درس شرح امثلہ

درس نمبر 6: فعل مستقبل 1

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

گزشتہ درس کا خلاصہ

گذارش کی تھی    کہ مصدر سے نو چیزیں بنتی ہیں ۔ ایک ماضی اور ایک تھا مستقبل، اس کو مضارع  بھی  کہتے ہیں , ماضی کی گزارش کی تھی اور بتایا تھا  : ماضی  گزرے ہوئے زمانے کو کہتے ہیں  جس کا وقت گزر چکا ہو , اردو میں میں نے گذارش کی تھی اگر پوچھا جائے  ماضی کسے کہتے ہیں ؟ آپ کہیں گے گزرے ہوئے زمانے کو ماضی کہتے ہیں ۔ جو کام گزرے ہوئے زمانے میں ہوچکا ہو   یہ زمانے ماضی کی بات ہے ۔ ماضی اور ایک ہوتا ہے مستقبل  : جس کام نے ابھی ہونا ہو  آپ کو پتہ ہے اردو گرائمر میں بھی ہے مشہور ہے زمانے کی تین قسمیں ہیں ۔ ماضی  حال اور استقبال  آپ آگے جاکر پڑھیں گے  ان شاءاللہ ۔

علماء کہتے ہیں حال نام کا کوئی زمانہ نہیں ہوتا  یا ماضی ہوتا ہے یا استقبال ہوتا ہے ۔ ماضی کی بحث ختم ہوگئی۔

4

مستقبل کی بحث کا خاکہ

  آج  جو بحث ہم  شروع کرنا چاہ رہے ہیں وہ یہ ہے مستقبل  یعنی ایک کام ابھی   ہوا  نہیں ہے،انجام نہیں پایا تو  یا حال ہوگا تو ہم کہیں گے  ابھی ہو رہاہے۔  اب  مستقبل  کی بھی وہی چودہ صورتیں ہیں ، کیسے؟  جو کام ابھی ہونے والا ہے آیاوہ  کام مرد کرنے والا ہے ؟ یا عورت کرنے والی ہے ؟پھر کیا وہ کام انجام دینے  والا غائب شخص ہےیا حاضر شخص ہے۔   یا میں خود ہوں متکلم،وہی چودہ صورتیں جو ہم نے ماضی میں  بنائی تھیں یہاں  بھی وہی ہیں ، یعنی ایک کام  جو آنے والے زمانے میں ہونا ہے کیا اس کا کرنے والا شخص غائب ہے۔ پھر دو صورتیں ہونگی۔کیا وہ غائب مذکر ہے یا مونث ہے ؟پھر کیا اگر مذکر ہے اور ایک ہے تو مفرد  کہلاۓ گا  دو  ہے تو تثنیہ کہلاۓ  گا  بہت سارے ہوں وہ جمع کہلاۓ گا ۔ اسی طرح اگروہ ایک عورت ہے تو مفردہ دو ہے تو تثنیہ زیادہ ہیں تو جمع ۔

یا  اگر وہ کام جو ابھی ہونا ہے  اسکا کرنے والا مخاطب ہوگا تو سامنے کھڑا ہے میں کہتا ہوں : تو نے یہ کام کرنا ہے ۔ یا تم یہ کام کرو گے۔ دو ہونے کی صورت میں ہم کہیں گے  تم دو نوں یہ کام کرو گے۔ تین یا تین سے زیادہ ہوں تو ہم کہیں گے  "تم سب یہ کام انجام دوگے ، ماضی والی  صورت ہوگی یا وہ مخاطب  ایک ہوگا تو مفرد  دو ہونگے تو تثنیہ  زیادہ ہونگے تو  جمع  اور پھر  یا مذکر ہوگا  یا مونث ہوگا   ہر ایک کے پھر تین  تین صیغے ہونگے۔یا پھر متکلم  اپنے بارے میں کہے گا : میں یہ کام کروں گا یا کرنے والا ہوں ۔اگر وہ ایک ہوگا  تو مفرد ہوگا ، ایک سے زائد ہونگے تو وہ جمع  کہلائیں گے ۔

بس  جیسے ماضی میں  مختلف حالتوں کی وجہ سے  چودہ صیغے  بنے تھے  مستقبل کے بھی چودہ صیغے ہی بنیں گے۔

