درس صرف میر

درس نمبر 30: ثلاثی مزید فیہ کے ابواب 4

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

تطبیق: باب تفعیل اور بابِ مُفاعَلَہ

[باب تفعیل اور اس کی خصوصیات]

اَلحمدُ لِلہ ہماری بحث و گفتگو ثلاثی مزید فیہ کے ابواب میں سے باب افعال کے بارے میں مکمّمل ہوگئی۔

اب ہم ثلاثی مزید فیہ کے ابواب میں سے بابِ تفعیل اور اس کی خصوصیات کے بارے میں بحث کر رہے ہیں۔

مُصنّف اس سلسلے میں یوں رقمطراز ہیں:

"باب تفعيل: اين باب براى تكثير بود چون فُتِحَ الْبٰابُ و فُتِّحَتِ الأَبْوٰابُ و مٰاتَ الْأِبِلُ و مَوَّتَتِ الأبالُ. و از براى مبالغه نيز آيد چون صَرَحَ هويدا شد صَرَّحَ نيك هويدٰا شد. و از براى تعديه آيد چون فَرِحَ زَيْدٌ و فَرَّحْتُهُ. و از براى نسبت آيد چون فَسَّقْتُهُ و كَفَّرْتُهُ يعنى او را نسبت دادم به فسق و نسبت دادم به كفر"

باب تفعیل کے چند اہم معانی اور اس کی خصوصیات درج ذیل ہیں:

پہلی خصوصیت: تکثیر  یعنی یہ باب کثرت بیان کرنے لئے آتا ہے جیسے:  طَوَّفَ زَیدٌ حَولَ البَیتِ: زید نے خانہ کعبہ کا بہت زیادہ طواف کیا۔اس مثال میں تکثیر فعل میں ہے۔

مَوَّتَ الاِبِلُ:کثرت سے اونٹ مرے۔ اس مثال میں تکثیر، فعل اور فاعل میں ہے۔

قَتَّلتُ الحَیَّةَ: میں نے بہت زیادہ سانپ مارے۔ اس مثال میں تکثیر فعل اور مفعول بہ میں ہے۔

مصنّف نے اس کی یہ مثالیں دی ہیں:

فُتِحَ الْبابُ و فُتِّحَتِ الأَبْوابُ و ماتَ الْأِبِلُ و مَوَّتَتِ الأبالُ۔

فُتِحَ الْبٰابُ: اس مثال میں فُتِحَ، ثلاثی مجرد کےباب فَعَلَ یَفعَلُ سے ماضی مجہول کی صورت میں ہے اور اس کا ترجمہ یہ ہوگا: دروازہ کھولا گیا؛

فُتِّحَتِ الأَبْوٰابُ، اس مثال میں فُتِّحْت، ثلاثی مزید فیہ کےباب تفعیل سے ماضی مجہول کی صورت میں ہے اور اس کا ترجمہ یہ ہوگا: دروازے کثرت سے کھول دیئے گئے۔

مٰاتَ الْأِبِلُ: اس مثال میں ماتَ، ثلاثی مجرد کےباب فَعَلَ یَفعُلُ سے ماضی معلوم کی صورت میں ہے اور اس کا ترجمہ یہ ہوگا:ایک اونٹ مر گیا۔

مَوَّتَتِ الأَبٰالُ : اس مثال میں فعل، ثلاثی مزید فیہ کےباب تفعیل سے ماضی مجہول کی صورت میں ہے اور اس کا ترجمہ یہ ہوگا: کئی اونٹوں مرگئے/ کثرت سے اونٹ مرے۔

دوسری خصوصیت: مبالغہ۔

مبالغہ کا لغوی معنیٰ :

اس کا لغوی معنیٰ: اِفراط، حد سے بڑھ کر تعریف یا بُرائی کرنا، بڑھا چڑھا کر بیان کرنا، حد سے زیادہ بڑھ جانا، اعتدال سے بڑھ جانا، تاکید کرنا، اصرار کرنا ۔

