درس شرح امثلہ

درس نمبر 4: فعل ماضی 2

 
1

خطبہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

2

مؤنث غائب کے صیغے

ـ"و آن سه كه مؤنّث را بود : ضَرَبَتْ ، ضَرَبَتَا ، ضَرَبْنَ.

گزشتہ درس میں میں نے گزارش کی تھی کہ فعل ماضی کی چونکہ ۱۴ مختلف سورتیں بنتی تھیں تو اس کے لیے ہم نے ۱۴ مختلف صیغے آپ کی خدمت میں گزارش کیے تھے۔ اور ان کی ہم تفصیل بیان کر رہے تھے کہ پہلے تین جو مفرد، جو مذکر غائب کے لیے تھے: پہلا مفرد مذکر غائب کے لیے، دوسرا تثنیہ مذکر غائب کے لیے اور تیسرا جمع مذکر غائب کے لیے۔ ان کی بحث مکمل ہوگئی کہ ہم نے کیسے بنائے۔

ابھی ہم بحث شروع کر رہے ہیں کہ ان ۱۴ میں جو پہلے تین مذکر کے تھے، تو آگے ہیں کہ اگر وہ مارنے والا مرد نہ ہو، فرض کرو وہ مؤنث ہے، وہ عورت ہے، تو ان کی بھی صورت یہی ہوگی: یا وہ ایک عورت ہوگی، یا وہ دو عورتیں ہوں گی، یا دو سے زیادہ ہوں گی۔ تو اس کے لیے بھی پھر ہمیں ہر ایک کے لیے مختلف صیغے بنانے ہوں گے، جیسے کل میں نے گزارش کی، تو اس کے لیے تین صیغے یہ ہیں:

ضَرَبَتْ، ضَرَبَتَا، ضَرَبْنَ۔

  • ضَرَبَتْ: مفرد مؤنث غائبه کے لیے
  • ضَرَبَتَا: تثنیہ مؤنث غائبه کے لیے
  • ضَرَبْنَ: جمع مؤنث غائبه کے لیے
3

صیغۂ واحدہ مؤنث غائبہ (ضَرَبَتْ)

۱. صیغۂ واحدہ مؤنث غائبہ (ضَرَبَتْ)

"ضَرَبَتْ يعنى بزد او يك زن غائبة در زمان گذشته"۔ ضَرَبَتْ، جیسے کل میں نے گزارش کی تھی، ضَرَبَتْ کا معنیٰ اب یہ کریں گے: "اُس ایک عورت نے مارا زمانہ گزشتہ میں"۔ البتہ وہ عورت غائب تھی، یعنی سامنے والی موجود نہیں ہے، اس کے بارے میں۔

تشریح:

  • صیغہ: واحدہ، غائبہ، مؤنث
  • فعل: ماضی، ثلاثی،صحیح، مجرد، معلوم (ان شاءاللہ آگے تفصیل بتائیں گے)
(کل بھی گزارش کی تھی کہ صحیح لفیف اورمضاعف وغیرہ کے مقابلے میں ہے ، ثلاثی  رباعی وغیرہ کے مقابلے میں ہے،  مجرد  مزید فیہ کے مقابلے میں ہے ، معلوم مجھول کے مقابلے میں ہے لیکن میں یہاں عمدا( جان بوجھ کر) ذکر نہیں کر رہا ہوں کیونکہ ابھی ابتدائی کلاس ہے ان شاءاللہ بعد والی کلاسوں میں وضاحت سے بیان کریں گے)۔

اشتقاق (بنانے کا طریقہ):

ضَرَبَتْ دراصل ضَرَبَ بود۔ یہ ضَرَبَتْ بھی اسی ضَرَبَ سے بنا ہے، مفرد مذکر غائب سے۔ لیکن چونکہ وہ ضَرَبَ مذکر کے لیے تھا، تو ہم چاہتے تھے مؤنث کے لیے صیغہ بنائیں، اب ہم نے کیا کیا؟ اس ضَرَبَ کے ساتھ "تاى ساكنه كه علامت مؤنّث بود در آخرش درآورديم"۔ ہم نے وہ ضَرَبَ جو مذکر کے لیے تھا، اس کے آخر میں ہم نے "تا" لگا دی، اس "تا" نے ہی آ کر بتا دیا کہ وہ مارنے والا مرد نہیں بلکہ عورت تھی، یعنی مذکر نہیں بلکہ مؤنث تھی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ جب کہیں گے ضَرَبَتْ، اب ترجمہ بالکل بدل جائے گا، تو اب ترجمہ کیا ہوگا؟ کہ "اس ایک عورت نے  زمانہ گزشتہ میں مارا"۔

