درس شرح امثلہ

درس نمبر 5: فعل ماضی 3

 
1

خطبہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

2

ابتدائی عبارتیں

وآن سه كه مؤنّث را بود : ضَرَبْتِ ، ضَرَبْتُما ، ضَرَبْتُنَّ.

3

ماضی مؤنث مخاطب کے صیغوں کی پہچان

ماضی کی مختلف حالتیں :

بحث ہماری بات چل رہی تھی کہ ماضی سے چودہ صیغے  بنتے ہیں اس لیے کہ ماضی کی مختلف حالتیں ہوتی ہیں زمانہ گذشتہ میں ایک کام انجام پایا ہے،  بسا اوقات وہ کام کرنے والا شخص غائب ہوتا ہے بسا اوقات وہ  حاضراورموجود ہوتا ہے اور  بسا اوقات  وہ کام کرنے والا انسان خود ہوتا ہے پھر یہ ہوتا ہے  کہ بسا اوقات وہ کام ایک فرد انجام دیتا ہے کبھی دو انجام دیتے ہیں کبھی تین انجام دیتے ہیں۔

ماضی کے  پہلے نو صیغوں کا خلاصہ :

 تو مجموعا گزارش کی تھی کہ اس کی چودہ صورتیں بنتی ہیں پہلے تین مفرد مذکر غائب تثنیہ  مذکر غائب اور جمع مذکر غائب کے تھے اگلے تین مفرد مونث غائبہ تثنیہ مونث غائبہ اور جمع مونث غائبہ، یہ چھ ہو گئے۔  اگلے چھ حاضر کے تھے واحد مذکر حاضر تثنیہ مذکر حاضر اور جمع مذکر حاضر ان نو صیغوں کی بحث ہم نے مکمل کر لی تھی۔

آج ہم باقی ماندہ صیغوں پر بحث کریں گے۔ وہ ہیں "ضَرَبتِ" واحد مونث مخاطبہ "ضَرَبتُما" تثنیہ مونث مخاطبہ "ضَرَبٗتُنَّ" جمع مونث مخاطبہ  یہ تین ہوجائیں گے اور    دو ہو جائیں گے متکلم کے ایک "ضَرَبتُ" واحد متکلم کا اس میں مذکر اور مونث کا فرق نہیں ہوتا، اور ایک ہے "ضَرَبنَاجمع متکلم کا اس میں مذکر مونث کا فرق نہیں ہوتا۔ ہم اب ان کی بحث کریں گے اور پھر یہ بتائیں گے کہ  یہ کون سا صیغہ کیسے  بنا ہے ۔ فرماتے ہیں مونث  مخاطب کے تین  صیغے ہیں  ضََرَبتِ ، ضَرَبتُما، ضَرَبتُنَّ اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ ہم نے ان کو کہاں سے بنایا ہے اور یہ کیسے بنے ہیں ؟

4

ماضی مؤنث مخاطب کے صیغے

باقی صیغوں کی طرح  ہم کتاب کے ساتھ تطبیق کر رہے تھے  کہ:

ضَرَبتِ، تو  ایک عورت نے مارا زمانہ گزشتہ میں،  یعنی گزرے ہوئے زمانہ میں اسے کہتے ہیں صیغہ مفردہ مونث حاضرہ فعل ماضی صحیح ثلاثی مجرد معلوم ۔میں نے کہا تھا ان کی تفصیل فی الحال اس لیے بیان نہیں کر رہے چونکہ ابھی آپ کو  تیسرا  یا چوتھا دن  ہے  ان شاءاللہ آگے جب "کتاب  صرف میر "آئے گی تو  ان میں سے ہر  ایک کو  کھول کر اور واضح کر کے بیان کریں گے تاکہ ابھی بوجھ نہ ہو جائے۔

"ضربتِ در اصل ضرب بود"

 یہ ضربت بھی  اسی ضرب سے ہی بنا ہے ، ضَرَبَ واحد مذکر غائب کا صیغہ تھا اب ہم نے اس سے بنانا ہے مفرد مونث حاضر اب کیا کریں  ؟ اس  کے بنانے کا طریقہ کار کیا ہو گا؟