 میں نے گزشتہ درس میں گزارش کی تھی  کہ علم صرف کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ ایک صیغے کو  مختلف  یا ایک لفظ کو مختلف صیغوں میں تبدیل کیا جائے جوں جوں وہ تبدیل ہوتا جائےگا ،مختلف معانی میں  بدلتا جائے گا ۔آپ نے  ماضی میں دیکھا جو معنی ضَرَبَ کا تھا وہ ضَرَبَت کا نہیں تھا ، جو معنی ضَرَبُوا کا تھا وہ معنی ضَرَبَنَا کا نہیں تھا،   جو معنی ضَرَبتُ کا تھا وہ ضَرَبَنَا کا نہیں تھا۔ ہر صیغے کا اپنا  ایک معنی تھا اور وہ خاص معنی پر دلالت کر رہا تھا،یہاں مستقبل میں بھی صورت حال وہی ہوگی صرف فرق یہ ہوگا کہ، یہ ہم دیکھیں گے کہ  یہ کونسا صیغہ کہاں سے بنا ہےاور کیسے بنا ہے،وہاں پر ہم کہتے تھے مثال دوں آساں سی کہ: ضَرَبَ ،اس ایک مرد نے مارا زمانہ  گذشتہ میں ، لیکن جب مستقبل میں آئیں گے   ترجمہ کریں گے:وہ ایک مرد مارے گا زمانہ  آئندہ میں ۔

5

مستقبل کے چودہ صیغوں  کی گردان

مستقبل کے چودہ صیغے اس ترتیب سے ہیں 

مذکر کے تین صیغے :  يَضْرِبُ ، يَضْرِبَانِ ، يَضْرِبُونَ ،

 مونث کے تین صیغے:  تَضْرِبُ ، تَضْرِبَان ، يَضْرِبْنَ   

اسی طرح اب حاضر کے بھی چھہ صیغے ہیں  

مذکر حاضر کے تین صیغے : تَضْرِبُ ، تَضْرِبَانِ ، تَضْرِبُونَ.

مونث حاضر کے تین صیغے : تَضْرِبِينَ ، تَضْرِبَانِ ، تَضْرِبْنَ.​​​​​​

 اور متکلم کے حسب سابق  دو صیغے اَضْرِبُ ، نَضْرِبُ.

یاد رکھیے

يَضْرِبُ :  واحد مذکر کے لئے

يَضْرِبانِ:تثنیہ مذکر کے لئے

يَضْرِبُونَ:جمع مذکر کے لئے

یہ تین صیغے مذکر کے ہیں

تَضْرِبُ:  واحد  مونث کے لئے

تَضْرِبانِ:  تثنیہ مونث کے لئے

يَضْرِبْنَ: جمع مونث کے لئے

یہ چھ ہوگئے  غائب کے ۔

اب  حاضر کے چھ صیغے

تضْرِبُ : واحد مذکر کے لئے

تَضْرِبانِ : تثنیہ مذکر کے لئے

تَضْرِبُونَ : جمع مذکر کے لئے

یہ تین مذکر مخاطب کے  لئے ہیں

تَضْرِبِينَ : واحد مونث کے لئے

تَضْرِبان : تثنیہ مونث کے لئے

تَضْرِبْنَ : جمع مونث کے لئے

أَضْرِبُ : واحد متکلم

نَضْرِبُ : جمع متکلم

صیغے وہی چودہ ہیں : چھ غائب چھ حاضر  اور دو  متکلم کے لیے۔

فرق اتنا تھا کہ  ماضی میں ہم فعل کی نسبت دیتے تھے  گذشتہ زمانے کی طرف ،لیکن یہاں فعل مستقبل میں  فعل مستقبل کی نسبت زمانہ آئندہ کی  طرف صرف  تر  جمے میں فرق آجائے گا۔

6

یضرب بنانے کا طریقہ

فعل مستقبل کے صیغے بنانے کا طریقہ

اسکے بعد  ہم دیکھیں گے کہ یضرب،یضربان ، یضربون ،کہاں سے بنا ہے کیسے بنا ہے؟

اور مستقبل کے بھی چودہ صیغے   ہیں    چھے   غائب کے ہیں اور چھے  مخاطب کے ہیں   اور  دو متکلم کے ہیں۔  جو چھے غائب کے ہیں ان میں  سے تین مذکر کے ہیں اور  تین    مؤنث کے ہیں  جوتین مذکر کے ہیں  وہ یہ ہیں  یضرب ،یضربان ، یضربون۔

