درس صرف میر

درس نمبر 3: سالم اور غیر سالم

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

[چوتھی] فصل: سالم اور غیر سالم

[یہ کتاب کی چوتھی فصل ہے] یہ بہت اہم فصل ہے جس میں علم صرف کے ایک اہم اور مشہور موضوع ہفت اقسام سے متعلق بحث کی گئی ہے۔ 

ہر اسم یا فعل، حروفِ اصلی کی کیفیت کے اعتبار سے دو قسموں میں تقسیم ہوتا ہے: ۱۔سالم؛ ۲۔غیر سالم۔

سالم: ایسا اسم یا فعل ہوتا ہے جس کے اصلی حروف میں ہمزہ، حرف علت اور ایک جنس کے دو حروف یاتکراری حروف نہ ہوں جیسے رَجُلٌ، نَصَرَ۔ 

غیر سالم یا ناسالم: ایسے اسم یا فعل کو کہا جاتا ہے جس کے اصلی حروف میں ہمزہ، حرف علت یا تکراری حروف پائے جائیں جیسے  اَمْرٌ، اَمَرَ،  مَدٌّ، مَدَّ۔ 

تذکر: یاد رہے کہ عام طور پر سالم کو صحیح بھی کہہ دیا جاتا ہے، لیکن دقت سے دیکھا جائے تو ایسا نہیں کہا جا سکتا؛ کیونکہ ہر صحیح تو سالم بھی ہوتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر سالم صحیح بھی ہو اور یہ نکتہ دونون تعریفیں ملاحظہ کرنے سے واضح ہوتا ہے۔

صحیح: وہ  اسم یا فعل ہوتا ہے جس کے اصلی حروف میں حرف علت نہ ہو۔

 مہموز: ایسا اسم یا فعل ہوتا ہے جس کے اصلی حروف میں ہمزہ پایا جائے ۔

مضاعف: ایسا اسم یا فعل ہوتا ہے جس کے اصلی حروف میں دو حروف ایک جنس سے ہوں یا عام تعبیر میں مضاعف ایسا لفظ ہے جس میں تکراری حرف پایا جائے۔ یاد رہے کہ اسی تکرار کو تضعیف بھی کہا جاتا ہے۔

معتل: ایسا لفظ ہے جس کے اصلی حروف میں حرف علت پایا جائے۔

یاد رہے کہ: حروف علت تین ہیں: واو، یا اور الفِ منقلبہ یعنی وہ الف جو  واو یا یا سے تبدیل ہو کر آئے۔

      حرف علت اگر فاءالفعل کی جگہ پر پایا جائے تو اسے علم صرف کی اصطلاح میں معتل الفاء اور مثال کہا جاتا ہے جیسے:  وَعْدٌ، وَعَدَ۔

     حرف علت اگر عین الفعل کی جگہ پر پایا جائے تو اسے علم صرف کی اصطلاح میں  معتل العین اور اجوف کہا جاتا ہے جیسے: قَوْلٌ، قالَ اور

      حرف علت اگر  لام الفعل کی جگہ پر پایا جائے تو اسے علم صرف کی اصطلاح میں معتل اللام اور ناقص کہا جاتا ہے جیسے: رَمْىٌ، رَمىٰ۔ 

        جب بھی معتل میں دو حروفِ علت پائے جائیں تو اسے لفیف کہا جاتا ہے، پھر لفیف کی دو قسمیں ہیں: مفروق اور مقرون؛ اگر حروف علت فاءالفعل اور لام الفعل کی جگہ پر ہوں  یعنی دونوں کے درمیان فاصلہ ہو تو اسے لفیف مفروق کہتے ہیں جیسے وَقْىٌ، وَقىٰ اور اگر حروف علت عین الفعل اور لام الفعل کی جگہ پر ہوں تو اسے لفیف مقرون کہا جاتا ہے جیسے: طَىٌّ، طَوَىٰ۔  

اگر آپ سے یہ پوچھا جائے کہ علم صرف کی اہم ابحاث میں سے ایک بحث اسم یا فعل کی سات اقسام کے بارے میں ہے؛ وہ سات اقسام کون کون سی ہیں؟ تو آپ جواب میں کہہ سکتے ہیں:

1۔ صحیح، 2۔ مہموز، 3۔ مضاعف، 4۔ مثال، 5۔ اجوف، 6۔ ناقص، 7۔ لفیف۔

فارسی زبان میں شعر کی صورت میں یہ سات قسمیں اس طرح سے بیان کی گئی ہیں:  

صحيح است ومثال است ومضاعف 

  لفيف وناقص ومهموز واجوف

اس فصل کے آخر میں مصنف فرماتے ہیں کہ ان شاءاللہ مذکورہ سات اقسام میں سے ہر ایک کے بارے میں اسی کتاب میں  مفصل بحث  کی جائے گی۔ 

4

تطبیق: فصل سالم اور غیر سالم

"هر اسمى و فعلى كه در حروفِ اصولِ وَىْ همزه و تضعيف و حروف علّه نباشد، آن را صحيح وسالم خوانند، چون رَجُلٌ و نَصَرَ"۔

