"ناقص وٰاوى از باب فَعَلَ يَفْعُلُ «الدُّعٰاء و الدَّعْوَة : خواندن»"
ناقص وٰاوى از باب فَعَلَ يَفْعُلُ الدُّعٰاء (خواندن)جیسے ہم کہتے ہیں بُلانا؛
دال فاء کلمہ(فاء الفعل)،
عین عین کلمہ ہے(عین الفعل)،
واؤ لام کلمہ(لام الفعل)۔
 چونکہ واو لام الفعل ہے تو اسی کی وجہ سے ہم اس کو ناقص واوی کہہ رہے ہیں۔
ماضی:دَعٰا، دَعَوٰا، دَعَوْا، دَعَتْ، دَعَتٰا، دَعَوْنَ،دَعَوْتَ، دَعَوْتُما، دَعَوْتُم، دَعَوْتِ، دَعَوْتُنَّ، دَعَوْتُ، دَعَوْنَا۔
"اصل دَعا  دَعَوَ بود"
 ہیں یعنی دَعٰا اصل میں دَعَوَ تھا واؤ حرف علت متحرک، ماقبل قاف مفتوح قانون کے مطابق واؤ کو الف میں تبدیل کر دیا تو یہ دَعَوَ سے بن گیا:دَعٰا
"اصل دَعَوْا ، دَعَوُوا بود"
 جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے دَعَوْا جو اصل میں دَعَوُوا تھا واؤ حرف علت ماقبل مفتوح واؤ الف میں تبدیل ہو گئی الف بھی ساکن اور واؤ بھی ساکن، الف گر گئی تو بن گیا:دَعَوْا بر وزن فَعَوْا۔
دَعَت، اصل میں تھا: دَعَوَتْ، واؤ متحرک ماقبل مفتوح، واؤ الف میں تبدیل ہو گئی الف بھی ساکن، تاء بھی ساکن، التقائے ساکنین کی وجہ سے الف گر گئی تو یہ بن گیا: دَعَتْ بر وزن فَعَتْ۔
دَعَتٰا اصل میں کیا تھا؟
اصل میں دَعَوَتٰا تھا، واؤ متحرک، ماقبل مفتوح، واؤ ہوگئی الف، اب تاء مفرد میں ساکن تھی(کیونکہ تاء کی حرکت اصلی نہیں ہے) تو یہاں بھی الف بھی ساکن، تاء بھی ساکن، التقاء ساکنین کی وجہ سے الف گر گئی تو بن گیا: دَعَتٰا۔
"و دَعَوْنَ بر اصل خود است بر وزن فَعَلْنَ"
وہاں نَصَرْنَ  پڑھتے  تھے اب یہاں پڑھیں گے: دَعَوْنَ۔
باقی سارے اسی طرح ہیں ۔
مستقبل معلوم اس کا آتا ہے: يَدْعُو، يَدْعُوانِ، يَدْعُونَ، تَدْعُو، تَدْعُوانِ، يَدْعُونَ، تَدْعُو، تَدْعُوانِ، تَدْعُونَ، تَدْعِينَ، تَدْعُوانِ، تَدْعُونَ، أَدْعُو، نَدْعُو.
يَدْعُو اصل میں کیا تھا؟ يَدْعُوُ تھا، واؤ پر ضمه ثقیل تھا  وہ گرا دیا بن گیا:يَدْعُو۔
تَدْعُو اصل میں کیا تھا؟ تَدْعُوُ تھا، واؤ پر ضمه ثقیل تھا  وہ گرا دیا بن گیا:تَدْعُو۔
 اََدْعُو اصل میں کیا تھا؟ اَدْعُوُ تھا، واؤ پر ضمه ثقیل تھا  وہ گرا دیا بن گیا:اَدْعُو یا نَدْعُو۔
یدعون(جمع مذكّر) اصل میں کیا تھا؟
يَدْعُوُونَ تھا، واؤ پر ضمہ ثقیل تھا اس کو گرا دیا اب جب اس کو گرا دیا تو ایک واؤ پہلے سے ساکن تھی اور ایک واؤ اب ساکن ہو گی تو یہ واؤ کہ جو لام الفعل ہے یہ پہلی واؤ گر جائے گی دوسری تو ویسے بھی جمع کی واؤ ہے، وہ برقرار رہے گی، تو دو واؤ اکٹھی ساکن آگئی تو جو پہلی واؤ ہے وہ گر جائے گی تو یہ بن جائے گا گا: يَدعُونَ بر وزن يَفْعُونَ۔
(يَدْعوُنَ جمع مؤنث بر حال خود است بر وزن يَفْعُلْنَ)
تَدْعينَ (واحده مخاطبه مؤنّث) در اصل تَدْعُوينَ تھا؛
(كسره بر واو ثقيل بود به ماقبل دادند)
واؤ پر کسرہ ثقیل تھا ہم نے وہ کسرہ نقل کر کے ما قبل (عین) کو دیا، عین کی حرکت کو سلب کرنے کے بعد (یہ پہلے بھی کئی دفعہ آیا ہے) تو واؤ بھی ساکن، یاء بھی ساکن، التقاء ساکنین کی وجہ سے گر گئی تو یہ بن گیا: تَدْعينَ بر وزن تَفْعِينَ۔
کبھی اس مضارع پر حروف ناصبہ داخل ہوتے ہیں اور کبھی ان پر حروف جازمہ داخل ہوتے اگر اس ' پر کوئی حرف ناصبہ(أن لَن کَی اذَن) آجائے،
"و چون حروف ناصبه درآيد"
اگر يَدْعُو پر کوئی حرف ناصبہ آجائے، بن جائے گا:
لَنْ يَدْعُوَ لَنْ يَدْعُوٰا لَنْ يَدْعُوا الی آخرہ۔
"و نونهايى كه عوض رفعند در پنج لفظ بيفتند به نصبى"
 یعنی وہ نون جو عوض رفع ہوگی اگر اس پے ناصب آجائے وہ گر جائے گی،
"و نون ضمير بر حال خود باقى مى ماند"
لیکن جو عوض رفع نہیں ہوگی جیسے جمع کی ہوتی ہے تو وہ اپنے مقام پر باقی رہے گی۔
"و چون حروف جازمه درآيد"
اگر اسی فعل مضارع پر کوئی ناصب کی بجائے جازم آجائے تو بن جائے گا: لَمْ يَدْعُ، لَمْ يَدْعُوٰا، لَمْ يَدْعُوا، لَمْ تَدْعُ، لَمْ تَدْعُوٰا الی آخرہ ۔
اچھا اب فرماتے ہیں:
"واو در پنج لفظ بيفتد به جزمى"
جب لم آئے گا واو گر جائے گی پانچ صیغوں میں۔
"و نونهاى عوض رفع به جزمى بيفتند"
جو تثنیہ والی نون تھیں وہ بھی ساری اس جازم کی وجہ سے گر جائیں گے:لَم يَدْعُوا
و صلی اللہ علی محمد و ال محمد۔