درس صرف میر

درس نمبر 7: فعل ماضی اور مضارع کی علامتیں

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

فصل: فعل ماضی کی علامتیں

[یہ کتاب کی بارہویں فصل ہے۔ یہ فصل، فعل ماضی کے صیغوں کی علامات اور ان میں فاعل کی ضمیروں سے متعلق ہے]۔

یہ دونوں فصلیں (یہ فصل اور اس کے بعد آنے والی فصل ) فعل ماضی اور فعل مضارع کی علامات اور ان میں فاعل کی ضمیروں سے متعلق ہیں یعنی ان دونوں فصلوں کا تعلق گزشتہ درس کے ساتھ ہے۔ ہم نے گزشتہ درس میں بیان کیاتھا کہ فعل ماضی اور فعل مضارع میں سے ہر ایک کے چودہ  صیغے  ہیں۔ 

فعل ماضی معلوم کے چودہ صیغوں کی علامات اور ان میں فاعل کی ضمیروں کی وضاحت کی جاتی ہےـ:​ 

1. نَصَرَ: یہ فعل ماضی معلوم کا پہلا صیغہ ہے، اسے مفرد مذکر غائب کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا فاعل، اسم ظاہر اور ضمیر کی صورت میں آتا ہے، جیسے نَصَرَ عَلِیٌّ مُحَمّداً ، یعنی علی نے محمد کی مدد کی۔اس مثال  میں نَصَرَ  ،فعل ماضی مفرد مذکر  غائب کا صیغہ ہے؛ عَلِیٌّ اسی فعل کا فاعل اوراسم  ظاہر ہے لیکن اگر یوں کہا جائے کہ: عَلِیٌّ نَصَرَ مُحَمّداً،تو اس میں  نَصَرَ  کا فاعل، ایک مفرد مذکر غائب کی ضمیر  (ھُوَ) ہے اور یہ ضمیر مستَتِر ( پوشیدہ، چھپی  ہوئی) ہے۔

2.  نَصَرا:  یہ فعل ماضی معلوم کادوسرا صیغہ ہے، اسے تثنیہ  مذکر غائب کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس فعل میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں جبکہ الف  تثنیہ مذکر کی علامت اور فاعل کی ضمیر بھی ہے۔

3.  نَصَرُوا:  یہ فعل ماضی معلوم کاتیسرا صیغہ ہے، اسےجمع مذکر غائب کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس فعل میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں جبکہ واو جمع  مذکر کی علامت اور فاعل کی ضمیر بھی ہے، اس فعل کے آخری حرف (راء) پر ضمہ فاعل کی ضمیر (واو) کی مناسبت سے ہے۔

4.  نَصَرَتْ:  یہ فعل ماضی معلوم کا چوتھا صیغہ ہے، اسے مفرد مؤنث غائبہ کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔اس فعل میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں جبکہ تائے ساکنہ فعل کے مؤنث ہونے علامت ہے لیکن فاعل کی ضمیر نہیں ہے۔اس کا فاعل اسم ظاہر اور ضمیر کی صورت میں آتا ہے، جیسے  نَصَرَتْ فاطِمَةُ  مُحَمّداً ، یعنی فاطمہ نے محمد کی مدد کی۔اس مثال  میں نَصَرَتْ فعل ماضی مفرد مؤنث  غائبہ کا صیغہ ہے؛ فاطمہ اسی فعل کا فاعل اوراسم  ظاہر ہے لیکن اگر یوں کہا جائے کہ:  فاطِمَةُ نَصَرَتْ مُحَمّداً،تو اس مثال میں  نَصَرَتْ   کا فاعل، مفرد مؤنث غائبہ کی ضمیر  (ھِیَ) ہے اور یہ ضمیر مستَتِر ( پوشیدہ، چھپی  ہوئی) ہے۔

 5. نَصَرتٰا:  یہ فعل ماضی معلوم کا پانچواں صیغہ ہے، اسے تثنیہ  مؤنث غائبہ کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں جبکہ الف تثنیہ مؤنث  کی علامت اور فاعل کی ضمیر بھی ہے۔

6.  نَصَرْنَ: یہ فعل ماضی معلوم کا چھٹا صیغہ ہے، اسے جمع مؤنث غائبہ کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں۔ نون مفتوحہ جمع مؤنث  کی علامت اور فاعل کی ضمیر بھی ہے۔

7.  نَصَرْتَ: یہ فعل ماضی معلوم کا ساتواں صیغہ ہے، اسے مفرد مذکر مخاطب  کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں۔ تائے مفتوحہ مفرد مذکر مخاطب  کی علامت اور فاعل کی ضمیر بھی ہے۔

8. نَصَرْتُمٰا:  یہ فعل ماضی معلوم کا آٹھواں صیغہ ہے، اسے تثنیہ  مذکر مخاطب کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں جبکہ تُما تثنیہ مذکر مخاطب  کی ضمیر اور فاعل بھی ہے۔

