درس صرف میر

درس نمبر 9: امر مخاطب / فعل لازم اور متعدی

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

فصل: امر مخاطب

[یہ کتاب کی پندرہویں فصل ہے۔ اس فصل میں فعل امر حاضر معلوم بنانے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے ]۔

یہ  مطلب  پہلے بیان ہو چکا ہے  کہ  فعل ماضی ، فعل  مضارع  اور فعل امر   وغیرہ مصدر سے  بنتے ہیں۔ فعل ماضی کی بحث مکمل ہو گئی۔ مصنف نے بتایا کہ فعل اگر ثلاثی مجرد ہوگا تو ماضی کس وزن پر آئے گا،  اگر رباعی مجرد ہوگا تو فعل ماضی کا وزن کیا ہو گا اور یہ بھی ذکر کیا کہ فعل اگر  ثلاثی مزید فیہ ہوگا تو اس کے اوزان کیا ہوں گے؟ ۔اسی طرح مضارع کے بارے میں بھی بحث مکمل ہو گئی تھی کہ  فعل مضارع کہاں سے اور  کیسے بنتا ہے؟۔

 اس فصل میں جو مطلب  آپ کو سمجھانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ فعل امر   کہاں سے اور کیسے بنتا ہے ؟  قرآن مجید میں اوامر کثرت سے موجود ہیں ، اس درس و بحث کو اچھی طرح سمجھنے کی برکت سے ہم ان شاءاللہ  آسانی سے قرآن کریم میں موجود اس طرح کے صیغوں کو سمجھ سکییں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ  فعل امر حاضر بنانے کا طریقہ کیا ہے؟۔

 جواب: فعل امر  کا اطلاق فعل امر حاضر معلوم اور فعل امر غائب  دونوں پر ہوتا ہے جیسا کہ ہم نے گزشتہ درس کے آخر میں پڑھا تھا کہ اگر فعل مضارع  کے غائب کے چھ صیغوں اور متکلم کے دو صیغوں  پر لام امر کو داخل کر دیا جائے تو امر غائب  بن جائے گا ۔ اب ہم  اس فصل میں امر حاضریاامر مخاطب بنانے کا طریقہ بیان کریں گے۔

فرماتے ہیں: فعل امر حاضر، فعل مضارع مخاطب کے صیغوں سے بنتا ہے۔فعل ثلاثی مجرد کے باب ضَرَبَ، یَضرِبُ سے مضارع مخاطب کے چھ صیغے یہ ہیں:  تَضرِبُ، تَضرِبانِ، تَضرِبُونَ ، تَضرِبِينَ، تَضرِبانِ، تَضرِبْنَ ؛ اسی طرح  فعل ثلاثی مجرد کے باب نَصَرَ، یَنصُرُ سے مضارع مخاطب کے چھ صیغے یہ ہیں: تَنصُرُ، تَنصُرانِ، تَنصُرُونَ؛ تَنصُرِينَ، تَنصُرانَ، تَنصُرْنَ۔یار رہے کہ مذکورہ صیغوں میں سے  پہلےتین صیغے مذکر کے اور بعد والے تین صیغے مؤنث کے ہیں۔

فعل امر حاضر  فعل مضارع  کے مخاطب کے صیغوں سے بنتا ہے۔

اس کا طریقہ یہ ہے کہ فعل مضارع کے مخاطب کے صیغوں  سے علامتِ مضارع  (حروف اتین میں سے حرف تاء) حذف کر دیتے ہیں اب اس کے بعد والا حرف  یا متحرک ہو گا یا ساکن۔ متحرک ہو نے کی صورت میں ہمزۂ وصل لانے کی ضرورت نہیں ہوگی اور اسی بعد والے حرف کی حرکت کو برقرار رکھ کر آخری حرف کو ساکن کر دیا جائے گا جیسے وَصَلَ یَصِلُ سے فعل مضارع مخاطب تَصِلُ آتا ہے، جب فعل مضارع مخاطب ( تَصِلُ) سے تاء  کو حذف کر دیا جائےاور آخری حرف کو ساکن کر دیا جائے تو فعل امر حاضر معلوم صِل بنے گا۔

