درس صرف میر

درس نمبر 1: تمہیدی گفتگو

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

تمہید

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
مدارس دینیہ میں بزرگان کی طرف سے جو نصاب مرتّب ہے اور گرائمر کی جو کتب پڑھائی جاتی ہیں یہ سب درحقیقت قرآن اور حدیث کو سمجھنے کے لیے ہیں۔ قرآن مجید عربی اور احادیث مبارکہ عربی زبان میں ہیں۔ ہر زبان کے اپنے کچھ قواعد  ہوتے ہیں۔ جب قواعد  کے ساتھ کسی زبان کو پڑھا جائے  تو  تب مطلب صحیح سمجھ آتا ہے۔ قرآن مجید عربی زبان میں ہے، عربی زبان کے بھی اپنے خاص قواعد ہیں یعنی جس طرح اردو زبان سیکھنے کے   لئے اردو گرائمر اور انگلش سیکھنے کے لئے انگلش گرائمر کی ضرورت ہوتی ہے تو بالکل اسی طرح عربی زبان سیکھنے کے لئے بھی عربی گرائمر (نحو و صرف) کا علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ علم صرف اور علم نحو حقیقت میں عربی گرائمر کے ہی دوسرے نام ہیں، ایک علم سکھاتاہے کہ اگر ایک لفظ سے مختلف صیغوں میں تبدیل کریں تو معانی کیسے بدلیں گے  اور  ایک علم سکھاتا ہے کہ کہاں زبر آنی  چاہیے، کہاں  پیش آنی چاہیے،کہاں زیر آنی چاہیے اور کہاں نہیں آنی چاہیے   یہ سب گرائمر  ہے ۔

تصریف کا لغوی معنی :کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت میں لے جانا یا پھیرنا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہر علم (جیسے علم صرف، علم نحو، علم اصول فقہ اور علم فقہ وغیرہ) کی اپنی خاص تعریف ہوتی ہے  جو  ہر علم کے ماہرین بیان کرتے ہیں۔ علمائے علم صرف نے اس علم کی جو تعریف کی ہے وہ یہ ہے کہ ایک لفظ کو مختلف صیغوں میں تبدیل کرنا تاکہ اس سے مختلف (مطلوبہ)معانی حاصل ہو سکیں۔

قرآن مجید میں آپ دیکھتے ہیں کہیں لفظ ﴿قُلذکر ہوا ہے، کہیں ﴿قَالوااور کہیں ﴿سَیَقُولُآیا ہے۔ یہ تینوں الفاظ ایک ہی لفظ (اَلقَولُ)کے مختلف صیغے ہیں لیکن جو معنیٰ ﴿قُل﴾ کا ہے وہ ﴿قاَلُوا﴾ کا نہیں ہے اور جو معنی ﴿قَالُوا ﴾ کا ہے وہ ﴿سَیَقُولُ﴾ کا نہیں ہے۔

پس علم صرف ایسا علم ہے جس میں ایک لفظ کو مختلف صیغوں میں تبدیل کیا جاتا ہے تاکہ مختلف معانی حاصل ہو سکیں۔ علم صرف کی ابتدائی کتب میں کتاب الامثلہ، شرح امثلہ، صرف بہائی وغیرہ شامل ہیں۔ اس موضوع کی مزید کتابوں میں پنج گنج بہت مفید کتاب ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ  ہم یہ کتاب بھی پڑھ سکیں۔

 اسی طرح کتاب شافیہ بھی علم صرف میں انتہائی مفید کتاب ہے نیز کتاب علم الصیغہ اور مراح الارواح بھی بہترین کتابیں ہیں۔ یہ تمام کتب سابقہ ادوار میں مدارس میں باقاعدہ نصاب کا حصہ ہوتی تھیں۔ آج کل کیونکہ شارٹ کٹ کا دور ہے لوگ چاہتے ہیں رات کو سوئیں اور صبح جید عالم بن کر اٹھیں تو اس لیے بہت سی کتب اب مدارس میں نہیں پڑھائی جاتی ہیں لیکن ان شاءاللہ ہمارا مصمم ارادہ ہے کہ وہ تمام علمی کتب جو متروک ہوتی جا رہی ہیں، ہم اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی  توفیق سے پڑھیں گے تاکہ وہ خزانہ محفوظ رہے۔