9.  نَصَرْتُم:  یہ فعل ماضی معلوم کا نواں صیغہ ہے، اسےجمع مذکرمخاطب کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس فعل میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں جبکہ تُم جمع  مذکر  مخاطب کی ضمیر اور فاعل بھی ہے۔

10.  نَصَرْتِ یہ فعل ماضی معلوم کا دسواں صیغہ ہے، اسے مفرد مؤنث مخاطبہ کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔اس فعل میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں۔ تائے مکسورہ فعل کے مفرد مؤنث مخاطبہ ہونے کی علامت اور  فاعل بھی ہے۔

11. نَصَرْتُمٰا:  یہ فعل ماضی معلوم کا گیارہواں صیغہ ہے، اسے تثنیہ مؤنث مخاطبہ کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں جبکہ تُما تثنیہ مؤنث مخاطبہ  کی ضمیر اور فاعل بھی ہے۔

12.  نَصَرْتُنَّیہ فعل ماضی معلوم کا بارہواں صیغہ ہے، اسے جمع مؤنث مخاطبہ کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں جبکہ  تُنَّ جمع مؤنث مخاطبہ  کی ضمیر اور فاعل بھی ہے۔

13.  نَصَرْتُ:  یہ فعل ماضی معلوم کا تیرہواں صیغہ ہے، اسے مفرد مذکر متکلم/مفرد مؤنث متکلم  کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں جبکہ تائے مضمومہ مفرد مذکر متکلم/ مفرد مؤنث متکلم کی ضمیر  اور فاعل بھی ہے۔

14. نَصَرْنٰا:  یہ فعل ماضی معلوم کاچودھواں صیغہ ہے، اسے جمع مذکر متکلم/ جمع مؤنث متکلم ؛ نیز   تثنیہ مذکر متکلم /  تثنیہ مؤنث متکلم کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ نَصَرْنٰا میں نا متکلم مع الغیر یا جمع متکلم کی ضمیر  اور فاعل بھی ہے۔

بہرحال اس فصل میں ہمیں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ فعل ماضی معلوم میں الف، واو،   تائےساکنہ، نون مفتوحہ اور  تائےمتحرکہ (تائے مفتوحہ، تائے مکسورہ اور تائے مضمومہ) وغیرہ سے کیا مراد ہے اور کس چیز کی علامات ہیں۔ 

4

فصل: فعل مضارع کی علامتیں

[یہ کتاب کی بارہویں فصل ہےجس میں فعل مضارع کے صیغوں کی علامات اور ان میں فاعل کی ضمیروں سے متعلق بحث کی گئی  ہے]۔

جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ فعل مضارع کے چودہ صیغے ہیں جیسے  يَنْصُرُ،  يَنْصُرٰانِ،  يَنْصُرُونَ،  تَنْصُرُ، تَنْصُرٰانِ،  يَنْصُرْن...

یاد رہے کہ فعل مضارع معلوم کا پہلا صیغہ، فعل ماضی معلوم کے پہلے صیغے سے بنتا ہے جبکہ فعل مضارع کے دیگر صیغے فعل مضارع کے پہلے صیغے سے بنتے ہیں لہٰذا نَصَرَ جو کہ فعل ماضی معلوم کا پہلا صیغہ ہے، اس  پہلے صیغے کی ابتدا میں یائے مفتوحہ لائیں گے ، فاء الفعل کو ساکن اور عین الفعل اور اس کے آخر کو مضموم کریں گے تو فعل مضارع معلوم کا پہلا صیغہ یعنی  یَنصُرُ  بن جائے گا۔

فعل مضارع معلوم کے چودہ صیغوں کی علامات اور ان میں فاعل کی ضمیروں کی وضاحت کی جاتی ہےـ:​ 

1. يَنْصُرُ: یہ فعل مضارع معلوم کا  پہلا صیغہ ہے اسے مفرد مذکر غائب کا صیغہ بھی کہا جاتاہے۔اس فعل میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں جبکہ یائے مفتوحہ فعل مضارع کے غائب ہونے کی علامت اور حرف استقبال  بھی ہے۔ 

یاد رہے کہ اس کا فاعل، اسم ظاہر اور ضمیر کی صورت میں آتا ہے، جیسے يَنْصُرُعَلِیٌّ مُحَمّداً ، یعنی علی محمد کی مدد  کرتا ہے یا مدد کرے گا۔اس مثال  میں يَنْصُرُ،فعل مضارع مفرد مذکر  غائب کا صیغہ ہے؛ عَلِیٌّ اسی فعل کا فاعل اوراسم  ظاہر ہے لیکن اگر یوں کہا جائے کہ:عَلِیٌّ يَنْصُرُ مُحَمّداً،تو اس میں يَنْصُرُ کا فاعل، مفرد مذکر غائب کی ضمیر  (ھُوَ) ہے جوکہ علی کی طرف پلٹ رہی ہے اور یہ ضمیر بطور جواز اسی فعل میں مستَتِر ( پوشیدہ، چھپی  ہوئی) ہے۔