پس ضَرَبَتْ شد بر وزنِ فَعَلَتْ۔

اجزاء:

  • ض: فاء الفعل
  • ر: عین الفعل
  • ب: لام الفعل
  • آخر میں جو" ت " ہے، یہ تاءِ ساکنہ، علامتِ واحدۂ مؤنث ہے۔ یہ علامتِ تانیث ہے کہ ایک عورت ہی  مارنے والی۔ ایک بھی بتا رہی ہے اور یہ بھی بتا رہی ہے" ــت " کہ وہ مؤنث ہے۔

"و ضمير هِىَ در او مستتر است به استتار جايزى"۔ (ان شاءاللہ جیسے میں نے کل گزارش کی، جان بوجھ کے فی الحال ہم اس کی وضاحتیں نہیں کر رہے، چونکہ آگے تھوڑا قدم بڑھ جائیں وہاں بتائیں گے کہ ضمیر کی دو قسمیں ہوتی ہیں، متصلہ، منفصلہ،)

 بہرحال اس میں "هِیَ" کی ضمیر ہے جو یہاں چھپی ہوئی ہے اور وہ اس کی فاعل ہے اور محلاً مرفوع ہے۔ محلاً مرفوع کیا ہوتا ہے، لفظاً مرفوع کیا ہوتا ہے(یہ بھی ان شاءاللہ آگے ہم آپ کو تفصیل سے بیان کریں گے)۔

4

صیغۂ تثنیہ مؤنث غائبہ (ضَرَبَتَا)

۲. صیغۂ تثنیہ مؤنث غائبہ (ضَرَبَتَا)

اب آگے کہ اگر وہ زمانہ  گزشتہ میں مارنے والی خواتین ایک سے زائد، دو تھیں، تو اب ظاہر ہے ہمیں صیغہ بھی بدلنا ہوگا، تو اس کے لیے ہم نے صیغہ بدلا۔ کیا؟ وہاں تھا ضَرَبَتْ جب ایک عورت تھی غائب  مارنے والی۔ اگر وہ دو ہوئیں تو پھر صیغہ بدل گیا، وہ بن گیا ضَرَبَتَا۔ ضَرَبَتَا، وہ  جو ضَرَبَتْ تھی ، اس ت کے ساتھ ایک الف آگئی تثنیہ کی اور وہ ـ" تَا" بن گیا، ضَرَبَتَا۔ آگے تفصیل بتاتے ہیں۔

"ضَرَبَتَا  : يعنى بزدند ايشان دو زنان غائبه در زمان گذشته" یعنی زمانہ گزشتہ میں دو غائب خواتین نے یعنی عورتوں نے، دو مؤنث نے اس کو مارا۔

تشریح:

  • صیغہ: تثنیہ، مؤنث، غائب کا ہے۔
  • فعل: فعل ماضی ہے، صحیح ثلاثی مجرد معلوم ہے، ان   شاءاللہ اس کی وضاحت جان بوجھ کے نہیں کر رہے، بعد میں کریں گے۔

اشتقاق (بننے کا طریقہ):

