درس صرف میر

درس نمبر 19: فعل معتل (6)

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

فصل: معتل اللام [ناقص]

[ثلاثی مجرد کے باب فَعَلَ يَفْعُلُ سے ناقص واوی]

جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ معتل کی تین قسمیں ہیں:

۱۔ معتل الفاء  جسے مثال بھی کہتے ہیں؛

۲۔ معتل العین جسے اجوف بھی کہتے ہیں؛

۳۔ معتل اللام جسے ناقص بھی کہتے ہیں۔

متعل اللام: ہر وہ اسم اور فعل ہے جس کے لام الفعل کی جگہ پر حرف علت ہو؛ اگر لامُ الفعل کی جگہ پر واو حرفِ علّت آجائے تو اسے ناقص واوی اور اگر  یاءحرف علت آجائے تو اسے ناقص یائی کہتے ہیں۔

ثلاثی مجرد کے باب فَعَلَ يَفْعُلُ جیسے نَصَرَ یَنصُرُ سے ناقصِ واوی کا مصدر الدُّعٰاء اور 'ہے جس کا معنیٰ پکارنا، بُلانا ہے۔

 الدُّعٰاء میں دال، فاءُ الفعل، عین عینُ الفعل اور واو لامُ الفعل ہے۔

الدُّعٰاء و الدَّعْوَة سے فعلِ ماضی معلوم کی گردان:

 دَعٰا، دَعَوٰا، دَعَوْا، دَعَتْ، دَعَتٰا، دَعَوْنَ،دَعَوْتَ، دَعَوْتُما، دَعَوْتُم، دَعَوْتِ، دَعَوْتُنَّ، دَعَوْتُ، دَعَوْنَا۔

 دَعٰا کی تعلیل:

یہ اصل میں نَصَرَ کے وزن پر  دَعَوَ تھا۔ واو حرفِ علّت متحرّک ہے اس کا ما قبل حرف مفتوح ہے لہذا اِعلال کے قاعدے کے مطابق واو حرفِ علّت کو الف میں تبدیل کرتے ہیں جس کی وجہ سے دَعَاہوگیا۔

دَعَوْا کی تعلیل:

یہ اصل میں دَعَوُوا تھا۔ واو  حرفِ علّت متحرّک (مضموم) ہے اس کا ما قبل مفتوح ہے۔  اِعلال کے قاعدے کے مطابق واو حرفِ علّت کو الف میں تبدیل کردیا جس کے نتیجے میں التِقائے ساکِنَین ہوگیالہذا الف کو گرادیا تو دَعَوا فَعَوا ہوگیا۔

دَعَتْ کی تعلیل:

دَعَتْ: فعلِ ماضی معلوم مفرد مؤنث غائب کا صیغہ ہے۔ یہ اصل میں دَعَوَت تھا۔ یہاں بھی واو متحرک (مفتوح) اور اس کا ماقبل(عین) مفتوح ہے۔ اِعلال کے قانون کے مطابق واو حرفِ علّت کو الف میں تبدیل کیا جس کے نتیجے میں الف ساکنہ اور  تاء ساکنہ جمع ہوگئے، اسی التقائے ساکنین کی وجہ سے الف کو گرادیا  تو دَعَتْ ( فَعَت کے وزن پر) بن گیا۔

دَعَتا کی تعلیل:

دَعَتا: فعلِ ماضی معلوم تثنیہ مؤنث غائب کا صیغہ ہے۔ یہ اصل میں دَعَوَتا تھا۔ یہاں بھی واو متحرک (مفتوح) اور اس کا ماقبل(عین) مفتوح ہے۔ اِعلال کے قانون کے مطابق واو  کو الف میں تبدیل کیا اور الف کو اِلتقائے ساکَنَین کی وجہ سے گرادیا تو دَعَتا بن گیا۔