مبالغہ کا اصطلاحی معنیٰ :

مبالغہ: اُس اسمِ مشتق کو کہتے ہیں جو فاعل میں مصدری معنیٰ کی زیادتی پر دلالت کرےجیسے: صَرَحَ: ظاہر ہوا؛ صَرَّحَ: اچھی طرح سے ظاہر ہوا۔

تیسری خصوصیت: تعدیہ۔

تعدیہ سے مراد یہ ہے کہ بابِ تفعیل، فعل لازم کو متعدی بنانے کے لیے آتا ہے جیسے: فَرِحَ زَيْدٌ: زید خوش ہوا؛ اس سے فَرَّحْتُهُ: میں نے اسے خوش کیا۔

چوتھی خصوصیت: نسبت کے لئے یعنی کسی کو کسی چیز کی نسبت دینے کے لئے آتا ہے جیسے:فَسَّقْتُهُ: میں نے اس کی طرف فِسق کی نسبت دی؛كَفَّرْتُهُ: میں نے اس کی طرف کفر کی نسبت دی۔

"و مصدر اين باب بر وزن تفعيل آيد و بر وزن فِعّال نيز آيد چون كَذّبُوا بٰايٰاتِنٰا كِذّٰاباً و بر وزن تَفْعِلَة و فَعٰال هم مى آيد چون تَبْصِرَةً و سَلاماً و كَلٰاماً و وَدٰاعاً"

اس باب کا مصدر، زیادہ تر تفعیل کے وزن پر آتا ہے جیسے: تعلیم، تہذیب، تنقیح، تکذیب، تطمیع وغیرہ۔ کبھی  اس باب کا مصدر،  فِعّال کے وزن پر بھی آتا ہے جیسے:﴿ كَذّبُوا بٰايٰاتِنٰا كِذّاباً﴾ سورہ نبا(۷۸)، آیت ۲۸۔ (آیت کا ترجمہ:  "وہ ہماری آیات کو پوری قوت سے جھٹلاتے تھے"؛ اس مثال میں كِذّٰاباً باب تفعیل کا مصدر ہے)۔

 نیز کبھی کبھی اس باب کا مصدر،  تَفْعِلَۃ ،کے وزن پر بھی آتا ہے جیسے:  تَبْصِرَة (بصیرت دینا)۔البتہ بعض اوقات اس باب کا مصدر، فَعال کے وزن پر بھی آتا ہے جیسے: سَلام (سلام کرنا)، كَلَام (بات کرنا)، وَداع (الوداع کہنا)۔

تذکّر۱

یاد رہے کہ ابنِ حاجب کی نظر میں  "كِذّٰاب"، "کَذَّبَ"کا مصدر ہے، لیکن مرحوم رضی استر آبادی اسے مصدر نہیں سمجھتے۔ ملاحظہ کیجئے: رضی الدّین محمّد بن حسن استر آبادی نحوی (متوفیٰ ۶۸۶ ق)، شرحُ الرّضی عَلَی الشّافِیہ، ج۱، ص۱۶۳ اور ۱۶۶؛ سیّد محمّد رضا طباطبائی، صرف سادہ، ص۱۶۰(حاشیہ میں)۔

تذکّر۲

یاد رہے کہ مصنّف نے سَلَّمَ سے سلام اور کَلَّمَ سے کلام کو مصدر قرار دیاہے جبکہ اکثر علماء ان دونوں لفظوں کو اسمِ مصدرسمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں استاد مدرس افغانی فرماتے ہیں: كَلَام مصدر نہیں ہے بلکہ اسمِ مصدر ہے۔

"و صحيح و مثال و اجوف و مضاعف اين باب بر يك قياس است"

اس باب سےصحيح، مثال، اجوف اور مضاعف ایک ہی قیاس پر آتے ہیں۔

[باب تفعیل سے ناقص یائی]

مُصنّف اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

"ناقص يٰايى از باب تفعيل : ثَنّىٰ يُثَنِّى تَثْنِيَة اَلْمُثَنّى المُثَنّىٰ ثَنِّ لٰا تُثَنِّ"