فرماتے ہیں: اس کا طریقہ  کار یہ ہے:

(تاىِ مكسوره را كه علامت مفرده حاضره مؤنّث بود در آخرش درآورديم)

ضَرَبَ کے آخر میں ایک "ت" ذکر کی  اور وہ بھی مکسورہ   جیسے واحد مذکر کے لیے ہم نے "ضَرَبتَ" میں  تائے مفتوحہ آخر میں لگائی تھی تو یہاں بھی ہم تائے مکسورہ یعنی وہ جس  پر  زیر ہوگی وہ لگائیں گے یہ بن جائے گا "ضَرَبَتِ"۔

"و ماقبل تاء را به جهت شدّتِ اِتّصال ضمير به فعل ، ساكن كرديم"

 اب چونکہ یہ صیغہ ہم نے بنایا ہے واحد مونث مخاطبہ کا اور یہ "ت" ہمیشہ ضَرَبَ کے ساتھ ملی رہے گی ،ایسے نہیں ہو سکتا کبھی "ضرب" علیحدہ ہو جائے اور "ت" علیحدہ ہو جائے تو ہم نے "با" کو ساکن کر دیا جب پہلے تھا "ضَرَبَتِ" جب با کو ساکن کر دیں گے تو یہ بن جائے گا ضَرَبؔتِ تو پس ضَرَبتِ صیغہ ہے مفردہ مونث حاضرہ کا۔ "ضَرَبتِ" بروزن "فَعَلتِ" پس" ضاد" فاء الفعل ہو جائے گا، اور "را "عین الفعل ہو جائے گا ۔"باء" ساکنہ لام الفعل  ہو جائے گی اور جو آخر میں تائے(تِ) مکسورہ ہے یہ تائے مکسورہ ایک تو علامت ہوگی مفردہ مخاطبہ مؤنث کی یہ بتا رہی ہے کہ یہ مخاطب ایک ہے اور مؤنث ہے مذکر بھی نہیں دو یا چار یا چھ بھی نہیں اور یہی "تضَرَبتِ میں یہ جو تائے مکسورہ ہے یہ جو "تِ" ہے یہی فاعل کی ضمیر بھی ہوگی البتہ متصلہ اور "ضَرَبتِ" کی ضمیر منفصلہ ہوتی ہے "اَنتِ" انشاءاللہ جب ہم آگے ضمیروں کی بحث کریں گے تو وہاں بتائیں گے کہ کوئی ضمیر متصل ہوتی ہیں اور کچھ ضمیریں منفصل ہوتی  ہیں وہ کون کون سی ہیں انشاءاللہ ایک ایک کر کے وضاحت کریں گے۔

اب اگر وہ مخاطبہ ایک عورت نہیں بلکہ دو ہیں تو ظاہر ہے اب اس کے لیے ہم "ضَرَبتِ" کا صیغہ تو استعمال نہیں کر سکتے کیوں؟ یا پھر ہم دو دفعہ کہیں "ضَرَبتِ ضَرَبتِ" تو یہ تو ہو جائے گی مشکل پھر کیا کریں؟ فرماتے ہیں اس "ضَرَبتِ" کے ساتھ اور جیسے ہم نے پیچھے مذکر کے صیغے "ضَرَبتُمَا" میں بتایا تھا یہاں بھی ایسا۔ ہم اگر اس کے ساتھ ایک "الف تثنیہ" کی لگا دیتے ہیں تو اس "الف تثنیہ" کے ساتھ ایک مشکل پیش آئے گی یہ بن جائے گا "ضَربَتَا" چونکہ اگر " ت" مکسورہ ہو یعنی اس پر زیر ہو آگے الف ہو تو پھر پڑھا ہی نہیں جا سکتا ہے  تو اب سمجھ نہیں آئے گی کہ کیا یہ "تا تثنیہ" کی ہے اور کیایہ "الف اشباع "ہے یا الف، الفِ اشباع ہے ( میں نے گزارش کی تھی پیچھے بھی ایک دو شعر تھے ہم نے وہ آپ کو نہیں سمجھائے تھے چونکہ ابھی پہلے دن ہیں اور وہ عربی سمجھنا آپ کے لیے مشکل ہے)  تو اس "الف اشباع" سے بچنے کے لیے ہم نے اس ت اور الف کے درمیان ایک میم کا اضافہ کیا جیسے وہ تثنیہ  مذکر مخاطب میں کیا تھا اب ذرا دوبارہ اس کو دیکھ لو۔