"ضَرَبَتَادر اصل ضَرَبَتْ بود"۔ یہ ضَرَبَتَا، جیسے میں نے کہا، چونکہ ضَرَبَتْ مفرد تھا، تو اسی مفرد کا تثنیہ بنانا تھا، تو یہ ضَرَبَتَا اصل میں ضَرَبَتْ تھا۔ مفرد بود۔ "خواستيم كه تثنيه بنا كنيم "۔ اب جب ہم نے کہا کہ یہ ایک نہیں تھی، وہ عورتیں تو دو تھیں، جب دو تھیں تو ہمارے پاس دو راستے تھے۔ ایک راستہ یہ تھا کہ ہم دو دفعہ کہتے: ضَرَبَتْ، ضَرَبَتْ۔ اور ایک راستہ یہ تھا کہ نہیں، ہم کوئی اور اس کا حل نکالیں تاکہ یہ سمجھ بھی آجائے کہ وہ دو عورتیں تھیں مارنے والی زمانۂ گزشتہ میں اور ہمیں پورے لفظ کا تکرار بھی نہ کرنا پڑے۔

"زائد بر یکے را حذف کردیم"۔ ہم نے کیا کیا کہ ضَرَبَتْ، ضَرَبَتْ، دو دفعہ ضَرَبَتْ کہنے کی بجائے ایک ضَرَبَتْ کو حذف کر دیا اور اس کے بدلے میں ہم نے ایک "الف علامتِ تثنیہ" لگا دی۔ ت  جو ساکن تھی اس کے ساتھ لگا دی ایک الف، اور یہ بن گیا ضَرَبَتَا بر وزنِ فَعَلَتَا۔ یعنی ان دو عورتوں نے زمانہ گزشتہ میں مارا ۔

اجزاء:

  • ض: فاء الفعل
  • ر: عین الفعل
  • ب: لام الفعل
  • الف: علامتِ تثنیہ۔ وہ جو ضَرَبَتَا ہے، یہ الف یہ بتا رہی ہے کہ وہ مارنے والی ایک نہیں بلکہ دو تھیں۔ یہ علامتِ تثنیہ بھی ہے اور فاعل کی ضمیر بھی ہے اور اس کی ضمیر منفصل "ھُمَا" ہے۔ ان شاءاللہ یہ وضاحتیں بعد میں کریں گے۔
5

صیغۂ جمع مؤنث غائبہ (ضَرَبْنَ)

۳. صیغۂ جمع مؤنث غائبہ (ضَرَبْنَ)

اب اگر وہ مارنے والی خواتین دو نہیں بلکہ دو سے بھی زیادہ تھیں، تو ہمیں اس کے لیے ایک صیغہ چاہیے کہ ایسا صیغہ ہو جو واضح بتا رہا ہو کہ وہ مارنے والی زمانہ گزشتہ میں دو سے زائد تھیں، تو اس کے لیے جو صیغہ ہم نے وضع ّ(بنایا)کیا وہ  ضَرَبْنَ ہے۔

یعنی ضَرَبَتْ (اس ایک عورت نے  زمانہ گزشتہ میں مارا)، پھر آجائے گا ضَرَبَتَا (یعنی ان دو عورتوں نے  زمانہ گزشتہ میں مارا)۔ اب اگر دو سے زائد تھیں تو اس کے لیے جو صیغہ بنایا گیا، وہ صیغہ ہے ضَرَبْنَ۔ یعنی ان سب عورتوں نے زمانہ گزشتہ میں مارا ۔ ضَرَبْنَ۔ اب بتاتے ہیں کہ اس کو ہم نے کیسے بنایا۔

اشتقاق (بننے کا طریقہ):

"ضَرَبْنَ یعنی بزدند ايشان گروه زنان غائبه در زمان گذشته

ضَرَبْنَ، صیغۂ  جمع مؤنث غائبہ کا ہے۔فعل ماضی ہے،  صحیح ہے، ثلاثی مجرد اور معلوم۔

"ضَرَبْنَ در اصل ضَرَبَتْ بود" ۔ یہ ضَرَبْنَ بھی اسی ضَرَبَتْ سے بنا ہے۔ وہ "اس ایک عورت نے زمانہ گزشتہ میں مارا "۔ تو اب ضَرَبَتْ بود، وہ مفرد تھا۔ "خواستیم جمع بنا کنیم"۔ اب جب ہم نے دیکھا کہ وہ مارنے والی ایک نہیں بلکہ بہت ساری تھیں، جمع بنانا چاہتے تھے۔ اب ہمارے پاس دو راستے تھے، یا تو ہم کہتے: ضَرَبَتْ، ضَرَبَتْ، ضَرَبَتْ۔ چار تھیں تو ایک اور ضَرَبَتْ کہتے، پانچ تھیں تو اور ایک اور ضَرَبَتْ، یعنی جتنی تھیں اتنے ضَرَبَتْ کہتے رہتے۔ تو یہ مشکل تھا۔

