درس صرف میر

درس نمبر 16: فعل معتل (3)

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

فصل: معتل العین [اجوف]

[باب فَعَلَ يَفْعُلُ سے اجوف واوی]

اگر کسی اسم یا فعل کے عین الفعل کے مقابل میں حرفِ علّت ہو تو اسے اجوف کہتے ہیں جیسے: قَالَ یَقُولُ، اس کا مصدر اَلقَولُ ہے جس کا معنیٰ کہنا، بولنا، بات کرنا ہے۔

 اگر کسی اسم یا فعل کا عین الفعل حروف علت میں سے واو ہو تو اسے اجوف واوی اور اگر یا ء ہو تو اسے اجوف یائی کہتے ہیں۔

 جس طرح  ہم نے  معتلُ الفاء میں بیان کیا تھا کہ ثلاثی مجرد کے پانچ ابواب سے معتلُ الفاء واقع ہوا ہے اسی طرح یہاں بھی یہ مطلب بیان کیا جائے گا کہ معتلُ العین ثلاثی مجرد کے کس کس باب سے آتا ہے۔

ثلاثی مجرد کے پانچ ابواب سے ایک فَعَلَ يَفْعُلُ ہے۔ اس سے اجوفِ واوی اَلقَولُ ہے۔

فعلِ ماضی معلوم کی گردان اس طرح سے ہوگی:

قَالَ، قَالَتْ، قَالُوا، قَالَتَا، قُلْنَ، قُلْتَ، قُلْتُمَا، قُلْتُمْ، قُلْتِ، قُلْتُمَا، قُلْتُنَّ، قُلْتُ، قُلْنَا۔

فعلِ مضارع معلوم کی گردان یوں ہوگی:

 یَقُولُ، یَقُولانِ، یَقُولونَ، تَقُولُ، تَقُولانِ، یَقُلنَ، تَقُولُ، تَقُولانِ، تَقُولونَ، تَقُولینَ، تَقُولانِ، تَقُلنَ، اَقُولُ، نَقُولُ۔

قَالَ کی تعلیل:

 قَالَ  اصل میں قَوَلَ تھا، اِعلال کے قانون کے مطابق  ہر وہ واو یا یاء جو متحرک ہو اور اس کا ما قبل مفتوح ہو تو وہ الف میں تبدیل ہو جاتی ہے، یہاں واو متحرک ہے اور اس کا  ما قبل مفتوح ہے  اس    لیے واو  الف میں تبدیل ہو جائے گی ار اس طرح قَالَ  بن جائے گا۔

قُلْنَ کی تعلیل:

قُلنَ اصل میں  قَوَلنَ تھا، اس میں واو متحرّک ہے، واو کا  ما قبل مفتوح ہے  اس لئے و او الف میں تبدیل ہوجائے گی جب واو الف ہو جائے گی تو اِلتِقائے ساکِنَینن (الف اور لام) ہونے کی وجہ سے الف گرجائے گی تو  قَلْنَ بن جائے گا اور قاف کے فتحہ کو ضمہ میں تبدیل کردیں گے تا کہ واوِ محذوفہ پر دلالت کرے، اس طرح سے یہ صیغہ قُلنَ بن جائے گا۔

  یَقُولُ کی تعلیل:

  یَقُولُ اصل میں  يَقْوُلُ تھا۔ اعلال کے  قانون کے مطابق واو  پر زبر ثقیل ہوتاہے  اس لئے اسے ما قبل کی طرف منتقل کر دیں گے تو یَقُولُ بن جائے گا ۔

4

تطبیق: معتل العین [اجوف]

"اجوف وٰاوى  از باب فَعَلَ يَفْعُلُ «اَلقَوْلُ : گُفتَن»"۔

فَعَلَ  یَفعُلُ کے باب سے  اجوف واوی جیسے : القَول یعنی کہنا، بات کرنا، گفتگو کرنا، بولنا، سوال کرنا۔

"قَالَ قٰالٰا قٰالُوا قٰالَتْ قٰالَتٰا قُلْنَ تا آخر"

فعل ماضی معلوم کی گردان اس طرح سے ہوگی:

قَالَ ،قٰالٰا، قٰالُوا، قٰالَتْ ،قٰالَتٰا، قُلْنَ،قُلْتَ، قُلْتُمَا، قُلْتُمْ، قُلْتِ، قُلْتُمَا، قُلْتُنَّ، قُلْتُ، قُلْنَا۔

"اصل قٰالَ قَوَلَ بود ، واوِ حرفِ علّه متحرِّك ماقبل مفتوح را قلب به الف كردند ، قٰالَ شد. و همچنين است حال تا قُلْنَ"