 "ضَرَبتُمَا" یعنی تم دو مردوں نے زمانہ گزشتہ میں اس کو مارا۔"ضربتما" یہ صیغہ ہے تثنیہ مونث حاضرہ کا فعل فعل ماضی ہے صحیح ثلاثی مجرد اور معلوم ۔"ضربتما دراصل ضربت بودہ" ضَرَبتُمَا اسی "ضَرَبتِ" سے بنا ہے اب ہم چاہتے تھے کہ اس کو تثنیہ بنائیں کیونکہ وہ مخاطبہ ایک عورت نہیں بلکہ دو تھیں تو ظاہر ہے جو صیغہ ایک کے لیے آتا ہے وہ دو کے لیے نہیں آتا تو اب ہم کیا کریں؟ اب یا تو ہم دو دفعہ کہتے "ضَرَبتِ ضَرَبتِ" تو یہ ذرا بات مشکل  ہو جاتی تو ہم نے دو کی بجائے "زائد پر یکی را حذف کردیم "ہم نے ایک "ضَرَبتِ" کو حذف کر دیا اور ایک کو باقی رکھا جس کو حذف کیااس محذوف کے عوض آخر میں "الف" کو لے آئے جو الف علامت تثنیہ ہوتی ہے الف علامت تثنیہ۔"و ما قبل الف را فتحہ دادیم" اور "الف" کے ما قبل یعنی "تا" کو فتح دے دیا تو یہ بن گیا ضَرَبتَا یعنی "ضَرَبتِ" سے بن گیا ضَرَبتَا  الف کے ساتھ ۔اب یہ الف تثنیہ مشتبہ ہو گئی ہے الف اشباع کے ساتھ کیوں؟ چونکہ بہت سارے لوگ شئت  کو شئتا اشعار میں پڑھتے ہیں جیسے کہ شاعر کا یہ شعر ہے:

 تحکم یا الہی کیف شئتا

فانی قد رضیت بما رضیتا

 اب یہاں پر دو جگہ پر اس "شئت" کے ساتھ بھی ایک "الف" ہے اور "رضیت" کے ساتھ بھی ہے یہ الف الفِ تثنیہ نہیں ہے یہ الف الف اشباع ہے، لیکن اس کی بحث ہم بعد میں کریں گے۔ تو اب اس "ضَرَبتَا" میں بھی اشتباہ ہو سکتا ہے کہ کوئی سمجھے کہ یہ تثنیہ کا صیغہ نہیں بلکہ یہ الف الف اشباع ہے"از براى رفع اشتباه "  تو ہم نے اس اشتباہ کو دور کرنے کے لیے تاکہ کوئی بندہ اس اشتباہ میں نہ رہ جائے کہ یہ الف تثنیہ نہیں بلکہ الف اشباع ہے تو ہم  نے "ميمى فيما بين تاء و الف درآورديم"   تا اور الف کے درمیان ایک میم کا اضافہ کر دیا تو جب میم کا اضافہ کر دیا  تو یہ بن جائے گا کیا؟"ضَرَبتَامَا" پہلے مرحلے پر بن جائے گا ضربتاما یہ بن جائے گا "ما قبل میم را ضمه دادیم" لیکن ہم نے پھر میم کے ماقبل تا کو ضمہ دے دیا تو یہ بن جائے گا "ضَرَبتُمَا "اب "ضَرَبتُمَا" بر وزن "فَعَلتُمَا" یہاں پر "

