درس صرف میر

درس نمبر 14: فعل معتل (1)

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

فصل: معتل الفاء [مثال]

 [یہ کتاب کی چھبیسویں فصل ہے۔ اس فصل میں معتلّ الفاء کے بارے میں بحث کی گئی ہے ]۔

جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ  جس اسم یا فعل کے حروفِ اصلی میں حرفِ علّت ہو اسے معتل کہا جاتا ہے۔معتل کی تین قسمیں ہیں:

مثال، اجوف اور ناقص۔

 اگر وہ حرف علت، فاء الفعل کے مقابل میں ہو تو اسے معتل الفاء یا مثال، اگر عین الفعل  کے مقابل میں ہو تو اسےمعتل العین یا اجوف اور اگر لام الفعل کے مقابل میں ہو تو اسےمعتل اللام یا ناقص کہتے ہیں۔

مصنّف اس فصل کے شروع میں معتل الفاء کے متعلق فرماتے ہیں کہ فصیح لُغَت میں فعلِ ثلاثی مجرد کے بابِ  فَعَلَ يَفْعُلُ سے معتلُ الفاء نہیں آیا۔

فعلِ ثلاثی مجرد کے بابِ  فَعَلَ يَفْعِلُ سے معتلُ الفاء کی مثال: اَلوَعدُ (وعدہ کرنا)۔یہ مصدر ہے اس سے فعلِ ماضی معلوم کی گردان اس طرح سے ہوگی:

 وَعَدَ، وَعَدَا، وَعَدُوا، وَعَدَتْ، وَعَدَتَا، وَعَدْنَ، وَعَدْتَ، وَعَدْتُمَا، وَعَدْتُمْ، وَعَدْتِ، وَعَدْتُمَا، وَعَدْتُنَّ، وَعَدْتُ، وَعَدْنَا۔

فعلِ  مضارع معلوم کی گردان اس طرح سے ہوگی:

 يَعِدُ، يَعِدَانِ، يَعِدُونَ، تَعِدُ، تَعِدَانِ، يَعِدْنَ، تَعِدُ، تَعِدَانِ، تَعِدُونَ، تَعِدِينَ، تَعِدَانِ، تَعِدْنَ، أَعِدُ، نَعِدُ۔ 

 يَعِدُ: یہ فعلِ ثلاثی مجرد کے باب فَعَلَ یَفعِلُ سے فعل مضارع معلوم، مفرد مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ یہ اصل میں یَوعِدُ بروزنِ یَضرِبُ تھا

واو  ساکن ہے، اس سے پہلے یائے مفتوحہ اور اس کے بعد کسرۂ لازمہ ہے  چونکہ  یائے مفتوحہ اور عین کے کسرہ لازمہ کے درمیان واو کا پڑھنا ثقیل ہے اس لیے واو کو حذف کر دیتے ہیں۔دیگر صیغے یَعِدُ سے بنتے ہیں اور مکمل گردان اس طرح سے ہو گی: 

 يَعِدُ، يَعِدَانِ، يَعِدُونَ، تَعِدُ، تَعِدَانِ، يَعِدْنَ، تَعِدُ، تَعِدَانِ، تَعِدُونَ، تَعِدِينَ، تَعِدَانِ، تَعِدْنَ، أَعِدُ، نَعِدُ۔

 فعل امر حاضر معلوم کی گردان اس طرح سے ہو گی: 

 عِدْ، عِدٰا، عِدُوا، عِدى، عِدا، عِدْنَ۔

 عِد: یہ فعل امر حاضر معلوم مفرد مذکر کا صیغہ ہے یعنی اے مرد حاضر تو ابھی وعدہ کر۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ فعلِ امر حاضر معلوم، فعلِ مضارع معلوم سے بنتا ہے لہذا اس فعلِ امرِ حاضر معلوم (عِد) کو دو فعلِ مضارع معلوم (تَعِدُ اور تَوعِدُ) سے بناسکتے ہیں۔اگر فعلِ امرِ حاضر معلوم (عِد) کو فعلِ مضارع معلوم  (تَعِدُ)سے بنائیں گے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ علامتِ مضارع کو حذف کیا، اس کے ما بعدپہ نظر کی اور چونکہ اس کا ما بعد مُتحرک ہے اسی وجہ سے ہمزہ وصل لانے کی ضرورت نہیں پڑی، لہذا اسی حرکت (کسرہ) کو برقرار رکھتے ہوئے فعلِ امر بنائیں گے اور اس کے آخر کو وقف کی وجہ سے ساکن کر دیں گے تو عِد بن جائے گا۔

