مثال: اِخٛتَبَزَ زیدٌ: زید نے روٹی بنائی۔ اس مثال میں  "خُبٛزٌ " (روٹی)  ماخذہے۔ تیسری مال: اِحٛتَجَرٛتُ الطِّفٛلَ: میں نے بچہ گود میں لیا۔ اس مثال میں "حَـِجٛرٌ" ماخذہے۔ 
چوتھی مثال:  اِحٛتَرَزَ زیدٌ: زید نے پناہ لی۔ یعنی وہ محفوظ مقام پر پہنچا۔ اس مثال میں حِرٛزٌ ( پناہ گاہ، محفوظ جگہ) ماخذ ہے۔
خلاصہ مطلب:
اِتِّخاذ کی مندرجہ ذیل چار صورتیں ہیں:
پہلی صورت: فاعل کا ماخوذ کو بنانا، ایجاد کرنا جیسے: اِخٛتَبَزَ زیدٌ: زید نے روٹی کو وجود دیا؛ زید نے روٹی بنائی۔ اس مثال میں "خُبٛز"  (روٹی) ماخذ ہے۔
دوسری صورت:  فاعل کا ماخذ کو اختیار کرنا، جیسے: اِحٛتَرَزَ زیدٌ: زید نے پناہ لی۔ یعنی زید محفوظ مقام پر پہنچا۔ اس مثال میں "حِرٛزٌ" ( پناہ گاہ) ماخذ ہے۔
تیسری صورت: فاعل کا مفعول کو ماخذ بنانا، جیسے : اِشٛتَوَیٛتُ اللَّحٛمَ : میں نے گوشت بھونا۔ اس مثال میں " شِوَاءٌ " ماخذ ہے۔
چوتھی صورت: فاعل کا مفعول کو ماخذ میں لینا، جیسے:اِحٛتَجَرٛتُ الطِّفٛلَ: میں نے بچہ گود میں لیا۔اس مثال میں"حَـِجٛرٌ" ماخذ ہے۔
پانچواں معنیٰ: طلب
اس سے مراد یہ ہے کہ مفعول بہ سے فعل کے ماخذ کو طلب کرناجیسے: اِکتَدَّ  زیدٌ خالِدًا: زید نے خالد سے طلب کیا کہ محنت کرے۔ (الکَدُّ: کوشش، محنت)۔
[ باب افتعال سے فعلِ صحیح]
فعلِ ماضی معلوم کی گردان:
اِكْتَسَبَ، اِكْتَسَبَا، اِكْتَسَبُوا، اِكْتَسَبَتْ، اِكْتَسَبَتَا، اِكْتَسَبْنَ، اِكْتَسَبْتَ، اِكْتَسَبْتُمَا، اِكْتَسَبْتُمْ، اِكْتَسَبْتِ، اِكْتَسَبْتُمَا، اِكْتَسَبْتُنَّ، اِكْتَسَبْتُ، اِكْتَسَبْنَا۔
فعلِ مضارع معلوم کی گردان:
يَكْتَسِبُ، يَكْتَسِبَانِ، يَكْتَسِبُونَ، تَكْتَسِبُ، تَكْتَسِبَانِ، يَكْتَسِبْنَ، تَكْتَسِبُ، تَكْتَسِبَانِ، تَكْتَسِبُونَ، تَكْتَسِبِينَ، تَكْتَسِبَانِ، تَكْتَسِبْنَ، أَكْتَسِبُ، نَكْتَسِبُ۔
[ باب افتعال سے مثال واوی]
مصنّف اس سلسلے میں کہتے ہیں:
"مثال وٰاوى «الاِتّهٰاب : قبول هبه كردن» اِتَّهَبَ يَتَّهِبُ اِتِّهٰاباً المُتَّهِب المُتَّهَب اتَّهِبْ لٰا تَتَّهِبْ»"
مثال واوی جیسے: اتِّهٰاب : ہبہ قبول کرنا؛ اِتَّهَبَ: فعلِ ماضی معلوم؛  يَتَّهِبُ: فعلِ مضارع معلوم؛ اِتِّهٰاباً: مصدر؛ المُتَّهِب: اسمِ فاعل؛ المُتَّهَب: اسمِ مفعول؛ اتَّهِبْ: فعلِ امرِ حاضرِ معلوم؛ لا تَتَّهِبْ: فعلِ نہی حاضر معلوم۔