الحمدللہ شرح امثلہ ہم نے پڑھی بھی ہے اور ہماری سائیٹ پر موجود بھی ہے۔ آج ہم کتاب صرف میر  شروع کر رہے ہیں۔

صرف میر علم صرف میں اور نحو میر علم نحو میں فارسی زبان میں لکھی گئی مشہور و معروف کتابیں ہیں۔ شیعہ سنی  دینی مدارس میں پہلے سال جو کتب پڑھائی جاتی ہیں ان میں یہ دو کتابیں بھی شامل ہیں۔ 

 ایران کے ایک عالم دین ابو الحسن سید علی بن محمد نے صرف میر لکھی۔ ان کا اسم مبارک سید علی ہے، میر سید شریف کے نام سے  مشہور ہیں، جرجان کے رہنے والے تھے، ابو الحسن ان کی کنیت ہے۔ ان کی ولادت ۷۴۰ ہجری قمری میں ہوئی۔ غالباً  76 سال ان کی زندگی کا دورانیہ ہے۔ ان کی قبر شیراز میں ہے۔ آپ بہت علمی شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے 50 سے زیادہ کتب مختلف علوم میں تحریر فرمائیں۔ یہ دونوں کتابیں سال ِاوّل کے نصاب کا حصہ ہیں۔ ان کی وفات ۸۱۶ ہجری قمری میں ہوئی اور اب 1439ہجری قمری ہے، اس لحاظ سے تقریبا 830 سال کا عرصہ گزر رہا ہے، اس کے باوجود ماشاء اللہ موصوف کی یہ دونوں کتابیں اس انداز میں تحریر شدہ ہیں کہ دینی علمی مراکز جیسے نجف اشرف، قم المقدسہ اور پاکستان بھر کے شیعہ سنی مدارس میں ابھی تک پہلے سال کے نصاب میں پڑھائی جاتی ہیں۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک کوئی اور  کتاب صرف میر کا نعم البدل نہیں  ہو سکی۔ جناب آیت اللہ محمد علی مدرّس  رضوان اللہ علیہ حوزہ علمیہ قم المقدسہ کے مشہور و معروف استاد تھے اور وہ ادبیات عرب میں بے مثال مہار ت رکھتے تھے، دنیا انہیں مدرس افغانی کے نام سے جانتی پہچانتی ہے اور ہمارےعرف میں یہ بات خاصی شہرت رکھتی ہے کہ جس شخص کے سر پر عمامہ ہے وہ بلا واسطہ یا بالواسطہ آیت اللہ مدرس افغانی رحمۃ اللہ علیہ کا شاگرد ہے اور وہ بزرگوار فخر سے صرف میر پڑھاتے تھے اور ہم نے خود ان کی زبان مبارک سے یہ جملہ سنا تھا کہ: من مجتهد صرف میر هستم یعنی میں صرف میر کا مجتہد ہوں۔

اس کتاب کو اس زاویہ سے نہیں پڑھنا چاہئے کہ یہ سال اول کی کتاب ہے بلکہ میرا نظریہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص صرف میر کو دقّت کے ساتھ پڑھ لے اور اس کو سمجھ بھی لے تو اسے کافی حد تک علم صرف میں مہارت حاصل ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں قرآن مجید میں جو مختلف صیغے (افعالِ ماضی، مضارع، امر، اسم فاعل، اسم مفعول وغیرہ) استعمال ہوئے ہیں وہ صرفی لحاظ سےسب کو سمجھ سکتا ہے کہ یہ کون سا صیغہ ہے اور کس باب سے ہے۔ بہرحال یہ بہت اہم کتاب ہے لہذا اس کتاب کو فقط ترجمے کی حد تک نہ پڑھیں بلکہ اسے سمجھیں، فقط ایک دفعہ یا دو دفعہ نہیں بلکہ کم از کم تین بار اس کتاب کو اچھی طرح سمجھ کر پڑھیں اور مباحثہ کریں تاکہ اس کتاب میں آپ کو مہارت حاصل ہوجائے۔ 