ضاد: فاءالفعل 

را :عین الفعل 

با: لام الفعل۔

 تُمَا :نشانہ تثنیہ اب خالی الف نہیں بلکہ "تُمَا" یعنی تا میم اور الف یہ تینوں یہ علامت ہو گی تثنیہ مخاطبہ مونث کی، اور یہی اس میں ضمیر فاعلی بھی ہوں گی البتہ ان کی ضمیر منفصل "اَنتُمَا" ہے۔خوب اب فرماتے ہیں: کہ اگر وہ مخاطب ایک بھی نہیں دو بھی نہیں بلکہ تین چار چھ بہت ساری خواتین ہیں اور انہوں نے زمانہ گزشتہ میں کسی کو مارا تھا تو ہمیں اس کے لیے بھی ایک صیغہ چاہیے یعنی جمع مونث مخاطبہ کے لیے بھی صیغہ درکار ہے تو اس کے لیے جو صیغہ بنایا گیا ہے وہ ہے  ضَرَبتُنَّ۔ضَرَبتِ، ضَرَبتُمَا، ضَرَبتُنَّ۔ اب ہم نے دیکھنا ہے کہ  "ضَرَبتُنَّ"   کا معنی تو سمجھ میں آگیا کہ تم سب عورتوں نے مارا زمانہ گزشتہ میں لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ "ضَرَبتُنَّ " کا صیغہ بنا کیسے ہے؟ اس کو بنایا کہاں سے گیا ہے؟ فرماتے ہیں: یہ "ضَرَبتُنَّ" صیغہ جمع مخاطبہ مؤنث فعل ماضی صحیح ثلاثی مجرد و معلوم۔

"ضربتن در اصل ضربت بود یہ "ضَرَبتُنَّ" بھی اسی "ضَرَبتِ" سے بنا ہے چونکہ "ضَرَبتِ" ایک عورت کے لیے تھا تو ہم یا تو پھر اگر تین عورتیں تھیں تین دفعہ کہتے ہیں "ضَرَبتِ ضَرَبتِ ضَرَبتِ" چار تھیں تو چار دفعہ کہتے پانچ تھی تو پانچ دفعہ۔خوب اب "ضَرَبتِ" چونکہ مفرد ایک کے لیے تھا اب ہم نے چاہا جمع کے لیے بنائیں  تو یا ہم تین دفعہ "ضَرَبتِ ضَرَبتِ ضربتِ" کہتے یا چار دفعہ یا چھ دفعہ لیکن یہ مشکل تھا اب ہم نے کیا کیا؟ ایک ضَرَبتِ کو باقی رکھا اور باقی ضَرَبتِ محذوف کر دیے جب حذف کر دیے تو ان محذوفوں کے عوض ہم ۔  " نون كه علامت جمع مخاطبه مؤنّث بود در آخرش درآورديم" وہ جیسے مذکر میں ہم نے "ضَرَبتُم" بنایا تھا کہ میم علامت تھی جمع مذکر حاضر کی تو یہاں "ضَرَبتُنَّ "یہ جو "نون " ہے یہ نون علامت ہےجمع مونث کی تو "ضَرَبتِ" کے ساتھ ہم نے ایک" نون" کا اضافہ کر دیا  تاکہ یہ  کیا بن جائے گا؟ ضَرَبتِنَ" "ضَرَبتِ" سے بنایا ناں تو جب نون آ جائے گی جمع مونث مخاطبہ کی تو اب "ضَرَبتِ" سے بن گیا ضربتن اب ذرا غور کرنا ہے فرماتے ہیں "چوں در جمع مذکر مخاطب کہ اصلَ بود میم در آوردیمجمع مذکر مخاطب میں بھی ہم نے وہاں پر کیا کہا تھا وہ "ضَرَبتَ" سے بنایا تھا لیکن وہاں "ضَرَبتُم" ہم میم کو لائے تھے تو چونکہ اصل میں ہم نے میم کو ذکر کیا تھا، تو اس کی وجہ سے ہم اس جمع مؤنث میں جو اس جمع مذکر کی فرع ہے ایک "میم "کا اضافہ کرتے ہیں کیوں؟ تاکہ یہ فرع اصل کے مطابق ہو جائے جب میم کا اضافہ کریں گے تو یہ "ضَرَبتِنَ" تو جب نون سے پہلے میم کا اضافہ  ہوگا بہت آرام سے اس کو دیکھنا ہے۔ تو یہ بن جائے گا "ضَرَبتِمنَ" یعنی ضَربت ضَرَبتِ، ضربتِ سے بنا "ضَرَبتِنَ" لیکن جب نون سے پہلے میم کا اضافہ کیا چونکہ اصل میں میم تھی جمع مذکر میں، تو ہم اس فرع کو بھی اس کے مطابق کرتے ہیں تو یہ بن جائے گا "ضَرَبتِمنَ "اچھا جی" ماقبل ميم را از براى مناسبت ميم ضمه داديم"  اب ہم نے کیا کیا ؟میم کا ماقبل وہ جو "ضَرَبتِمنَ" میں ہم "ت "پڑھ رہے تھے ہم نے اس "ت " کی "زیر" کو یعنی اس کے کسرے کو ضمہ میں یعنی  پیش میں تبدیل کر دیا کیوں؟ تاکہ ضمہ  اور میم کے ساتھ اس کی مناسبت بن جائے تو یہ بن جائے گا "ضَرَبتِمنَ" سے ضَرَبتُمنَ" ۔