"اصل اِوْتَهَبَ يُوْتَهِبُ ، اِوْتِهٰاباً بود واو را قلب به تاء كردند و تاء را در تاء ادغام نمودند ، و گاه باشد كه گويند ايتَعَدَ يٰاتَعِدُ ايتِعٰاداً"
اِتَّهَبَ،  اصل میں إِوْتَهَبَ تھا، واؤ کو  "تاء" میں تبدیل کیا اور پھر  "تاء" کو  "تاء"میں ادغام کیا تو اِتَّهَبَ ہوگیا۔کبھی کبھی اس طرح بھی کہتے ہیں یعنی کبھی کبھی واو کو یاء میں تبدیل کرتے ہیں: اِیتَہَبَ، یاتَہَبُ، اِیتِہابا جیسے:ايتَعَدَ، يٰاتَعِدُ، ايتِعٰاداً۔
فعلِ ماضی معلوم کی گردان:
 اِتَّهَبَ، اِتَّهَبَا، اِتَّهَبُوا، اِتَّهَبَتْ، اِتَّهَبَتَا، اِتَّهَبْنَ، اِتَّهَبْتَ، اِتَّهَبْتُمَا، اِتَّهَبْتُمْ، اِتَّهَبْتِ، اِتَّهَبْتُمَا، اِتَّهَبْتُنَّ، اِتَّهَبْتُ، اِتَّهَبْنَا۔
فعلِ مضارع معلوم کی گردان:
 يَتَّهِبُ، يَتَّهِبَانِ، يَتَّهِبُونَ، تَتَّهِبُ، تَتَّهِبَانِ، يَتَّهِبْنَ، تَتَّهِبُ، تَتَّهِبَانِ، تَتَّهِبُونَ، تَتَّهِبِينَ، تَتَّهِبَانِ، تَتَّهِبْنَ، أَتَّهِبُ، نَتَّهِبُ۔
اسم فاعل: مُتَّهِبٌ
مُتَّهِبٌ، اصل میں مُوْتَهِبٌ تھا؛ واؤ تاء میں تبدیل ہو گیا پھر دو تاء اکٹھا ہوگئے ادغام کیا تو مُتَّهِبٌ بن گیا۔
[ باب افتعال سے مثال یائی]
مصنّف اس سلسلے میں کہتے ہیں:
"مثال يايى  ايتَسَرَ ياتَسِرُ ايتِساراً واتَّسَرَ يَتِّسَرُ اِتّساراً اِتّسِرْ لا تَتَّسِرْ"۔
 مثال یائی:اتَّسَرَ، يَتِّسَرُ، اِتِّساراً، اِتّسِرْ، لا تَتَّسِرْ کہ اصل میں اِیتَسَرَ ، يَیتَسِرُ ، اِيتِساراً  تھے۔یاء کو تاء کردیا اور تاء کو تاء میں ادغام کردیا۔ اسے کبھی کبھی اس طرح بھی پڑھتے ہیں: اِيتَسَرَ يَاتَسِرُ اِيتِساراً۔
[باب اِفتعال سے اَجوفِ واوی]
مُصنّف اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
"اجوف وٰاوى «الاِجتِيٰاب : قطع كردن بيابان» اِجْتٰابَ يَجْتٰابُ اِجْتِيٰاباً"
اجوف واوی : اَلاِجتِياب: بیابان پار کرنا۔اِجْتٰابَ: فعلِ ماضی معلوم، مفرد مذکّر غائب؛ يَجْتٰابُ: فعلِ مضارع معلوم،مفرد مذکّر غائب؛ اِجْتِيٰاباً : مصدر ہے۔ فعلِ ماضی معلوم اور فعلِ مضارع معلوم کی پوری گردانیں مندرجہ ذیل ملاحظہ فرمائیں: 
فعلِ ماضی معلوم کی گردان: 
