درس صرف میر

درس نمبر 5: فعل رباعی مجرد اور مزید فیه / اسم کی اقسام

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

فعل رباعی مجرد کی تطبیق

"فصل:فعل رباعی مجرّد را یک بناست چنانکه مذکور شد و مستقبل او نیز یکی است چون : فَعْلَلَ یُفَعْلِلُ فَعْلَلَةً و فِعْلالاً چون دَحْرَجَ یُدَحرِجُ دَحْرَجَةً و دِحْرَاجاً"

فعل رباعی مجرد: جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ فعل ثلاثی مجرد کا ماضی معلوم ان تین اوزان: فَعَلَ،  فَعِلَ اور فَعُلَ میں سے کسی ایک وزن پر  ہوتا ہے، لیکن رباعی مجرد  معلوم کا فقط ایک ہی وزن ہے اور وہ  ہےــ: فَعْلَلَ۔ اس کا مضارع معلوم یُفَعْلِلُ کے وزن پر اور مصدر  فَعْلَلَةً   اور فِعْلالاً کے وزن پر ہوتا ہے،مثلا  دَحْرَجَ، یُدَحرِجُ، دَحْرَجَةً و دِحْرَاجاً ۔

 دَحْرَجَ میں  دال، حاء، راء اور جیم اصلی حروف ہیں۔ان حروف  میں کوئی حرف بھی زائد نہیں ہے۔

4

فعل رباعی مجرد

یہ کتاب کی ساتویں فصل ہے۔ یہ فصل، فعل رباعی مجرد اور رباعی مزید فیہ کے ابواب کے بارے میں ہے۔

"فصل:فعل رباعی مجرّد را یک بناست چنانکه مذکور شد و مستقبل او نیز یکی است چون : فَعْلَلَ یُفَعْلِلُ فَعْلَلَةً و فِعْلالاً چون دَحْرَجَ یُدَحرِجُ دَحْرَجَةً و دِحْرَاجاً و مزید فیه وی سه باب است"

ہم نے گزشتہ ایک فصل میں بیان کیاتھا کہ اسم، ثلاثی، رباعی اور خماسی بھی ہوتاہے، جبکہ فعل فقط ثلاثی یا رباعی ہوتاہے۔ فعل، خماسی نہیں ہوتا؛ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جتنے بھی افعال ہیں ان کے اصلی حروف تین یا چار ہوتے ہیں، اس سے زائد نہیں ہوتے۔

فعل رباعی مجرد: ہم نے کہا تھا کہ فعل ثلاثی مجرد کا ماضی معلوم ان تین اوزان: فَعَلَ،  فَعِلَ اور فَعُلَ میں سے کسی ایک وزن پر  ہوتا ہے، لیکن رباعی مجرد  معلوم کا فقط ایک ہی وزن ہے اور وہ  ہےــ: فَعْلَلَ۔ اس کا مضارع معلوم یُفَعْلِلُ کے وزن پر اور مصدر  فَعْلَلَةً   اور فِعْلالاً کے وزن پر ہوتا ہے،مثلا  دَحْرَجَ، یُدَحرِجُ، دَحْرَجَةً و دِحْرَاجاً ۔

 دَحْرَجَ میں  دال، حاء، راء اور جیم اصلی حروف ہیں۔ان حروف  میں کوئی حرف بھی زائد نہیں ہے۔

جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ ثلاثی مجرد کے چھ اور  ثلاثی مزید فیہ کے دس  ابواب ہیں۔اب یہ سوال ہو سکتا ہے کہ رباعی مجرد اور  مزید فیہ   کے کتنے  باب ہیں؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ رباعی مجرد کا ایک ہی باب ہے اور  رباعی مزید فیہ کے تین ابواب ہیں۔

اس لیے کہ اگر فعل رباعی حرف زائد سے خالی ہو تو اسے رباعی مجرد کہتے ہیں لیکن اگر اس میں حرف زائد ہو تو اسے رباعی مزید فیہ کہتے ہیں۔ اب اگر  ایک حرف زائد ہو تو اس سے ایک باب بنتا ہے اور اگر دو حروف زائد ہوں تو اس سے رباعی مزید فیہ کے دو ابواب بنتے ہیں۔ 

5

رباعی مجرد کی تطبیق

"فعل رباعى مجرّد را يك بناست چنانكه مذكور شد و مستقبل او نيز يكى است چون :فَعْلَلَ يُفَعْلِلُ فَعْلَلَةً و فِعْلالاً چون دَحْرَجَ يُدَحرِجُ دَحْرَجَةً و دِحْرَاجاً"