اگر تَوعِدُ  (بر وزنِ تَضرِبُ )سے  فعلِ امرِ حاضر معلوم (عِد)   بنانا چاہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے:

سب سے پہلے علامتِ مضارع (تاء) کو حذف کریں گے اس کے بعد علامتِ مضارع کے مابعد (واو) پہ نظر کی تو وہ ساکن ہے اور ساکن حرف سے ابتدا محال ہے اس لئے ہمیں ہمزہ وصل کی ضرورت پڑی اور چونکہ واو کا ما بعد حرف مکسور ہے تو ہم شروع میں ہمزہ وصل مکسور لے آئے اور آخری حرف کی حرکت وقف کی وجہ سے گرجائے گی تو اِوعِد (اِضرِب کے وزن پر) بن جائے گا۔اِوعِد میں واو ساکن اور اس کا ما قبل مکسور ہے اسی   لئے قاعدہ کے مطابق واو کو یاء میں تبدیل کیا تو اِیعِد ہوگیا، اس میں تین کسرے جمع ہوگئے اور چونکہ تین کسروں کاایک کلمے میں جمع ہونا قبیح ہے اس لئے یاء کو حذف کردیاتو اِعِد بن گیااور چونکہ اب عین متحرک اور مکسور ہے اس لئے ہمزہ وصل سے بے نیاز ہوگئے اور  اسے حذف کردیا تو عِد ہوگیا۔ 

4

تطبیق: معتل الفاء [مثال]

"فصل :بدانكه معتلّ الفاء از باب فَعَلَ يَفْعُلُ نيامده است در لغت فصيحه"

فصل: جان لیجئے کہ فصیح لُغَت میں فَعَلَ يَفْعُلُ سے معتلُ الفاءنہیں آیا۔

یاد رہے کہ اب تک ہم ثلاثی مجرد، ثلاثی مزید فیہ، رباعی مجرد اور  مزید فیہ کی جو مثالیں پڑھتے رہے ہیں تقریبا ان کا تعلق افعال صحیحہ کے ساتھ ہے یعنی نہ ان میں کوئی حرف علت تھا نہ کوئی دو حرف ایک جنس کے تھے اور نہ ہی ہمزہ تھا۔ ہفت اقسام میں سے پہلی قسم (صحیح) کی بحث مکمل ہوچکی ہے۔ اب ہم معتل کے بارے میں بحث کریں گے۔

معتل: وہ اسم یا فعل ہوتا ہے جس کے فاء الفعل،عین الفعل اور لامُ الفعل میں سے کسی کی جگہ کوئی حرفِ عِلت ہو جیسے وَعَدَ، یَعِدُ ،اس کا مصدر اَلوَعدُ ہے؛ قالَ، یَقولُ، اس کا مصدر اَلقَولُ ہے؛ رَمیٰ، یَرمِی، اس کا مصدر اَلرَمیُ ہے۔ 

اب سوال یہ ہوتا ہے کہ حروف علت کتنے اور  کونسے ہیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ: حروفِ عِلت تین ہیں: 

1۔واو؛ 2۔ یاء؛ 3۔ وہ الف جو واو یا یاء سے تبدیل شدہ ہو۔ 

اگر  حرف علت فاء الفعل کے مقابل میں ہو تو اسےمعتل الفاء کہتے ہیں اور اس کا دوسرا نام مثال ہے جیسے: وَعَدَ، اس کا مصدر اَلوَعدُ ہے۔ یہ مثالِ واوی ہے۔اگر  حرف علت عین الفعل کے مقابل میں ہو تو اسےمعتل العین یا اجوف کہتے ہیں جیسے : قَالَ (اصل میں قَوَلَ تھا) اس کا مصدر اَلقَولُ ہے، یہ اجوفِ واوی ہے۔اگر  حرف علت لامُ الفعل کے مقابل میں ہو تو اسےمعتل اللام یا ناقص کہتے ہیں جیسے:  دَعَا (اصل میں دَعَوَ تھا)، اس کا مصدر الدُعاءُ وَ الدعوَۃ ہے، یہ ناقصِ واوی ہے۔