اب ہم نے کیا کیا؟ "زائد بر یکے را حذف کردیم"۔ ایک ضَرَبَتْ کو رکھ لیا اور اس سے جو اضافی تھیں، ان سب کو حذف کر دیا۔ "و عوض از محذوف نون کہ علامت جمع مؤنث بود در آخرش آوردیم"۔ اب ہم نے کیا کیا؟ اس ضَرَبَتْ کے آخر میں ایک "نون" لے آئے۔ ان شاءاللہ آگے صرفِ میر جب شروع کریں گے تو وہاں پر آپ کو بہت ساری چیزیں مزید بیان کریں گے کہ یہ "نون" علامت ہے کس کی؟ جمع مؤنث کی۔ جیسے ضَرَبُوا میں "واو" علامت تھی جمع مذکر کی، یہاں یہ "نون"  جمع مؤنث کی علامت ہے ۔  یہ کیا ہو گیا؟ ضَرَبَتْنَ۔ او ضَرَبَتْ سے بنایا نا، تو ضَرَبَتْ کے آگے ہم نے نون کو لگایا تو یہ بن گیا ضَرَبَتْنَ۔

"تا دلالت می کرد بر تانیث"۔ ضَرَبَتْنَ میں "ت "کا کام تھا یہ بتانا کہ یہاں مارنے والی مؤنث ہیں، مذکر نہیں۔ اور نون علامت  کس کی تھی؟ جمع کی۔ یعنی وہ بتانے والی ہے کہ یہ ایک نہیں، دو نہیں، بلکہ بہت ساری ہیں۔ اور ساتھ یہ نون یہ بھی بتاتی تھی کہ وہ بہت  ساری مؤنث ہیں، یعنی نون فقط علامتِ جمع نہیں، بلکہ جمع کی علامت بھی ہے اور ساتھ تانیث کی علامت بھی ہے۔پھر کیا ہوا؟

"با وجود نون از تا مستغنی شدیم"۔ اب جب نون، جمع کے ساتھ ساتھ تانیث والے معنی کو بھی بیان کر رہی ہے تو اس سے پہلے جو "ت "کھڑی تھی جس کا کام مؤنث و تانیث کو بیان کرنا تھا، اس کی اب ہمیں ضرورت نہ رہی۔ چونکہ وہ تو ہم نے لگائی تھی یہ بتانے کہ یہ مارنے والی عورت تھی۔ اب جب نون آگئی اور یہ نون بتا رہی ہے کہ وہ عورتیں تھیں، وہ مؤنث تھیں، اب ہمیں "ت " کی ضرورت نہ رہی۔ تو ضَرَبَتْنَ میں سے جب"ت " کی ضرورت ہمیں نہیں رہی تو اس کو حذف کر دیں گے ، اس کو گرا دیں گے تو باقی کیا بچ جائے گا؟ ضَرَبّنَ۔"ت "درمیان سے ختم ہوگئی۔تاء را حذف كرديم ضَرَبَنَ شد ،اب  ضَرَبَتْنَ  میں سے "ت " کو حذف کر دیا کیونکہ تا والا کام نون کر رہی تھی تو یہ  ضَرَبّنَ بن گیا۔یعنی تمام حروف پر زبر ہو گی۔

"توالىِ اربع حركات شد و آن در كلام عرب سنگين بود"۔ ان شاءاللہ آگے ہم بہت سارے قوانین پڑھیں گے۔ چونکہ عرب میں چار اعراب اکٹھے پڑھنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے، وہ کہتے ہیں یہ سنگین ہوتا ہے کہ ایک ہی حرکت چار حروف پر مسلسل ہو تو وہ ذرا مشکل ہو جاتی ہے۔ تو ہم نے اس مشکل سے نکلنے کے لیے "لهذا باء را ساكن كرديم"۔ "ب "کے فتح کو، "ب " کی زبر کو گرا دیا، اس کو ختم کر دیا، تو جب اس کو ختم کر دیا تو یہ ہوگیا ضَرَبْنَ بر وزنِ فَعَلْنَ۔ باقی ساری باتیں وہی  جو پیچھےبیان ہو چکی ہیں ۔