 ساکن ہونے کی صورت میں ہمزۂ وصل  لانے کی ضرورت ہو گی۔اب سوال یہ ہے کہ اس ہمزۂ وصل کی حرکت کیا ہونی چاہیے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ  حرفِ ساکن کے بعد والا حرف اگر مضموم ہو تو ہمزۂ وصل بھی مضموم لاتے ہیں  جیسےفعل ثلاثی مجرد کے باب نَصَرَ، یَنصُرُ سے تَنصُرُ فعل مضارع مفرد مذکر  مخاطب کا صیغہ ہے، جب علامت مضارع کو حذف کر دیا جائے تو نون ساکن ہے اور نون کے بعد  صاد  ہے جو کہ عین الفعل ہے اور یہ حرف مضموم ہے لہٰذا ہمزۂ وصل بھی مضموم اور آخر کو ساکن کر نے سے فعل امر حاضر  اُنصُرْ حاصل ہو گا۔ 

اگرحرفِ ساکن کے بعد والا حرف مفتوح یا مکسور ہو تو ہمزۂ وصل مکسور لائیں گے جیسے فعل ثلاثی مجرد کے باب ضَرَبَ، یَضرِبُ سے  تَضرِبُ فعل مضارع مفرد مذکر  مخاطب کا صیغہ ہے، جب علامت مضارع کو حذف کر دیا جائے تو ضاد ساکن ہے اور ضاد  کے بعد  راء  ہے جو کہ عین الفعل ہے اور یہ حرف مکسور ہے لہٰذا ہمزۂ وصل بھی مکسور اور آخر کو ساکن کر نے سے فعل امر حاضر  اِضرِب حاصل ہو گا۔ 

اسی  طرح فعل ثلاثی مجرد کے باب سَمِعَ، یَسمَعُ سے تَسمَعُ فعل مضارع مفرد مذکر  مخاطب کا صیغہ ہے، جب علامت مضارع کو حذف کر دیا جائے تو سین ساکن ہے اور سین  کے بعد میم ہے جو کہ عین الفعل ہے اور یہ حرف مفتوح ہے لہٰذا ہمزۂ وصل بھی مکسور اور آخر کو ساکن کر نے سے فعل امر حاضر  اِسمَع حاصل ہو گا۔ 

ثلاثی مزید فیہ کے ابوب میں بھی اسی طرح ہے مثلا باب تفعیل سے فعل مضارع مخاطب کے یہ صیغے ہیں: تُصَرِّفُ، تُصَرِّفَانِ، تُصَرِّفُونَ، تُصَرِّفِينَ، تُصَرِّفْانَ، تُصَرِّفْنَ۔

 ان صیغوں سے علامتِ فعل مضارع ( تاء)کو حذف کرنے کے بعد، بعد والا حرف متحرک ہے،متحرک ہو نے کی صورت میں ہمزۂ وصل لانے کی ضرورت نہیں ہوگی اور اسی بعد والے حرف کی حرکت کو برقرار رکھ کر آخری حرف کو ساکن کر دیا جائے گا جیسے باب تفعیل سےفعل مضارع مخاطب  تُصَرِّفُ آتا ہے، جب فعل مضارع مخاطب ( تُصَرِّفُ ) سے تاء  کو حذف کر دیا جائےاور آخری حرف کو ساکن کر دیا جائے تو فعل امر حاضر معلوم صَرِّف بنے  گا۔

خلاصہ : آپ نے یہ قانون یاد رکھنا ہے کہ  فعل امر حاضر  معلوم، فعل مضارع معلوم کے حاضر کے صیغوں سے بنتا ہے۔فعل مضارع کے مخاطب کے صیغوں  سے علامتِ مضارع  ‍‍حروف اتین میں سے حرف تاء حذف کر دیتے ہیں اب اس کے بعد والا حرف  یا متحرک ہو گا یا ساکن۔ متحرک ہو نے کی صورت میں ہمزۂ وصل لانے کی ضرورت نہیں ہوگی اور اسی بعد والے حرف کی حرکت کو برقرار رکھ کر آخری حرف کو ساکن کر دیا جائے گا جیسے  تُصَرِّفُ سے  صَرِّفْ؛تضارِب سے ضٰارِبْ وغیرہ اور ساکن ہونے کی صورت میں ہمزۂ وصل  لانے کی ضرورت ہو گی جیسے  تَنصُرُ سے اُنصُرْ ؛ تَضرِبُ  سے اِضْرِبْ؛تَعلَمُ  سے  اِعْلَمْ؛ تَسمَع سے اِسمَع۔

4

تطبیق: فصل امر مخاطب

"امر مخاطب را از فعل مستقبل مخاطب گیرند"

فعل  امر حاضر معلوم کو فعل مضارع حاضر معلوم سے بناتے ہیں، یعنی آپ یوں کہیں گے کہ فعل امر مخاطب، فعل مضارع(مستقبل) کے  چھ صیغوں سے بنتا ہے۔