یاد رہے کہ تاء کی حرکت عارضی تھی  نہ کہ اصلی؛ اس لئے کہ مفرد میں یہ تاء ساکن تھی تثنیہ کے الف کی وجہ سے متحرّک ہوگئی۔

نیز یاد رہے کہ دَعَوْنَ اپنے اصلی وزن فَعَلنَ پر باقی ہے اور اس کے بعد والے صیغے  (مخاطب اور متکلّم) بھی اپنے اصلی اوزان پر باقی ہیں۔

مضارع معلوم کی گردان:

يَدْعُو، يَدْعُوانِ، يَدْعُونَ، تَدْعُو، تَدْعُوانِ، يَدْعُونَ، تَدْعُو، تَدْعُوانِ، تَدْعُونَ، تَدْعِينَ، تَدْعُوانِ، تَدْعُونَ، أَدْعُو، نَدْعُو.

يَدْعُو کی تعلیل:

یہ اصل میں  يَدْعُوُ تھا، واو پر ضمّہ ثقیل ہونے کی وجہ سے اسے گرادیا تو  يَدْعُو بن گیا۔

یاد رہے کہ تَدعُو، اَدعُو اور نَدعُو میں بھی یہی تعلیل جاری ہوگی۔

ماضی مجهول کی گردان:

دُعِيَ، دُعِيَا، دُعُوا، دُعِيَتْ، دُعِيَتَا، دُعِينَ، دُعِيتَ، دُعِيتُمَا، دُعِيتُمْ، دُعِيتِ، دُعِيتُمَا، دُعِيتُنَّ، دُعِيتُ، دُعِينَا.

مضارع مجهول کی گردان:

يُدْعَى، يُدْعَيَانِ، يُدْعَوْنَ، تُدْعَى، تُدْعَيَانِ، يُدْعَيْنَ، تُدْعَى، تُدْعَيَانِ، تُدْعَوْنَ، تُدْعَيْنَ، تُدْعَيَانِ، تُدْعَيْنَ، أُدْعَى، نُدْعَى.

اسم فاعل کی گردان:

دٰاعٍ، دٰاعِيَانِ، دٰاعُونَ، دُعٰاةٌ و دُعّاءٌ و دُعًّى، دٰاعِيَةٌ دٰاعِيَتٰانِ، دٰاعِيٰاتٌ.

تذکّر:

اِعلال کے دس عمومی قواعد میں سے ایک اہم قاعدہ یہ ہے:

 ہر وہ واو یا یاء جو متحرّک ہو اور اس کا ما قبل مفتوح ہو تو اگر  فاءُ الفعل کی جگہ پر واقع نہ ہو اور اس  کی حرکت بھی عارضی نہ ہو ( یعنی اصلی ہو) تو اسے الف میں تبدیل کرتے ہیں جیسے قَوَلَ سے قالَ؛  بَیَعَ سے باعَ؛ دَعَوَ سے دَعا۔ 

[ رجوع کریں: سیّد محمّد رضا طباطبائی، صرف سادہ، ص۱۱۱، فصل ۱۱: معتل، قاعدہ ہشتم]۔

4

تطبیق: معتل اللام [ناقص]

"ناقص وٰاوى از باب فَعَلَ يَفْعُلُ «الدُّعٰاء و الدَّعْوَة : خواندن»"

ناقص وٰاوى از باب فَعَلَ يَفْعُلُ الدُّعٰاء (خواندن)جیسے ہم کہتے ہیں بُلانا؛

دال فاء کلمہ(فاء الفعل)،

عین عین کلمہ ہے(عین الفعل)،

واؤ لام کلمہ(لام الفعل)۔

 چونکہ واو لام الفعل ہے تو اسی کی وجہ سے ہم اس کو ناقص واوی کہہ رہے ہیں۔

ماضی:دَعٰا، دَعَوٰا، دَعَوْا، دَعَتْ، دَعَتٰا، دَعَوْنَ،دَعَوْتَ، دَعَوْتُما، دَعَوْتُم، دَعَوْتِ، دَعَوْتُنَّ، دَعَوْتُ، دَعَوْنَا۔