قَالَ  اصل میں قَوَلَ تھا ،وا و حرف علت متحرک ما قبل مفتوح اعلال کے قانون کے مطابق اس و اوکو الف میں تبدیل کیا تو  قَالَ ہوگیا۔

پہلے صیغے سے لے کر چھٹے صیغے تک اسی طرح سے ہے۔

"امّا قُلْنَ در اصل قَوَلْنَ بود چون واو منقلب به الف شد و الف به التقاىِ ساكنين بيفتاد قَلْنَ شد فتحه قاف را بدل كردند به ضمّه تا دلالت كند بر آنكه عين الفعل كه از اين جا افتاده است واو بوده نه ياء، و همچنين است حال تا آخر"

 قُلْنَ (جمع مؤنث غائب کا صیغہ) : قُلْنَ اصل میں قَوَلْنَ تھا، وا ومتحرک اور اس کا  ما قبل مفتوح ہے قاعدے کے مطابق واو کو الف میں بدل دیا اب اس صورت میں دو ساکن حروف ( الف اور لام) اکٹھے ہو گئے الف کو اسی التقائے ساکنین کی وجہ سے گرا دیا تو قَلْنَ ہوگیا اور قَلْنَ میں قاف کے فتحہ کو ضمہ میں بدل دیا تاکہ اس بات پر دلالت کرے کہ جو عینُ الفعل یہاں سے گرگیا ہے وہ واو تھا نہ کہ یاء۔ اس صیغے سے آخری صیغے تک صورتحال اسی طرح سے ہے پس ان صیغوں کی اس طرح سے گردان ہوگی:

قُلْنَ، قُلْتَ، قُلْتُمَا، قُلْتُمْ، قُلْتِ، قُلْتُمَا، قُلْتُنَّ، قُلْتُ، قُلْنَا۔

"مستقبل معلوم: يَقُولُ يَقُولٰان يَقُولُونَ تا آخر"

فعلِ مضارع  معلوم کی گردان یوں ہوگی: 

 يَقُولُ، يَقُولٰان، يَقُولُونَ، تَقُولُ، تَقُولانِ، یَقُلنَ، تَقُولُ، تَقُولانِ، تَقُولونَ، تَقُولینَ، تَقُولانِ، تَقُلنَ، اَقُولُ، نَقُولُ۔

"يَقُولُ در اصل يَقْوُلُ بود ضمّه بر واو ثقيل بود. به ماقبل دادند يَقُولُ شد"

یَقُولُ اصل میں يَقْوُلُ تھا،واو پر ضمہ ثقیل تھا،اسے اس کے ما قبل حرف ساکن( قاف) کی طرف منتقل کیا تویَقُولُ ہوگیا۔

"و در يَقُلْنَ و تَقُلْنَ واو بالتقاىِ ساكنين بيفتاد ـ چنانكه در ماضى دانسته شد"

یَقُلنَ اور تَقُلنَ (یہ دونوں اصل میں یَقُوُلنَ اور  تَقُوُلنَ  تھے) میں واو  کو التقائے ساکنین کی وجہ سے گرا دیا تویَقُلنَ اور  تَقُلنَ ہوگیا۔ جیسا کہ یہ مطلب فعلِ ماضی میں معلوم ہوچکا ہے۔

"امر حاضر: قُلْ قُولٰا قُولُوا قُولى قُولٰا قُلْنَ"۔

فعلِ امرِ حاضر معلوم کی گردان اس طرح سے ہوگی:

قُلْ، قُولٰا، قُولُوا، قُولى، قُولٰا، قُلْنَ۔

( اصل قُلْ اُقْوُلْ بود مأخوذ است از تَقْوُلُ چون تاء را انداختند ما بعد آن ساكن بود همزه مضمومه به متابعت عين در اوّلش درآوردند و آخرش را وقف كردند اُقْوُلْ شد )۔

قُلْ: اصل میں اُقوُل (بر وزنِ اُنصُر) تھا جو کہ  تَقُولُ سے لیا گیا ہے علامتِ مضارع (تاء) کو گرا دیا اس کے بعد والا حرف (قاف) ساکن ہے اس لئے  ہمزہ وصل لانے کی ضرورت ہے اور چونکہ یہاں عینُ الفعل مضموم ہے اس لئے شروع میں عین الفعل کی مطابقت میں   ہمزہ وصل مضموم لایاجائے گا اور لامُ الفعل کو وقف کی وجہ سے ساکن کردیا تو  اُقْوُلْ  بن جائے گا۔

"ضمّه بر واو ثقيل بود نقل كردند به ماقبلش پس واو بالتقاىِ ساكنين افتاد اُقُلْ شد"

ضمہ واو پر ثقیل ہے اسے ما قبل (قاف) کی طرف منتقل کردیا تو دو ساکن (واو اور لام) جمع ہوگئے یعنی التقائے ساکِنَین ہو گیا لہٰذا واو کو گرادیا تو اُقُلْ ہوگیا۔