"و نون قریب المخرج بود میم را قلب به نون و نون را در نون ادغام کردیم"

انشاءاللہ ہم آگے "صرف میر" میں بڑی تفصیل سے آپ کو بتائیں گے کہ یہ ادغام کیا ہوتا ہے یعنی جب دو حرف ایک جنس کے آ جائیں تو ایک کو دوسرے میں ادغام کیا جاتا ہے اس کے اپنے کچھ قواعد ہیں انشاءاللہ یہاں کی بجائے وہاں ہم اپ کو اس کی پوری وضاحت کریں گے اپ فرماتے ہیں چونکہ یہ نون قریب المخرج تھی ہم نے اس میں "میم" کو "نون" سے تبدیل کر دیا اس کے بھی انشاءاللہ قواعد ہم اگلی کتابوں میں پڑھیں گے کہ کون سا حرف کس وقت دوسرے حرف میں تبدیل ہو جاتا ہے اس کے اپنے کچھ قواعد ہیں فی الحال ہم ان کو نہیں چھیڑتے تاکہ اپ پر بوجھ نہ ہو جائے۔ خوب ان قواعد کی روشنی میں" ضَرَبتُمنَ"میں "میم" کو" نون" میں تبدیل کر دیا جب یہ میم، نون میں تبدیل ہو گئی تو گویا یہاں دو نون اکٹھی ہو گئی" ضربتنن" دو نون آ گئیں تو انشاءاللہ آگے ہم قوانین پڑھیں گے ادغام کے جب دو حرف ایک جنس کے اکٹھے ہو جائیں تو کچھ قواعد کی روشنی میں ایک کو دوسرے میں ادغام کر دیا جاتا ہے یعنی وہ دوسرے میں اس کو ملا دیا جاتا ہے ضم کر دیا جاتا ہے۔

اور اس  پر شد ڈالتے ہیں تو "شد" کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہاں اصل میں دو حرف ہیں ایک حرف نہیں تو جب اس "ضَرَبتُننَ" میں ایک نون دوسرے میں ضم ہو جائے گی تو یہ بن جائے گا، "ضَرَبتُنَ" پر وزن "فعلتن" ۔

ضاد:فاء الفعل کہلائے گی ۔

را: عین الفعل کہلائے گی ۔

اور با: لام الفعل۔

 اور اس میں جو" تُنَّ" ہے وہ علامت ہوگی جمع مونث مخاطبہ کی وہی فاعل کی ضمیر بھی ہوگی البتہ اس کی ضمیر منفصلہ انتن ہے۔ انشاءاللہ اگے پڑھیں گے۔