 بہرحال سید میر شریف جرجانی کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ جب تیمور لنگ نے ایران کو فتح کیا تو کچھ عرصہ وہ بزرگوار موجودہ افغانستان کے  کسی علاقے میں سکونت پذیر ہوگئے، بعد میں شیراز چلے گئے، وہیں وفات پائی اور شیراز میں ہی ان کی  تدفین ہوئی۔

صاحب صرف میر کتاب کے آغاز میں فرماتے ہیں کہ عربی کلمات (الفاظ)کی تین قسمیں ہیں یعنی آپ کو جو بھی عربی کلمہ کہیں بھی نظر آئے گا اس کی تین صورتیں ہیں یا وہ اسم ہوگا یا فعل یا حرف۔

اسم وہ ہوتا ہے جو فقط معنیٰ پر دلالت کرتا ہے، فعل وہ ہوتا ہے جو معنی  پر دلالت کرنے کے ساتھ ساتھ زمانے کو بھی بیان کرتا ہے اور حرف اسے کہتے ہیں جس کا کام دو کلمات کو آپس میں ملانا اور ربط  پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اردو زبان میں ہم لفظ سے اور تک کا استعمال کرتے ہیں، جیسے میں اسلام آباد سے چلا، اب اگر ہم یہاں لفظ سے کو ہٹا لیں تو سننے والا نہیں سمجھ پائے گا کہ اس کلام کے کہنے والے کا سفر کہاں سے شروع ہوا ہے  یعنی ممکن ہے کہ سننے والا لفظ سے  کے بغیر جملہ سے بالکل الٹا معنی سمجھ لے لہٰذا اصل میں یہ جملہ اس طرح سے ہے کہ میں اسلام آباد سے کراچی تک گیا۔ یہ دونوں کلمات (سے اور تک ) اردو میں بھی بطور حروف استعمال کئے جاتے ہیں اور عربی میں بھی ان (مِن اور اِلیٰ ) کو حروف کہتے ہیں اور حروف کا کام دو کلمات کے درمیان رابطہ برقرار کرنا ہے۔

فعل معنیٰٰ کےساتھ  ساتھ زمانہ پر بھی دلالت کرتا ہے۔ اگر آپ شرح امثلہ پڑھ چکے ہوں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مثلا ایک لفظ ہے ضَرَبَ، یہ فعل ہے۔ اب یہ دو  مطلب بتا رہا ہے ؛ایک معنیٰ اور دوسرا زمانہ یعنی اُس نےگزشتہ زمانے میں  مارا لیکن جو اسم ہوتا ہے وہ فقط معنیٰٰ کو بیان کرتا ہے مثلا ہم کہتے ہیں: اللہ، محمد، علی، فاطمہ ،حسن ، حسین اور  مُنتَظَر؛ یہ کلمات فقط ذات پر دلالت کر رہے ہیں ،ان میں کوئی زمانہ نہیں پایا جاتا۔ جب آپ قرآن مجید میں ان شاءاللہ ﴿بسم الله﴾ کی باء سے لے کر ﴿والنّاس  کی سین تک غور و فکر کریں گے تو جتنے کلمات بھی ہیں، ان میں سے ہر کلمہ یا اسم ہوگا یا فعل یا حرف۔

یاد رہے کہ آیات قرآنی جملات کی صورت میں ہیں اور جب ہر جملے کے ایک ایک لفظ کو الگ الگ کر کے آپ دیکھیں گے تو ہر لفظ یا اسم ہوگا یا فعل یا حرف۔ مثلا ﴿بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ اب اس میں باء، اسم، اللہ، الرحمٰن اور الرحیم الفاظ ہیں اور ان میں سے باء حرف ہے جبکہ دیگر کلمات اسم ہیں۔

اسی طرح ﴿ایّاکَ نَعبُدُ میں ایّاکَ اور نَعبُدُ کو علیحدہ علیحدہ کریں، جب ایک ایک کر کے دیکھیں گے تو ان کلمات میں سے ہر ایک یا اسم ہوگا یا فعل یا حرف۔

ابتدا میں ہم نے گزارش کی تھی کہ علم صرف کا کام ایک لفظ کو مختلف صیغوں میں پھیرنا ہے تاکہ اس سے مختلف معانی حاصل ہوں۔