اجزاء:

  • ض: فاء الفعل
  • ر: عین الفعل
  • ب: لام الفعل
  • نون: علامت ہے جمع مؤنث کی اور فاعل کی ضمیر بھی ہے اور اس کی ضمیرِ منفصل جیسے ضَرَبُوا کی ضمیرِ منفصل "ھُمْ" تھی، ضَرَبْنَ کی ضمیرِ منفصل "ھُنَّ" ہے۔ ان شاءاللہ یہ ضمیریں بھی ہم آگے بیان کریں گے۔

یہ غائب کے جو چھ صیغے ہم نے بنائے تھے، تین مذکر کے اور تین مؤنث کے، وہ مکمل ہوگئے۔

6

مخاطب کے صیغے

"و آن شش را کہ مخاطب را بود"۔ اب چھ مخاطب کے تھے۔ کیوں؟ کہ ہو سکتا ہے وہ مارنے والا وہی ہے جو سامنے کھڑا ہے۔ اب اس کی پھر تین صورتیں ہیں: ہو سکتا ہے وہ ایک ہو مارنے والا، ہو سکتا ہے دو ہوں، ہو سکتا ہے تین ہوں۔ ہو سکتا ہے وہ عورت ہو، ہو سکتا ہے وہ دو عورتیں ہوں، ہو سکتا ہے وہ دو سے زائد ہوں، تو یہ بھی مخاطب کے بھی اسی طرح چھ صیغے بنیں گے۔ ان میں سے تین مذکر کے اور تین مؤنث کے۔ جو تین مذکر کے ہیں، وہ یہ ہیں جن کو ہم نے بیان کیا تھا، یہ ہیں:

مذکر مخاطب:

  • ضَرَبْتَ: اگر مارنے والا سامنے موجود مخاطب ایک بندہ ہے، کہیں گے ضَرَبْتَ، یعنی تو ایک مرد نے مارا۔
  • ضَرَبْتُمَا: اگر وہ دو ہوں تو کہیں گے ضَرَبْتُمَا، تم دو مردوں نے مارا۔
  • ضَرَبْتُمْ: اگر وہ زیادہ ہوں تو کہیں گے ضَرَبْتُمْ، تم سب مردوں نے مارا۔

یہ ہے کہ اگر وہ مذکر ہوں گے۔

مؤنث مخاطب: لیکن اگر وہ مؤنث ہیں تو پھر ہم پڑھیں گے:

  • ضَرَبْتِ: یعنی تو ایک عورت نے مارا۔
  • ضَرَبْتُمَا: اگر وہ دو ہیں تو کہیں گے تم دو عورتوں نے مارا۔
  • ضَرَبْتُنَّ: اگر زیادہ ہیں تو کہیں گے تم سب عورتوں نے مارا۔

لیکن یہ چونکہ سارے ماضی کے صیغے ہیں، تو سارے اسی زمانہ گزشتہ میں ہوں گے ۔ اب ان چھ کو لے کر چلتے ہیں۔

7

صیغۂ واحد مذکر مخاطب (ضَرَبْتَ)

۱. صیغۂ واحد مذکر مخاطب (ضَرَبْتَ)

"ضَرَبْتَ : يعنى بزدى تو يك مرد حاضر در زمان گذشته"۔ ضَرَبْتَ کا معنی کیا ہے؟ یعنی تو ایک آدمی نے، تو ایک، جو میرے سامنے کھڑا ہے، تو ایک مرد نے اس کو  زمانہ گزشتہ میں مارا۔

تشریح:ضَرَبْتَ

  • صیغہ: مفرد، مذکر، حاضر۔ ضَرَبْتَ صیغۂ مفرد مذکر حاضر۔
  • فعل: ماضی، صحیح، ثلاثی، مجرد اور معلوم۔

اشتقاق (بننے کا طریقہ):