2.  يَنْصُرانِ:  یہ فعل مضارع معلوم کادوسرا صیغہ ہے، اسے تثنیہ  مذکر غائب کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس فعل میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں جبکہ الف  تثنیہ مذکر کی علامت اور فاعل کی ضمیر بھی ہے۔

3.  يَنْصرُون:  یہ فعل مضارع معلوم کا تیسرا صیغہ ہے،اسےجمع مذکر غائب کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس فعل میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں  جبکہ یائے مفتوحہ فعل مضارع کے غائب ہونے کی علامت اور حرف استقبال  بھی ہے۔ واو جمع مذکر غائب کی علامت اور فعل کا فاعل بھی ہے نیز اس کلمہ کے آخر میں نون، مفرد میں آنے والے رفع کے بدلے میں آیا ہے اور لام الفعل پر ضمہ واو کی مناسبت کے لئے ہے۔

4. تَنْصُرُ :  یہ فعل مضارع معلوم کا چوتھا صیغہ ہے، اسے مفرد مؤنث غائبہ کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔اس فعل میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں جبکہ تائے مفتوحہ فعل کے مؤنث غائبہ ہونے علامت ہے۔اس کا فاعل اسم ظاہر اور ضمیر کی صورت میں آتا ہے، جیسے  تَنْصُرُ فاطِمَةُ  مُحَمّداً ، یعنی فاطمہ نے محمد کی مدد کرتی ہے یا مدد کرے گی۔اس مثال  میں تَنْصُرُ فعل مضارع مفرد مؤنث  غائبہ کا صیغہ ہے؛ فاطمہ اسی فعل کا فاعل اوراسم  ظاہر ہے لیکن اگر یوں کہا جائے کہ:  فاطِمَةُ  تَنْصُرُ مُحَمّداً، تو اس مثال میں  تَنْصُرُ کا فاعل، مفرد مؤنث غائبہ کی ضمیر  (ھِیَ) ہے جوکہ  فاطمہ کی طرف لوٹ رہی ہے اور یہ ضمیر بطور جواز اسی فعل میں مستَتِر ( پوشیدہ، چھپی  ہوئی) ہے۔

 5. تَنْصُرٰانِ :  یہ فعل مضارع معلوم کا پانچواں صیغہ ہے، اسے تثنیہ  مؤنث غائبہ کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں  جبکہ تائے مفتوحہ فعل کے مؤنث غائبہ ہونے علامت، الف تثنیہ  کی علامت اور فاعل کی ضمیر بھی ہے۔ نیز اس کلمہ کے آخر میں نون، مفرد میں آنے والے رفع کے بدلے میں آیا ہے۔

6.  يَنْصُرْنَ: یہ فعل مضارع معلوم کا چھٹا صیغہ ہے، اسے جمع مؤنث غائبہ کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں جبکہ یائے مفتوحہ فعل کے مؤنث غائبہ ہونے علامت اور حرف استقبال بھی ہے۔ نیز  نون مفتوحہ جمع مؤنث  کی علامت اور فاعل کی ضمیر بھی ہے۔

7. تَنْصُرُ  : یہ فعل مضارع معلوم کا ساتواں صیغہ ہے، اسے مفرد مذکر مخاطب  کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں جبکہ تائے مفتوحہ علامتِ خطاب اور حرف استقبال بھی ہے۔ نیز اسی فعل میں اَنتَ کی ضمیر بطور وجوب مُستَتِر ہے اور یہ ضمیر فاعل بھی ہے۔

8. تَنْصُرٰانِ :  یہ فعل مضارع معلوم کا آٹھواں صیغہ ہے، اسے تثنیہ مذکر مخاطب کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں  جبکہ تائے مفتوحہ علامتِ خطاب اور حرف استقبال بھی ہے۔۔ الف تثنیہ مذکر  کی علامت اور فاعل کی ضمیر بھی ہے۔ نیز اس کلمہ کے آخر میں نون، مفرد میں آنے والے رفع کے بدلے میں آیا ہے۔

9. تَنْصُرُونَ:  یہ فعل مضارع معلوم کا نواں صیغہ ہے، اسےجمع مذکر مخاطب کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس فعل میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں جبکہ تائے مفتوحہ فعل کے مخاطب ہونے علامت اور حرف استقبال بھی ہے۔واو جمع  مذکر  مخاطب کی ضمیر اور فاعل بھی ہے۔ نیز اس کلمہ کے آخر میں نون، مفرد میں آنے والے رفع کے بدلے میں آیا ہے۔

10. تَنْصُرِينَ :  یہ فعل مضارع معلوم کا دسواں صیغہ ہے، اسے مفرد مؤنث مخاطبہ کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس فعل میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں جبکہ تائے مفتوحہ فعل کے مخاطب ہونے علامت اور حرف استقبال بھی ہے۔یاءمفرد مؤنث مخاطبہ کی ضمیر اور فاعل بھی ہے۔ نیز اس کلمہ کے آخر میں نون، مفرد میں آنے والے رفع کے بدلے میں آیا ہے۔