فعل رباعی مجرد کی ایک بناء  ہے اور اس کا مستقبل بھی ایک وزن پر آتا ہے جیسے  فَعْلَلَ، یُفَعْلِلُ، فَعْلَلَةً اور  فِعْلالاً ۔

اس باب کے دو مصدر ہیں جن میں سے ایک فَعْلَلَةً اور دوسرا  فِعْلالاً کے وزن پر آتا ہے۔

6

رباعی مزید فیه کے تین ابوب

"و مزید فیه وی سه باب است باب تَفَعْلُل،تَفَعْلَلَ يَتَفَعْلَلُ تَفَعْلُلاً چون تَدَحْرَجَ يَتَدَحْرَجُ تَدَحْرُجاً و در ماضى اين باب يك حرف زايداست"

رباعی مزید فیہ کے تین ابواب ہیں۔

پہلا باب: باب تَفَعْلُل ، تَفَعْلَلَ، یَتَفَعْلَلُ، تَفَعْلُلاً جیسے  تَدَحْرَجَ، یَتَدَحْرَجُ، تَدَحْرُجاً۔

تدحرج میں  دال، حاء، راء اورجیم حروف اصلی ہیں اور شروع میں آنے والی تاء حرف زائد ہے۔

"باب اِفعنلال ، اِفْعَنْلَلَ يَفْعَنْلِلُ اِفعِنْلٰالاً چون اِحْرَنْجَمَ يَحْرَنْجِمُ اِحْرِنْجٰاماً"

دوسرا باب: باب اِفعنلال، اِفْعَنْلَلَ یَفْعَنْلِلُ اِفعِنْلالاً جیسے اِحْرَنْجَمَ یَحْرَنْجِمُ اِحْرِنْجاماً۔

اِفْعَنْلَلَ میں فاء،عین اور دو لام اصلی ہیں اور شروع  میں آنے والا ہمزہ اور نون زائد ہیں،اس میں دو حرف زائد ہیں۔

"باب اِفْعِلْلٰال ، اِفْعَلَلَّ يَفْعَلِلُّ اِفْعِلْلٰالاً چون اِقْشَعَرَّ يَقْشَعِرُّ اِقْشِعْرٰاراً و در ماضى هر يك از اين دو باب دو حرف زايد است"

تیسرا باب: باب اِفْعِلْلال : اِفْعَلَلَّ یَفْعَلِلُّ اِفْعِلْلالاً جیسے اِقْشَعَرَّ یَقْشَعِرُّ اِقْشِعْراراً۔

اب اِفْعَلَلَّ میں فاء، عین اور  دو لام اصلی حروف ہیں لیکن دوسری لام مشدد ہے، مشدد کا مطلب ہے یہاں  دو لام نہیں بلکہ تین لام ہیں یعنی اس میں ایک لام اور شروع میں آنے والا ہمزہ دونوں زائد حروف ہیں۔

اِقْشَعَرَّـ : اس میں قاف،شین، عین، اور رائے مشدد اصلی حروف شمار ہوتے ہیں۔ایک راءاصلی حروف میں سے ہے جبکہ  دوسری راء

اور شروع میں آنے والا ہمزہ دونوں زائد حروف ہیں۔پس معلوم ہوا کہ ان دونوں ابواب:  اِفعنلال اور اِفْعِلْلٰال کے ماضی میں دو حروف زائد  ہیں۔

یاد رہے کہ مجموعی طور پر  فعل ثلاثی مجرد کے چھ اور فعل ثلاثی مزید فیہ کے دس ابواب ہیں جبکہ رباعی مجرد کا ایک باب اور رباعی مزید فیہ کے تین ابواب ہیں۔

7

فصل: اسم کی اقسام: مصدر، غیر مصدر

 [یہ کتاب کی آٹھویں فصل ہے۔ یہ فصل اسم کی اقسام کے بارے میں ہے، اس  میں اسم کی دو اقسام بیان کی گئی ہیں: ۱۔ اسم ذات؛ ۲۔ اسم معنیٰ ]۔

اس کے بعد  ایک اور بحث شروع ہو رہی ہے:

اسم کی دو قسمیں ہوتی ہیں: ۱۔مصدر؛ ۲۔ غیر مصدر۔

 اس مطلب کو یوں بھی بیان کیا جاتاہے کہ اگراسم کی دلالت کسی حَدَث پر ہو تو اسے مصدر  یا اسم معنیٰ کہتے ہیں اور اگر اسم کی دلالت ذات پر ہو تو اسے غیر مصدر یا  اسم ذات کہتے ہیں،مثلا زَیدٌ اور  اَلضّربُ یا ضَربٌ دونوں اسم ہیں، لیکن ان دونوں میں فرق  یہ ہے کہ ضَربٌ حَدَث پر دلالت کررہا ہے،جیسے: اَلقَتلُ، قتل کرنا، یہ ایک حَدَث ہے یعنی فعل (کام )ہے، اَلشُّربُ، پینا، شُربٌ ایک حَدَث ہے یعنی فعل (کام )ہے، اَلاَکلُ، کھانا یہ ایک حَدَث ہے یعنی فعل (کام )ہے لیکن زید ایک شخص یا ذات پر دلالت کرتا ہے، اس بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ اسم کی دلالت کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں:

۱۔ اسم ذات (ذات پر دلالت کرتا ہے، حدث پر دلالت نہیں کرتا)؛ 

۲۔ اسم معنی  (حدث پر دلالت کرتا ہے، اسم ذات پر دلالت نہیں کرتا)  اسے مصدر بھی کہتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ مصدر اصل ہوتا ہے اور اس سے مندرجہ ذیل چیزیں نکلتی ہیں:

۱۔  فعل ماضی؛

۲۔ فعل مضارع؛

۳۔اسم فاعل؛

۴۔ اسم مفعول؛

۵۔ فعل امر؛

۶۔ فعل نہی؛

۷۔ نفی؛

۸۔ جحد؛

۹۔ استفہام؛

۱۰۔ اسم آلہ؛

۱۱۔اسم ظرف (اسم زمان اور اسم مکان)۔ 

عربی زبان کے مصدر کی پہچان فارسی اور اردو زبان میں کس طرح سے ہے؟

 فارسی زبان میں مصدر کی علامت یہ ہے کہ اس کے آخر میں  دال اور  نون یا تاء اور نون ہوتے ہیں۔جبکہ اردو زبان میں مصدر  کی علامت یہ ہے کہ اس کے آخر میں نون اور الف ( نا) ہوتا ہے۔

مثالیں:

اَلضّربُ: فارسی زبان میں اس عربی مصدر کا معنیٰ زدن ہے جبکہ اردو زبان میں اس کا معنیٰ مارنا ہے۔

اَلقَتلُ: فارسی زبان میں اس عربی مصدر کا معنیٰ کُشتَن ہے جبکہ اردو زبان میں اس کا معنیٰ جان سے مارنا یا قتل کرناہے۔

اَلشُّربُ: فارسی زبان میں اس عربی مصدر کا معنیٰ نوشیدن ہے جبکہ اردو زبان میں اس کا معنیٰ  پیناہے۔

اَلاَکلُ:فارسی زبان میں اس عربی مصدر کا معنیٰ خوردن ہے جبکہ اردو زبان میں اس کا معنیٰ کھاناہے۔

"فصل: بدانکه اسم بر دو قسم است : مصدر و غیر مصدر "

 اسم کی دو قسمیں ہیں مصدر اور غیر مصدر۔

"مصدر آن است که در آخر معنی فارسی وی تا و نون یا دال و نون باشد،مثل اَلقَتْلُ:  به معنى كشتن، و الضّرب:  به معنى زدن"

مصدر وہ ہے جس کے فارسی زبان میں معنیٰ کے آخر میں  دال اور  نون یا تاء اور نون ہوتے ہیں، جیسے: اَلقَتْلُ یعنی کُشتَن اور اَلضَّربُ  یعنی زدن۔ 

یاد رہے کہ اردو زبان میں مصدر  کی علامت یہ ہے کہ اس کے آخر میں نون اور الف ( نا) ہوتا ہے، مثال: لکھنا، پڑھنا، کھانا، پینا، آنا، جانا، اٹھنا، بیٹھنا وغیرہ۔

"و فعل ماضی و مضارع و امر و نهی و اسم فاعل و اسم مفعول و اسم آلت و اسم زمان و مکان همه از مصدر مشتقّ اند"

 فعل ماضی، فعل مضارع، فعل امر ، فعل نہی، اسم فاعل، اسم مفعول، اسم آلہ، اسم زمان اور مکان؛ یہ سب مصدر سے مشتق  ہیں۔

وَ صَلَّی اللَهُ عَلیٰ سَیَِدِنا مُحَمَّدٍ وَ آل مُحَمَّدٍ۔

هر يك از اين پنج باب دو حرف زايد است.

باب اِستفعال ، اِسْتَفْعَلَ يَسْتَفعِلُ اِسْتِفْعٰالًا چون اِسْتَخْرَجَ (١) يَسْتَخْرِجُ اِسْتِخراجاً.