 یہ تین صیغے ہو گئے جو مونثہ مخاطبہ کے لیے تھے۔ یہ تین صیغے یعنی مفردہ مونثہ مخاطب تثنیہ مونثہ مخاطب اور جمع مونثہ مخاطب، جو متکلم ہوتا ہے اس میں آپ کو یاد رکھنا ہے متکلم مذکر اور مونث میں کوئی فرق نہیں ہوتا یعنی اگر کوئی مرد کہے کہ میں نے فلاں شخص کو مارا زمانہ گزشتہ میں تو وہ بھی "ضَرَبتُ" کہے گا اور اگر کوئی عورت یہ بتانا چاہتی ہے تو وہ بھی "ضربتُ" تو ہی کہے گی۔ ٹھیک ہے اس کے بعد تثنیہ اس میں نہیں ہوتا  یعنی اگر ایک بندہ ہے تو وہ "ضربت" کہے گا وہ چاہے مذکر ہے چاہے مونث ایک سے زائد ہیں ممکن ہے وہ دو ہوں ممکن ہے وہ دس ہوں تو وہ کہیں گے "ضَرَبنَا" یعنی ہم نے جو تثنیہ کو بھی شامل ہے اور جمع کو بھی شامل ہے۔

5

ماضی متکلم کے صیغے

     متکلم کے دو صیغوں کی وضاحت:

ضربتُ: ُیہ جیسے ہم نے یہاں لکھ کے بتایا تھا ضَرَبتُ اور ضَرَبنَا۔

 ضَرَبتُ،  میں نے مارا گزشتہ زمانے میں  ،چاہے مرد ہو یا عورت دونوں کے لیے صیغہ "ضَرَبتُ" ہی استعمال ہوتا ہے،  صیغہ واحد متکلم فعل ماضی ،صحیح ثلاثی مجرد معلوم ۔

ضربت بنانے کا طریقہ 

"ضَرَبتُ" کہاں سے بنا ہے؟ فرماتے ہیں "ضَرَبتُ" اصل میں "ضَرَبَ" تھا ، ضَرَبَ مفرد مذکر غائب کے لیے تھا، اب میں غائب کی بات نہیں کر رہا، میں تو اپنی بات کر رہا ہوں کہ میں نے زمانہ گزشتہ میں مارا  فرماتے  ہیں اس "ضَرَبَ" کے آخر میں ایک تائے مضمومہ  لے آیے  (میں نے  چند بار پہلے بتایا ہے کہ ضمہ سے مراد پیش ہے)۔یہ  تاٗ ء  مضمومہ متکلم وحدہ کی علامت ہے،اس کو آخر میں لے آیے۔

"و لام الفعل را از برای شدت اتصال ضمیر به فعل ساکن کردیم"

"ضَرَبتُ"  کی تاء ہمیشہ اس فعل کے ساتھ متصل رہتی  ہے یہ اس سے جدا ہو ہی نہیں سکتی۔کیوں؟ اس لیے کہ یہ اس کے فاعل کی ضمیر متصل ہے اور ہمیشہ اس کے ساتھ متصل رہنا ہے     توہم نے اس"تُ" کو چونکہ ہمیشہ اس کے ساتھ متصل رہنا ہے  ہم نے "ضَرَبَتُ " میں  جو لام الفعل "با" کو ساکن کردیا  پس بن گیا "ضَرَبتُ"  بر وزن فَعَلتُ ۔پس ضَرَبتُ  میں:

 ضاد: فاء الفعل۔

را: عین الفعل۔
اور با :لام الفعل ہے ۔

جبکہ "تُ"   یہ تا مضمومہ علامت ہےمتکلم واحد کی ،اور فاعل کی ضمیر متصل  بھی ہے اور اس کی ضمیر منفصل " انا" ہے۔

جمع متکلم کا صیغہ " ضربنا "

اب  اگر وہ متکلم ایک فرد  نہ ہو  دو یا دو سے زیادہ ہوں  تو اس کے لیے ہمیں ایک علیحدہ صیغہ بنانا ہوگا تو وہ علیحدہ صیغہ کیا ہے؟ وہ ہم نے بنایا ہے "ضَرَبنَا" یعنی ہم سب مردوں یا ہم سب عورتوں نے  مارا زمانہ گزشتہ میں اب سوال ہوگا کہ یہ "ضربنا" کہاں سے بنا ہے اور کیسے بنا ہے؟ 

"ضَرَبنَا" بنانے کا طریقہ:

"ضَرَبنَا" فعل ماضی ہے ،صحیح ثلاثی مجرد معلوم  کا صیغہ ہے "ضَرَبنَا"بھی  اصل میں "ضَرَبَ" تھا ، ضرب، مفرد مذکر غائب کے لیے تھا ہم چاہتے تھے کہ  اس کو متکلم بناییں  وہ بھی ایک نہیں ایک سے زائد  کیلئے ،ہم نے اسی "ضَرَبَ" کے ساتھ "نا "   کا اضافہ کر دیا کیوں؟چونکہ یہ "نا" علامت ہوتی ہے متکلم مع الغیر کی ،  یعنی جب ہم دو یا دو سے زائد ہوں تو اس کے لیے "نا" یہ اس کی علامت ہوتی ہے ہم نے اس کو ملا دیا اور یہی اس ضرب میں فاعل کی ضمیر بھی ہوتی ہے اور ہم اس کو لائے خوب اب یہ بن گیا "ضَرَبنَا"۔ اب چونکہ اس (نا)نے ہمیشہ اس فعل کے ساتھ متصل رہنا ہے تو اس شدت اتصال کی وجہ سے ہم نے "با" کو جو لام الفعل تھی ساکن کر دیا  بن گیا "ضَرَبنَا" بروزن "فعلنا "اب ضربنا میں :

ضاد: فاء الفعل ہے۔

 را :عین الفعل ہے ۔

اور با: لام الفعل ہے۔

نا" یہ علامت ہے متکلم مع الغیر کی متکلم مع الغیر کا مطلب یہ ہے کہ میں صرف ایک نہیں چونکہ ایک ہوتا تو پھر "تُ" ہم نے پیچھے بنایا تھا یہ ہے مع الغیر یعنی میرے ساتھ اور بھی ہیں ہو سکتا ہے دو بندے ہوں چار ہوں جتنے بھی ہوں اور یہی اس کے فاعل کی ضمیر بھی ہے اور اس کی ضمیر منفصل ہے "نَحٗنُ" تو پس ماضی کے لیے جو چودہ صیغے بنائے گئے تھے:

 ضرب، ضربا، ضربوا، ضربت، ضربتا، ضربن، ضربت، ضربتما، ضربتم، ضربت،  ضربتما، ضربتن، ضربت، ضربنا.

 ہر ایک کے بارے میں ہماری بحث مکمل ہوئی کہ کون سا صیغہ کہاں سے بنا ہے اور کیسے بنا ہے.

 و صلی اللہ محمد و آل محمد

لهذا از براى رفع اشتباه ، ميمى را به او ملحق كرديم ضَرَبْتُوْم شد. التقاىِ ساكنَيْن شد ميان واو وميم ، خواستيم كه واو را حذف كنيم ، علامت جمع بود ، خواستيم كه ميم را حذف كنيم ، خلاف مقصود حاصل مى شد. چون مايَدُلُّ على الواو كه ضمّه باشد در كلام بود ، لهذا واو را حذف كرديم ، ضَرَبْتُمْ شد بر وزن فَعَلْتُمْ ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، و تاء و ميم علامت جمع مذكّر مخاطب و هم ضمير فاعل است. و ضمير منفصلش ، اَنْتُمْ است.

* * *

وآن سه كه مؤنّث را بود : ضَرَبْتِ ، ضَرَبْتُما ، ضَرَبْتُنَّ.

ضَرَبْتِ : يعنى زدى تو يك زن حاضره در زمان گذشته. صيغه مفرده مؤنّث حاضره است از فعل ماضى ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

ضَرَبْتِ در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد مذكّر غايب بود ) خواستيم مفرده مؤنّث حاضره بنا كنيم ، تاىِ مكسوره را كه علامت مفرده حاضره مؤنّث بود در آخرش درآورديم و ماقبل تاء را به جهت شدّتِ اِتّصال ضمير به فعل ، ساكن كرديم ضَرَبْتِ شد بر وزن فَعَلْتِ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل و تاىِ مكسوره علامت مفرده مخاطبه مؤنّث و هم ضمير فاعل است و ضمير منفصلش اَنْتِ است.