"اصل دَعا  دَعَوَ بود"

 ہیں یعنی دَعٰا اصل میں دَعَوَ تھا واؤ حرف علت متحرک، ماقبل قاف مفتوح قانون کے مطابق واؤ کو الف میں تبدیل کر دیا تو یہ دَعَوَ سے بن گیا:دَعٰا

"اصل دَعَوْا ، دَعَوُوا بود"

 جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے دَعَوْا جو اصل میں دَعَوُوا تھا واؤ حرف علت ماقبل مفتوح واؤ الف میں تبدیل ہو گئی الف بھی ساکن اور واؤ بھی ساکن، الف گر گئی تو بن گیا:دَعَوْا بر وزن فَعَوْا۔

دَعَت، اصل میں تھا: دَعَوَتْ، واؤ متحرک ماقبل مفتوح، واؤ الف میں تبدیل ہو گئی الف بھی ساکن، تاء بھی ساکن، التقائے ساکنین کی وجہ سے الف گر گئی تو یہ بن گیا: دَعَتْ بر وزن فَعَتْ۔

دَعَتٰا اصل میں کیا تھا؟

اصل میں دَعَوَتٰا تھا، واؤ متحرک، ماقبل مفتوح، واؤ ہوگئی الف، اب تاء مفرد میں ساکن تھی(کیونکہ تاء کی حرکت اصلی نہیں ہے) تو یہاں بھی الف بھی ساکن، تاء بھی ساکن، التقاء ساکنین کی وجہ سے الف گر گئی تو بن گیا: دَعَتٰا۔

"و دَعَوْنَ بر اصل خود است بر وزن فَعَلْنَ"

وہاں نَصَرْنَ  پڑھتے  تھے اب یہاں پڑھیں گے: دَعَوْنَ۔

باقی سارے اسی طرح ہیں ۔

مستقبل معلوم اس کا آتا ہے: يَدْعُو، يَدْعُوانِ، يَدْعُونَ، تَدْعُو، تَدْعُوانِ، يَدْعُونَ، تَدْعُو، تَدْعُوانِ، تَدْعُونَ، تَدْعِينَ، تَدْعُوانِ، تَدْعُونَ، أَدْعُو، نَدْعُو.

يَدْعُو اصل میں کیا تھا؟ يَدْعُوُ تھا، واؤ پر ضمه ثقیل تھا  وہ گرا دیا بن گیا:يَدْعُو۔

تَدْعُو اصل میں کیا تھا؟ تَدْعُوُ تھا، واؤ پر ضمه ثقیل تھا  وہ گرا دیا بن گیا:تَدْعُو۔

 اََدْعُو اصل میں کیا تھا؟ اَدْعُوُ تھا، واؤ پر ضمه ثقیل تھا  وہ گرا دیا بن گیا:اَدْعُو یا نَدْعُو۔

یدعون(جمع مذكّر) اصل میں کیا تھا؟

يَدْعُوُونَ تھا، واؤ پر ضمہ ثقیل تھا اس کو گرا دیا اب جب اس کو گرا دیا تو ایک واؤ پہلے سے ساکن تھی اور ایک واؤ اب ساکن ہو گی تو یہ واؤ کہ جو لام الفعل ہے یہ پہلی واؤ گر جائے گی دوسری تو ویسے بھی جمع کی واؤ ہے، وہ برقرار رہے گی، تو دو واؤ اکٹھی ساکن آگئی تو جو پہلی واؤ ہے وہ گر جائے گی تو یہ بن جائے گا گا: يَدعُونَ بر وزن يَفْعُونَ۔

(يَدْعوُنَ جمع مؤنث بر حال خود است بر وزن يَفْعُلْنَ)

