درس صرف میر

درس نمبر 2: اسم کی بنیادیں

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

[پہلی] فصل: اسم کی بنیادیں

[یہ کتاب کی پہلی فصل ہے ؛ اس فصل میں اسم کے اوزان کے بارے میں بحث کی گئی ہے]۔

گزشتہ درس میں بیان ہو چکا ہے  کہ کلمہ کی تین قسمیں  ہیں: اسم، فعل اور حرف  یعنی ہر عربی کلمہ یا اسم ہوگا یا فعل یا حرف۔ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا۔ اس مطلب کے بارے میں پہلےبھی  اشارہ  ہو چکا ہے کہ اسم کی تین بِنائیں ہیں یعنی جتنے بھی عربی اسماء ہیں وہ یا تین حرفی ہوتے ہیں یا چار حرفی  اور یا پانچ حرفی۔ اگر وہ تین، چار یا پانچ حروف اصلی ہوں تو ایسے اسم کو مجرد کہتے ہیں یعنی ثلاثی مجرد، رباعی مجرد، خماسی مجرد لیکن اگر اصلی حروف کے علاوہ  کسی اسم میں کوئی حرف زائد ہو تو اسے مزید فیہ کہا جاتا ہے۔ ان شاءاللہ  بعد میں بیان کریں گے کہ  حرف زائد کو کیسے پہچانا جاتا ہے۔ 

اگر ثلاثی میں تین اصلی حروف کے علاوہ ایک یا ایک سے زیادہ حروف آجائیں ہو تو اسے  ثلاثی مزید فیہ کہتے ہیں، اور رباعی میں اصلی چار حروف کے علاوہ ایک یا ایک سے زیادہ حروف آجائیں تو اسے رباعی مزید فیہ کہتے ہیں اور اسی طرح خماسی میں  اصلی پانچ حروف کے علاوہ ایک یا ایک سے زیادہ حروف آجائیں ہو تو اسے خماسی مزید فیہ کہتے ہیں۔

یاد رہے کہ اسم یا ثلاثی ہوتا ہے یا رباعی یا خماسی جبکہ فعل فقط ثلاثی اور رباعی ہوتا ہے (فعل خماسی نہیں ہوتا)۔ 

4

[دوسری] فصل: حروف اصلی کی شناخت کا معیار

[یہ کتاب کی دوسری فصل ہے ؛ اس فصل میں حروف اصلی کی شناخت کا معیار بیان کیا گیا ہے]۔

سوال:حروف اصلی اور حروف زائد کی پہچان کا معیار کیا ہے؟ ہم کیسے پہچانیں گے کہ اس میں اصلی حروف کون سے ہیں اور زائد حروف کون سے ہیں؟

یہ فصل بہت اہم ہے آپ اگر  قرآن مجید کے کسی ایک لفظ کا معنیٰ تلاش کرنا چاہیں تو جب تک اس لفظ کے اصلی حروف کی شناخت نہیں ہو گی ، اس وقت تک  اس کا دقیق اور صحیح معنیٰ معلوم نہیں ہو سکے گا اور اسی طرح اگر کسی عربی  لفط کا لغوی معنیٰ کسی عربی لغت کی کتاب میں  تلاش کرنا چاہیں  تو حروف اصلی کی پہچان کے بغیر   اس کا دقیق اور صحیح معنیٰ معلوم نہیں ہو سکے گا۔عام طور پر لغت کی کتب میں لفظ کے اصلی حروف  کو معیار بنایا جاتا ہے اور اسی معیار کے مطابق الفاظ کے معانی تلاش کیے جاتے ہیں ،مثال کے طور پر  ایک شخص لفظ مُنتَظِر کا معنیٰ دیکھنا چاہتا ہے تو وہ المنجد یا کسی بھی عربی ڈکشنری کی طرف رجوع کرے گا، اب اسے براہ راست  لفظِ  مُنتَظِر  کو تلاش نہیں کرنا بلکہ اس لفظ کے اصلی تین حروف کو مدّ نظر رکھنا ہے۔ لفظ مُنتَظِر کے اصلی تین حروف: ن، ظ، ر  ہیں اور باقی حروف (م، ت) زائد ہیں اور یہ لفظ اسم فاعل کا صیغہ ہے حروف زائد سے حروف اصلی کی شناخت کا میزان یا معیار فاءالفعل، عین الفعل اور لام الفعل ہے  لہٰذا جو حرف بھی ان تین  میں سے ہر ایک کے مقابل میں آئے گا وہ اصلی ہوگا۔