ضَرَبْتَ در اصل ضَرَبَ بود۔ یہ ضَرَبْتَ بھی اسی ضَرَبَ سے بنا ہے۔ لیکن ضَرَبَ کا معنی تھا کہ اس ایک مرد نے زمانہ گزشتہ میں مارا ۔ ہم اس کو کہنا چاہتے ہیں جو ہمارے سامنے کھڑا ہے، غائب کی بات نہیں ہے، حاضر کی بات ہے۔ "خواستيم مفرد مخاطب مذكّر بنا كنيم "۔ اب ہم نے کیا کیا؟ اب جب مسئلہ آیا کہ ضَرَبَ اس  سے ہم نے حاضر کا صیغہ  بنانا تھا ، چونکہ ہم نے بتانا تھا کہ تو نے مارا، نہ کہ کسی غائب نے مارا، تو اب ہم نے کیا کیا؟ فرماتے ہیں: اس کے آخر میں "تاىِ مفتوحه كه علامت مفرد مخاطب بود به او مُلْحَق ساختيم و لام الفعل را ساكن كرديم "۔ اب ہم نے کیا کیا؟

فرماتے ہیں: ضَرَبَ اس کے ساتھ ہم نے لگانی تھی "ت "، "ت " بھی مفتوحہ (فتح کہتے ہیں زبر کو)۔ یعنی یہ بن جائے گا ضَرَ بَ تَ۔ تو ہم نے پہلے  بیان کیا تھا کہ چار حرکتیں ایک جیسی مسلسل پڑھنی عربی زبان میں ذرا مشکل ہوتا ہے، تو ہم نے جو ـ"ب " کی حرکت ہے اس کو ختم کر دیا، تو جب ختم کریں گے تو یہ بن جائے گا ضَرَبْتَ۔ چونکہ"ب"  لام الفعل تھی، اس کی حرکت کو ہم نے ساکن کر دیا، یہ بن گیا ضَرَبْتَ بر وزن فَعَلْتَ۔

اجزاء:

  • ض: فاء الفعل
  • ر: عین الفعل
  • ب: لام الفعل
  • ت: مفرد مذکر مخاطب کی علامت ہے ، فاعل کی ضمیر بھی ہے اور ضَرَبْتَ میں جو ضمیر منفصل ہے وہ بنے گی "اَنْتَ" ۔ ان شاءاللہ یہ پڑھیں گے۔
8

صیغۂ تثنیہ مذکر مخاطب (ضَرَبْتُمَا)

۲. صیغۂ تثنیہ مذکر مخاطب (ضَرَبْتُمَا)

اب فرماتے ہیں آگے ہے ضَرَبْتُمَا، یعنی اگر وہ ایک بندہ نہیں، اگر وہ دو آدمی ہیں جنہوں نے وہ کام، جو زمانہ گزشتہ میں مارا تھا۔اور ہم ان دو سامنے کھڑے ہیں اور ہم ان کو کہنا چاہتے ہیں، تو اس کے لیے ہمیں صیغہ تبدیل کرنا ہوگا، ہم یوں کہیں گے: ضَرَبْتُمَا، یعنی تم دو مردوں نے زمانہ گزشتہ میں مارا۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ ضَرَبْتُمَا بنتا کیسے ہے۔ فرماتے ہیں:

اشتقاق (بننے کا طریقہ):

ضَرَبْتُمَا در اصل ضَرَبْتَ بود۔ ضَرَبْتُمَا ضَرَبْتَ سے بنا ہے، چونکہ ضَرَبْتَ "تو ایک مرد نے  مارا" اور یہ بندے، وہ ایک نہیں تھے بلکہ دو تھے، ہم نے کہا ضَرَبْتُمَا یعنی تم دو مردوں نے زمانہ گزشتہ میں مارا ۔ تو پس ضَرَبْتُمَا اصل میں ضَرَبْتَ تھا۔ "خواستیم کہ تثنیہ بنا کنیم"۔ اب ہم چاہتے تھے، وہ مرد ایک نہیں بلکہ وہ تو دو   تھے۔ اب یا تو ہم دو دفعہ کہتے ضَرَبْتَ، ضَرَبْتَ، تو یہ ذرا مشکل تھی۔