و طريقه آن، آن است كه حرف مستقبل را كه تاء است ، از اوّل وى بيندازند"

 اس کے بنانے کا طریقہ یہ ہے   کہ حرف مستقبل (یعنی علامتِ مضارع) جیسے  تَضرِبُ، تَنصُرُ  اور  تَعلَمُ وغیرہ میں  تاء ہے، اس کے شروع سے حذف کردیں گے۔ اس کے بعد  فرماتے ہیں:

"اگر مابعد حرف مضارع متحرّك باشد ،احتياج به همزه نباشدو به همان حركت امر بنا كنند و حركت آخر ونون عوض رفع بيفتد به وقفى"

اگر  تائے مضارع کے بعد والا حرف متحرک ہے یعنی اس پر کوئی زبر ،زیر یا  پیش پہلے سے موجود ہے تو ہمزہ ابتدا میں لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ فعل امر اسی حرکت سے بناتے  ہیں اور  نون عوض رفع (یعنی نونِ اعرابی)   وقف کی وجہ سے گر جائے گی جیسے  تُصَرِّفُ سے صَرِّفْ بن جائے گا ۔باب تفعیل میں فعل مضارع حاضر کی گردان اس طرح کرتے تھے : تُصَرِّفُ، تُصَرِّفَانِ، تُصَرِّفُونَ، ان صیغوں سے جب تاء کو گرادیا اور آخر کو ساکن کردیا جائے تو بنے گا: صَرِّفْ، صَرِّفَا، صَرِّفُوا۔ وہ جو تثنیہ میں نون تھی وہ بھی گر جائے گی وقف کی وجہ سے اور تُصَرِّونَ  میں جو نون تھی وہ بھی گر جائے گی۔

"پس در باب تفعيل ، امر مخاطب بر اين وجه باشد"

پس باب تفعیل میں امر مخاطب اس طرح سے ہوگا: صَرِّفْ، صَرِّفَا، صَرِّفُوا، صَرِّفِي، صَرِّفَا، صَرِّفْن؛ اس لیے کہ صَرِّفْ اصل میں تُصَرِّفُ  تھا، اس سے علامتِ مضارع ( تاء)  کو گرادیتے ہیں اور امر کی وجہ سے آخری حرف کو ساکن کر دیتے ہیں لہٰذا  اس طرح صَرِّفْ بن جاتا ہے ۔

صَرِّفَااصل میں تُصَرِّفَانِ تھا جب تاء کو ہٹا دیا تو یہ بن گیا صَرِّفَانِ لیکن نون جوعوض رفع والی تھی وہ بھی اس وقف کی وجہ سے گر گئی تو یہ بن گیا صَرِّفَا  تثنیہ کا صیغہ ۔

وہاں پڑھتے تھے تُصَرِّفُونَ (جمع مذکر حاضر )اب اس کی تاء کو ہم یہاں گرا دیں گے تو یہ بنے گا صَرِّفُونَ اور نون وقف کی وجہ سے ساقط ہوجائے گی کیونکہ وہ نون اعرابی ہےلہٰذا صَرِّفُوا بن جائے گا۔

 صَرِّفْ، صَرِّفَا، صَرِّفُوا، فعل امر حاضر معلوم کے یہ تینوں صیغے  مذکّر کے ہیں۔

صَرِّفِي، صَرِّفَا، صَرِّفْنَ،  فعل امر حاضر معلوم کے یہ تینوں صیغےمؤنّث کے ہیں۔

  فعل مضارع معلوم میں مؤنّث کے ان تینوں صیغوں کی گردان اس طرح تھی: تُصَرِّفِينَ، تُصَرِّفْانَ، تُصَرِّفْنَ۔

 اب سوال یہ ہے کہ  تُصَرِّفِينَ سے صَرِّفِي کیسے بنا؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ   تُصَرِّفِينَ  سے علامتِ مضارع تاء اور وقف کی وجہ سے نون کو گرادیاجائے تو  صَرِّفِي بن جائے گا۔تثنیہ کا صیغہ  (صَرِّفَا)بھی اسی طرح بنے گا ۔

صَرِّفْنَ اصل میں تُصَرِّفنَ تھا، اس سے فقط تاء کو حذف کریں گے البتہ  یاد رہے کہ حرف نون باقی رہے گا، اسے حذف نہیں کیا جائے گا اس    لئے کہ  یہ نون جمع کی علامت ہے اور  علامت کو کبھی حذف نہیں کیا جاتالہٰذا صَرِّفْنَ بن جائے گا۔