 اب حرف کو کتنے صیغوں میں پھیر سکتے ہیں تاکہ اس سے مختلف معانی حاصل ہوں؟ جواب یہ ہے کہ حرف میں تصریف یعنی گردان نہیں ہوتی۔ مِن ہمیشہ مِن ہی رہے گا، إلیٰ ہمیشہ إلیٰ رہے گا۔

 حرف کو مختلف صیغوں میں نہیں پھیرا جاتا باقی رہ گئے اسم اور فعل، اسم کو کسی حد تک چند مختلف صیغوں میں پھیر سکتے ہیں، مثلا آپ مفرد سے تثنیہ بنائیں گے یا مفرد سے جمع بنائیں گے یا اس کی تصغیر  لائیں گے پس معلوم ہوا کہ  جو کلمہ اسم ہوگا اس سے فقط چند صیغے مزید بنائے جا سکتے ہیں۔

فعل میں تصریف بہت زیادہ ہے، مثلا ضَرب مصدر ہے،اس سے فعل ماضی کے  14 صیغے بناتے ہیں، فعل ماضی سے مضارع کے 14 صیغے بناتے ہیں  اور پھر فعل مضارع معلوم سے  فعل امر و نہی،اسم فاعل اور فعل مضارع مجہول سے اسم مفعول وغیرہ کے صیغے بناتے ہیں۔

 تو نتیجہ یہ ہوا کہ کلمات عرب تین قسموں پر ہیں: اسم، فعل اور حرف۔ علم صرف کا زیادہ کردار فعل میں ہے چونکہ فعل سے زیادہ صیغے بنتے ہیں اور اس طرح زیادہ معانی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

حرف سے بالکل مختلف صیغے نہیں بنتے لہٰذا حروف میں علم صرف کا کوئی زیادہ کردار نہیں ہے۔

 یہ ایک فصل تھی جو یہاں پر مکمل ہو گئی۔ کتاب صرف میر میں مصنفؒ کا جو انداز ہے انہوں نے چھوٹی چھوٹی فصلیں بنائی ہیں تاکہ علیحدہ علیحدہ ہر مطلب سمجھنے میں آسانی ہو۔

4

اسم کی تین بنیادیں ہیں

اگلی فصل میں جو بتانا چاہتے ہیں وہ یہ عبارت ہے:

"فصل: اسم را سه بناست"

 مصنّف فرماتے ہیں کہ اسم کی تین بِنائیں ہیں۔ عربی میں  اسم یا تین حرفی ہوگا یا چار حرفی یا پانچ حرفی۔  ہم  اگلی فصل میں ان شاءاللہ حروف اصلی اور حروف زائد کی شناخت کے بارے میں بحث کریں گے، اس فصل میں صرف یہ بتا رہے ہیں کہ اسم کی تین بِنائیں ہیں یعنی عربی زبان میں جو کلمہ بھی اسم ہے ؛اگر اس کے اصلی حروف تین ہوں تو اسے اسم ثلاثی مجرد، اگر  اصلی حروف چار ہوں تو اسے اسم رباعی مجرد اور اگر  اس کے اصلی حروف پانچ ہوں تو اسے اسم خماسی مجردکہتے ہیں لیکن اگر اسم کے ان اصلی حروف کے ساتھ کوئی حرف اضافی آ جائے تو اس صورت میں اس اسم کو مزید فیہ کہتے ہیں پس اگر کسی فعل کے اصلی حروف تین ہوں تو اسے فعل ثلاثی مجرد کہا جاتا ہے اور ان اصلی حروف کے ساتھ اگر کوئی حرف اضافی آ جائے تو اسے فعل ثلاثی مزید فیہ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی فعل کے اصلی حروف چار ہوں تو اسے فعل رباعی مجرد کہا جاتا ہے اور ان اصلی حروف کے ساتھ اگر کوئی حرف اضافی آ جائے تو اسے فعل رباعی مزید فیہ کہتے ہیں۔

  اگلی فصل علیحدہ ہے جس میں اصلی اور اضافی حروف کی شناخت کا معیار بیان کیا جائے گا  ان شاءاللہ اگلے درس میں  اس مطلب کوواضح کریں گے۔