اِجْتابَ، اِجْتابَا، اِجْتٰابُوا، اِجْتابَتْ، اِجْتابَتَا، اِجْتَبْنَ، اِجْتَبْتَ، اِجْتَبْتُمَا، اِجْتَبْتُمْ، اِجْتَبْتِ، اِجْتَبْتُمَا، اِجْتَبْتُنَّ، اِجْتَبْتُ، اِجْتَبْنَا۔
اِجْتابَ کی تعلیل
اِجْتابَ: اصل میں اِجْتَوَبَ تھا واو متحرک، اس کا ماقبل مفتوح ہے، لہذا اسے الف میں تبدیل کیا تو اِجْتٰابَ بن گیا۔
فعلِ مضارع معلوم کی گردان:
  يَجْتٰابُ، يَجْتٰابَانِ، يَجْتٰابُونَ، تَجْتٰابُ، تَجْتٰابَانِ، يَجْتٰبْنَ، تَجْتٰابُ، تَجْتٰابَانِ، تَجْتٰابُونَ، تَجْتٰابِينَ، تَجْتٰابَانِ، تَجْتٰبْنَ، أَجْتٰابُ، نَجْتٰابُ۔
"اسم فاعل واسم مفعول مُجْتٰابٌ ، لكن اسم فاعل در اصل مُجْتَوِبٌ بود و اسم مفعول مُجْتَوبٌ بود"
اسم فاعل اور اسمِ مفعول دونوں مُجْتٰابٌ ہیں لیکن اسمِ فاعل کی اصل مُجْتَوِبٌ اور اسم مفعول کی اصل مُجْتَوَبٌ تھی۔
"امر حاضر اِجْتَبْ اِجْتٰابا اِجْتٰابوا ، لفظ ماضى و امر با هم مشتبه شدند در تثنيه و جمع ، لكن اصل ماضى اِجْتَوَبٰا اجْتَوَبُوا و اصل امر اجْتَوِبا اجْتَوِبُوا"
فعلِ امر حاضر: اِجْتَبْ اِجْتٰابا اِجْتٰابوا؛ فعلِ امرِ حاضرِ معلوم کی اصل: اِجْتَوِبْ، اِجتَوِبا، اِجتَوِبُوا تھی۔ تثنیہ اور جمع مذکّر کے صیغوں میں فعلِ ماضی معلوم اور فعلِ امرِ حاضرِ معلوم کے لفظ شکل و صورت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مشابہ ہوگئے لیکن اصل میں مختلف ہیں۔ اس لئے کہ فعلِ ماضی معلوم میں تثنیہ اور جمع کی اصل: اِجْتَوَبٰا اجْتَوَبُوا اور فعلِ امرِ حاضر معلوم میں ان دونوں کی اصل:اجْتَوِبا اجْتَوِبُواہے۔
"ماضى مجهول : اَُجْتيبَ اصل اُجْتُوِبَ بود كسره واو را به ماقبل دادند بعد از حذف حركت ماقبل ، واو قلب بياء شد"
فعلِ ماضى مجهول: اَُجْتيبَ ہے۔
اَُجْتيبَ کی تعلیل:
اَُجْتيبَ: اصل میں اُجْتُوِبَ تھا، واو کا کسرہ اس کے ماقبل (تاء) کی حرکت سلب کرنے کے بعد ما قبل کو دے دیا، واو یاء میں تبدیل ہوگئی تو اَُجْتيبَ بن گیا۔
[بابِ اِفتِعال سےاجوف یائی]
مُصنّف اس سلسلے میں کہتے ہیں:
"و در اجوف يايى گويى «الاِخْتِيٰار : برگزيدن» ماضى معلوم اِخْتٰارَ الخ"
 باب افتعال سے اجوفِ واوی جیسے: الاِخْتِيٰار: پسند کرنا، انتخاب کرنا، چُننا۔فعلِ ماضی معلوم: اِخْتٰارَ سے آخر تک۔ اس کی مکمل گردان اس طرح سے ہے:
فعلِ ماضی معلوم کی گردان:
اِخْتٰارَ، اِخْتٰارَا، اِخْتٰارُوا، اِخْتٰارَتْ، اِخْتٰارَتَا، اِخْتَرْنَ، اِخْتَرْتَ، اِخْتَرْتُمَا، اِخْتَرْتُمْ، اِخْتَرْتِ، اِخْتَرْتُمَا، اِخْتَرْتُنَّ، اِخْتَرْتُ، اِخْتَرْنَا۔
اِخْتٰارَ کی تعلیل:
اِخْتٰارَ:اصل میں اِخْتَیَرَ تھا، جس میں تیسرا حرف یاء تھا۔ چونکہ ما قبل مفتوح تھا، اس لیے یاء کو الف میں تبدیل کر دیا گیا، تو اِخْتٰارَ بن گیا۔
(مستقبل معلوم يَخْتٰارُ )۔
فعلِ مضارع معلوم: يَخْتٰارُ ہے۔ اس کی مکمل گردان اس طرح سے ہے:
فعلِ مضارع معلوم کی گردان:
يَخْتٰارُ، يَخْتٰارَانِ، يَخْتٰارُونَ، تَخْتٰارُ، تَخْتٰارَانِ، يَخْتٰرْنَ، تَخْتٰارُ، تَخْتٰارَانِ، تَخْتٰارُونَ، تَخْتٰارِينَ، تَخْتٰارَانِ، تَخْتٰرْنَ، أَخْتٰارُ، نَخْتٰارُ۔
"و در ماضى مجهول گويى اُخْتيرَ اصلش اُخْتُيِرَ بود كسره ياء را به ماقبل دادند بعد از سلب حركت ماقبل اُخْتيرَ شد"
اور فعلِ ماضی مجہول میں آپ کہتے ہیں:اُخْتِيرَ۔ 
اُخْتِيرَ کی تعلیل:
اُخْتِيرَ: اصل میں  اُخْتُيِرَ تھا؛ یاء پر کسرہ ثقیل تھا، ما قبل کی حرکت سلب کرنے کے بعد، ماقبل (تاء) کو دے دیا تو اُخْتيرَ ہوگیا۔فعلِ ماضی مجہول کی مکمل گردان اس طرح سے ہے:
فعلِ ماضی مجهول کی گردان:
اُخْتِيرَ، اُخْتِيرَا، اُخْتِيرُوا، اُخْتِيرَتْ، اُخْتِيرَتَا، اُخْتِرْنَ، اُخْتِرْتَ، اُخْتِرْتُمَا، اُخْتِرْتُمْ، اُخْتِرْتِ، اُخْتِرْتُمَا، اُخْتِرْتُنَّ، اُخْتِرْتُ، اُخْتِرْنَا۔
"امر حاضر اِخْتَرْ اِخْتٰارا اِخْتٰارُوا تا آخر ، نهى لٰا يَخْتَرْ ، اسم فاعل و مفعول مُخْتٰارٌ بر قياس مُجْتٰابٌ"
فعلِ امر حاضر معلوم کی گردان:
اِخْتَرْ، اِخْتٰارَا، اِخْتٰارُوا،اِخْتَاری، اِخْتٰارَا، اِخْتَرْنَ۔
اِخْتَرْ کی تعلیل:
اِخْتَرْ :اصل میں اِخْتَیِرْ تھا، یاء متحرک، ماقبل مفتوح، یاء الف میں تبدیل ہو گئی نیز  راءاور الف دونوں ساکن ہیں، لہذا جب الف کو گرادیا گیا تو اِخْتَرْ  بن جائے گا۔
اسم فاعل:مُخْتٰارٌ ہے  اس کی اصل: مُخْتَیِرٌ تھی اور اسم مفعول:مُخْتٰارٌ ہے اس کی اصل: مُخْتَیَرٌ  تھی۔
[باب افتعال سے ناقصِ یائی]
مصنّف اس سلسلے میں کہتے ہیں:
"ناقص يايى «الاِجْتبٰاء : برگزيدن» اِجْتَبىٰ يَجْتبَى اِجْتِباءً المُجْتَبى المُجْتَبىٰ اِجْتَبْ لا يَجْتَبْ"