  دوسری مثال: سورۂ مبارکۂ  حمد میں ﴿إِيَّاكَ نَعبُدُ﴾ پر غور کریں، لفظ نعبد میں تین اصلی حروف: عین، باء، دال ہیں اس لئے کہ نَعبُدُ، نَفعُلُ کے وزن پر ہے اور نون مضارع کی علامت ہے جو کہ جمع کےلیے استعمال ہوتی ہے باقی عین، باء اور دال تینون حروف اصلی ہیں اس لئے کہ عین، فاء الفعل کے مقابل میں ،  باء عین الفعل کے مقابل میں اور دال  لام الفعل کے مقابل میں واقع ہوئے ہیں۔ 

تیسری مثال: لفظ زَیدٌ میں صرف تین حروف ہیں: زا ء، یاء اور دال اور یہ سب اصلی حروف ہیں یعنی اس میں کوئی بھی حرف اضافی نہیں ہے  لہذا اسے اسم ثلاثی مجرد کہتے ہیں۔ اس مثال میں زا ء، فاء کے مقابل میں، یاء  عین کے مقابل میں اور دال لام  کے مقابل میں ہیں۔

 چوتھی مثال: ضَرَبَ، یہ فعل ماضی کا پہلا صیغہ ہے، اس میں بھی فقط تین حروف ہیں: ضاد، راء اور  باء اور یہ سب اصلی حروف ہیں یعنی اس میں کوئی بھی حرف اضافی نہیں ہے لہذا اسے فعل ثلاثی مجرد کہتے ہیں۔ اس مثال میں ضاد، فاء کے مقابل میں، راء عین کے مقابل میں اور باء لام  کے مقابل میں ہیں۔

معلوم ہوا کہ  جو  کلمہ بھی  ثلاثی مجرد ہے اس کے تینوں حروف اصلی ہوتے ہیں اور وہ فاء ،عین اور لام کے مقابل میں ہوتے ہیں۔ پس اگر کسی لفظ میں تین حروف سے زائد ہوں تو جو حرف فاء، عین اور لام کے مقابل میں آئے گا وہ اصلی ہوگا جبکہ باقی حروف زائد ہوں گے۔

پانچویں مثال: اردو زبان میں کہا جاتا ہے کہ فلان، فلاں کا قاتل ہے۔ اس مثال میں قاتل عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس میں چار حروف: قاف، الف، تاء اور لام ہیں۔ ان میں تیںن حروف اصلی اور ایک حرف زائد ہے۔ اب یہاں اصلی اور زائد حروف کو تلاش کرنا ہے۔ اس میں قاف، تاء اور لام اصلی حروف ہیں اور الف زائد ہے؛ اس لئے کہ قاتل، فاعل کے وزن پر اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ ثلاثی مجرد سے اسم فاعل، فاعِلٌ  کے وزن پر آتا ہے۔ اس میں قاف،تاء اور لام اصلی حروف ہیں ہے؛ اس لئے کہ قاف، فاء الفعل کے مقابل میں، تاء، عین الفعل کے مقابل میں اور لام، لام الفعل کے مقابل میں آیا ہے لہٰذا  الف زائد ہے اور یہ اسم فاعل کی علامت ہے۔

چھٹی مثال: لفظ مقتول ہے۔ یہ بھی عربی  لفظ ہے۔ اس کے  بھی اصلی حروف: قاف، تاء اور لام ہیں جبکہ میم اور واو  زائد ہیں؛ اس لئے کہ مقتول، مَفعُولٌ کے وزن پر اسم مفعول کا صیغہ ہے۔ ثلاثی مجرد سے اسم مفعول،مَفعُولٌ کے وزن پر آتا ہے۔ اس میں قاف،تاء اور لام اصلی حروف جبکہ میم اور واو زائد ہیں ؛ اس لئے کہ قاف، فاء الفعل کے مقابل میں، تاء، عین الفعل کے مقابل میں اور لام، لام الفعل کے مقابل میں آیا ہے لہٰذا ابتدا میں آنے  والی میم اور اس کے بعد واو دونوں  زائد  ہیں۔

5

[تیسری] فصل: اسم ثلاثی، رباعی اور خماسی کے اوزان

[یہ کتاب کی تیسری فصل ہے؛ اس فصل میں  اسم ثلاثی، رباعی اور خماسی کے بارے میں بحث کی گئی ہے]۔ 