 صیغہ مفرد مذکر  غائب بنانے کا طریقہ: یضرب  کا  معنی یہ ہے کہ وہ ایک  مرد   آئندہ زمانے میں مارے گا   چونکہ مستقبل کا صیغہ ہے  یضرب صیغہ مفرد مذکر   غائب  فعل  مستقبل     صحیح ثلاثی مجرد معلوم ۔ اب ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ یہ يَضْرِب  کہاں سے بنا ہے اور کیسے بنا ہے؟ فرماتے ہیں: يَضْرِب  اصل میں ضرب  تھا  یعنی گویا  کہ یہ یضرب  اسی ضرب سے بنا ہے   ۔ ضرب  مفرد مذکر غائب   اس کا فعل ماضی تھا  اب ہم  چونکہ فعل مضارع بنانا چاہتے ہیں  ظاہر ہے کہ یہاں معنی استقبال کا کرنا ہے  جب کہ وہاں معنی   ماضی  کا تھا   وہ فعل ماضی ہے اور یہ فعل مضارع ہے  تو اب ہم نے کیا کرنا ہے ؟ فرماتے ہیں :

 "یاءکه علامت استقبال بود در اولش در آوردیم" ۔

ضرب کی ابتداء میں ہم  یاء کو لائیں گے   ۔ اچھا  یہ یاء  کیا ہے ؟  ایک تو یہ غائب کی علامت ہے    اور  آگے  بتائیں گے   کہ تاء حاضر  کی علامت ہے اور یاء غائب کی علامت ہے   اور دوسرا یہ   حرف استقبال  ہے   ۔ان شاء اللہ بتائیں گے کہ یاء ہوگیا تاء ہوگیا اور الف ۔ اب ضرب کے شروع  میں یاء کو لایا جائے   اگر آپ سے پوچھا جائے  یاء کیا ہے؟  تو  بتائیں   ایک تو یہ  غائب کی علامت  ہے  اور دوسرا یہ حرف استقبال ۔

"فاء الفعل را ساکن  وعین الفعل را مکسور ولام الفعل را مضموم کردہ ایم" ۔

جب ضرب کی ابتداء میں  یاء کو لائے تو  خود ضرب کی  حرکتوں میں بھی تبدیلی  کرنی پڑی۔   ان شاء اللہ بڑی کتابوں میں پڑھیں گے  کہ  یضرب  کو کیوں پڑھا گیا  کس    لئے بنایا گیا   ۔اب ہم نے کیا کیا    ضرب  میں     فاء الفعل    (ض) کو ساکن کردیا  ضرب  کی(را)     پر جو فتحہ تھا اسے     زیر  میں کسرہ  میں تبدیل کردیا اور  ضرب  کے   لام الفعل  (ب)   پر بھی زبر تھی   اس  کو بھی ضمہ  میں   تبدیل کردیا     جب یہ تین تبدیلیاں ہو گئیں تو  یہ  بن جائے  گا   یضرب ۔بروزن یفعل البتہ یضرب میں جو ضمیر  مستتر ہوتی (ھو)ہوتی ہے  وہ ضمیر منفصل  ہے ۔

7

يَضْرِبَانِ بنانے کا طریقہ

يَضْرِبَانِ بنانے کا طریقہ 

اب اگر  وہ شخص غائب   جس نے  آئند  کام کرنا ہے  وہ  فعل انجام دینا  والا  ایک نہ ہو  بلکہ دو  ہوں    تو یقینا ہمیں صیغہ بھی  ایسا  بنا نا پڑھے گا  جو دو پر  دلالت کرے  پس دو  کے لئے ہم نے بنایا یَضرِبَانِ۔