تَدْعينَ (واحده مخاطبه مؤنّث) در اصل تَدْعُوينَ تھا؛

(كسره بر واو ثقيل بود به ماقبل دادند)

واؤ پر کسرہ ثقیل تھا ہم نے وہ کسرہ نقل کر کے ما قبل (عین) کو دیا، عین کی حرکت کو سلب کرنے کے بعد (یہ پہلے بھی کئی دفعہ آیا ہے) تو واؤ بھی ساکن، یاء بھی ساکن، التقاء ساکنین کی وجہ سے گر گئی تو یہ بن گیا: تَدْعينَ بر وزن تَفْعِينَ۔

کبھی اس مضارع پر حروف ناصبہ داخل ہوتے ہیں اور کبھی ان پر حروف جازمہ داخل ہوتے اگر اس ' پر کوئی حرف ناصبہ(أن لَن کَی اذَن) آجائے،

"و چون حروف ناصبه درآيد"

اگر يَدْعُو پر کوئی حرف ناصبہ آجائے، بن جائے گا:

لَنْ يَدْعُوَ لَنْ يَدْعُوٰا لَنْ يَدْعُوا الی آخرہ۔

"و نونهايى كه عوض رفعند در پنج لفظ بيفتند به نصبى"

 یعنی وہ نون جو عوض رفع ہوگی اگر اس پے ناصب آجائے وہ گر جائے گی،

"و نون ضمير بر حال خود باقى مى ماند"

لیکن جو عوض رفع نہیں ہوگی جیسے جمع کی ہوتی ہے تو وہ اپنے مقام پر باقی رہے گی۔

"و چون حروف جازمه درآيد"

اگر اسی فعل مضارع پر کوئی ناصب کی بجائے جازم آجائے تو بن جائے گا: لَمْ يَدْعُ، لَمْ يَدْعُوٰا، لَمْ يَدْعُوا، لَمْ تَدْعُ، لَمْ تَدْعُوٰا الی آخرہ ۔

اچھا اب فرماتے ہیں:

"واو در پنج لفظ بيفتد به جزمى"

جب لم آئے گا واو گر جائے گی پانچ صیغوں میں۔

"و نونهاى عوض رفع به جزمى بيفتند"

جو تثنیہ والی نون تھیں وہ بھی ساری اس جازم کی وجہ سے گر جائیں گے:لَم يَدْعُوا

و صلی اللہ علی محمد و ال محمد۔

ماقبل ، واو را به مناسبت كسره ماقبل ، قلب به ياء كردند خيف شد.

مستقبل مجهول : يُخٰافُ مِنْهُ تا آخر. امر حاضر : خَفْ خٰافٰا خٰافُوا خٰافِى خٰافٰا خَفْنَ. امر غايب : لِيَخَفْ نهى : لٰا يَخَفْ. نون تأكيد ثقيله و خفيفه بر آن قياس بُوَد كه گذشت.

بدانكه اجوف از اين سه باب اصول آمده است واسم فاعل از بٰاعَ يَبيعُ بٰائعٌ ، بٰائعٰانِ بٰائعُونَ تا آخر به طريق قائِلٌ. اسم مفعول : مَبيعٌ مَبيعٰانِ مَبيعُونَ تا آخر.

اصل مَبيعٌ مَبْيوُعٌ بود ضمّه بر ياء ثقيل بود به ماقبل دادند پيش بعضى ياء افتاد مَبُوع شد واو را قلب به ياء كردند و ماقبل ياء را مكسور كردند تا مشتبه نشود به اجوف واوى پس مَبيعٌ شد بر وزن مفيل و پيش بعضى واو زايد افتاد ضمّه باء را بدل به كسره كردند مَبِيعٌ شد بر وزن مَفِعْلٌ.

اسم فاعل از خٰافَ يَخٰافُ خٰائفٌ خائفٰانِ خٰائفُونَ خٰائفَةٌ خٰائفَتٰانِ خٰائفٰاتٌ و خَوٰائِفُ اعلالش به طريق اعلال قائل است اسم مفعول مَخُوفٌ تا آخر بر قياس مَقُولٌ.