یاد رہے کہ صرف میر  کے جس نسخے کا ہم نے انتخاب کیا ہے وہ جامع المقدمات میں موجود ہے۔ پاکستان میں یہی کتاب علیحدہ سے فارسی زبان میں چھپی ہوئی ہے جو کہ عام مذہبی کتاب خانوں میں بھی دستیاب ہے۔ کتاب، ترتیب اور مطالب سب ایک ہی ہیں البتہ ہو سکتا ہے دونوں نسخوں میں کہیں معمولی لفظی اختلاف پایا جائے۔

5

تطبیق: تمہید

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ

"بدان ـ أيّدك الله تعالى فى الدّارين ـ كه كلمات لغت عرب، بر سه گونه است: اسم است و فعل است و حرف."

جان لیجئےـ خداوند متعال دنیا اور آخرت میں آپ کی تائید فرمائےـ جتنے بھی عربی کلمات ہین ان کی تین قسمیں ہیں: اسم، فعل اور حرف۔

اسم جیسے رَجُلٌ و عِلمٌ یعنی مرد اور عِلم۔ رَجُلٌ اسم ذات کی مثال ہے اور عِلمٌ اسم معنی کی مثال ہے۔ 

فعل جیسے ضَرَبَ و دَحَرَجَ۔ ضَرَبَ یعنی اس ایک مرد نے گزشتہ زمانے میں مارا۔ یہ فعل ثلاثی مجرد کی مثال ہے کیونکہ اس کے تینوں حروف اصلی ہیں۔ اور دَحَرَجَ یعنی اس ایک مرد نے گزشتہ زمانے میں پتھر مارا۔ یہ فعل رباعی مجرد کی مثال ہےکیونکہ اس کے چاروں حروف اصلی ہیں۔

حرف جیسے مِن (سے)، الی (تک)۔

فرماتے ہیں: "تصریف در لغت گردانیدن چیزی است از جایی به جایی

 تصریف کا لغوی معنیٰ ایک چیز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تبدیل کرنا یا پھرانا ہے۔

 "و از حالی به حالی" یا ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل کرنا ہے لیکن یہاں ہماری بحث لغوی معنی سے نہیں بلکہ اس کے اصطلاحی معنی سے ہے اور اس کو مصنف نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: 

"گردانیدن یک لفظ به سوی صیغه های مختلفه تا حاصل شود از آن معناهای متفاوته" یعنی ایک لفظ کو مختلف صیغوں میں پھیرنا تاکہ اس سے مختلف معانی حاصل ہوں۔

 تصریف اور علم صرف کا کام  ایک کلمہ کو مختلف صیغوں میں پھیرنا ہے،کلمہ کی تین قسمیں ہیں: اسم، فعل اور حرف۔ اب یہاں پر سوال پیدا یوتا ہے کہ اسم، فعل اور حرف تینوں کو مختلف صیغوں میں تبدیل کر سکتے ہیں؟ تو جواب میں فرماتے ہیں:

"تصریف در اسم کمتر است"  یعنی اسم میں تصریف بہت کم ہوتی ہے لہذا اس سے مختلف صیغے بنتے ہیں لیکن بہت ہی کم جسے رَجُلٌ، ایک مرد۔ اب یہ اسم ہے تو اس سے زیادہ سے زیادہ ہم تثنیہ، جمع اور تصغیر بنائیں گے جیسے رَجُلانِ، دو مرد، رِجالٌ، تین یا تین سے زیادہ مرد، رُجَیْلٌ، چھوٹا مرد یعنی اس رَجُلٌ سے مزید فقط تین صیغے بنتے ہیں، زیادہ نہیں۔

"تصریف در فعل بیشتر باشد" فعل میں تصریف بہت زیادہ ہے لہذا ایک لفظ کو بہت زیادہ صیغوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے تاکہ بہت زیادہ معانی حاصل کیے جا سکیں جیسے لفظ ضَرَبَ یعنی گزشتہ زمانے میں اس ایک مرد نے مارا۔ اب ہم اس سے باقی صیغے بھی بنا سکتے ہیں: ضَرَب ضَرَبا ضَرَبُوا ضَرَبَتْ ضَرَبَتا ضَرَبْنَ ضَرَبْتَ ضَرَبْتُما ضَرَبْتُم ضَرَبْتِ ضَرَبْتُما ضَرَبْتُنَّ ضَرَبْتُ ضَرَبْنا۔