یَضرِبَانِ:  یعنی  وہ دو  مرد ماریں گے زمانہ آئندہ میں ۔ اب یہ یضربان کیسے بنا  ؟فرماتے ہیں : یضربان یعنی وہ دو مرد غائب  آئندہ زمانے میں ماریں گے یہ صیغہ تثنیہ مذکر غائب     فعل مضارع ہے  صحیح     ہے  ثلاثی ہے مجرد ہے  معلوم ہے ۔گزشتہ جلسوں میں ہم نے  کہا  تھا کہ   ثلاثی ہے یعنی رباعی نہیں  مجرد ہے یعنی مزید فیہ  نہیں  غائب ہے یعنی حاضر نہیں اور   جس    طرح  ہم نے ضربا  کو ضرب سے  بنایا   تھا اسی طرح یضربان اصل میں يَضْرِب  تھا ، یضرب واحد غائب   کا صیغہ تھا  اب  ہمارے پاس جو بندے تھے ایک نہیں بلکہ دو   تھے   اگر یہاں  ہم دو مرتبہ کہیں  یضرب یضرب کہیں گے تو کلام ظاہر  ہے   لمبا ہوجائے گا  لہذا ہم نے  ایک یضرب  کو حذف  کیا اور ایک کو باقی رکھا  ۔اب جب ایک کو حذف کردیا  تو  الف کہ علامت تثنیہ وضمیر فاعل بودبانون عوض رفع در آخرش در آوردیم۔اب ہم نے کیا کیا؟اسی یضرب کے آخر  میں   ایک الف لائے جو علامت تثنیہ   تھی  اور اس کے ساتھ نون لگائی جو  علامت ہے رفع کی  کہ یہاں  مرفوع ہے  تو یہ بن گیا یضربان  بروزن یفعلان  یاء حرف استقبال ہوگیا  ضاد فاء الفعل  را عین الفعل    اور   باء لام الفعل ۔الف  علامت  تثنیہ  اور فاعل کی ضمیر بھی ہے یہ ضمیر متصلہ ہے   البتہ اس کی ضمیر   منفصل  ھما آجائے گی اور نون  عوض رفع  ہے۔

8

يَضْرِبُونَ اور تثنیہ مونث بنانے کا طریقہ

 اب اگر وہ کام کرنے والے زمانہ آئندہ میں دو فرد بھی نہ ہوں بلکہ دو سے بھی زیادہ ہوں تو ہمیں اس کے لیے بھی ایک صیغہ بنانا ہو گا جو "جَمْع" پر دلالت کرے تو پس "يَضْرِبُ" "وَاحِدُ مُذَكَّرٍ غَائِبٍ" کے لیے، "يَضْرِبَانِ" "تَثْنِيَةُ مُذَكَّرٍ غَائِبٍ" کے لیے تو جب "جَمْع" ہے تو "جَمْع" کے لیے جو صیغہ بنایا گیا ہے وہ ہے "يَضْرِبُونَ"۔ وہ سب مرد  زمانہ آئندہ میں ماریں گے یہ صیغہ ہے "جَمْعُ مُذَكَّرٍ غَائِبٍ" کا "فِعْلُ مُسْتَقْبَلٍ" وغیرہ۔ خوب! یہ "يَضْرِبُونَ" بھی دراصل "يَضْرِبُ" تھا یعنی "يَضْرِبُونَ" کو بھی اسی "يَضْرِبُ" سے ہی بنایا گیا ہے۔"يَضْرِبُ" وہ ایک مرد مارے گا۔ اب اگر یہ تین ہیں یا تو ہم تین دفعہ کہیں "يَضْرِبُ" "يَضْرِبُ" "يَضْرِبُ" چار ہیں تو چار دفعہ کہیں تو ظاہر ہے یہ مشکل ہو جائے گا تو ہم نے "يَضْرِبُونَ" میں ایک "يَضْرِبُ" کو محفوظ رکھا اور آخر میں ہم نے اب تبدیلی کیا کی؟ وہ تبدیلی ہم نے یہ کی۔ "وَاوُ عَلَامَةِ جَمْعِ الْمُذَكَّرِ" ہم اس "يَضْرِبُ" کے آخر میں ایک "وَاو" کو لائے۔ چونکہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ "وَاو" یہ علامت ہوتی ہے "جَمْعُ مُذَكَّرٍ" کی، "وَاو" علامت ہوتی ہے "جَمْعُ مُذَكَّرٍ" کی تو پس اس کے آخر میں ہم "وَاو" لائے وہی اس کے فاعل کی ضمیر بھی ہوگی اور "يَضْرِبُونَ" آخر میں ایک نون بھی لائے۔ وہ جو "يَضْرِبُ" جو مفرد میں تھا آخر میں اس کی حالت "رَفْع" تھی اس کے عوض ہم آخر میں ایک نون لائے تو یہ بن گیا "يَضْرِبُونَ" بَرْوَزْنِ "يَفْعَلُونَ"۔ "يَضْرِبُونَ" بَرْوَزْنِ "يَفْعَلُونَ" یا "حَرْفُ الْاِسْتِقْبَالِ"، "ضَادٌ فَاءُ الْفِعْلِ" "رَاءٌ عَيْنُ الْفِعْلِ" "بَاءٌ لَامُ الْفِعْلِ"۔ "وَاو" علامت "جَمْعُ مُذَكَّرٍ" اور ضمیر فاعل بھی ہے البتہ یہ "مُتَّصِلَةٌ" کی اس کی ضمیر "مُنْفَصِلٌ" "هُمْ" آئے گی جیسے پہلے بتا چکا ہے اور نون "عِوَض" ہے اس "رَفْع" کے وہ جو مفرد میں ہم "يَضْرِبُ" پڑھتے تھے یہ اس کے عوض آخر میں ایک نون آ جائے گی اور یہ بن جائے گا "يَضْرِبُونَ"۔ پس یہ تین صیغے تو ہو گئے کس کے؟ جو "مُذَكَّرٍ غَائِبٍ" کے لیے تھے۔ "يَضْرِبُ" "وَاحِدُ مُذَكَّرٍ غَائِبٍ" "يَضْرِبَانِ" "تَثْنِيَةُ مُذَكَّرٍ غَائِبٍ" اور "يَضْرِبُونَ" "جَمْعُ مُذَكَّرٍ غَائِبٍ"کے لیے۔