(با وجود حركت قاف ، از همزه مستغنى شدند ، همزه را نيز انداختند قُلْ شد)۔

قاف کے متحرک ہونے کی وجہ سے ہمزہ وصل سے بے نیاز ہو گئے لہٰذا اسے گرادیا تو قُلْ ہوگیا۔

"وتو را رسد كه گويى قُلْ مأخوذ است از تَقُولُ چون تاء را انداختند لام الفعل به وقفى ساكن گشت و واو به التقاىِ ساكنين بيفتاد قُلْ شد"

مصنّف اس عبارت میں فعلِ مضارع معلوم سے امرِ حاضر معلوم ( قُل) بنانے کا ایک مختصر  طریقہ  بھی بیان کر رہے ہیں:

اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ  قُلْ،  تَقْولُ سے لیا گیا ہے۔ علامتِ مضارع (تاء) کو گرادیا اور لامُ الفعل کو وقف کرنے کی خاطر ساکن کردیا اور واو التقائے ساکِنَین کی وجہ سے گرگیا تو قُلْ بن گیا۔

"امر غايب: لِيَقُلْ لِيَقوُلٰا لِيَقوُلُوا تا آخر"

فعلِ  امر غائب کی گردان اس طرح سے ہوگی:

لِيَقُلْ، لِيَقوُلٰا، لِيَقوُلُوا، لِتقُلْ تا آخر۔

نهى: لٰا يَقُلْ لٰا يَقُولٰا لٰا يَقوُلُوا تا آخر ۔

فعلِ نہی کی گردان یوں ہوگی:

 لٰا يَقُلْ، لٰا يَقُولٰا، لٰا يَقوُلُوا تا آخر۔

"نون تاكيد ثقيله در امر حاضر قُولَنَّ قُولٰانِّ قُولُنَّ قُولِنَّ قُولٰانِّ قُلْنٰانِّ"

فعلِ امرِ حاضر معلوم کی نونِ تاکیدِ ثقیلہ کے ساتھ گردان اس طرح سے ہوگی:

 قُولَنَّ، قُولٰانِّ، قُولُنَّ ،قُولِنَّ، قُولٰانِّ، قُلْنٰانِّ ۔

"و نون تاكيد خفيفه قوُلَنْ قُولُنْ قُولِنْ"

فعلِ امرِ حاضر معلوم کی نونِ تاکیدِ خفیفہ کے ساتھ گردان اس طرح سے ہوگی:

 قوُلَنْ، قُولُنْ، قُولِنْ۔

"ودر امر غائب لِيَقُولَنَّ لِيَقُولٰانِّ لِيَقُولُنَّ تا آخر"

امر غائب کی گردان یوں ہوگی:

 لِيَقُولَنَّ ،لِيَقُولٰانِّ، لِيَقُولُنَّ ۔

"نهى لٰا يَقُولَنَّ الخ و در قُولَنَّ و لِيَقُولَنَّ و لٰا يَقُولَنَّ واو باز پس آمد زيرا كه التقاىِ ساكنين زايل شد"

فعلِ نہی غائب کی گردان: لٰا يَقُولَنَّ تا آخر۔

قُولَنَّ، لِيَقُولَنَّ اور لٰا يَقُولَنَّ میں واو اِلتِقائے ساکِنَین کے زائل ہونے کی وجہ سے واپس آجائے گی۔

ماضى مجھول : قيلَ، قيلٰا، قيلُوا، قيلَتْ، قيلَتٰا، قُلْنَ۔

ماضی مجہول کی گردان:

قيلَ، قيلٰا، قيلُوا، قيلَتْ، قيلَتٰا، قُلْنَ، قُلْتَ، قُلْتُمَا، قُلْتُمْ، قُلْتِ، قُلْتُمَا، قُلْتُنَّ، قُلْتُ، قُلْنَا۔

وَ صَلَّی اللَهُ عَلیٰ سَیَِدِنا مُحَمَّدٍ وَ آل مُحَمَّدٍ۔

مثال واوى از باب فَعُلَ يَفْعُلُ «الوَسْم : داغ نهادن».

ماضى معلوم وَسُمَ مستقبل معلوم يَوْسُمُ مجهولان آن وُسِمَ يُوسَمُ امر حاضر اوُسُمْ فهو وٰاسِمٌ [ اسم فاعل ] و ذاك مَوْسُومٌ [ اسم مفعول ].

اجوف وٰاوى (١) از باب فَعَلَ يَفْعُلُ «القَوْل : گفتن».