11. تَنْصُرٰانِ :  یہ فعل مضارع معلوم کا گیارہواں صیغہ ہے، اسے تثنیہ مؤنث مخاطبہ کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں  جبکہ تائے مفتوحہ فعل کے مخاطب ہونے علامت اور حرف استقبال بھی ہے۔ الف تثنیہ مذکر  کی علامت اور فاعل کی ضمیر بھی ہے۔ نیز اس کلمہ کے آخر میں نون، مفرد میں آنے والے رفع کے بدلے میں آیا ہے۔

12.   تَنْصُرْنَ : یہ فعل مضارع معلوم کا بارہواں صیغہ ہے، اسےجمع مؤنث مخاطبہ کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس فعل میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں جبکہ تائے مفتوحہ فعل کے مخاطب ہونے علامت اور حرف استقبال بھی ہے۔نون  جمع  مؤنث مخاطبہ  کی ضمیر اور فاعل بھی ہے۔

13. اَنْصُرُ :  یہ فعل مضارع معلوم کا تیرہواں صیغہ ہے، اسے مفرد مذکر متکلم/مفرد مؤنث متکلم  کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں جبکہ ہمزہ مفرد مذکر متکلم/ مفرد مؤنث متکلم کی علامت اور اس میں اَنَا  کی ضمیر بطور وجوب مستتر ہے جوکہ فاعل بھی ہے۔

14.نَنْصُرُ :  یہ فعل مضارع معلوم کاچودھواں صیغہ ہے، اسے جمع مذکر متکلم/ جمع مؤنث متکلم ؛ نیز   تثنیہ مذکر متکلم /  تثنیہ مؤنث متکلم کا صیغہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں نون، صاد اور راء حروف اصلی ہیں جبکہ نون متکلم مع الغیر (جمع متکلم )  کی علامت  اور اس میں نَحنُ کی ضمیر بطور وجوب مستتر ہے جوکہ فاعل بھی ہے۔

 آپ  پہلے ایک کاغذ پر  فعل ماضی اورفعل  مضارع کے چودہ  چودہ صیغے لکھ لیں اور ہر ایک صیغے کو معانی، تعداد، جنسیت ،حروف اصلی و  زائد اور ضمائر وغیرہ کے لحاظ سے سمجھ لیں تاکہ کلمہ شناسی میں مہارت حاصل ہو سکے۔ 

5

تطبیق: فعل ماضی کی علامتیں

فصل :

"الف در نَصَرٰا علامت تثنيه مذكّر و ضمير فاعل است

 نَصَرَ  : یہ فعل ماضی کا پہلا صیغہ ہے اور اس کے تمام حروف اصلی ہیں۔ 

  نَصَرٰا : یہ فعل ماضی معلوم کا دوسرا صیغہ ہے۔ اس میں الف  تثنیہ  مذکر کی علامت ہے۔

 "وٰاو درنَصَرُوا علامت جمع مذكّر و ضمير فاعل است و ضمّه از جهت مناسبت واو است"

نَصَرُوا:   یہ فعل ماضی معلوم کا تیسرا صیغہ ہے۔ اس میں واو جمع مذکر کی علامت اور فاعل کی ضمیر بھی ہے نیز ضمہ واو کی مناسبت سے ہے۔

"و تاء ساكنه در نَصَرَتْ علامت تانيث است"

اگلا صیغہ نصَرَتْ ہے نصَرَتْ میں  جو تاء ہے علامت ہے مونث کی کہ وہ مدد کرنے والی عورت تھی مرد نہیں تھا ۔

"و ضمير فاعل نيست"

نصَرَتْ  میں یہ تاء فقط مونث کی علامت ہے فاعل کی ضمیر نہیں  اس کا فاعل وہی ضمیر  (ھی) ہوگی۔

"و الف در نَصَرتا علامت تثنيه مؤنث وضمير فاعل است و تاء علامت تانيث فاعل است"

نَصَرَتٰا  اس میں الف علامت ہے تثنیہ مونث کی اور فاعل کی ضمیر ہے، جو الف ہے یہ علامتیں تثنیہ مونث کی اور ضمیر فاعل ہے اور پورا (تا) یعنی تاء اور الف مل کر یہ علامت ہے تانیث  کی یعنی اس کا فاعل مونث ہے،  یہ تاء دلالت کرے گی کہ یہاں فاعل مونث ہے۔

"و نون در نَصَرْنَ علامت جمع مؤنّث و ضمير فاعل است"

نَصَرْنَ  میں نون علامت ہے جمع مونث کی و ضمیر فاعل اور یہی اس کے فاعل کی ضمیر بھی ہے۔