باب تفعیل  سے ناقص یائی جیسے: تثنیہ: دوہرانا؛ ثَنّىٰ، فعلِ ماضی معلوم، يُثَنِّى، فعلِ مضارع معلوم، تَثْنِيَۃً مصدر ہے۔

"و مصدر وى دائماً بر وزن تفعلة آيد و گاه باشد كه بر وزن تفعيل آيد به جهت ضرورت چون شعر :"

فَهِىَ تُنَزِّى دَلْوَها تَنْزِيّاً 

كما تُنَزِّى شَهْلَةٌ صَبِيّاً

       اس باب کے ناقصِ یائی کا مصدر ہمیشہ تَفْعِلَۃ کے وزن پر آیا ہے اور بعض اوقات ضرورتِ شعری کی وجہ سے تفعیل کے وزن پر بھی آتا ہے جیسے: فَهِىَ تُنَزِّى دَلْوَها تَنْزِيّاً    كما تُنَزِّى شَهْلَةٌ صَبِيّاً۔

شعر کا ترجمہ: چنانچہ وہ خاتون اپنے ڈول کو اس طرح خوب اُچھالتی ہے جیسے بوڑھیا خاتون بچے کو اچھالتی ہے۔ اس شعر میں  تَنْيّاًزِ ناقصِ یائی سے بابِ تفعیل کا مصدر ہے جو کہ تفعیل کے وزن پر آیا ہے۔

اب فعلِ ماضی معلوم، مضارع معلوم، فعلِ امرِ حاضر معلوم، اسمِ فاعل اور اسمِ مفعول کی گردانیں ملاحظہ کریں:

فعلِ ماضی معلوم:

ثَنَّى، ثَنَّيَا، ثَنَّوْا، ثَنَّتْ، ثَنَّتَا، ثَنَّيْنَ، ثَنَّيْتَ، ثَنَّيْتُمَا، ثَنَّيْتُمْ، ثَنَّيْتِ، ثَنَّيْتُمَا، ثَنَّيْتُنَّ، ثَنَّيْتُ، ثَنَّيْنَا۔

فعلِ مضارع معلوم:

يُثَنِّي، يُثَنِّيَانِ، يُثَنُّونَ، تُثَنِّي، تُثَنِّيَانِ، يُثَنِّينَ، تُثَنِّي، تُثَنِّيَانِ، تُثَنُّونَ، تُثَنِّينَ، تُثَنِّيَانِ، تُثَنِّينَ، أُثَنِّي، نُثَنِّي۔

 فعلِ امر حاضر معلوم:

ثَنِّ، ثَنِّيَا، ثَنُّوا، ثَنِّي، ثَنِّيَا، ثَنِّي۔

ثَنِّ کی تعلیل:

ثَنِّ: اصل میں تُثَنِّي تھا؛ تاء حرف مضارع گر جائے گا، ثاء سے ابتدا ہو رہی ہے جو پہلے سے متحرک ہے لہذا ہمزہ وصل کی ضرورت نہیں ہے، آخری یاء وقف کو وجہ سے گر جائے گی تو ثَنِّ بن جائے گا۔

فعلِ نہی:

لَا تُثَنِّ، لَا تُثَنِّيَا، لَا تُثَنُّوا، لَا تُثَنِّي، لَا تُثَنِّيَا، لَا تُثَنِّينَ۔

اسم فاعل:

اَلمُثَنِّي، اَلمُثَنِّيَانِ، اَلمُثَنُّونَ، اَلمُثَنِّيَةُ، اَلمُثَنِّيَتَانِ، اَلمُثَنِّيَاتُ۔

اسم مفعول:

اَلمُثَنَّى، اَلمُثَنَّيَانِ، اَلمُثَنَّوْنَ، اَلمُثَنَّاةُ، اَلمُثَنَّتَانِ، اَلمُثَنَّيَاتُ۔