ماضى معلوم قَالَ قٰالٰا قٰالُوا قٰالَتْ قٰالَتٰا قُلْنَ تا آخر. اصل قٰالَ قَوَلَ بود ، واوِ حرفِ علّه متحرِّك ماقبل مفتوح را قلب به الف كردند ، قٰالَ شد. و همچنين است حال تا قُلْنَ. امّا قُلْنَ در اصل قَوَلْنَ بود چون واو منقلب به الف شد و الف به التقاىِ ساكنين بيفتاد قَلْنَ شد فتحه قاف را بدل كردند به ضمّه تا دلالت كند بر آنكه عين الفعل كه از اين جا افتاده است واو بوده نه ياء و همچنين است حال تا آخر.

مستقبل معلوم يَقُولُ يَقُولٰان يَقُولُونَ تا آخر. يَقُولُ در اصل يَقْوُلُ بود ضمّه بر واو ثقيل بود. به ماقبل دادند يَقُولُ شد و در يَقُلْنَ و تَقُلْنَ واو بالتقاىِ ساكنين بيفتاد ـ چنانكه در ماضى دانسته شد.

امر حاضر قُلْ قُولٰا قُولُوا قُولى قُولٰا قُلْنَ. اصل قُلْ اُقْوُلْ بود مأخوذ است از تَقْوُلُ چون تاء را انداختند ما بعد آن ساكن بود همزه مضمومه به متابعت عين در اوّلش درآوردند و آخرش را وقف كردند اُقْوُلْ شد ، ضمّه بر واو ثقيل بود نقل كردند به ماقبلش پس واو بالتقاىِ ساكنين افتاد اُقُلْ شد با وجود حركت قاف ، از همزه مستغنى شدند ، همزه را

____________________________

(١) نُوْسٌ : نون ، نَصَرَ يَنْصُر ، سين ، سَمِعَ يَسْمَعُ و واو اشاره به اجوف واوى است.

نيز انداختند قُلْ شد. وتو را رسد كه گويى قُلْ مأخوذ است از تَقُولُ چون تاء را انداختند لام الفعل به وقفى ساكن گشت و واو به التقاىِ ساكنين بيفتاد قُلْ شد.

امر غايب لِيَقُلْ لِيَقوُلٰا لِيَقوُلُوا تا آخر ، نهى لٰا يَقُلْ لٰا يَقُولٰا لٰا يَقوُلُوا تا آخر ، نون تاكيد ثقيله در امر حاضر قُولَنَّ قُولٰانِّ قُولُنَّ قُولِنَّ قُولٰانِّ قُلْنٰانِّ ، و نون تاكيد خفيفه قوُلَنْ قُولُنْ قُولِنْ ودر امر غائب لِيَقُولَنَّ لِيَقُولٰانِّ لِيَقُولُنَّ تا آخر.

نهى لٰا يَقُولَنَّ الخ و در قُولَنَّ و لِيَقُولَنَّ و لٰا يَقُولَنَّ واو باز پس آمد زيرا كه التقاىِ ساكنين زايل شد. مجهول ماضى قيلَ قيلٰا قيلُوا قيلَتْ قيلَتٰا قُلْنَ قيلَ در اصل قُوِلَ بود ، كسره بر واو ثقيل بود به ما قبل دادند بعد از سلب حركت ماقبل واو منقلب شد به ياء ، قيل شد و همچنين است تا قُلْنَ.

و در قُلْنَ تا آخر ، واو به التقاىِ ساكنين بيفتاد و ضمّه اصلى قاف باز پس آمد تا دلالت كند بر اينكه عين الفعل كه افتاده است واو بوده نه ياء و صورت معلوم و مجهول و امر در جمع مؤنث يكسان شد و در تقدير مختلف ، اصل قُلْنَ معلوم قَوَلْنَ و اصل قُلْنَ مجهول قُوِلْنَ و اصل قُلْنَ امر اُقْوُلْنَ است. مستقبل مجهول يُقٰالُ يُقٰالٰانِ يُقٰالُونَ تا آخر. اصل يُقٰالُ يُقْوَلُ بود واو حرف علّه متحرك ماقبلش حرف صحيح و ساكن فتحه واو را به ماقبل دادند واو در موضع حركت بود ماقبلش مفتوح قلب به الف كردند يُقٰال شد و همچنين است حال ديگر الفاظ. و در يُقَلْنَ و تُقَلْنَ الف به التقاىِ ساكنين افتاد. امر غايب مجهول لِيُقَلْ لِيُقٰالٰا لِيُقٰالُوا تا آخر. نهى مجهول لٰا يُقَلْ لٰا يُقٰالٰا لٰا يُقٰالُوا تا آخر. اسم فاعل قائلٌ قٰائلٰانِ قٰائلُونَ تا آخر. قائل اصلش قٰاوِلٌ بود واو واقع شده بود بعد از الف