یہ فصل علیحدہ ہے، اس فصل میں اسم ثلاثی کے اوزان کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ اسم، ثلاثی، رباعی اور خماسی ہوتا ہے۔

اسم ثلاثی مجرد وہ اسم ہے جس میں کوئی حرف زائد نہیں ہوتا بلکہ اس کے تمام حروف اصلی ہوتے ہیں۔

 اسم ثلاثی مجرد کے دس اوزان ہیں یعنی ہر وہ اسم جس کے تینوں حروف اصلی ہوں گے وہ ان دس میں سے کسی ایک وزن پر ہوگا اور وہ دس اوزان یہ ہیں:

فَلْسٌ، فَرَسٌ،كَتِفٌ، عَضُدٌ، حِبْرٌ ،عِنَبٌ، قُفْلٌ، صُرَدٌ، اِبِلٌ، عُنُقٌ۔

اسم  ثلاثی مزید فیہ کے اوزان بہت زیادہ ہیں۔

اسم رباعی مجرد وہ اسم ہے جس میں کوئی حرف زائد نہیں ہوتا بلکہ اس کے چاروں حروف اصلی ہوتے ہیں۔ اسم رباعی مجرد کے پانچ اوزان ہیں یعنی ہر وہ اسم جس کے چاروں حروف اصلی ہوں وہ ان پانچ میں سے کسی ایک وزن پر ہوگا۔

یاد رہے کہ اسم رباعی مزید فیہ کے اوزان بہت کم ہیں۔

 اسم خماسی مجرد وہ اسم ہے جس کے پانچوں حروف اصلی ہوتے ہیں، اس میں کوئی حرف زائد نہیں ہوتا۔ اسم خماسی مجرد کے چار اوزان ہیں یعنی جو اسم بھی خماسی مجرد ہوگا، وہ ان چار اوزان میں سے کسی ایک وزن پر ہوگا۔

6

تطبیق: اسم کی بِنائیں [اوزان]

[پہلی] فصل: اسم کی بِنائیں [اسم کے اوزان]

"اسم را سه بناست: ثلاثی و رباعی و خماسی"۔

اسم کی تین بِنائیں ہیں یعنی اس کے تین وزن ہیں: ثلاثی، رباعی اور خماسی۔ اس فارسی جملے کا ترجمہ اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے کہ اسم کے اصلی حروف تین، چار یا پانچ ہوتے ہیں۔

"هر یک از این سه بنا، دو وجه است: يكى مجرّد (يعنى كه همه حروف وى اصلى باشد) و ديگرى مَزِيدٌ فيه (يعنى در او حرفِ زايد باشد)"۔

 ان تین اوزان میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں: ۱_ حرف زائد سے مجرد (خالی) یعنی جس کے تمام حروف اصلی ہوں؛ ۲_ مزید فیہ یعنی جس میں اصلی حروف کے علاوہ زائد حرف بھی ہو۔ مطلب یہ کہ اسم، ثلاثی مجرد، ثلاثی مزید فیہ، رباعی مجرد، رباعی مزید فیہ، خماسی مجرد اور خماسی مزید فیہ ہوتا ہے۔

"و فعل را دو بناست ثلاثى و رباعى و هر يك از اين دو بنا ، بر دو وجه است : مجرّد و مزيد فيه ـ چنانكه در اسم گفته شد."۔

فعل کی دو بِنائیں ہیں: ۱_ ثلاثی ۲_ رباعی یعنی فعل کے اصلی حروف تین یا چار  ہوتے ہیں، اس سے زیادہ نہیں ہوتے۔ اسم کی طرح فعل کی بھی دو قسمیں: ۱_ مجرد  یعنی جس فعل کے تمام حروف اصلی ہوں۔

۲_ مزید فیہ یعنی جس میں اصلی حروف کے علاوہ زائد حرف بھی ہو جس طرح اسم میں معلوم ہوچکا ہے۔

7

تطبیق: حروف اصلی کی شناخت کا معیار

"فصل :ميزان، در شناختن حروف اصلى از حروف زوايد ، فاء و عين و لام است"۔

یہ کتاب کی دوسری فصل ہے؛ اس فصل میں حروف اصلی کی شناخت کا معیار بیان کیا گیا ہے۔

حرف اصلی کو حرف زائد سے پہچاننے کا معیار  کیا ہے؟ ہم کیسے فرق کریں گے کہ کون سے حروف اصلی ہیں اور کون سے زائد ہیں فرماتے ہیں معیار  تین حروف فاء عین اور لام ہیں جو حرف فاء عین اور لام کے مقابل ہوگا وہ اصلی ہوگا جو اس سے ہٹ کر ہوگا وہ اس میں زائد ہوگا۔