 ان صیغون کا ترجمہ اس طرح سے ہے:

 ضَرَب: گزشتہ زمانے میں اس ایک مرد نے مارا۔

ضَرَبا: گزشتہ زمانے میں ان دو مردوں نے مارا۔

ضَرَبُوا: گزشتہ زمانے میں ان زیادہ مردوں نے مارا۔

ضَرَبَتْ: گزشتہ زمانے میں اس ایک خاتون نے مارا۔

ضَرَبَتا: گزشتہ زمانے میں ان دو خواتین نے مارا۔

ضَرَبْنَ: گزشتہ زمانے میں ان زیادہ خواتین نے مارا۔

ضَرَبْتَ: گزشتہ زمانے میں تو ایک مرد نے مارا۔

ضَرَبْتُما:گزشتہ زمانے میں تم دو مردوں نے مارا۔

ضَرَبْتُم:گزشتہ زمانے میں تم زیادہ مردوں نے مارا۔

ضَرَبْتِ: گزشتہ زمانے میں تو ایک خاتون نے مارا۔

ضَرَبْتُما: گزشتہ زمانے میں تم دو خواتین نے مارا۔

ضَرَبْتُنَّ: گزشتہ زمانے میں تم زیادہ خواتین نے مارا۔

ضَرَبْتُ: گزشتہ زمانے میں، میں نے مارا۔

ضَرَبْنا: گزشتہ زمانے میں ہم نے مارا ۔

 اب یہ دیکھیں کہ ایک ضَرَب سے ہم نے مزید 13 صیغے بنائے اور ہر صیغے کا جو معنی ہے وہ دوسرے معنی سے مختلف ہے۔ اسی طرح فرماتے ہیں: يَضْرِبُ يَضْرِبٰانِ يَضْرِبُونَ تَضْرِبُ تَضْرِبٰانِ يَضْرِبْنَ تَضْرِبُ تَضْرِبٰانِ تَضْرِبُونَ تَضْرِبينَ تَضْرِبٰانِ تَضْرِبْنَ أضْرِبُ نَضْرِبُ.

 ان صیغون کا ترجمہ اس طرح سے ہے:

 یَضْرِبُ: وہ ایک مرد مارتا ہے یامارے گا۔

 یَضْرِبانِ: وہ دو مرد مارتے ہیں یا ماریں گے۔ 

یَضْرِبُونَ: وہ زیادہ مرد مارتے ہیں یاماریں گے۔

تَضْرِبُ: وہ ایک خاتون مارتی ہے یا مارے گی۔ 

تَضْرِبانِ: وہ دو خواتین مارتی ہیں یا ماریں گی۔

 یَضْرِبْنَ: وہ زیادہ خواتین مارتی ہیں یا ماریں گی۔

 تَضْرِبُ: تو ایک مرد مارتا ہے یا مارے گا۔

تَضْرِبانِ: تم دو مرد مارتے ہو یا مارو گے۔

تَضْرِبُونَ: تم زیادہ مرد مارتے ہو یا مارو گے۔

تَضْرِبینَ: تو ایک خاتون مارتی ہے یا مارے گی۔

تَضْرِبانِ: تم دو خواتین مارتی ہو یا مارو گی۔

تَضْرِبْنَ: تم زیادہ خواتین مارتی ہو یا مارو گی۔

أضْرِبُ: میں ایک مرد مارتا ہوں یا ماروں گا/ مین ایک خاتون مارتی ہوں یا ماروں گی۔

 نَضْرِبُ: ہم  دو، تین یا زیادہ مرد مارتے ہیں یا ماریں گے/ ہم دو، تین یا زیادہ خواتین مارتی ہیں یا ماریں گی۔

اب آپ نے دیکھا کہ ایک یَضْرِبُ سے مزید کتنے صیغے بن گئے۔ اسم فاعل، اسم مفعول، نفی، نہی، استفہام وغیرہ کے صیغے بھی آسانی سے بنائے جا سکتے ہیں۔