"و تاء مفتوحه در نَصَرْتَ علامت واحد مخاطب و ضمير فاعل است"

 اس کے بعد آگیا خطاب  کا صیغہ،  نَصَرْتَ میں جو تاء مفتوح ہے جس پر زبر ہے یہ علامت ہے واحد مخاطب کی اور فاعل کی ضمیر بھی ہے۔

"وتُما در نَصَرْتُما گاه ضمير تثنيه مذكّر مخاطب و گاه ضمير تثنيه مؤنّث مخاطبه است ، و فاعل فعل است"

نَصَرْتَ کا تثنیہ بھی نَصَرْتُما تھا اور نَصَرْتِ کا تثنیہ بھی نَصَرْتُما ہے۔ اور اگر نَصَرْتَ کے بعد نَصَرْتُما  آئے گا تو اس وقت یہ ضمیر ہوگی تثنیہ مذکر مخاطب کی اور اگر نَصَرْتِ کے بعد نَصَرْتُما  آئے گا تو اس وقت یہ ضمیر ہوگی تثنیہ مؤنث مخاطبہ کی اور فعل کی فاعل بھی ہے۔

"و تُم در نَصَرْتُم ضمير جمع مذكّر مخاطب و فاعل فعل است"

نَصَرْتُم میں  تُم ضمیر ہے جمع مذکر مخاطب کی اور یہی اس فعل کی فاعل بھی ہے۔

"و تُنَّ در نَصَرْتُنَّ ضمير جمع مؤنّث مخاطبه و فاعل فعل است"

نَصَرْتُنَّ میں تُنَّ  یہ ضمیر ہے جمع مؤنث مخاطبہ کی اور یہی فعل کی فاعل بھی ہے۔

"و تاء مضمومه در نَصَرْتُ ضمير واحد متكلّم است، خواه مذكّر باشد و خواه مؤنّث ، و فاعل فعل است"

نَصَرْتُ میں تاء مضمومہ واحد متکلم کی ضمیر ہے خواہ مذکر ہو خواہ مونث اور یہ  تُ فعل کے فاعل کی ضمیر بھی ہے۔

نَصَرْنٰا میں نا یہ ضمیر ہے  متکلم بالغیر کی  یعنی تثنیہ ہوگا تو اس کے لیے بھی جمع ہوگا تو اس کے لیے متکلم بالغیر جسے کہتے ہیں اور یہ فعل کے فاعل کی ضمیر بھی ہے خواہ وہ تثنیہ ہو خواہ جمع ہو خواہ مذکر اور خواہ مونث ہو۔

"و فاعل نَصَرَ و نَصَرتْ شايد كه ظاهر باشد"

 نَصَرَ  اور نصَرَتْ کا فاعل کیا ہے؟ نَصَرَ واحد مذکر غائب کا صیغہ، نصَرَتْ واحد مؤنث غائبہ کا صیغہ، ان دو کا فاعل کبھی اسم ظاہر ہوتا ہے یعنی اس کے بعد باقاعدہ وہ لفظا موجود ہوتا ہے جیسے ہم کہتے ہیں : نَصَرَ زَيْدٌ زید نے مدد کی ، نَصَرَ فعل ہے زَيْدٌ اس کا فاعل ہے۔ ونَصَرَتْ ہِنْدٌ یعنی  ہند جو خاتون کا نام ہے اس نے مدد کی، نَصَرَتْ فعل ہے ہِنْدٌاس کا فاعل ہے ۔

"وشايد كه ضمير مستتر باشد"

پس نَصَرَ  اور نصَرَتْ  یا یوں کہیں واحد مذکر غائب اور واحدہ مونث غائبہ کا فاعل کبھی ظاہر ہوتا ہے اور کبھی کبھی ان کا فاعل ضمیر ہوتی ہے جو خود انہی میں پوشیدہ ہوتی ہے علیحدہ سے نہیں ہوتی جیسے: زَيْدٌ نَصَرَ، زَيْدٌ مبتدا بن جائے گی اور نَصَرَ میں(ھو) کی ضمیر ہے جو اس کا فاعل ہے۔ ھنْدٌ نَصَرَتْ، ھنْدٌ مبتدا ہے  نَصَرَتْ فعل ہے (ھی) اسم فاعل کی ضمیر ہے ۔جس میں مستتر ہے۔ یہ تو ہوگیا ماضی کے چودہ صیغے کے بارے میں جو مختلف حروف ہیں ۔

6

تطبیق: فعل مضارع کی علامتیں

اسی طرح فرماتے ہیں جو چودہ صیغے مستقبل کے تھے اس کی بھی یہی کیفیت ہے۔

"ياء در يَنْصُرُ و يَضْرِبُ ، علامت غيبت و حرف استقبال است"

يَنْصُرُ و يَضْرِبُ میں جو یاءہے یہ علامت غیب اور حرف استقبال ہے جو حروف اتین میں سے ہے ۔

"الف در يَنْصُرانِ و يَضْرِبانِ علامت تثنيه مذكّر و ضمير فاعل است"