"مثالِ واوی از باب فَعَلَ يَفْعِلُ «الوَعد : وعده كردن»؛ ماضى معلوم : وَعَدَ وَعَدٰا وَعَدُوا تا آخر"

ثلاثی مجرد کے باب فَعَلَ يَفْعِلُ سے مثال واوی آتا ہے جیسے: اَلوَعدُ: وعدہ کرنا۔

اَلوَعدُ مصدر ہے اس سے ماضی معلوم کی گردان اس طرح ہوگی: 

 وَعَدَ، وَعَدَا، وَعَدُوا، وَعَدَتْ، وَعَدَتَا، وَعَدْنَ، وَعَدْتَ، وَعَدْتُمَا، وَعَدْتُمْ، وَعَدْتِ، وَعَدْتُمَا، وَعَدْتُنَّ، وَعَدْتُ، وَعَدْنَا۔ 

 "همچنانكه در صحيح دانسته شد"

جیسا کہ صحیح میں معلوم ہوچکا ہے یہاں بھی گردان اسی طرح سے ہے۔

 "پس از اين جهت او را مثال گويند كه مثل صحيح است در حركات ثلاثه"

اسی وجہ سے اسے مثال کہتے ہیں یعنی حَرَکات و سَکَنات کے اِعتبار سے صحیح کی طرح ہے۔

یاد رہے کہ جس طرح صحیح کے ابواب میں فعل ماضی میں تینوں حروف پر حرکتیں ضَرَبَ تو یہاں پر بھی تینوں حروف پر حرکت ہوتی ہے وَعَدَ تو چونکہ ایک ہی حرکت  یعنی فتحہ ہے وہ بھی تینوں حروف پر تو اس لحاظ سے یہ  صحیح  کی طرح ہے۔

"و مستقبل معلوم : يَعِدُ يَعِدٰان يَعِدُونَ تا آخر"

 مستقبل معلوم کی گردان اس طرح سے ہوگی:

 يَعِدُ، يَعِدَانِ، يَعِدُونَ، تَعِدُ، تَعِدَانِ، يَعِدْنَ، تَعِدُ، تَعِدَانِ، تَعِدُونَ، تَعِدِينَ، تَعِدَانِ، تَعِدْنَ، أَعِدُ، نَعِدُ۔

"اصل يَعِدُ يَوْعِدُ بود ، واو واقع شده بود ميانه ياىِ مفتوحه و كسره لازمه ثقيل بود انداختند يَعِدُ شد و با تاء و نون و همزه نيز انداختند براى موافقتِ باب"

 يَعِدُ: در اصل  يَوْعِدُ تھا۔ واؤ، یائے مفتوحہ اور  کسرہ لازمہ کے درمیان واقع ہوئی پس واو کو  ثقیل ہونے کی وجہ سے حذف کردیا تو  یَعِدُ ہوگیا۔ دیگر صیغوں میں بھی واؤ کو باب کی موافقت کی وجہ سے حذف کردیا گیا۔

"امر حاضر : عِدْ عِدٰا عِدُوا عِدى عِدا عِدْنَ"

 امر حاضر معلوم کی گردان اس طرح سے ہوگی:

عِدْ، عِدٰا، عِدُوا، عِدِى، عِدا، عِدْنَ۔

 "چون نون تأكيد ثقيله درآيد گويى :عِدَنَّ عِدٰانِّ عِدُنَّ عِدِنَّ عِدٰانِّ عِدْنٰانِّ"

جب اسی امر حاضر  معلوم کے ساتھ نون تاکید ثقیلہ لگائیں گے تو اس طرح گردان ہوگی: 

عِدَنَّ، عِدٰانِّ، عِدُنَّ، عِدِنَّ، عِدٰانِّ، عِدْنٰانِّ۔

"و با نون تأكيد خفيفه گويى: عِدَنْ عِدُنْ عِدِنْ"

جب فعلِ امرِ حاضرِ معلوم کے ساتھ نون تاکید خفیفہ آئے گی تو اس کی گردان یوں ہوگی:

عِدَنْ، عِدُنْ، عِدِنْ۔

"امر غايب : لِيَعِدْ لِيَعِدٰا لِيَعِدُوا لِتَعِدْ لِتَعِدا لِيَعِدْنَ"

اس سے امر غائب کی گردان یوں ہوگی:

لِيَعِدْ، لِيَعِدٰا، لِيَعِدُوا، لِتَعِدْ، لِتَعِدا، لِيَعِدْنَ ۔

"و نون تاكيد ثقيله وخفيفه بر قياس گذشته"

نونِ  تاکید ثقیلہ اور خفیفہ بھی اسی طرح سے ہے جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے: لِيَعِدَنَّ لِيَعِدٰانِّ لِيَعِدُنَّ تا آخر۔

"نهى : لٰا يَعِدْ لٰا يَعِدٰا لٰا يَعِدُوا تا آخر "

فعلِ نہی کی گردان اس طرح سے ہوگی: لَا يَعِدْ، لَا يَعِدَا، لَا يَعِدُوا، لَا تَعِدْ، لَا تَعِدَا، لَا يَعِدْنَ۔

( و نون تاكيد ثقيله و خفيفه بر آن وجه است كه دانسته شد)۔

 نون تاکید ثقیلہ اور خفیفہ بھی اسی طریقے سے ہے جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے جیسے : لَا يَعِدَنَّ، لَا يَعِدٰانِّ، لَا يَعِدُنَّ، لَا تَعِدَنَّ، لَا تَعِدٰانِّ، لَا يَعِدْنَ۔

"و حال با لَمْ و لَمّا آن چنان است كه در صحيح دانسته شد"

 لَمْ اور لَمّا کے ساتھ گردان بھی اسی طرح ہوگی جس طرح ابوابِ صحیحہ میں معلوم ہوچکا ہے جیسے: لَمْ يَعِدْ، لَمْ يَعِدَا، لَمْ يَعِدُوا، لَمَّا تَعِدْ، لَمْ تَعِدَا، لَم ​​​​يَعِدنَ؛ لَمّا يَعِدْ، لَمّا يَعِدَا، لَمّا يَعِدُوا، لَمّا تَعِدْ، لَمّا تَعِدَا، لَمّا يَعِدنَ۔

"و با حروف ناصبه گويى اَنْ يَعِدَ اَنْ يَعِدٰا اَنْ يَعِدُوا الخ"

فعلِ مضارع پر حروفِ ناصبہ داخل ہوں تو گردان اس طرح سے ہوگی:

اَنْ يَعِدَ، اَنْ يَعِدا، اَنْ يَعِدُوا، تا آخر۔

"ماضی مجهول : وُعِدَ وُعِدٰا وُعِدُوا تا آخر"

یاد رہے کہ وَعَدَ فعل ماضی معلوم مفرد مذکر غائب کا صیغہ ہے اس سے ماضی مجہول وُعِدَ بنے گا۔ فعلِ ماضی مجہول کی گردان اس طرح سے ہوگی:

 وُعِدَ، وُعِدَا، وُعِدُوا، وُعِدَتْ، وُعِدَتَا، وُعِدْنَ، وُعِدتَ، وُعِدتُمَا، وُعِدتُمْ، وُعِدتِ، وُعِدتُمَا، وُعِدتُنَّ، وُعِدتُ، وُعِدْنَا۔

(مستقبل مجهول : يُوعَدُ يُوعَدٰانِ يُوعَدُونَ تا آخر )۔

مضارع مجہول کی گردان اس طرح سے ہو گی:

 يُوعَدُ، يُوعَدٰانِ، يُوعَدُونَ، تُوعَدُ، تُوعَدٰانِ، يُوعَدْنَ، تُوعَدُ، تُوعَدٰانِ، توعَدُونَ، تُوعِدِينَ، تُوعِدَانِ، تُوعَدْنَ، أُوعَدُ، نُوعَدُ۔ 

"واو محذوفه به جاى خود آمد زيرا كه كسره عين زايل شد"

فعل مضارع معلوم میں جو واو  گر گئی تھی وہ یہاں واپس آ جاتی ہےاس لیے کہ عین الفعل کا کسرہ ختم ہو چکا ہے۔

 "اسم فاعل : واعِدٌ وٰاعِدٰانِ وٰاعِدُونَ تا آخر"