"تصریف در حرف نباشد زيرا كه در حرف تصرّف نيست" حرف میں بالکل تصریف نہیں ہوتی کیونکہ حرف میں ایک حال سے دوسرے حال کی طرف پھرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے لہٰذا مِن ہمیشہ مِن رہے گا اور إلی ہمیشہ إلی ہی ریے گا۔

كتاب صرف مير

بسم الله الرحمن الرحيم

بدان ـ أيّدك الله تعالى فى الدّارين ـ كه كلمات لغت عرب ، بر سه گونه است : اسم است و فعل است و حرف. اسم چون رَجُلٌ و عِلْمٌ. فعل چون ضَرَبَ و دَحْرَجَ. حرف چون مِنْ وإلىٰ.

و تصريف در لغت : «گردانيدن چيزى است از جايى به جايى و از حالى به حالى» و در اصطلاح علما عبٰارت است از : گردانيدن يك لفظ بسوى صيغه هاى مختلفه تا حاصل شود از آن معناهاى متفاوته.

و تصريف در اسم كمتر باشد چون : رَجُلٌ رَجُلٰانِ رِجٰالٌ و رُجَيْلٌ و تصريف در فعل بيشتر باشد چون : ضَرَب ضَرَبٰا ضَرَبُوا ضَرَبَتْ ضَرَبَتا ضَرَبْنَ ضَرَبْتَ ضَرَبْتُما ضَرَبْتُم ضَرَبْتِ ضَرَبْتُما ضَرَبْتُنَّ ضَرَبْتُ ضَرَبْنٰا و چون : يَضْرِبُ يَضْرِبٰانِ يَضْرِبُونَ تَضْرِبُ تَضْرِبٰانِ يَضْرِبْنَ تَضْرِبُ تَضْرِبٰانِ تَضْرِبُونَ تَضْرِبينَ تَضْرِبٰانِ تَضْرِبْنَ أضْرِبُ نَضْرِبُ.

و تصريف در حرف نباشد زيرا كه در حرف تصرّف نيست.

فصل :

اسم را سه بناست : ثلاثىّ و ربٰاعىّ و خماسىّ و هر يك از اين

سه بنا ، بر دو وجه است : يكى مجرّد ( يعنى كه همه حروف وى اصلى باشد ) و ديگرى مَزِيدٌ فيه ( يعنى در او حرفِ زايد باشد ).

و فعل را دو بناست ثلاثى و رباعى و هر يك از اين دو بنا ، بر دو وجه است : مجرّد و مزيد فيه ـ چنانكه در اسم گفته شد.

فصل :

ميزان ، در شناختن حروف اصلى از حروف زوايد ، فاء و عين و لام است پس هر حرفى كه در مقابل يكى از اين حروف ثلاثه باشد اصلى بود ؛ چون رَجُلٌ كه بر وزن فَعُلٌ است ونَصَرَ كه بر وزن فَعَلَ است. و هر حرفى كه در مقابل اين حروف نباشد زايد بود ، چون ضارِبٌ وناصِرٌ كه بر وزن فاعِلٌ است و يَنْصُرُ و يَطْلُبُ كه بر وزن يَفْعُلُ است.

ودر بناى رباعى ، اسم و فعل ، لام يكبار مكرّر مى شود و در خماسى ، اسم ، لام دو بار مكرّر مى شود چنانچه معلوم گردد ـ انشاء الله تعالى.

فصل :

اسم ثلاثى مجرد را ده صيغه است چون :

فَلْسٌ فَرَسٌ كَتِفٌ عَضُدٌ حِبْرٌ عِنَبٌ قُفْلٌ صُرَدٌ اِبِلٌ عُنُقٌ (١).

ومزيد فيه اسم ثلاثىّ بسيار است واسم رباعى مجرد را پنج صيغه

____________________________

(١)

اسماء ثلاثى ده بود اى عاقل

يك يك شمرم نگار بر صفحه دل

فَلْس وفَرَس وكَتِف عَضُد حِبْر وعِنَبٌ

قُفْل وصُرَد ودگر عنق دان واِبِل