"و مهموز هر باب همچون صحيح آن باب باشد چنانكه دانسته شد"

ہر باب کا مہموز اس باب کے صحیح کی طرح ہوتا ہے جیسا کہ معلوم ہو چکا۔

"و لفيف مفروق و مقرون ، حكم ناقص دارد چون وَصّىٰ يُوَصِّى تَوْصِيَةً و طَوّىٰ يُطَوّى تَطْويَةً"

لفیف مفروق اور مقرون، ناقص کا حکم رکھتے ہیں جیسے: وَصّىٰ يُوَصِّى تَوْصِيَةً اور طَوّىٰ يُطَوّى تَطْويَةً۔

[باب مُفاعَلَہ]

مُصنّف اس سلسلے میں کہتے ہیں:

"اصل اين باب آن است كه در ميان دو كس باشد يعنى هر يك به ديگرى آن كند كه ديگرى با وَىْ چنين كندلكن يكى در لفظ فاعل و ديگرى مفعول باشد چون ضٰارَبَ زَيْدٌ عَمْراً"

اس  باب کی اصل یہ ہے کہ (اس کا فعل) دو افراد کے درمیان ہوتا ہےیعنی ہر ایک، دوسرے کے ساتھ وہی کرتا ہے جو دوسرا اس کے ساتھ کرتا ہے لیکن لفظوں میں ایک فاعل اور دوسرا مفعول ہوتا ہے جیسے ضَارَبَ زَيْدٌ عَمْراً :  زید اور عمرو نے ایک دوسرے کو مارا ۔

"و شايد كه بَيْن اثْنَيْن نباشد چون سافَرْتُ دهراً و عٰاقَبْتُ اللُّصَّ"

(یہ بھی) ممکن ہے کہ دو  آدمیوں کے درمیان نہ ہوجیسے:سَافَرْتُ دَهْراً : میں نے طویل سفر کیا؛ عَاقَبْتُ اللُّصَّ: میں نے چور کو سزا دی۔

"و مصدر اين باب بر وزن مفاعله و فِعٰالاً و فيعٰالاً آيد چون قٰاتَلَ يُقٰاتِلُ مقٰاتلةً قِتٰالاً و قيتٰالاً"

اس باب کا مصدر  مُقَاتَلَةً،  قِتَالاً، قِيتَالاًکے وزن پر آتا ہے یعنی بابِ مُفاعَلَہ کا مصدر مندرجہ  ذیل  تین اوزان پر آتا ہے :

1. مُقَاتَلَةً

2. قِتَالاً

3. قِيتَالاً۔

"و صحيح و مثال و اجوف اين باب بر يك قياس آيد چون ضارَٰبَ و وٰاعَدَ و قٰاوَلَ"

اس باب کے صحیح،مثال اور اجوف ایک جیسے ہیں جیسے: ضارَٰبَ، وٰاعَدَ ( اس مثال میں حرفِ علت فاءُ الفعل کی جگہ پر آیا ہے لہٰذا اسے مثال کہتے ہیں) اور قٰاوَلَ (یہ اجوف کی مثال ہے، اس لئے کہ اس میں حرفِ علت عینُ الفعل کی جگہ پر آیا ہے)۔

[ باب مُفاعَلَہ سے صحیح]

فعلِ ماضی معلوم کی گردان:

ضَارَبَ، ضَارَبَا، ضَارَبُوا، ضَارَبَتْ، ضَارَبَتَا، ضَارَبْنَ، ضَارَبْتَ، ضَارَبْتُمَا، ضَارَبْتُمْ، ضَارَبْتِ، ضَارَبْتُمَا، ضَارَبْتُنَّ، ضَارَبْتُ، ضَارَبْنَا۔

فعلِ مضارع معلوم کی گردان:

يُضَارِبُ، يُضَارِبَانِ، يُضَارِبُونَ، تُضَارِبُ، تُضَارِبَانِ، يُضَارِبْنَ، تُضَارِبُ، تُضَارِبَانِ، تُضَارِبُونَ، تُضَارِبْنَ، تُضَارِبَانِ، تُضَارِبْنَ، أُضَارِبُ، نُضَارِبُ۔