ضَرَبْتُما : يعنى بزديد شما دو زنان حاضره در زمان گذشته. صيغه تثنيه مؤنث حاضره است از فعل ماضى صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

ضَرَبْتُما در اصل ضَرَبْتِ بود ( مفرد بود ) خواستيم تثنيه بنا كنيم

چون به تثنيه رسيديم دو بار مى بايست گفت ضَرَبْتِ ضَرَبْتِ ، زايد بر يكى را حذف كرديم و عوض از محذوف ، الف كه علامت تثنيه بود در آخرش درآورديم و ماقبل الف را فتحه داديم ضَرَبْتا شد ، الف تثنيه مشتبه شد به الف اشباع ، در آنجا كه شاعر در شعر خود شِئْتَ را شِئْتا خوانده مثل :

تَحَكَّمْ يا اِلٰهى كَيْفَ شِئْتا

فاِنّى قَدْ رَضيتُ بِما رَضيتا

از براى رفع اشتباه ميمى فيما بين تاء و الف درآورديم و ماقبل ميم را ضمّه داديم ضَرَبْتُما شد بر وزن فَعَلْتُما. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، وتُما نشانه تثنيه مخاطبه مؤنّث است و هم ضمير فاعل و ضمير منفصلش اَنْتُماست.

ضَرَبْتُنَّ : يعنى بزديد شما گروه زنان حاضره در زمان گذشته. صيغه جمع مخاطبه مؤنّث است از فعل ماضى صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

ضَرَبْتُنَّ در اصل ضَرَبْتِ بود ( مفرد بود ) خواستيم جمع بنا كنيم چون به جمع رسيديم سه بار يا زيادتر مى بايست گفت ضَرَبْتِ ضَرَبْتِ ضَرَبْتِ ، زايد بر يكى را حذف كرديم عوض از محذوف ، نون كه علامت جمع مخاطبه مؤنّث بود در آخرش درآورديم ضَرَبْتِنَ شد. چون در جمع مذكّر مخاطب كه اصل بود ميم در آورديم در اين جمع مؤنّث كه فرع است نيز ميم درآورديم تا فرع مطابق اصل گردد ضَرَبْتِمْنَ شد. ماقبل ميم را از براى مناسبت ميم ضمه داديم ضَرَبْتُمْنَ شد. ميم و نون قريب المَخْرَج بودند ، ميم را قلب به نون و نون را در نون ادغام كرديم ضَرَبْتُنَّ شد بر وزن فَعَلْتُنَّ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام

الفعل وتُنَّ علامت جمع مخاطبه مؤنّث و هم ضمير فاعل است و ضمير منفصلش اَنْتُنَّ است.

* * *

و آن دو كه حكايت نفس متكلّم را بود : ضَرَبْتُ ، ضَرَبْنا.

ضَرَبْتُ : يعنى بزدم من يك مرد يا يك زن در زمان گذشته. صيغه متكلّم وحده است از فعل ماضى صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

ضَرَبْتُ در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد مذكّر غايب بود ) خواستيم متكلّم وحده بنا كنيم ، تاء مضمومه كه علامت متكلّم وحده بود در آخرش درآورديم و لام الفعل را از براى شدّت اتّصال ضمير به فعل ، ساكن كرديم ضَرَبْتُ شد بر وزن فَعَلْتُ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، و تاى مضمومه علامت متكلّم وحده و هم ضمير فاعل است و ضمير منفصلش ، اَنَا است.

ضَرَبْنَا : يعنى بزديم ما دو مردان يا دو زنان يا گروه مردان يا گروه زنان در زمان گذشته. صيغه متكلّم مع الغير است از فعل ماضى صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

ضَرَبْنَا در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد مغايب مذكّر بود ) خواستيم متكلّم مع الغير بنا كنيم «نا» كه علامت متكلّم مع الغير و هم ضمير فاعل بود ، در آخرش در آورديم و لام الفعل را از براى شدّت اِتّصال ضمير به فعل ، ساكن كرديم ضَرَبْنَا شد بر وزن فَعَلْنَا ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، نَا علامت متكلّم مع الغير و هم ضمير فاعل است و ضمير منفصلش ، نَحْنُ است.