باب افعيلال ، اِفْعالَّ يَفْعٰالُّ اِفعيلٰالاً چون اِحْمٰارَّ (٢) يَحْمٰارُّ اِحْميرٰاراً و در ماضى هريك از اين دو باب سه حرف زايد است.

فصل :

فعل رباعى مجرّد را يك بناست چنانكه مذكور شد و مستقبل او نيز يكى است چون :

فَعْلَلَ يُفَعْلِلُ فَعْلَلَةً و فِعْلالاً چون دَحْرَجَ يُدَحرِجُ دَحْرَجَةً و دِحْرَاجاً و مزيد

____________________________

(١) در اصل خَرَجَ بود ، فعل ثلاثى مجرّد بود ، خواستيم كه فعل ثلاثى مزيد فيه اش بنا كنيم ، برديم به باب استفعال قاعده باب استفعال را بر وى جارى كرديم ، قاعده باب استفعال آن بود كه : هر فعل ثلاثى مجرّدى را كه بر آن باب مى برند همزه وصل مكسورى با سين ساكن و تاىِ مفتوحه منقوطه اى در اوّلش درآورند و فاء الفعلش را ساكن كنند و عين الفعل را مفتوح كنند اگر مفتوح نباشد ، ما هم چنين كرديم خَرَجَ اِسْتَخْرَجَ شد يعنى طلب خروج كرده است يكمرد غايب در زمان گذشته.

(٢) اِحْمارَّ در اصل حَمُرَ بود ، فعل ثلاثى مجرد بود ، ما خواستيم فعل ثلاثى مزيد فيه اش بنا كنيم ، برديم به باب افعيلال قاعده باب افعيلال را بر وى جارى نموديم ، قاعده باب افعيلال آن است كه : هر فعل ثلاثى مجرّدى را كه به آن باب مى برند همزه وصل مكسورى در اوّلش درآورند وفاء الفعلش را ساكن نمايند و الف ساكنى ميانه فاء الفعل و عين الفعلش درآورند و لام الفعل را مفتوح و مكرّر كنند ، ما هم چنين كرديم حَمُرَ اِحْمارَرَ شد ، اجتماع حرفين متحركين متجانسين ، شرط ادغام موجود بود و «راء» اول را ساكن كرده در ثانى ادغام نموديم اِحْمارَّ شد ، يعنى بسيار قرمز شده است يكمرد غايب در زمان گذشته ، و باب اِفعِلال و اِفْعِلْلال را با همين راهنمايى نيز مى شود ساخت.

فيه وى سه باب است (١).

باب تَفَعْلُل ، تَفَعْلَلَ يَتَفَعْلَلُ تَفَعْلُلاً چون تَدَحْرَجَ يَتَدَحْرَجُ تَدَحْرُجاً و در ماضى اين باب يك حرف زايد است.

باب اِفعنلال ، اِفْعَنْلَلَ يَفْعَنْلِلُ اِفعِنْلٰالاً چون اِحْرَنْجَمَ يَحْرَنْجِمُ اِحْرِنْجٰاماً.

باب اِفْعِلْلٰال ، اِفْعَلَلَّ يَفْعَلِلُّ اِفْعِلْلٰالاً چون اِقْشَعَرَّ يَقْشَعِرُّ اِقْشِعْرٰاراً و در ماضى هر يك از اين دو باب دو حرف زايد است.

فصل :

بدانكه اسم بر دو قسم است : مصدر و غير مصدر ، مصدر آن است كه در آخر معنى فارسى وى تا و نون يا دال و نون باشد مثل القَتْل ( به معنى كشتن ) و الضّرب ( به معنى زدن ) و فعل ماضى و مضارع و امر و نهى و اسم فاعل و اسم مفعول و اسم آلت و اسم زمان و مكان همه از مصدر مشتقّ‌اند.

فصل :

باب فَعَلَ يَفْعُلُ النّصر ( يارى كردن ) ماضى وى ، چهارده مثال بود شش مغايب و مغايبه را بود و شش مخاطب و مخاطبه را و دو حكايت نفس متكلّم را. آن شش كه مغايب را بود سه مذكّر را بود و سه مؤنّث را ، آن سه كه مذكّر را بود چون : نَصَرَ نَصَرٰا نَصَرُوا و آن سه كه مؤنّث را بود چون : نَصَرَتْ نَصَرَتٰا نَصَرْنَ و آن شش كه مخاطب را بود سه

____________________________

(١) فعل مجرّد (ثلاثى ، رباعى) از مصدر ، و مصدر مزيد فيه ، از فعل ، مشتق و گرفته مى شود.