 مؤنث غائب کے صیغے

اب اسی طرح تین صیغے ظاہر ہے "مُؤَنَّثٍ" کے لیے بھی ہوں گے کہ ایک ہوگا "وَاحِدُ مُؤَنَّثٍ غَائِبٍ" کا، "غَائِبَة" کے لیے، دوسرا ہوگا "تَثْنِيَةُ مُؤَنَّثٍ غَائِبَة" کے لیے اور تیسرا ہوگا "جَمْعُ مُؤَنَّثٍ غَائِبَة" کے لیے۔ وہ تین ہیں "تَضْرِبُ" "تَضْرِبَانِ" "يَضْرِبْنَ"۔ "تَضْرِبُ" "تَضْرِبَانِ" "يَضْرِبْنَ"۔

"تَضْرِبُ" یعنی وہ ایک عورت  زمانہ آئندہ میں مارے گی۔"تَضْرِبُ" صیغہ "مُفْرَدُ مُؤَنَّثٍ غَائِبَة" کا ہے"فِعْلٌ مُضَارِعٌ" ہے "صَحِيْحٌ" "ثُلَاثِيٌّ" "مُجَرَّدٌ" "مَعْلُومٌ"۔

"تَضْرِبُ" بھی اصل میں "ضَرَبَ" تھا۔ وہ جیسے "يَضْرِبُ" اصل میں "ضَرَبَ" تھا یہ بھی اسی سے بنا ہے۔

فعل مضارع بنانے کا طریقہ

"تَاءُ عَلَامَةِ الْاِسْتِقْبَالِ" جیسے "يَا" "حَرْفُ الْاِسْتِقْبَالِ" تھا یہ "تَاء" بھی "حَرْفُ الْاِسْتِقْبَالِ" ہے۔ ہم نے اس "ضَرَبَ" کی ابتدا میں "تَاء" کو لائے اور "فَاءُ الْفِعْلِ" وہ "ضَرَبَ" میں "ضَادٌ" جو "فَاءُ الْفِعْلِ" تھی اس کو کر دیا ساکن، "عَيْنُ الْفِعْلِ" جو "رَا" تھی اس کو کر دیا مقصور اور "بَاءٌ" جو پہلے مفتوح تھی اس کو کر دیا "مَضْمُوم"، "مَضْمُوم" تو یہ بن گیا "تَضْرِبُ" بَرْوَزْنِ "تَفْعَلُ"۔ "ضَادٌ فَاءُ الْفِعْلِ"، "رَا عَيْنُ الْفِعْلِ"، "بَا لَامُ الْفِعْلِ"۔ اس میں "هِيَ" کی ضمیر ہوتی ہے جس میں ہوتی ہے "مَرْفُوعٌ" ہے جو اس کا فاعل بنتی ہے۔ خوب! "تَضْرِبُ" یہ بن جائے گا "وَاحِدُ مُؤَنَّثٍ غَائِبَة" کے لیے۔