اور يَنْصُرانِ و يَضْرِبانِ میں الف یہ علامت ہے تثنیہ مذکر کی اور فاعل کی ضمیر ہے چلو الف تو ہو گئی تثنیہ مذکر کی علامت اور فاعل کی ضمیر جو اس کے بعد نون ہے یہ نون کیا ہے فرماتے ہیں:

"و نون عوض رفع است كه در واحد بود"

يَنْصُرانِ و يَضْرِبانِ  میں راء پر جو رفع تھا اس کے عوض یہاں پر نون لگائی گئی ہے تو پس جب آپ اس کو وضاحت کریں گے  يَنْصُرانِ کی تو آپ کہیں گے یاءحرف مضارع ہے، الف علامت تثنیہ مذکر ہے اور نون عوض ہے اس رفع کا جو  يَنْصُرُ میں تھا۔

 اور يَنْصرُون و يَضْرِبُونَ میں یاء یہ علامت غیب اور حرف استقبال ہے واؤ علامت ہے جمع مذکر کی اور فعل کا فاعل بھی ہے۔  نون پڑھ رہے ہیں نا آخر میں تو نون بھی ہے یہ نون عوض ہے اس رفع کے کہ جو يَنْصُرُ واحد میں تھا اور اب يَنْصرُون پڑھ رہے ہیں۔ اور یہاں فرماتے ہیں:

"و نون عوض رفع است كه در واحد بود و اين ضمّه براى مناسبت واو است"

یعنی یہاں ضمہ کیوں دیا چونکہ اس کے بعد و اوتھی واو  کی مناسبت کے لیے ہم نے يَنْصرُون پڑھا ۔

تَنْصُرُ و تَضْرِبُ و تَنْصُرٰانِ و تَضْرِبٰانِ  یہ تو ہو گئی علامت غائبہ مونث کی، الف ہو گئی علامت تثنیہ کی

"و الف علامت تثنيه و هَم ضمير فاعل"

الف یہاں تثنیہ کی علامت بھی ہے فاعل کی ضمیر بھی ہے۔

"و نون عوض رفع است"

 اور تَنْصُرٰانِ و تَضْرِبٰانِ میں جو نون ہے یہ اس  رفع کی عوض ہے جو اس کے واحد میں تھی اور یہاں نہیں ہے يَنْصُرْنَ اور يَضْرِبْنَ میں یاء بالکل اسی طرح غائب کی علامت ہے حرف استقبال ہے، لیکن يَنْصُرْنَ اور يَضْرِبْنَ میں جو نون ہے یہ نون جمع مونث کی علامت ہے۔  اور اس فعل کے فاعل کی ضمیر ہے خطاب میں تَنْصُرُ و تَضْرِبُ میں جو تاء ہے علامت خطاب ہے حرف استقبال ہے۔

"اَنْتَ در وَىْ مستتر است دائماً"

تَنْصُرُ یعنی واحد مذکر مخاطب میں فاعل کی ضمیر نہیں ہوتی بلکہ اسم فاعل ہمیشہ اَنْتَ  کی ضمیر ہوتی ہے جو اس میں مستتر ہوتی ہے۔ تَنْصُرٰانِ و تَضْرِبٰانِ میں تاء علامت خطاب واستقبال ہے  الف تثنیہ مذکر کی علامت ہے اور فاعل کی ضمیر بھی ہے اور نون عوض ہے اس رفع کی کہ جو واحد میں تھا اور اب یہاں پر نہیں ہے۔

تَنْصُرِينَ و تَضْرِبينَ تاء علامت خطاب حرف استقبال ہے، یا ءضمیر ہے تَنْصُرِينَ و تَضْرِبينَ میں یا ءضمیر ہے واحد مونث مخاطبہ کی اور فعل کی فاعل بھی ہے اور نون عوض ہے اس رفع کا جو واحد میں تھا اور اب یہاں پر نہیں ہے۔

 تَنْصُرٰانِ و تَضْرِبٰانِ یعنی تثنیہ مونث مخاطبہ میں تاء علامت خطاب اور استقبال ہے، الف علامت تثنیہ کی اور فاعل کی ضمیر بھی ہے نون عوض ہے اس رفع کے کہ جو واحد میں تھی۔

تَنْصُرْنَ وتَضْرِبْنَ یعنی جو جمع مونث مخاطبہ کا صیغہ ہے فرماتے ہیں اس میں جو تاءہے علامت خطاب حرف استقبال ہے نون ضمیر ہے جمع مؤنث کی وہ جیسے واؤ ضمیر تھی جمع مذکر کی ،نون ضمیر ہے  جمع مونث کی اور فعل کی فاعل ہے۔

اَنْصُرُ و اَضْرِبُ  اور نَنْصُرُ و نَضْرِبُ فرماتے ہیں اَنْصُرُ و اَضْرِبُ ہمزہ علامت ہے واحد متکلم کی اَنَا کی ضمیر اس میں ہمیشہ فاعل ہوتی ہے اس میں فاعل کی ضمیر نہیں ہوتی بلکہ اس میں اَنَا فاعل ہوتا ہے جو ہمیشہ مستتر ہوتا ہے۔