فعلِ امر حاضر معلوم کی گردان:

ضَارِبْ، ضَارِبَا، ضَارِبُوا، ضَارِبِ، ضَارِبَا، ضَارِبْنَ۔

[باب مُفاعَلَہ  سے مثالِ واوی]

فعلِ ماضی معلوم کی گردان:

وَاعَدَ، وَاعَدَا، وَاعَدُوا، وَاعَدَتْ، وَاعَدَتَا، وَاعَدْنَ، وَاعَدْتَ، وَاعَدْتُمَا، وَاعَدْتُمْ، وَاعَدْتِ، وَاعَدْتُمَا، وَاعَدْتُنَّ، وَاعَدْتُ، وَاعَدْنَا۔

فعلِ مضارع معلوم کی گردان:

يُوَاعِدُ، يُوَاعِدَانِ، يُوَاعِدُونَ، تُوَاعِدُ، تُوَاعِدَانِ، يُوَاعِدْنَ، تُوَاعِدُ، تُوَاعِدَانِ، تُوَاعِدُونَ، تُوَاعِدْنَ، تُوَاعِدَانِ، تُوَاعِدْنَ، أُوَاعِدُ، نُوَاعِدُ۔

[باب مُفاعَلَہ سے اجوف واوی]

ماضی معلوم:

قَاوَلَ، قَاوَلَا، قَاوَلُوا، قَاوَلَتْ، قَاوَلَتَا، قَاوَلْنَ، قَاوَلْتَ، قَاوَلْتُمَا، قَاوَلْتُمْ، قَاوَلْتِ، قَاوَلْتُمَا، قَاوَلْتُنَّ، قَاوَلْتُ، قَاوَلْنَا۔

مضارع معلوم:

يُقَاوِلُ، يُقَاوِلَانِ، يُقَاوِلُونَ، تُقَاوِلُ، تُقَاوِلَانِ، يُقَاوِلْنَ، تُقَاوِلُ، تُقَاوِلَانِ، تُقَاوِلُونَ، تُقَاوِلْنَ، تُقَاوِلَانِ، تُقَاوِلْنَ، أُقَاوِلُ، نُقَاوِلُ۔

[باب مُفاعَلَہ سے ناقص یائی]

مُصنّف اس سلسلے میں کہتے ہیں:

"ناقص يٰايى «المُرٰامٰاة : با يكديگر تير انداختن» رامىٰ يُرٰامِى مُرٰامٰاةً المُرٰامِى المُرٰامىٰ رامِ لا تُرامِ "

باب مفاعلہ میں سے ناقص یائی جیسے: اَلمُراماةُ :ایک دوسرے پر تیر پھینکنا؛ باہم تیر اندازی کرنا۔ رامى: فعلِ ماضی معلوم ہے؛ يُرامِى: فعلِ مضارع معلوم ہے؛ مُرامٰاةً: مصدر ہے؛المُرامِى: اسمِ فاعل ہے؛ المُرامىٰ: اسمِ مفعول ہے؛ رامِ: فعلِ امرِ حاضرِ معلوم، مفرد مذکر؛ لا تُرامِ: فعلِ نہی ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی گردان مندرجہ ذیل دی جاتی ہے:

فعلِ ماضی معلوم کی گردان:

رَامَىٰ، رَامَيَا، رَامَوْا، رَامَتْ، رَامَتَا، رَامَيْنَ، رَامَيْتَ، رَامَيْتُمَا، رَامَيْتُمْ، رَامَيْتِ، رَامَيْتُمَا، رَامَيْتُنَّ، رَامَيْتُ، رَامَيْنَا۔

فعلِ مضارع معلوم کی گردان:

يُرَامِي، يُرَامِيَانِ، يُرَامُونَ، تُرَامِي، تُرَامِيَانِ، يُرَامِينَ، تُرَامِي، تُرَامِيَانِ، تُرَامُونَ، تُرَامِينَ، تُرَامِيَانِ، تُرَامِينَ، أُرَامِي، نُرَامِي۔