"تَضْرِبَانِ" وہ دو عورتیں ماریں گی زمانہ آئندہ میں۔ آنے والے زمانہ میں۔ یہ صیغہ ہے "تَثْنِيَةُ مُؤَنَّثٍ غَائِبَة" کا "فِعْلٌ مُضَارِعٌ" ہے "صَحِيْحٌ" "ثُلَاثِيٌّ" "مُجَرَّدٌ" "مَعْلُومٌ"۔

"تَضْرِبَانِ" دَرْاَصْل "تَضْرِبُ" تھا۔ "تَضْرِبُ" مفرد کے لیے تھا کہ وہ ایک عورت  زمانہ آئندہ میں مارے گی۔ "تَضْرِبَانِ" اس کا معنی ہے وہ دو عورتیں ماریں گی زمانہ آئندہ میں۔ اب جب "تَضْرِبُ" واحد کے لیے تھا یا تو ہم دو عورتوں کے لیے دو دفعہ کہیں "تَضْرِبُ" "تَضْرِبُ" یا پھر کوئی اور راستہ اپنائیں اور راستہ یہ ہے کہ ہم نے ایک "تَضْرِبُ" کو تو باقی رکھا جس سے بنایا تھا اور دوسرے "تَضْرِبُ" کو حذف کر دیا اور اس کی وجہ ہم نے کیا کیا؟ "الف عَلَامَة التَّثْنية و هُمْ ضمير فاعل بود"۔ ہم نے اسی "تَضْرِبُ" کے آخر میں "اَلِفُ التَّثْنِيَةِ" لگا دی جو الف بتا رہی ہے کہ یہاں دو ہیں ایک نہیں اور وہی اس کے فاعل کی ضمیر بھی ہے۔ اور آخر میں ایک نون لگا دی جو "تَضْرِبُ" میں آخر میں "رَفْع" تھا اس کے عوض تو یہ بن گیا "تَضْرِبَانِ" بَرْوَزْنِ "تَفْعَلَانِ"۔ "ضَادٌ فَاءُ الْفِعْلِ"، "رَا عَيْنُ الْفِعْلِ"، "بَا لَامُ الْفِعْلِ"۔ الف علامت "تَثْنِيَة" ہے، الف علامت "تَثْنِيَة" ہے اور ضمیر فاعل بھی ہے اور نون "عِوَض" ہے اس "رَفْع" کے جو "تَضْرِبُ" کے آخر میں تھا۔ اور اس کی ضمیر "مُنْفَصِلٌ" آئے گی "هُمَا"۔ خوب! یہ تو تھی کہ اگر وہ دو عورتیں "غَائِبَة" وہ دو عورتیں ہوں۔

لیکن اگر زمانہ مستقبل میں مارنے والی دو عورتیں نہ ہوں بلکہ دو سے زائد ہوں تو ظاہر ہے ہمیں اس کے لیے بھی ایک صیغہ چاہیے تو وہ صیغہ ہے "يَضْرِبْنَ"۔ وہ سب عورتیں زمانہ آئندہ میں ماریں گی ۔

اب اصل "يَضْرِبْنَ" صیغہ "جَمْعُ مُؤَنَّثٍ غَائِبٍ" "فِعْلٌ مُضَارِعٌ" "صَحِيْحٌ" "ثُلَاثِيٌّ" "مُجَرَّدٌ" "مَعْلُومٌ"۔ "يَضْرِبْنَ" دَرْاَصْل "تَضْرِبُ" تھا وہ "تَضْرِبُ" "تَضْرِبَانِ" "يَضْرِبْنَ"۔ یہ "يَضْرِبْنَ" بھی اسی "تَضْرِبُ" یعنی اپنے مفرد والے صیغہ سے بنا ہے۔