 نَنْصُرُ و نَضْرِبُ  نون علامت ہے متکلم مع الغیر کی تثنیہ کے لیے بھی یہی، جمع کے لیے بھی یہی اور اس میں بھی ہمیشہ نحن کی ضمیر اس کی فاعل ہوتی ہے جو اس میں مستتر ہوتی ہے۔

فرماتے ہیں فعل مستقبل کا جو واحد مذکر غائب یا واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہوتا ہے جیسے يَنْصُرُ اور تَنْصُرُ  ، يَضْرِبُ اور تَضْرِبُ ، یَمنَعُ اور تُمنَعُ یہاں پر بھی کبھی ان کا فاعل ظاہر ہوتا ہے اور کبھی ان کا فاعل ان میں ضمیر ہوتی ہے جیسے يَنْصُرُ زَيْدٌ آپ کہیں گے يَنْصُرُ فعل زَيْدٌ اس کا فاعل زید نے مدد کی ۔ اب ینصر میں کوئی ضمیر نہیں ہے جس کا فاعل ہو ۔ تَنْصُرُ ہنْدٌ ، ہندنے مدد کی اب اس تَنْصُرُ میں کوئی فاعل کی ضمیر نہیں اور کبھی کبھی اس میں فاعل کی ضمیر مستتر ہوتی ہے یعنی ضمیر ہوتی ہے جو اس کا فاعل بنتی ہے یوں کہہ سکتے ہیں کہ کبھی کبھی فعل مستقبل کے صیغہ واحد مذکر غائب اور صیغہ واحد مونث غائبہ کے لیے اسم فاعل اسم ظاہر ہوتا ہے اور کبھی اس کا فاعل ضمیر ہوتی ہے ضمیر کی مثال کیا دیں گے جیسے زَيْدٌ يَنْصُرُ، زَيْدٌ مبتدا ہے يَنْصُرُ فعل اس میں (ھو) کی ضمیر پوشیدہ ہے پہلے والا زید يَنْصُرُ کا فاعل نہیں۔ ہنْدٌ تَنْصُرُ اب اس تَنْصُرُ میں(ھی) کی ضمیر ہے جو تَنْصُرُ کی فاعل ہے ہند نہیں جو اسے پہلے موجود ہے ۔

و صلی اللہ علی محمد و ال محمد

فصل :

الف در نَصَرٰا علامت تثنيه مذكّر و ضمير فاعل است. و وٰاو در نَصَرُوا علامت جمع مذكّر و ضمير فاعل است و ضمّه از جهت مناسبت واو است. و تاء ساكنه در نَصَرَتْ علامت تانيث است و ضمير فاعل نيست. و الف در نَصَرتٰا علامت تثنيه مؤنث وضمير فاعل است و تاء علامت تانيث فاعل است. و نون در نَصَرْنَ علامت جمع مؤنّث و ضمير فاعل است. و تاء مفتوحه در نَصَرْتَ علامت واحد مخاطب و ضمير فاعل است. و تاى مكسوره در نَصَرْتِ علامت واحده مخاطبه و فاعل فعل است. وتُما در نَصَرْتُمٰا گاه ضمير تثنيه مذكّر مخاطب و گاه ضمير تثنيه مؤنّث مخاطبه است ، و فاعل فعل است. و تُم در نَصَرْتُم ضمير جمع مذكّر مخاطب و فاعل فعل است. و تُنَّ در نَصَرْتُنَّ ضمير جمع مؤنّث مخاطبه و فاعل فعل است. و تاء مضمومه در نَصَرْتُ ضمير واحد متكلّم است ، خواه مذكّر باشد و خواه مؤنّث ، و فاعل فعل است. و نٰا در نَصَرْنٰا ضمير متكلّم با غير است و فاعل فعل است خواه تثنيه باشد و خواه جمع ، و خواه مذكّر باشد و خواه مؤنّث. و فاعل نَصَرَ و نَصَرتْ شايد كه ظاهر باشد چون نَصَرَ زَيْدٌ ونَصَرَتْ هِنْدٌ وشايد كه ضمير مستتر باشد چون «زَيْدٌ نَصَرَ» اَىْ هو و «هِنْدٌ نَصَرَتْ» اَىْ هى.

