باقی صیغوں کی طرح  ہم کتاب کے ساتھ تطبیق کر رہے تھے  کہ:
ضَرَبتِ، تو  ایک عورت نے مارا زمانہ گزشتہ میں،  یعنی گزرے ہوئے زمانہ میں اسے کہتے ہیں صیغہ مفردہ مونث حاضرہ فعل ماضی صحیح ثلاثی مجرد معلوم ۔میں نے کہا تھا ان کی تفصیل فی الحال اس لیے بیان نہیں کر رہے چونکہ ابھی آپ کو  تیسرا  یا چوتھا دن  ہے  ان شاءاللہ آگے جب "کتاب  صرف میر "آئے گی تو  ان میں سے ہر  ایک کو  کھول کر اور واضح کر کے بیان کریں گے تاکہ ابھی بوجھ نہ ہو جائے۔
"ضربتِ در اصل ضرب بود"
 یہ ضربت بھی  اسی ضرب سے ہی بنا ہے ، ضَرَبَ واحد مذکر غائب کا صیغہ تھا اب ہم نے اس سے بنانا ہے مفرد مونث حاضر اب کیا کریں  ؟ اس  کے بنانے کا طریقہ کار کیا ہو گا؟
فرماتے ہیں: اس کا طریقہ  کار یہ ہے:
(تاىِ مكسوره را كه علامت مفرده حاضره مؤنّث بود در آخرش درآورديم)
ضَرَبَ کے آخر میں ایک "ت" ذکر کی  اور وہ بھی مکسورہ   جیسے واحد مذکر کے لیے ہم نے "ضَرَبتَ" میں  تائے مفتوحہ آخر میں لگائی تھی تو یہاں بھی ہم تائے مکسورہ یعنی وہ جس  پر  زیر ہوگی وہ لگائیں گے یہ بن جائے گا "ضَرَبَتِ"۔
"و ماقبل تاء را به جهت شدّتِ اِتّصال ضمير به فعل ، ساكن كرديم"
 اب چونکہ یہ صیغہ ہم نے بنایا ہے واحد مونث مخاطبہ کا اور یہ "ت" ہمیشہ ضَرَبَ کے ساتھ ملی رہے گی ،ایسے نہیں ہو سکتا کبھی "ضرب" علیحدہ ہو جائے اور "ت" علیحدہ ہو جائے تو ہم نے "با" کو ساکن کر دیا جب پہلے تھا "ضَرَبَتِ" جب با کو ساکن کر دیں گے تو یہ بن جائے گا ضَرَبؔتِ تو پس ضَرَبتِ صیغہ ہے مفردہ مونث حاضرہ کا۔ "ضَرَبتِ" بروزن "فَعَلتِ" پس" ضاد" فاء الفعل ہو جائے گا، اور "را "عین الفعل ہو جائے گا ۔"باء" ساکنہ لام الفعل  ہو جائے گی اور جو آخر میں تائے(تِ) مکسورہ ہے یہ تائے مکسورہ ایک تو علامت ہوگی مفردہ مخاطبہ مؤنث کی یہ بتا رہی ہے کہ یہ مخاطب ایک ہے اور مؤنث ہے مذکر بھی نہیں دو یا چار یا چھ بھی نہیں اور یہی "ت" ضَرَبتِ میں یہ جو تائے مکسورہ ہے یہ جو "تِ" ہے یہی فاعل کی ضمیر بھی ہوگی البتہ متصلہ اور "ضَرَبتِ" کی ضمیر منفصلہ ہوتی ہے "اَنتِ" انشاءاللہ جب ہم آگے ضمیروں کی بحث کریں گے تو وہاں بتائیں گے کہ کوئی ضمیر متصل ہوتی ہیں اور کچھ ضمیریں منفصل ہوتی  ہیں وہ کون کون سی ہیں انشاءاللہ ایک ایک کر کے وضاحت کریں گے۔
اب اگر وہ مخاطبہ ایک عورت نہیں بلکہ دو ہیں تو ظاہر ہے اب اس کے لیے ہم "ضَرَبتِ" کا صیغہ تو استعمال نہیں کر سکتے کیوں؟ یا پھر ہم دو دفعہ کہیں "ضَرَبتِ ضَرَبتِ" تو یہ تو ہو جائے گی مشکل پھر کیا کریں؟ فرماتے ہیں اس "ضَرَبتِ" کے ساتھ اور جیسے ہم نے پیچھے مذکر کے صیغے "ضَرَبتُمَا" میں بتایا تھا یہاں بھی ایسا۔ ہم اگر اس کے ساتھ ایک "الف تثنیہ" کی لگا دیتے ہیں تو اس "الف تثنیہ" کے ساتھ ایک مشکل پیش آئے گی یہ بن جائے گا "ضَربَتَا" چونکہ اگر " ت" مکسورہ ہو یعنی اس پر زیر ہو آگے الف ہو تو پھر پڑھا ہی نہیں جا سکتا ہے  تو اب سمجھ نہیں آئے گی کہ کیا یہ "تا تثنیہ" کی ہے اور کیایہ "الف اشباع "ہے یا الف، الفِ اشباع ہے ( میں نے گزارش کی تھی پیچھے بھی ایک دو شعر تھے ہم نے وہ آپ کو نہیں سمجھائے تھے چونکہ ابھی پہلے دن ہیں اور وہ عربی سمجھنا آپ کے لیے مشکل ہے)  تو اس "الف اشباع" سے بچنے کے لیے ہم نے اس ت اور الف کے درمیان ایک میم کا اضافہ کیا جیسے وہ تثنیہ  مذکر مخاطب میں کیا تھا اب ذرا دوبارہ اس کو دیکھ لو۔
 "ضَرَبتُمَا" یعنی تم دو مردوں نے زمانہ گزشتہ میں اس کو مارا۔"ضربتما" یہ صیغہ ہے تثنیہ مونث حاضرہ کا فعل فعل ماضی ہے صحیح ثلاثی مجرد اور معلوم ۔"ضربتما دراصل ضربت بودہ" ضَرَبتُمَا اسی "ضَرَبتِ" سے بنا ہے اب ہم چاہتے تھے کہ اس کو تثنیہ بنائیں کیونکہ وہ مخاطبہ ایک عورت نہیں بلکہ دو تھیں تو ظاہر ہے جو صیغہ ایک کے لیے آتا ہے وہ دو کے لیے نہیں آتا تو اب ہم کیا کریں؟ اب یا تو ہم دو دفعہ کہتے "ضَرَبتِ ضَرَبتِ" تو یہ ذرا بات مشکل  ہو جاتی تو ہم نے دو کی بجائے "زائد پر یکی را حذف کردیم "ہم نے ایک "ضَرَبتِ" کو حذف کر دیا اور ایک کو باقی رکھا جس کو حذف کیااس محذوف کے عوض آخر میں "الف" کو لے آئے جو الف علامت تثنیہ ہوتی ہے الف علامت تثنیہ۔"و ما قبل الف را فتحہ دادیم" اور "الف" کے ما قبل یعنی "تا" کو فتح دے دیا تو یہ بن گیا ضَرَبتَا یعنی "ضَرَبتِ" سے بن گیا ضَرَبتَا  الف کے ساتھ ۔اب یہ الف تثنیہ مشتبہ ہو گئی ہے الف اشباع کے ساتھ کیوں؟ چونکہ بہت سارے لوگ شئت  کو شئتا اشعار میں پڑھتے ہیں جیسے کہ شاعر کا یہ شعر ہے:
 اب یہاں پر دو جگہ پر اس "شئت" کے ساتھ بھی ایک "الف" ہے اور "رضیت" کے ساتھ بھی ہے یہ الف الفِ تثنیہ نہیں ہے یہ الف الف اشباع ہے، لیکن اس کی بحث ہم بعد میں کریں گے۔ تو اب اس "ضَرَبتَا" میں بھی اشتباہ ہو سکتا ہے کہ کوئی سمجھے کہ یہ تثنیہ کا صیغہ نہیں بلکہ یہ الف الف اشباع ہے"از براى رفع اشتباه "  تو ہم نے اس اشتباہ کو دور کرنے کے لیے تاکہ کوئی بندہ اس اشتباہ میں نہ رہ جائے کہ یہ الف تثنیہ نہیں بلکہ الف اشباع ہے تو ہم  نے "ميمى فيما بين تاء و الف درآورديم"   تا اور الف کے درمیان ایک میم کا اضافہ کر دیا تو جب میم کا اضافہ کر دیا  تو یہ بن جائے گا کیا؟"ضَرَبتَامَا" پہلے مرحلے پر بن جائے گا ضربتاما یہ بن جائے گا "ما قبل میم را ضمه دادیم" لیکن ہم نے پھر میم کے ماقبل تا کو ضمہ دے دیا تو یہ بن جائے گا "ضَرَبتُمَا "اب "ضَرَبتُمَا" بر وزن "فَعَلتُمَا" یہاں پر "
ضاد: فاءالفعل 
را :عین الفعل 
با: لام الفعل۔