باب مفاعَلہ میں مخاطب کے صیغے یہ ہیں: تُضَارِبُ، تُضَارِبَانِ، تُضَارِبُونَ، تُضَارِبِينَ، تُضَارِبَانِ، تُضَارِبْنَ ۔

 جب فعل امر بناتے ہوئے  ہم تاء کو ہٹاتے ہیں تو اس کے بعد (ضاد) پہلے سے ہی متحرک ہے لہٰذا  ہمیں ہمزہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے، باقی ترتیب وہی ہوگی جو صَرِّفْ میں تھی۔

 اسی طرح رباعی مجرد میں کیا تھا دَحرَجَ یُدَحرِجُ میں مستقبل کے مخاطب کے صیغے میں کیا تھا؟

 تُدَحرِجُ، تُدَحرِجَانِ، تُدَحرِجُونَ، تُدَحرِجِينَ، تُدَحرِجَانِ، تُدَحرِجْنَ، اب یہاں پر کیا کریں گے؟

 وہاں جب ہم تاء حرف مضارع کو ہٹاتے ہیں تو دال پہلے سے ہی متحرک ہے لہٰذا ہمیں ہمزہ  لگانے کی ضرورت نہیں اور آخر کو ساکن کر دیتے ہیں  پس  تُدَحرِجُ سے دَحرِجْ بن جائے گا : دَحرِجْ، دَحرِجَا، دَحرِجُوا، یہ تینوں مذکّر کے جبکہ دَحرِجِي، دَحرِجَا، دَحرِجْنَ مؤنّث کے صیغےہیں۔

مذکورہ صورت میں جب تائے مضارع کو گرایا تو اس کے بعدوالا حرف متحرک تھا لہٰذا ہمیں ہمزہ لانے  کی ضرورت نہیں تھی۔

"و اگر ما بعد حرف استقبال ساكن باشد"

اگر ہم فعل مضارع کے شروع سے حرف استقبال (تاء) کو ہٹا لیتے ہیں اوراس کے بعد جو حرف اصلی ہے وہ ساکن ہو  یعنی اس پر کوئی حرکت نہ ہو  جیسے تَضرِبُ میں(ضاد) ساکن ہے ، تَعلَمُ میں(عین) ساکن ہے، تَنصُرُ  میں(نون) ساکن ہے۔  اب کیا کریں؟  فرماتے ہیں:

"احتياج به همزه وصل افتد"

یعنی اس صورت میں ہمیں شروع میں ایک ہمزہ ٔوصل  اضافہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

"و اگر مابعد آن ساكن ضمّه باشد همزه را مضموم گردانند"

اگر اس حرف ساکن کے بعد والا حرف مضموم ہو جیسے تَنصُرُ  میں تاء کو حذف کیا، اس کے بعد والا حرف نون ساکن ہے، اس نون کے بعد والا حرف مضموم ہے تو ہمزہ کو بھی مضموم کردیتے ہیں۔

"و حركت آخر و نون عوض رفع را به وقفى بيندازند چون : اُنْصُرْ اُنْصُرٰا اُنْصُروا اُنْصُرى اُنْصُرٰا اُنْصُرْنَ"

آخر کی حرکت اور رفع کے بدل نون کو وقف کی وجہ سے گرادیتے ہیں اور اس طرح فعل امر حاضر معلوم کے چھ صیغے حاصل ہوتے ہیں:  اُنْصُرْ، اُنْصُرٰا، اُنْصُروا، اُنْصُرى، اُنْصُرٰا، اُنْصُرْنَ۔

"و اگر ما بعد حرف ساكن فتحه باشد يا كسره همزه را مكسور گردانند"

اگر اس ساکن کے بعد والے حرف پر فتحہ یا کسرہ ہو توہمزہ کو مکسور کردیتے ہیں جیسے  تَعلَمُ کے لام پر فتحہ ہے ، تَضرِبُ کی راء مکسور ہے، اس صورت میں ہمزہ کو مکسور کردیتے ہیں اور آخر پر ویسے ہی وقف آجائے گا تو پس اصل میں تھا: تَعْلَمُ، تَعْلَمَانِ، تَعْلَمُونَ، تَعْلَمِينَ، تَعْلَمَانِ، تَعْلَمْنَ اور فعل مضارع کے ان صیغوں سے فعل امر حاضر معلوم کے یہ چھ صیغے حاصل ہوں گے: اِعْلَمْ، اِعْلَمَا، اِعْلَمُوا، اِعْلَمِي، اِعْلَمَا، اِعْلَمْنَ۔