کیوں؟ چونکہ وہ "تَضْرِبُ" ایک کے لیے تھا یا تو ہم تین چار دفعہ کہتے "تَضْرِبُ" "تَضْرِبُ" "تَضْرِبُ" ہم نے وہ نہیں کیا۔ اب ہم نے اس کو بنایا یوں ہے۔ "نُونُ عَلَامَةِ جَمْعِ الْمُؤَنَّثِ وَهُمْ ضَمِيرُ فَاعِلٍ بُود دَرْ آخِرِهِ آوَر دِيم"۔ ہم نے کیا کیا؟ "تَضْرِبُ" کے آخر میں ہم ایک نون لے آئے۔ نون۔ کیوں؟ جیسے "وَاو" علامت ہوتی ہے "جَمْعُ مُذَكَّرٍ" کی یہ نون علامت ہوتی ہے "جَمْعُ مُؤَنَّثٍ" کی جیسے "وَاو" علامت "جَمْعُ مُذَكَّرٍ" کی نون علامت ہوتی ہے "جَمْعُ مُؤَنَّثٍ" کی اور یہ اس کی فاعل تھی۔  اور یہ فاعل کی ضمیر بھی یہی ہوتی ہے۔

تثنیہ اور جمع کے درمیان اشتباہ سے بچاؤ

اب اس کے آخر میں جب یہ ہو گیا "تَضْرِبُ" تو اب چونکہ نون یہ علامت "جَمْعُ مُؤَنَّثٍ" کی اور اس نے ہمیشہ اس فعل کے ساتھ رہنا ہے تو ہم نے "بَا" کو ساکن کر دیا تو یہ بن گیا "تَضْرِبْنَ" چونکہ ویسے تو بننا تھا نا "تَضْرِبُونَ"۔ وہ "تَضْرِبُ" سے بنا تھا نا تو "بَا" کو ساکن کرنا ہے چونکہ نون ہمیشہ شدت اتصال کی وجہ سے اس کے ساتھ رہنی ہے تو یہ ہو گیا ساکن یہ بن گیا "تَضْرِبْنَ"۔اب جب یہ "تَضْرِبْنَ" ہو گیا "مُشْتَبَهَ شُدَّ بِجَمْعِ مُؤَنَّثٍ مُخَاطَبَةٍ اَزْ جِهَةِ رَفْعِ الْاِشْتِبَاهِ"۔ اب ممکن ہے کہ بندے کو سمجھ نہ آئے کہ یہ "تَضْرِبْنَ" "جَمْعُ مُؤَنَّثٍ غَائِبٍ" کے لیے ہے یا "جَمْعُ مُؤَنَّثٍ حَاضِرٍ" کے لیے ہے۔ چونکہ آگے جو صیغے حاضر کے آ رہے ہیں اس میں "تَضْرِبْنَ" آنا ہے "جَمْعُ مُؤَنَّثٍ حَاضِرٍ" کے لیے تو اب چونکہ اِشْتِبَاه ہو جاتا سمجھ نہ آتی شخص کو کہ آیا یہ "غَائِب" والے صیغے کا "تَضْرِبْنَ" ہے یا "حَاضِر" والے کا تو اس "اِشْتِبَاه" کو دور کرنے کے لیے ہم نے "تَاء" کو "یَا" میں تبدیل کر دیا اور یہ بنا دیا "يَضْرِبْنَ" تاکہ "يَضْرِبْنَ غَائِبَة" کے لیے رہ جائے اور "تَضْرِبْنَ حَاضِر" کے لیے رہ جائے۔

"يَضْرِبْنَ" بَرْوَزْنِ "يَفْعِلْنَ" "ضَادٌ فَاءُ الْفِعْلِ" "رَا عَيْنُ الْفِعْلِ" "بَا لَامُ الْفِعْلِ" "نُونُ" علامت "جَمْع مُؤَنَّثٍ" اور ضمیر فاعل البتہ اس کی ضمیر "مُنْفَصِلٌ" آئے گی "هُنَّ" تین  یہ ہو گئے۔

صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ

[ مستقبل ]

و از مستقبل نيز چهارده وجه باز مى‌گردد : شش مغايب را بود و شش مخاطب را و دو حكايت نفس متكلّم را.

آن شش كه مغايب را بود : سه مذكّر را بود و سه مؤنّث را.

آن سه كه مذكّر را بود : يَضْرِبُ ، يَضْرِبَانِ ، يَضْرِبُونَ.