فعلِ امر حاضر معلوم کی گردان:

رَامِ، رَامِيَا، رَامُوا، رَامِی، رَامِیَا، رَامِينَ۔

فعلِ نہی کی گردان:

لَا تُرَامِ، لَا تُرَامِيَا، لَا تُرَامُوا، لَا تُرَامِی، لَا تُرَامِیَا، لَا تُرَامِیَنْ۔

اسم فاعل کی گردان:

اَلرَّامِي، اَلرَّامِيَانِ، اَلرَّامُونَ، اَلرَّامِيَةُ، اَلرَّامِيَتَانِ، اَلرَّامِيَاتُ۔

اسم مفعول کی گردان:

اَلمُرَامِي، اَلمُرَامِيَانِ، اَلمُرَامُونَ، اَلمُرَامِيَةُ، اَلمُرَامِيَتَانِ، اَلمُرَامِيَاتُ۔

"و لفيف و ناقص و مهموز هر باب همچون صحيح آن باب است"

ہر باب کا لفیف، ناقص اور مہموز اُس باب کے صحیح کی طرح ہوتاہے۔

[ باب مُفاعَلَہ سے مُضاعَف]

مصنف اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

"مضاعف «المُحٰابَّة وَالْحِبٰاب : با يكديگر دوستى كردن» حٰابَّ يُحٰابُّ"

باب مُفاعَلَہ سے مُضاعَف جیسے: اَلمُحابَّة وَالْحِباب: ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کرنا۔ حٰابَّ: فعلِ ماضی معلوم ہے؛ يُحٰابُّ: فعلِ مضارع معلوم ہے۔ان کی گردانیں ذیل میں دی جاتی ہیں:

فعلِ ماضی معلوم کی گردان:

حَابَّ، حَابَّا، حَابُّوا، حَابَّتْ، حَابَّتَا، حَابَّنَ، حَابَّتَ، حَابَّتُمَا، حَابَّتُمْ، حَابَّتِ، حَابَّتُمَا، حَابَّتُنَّ، حَابَّتُ، حَابَّنَا۔

فعلِ مضارع معلوم کی گردان:

يُحَابُّ، يُحَابَّانِ، يُحَابُّونَ، تُحَابُّ، تُحَابَّانِ، يُحَابِّينَ، تُحَابُّ، تُحَابَّانِ، تُحَابُّونَ، تُحَابِّينَ، تُحَابَّانِ، تُحَابِّينَ، أُحَابُّ، نُحَابُّ۔

"مجهولان حُوبَّ يُحٰابُّ اصل معلوم يُحٰابِبُ و اصل مجهول يُحٰابَبُ بود بعد از ادغام هر دو يكسان شدند مگر در جمع مؤنث غايب و خطاب چون يُحٰابِبْنَ و تُحٰابِبْنَ"

فعلِ ماضی مجہول: حُوبَّ اور فعلِ مضارع مجہول:   يُحابُّ ہے۔فعلِ مضارع معلوم کی اصل  يُحٰابِبُ اور فعلِ مضارع مجہول کی اصل یُحابَبُ تھی۔ ادغام کے بعد دونوں ایک جیسے ہوگئے سوائے جمع مؤنث غائب کے دو صیغوں کے جن میں فعلِ مضارع معلوم يُحٰابِبْنَ اور فعلِ مضارع مجہول يُحٰابَبنَ۔ ان دونوں صیغوں  (جمع مؤنث غائب اور مخاطب) میں ادغام نہیں کرنا۔

(همچنين اسم فاعل و مفعول بر يك صورتند درلفظ ، چون مُحٰابٌّ لكن در تقدير مختلفند اصل فاعل مُحٰابِبٌ واصل مفعول مُحٰابَبٌ بود)