فعل مضارع کے چھ صیغوں تَضرِبُ، تَضرِبانِ، تَضرِبُونَ ، تَضرِبِينَ، تَضرِبانِ، تَضرِبْنَ  سے  فعل امر حاضر معلوم کے یہ چھ صیغے حاصل ہوں گے:اِضْرِبْ، اِضْرِبٰا، اِضْرِبوا، اِضْرِبى، اِضْرِبا، اِضْرِبْنَ۔ اِضْرِبٰا اور  اِضْرِبى میں موجود نون تثنیہ گر گئی  چونکہ وہ  رفع کے عوض میں   تھی لیکن   اِضْرِبْنَ کی نون برقرار ہے کیونکہ یہ  جمع مؤنّث کی علامت ہے۔

فرماتے ہیں :

"و چون همزه وصل متصل شود به ما قبل خود ، ساقط گردد در لفظ و ثابت باشد در عبارت فَاطْلُبْ ثُمَّ اطْلُبْ"

یاد رہے کہ ہمزہ کی دو قسمیں ہیں:

۱۔ہمزۂ وصل

۲۔ہمزۂ قطع

اب سوال یہ ہے کہ ان دو میں کیا فرق ہے؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمزۂ قطعی حروف اصلی میں سے ہوتا ہے جو کبھی ساقط نہیں ہوتا جبکہ ہمزۂ وصل اگر اس جملے یالفظ کو پچھلے جملے سے ملا دیا جائے تو پھر یہ ہمزہ وصل لکھا تو جاتا ہے لیکن پڑھنے میں نہیں آتا۔

مثال: اِعْلَمْ، اس مثال میں  ہمزہ پڑھا جا رہا ہے، اگر ہم اسی مثال میں ہمزہ سے پہلے ایک واو لگا دیں جیسے  وَاعْلَمْ تو پھر یہی ہمزہ لکھنے میں آئے گا لیکن  پڑھنے میں نہیں آئے گا۔

دوسری مثال:  اِضْرِبْ،اس مثال میں  ہمزہ  پڑھا جائے گا، اگر ہم اسی مثال میں ہمزہ سے پہلے ایک واو لگا دیں جیسے  وَاضْرِبْ تو پھر ہمزہ لکھنے میں آئے گالیکن پڑھنے میں نہیں آئے گا۔

مصنف ایک قانون بتا رہے ہیں کہ اگر ہمزہ ٔوصل اپنے ماقبل کے ساتھ متصل ہو جیسے ہم کہتے ہیں: بِسْمِ ٱللَّٰهِ ٱلرَّحْمٰنِ ، بسم اصل میں اسم ہے لیکن جب شروع میں  باء آگئی تو اب ہمزہ  نہیں پڑھتے۔

یاد رہے کہ اس مثال میں ہمزہ  کتابت میں کثرتِ استعمال کی وجہ سے ساقط ہوا ہے۔ 

لہٰذا آپ یہ ایک  قانون یاد کر لیں کہ ہر وہ لفظ جس کی ابتدا میں ہمزۂ  وصل ہو، جب اس لفظ کواس سے پہلے والے حرف  کے ساتھ ملایا جائے گا تو وہ ہمزۂ وصل  لکھنے میں تو آئے گا لیکن پڑھنے میں نہیں آئے گا جیسے فَاطْلُبْ  (فاء) پہلے آگئی تو اب یہاں پر ہمزہ نہیں  پڑھا جائے گا یا ثُمَّ اطْلُبْ  میں پہلے ثمّ آ گیاہے  تو اب ثُمَّ کے بعد ہمزہ نہیں پڑھا جا ئے گا۔

5

فصل: لازم اور متعدی

[یہ کتاب کی سولہویں فصل ہے۔ اس فصل میں فعل لازم اور متعدی کے بارے میں بحث کی گئی ہے ]۔

یہ ایک مختصر سی فصل ہے مصنف اس فصل میں فقط ایک بات بتانا چاہتے ہیں کہ تمام افعال  کی دو قسمیں ہیں :

۱۔ لازم

۲۔ متعدی

لازم وہ فعل ہے جو  فقط فاعل کے ساتھ مل کر تام ہو جائے یعنی آگے اس کے مفعول کو ذکر کرنے کی ضرورت نہ ہو جیسے  ذَهَبَ زَيْدٌ (زید گیا)؛  قَعَدَ عَمْروٌ  (عمرو بیٹھا)۔