ناقصِ یائی جیسے: الاِجتِباءُ: انتخاب کرنا۔اِجْتَبىٰ: فعلِ ماضی معلوم؛ يَجْتبَى: فعلِ مضارع معلوم؛ اِجْتِباءً: مصدر؛ المُجْتَبى: اسمِ فاعل؛ المُجْتَبىٰ: اسمِ مفعول؛ اِجْتَبْ: فعلِ امرِ حاضرِ معلوم؛ لا يَجْتَبْ: فعلِ نہی۔
[باب افتعال سے مُضاعَف]
مصنّف اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
"مضاعف «الاِمتِدٰاد : كشيدن» اِمْتَدَّ يَمْتَدُّ اسم فاعل و مفعول مُمْتَدٌّ لكن اصل فاعل مُمْتَدِدٌ و اصل مفعول مُمْتَدَدٌ است"
بابِ اِفتِعال سےمضاعف جیسے: اَلاِمْتِدادُ: کھینچنا۔اِمْتَدَّ: فعلِ ماضی معلوم؛ يَمْتَدُّ: فعلِ مضارع معلوم۔اسمِ فاعل اور اسمِ مفعول ظاہری شکل و صورت میں ایک جیسے ہیں لیکن اسمِ فاعل کی اصل:  مُمْتَدِدٌ اور اسمِ مفعول کی اصل:  مُمْتَدَدٌ ہے۔فعلِ ماضی معلوم اور فعلِ مضارع معلوم کی مکمل گردانیں اس طرح سے ہوں گی:
فعلِ ماضی معلوم کی گردان:
اِمْتَدَّ، اِمْتَدَّا، اِمْتَدُّوا، اِمْتَدَّتْ، اِمْتَدَّتَا، اِمْتَدَدْنَ، اِمْتَدَدْتَ، اِمْتَدَدْتُمَا، اِمْتَدَدْتُمْ، اِمْتَدَدْتِ، اِمْتَدَدْتُمَا، اِمْتَدَدْتُنَّ، اِمْتَدَدْتُ، اِمْتَدَدْنَا۔
اِمْتَدَّ کی تعلیل:
اِمْتَدَّ:اصل میں اِمْتَدَدَ تھا، دو دال اکٹھے جمع ہوگئے اور ادغام کے قانون کے مطابق دال کو دال میں ادغام کیا تو اِمْتَدَّ ہوگیا۔
فعلِ مضارع معلوم کی گردان:
يَمْتَدُّ، يَمْتَدَّانِ، يَمْتَدُّونَ، تَمْتَدُّ، تَمْتَدَّانِ، يَمْتَدِدْنَ، تَمْتَدُّ، تَمْتَدَّانِ، تَمْتَدُّونَ، تَمْتَدِّينَ، تَمْتَدَّانِ، تَمْتَدِدْنَ، أَمْتَدُّ، نَمْتَدُّ۔
"امر حاضر اِمْتَدَّ اِمْتَدِّ اِمْتَدِدْ. نهى لا يَمْتَدَّ لا يَمْتَدِّ لا يَمْتَدِدْ لفظ ماضى و امر در اين باب به يك طريقند لكن به حسب تقدير مختلف ـ چنانكه گذشت"
فعلِ امر حاضر معلوم:اِمْتَدَّ، اِمْتَدِّ، اِمْتَدِدْ۔فعلِ نهى: لَا تَمْتَدَّ، لَا تَمْتَدِّ، لَا تَمْتَدِدْ۔اس باب میں فعلِ ماضی معلوم اور فعلِ امرِ حاضرِ معلوم ظاہری شکل و صورت میں ایک جیسے ہیں جبکہ یہ دونوں اصل کے اعتبار سے مختلف ہیں جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے۔
وَ صَلَّی اللَهُ عَلیٰ سَیَِدِنا مُحَمَّدٍ وَ آل مُحَمَّدٍ۔