اسم فاعل اور اسم مفعول بھی لفظوں میں ایک ہی صورت پر آتے ہیں جیسے مُحٰابٌّ لیکن اسم فاعل کی اصل مُحٰابِبٌ اور اسم مفعول کی اصل مُحٰابَبٌ تھی۔

"امر حاضر حٰابَّ حٰابِّ حٰابِبْ نهى لٰا يُحٰابَّ لٰا يُحٰابِّ لٰا يُحٰابِبْ"

فعلِ امر حاضر معلوم  تین طرح آتا ہے:حابَّ، حابِّ، حابِبْ۔

فعلِ نهى:

 لا تُحابَّ، لاتُحابِّ، لاتُحابِبْ۔

مُضاعف «الاِحْبٰاب : دوست داشتن» أَحَبَّ يُحِبُّ إِحْبٰاباً المُحِبُّ المُحَبُّ أَحِبَّ أَحِبِّ أَحْبِبْ لٰا تُحِبَّ لٰا تُحِبِّ لٰا تُحْبِبْ.

مهمُوز الفاء «الأِيمٰان : بگرويدن» اٰمَنَ يُؤْمِنُ ايمٰاناً.

اصل ايمٰاناً اِءْمٰاناً بود ، دو همزه جمع شدند در يك كلمه ، دوّم ساكن اوّل مكسور بود قلب بياء كردند ايمٰاناً شد. و در ءَامَنَ قلب به الف كردند و در اُومِنَ قلب به واو كردند ـ چنانچه در ما تقدّم گذشت ـ و در يُؤْمِنُ و مُؤْمِنٌ قلب همزه بواو جايز است امر حاضر اٰمِنْ اٰمِنٰا اٰمِنُوا ، نون ثقيله اٰمِنَنَّ اٰمِنٰانِّ اٰمِنُنَّ تا آخر ، نون خفيفه اٰمِنَنْ اٰمِنُنْ اٰمِنِنْ ، اسم فاعل مُؤْمِنٌ ، اسم مفعول مُؤْمَنٌ.

باب تفعيل : اين باب براى تكثير بود چون فُتِحَ الْبٰابُ و فُتِّحَتِ الأَبْوٰابُ و مٰاتَ الْأِبِلُ و مَوَّتَتِ الأبالُ. و از براى مبالغه نيز آيد چون صَرَحَ هويدا شد صَرَّحَ نيك هويدٰا شد. و از براى تعديه آيد چون فَرِحَ زَيْدٌ و فَرَّحْتُهُ. و از براى نسبت آيد چون فَسَّقْتُهُ و كَفَّرْتُهُ يعنى او را نسبت دادم به فسق و نسبت دادم به كفر.

و مصدر اين باب بر وزن تفعيل آيد و بر وزن فِعّال نيز آيد چون كَذّبُوا بٰايٰاتِنٰا كِذّٰاباً و بر وزن تَفْعِلَة و فَعٰال هم مى آيد چون تَبْصِرَةً و سَلاماً و كَلٰاماً و وَدٰاعاً. و صحيح و مثال و اجوف و مضاعف اين باب بر يك قياس است.

ناقص يٰايى از باب تفعيل : ثَنّىٰ يُثَنِّى تَثْنِيَة اَلْمُثَنّى المُثَنّىٰ ثَنِّ لٰا تُثَنِّ.

و مصدر وى دائماً بر وزن تفعلة آيد و گاه باشد كه بر وزن تفعيل آيد به جهت ضرورت چون شعر :

فَهِىَ تُنَزِّى دَلْوَها تَنْزِيّاً

كما تُنَزِّى شَهْلَةٌ صَبِيّاً

و مهموز هر باب همچون صحيح آن باب باشد چنانكه دانسته شد و لفيف مفروق و مقرون ، حكم ناقص دارد چون وَصّىٰ يُوَصِّى تَوْصِيَةً و طَوّىٰ يُطَوّى تَطْويَةً.