متعدی فعل ہے جو فاعل کے ساتھ مکمل نہ ہو بلکہ اس کے ساتھ مفعول کو بھی بتانا پڑے جیسے  ضَرَبَ زيْدٌ عَمْرواً (زید نے عمرو کو مارا)۔

  تعدی یعنی گزرجانا، فعل متعدی وہ ہے جو  فاعل سے گزرجائے اور مفعول بہ تک پہنچے۔

6

تطبیق: فصل لازم اور متعدی

"مجموع افعال بر دو نوع بُوَد : لازم و متعدّى"

"لازم آن است كه فعل از فاعل تجاوز نكند وبه مفعولٌ به نرسد چون : ذَهَبَ زَيْدٌ و قَعَدَ عَمْروٌ"

لازم وہ فعل ہے جو اپنے فاعل سے آگے نہ بڑھے اور مفعول بہ تک نہ پہنچے یعنی یہ ایسا فعل ہے جس کے فاعل کو ذکر کرنے سے بات مکمل ہوجاتی ہے جیسے  ذَهَبَ زَيْدٌ ؛ اس مثال میں ذَهَبَ فعلِ لازم ہے اور زید اس کا فاعل ہے یعنی زید چلا گیا۔ اب یہاں مفعول بہ لانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔

دوسری مثال: قَعَدَ عَمْروٌ؛ اس مثال میں  قَعَدَ  فعلِ لازم ہے اور عَمرو اس کا فاعل ہے یعنی عمرو بیٹھا ، بیٹھ گیا۔

 قَعَدَ کے بعد مفعول بہ ذکر کرنے کی ضرورت  نہیں ہے؛ اس لئے کہ فعل اور فاعل کے ساتھ بات مکمل ہوگئی ہے۔ 

"و متعدّى آن است كه فعل از فاعل تجاوز كند و به مفعولٌ به برسد چون : ضَرَبَ زيْدٌ عَمْرواً"

متعدی: تعدی سے لیا گیا ہے۔ یہ لفظ اردو زبان میں بھی استعمال کیا جاتا ہے جیسے کہا جاتا ہے: فلاں شخص نے اپنی حد سےتجاوز کیا؛

فلاں شخص نے تعدی کی،آگے بڑھ گیا۔

اصطلاح میں متعدی وہ فعل ہے جو فاعل سے گزر جائے اور مفعول بہ تک پہنچے۔

دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ متعدی وہ فعل ہے کہ اگر اس کے ساتھ اس کا فاعل ذکر کیا جائے تو بات مکمل نہ ہو بلکہ مفعول بہ لانے کی ضرورت ہو جیسے: ضَرَبَ زيْدٌ عَمْرواً، اس مثال میں ضَرَبَ فعلِ متعدی ہے زيْدٌاس کا فاعل ہے  اور عَمْرواً اس کا مفعول بہ ہے۔ اگر  یوں کہا جائے کہ: ضَرَبَ زيْدٌ، یعنی زید نے مارا،  تو  بات مکمل نہیں ہوگی؛ اس    لئے کہ یہاں اس سوال کی گنجائش موجود ہے کہ زید نے کس کو مارا ؟

اس کے برعکس اگر یوں کہا جائے کہ:  ضَرَبَ زيْدٌ عَمْرواً یعنی زیدنے عمرو کو مارا، اس صورت میں مذکورہ سوال کی کوئی گنجائش نہیں ہے؛ اس لئے کہ مذکورہ تعبیر (ضَرَبَ زيْدٌ عَمْرواً) میں اس سوال کا جواب موجود ہے۔

خلاصہ یہ کہ تمام افعال کی دو قسمیں ہیں: لازم اور متعدی۔

اس کے بعد مصنٌف فعل لازم سے متعدی بنانے کا طریقہ بیان کر رہے ہیں:

"و لازم را به همزه باب افعال و تضعيف عين باب تفعيل و باىِ حرف جرّ ، متعدّى سازند چون «اَذْهَبْتُ زَيْداً» و «فَرَّحْتُهُ وذَهَبْتُ بِهِ»"

 فعل لازم کو مندرجہ ذیل تین طریقوں سے متعدی بنایا جا سکتا ہے:

۱۔فعل لازم  کے شروع میں ہمزہ لایا جائے یعنی فعل لازم کو بابِ اِفعال میں لے جایا جائے جیسے: ذَهَبَ، یہ ثلاثی مجرد سے فعل لازم ہے، 