 تُمَا :نشانہ تثنیہ اب خالی الف نہیں بلکہ "تُمَا" یعنی تا میم اور الف یہ تینوں یہ علامت ہو گی تثنیہ مخاطبہ مونث کی، اور یہی اس میں ضمیر فاعلی بھی ہوں گی البتہ ان کی ضمیر منفصل "اَنتُمَا" ہے۔خوب اب فرماتے ہیں: کہ اگر وہ مخاطب ایک بھی نہیں دو بھی نہیں بلکہ تین چار چھ بہت ساری خواتین ہیں اور انہوں نے زمانہ گزشتہ میں کسی کو مارا تھا تو ہمیں اس کے لیے بھی ایک صیغہ چاہیے یعنی جمع مونث مخاطبہ کے لیے بھی صیغہ درکار ہے تو اس کے لیے جو صیغہ بنایا گیا ہے وہ ہے  ضَرَبتُنَّ۔ضَرَبتِ، ضَرَبتُمَا، ضَرَبتُنَّ۔ اب ہم نے دیکھنا ہے کہ  "ضَرَبتُنَّ"   کا معنی تو سمجھ میں آگیا کہ تم سب عورتوں نے مارا زمانہ گزشتہ میں لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ "ضَرَبتُنَّ " کا صیغہ بنا کیسے ہے؟ اس کو بنایا کہاں سے گیا ہے؟ فرماتے ہیں: یہ "ضَرَبتُنَّ" صیغہ جمع مخاطبہ مؤنث فعل ماضی صحیح ثلاثی مجرد و معلوم۔
"ضربتن در اصل ضربت بود"  یہ "ضَرَبتُنَّ" بھی اسی "ضَرَبتِ" سے بنا ہے چونکہ "ضَرَبتِ" ایک عورت کے لیے تھا تو ہم یا تو پھر اگر تین عورتیں تھیں تین دفعہ کہتے ہیں "ضَرَبتِ ضَرَبتِ ضَرَبتِ" چار تھیں تو چار دفعہ کہتے پانچ تھی تو پانچ دفعہ۔خوب اب "ضَرَبتِ" چونکہ مفرد ایک کے لیے تھا اب ہم نے چاہا جمع کے لیے بنائیں  تو یا ہم تین دفعہ "ضَرَبتِ ضَرَبتِ ضربتِ" کہتے یا چار دفعہ یا چھ دفعہ لیکن یہ مشکل تھا اب ہم نے کیا کیا؟ ایک ضَرَبتِ کو باقی رکھا اور باقی ضَرَبتِ محذوف کر دیے جب حذف کر دیے تو ان محذوفوں کے عوض ہم ۔  " نون كه علامت جمع مخاطبه مؤنّث بود در آخرش درآورديم" وہ جیسے مذکر میں ہم نے "ضَرَبتُم" بنایا تھا کہ میم علامت تھی جمع مذکر حاضر کی تو یہاں "ضَرَبتُنَّ "یہ جو "نون " ہے یہ نون علامت ہےجمع مونث کی تو "ضَرَبتِ" کے ساتھ ہم نے ایک" نون" کا اضافہ کر دیا  تاکہ یہ  کیا بن جائے گا؟ ضَرَبتِنَ" "ضَرَبتِ" سے بنایا ناں تو جب نون آ جائے گی جمع مونث مخاطبہ کی تو اب "ضَرَبتِ" سے بن گیا ضربتن اب ذرا غور کرنا ہے فرماتے ہیں "چوں در جمع مذکر مخاطب کہ اصلَ بود میم در آوردیم" جمع مذکر مخاطب میں بھی ہم نے وہاں پر کیا کہا تھا وہ "ضَرَبتَ" سے بنایا تھا لیکن وہاں "ضَرَبتُم" ہم میم کو لائے تھے تو چونکہ اصل میں ہم نے میم کو ذکر کیا تھا، تو اس کی وجہ سے ہم اس جمع مؤنث میں جو اس جمع مذکر کی فرع ہے ایک "میم "کا اضافہ کرتے ہیں کیوں؟ تاکہ یہ فرع اصل کے مطابق ہو جائے جب میم کا اضافہ کریں گے تو یہ "ضَرَبتِنَ" تو جب نون سے پہلے میم کا اضافہ  ہوگا بہت آرام سے اس کو دیکھنا ہے۔ تو یہ بن جائے گا "ضَرَبتِمنَ" یعنی ضَربت ضَرَبتِ، ضربتِ سے بنا "ضَرَبتِنَ" لیکن جب نون سے پہلے میم کا اضافہ کیا چونکہ اصل میں میم تھی جمع مذکر میں، تو ہم اس فرع کو بھی اس کے مطابق کرتے ہیں تو یہ بن جائے گا "ضَرَبتِمنَ "اچھا جی" ماقبل ميم را از براى مناسبت ميم ضمه داديم"  اب ہم نے کیا کیا ؟میم کا ماقبل وہ جو "ضَرَبتِمنَ" میں ہم "ت "پڑھ رہے تھے ہم نے اس "ت " کی "زیر" کو یعنی اس کے کسرے کو ضمہ میں یعنی  پیش میں تبدیل کر دیا کیوں؟ تاکہ ضمہ  اور میم کے ساتھ اس کی مناسبت بن جائے تو یہ بن جائے گا "ضَرَبتِمنَ" سے ضَرَبتُمنَ" ۔