اسمِ فاعل کی گردان اس طرح سے ہے:

 واعِدٌ، وٰاعِدٰانِ، وٰاعِدُونَ، وَاعِدَةٌ، وَاعِدَتَانِ، وَاعِدَاتٌ۔

  (اسم مفعول : مُوْعُودٌ مَوْعُودٰانِ مَوْعُودُونَ تا آخر)۔

اسمِ مفعول کی گردان اس طرح سے ہے:

مُوْعُودٌ، مَوْعُودٰانِ، مَوْعُودُونَ، مَوْعُودَةٌ، مَوْعُودَتَانِ، مَوْعُودَاتٌ۔ 

وَ صَلَّی اللَهُ عَلیٰ سَیَِدِنا مُحَمَّدٍ وَ آل مُحَمَّدٍ۔

يكسان بود چون رَجُلٌ طُوّٰال وامْرَئةٌ طُوّاٰلٌ.

فصل :

اسم مفعول از فعل ثلاثى مجرد بر وزن مَفْعُولٌ آيد چون مَضْرُوبٌ مَضْرُوبٰانِ مَضْرُوبُونَ مَضْرُوبَةٌ مَضرُوبَتٰانِ مَضْرُوبٰاتٌ و مَضارِبُ.

فصل :

اسم فاعل از فعل ثلاثى مزيد فيه و فعل رباعى مجرّد و مزيدٌ فيه چون فعل مستقبل معلوم آن باب باشد چنانچه ميم مضمومه به جاى حرف استقبال نهاده شود و ماقبل حرف آخر مكسور گردد ( اگر مكسور نباشد ) چون مُكْرِمٌ و مُنْطَلِقٌ و مُسْتَخْرِجٌ و مُدَحْرِجٌ و مُتَدَحْرِجٌ و مجموع اينها دانسته مى شود ـ اِنْ شاء الله تعٰالى.

فصل :

اسم مفعول از ثلاثى مزيد فيه و رباعى مجرد و مزيد فيه چون فعل مستقبل مجهول آن باب باشد چنانكه ميم مضمومه به جاى حرف استقبال نهاده شود و ماقبل حرف آخر مفتوح گردد ( اگر مفتوح نباشد ) چون مُكْرَمٌ و مُنْطَلَقٌ و مُدَحْرَجٌ و مُتَدَحْرَجٌ و مجموع اينها دانسته مى شود ـ اِنْ شاء الله تعٰالى.

فصل :

بدانكه معتلّ الفاء از باب فَعَلَ يَفْعُلُ نيامده است در لغت فصيحه.

* * *

مثال واوى (١) (٢) از باب فَعَلَ يَفْعِلُ «الوَعد : وعده كردن».

ماضى معلوم : وَعَدَ وَعَدٰا وَعَدُوا تا آخر ـ همچنانكه در صحيح دانسته شد. پس از اين جهت او را مثال گويند كه مثل صحيح است در احتمال حركات ثلاثه و مستقبل معلوم : يَعِدُ يَعِدٰان يَعِدُونَ تا آخر اصل يَعِدُ يَوْعِدُ بود ، واو واقع شده بود ميانه ياىِ مفتوحه و كسره لازمه ثقيل بود انداختند يَعِدُ شد و با تاء و نون و همزه نيز انداختند براى موافقتِ باب. امر حاضر : عِدْ عِدٰا عِدُوا عِدى عِدا عِدْنَ. چون نون تأكيد ثقيله درآيد گويى عِدَنَّ عِدٰانِّ عِدُنَّ عِدِنَّ عِدٰانِّ عِدْنٰانِّ و با نون تأكيد خفيفه گويى عِدَنْ عِدُنْ عِدِنْ. امر غايب : لِيَعِدْ لِيَعِدٰا لِيَعِدُوا لِتَعِدْ لِتَعِدا لِيَعِدْنَ و نون تاكيد ثقيله وخفيفه بر قياس گذشته. نهى : لٰا يَعِدْ لٰا يَعِدٰا لٰا يَعِدُوا تا آخر و نون تاكيد ثقيله و خفيفه بر آن وجه است كه دانسته شد. و حال با لَمْ و لَمّا آن چنان است كه در صحيح دانسته شد.