 اگر ہم اسے متعدی بنانا چاہیں تو اسے ثلاثی مزید فیہ کے بابِ اِفعال یعنی  اَذهَبَ میں لے جائیں گے، مثال: اَذْهَبْتُ زَيْداً ، یعنی میں زید کو لے گیا/ میں نے زید کو روانہ کیا۔

۲۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس کو باب تفعیل میں تبدیل کر دیں یعنی اس کے  عین کلمے کو مشدّد کر دیں جیسے:فَرَّحَ یعنی راء کو مشدّد کر دیں، مثال: فَرَّحْتُهُ یعنی میں نے اس کو مسرور کیا۔

۳۔  تیسرا طریقہ یہ ہے کہ فعل لازم کے بعد حرف جر (باء) کا اضافہ کیا جائے تووہ لازم متعدی بن جائے گا جیسے : ذَهَبَ زيْدٌ کو آپ اگر پڑھیں  ذَهَبتُ بزيْدٍ۔اس مثال میں یہ فعل متعدی کا معنی دے رہا ہے نہ کہ لازم کا، یعنی  میں زید کو لے گیا۔

وَ صَلَّی اللَهُ عَلیٰ سَیَِدِنا مُحَمَّدٍ وَ آل مُحَمَّدٍ۔

«زَيْدٌ يَنْصُرُ» اَىْ هو و «هِنْدٌ تَنْصُرُ» اَىْ هى.

فصل :

چون بر فعل مستقبل ، حروف ناصبه درآيد (يعنى اَنْ و لَنْ و كَىْ و اِذَنْ) منصوب گردد چون اَنْ اَطْلُبَ و لَنْ اَطْلُبَ و كَىْ اَطْلُبَ و اِذَنْ اَطْلُبَ. و نونهايى كه عوض رفع بودند به نصبى ساقط شوند چون لَنْ يَطْلُبٰا و لَنْ يَطْلُبُوا و لَنْ تَطْلُبٰا و لَنْ تَطْلُبُوا و لَنْ تَطْلُبِى. و نون يَطْلُبْنَ و تَطْلُبْنَ به حال خود باشد.

و چون در فعل مستقبل حروف جازمه درآيد حركت آخر در پنج لفظ كه آن يَطْلُبُ (غايب مذكّر است) وتَطْلُبُ (غايبه مؤنّث و هم مخاطب مذكّر است) و اَطْلُبُ و نَطْلُبُ (كه دو حكايت نفس متكلّم است) به جزمى بيفتد. و حروف جازمه پنج است :

لَمْ و لَمّا و لٰام امر و لٰاىِ نهى و اِنْ شرطيّه چنانكه گويى لَمْ يَنْصُرْ لَمْ يَنْصُرٰا لَمْ يَنصُرُوا تا آخر و لَمّا يَنْصُرْ و لمّا يَنْصُرٰا و لمّا يَنصُروا تا آخر و لٰا يَنْصُرْ و لٰا يَنْصُرٰا و لٰا يَنْصُروا تا آخر و اِنْ يَنْصُر اِنْ يَنْصُرٰا اِنْ يَنْصُروا تا آخر. و نونهايى كه عوض رفع بودند ساقط شوند به جزمى و لام امر در شش غايب و غايبه داخل شود چنانكه گويى لِيَنْصُرْ لِيَنْصُرا لِيَنْصُروا لِتَنْصُرْ لِتَنْصُرٰا لِيَنْصُرْنَ و اين را امر غايب خوانند و در دو صيغه متكلّم نيز داخل شود چون لِاَنْصُرْ لِنَنْصُرْ.

فصل :

امر مخاطب را از فعل مستقبل مخاطب گيرند و طريقه آن آن است كه حرف مستقبل را كه تاء است ، از اوّل وى بيندازند اگر مابعد

حرف مضارع متحرّك باشد احتياج به همزه نباشد و به همان حركت امر بنا كنند و حركت آخر ونون عوض رفع بيفتد به وقفى.

پس در باب تفعيل ، امر مخاطب بر اين وجه باشد : صَرِّفْ صَرِّفٰا صَرّفُوا صَرِّفي ، صَرِّفٰا ، صَرِّفْنَ و در باب مفاعله گويى : ضٰارِبْ ضٰارِبٰا ضٰارِبُوا ضٰارِبي ضٰارِبٰا ضٰارِبْنَ و در باب فَعْلَلَ گوئى : دَحْرِجْ دَحْرِجٰا دَحْرِجوا دَحْرِجى دَحْرجا دَحْرِجْنَ.