ناقص وٰاوى (١) (٢) از باب فَعَلَ يَفْعُلُ «الدُّعٰاء و الدَّعْوَة : خواندن».

____________________________

(١) ماضى و مضارع مجهول ناقص واوى همچون ماضى و مضارع مجهول ناقص يايى صرف مى شود ، و صرف ماضى معلوم مكسور العين و مضارع معلوم مفتوح العين ناقص واوى نيز همانند صرف ماضى و مضارع مجهول ناقص يايى است دقّت شود.

(٢) نسكو واو اشاره است به ناقص واوى كه از سه باب آمده است اوّل از باب نَصَرَ يَنْصُرُ چون دعا يدعو دوّم از باب عَلِمَ يَعْلَمُ چون رَضِىَ يرضى سيّم از باب شرف يشرف چون رخو يرخو.

ماضى معلوم دَعٰا دَعَوٰا دَعَوْا دَعَتْ دَعَتٰا دَعَوْنَ تا آخر. اصل دَعٰا ، دَعَوَ بود واو حرف علّه متحرّك ماقبل مفتوح را قلب به الف كردند دَعٰا شد. اصل دَعَوْا ، دَعَوُوا بود واو حرف علّه متحرك ماقبل مفتوح را قلب به الف كردند و الف به التقاىِ ساكنين بيفتاد دَعَوْا شد بر وزن فَعَوْا ، و اصل دَعَتْ ، دَعَوَتْ بود چون واو منقلب به الف شد و الف به التقاىِ ساكنين بيفتاد دَعَتْ شد بر وزن فَعَتْ. و اصل دَعَتٰا ، دَعَوَتٰا بود واو منقلب به الف شد و الف به التقاء ساكنين بيفتاد دَعَتٰا شد ، زيرا كه حركت تاء ، اصلى نيست كه در واحد ساكن بوده. و دَعَوْنَ بر اصل خود است بر وزن فَعَلْنَ و هم چنين باقِى الفاظ تا آخر بر اصل خودند. مستقبل معلوم يَدْعُو يَدْعُوانِ يَدْعُونَ تا آخر.

اصل يَدعُو ، يَدْعُوُ بود ضمّه بر واو ثقيل بود انداختند ، يدعو شد و همچنين است حال تَدْعوُ و اَدْعُو ونَدعُو. و اصل يَدْعُونَ (جمع مذكّر) يَدْعُوُونَ بود ضمّه بر واو ثقيل بود انداختند واو كه لام الفعل بود به التقاىِ ساكنين بيفتاد يَدعُونَ شد بر وزن يَفْعُونَ. و يَدْعوُنَ جمع مؤنث بر حال خود است بر وزن يَفْعُلْنَ. و تَدْعينَ (واحده مخاطبه مؤنّث) در اصل تَدْعُوينَ بود ، كسره بر واو ثقيل بود به ماقبل دادند ، بعد از سلب حركت ماقبل ، واو به التقاىِ ساكنين بيفتاد تَدْعِينَ شد بر وزن تَفْعِينَ.

و چون حروف ناصبه درآيد گويى لَنْ يَدْعُوَ لَنْ يَدْعُوٰا لَنْ يَدْعُوا تا آخر ، و نونهايى كه عوض رفعند در پنج لفظ بيفتند به نصبى ، و نون ضمير بر حال خود باقى مى ماند.

و چون حروف جازمه درآيد گويى لَمْ يَدْعُ لَمْ يَدْعُوٰا لَمْ يَدْعُوا تا آخر. واو در پنج لفظ بيفتد به جزمى ، و نون ضمير بر حال خود باقى باشد و نونهاى عوض رفع به جزمى بيفتند. امر حاضر اُدْعُ اُدْعُوٰا اُدْعُوا تا