 "پس هر حرفی که در مقابل یکی از این حروف ثلاثه باشد اصلی بود"۔

 ہر وہ حرف جو فاء عین اور لام کے مقابل میں ہوگا وہ ہوگا اصلی جیسے رجل بر وزن فعل ر اءمقابل فاء جیم مقابل عین لام مقابل لام اس میں کوئی اضافی نہیں ہے اس کا مطلب ہے کہ اس کے تینوں کے تینوں حرف اصلی ہیں، یہ اسم ثلاثی مجرد کی مثال ہو گئی۔

نَصَرَ(اس ایک مرد نے مدد کی) بروزن فَعَلَ نون مقابل فاء صاد مقابلے عین راء مقابل لام پس اس کا مطلب اس کے تین حرف ہیں۔ یہ مثال ہو جائے گی فعل ثلاثی مجرد کی۔

"و هر حرفی که در مقابل حروف نباشد زائد بود"۔

 ہر وہ حرف جو فاء عین اور لام کا مقابل نہیں بنے گا ،وہ حرف اس میں زائد ہوگا ۔ مثال جیسے ضارِبٌ(وہ ایک مرد مارنے والا) ، ناصِرٌ (وہ ایک مرد مدد کرنے والا)، اسم فاعل، اب یہ ہیں فاعِل ٌکے وزن پر، ضاد اور ن ون فاء کے مقابل میں ہے راء اور صاد عین کے مقابل میں ہے باء اور راء لام کے مقابل میں ہے اس کا مطلب ہے فاعِل ٌمیں جو الف ہے وہ حرف زائد ہے وہ اصلی نہیں ہے ۔

"یَنْصُرُ و  یَطْلُبُ که بر وزن یَفْعُلُ است"۔

 اسی طرح یَنْصُرُ او ر یَطْلُبُ جو یَفْعُلُ کے  وزن پر ہیں چونکہ  یاء، فا ءعین لام میں سے کسی کے مقابل میں نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے یہ زائد ہے باقی تینوں حرف اس کے اصلی ہیں۔

"و در بنای رباعی اسم و فعل لام یک بار مکرر می شود"۔

 اسم کبھی رباعی مجرد بھی ہوتا ہے کہ چاروں حرف اس کے اصلی ہوتے ہیں اور فعل بھی رباعی مجرد ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے ف اور عین تو وہی رہے گی اس کا مطلب ہے لام کو ایک دفعہ تکرار کریں گے فَعلَلَ دو لام آجائیں گے فاء عین اور دو لام یہ وزن بن جائے گا کس کے لیے رباعی مجرد کے لیے، اور فعل میں تو خماسی نہیں ہوتا اسم میں ہوتا ہے تو اگر فعل اسم میں ہے تو پھر وہاں فاء عین اور لام یعنی ایک لام کو دو دفعہ تکرار کریں گے ۔

یہاں تک ہم اس بات کی سمجھ آگئی کہ اسم مجرد بھی ہوتا ہے اسم مزید فیہ بھی ہوتا ہے فعل مجرد بھی ہوتا ہے فعل مزید فیہ بھی ہوتا ہے۔

8

تطبیق: ثلاثی مجرد کے صیغے

[ یہ تیسری فصل ہے] اس فصل میں اسم ثلاثی، رباعی اور خماسی کے اوزان ذکر کئے گئے ہیں۔ یاد ریے کہ ان میں سے یر ایک کی دو قسمیں ہیں: مجرد اور مزید فیہ۔ اسم ثلاثی مجرد کے اوزان معین و مشخص ہیں جبکہ اسم ثلاثی مزید فیہ کے اوزان زیادہ ہیں۔

"اسم ثلاثی مجرد را ده صیغه است"۔

جس طرح پہلے بیان کیا گیا ہے کہ اسم ثلاثی مجرد کے اوزان معین و مشخص ہیں اور ان کی تعداد دس ہے یعنی جو اسم بھی تین حروف پر مشتمل ہو وہ ان دس اوزان میں سے کسی ایک وزن پر ہوگا۔

اسم ثلاثی مجرد کے دس اوزان یہ ہیں:

فَلْسٌ(پیسہ، سکہ)، فَرَسٌ(گھوڑا)، کَتِفٌ (کندھا)،عَضُدٌ (بازو)،حِبْرٌ (یہودی عالم)،عِنَبٌ (انگور)،قُفْلٌ(تالا) ،صُرَدٌ (اُلّو، چڑیا) ،اِبِلٌ(اونٹ)، عُنُقٌ (گردن)۔

"و مزید فیه اسم ثلاثی بسیار است"۔

اسم ثلاثی مزید فیہ کے اوزان بہت زیادہ ہیں ہم شمار نہیں کر سکتے۔

 "اسم رباعی مجرد را پنج صیغه است"۔

 اسم رباعی مجرد کے پانچ اوزان ہیں:

جَعْفَرٌ (چھوٹی نہر)، دِرْهَمٌ(درہم)، زِبْرِجٌ (زینت، عورتوں کی زینت)، بُرْثُنٌ (شیر کا پنجہ)، قِمَطْرٌ(صندوقچہ)۔

"مزید فیه وی اندک است"۔

اسم رباعی مزید فیہ کی تعداد بہت کم ہے۔

"اسم خماسی مجرد را چهار صیغه است"۔

 اسم خماسی مجرد کے فقط چار اوزان ہیں:

سَفَرْجَلٌ (ناشپاتی)، قُزَعْمِلٌ (طاقتور اونٹ)، جَحْمَرِشٌ (بوڑھی خاتون)، قِرْطَعْبٌ (تھوڑی چیز)۔

"مزید فیه وی به غایت اندک است"۔

اسم خماسی مزید فیہ کے اوزان بہت ہی کم ہیں۔

"فعل ثلاثی مجرد را سه صیغه است"۔

 فعل ثلاثی مجرد کے فقط تین صیغے ہیں یعنی عربی زبان میں جو لفظ فعل ہو اور اس کے تینوں حروف اصلی ہوں، تو وہ ان تین میں سے کسی ایک وزن پر ہوگا:

فَعَلَ جیسے نَصَرَ؛ (اس کے تینوں حروف مفتوح ہیں)؛

فَعِلَ جیسے عَلِمَ؛ (اس کا عین الفعل مکسور ہے)؛

فَعُلَ جیسے شَرُفَ، (اس کا عین الفعل مضموم ہے)۔

"و مزید فیه وی بسیار است"۔

فعل ثلاثی مزید فیہ کے صیغے بہت زیادہ ہیں، ان شاءاللہ اس کے متعلق بعد میں گفتگو کی جائے گی۔

"فعل رباعی مجرد را یک بناست"۔

فعل رباعی مجرد کا فقط ایک صیغہ ہے: دَحرَجَ  (پھیرنا، گھمانا)بر وزن فَعلَلَ۔

"و رباعی مزید فیه اندک است"۔

 رباعی مزید فیہ  کے صیغے بہت ہی کم ہیں۔

و صلی اللہ علی محمد و آل محمد۔

كتاب صرف مير

بسم الله الرحمن الرحيم

بدان ـ أيّدك الله تعالى فى الدّارين ـ كه كلمات لغت عرب ، بر سه گونه است : اسم است و فعل است و حرف. اسم چون رَجُلٌ و عِلْمٌ. فعل چون ضَرَبَ و دَحْرَجَ. حرف چون مِنْ وإلىٰ.

و تصريف در لغت : «گردانيدن چيزى است از جايى به جايى و از حالى به حالى» و در اصطلاح علما عبٰارت است از : گردانيدن يك لفظ بسوى صيغه هاى مختلفه تا حاصل شود از آن معناهاى متفاوته.

و تصريف در اسم كمتر باشد چون : رَجُلٌ رَجُلٰانِ رِجٰالٌ و رُجَيْلٌ و تصريف در فعل بيشتر باشد چون : ضَرَب ضَرَبٰا ضَرَبُوا ضَرَبَتْ ضَرَبَتا ضَرَبْنَ ضَرَبْتَ ضَرَبْتُما ضَرَبْتُم ضَرَبْتِ ضَرَبْتُما ضَرَبْتُنَّ ضَرَبْتُ ضَرَبْنٰا و چون : يَضْرِبُ يَضْرِبٰانِ يَضْرِبُونَ تَضْرِبُ تَضْرِبٰانِ يَضْرِبْنَ تَضْرِبُ تَضْرِبٰانِ تَضْرِبُونَ تَضْرِبينَ تَضْرِبٰانِ تَضْرِبْنَ أضْرِبُ نَضْرِبُ.

و تصريف در حرف نباشد زيرا كه در حرف تصرّف نيست.