باب مفاعله : اصل اين باب آن است كه در ميان دو كس باشد يعنى هر يك به ديگرى آن كند كه ديگرى با وَىْ چنين كند لكن يكى در لفظ فاعل و ديگرى مفعول باشد چون ضٰارَبَ زَيْدٌ عَمْراً و شايد كه بَيْن اثْنَيْن نباشد چون سافَرْتُ دهراً و عٰاقَبْتُ اللُّصَّ.

و مصدر اين باب بر وزن مفاعله و فِعٰالاً و فيعٰالاً آيد چون قٰاتَلَ يُقٰاتِلُ مقٰاتلةً قِتٰالاً و قيتٰالاً و صحيح و مثال و اجوف اين باب بر يك قياس آيد چون ضارَٰبَ و وٰاعَدَ و قٰاوَلَ.

ناقص يٰايى «المُرٰامٰاة : با يكديگر تير انداختن» رٰامىٰ يُرٰامِى مُرٰامٰاةً المُرٰامِى المُرٰامىٰ رٰامِ لٰا يُرٰامِ و لفيف و ناقص و مهموز هر باب همچون صحيح آن باب است.

مضاعف «المُحٰابَّة وَالْحِبٰاب : با يكديگر دوستى كردن» حٰابَّ يُحٰابُّ مجهولان حُوبَّ يُحٰابُّ اصل معلوم يُحٰابِبُ و اصل مجهول يُحٰابَبُ بود بعد از ادغام هر دو يكسان شدند مگر در جمع مؤنث غايب و خطاب چون يُحٰابِبْنَ و تُحٰابِبْنَ و همچنين اسم فاعل و مفعول بر يك صورتند در

لفظ ، چون مُحٰابٌّ لكن در تقدير مختلفند اصل فاعل مُحٰابِبٌ واصل مفعول مُحٰابَبٌ بود امر حاضر حٰابَّ حٰابِّ حٰابِبْ نهى لٰا يُحٰابَّ لٰا يُحٰابِّ لٰا يُحٰابِبْ.

باب افتِعٰال : اين باب براى مطاوعه فَعَلَ است ؛ چون جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ و نَشَرْتُهُ فَانْتَشَرَ و معنى مطاوعه آن است كه آن چيز آن فعل را قبول كند و ممتنع نشود ، چون «كَسَرْتُ الْكُوزَ فانْكَسَرَ» يعنى شكستم من كوزه را پس او قبول شكستن كرد. و شايد كه بين اثنين باشد چون باب تَفٰاعُل چون «اِخْتَصَمَ زَيْدٌ وعَمْروٌ» و به معنى فَعَلَ باشد چون «جَذَبَ فَاجْتَذَبَ».

مثال وٰاوى «الاِتّهٰاب : قبول هبه كردن» اِتَّهَبَ يَتَّهِبُ اِتِّهٰاباً المُتَّهِب المُتَّهَب اتَّهِبْ لٰا تَتَّهِبْ».

اصل اِوْتَهَبَ يُوْتَهِبُ ، اِوْتِهٰاباً بود واو را قلب به تاء كردند و تاء را در تاء ادغام نمودند ، و گاه باشد كه گويند ايتَعَدَ يٰاتَعِدُ ايتِعٰاداً.

مثال يايى ايتَسَرَ ياتَسِرُ ايتِساراً واتَّسَرَ يَتِّسَرُ اِتّساراً اِتّسِرْ لا تَتَّسِرْ

اجوف وٰاوى «الاِجتِيٰاب : قطع كردن بيابان» اِجْتٰابَ يَجْتٰابُ اِجْتِيٰاباً ، اسم فاعل واسم مفعول مُجْتٰابٌ ، لكن اسم فاعل در اصل مُجْتَوِبٌ بود و اسم مفعول مُجْتَوبٌ بود. امر حاضر اِجْتَبْ اِجْتٰابا اِجْتٰابوا ، لفظ ماضى و امر با هم مشتبه شدند در تثنيه و جمع ، لكن اصل ماضى اِجْتَوَبٰا اجْتَوَبُوا و اصل امر اجْتَوِبا اجْتَوِبُوا.