يَضْرِبُ : يعنى مى زند او يك مرد غايب در زمان آينده. صيغه مفرد مذكّر غايب است از فعل مستقبل صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

يَضْرِبُ در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد مذكّر غايب بود از فعل ماضى ) خواستيم مفرد مذكّر غايب بنا نمائيم از فعل مضارع ، ياء كه علامت و حرف استقبال بود در اولش درآورديم ، فاء الفعل را ساكن و عين الفعل را مكسور و لام الفعل را مضموم كرديم يَضْرِبُ شد بر وزن يَفْعِلُ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل و ياء علامت غيبت و حرف استقبال است و ضمير هُوَ در او مستتر است به استتار جايزى ، محلّاً مرفوع است تا فاعلش بوده باشد.

يَضْرِبَانِ : يعنى مى زنند ايشان دو مردان غايب در زمان آينده ، صيغه تثنيه مذكّر غايب است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

يَضْرِبَانِ در اصل يَضْرِبُ بود ( مفرد بود ) خواستيم تثنيه بنا كنيم ، الف كه علامت تثنيه و ضمير فاعل بود با نون عوض رفع در آخرش در

آورديم ، يَضْرِبَانِ شد بر وزن يَفْعِلانِ. ياء ، حرف استقبال ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، و الف علامت تثنيه و هم ضمير فاعل و ضمير منفصلش ، هُماست ، و نون عوض رفعى است كه در واحد بوده.

يَضْرِبُونَ : يعنى مى زنند ايشان گروه مردان غايب در زمان آينده. صيغه جمع مذكّر غايب است از فعل مستقبل ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

يَضْرِبُونَ در اصل يَضْرِبُ بود ( مفرد بود ) خواستيم كه جمع مذكّر غايب بنا كنيم ، واو كه علامت جمع مذكّر و هم ضمير فاعل بود با نون عوض رفع در آخرش درآورديم ، يَضْرِبُونَ شد بر وزن يَفْعِلُونَ. ياء ، حرف استقبال ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، واو علامت جمع مذكّر و هم ضمير فاعل است و ضمير منفصلش ، هُمْ است ، و نون عوض رفعى است كه در واحد بوده.

* * *

و آن سه كه مؤنّث را بود : تَضْرِبُ ، تَضْرِبَان ، يَضْرِبْنَ.

تَضْرِبُ : يعنى مى زند او يك زن غايبه در زمان آينده. صيغه مفرده غايبه مؤنّث است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

تَضْرِبُ در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد مذكّر بود از فعل ماضى ) خواستيم مفرده مؤنّث بنا كنيم از فعل مضارع ، تاء كه علامت استقبال بود در اولش درآورديم ، و فاء الفعل را ساكن و عين الفعل را مكسور ولام الفعل را مضموم كرديم ، تَضْرِبُ شد بر وزن تَفْعِلُ. ضاد فاء الفعل ، راء

عين الفعل ، باء لام الفعل ، وضمير هِىَ در وَىْ مُسْتَتِر است به استتار جايزى ، محلّاً مرفوع است تا فاعلش بوده باشد.

تَضْرِبَانِ : يعنى مى زنند ايشان دو زنان غايبه در زمان آينده. صيغه تثنيه مؤنّث غايبه است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

تَضْرِبَانِ در اصل تَضْرِبُ بود ( واحده مغايبه مؤنّث بود ) خواستيم تثنيه بنا كنيم ، الف كه علامت تثنيه و هم ضمير فاعل بود با نون عوض رفع در آخرش درآورديم تَضْرِبَانِ شد بر وزن تَفْعِلَانِ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، و الف علامت تثنيه و هم ضمير فاعل و نون عوض رفعى است كه در واحد بوده. و ضمير منفصلش ، هُماست.

يَضْرِبْنَ : يعنى مى زنند ايشان گروه زنان غايبه در زمان آينده. صيغه جمع مؤنّث غايبه است از فعل مستقبل ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

يَضْرِبْنَ در اصل تَضْرِبُ بود ( مفرد بود ) خواستيم كه جمع مغايبه مؤنّث بنا كنيم ، نون كه علامت جمع مؤنّث و هم ضمير فاعل بود در آخرش درآورديم و لام الفعل را ساكن كرديم تَضْرِبْنَ شد ، مشتبه شد به جمع مخاطبه مؤنّث ، از جهت رفع اشتباه و مناسبت ياء با غايب ، تاء را بدل كرديم بياء يَضْرِبْنَ شد بر وزن يَفْعِلْنَ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، نون ، علامت جمع مؤنّث و هم ضمير فاعل و ضمير منفصلش ، هُنَّ است.

* * *