فصل :

اسم را سه بناست : ثلاثىّ و ربٰاعىّ و خماسىّ و هر يك از اين

سه بنا ، بر دو وجه است : يكى مجرّد ( يعنى كه همه حروف وى اصلى باشد ) و ديگرى مَزِيدٌ فيه ( يعنى در او حرفِ زايد باشد ).

و فعل را دو بناست ثلاثى و رباعى و هر يك از اين دو بنا ، بر دو وجه است : مجرّد و مزيد فيه ـ چنانكه در اسم گفته شد.

فصل :

ميزان ، در شناختن حروف اصلى از حروف زوايد ، فاء و عين و لام است پس هر حرفى كه در مقابل يكى از اين حروف ثلاثه باشد اصلى بود ؛ چون رَجُلٌ كه بر وزن فَعُلٌ است ونَصَرَ كه بر وزن فَعَلَ است. و هر حرفى كه در مقابل اين حروف نباشد زايد بود ، چون ضارِبٌ وناصِرٌ كه بر وزن فاعِلٌ است و يَنْصُرُ و يَطْلُبُ كه بر وزن يَفْعُلُ است.

ودر بناى رباعى ، اسم و فعل ، لام يكبار مكرّر مى شود و در خماسى ، اسم ، لام دو بار مكرّر مى شود چنانچه معلوم گردد ـ انشاء الله تعالى.

فصل :

اسم ثلاثى مجرد را ده صيغه است چون :

فَلْسٌ فَرَسٌ كَتِفٌ عَضُدٌ حِبْرٌ عِنَبٌ قُفْلٌ صُرَدٌ اِبِلٌ عُنُقٌ (١).

ومزيد فيه اسم ثلاثىّ بسيار است واسم رباعى مجرد را پنج صيغه

____________________________

(١)

اسماء ثلاثى ده بود اى عاقل

يك يك شمرم نگار بر صفحه دل

فَلْس وفَرَس وكَتِف عَضُد حِبْر وعِنَبٌ

قُفْل وصُرَد ودگر عنق دان واِبِل

است چون جَعْفَرٌ دِرْهَمٌ زِبْرِجٌ بُرْثُنٌ قِمَطْرٌ (١) و مزيد فيه وى اندك است و اسم خماسى مجرد را چهار صيغه است چون سَفَرْجَلٌ قُزَعْمِلٌ جَحْمَرِشٌ قِرْطَعْبٌ (٢) و مزيد فيه وى به غايت اندك است و فعل ثلاثى مجرد را سه صيغه است چون نَصَرَ عَلِمَ شَرُفَ ، و مزيد فيه وى بسيار است ـ چنانكه مى آيد ـ و فعل رباعى مجرد را يك بناست چون دَحْرَجَ كه بر وزن فَعْلَلَ است و مزيد فيه وى اندك است ـ چنانكه مذكور خواهد شد.

فصل :

هر اسمى و فعلى كه در حروفِ اصولِ وَىْ همزه و تضعيف و حروف علّه نباشد آن را صحيح وسالم خوانند ، چون رَجُلٌ و نَصَرَ و هر چه در وى همزه باشد آن را مهموز خوانند چون اَمْرٌ و اَمَرَ و هر چه در وى تضعيف باشد يعنى دو حرف اصلى وى از يك جنس بوده باشد آن را مضاعف خوانند چون مَدٌّ و مدَّ و هر چه در وى حرف عله باشد ( كه آن واو و ياء و الفى است كه مُنْقَلِب باشد از واو و ياء ) آن را مُعْتَلّ خوانند. پس اگر حرف علّه به جاى فاء بود آن را معتلّ الفاء و مثال خوانند چون وَعْدٌ و وَعَدَ و اگر به جاى عين بود آن را معتلّ العين و اجوف خوانند چون قَوْلٌ و قالَ. و اگر به جاى لام بود آن را معتلّ اللّام وناقص خوانند چون رَمْىٌ و رَمىٰ.

و هرگاه در معتلّ دو حرف علّه باشد آن را لفيف خوانند پس اگر

____________________________

(١) معانى كلمات به ترتيب : نهر كوچك ، پول سفيد ، زينت ، پنجه شير ، صندوقچه. زبرج به معنى زينت زنان است و مشهور در زبرج كسر فاء و سكون عين است لكن در اوقيانوس به كسر فاء و عين ضبط نموده.

(٢) معانى به ترتب : گلابى ، شتر قوى ، پيرزن ، شئ حقير.