و با حروف ناصبه گويى اَنْ يَعِدَ اَنْ يَعِدٰا اَنْ يَعِدُوا الخ ماضى

* * *

____________________________

(١) مجموعه رمزهايى را كه مرحوم شيخ بهايى براى وزنهاى فعلهاى غير صحيح آورده است عبارتند از :

وَضْمَسَكَحْ يَضْكَسُ نوْسٌ سَيَضْ

اِضْنسَكُمْ وَضْحَسِيَه سَنْضَدَدْ

نَسكُو وضَمْسِّى و دگر مِنْسَكَأْ

مِاْسَكْ وسَضْوى بشمر اين عَدَد

(٢) وَضْمَسَكَحْ واو اشاره است به معتلّ الفاء واوى كه از پنج باب آمده است : اوّل از باب ضَرَبَ يَضْرِبُ مثل وَعَدَ يَعِدُ. دوّم از باب مَنَعَ يَمْنَعُ مثل وَضَع يَضَعُ. سيّم از باب سَمِعَ يَسْمَعُ مثل وَجِلَ يَوْجَلُ چهارم از باب كَرُمَ يَكْرُمُ مثل وَجُهَ يَوجُهُ. پنجم از باب حَسِبَ يَحْسِبُ مثل وَرِمَ يَرِمُ. شرح.

مجهول : وُعِدَ وُعِدٰا وُعِدُوا تا آخر مستقبل مجهول : يُوعَدُ يُوعَدٰانِ يُوعَدُونَ تا آخر واو محذوفه به جاى خود آمد زيرا كه كسره عين زايل شد. اسم فاعل : واعِدٌ وٰاعِدٰانِ وٰاعِدُونَ تا آخر. اسم مفعول : مُوْعُودٌ مَوْعُودٰانِ مَوْعُودُونَ تا آخر.

مثال يايى (١) از باب فَعَلَ يَفْعِلُ «اَلْمَيْسِر : قِمٰار باختن».

ماضى معلوم يَسَرَ يَسَرٰا يَسَرُوا تا آخر. مستقبل معلوم : ييْسِرُ يَيْسِرٰانِ يَيْسِرُونَ تا آخر.

امر حاضر : ايسِر ايسِرٰا ايسِرُوا ايسِرى ايسِرٰا ايسِرْنَ نون تاكيد ثقيله ايسِرَنَّ ايسِرٰانِّ ايسِرُنَّ ايسِرِنَّ ايسِرٰانِّ ايسِرْنٰانِّ نون تاكيد خفيفه ايسِرَنْ ايسِرُنْ ايسِرِنْ. امر غايب : لِيَيْسِر ليَيْسِرا ليَيْسِرُوا تا آخر. ونون تاكيد ثقيله وخفيفه بر قياس صحيح بود.

وچون ماضى مجهول بنا كنى گويى : يُسِرَ بِهذٰا (٢) يُسِرَ بِهٰذَيْنِ يُسِرَ

____________________________

(١) يَضْكَس ياء اشاره است به معتلّ الفاء يايى كه از سه باب آمده است اوّل از باب ضَرَب يَضْرِبُ مثل يَسَرَ يَيْسِرُ و دوم از باب كَرُمَ يَكْرُمُ مثل يَمُنَ يَيْمُنُ سيّم از عَلِمَ يَعْلَمُ چون يَئِسَ يَيْئَسُ.

(٢) بدانكه فعل مجهول محتاج به نايب فاعل است ، پس اگر فعل مجهول در اصل متعدّى باشد نايب فاعل او يا ضميرى است كه در او مستتر است و يا ضمير بارز و يا اسم ظاهر است و يا جار و مجرور پس در دو صورت اوّل ، فعل مجهول در تانيث و تذكير و اِفراد وتثنيه و جمع ، مثل فعل معلوم است يعنى قابل علامت تانيث و تثنيه و جمع است و در صورت سوم مثل فعل معلوم است يعنى قابل علامت تانيث است ، و لكن قابل علامت تثنيه و جمع نيست و در صورت چهارم يعنى در صورتى كه نايب فاعل جار و مجرور باشد ، قابل هيچيك از سه علامت يعنى علامت تانيث و تثنيه و جمع نيست زيراكه تانيث و تذكير و افراد و تثنيه و جمع در مجرور وارد مى شود.