و اگر ما بعد حرف استقبال ساكن باشد ، احتياج به همزه وصل افتد و اگر مابعد آن ساكن ضمّه باشد همزه را مضموم گردانند و حركت آخر و نون عوض رفع را به وقفى بيندازند چون : اُنْصُرْ اُنْصُرٰا اُنْصُروا اُنْصُرى اُنْصُرٰا اُنْصُرْنَ و اگر ما بعد حرف ساكن فتحه باشد يا كسره همزه را مكسور گردانند و آخر را موقوف سازند چون : اِعْلَمْ اِعْلَمٰا اِعْلَمُوا اِعْلَمى اِعْلَمٰا اِعْلَمْنَ و اِضْرِبْ اِضْرِبٰا اِضْرِبوا اِضْرِبى اِضْرِبا اِضْرِبْنَ. و چون همزه وصل متصل شود به ما قبل خود ، ساقط گردد در لفظ و ثابت باشد در عبارت ، چون : فَاطْلُبْ ثُمَّ اطْلُبْ.

فصل :

مجموع افعال بر دو نوع بُوَد : لازم و متعدّى. لازم آن است كه فعل از فاعل تجاوز نكند وبه مفعولٌ به نرسد چون : ذَهَبَ زَيْدٌ و قَعَدَ عَمْروٌ ، و متعدّى آن است كه فعل از فاعل تجاوز كند و به مفعولٌ به برسد چون : ضَرَبَ زيْدٌ عَمْرواً.

و لازم را به همزه باب افعال و تضعيف عين باب تفعيل و باىِ

حرف جرّ ، متعدّى سازند (١) چون «اَذْهَبْتُ زَيْداً (٢)» و «فَرَّحْتُهُ وذَهَبْتُ بِهِ (٣)».

فصل :

بدانكه فعل بر دو نوع بُوَد : معلوم (٤) و مجهول (٥). معلوم آن است كه از براى فاعل بنا كنند چون نَصَرَ زَيْدٌ. و مجهول آن است كه از براى مفعول بنا كنند چون نُصِرَ زَيْدٌ.

و چون فعل را از براى فاعل بنا كنند در ماضى ثلاثى مجرد فاء

____________________________

(١) متعدّى در لغت مطلق گذرنده را گويند و در اصطلاح آنست كه فعل از فاعل گذشته و به مفعول به برسد.

(٢) اَذْهَبْتُ زيداً در اصل ذَهَبَ زَيْدٌ بود ، لازم بود ، خواستيم متعدّيش بنا كنيم ، برديم به باب افعال ، قاعده باب افعال را بر وى جارى كرديم ، اَذْهَبَ شد ، تاء كه ضمير فاعل بود در آخر اَذهب آورديم و از زيد لباس فاعليّت را كه رفع باشد بركنديم و لباس مفعوليّت كه نصب باشد بر او پوشانديم اَذْهَبْتُ زيداً شد ، اوّل معنايش چنان بود كه رفته است زيد ، حالا معنايش چنان است كه فرستادم من زيد را.

(٣) ذَهَبْتُ بِهِ در اصل ذَهَبَ زيدٌ بود ، فعل لازم بود ، خواستيم متعدّيش بنا كنيم به سبب حرف جرّ ، باء كه حرف جرّ بود بر سر زيد درآورديم و تاى مضمومه كه ضمير فاعل بود در آخر ذَهَبَ آورديم ذَهَبْتُ بزيدٍ شد ، زيد كه اسم ظاهر بود انداختيم و هاء كه ضمير مفعول بود به جاى وى گذاشتيم ذَهَبْتُ بِهِ شد ، اوّل ، معنايش چنان بود كه رفته است زيد و حالا معنايش چنان است كه فرستادم من او را.

(٤) بدانكه قاعده معلوم در ماضى آن است كه اوّل را يا اوّل متحرك منه را با آخرش مفتوح كنند و قاعده معلوم در مضارع آن است كه حرف اَتيْنَ را مفتوح كنند مگر در باب افعال و تفعيل و مفاعله و فَعْلَلَ كه در آنها علامت معلوم مكسور بودن ماقبل آخر آنهاست.

(٥) قاعده مجهول در ماضى آن است كه در شش باب ثلاثى مجرّد و در چهار باب افعال و تفعيل و مفاعله و فَعْلَلَ اوّلش را ضمّه و ماقبل آخرش را كسره دهند و در سه باب كه تفعّل و تفاعل و تفعلل است تاء را با فاء الفعل ضمّه دهند و ماقبل آخر را كسره و در هفت باب همزه ها را با اوّل متحرّك منه ضمّه و ماقبل آخر را كسره دهند.