 ہر وہ اسم اور فعل جس کے حروف اصلی میں ہمزہ،تضعیف اور حرف علت نہ ہو، اسے صحیح اور سالم کہتے ہیں جیسے: رَجلٌ، نَصَرَ؛ یہاں رَجلٌ اسم  کی مثال ہے اور نَصَرَ فعل کی مثال ہے۔

 ان دونوں مثالوں (رجلٌ اور نَصَرَ ) میں ہمزہ، حرف علت اور ایک جنس کے دو حروف میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔

"و هر چه در وى همزه باشد آن را مهموز خوانند"

ہر وہ اسم اور فعل جس کے حروف اصلی میں ہمزہ ہو، اسے مہموز کہتے ہیں جیسے: اَمْرٌ اسم کی مثال اور  اَمَرَ فعل کی مثال ہے؛

ان دونوں مثالوں کےشروع میں جو ہمزہ ہے وہ حرف اصلی فاء کے مقابل میں ہے، لہذا اسے مہموز الفاء کہتے ہیں۔

"و هر چه در وى تضعيف باشد يعنى دو حرف اصلى وى از يك جنس بوده باشد، آن را مضاعف خوانند"

ہر وہ اسم اور فعل جس کے حروف اصلی میں تضعیف ہو یعنی اس کے دو حروف اصلی ایک جنس سے ہوں، اسے مضاعف کہتے ہیں۔ جیسے: مَدٌّ و مدَّ۔

 مداسم کی مثال ہے اور یہ اصل میں مَدَد تھا اور مدَّ فعل کی مثال ہے جو اصل میں مَدَدَ تھا۔

"هر چه در وى حرف عله باشد ( كه آن واو و ياء و الفى است كه مُنْقَلِب باشد از واو و ياء ) آن را مُعْتَلّ خوانند"

جس فعل یا اسم  کا کوئی ایک اصلی حرف  حرف علت ہو (یعنی واو، یاء اور الف جو واو یا یاء سے تبدیل ہو کر آئے)  اسے معتل کہتے ہیں۔

"پس اگر حرف علّه به جاى فاء بود آن را معتلّ الفاء و مثال خوانند چون وَعْدٌ و وَعَدَ "

 اگر وہ حرف علت فاء کلمہ کی جگہ پر آئے تو اسے معتل الفاء اور مثال کہتے ہیں جیسے: وَعْدٌ اسم کی مثال اور وَعَدَ فعل کی مثال ہے۔ یہاں واو  حرف علت ہے جو فاء کلمہ کی جگہ پر آیا ہے۔

"و اگر به جاى عين بود آن را معتلّ العين و اجوف خوانند چون قَوْلٌ و قالَ"

اگر حرف علت عین کلمہ کی جگہ پر ہو تو اس کو معتل العین اور اجوف کہتے ہیں جیسے: قَوْلٌ اسم کی مثال اور قالَ فعل کی مثال۔

واو عین کلمہ کی جگہ پر ہے، قالَ اصل میں قَوَلَ تھا، ان شاءاللہ بعد میں پڑھیں گے کہ قَوَلَ سے قالَ کیسے بنا۔

"و اگر به جاى لام بود آن را معتلّ اللّام وناقص خوانند چون رَمْىٌ و رَمىٰ"

  اور اگر حرف علت لام کلمہ کی جگہ پر ہو تو اس کو معتل اللام  اور ناقص کہتے ہیں جیسے: رَمْىٌ اسم کی مثال اور رَمىٰ فعل کی مثال، رَمىٰ اصل میں رَمَیَ تھا، ان شاءاللہ بعد میں پڑھیں گے کہ رَمَیَ سے رَمىٰ  کیسے بنتا ہے۔

"و هرگاه در معتلّ دو حرف علّه باشد آن را لفيف خوانند"

 اگر  اسم معتل یا فعل معتل میں دو حروف علت پائے جائیں تو اسے  لفیف کہتے ہیں۔

"پس اگرحرف علّه به جاى فاء و لام باشد"

اگر وہ دو حرو ف علت اس ترتیب سے ہوں کہ ایک حرف علت فاء کلمہ کی جگہ پر  اور دوسرا لام کلمہ کی جگہ پر ہو تو اسے لفیف مفروق کہتے ہیں جیسے: وَقْىٌ و  وَقىٰ۔

  یہاں واؤ فاء کلمہ اور یاء لام کلمہ کی جگہ پر ہے۔ وَقْىٌ اسم کی مثال اور وَقىٰ فعل کی مثال ذکر کی گئی ہے۔

" و اگر به جاى عين و لام باشد، آن را لفيف مقرون خوانند چون طَىٌّ و طَوَىٰ"

اگر وہ دو حروف علت عین اور لام کی جگہ پر ہوں  تو اسے لفیف مقرون کہتے ہیں  جیسے: طَىٌّ و طَوَىٰ، طَىٌّ اسم کی مثال اور طَوَىٰ فعل کی مثال ہے۔

"پس مجموع اسماء و افعال بر هفت نوع بود"

پس تمام اسماء اور افعال کی سات قسمیں ہیں جو شعر میں ذکر کی گئی ہیں:

صحيح است ومثال است ومضاعف 

لفيف وناقص ومهموز واجوف

             

ان شاءاللہ ہر ایک کی تفصیل بعد میں بیان کی جائے گی۔

و صلی اللہ علی محمد و آل محمد۔

است چون جَعْفَرٌ دِرْهَمٌ زِبْرِجٌ بُرْثُنٌ قِمَطْرٌ (١) و مزيد فيه وى اندك است و اسم خماسى مجرد را چهار صيغه است چون سَفَرْجَلٌ قُزَعْمِلٌ جَحْمَرِشٌ قِرْطَعْبٌ (٢) و مزيد فيه وى به غايت اندك است و فعل ثلاثى مجرد را سه صيغه است چون نَصَرَ عَلِمَ شَرُفَ ، و مزيد فيه وى بسيار است ـ چنانكه مى آيد ـ و فعل رباعى مجرد را يك بناست چون دَحْرَجَ كه بر وزن فَعْلَلَ است و مزيد فيه وى اندك است ـ چنانكه مذكور خواهد شد.

فصل :

هر اسمى و فعلى كه در حروفِ اصولِ وَىْ همزه و تضعيف و حروف علّه نباشد آن را صحيح وسالم خوانند ، چون رَجُلٌ و نَصَرَ و هر چه در وى همزه باشد آن را مهموز خوانند چون اَمْرٌ و اَمَرَ و هر چه در وى تضعيف باشد يعنى دو حرف اصلى وى از يك جنس بوده باشد آن را مضاعف خوانند چون مَدٌّ و مدَّ و هر چه در وى حرف عله باشد ( كه آن واو و ياء و الفى است كه مُنْقَلِب باشد از واو و ياء ) آن را مُعْتَلّ خوانند. پس اگر حرف علّه به جاى فاء بود آن را معتلّ الفاء و مثال خوانند چون وَعْدٌ و وَعَدَ و اگر به جاى عين بود آن را معتلّ العين و اجوف خوانند چون قَوْلٌ و قالَ. و اگر به جاى لام بود آن را معتلّ اللّام وناقص خوانند چون رَمْىٌ و رَمىٰ.

و هرگاه در معتلّ دو حرف علّه باشد آن را لفيف خوانند پس اگر

____________________________

(١) معانى كلمات به ترتيب : نهر كوچك ، پول سفيد ، زينت ، پنجه شير ، صندوقچه. زبرج به معنى زينت زنان است و مشهور در زبرج كسر فاء و سكون عين است لكن در اوقيانوس به كسر فاء و عين ضبط نموده.

(٢) معانى به ترتب : گلابى ، شتر قوى ، پيرزن ، شئ حقير.

حرف علّه به جاى فاء و لام باشد ، آن را لفيف مفروق خوانند چون وَقْىٌ و وَقىٰ و اگر به جاى عين و لام باشد ، آن را لفيف مقرون خوانند چون طَىٌّ و طَوَىٰ.

پس مجموع اسماء و افعال بر هفت نوع بود :

صحيح است ومثال است ومضاعف

لفيف وناقص ومهموز واجوف

و احوال هر يك از اينها در اين كتاب روشن گردد ـ إن شاء الله تعالى.

فصل :

دانسته شد كه فعل ثلاثى مجرّد را سه صيغه است فَعَلَ چون نَصَرَ و فَعِلَ چون عَلِمَ و فَعُلَ چون شَرُفَ و اين هر سه فعل ماضى است كه دلالت مى كند بر زمان گذشته و هر يكى را مستقبلى است كه دلالت مى كند بر زمان آينده و مستقبل فَعَلَ سه است فَعَلَ يَفْعُلُ چون نَصَرَ يَنْصُرُ و فَعَلَ يَفْعِلُ چون ضَرَبَ يَضْرِبُ و فَعَلَ يَفْعَلُ چون مَنَعَ يَمْنَعُ و مستقبل فَعِلَ دو است فَعِلَ يَفْعَلُ چون عَلِمَ يَعْلَمُ و فَعِلَ يَفْعِلُ چون حَسِبَ يَحْسِبُ. و مستقبل فَعُلَ يكى است فَعُلَ يَفْعُلُ چون شَرُفَ يَشْرُفُ.

پس مجموع ابواب ثلاثى كه ماضى وى مجرّد است از حروف زوايد شش است : فَعَلَ يَفْعُلُ چون نَصَرَ يَنْصُرُ و فَعَلَ يَفْعِلُ چون ضَرَبَ يَضْرِبُ و فَعِلَ يَفعَلُ چون عَلِمَ يَعْلَمُ. و اين سه باب را اصول خوانند ؛ زيرا كه حركت عينِ ماضى ، مخالف حركت عينِ مستقبل است.

و فَعَلَ يَفْعَلُ چون مَنَعَ يَمْنَعُ و فَعِلَ يَفْعِلُ چون حَسِبَ يَحْسِبُ و فَعُلُ يَفْعُلُ چون شرُفَ يَشْرُفُ. و اين سه باب را فروع خوانند ، زيرا كه حركت عين ماضى ، موافق حركت عين مستقبل است.