فصل :

ياىِ در يَنْصُرُ و يَضْرِبُ ، علامت غيبت و حرف استقبال است. و الف در يَنْصُرانِ و يَضْرِبانِ علامت تثنيه مذكّر و ضمير فاعل است ، و نون عوض رفع است كه در واحد بوده. و ياء در يَنْصرُون و يَضْرِبُونَ

هم چنان علامت غيبت و حرف استقبال است ، و واو علامت جمع مذكر و فاعل فعل است و نون عوض رفع است كه در واحد بوده و اين ضمّه براى مناسبت واو است. و تاء در تَنْصُرُ و تَضْرِبُ و تَنْصُرٰانِ و تَضْرِبٰانِ علامت غائبه مؤنّث است ، و الف علامت تثنيه و هَم ضمير فاعل و نون عوض رفع است كه در واحد بوده. و ياىِ در يَنْصُرْنَ و يَضْرِبْنَ علامت غيبت و حرف استقبال است ، و نون علامت جمع مؤنّث و ضمير فاعل است. و تٰاء در تَنْصُرُ و تَضْرِبُ علامت خطاب و حرف استقبال است و اَنْتَ در وَىْ مستتر است دائماً ، كه فاعل فعل است و تاىِ در تَنْصُرٰانِ و تَضْرِبٰانِ علامت خِطٰابِ و حرف استقبال است ، و الف علامت تثنيه مذكّر و ضمير فاعل است و نون عوض رفع است كه در واحد بوده. و تٰاء در تَنْصُرُونَ و تَضْرِبُونَ علامت خطاب و حرف استقبال است و واو ضمير جمع مذكّر است و نون عوض رفع است كه در واحد بوده. و تٰاىِ در تَنْصُرِينَ و تَضْرِبينَ علامت خطاب و حرف استقبال است ، و ياء ضمير واحد مؤنّث و فاعل فعل است و نون عوض رفع است كه در واحد مذكّر بوده است. و تٰاىِ در تَنْصُرٰانِ و تَضْرِبٰانِ علامت خطاب و حرف استقبال است ، و الف علامت تثنيه و هَم ضمير فاعل است و نون عوض رفع است كه در واحد بوده. و تٰاىِ در تَنْصُرْنَ وتَضْرِبْنَ علامت خطاب و حرف استقبال است ، و نون ضمير جمع مؤنّث و فاعل فعل است. و همزه ، در اَنْصُرُ و اَضْرِبُ علامت متكلّم وحده و اَنَا در وى مستتر است دائماً ، كه فاعلش باشد. و نون در نَنْصُرُ و نَضْرِبُ علامت متكلّم مع الغير است و نحن در وى مستتر است دائماً ، كه فاعل فعل است. و فاعل يَنْصُرُ و تَنْصُرُ شايد كه ظاهر باشد چون يَنْصُرُ زَيْدٌ و تَنْصُرُ هِنْدٌ و شايد كه ضمير مستتر باشد چون

«زَيْدٌ يَنْصُرُ» اَىْ هو و «هِنْدٌ تَنْصُرُ» اَىْ هى.

فصل :

چون بر فعل مستقبل ، حروف ناصبه درآيد (يعنى اَنْ و لَنْ و كَىْ و اِذَنْ) منصوب گردد چون اَنْ اَطْلُبَ و لَنْ اَطْلُبَ و كَىْ اَطْلُبَ و اِذَنْ اَطْلُبَ. و نونهايى كه عوض رفع بودند به نصبى ساقط شوند چون لَنْ يَطْلُبٰا و لَنْ يَطْلُبُوا و لَنْ تَطْلُبٰا و لَنْ تَطْلُبُوا و لَنْ تَطْلُبِى. و نون يَطْلُبْنَ و تَطْلُبْنَ به حال خود باشد.

و چون در فعل مستقبل حروف جازمه درآيد حركت آخر در پنج لفظ كه آن يَطْلُبُ (غايب مذكّر است) وتَطْلُبُ (غايبه مؤنّث و هم مخاطب مذكّر است) و اَطْلُبُ و نَطْلُبُ (كه دو حكايت نفس متكلّم است) به جزمى بيفتد. و حروف جازمه پنج است :

لَمْ و لَمّا و لٰام امر و لٰاىِ نهى و اِنْ شرطيّه چنانكه گويى لَمْ يَنْصُرْ لَمْ يَنْصُرٰا لَمْ يَنصُرُوا تا آخر و لَمّا يَنْصُرْ و لمّا يَنْصُرٰا و لمّا يَنصُروا تا آخر و لٰا يَنْصُرْ و لٰا يَنْصُرٰا و لٰا يَنْصُروا تا آخر و اِنْ يَنْصُر اِنْ يَنْصُرٰا اِنْ يَنْصُروا تا آخر. و نونهايى كه عوض رفع بودند ساقط شوند به جزمى و لام امر در شش غايب و غايبه داخل شود چنانكه گويى لِيَنْصُرْ لِيَنْصُرا لِيَنْصُروا لِتَنْصُرْ لِتَنْصُرٰا لِيَنْصُرْنَ و اين را امر غايب خوانند و در دو صيغه متكلّم نيز داخل شود چون لِاَنْصُرْ لِنَنْصُرْ.

فصل :

امر مخاطب را از فعل مستقبل مخاطب گيرند و طريقه آن آن است كه حرف مستقبل را كه تاء است ، از اوّل وى بيندازند اگر مابعد