"و نون قریب المخرج بود میم را قلب به نون و نون را در نون ادغام کردیم"
انشاءاللہ ہم آگے "صرف میر" میں بڑی تفصیل سے آپ کو بتائیں گے کہ یہ ادغام کیا ہوتا ہے یعنی جب دو حرف ایک جنس کے آ جائیں تو ایک کو دوسرے میں ادغام کیا جاتا ہے اس کے اپنے کچھ قواعد ہیں انشاءاللہ یہاں کی بجائے وہاں ہم اپ کو اس کی پوری وضاحت کریں گے اپ فرماتے ہیں چونکہ یہ نون قریب المخرج تھی ہم نے اس میں "میم" کو "نون" سے تبدیل کر دیا اس کے بھی انشاءاللہ قواعد ہم اگلی کتابوں میں پڑھیں گے کہ کون سا حرف کس وقت دوسرے حرف میں تبدیل ہو جاتا ہے اس کے اپنے کچھ قواعد ہیں فی الحال ہم ان کو نہیں چھیڑتے تاکہ اپ پر بوجھ نہ ہو جائے۔ خوب ان قواعد کی روشنی میں" ضَرَبتُمنَ"میں "میم" کو" نون" میں تبدیل کر دیا جب یہ میم، نون میں تبدیل ہو گئی تو گویا یہاں دو نون اکٹھی ہو گئی" ضربتنن" دو نون آ گئیں تو انشاءاللہ آگے ہم قوانین پڑھیں گے ادغام کے جب دو حرف ایک جنس کے اکٹھے ہو جائیں تو کچھ قواعد کی روشنی میں ایک کو دوسرے میں ادغام کر دیا جاتا ہے یعنی وہ دوسرے میں اس کو ملا دیا جاتا ہے ضم کر دیا جاتا ہے۔
اور اس  پر شد ڈالتے ہیں تو "شد" کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہاں اصل میں دو حرف ہیں ایک حرف نہیں تو جب اس "ضَرَبتُننَ" میں ایک نون دوسرے میں ضم ہو جائے گی تو یہ بن جائے گا، "ضَرَبتُنَ" پر وزن "فعلتن" ۔
ضاد:فاء الفعل کہلائے گی ۔
را: عین الفعل کہلائے گی ۔
اور با: لام الفعل۔
 اور اس میں جو" تُنَّ" ہے وہ علامت ہوگی جمع مونث مخاطبہ کی وہی فاعل کی ضمیر بھی ہوگی البتہ اس کی ضمیر منفصلہ انتن ہے۔ انشاءاللہ اگے پڑھیں گے۔
 یہ تین صیغے ہو گئے جو مونثہ مخاطبہ کے لیے تھے۔ یہ تین صیغے یعنی مفردہ مونثہ مخاطب تثنیہ مونثہ مخاطب اور جمع مونثہ مخاطب، جو متکلم ہوتا ہے اس میں آپ کو یاد رکھنا ہے متکلم مذکر اور مونث میں کوئی فرق نہیں ہوتا یعنی اگر کوئی مرد کہے کہ میں نے فلاں شخص کو مارا زمانہ گزشتہ میں تو وہ بھی "ضَرَبتُ" کہے گا اور اگر کوئی عورت یہ بتانا چاہتی ہے تو وہ بھی "ضربتُ" تو ہی کہے گی۔ ٹھیک ہے اس کے بعد تثنیہ اس میں نہیں ہوتا  یعنی اگر ایک بندہ ہے تو وہ "ضربت" کہے گا وہ چاہے مذکر ہے چاہے مونث ایک سے زائد ہیں ممکن ہے وہ دو ہوں ممکن ہے وہ دس ہوں تو وہ کہیں گے "ضَرَبنَا" یعنی ہم نے جو تثنیہ کو بھی شامل ہے اور جمع کو بھی شامل ہے۔