اب ہم نے کیا کیا؟ "زائد بر یکے را حذف کردیم"۔ ہم نے ایک ضَرَبْتَ کو باقی رکھا اور دوسرے کو حذف کر دیا۔ "عوض از محذوف" اور دوسرے کی بجائے، اور ضَرَبْتَ کی اس کے بدلے میں "الف کہ علامت تثنیہ بود"۔ ہم نے پیچھے بھی کہا تھا کہ الف علامتِ تثنیہ ہے، وہ اس کے آخر میں لائے، ضَرَبْتَ کے آخر میں ہم لائے الف تثنیہ، یعنی ضَرَبْتَا، لمبا کر کے۔

"الفِ تثنیہ مشتبہ شد بہ الفِ اشباع"۔ اب جب ہم کہتے ہیں ضَرَبْتَا، ایک اور الف بھی ہوتی ہے جس کو

 "الفِ اشباع" کہتے ہیں، فی الحال ہم آپ کو مشکل بحث میں نہیں لے جانا چاہتے ... چونکہ آپ ابھی ابتدائی کلاس میں ہیں، وہ ایک اور الف ہوتی ہے، وہ ان شاءاللہ آگے بتائیں گے۔ کہ اب اگر ہم کوئی تبدیلی اس میں نہ کرتے، تو عام بندہ سمجھ نہ سکتا کہ آیا یہ تثنیہ کا صیغہ ہے، یہ الف الفِ تثنیہ ہے یا الف الفِ اشباع ہے۔ تو ان، چونکہ الف کی دو قسم ہوتی ہیں، تثنیہ  اور اشباع والی دونوں اسی طرح آخر میں لگتی ہے، تو اب اس تثنیہ والی الف کو واضح کرنے کے لیے کہ یہ تثنیہ والی ہے، وہ والی نہیں ہے، ہم نے اس میں کچھ اور تبدیلی کی۔مثال کے طور پر

تَحَكَّمْ يا إِلٰهى كَيْفَ شِئْتَا 

  فَإنّى قَدْ رَضِيتُ بِمَا رَضِيتَا

         اس شعر میں سمجھانا چاہتے ہیں کہ "شِئْتَا" میں الف تثنیہ کی نہیں بلکہ الف اشباع ہے"رضیتا" میں الف بھی الف اشباع ہے نہ الف تثنیہ ہے۔

"از برائے رفعِ اشتباہ میمِ فیما بین الف و تا درآوردیم"۔ اب اگر ہم اس ضَرَبْتَا کو بھی اسی طرح برقرار رکھتے تو اشتباہ ہوتا، ممکن ہے کوئی بندہ اس کو الفِ تثنیہ کی بجائے الفِ اشباع سمجھ بیٹھتا اور وہ معنی کرتا جو کہ غلط ہو جاتا۔ تو ہم نے اس سے بچانے کے لیے "الف "اور" ت" کے درمیان ایک "میم" کا اضافہ کر دیا۔

"و ماقبل میم را بہ جہتِ مناسبتِ میم" اور میم کے ماقبل کو ضمہ دے دیا اسی لیے چونکہ میم، ضمہ کے ساتھ، یعنی پیش میم کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے۔ اب یہ بن گیا ضَرَبْتُمَا۔

اجزاء:

  • ض: فاء الفعل
  • ر: عین الفعل
  • ب: لام الفعل
  • تُمَا: خالی ما نہیں پڑھنا بلکہ اس کو کہنا ہے تُمَا۔ تُمَا علامتِ تثنیہ مذکر مخاطب اور یہی  فاعل کی  ضمیر ہے اور اس کی ضمیر منفصل آئے گی "اَنْتُمَا"۔ ان شاءاللہ یہ بھی ہم آگے تفصیل سے پڑھیں گے۔
9

صیغۂ جمع مذکر مخاطب (ضَرَبْتُمْ)

۳. صیغۂ جمع مذکر مخاطب (ضَرَبْتُمْ)

اب اگر وہ مخاطب مرد، ایک نہیں، دو نہیں، بلکہ اس سے زیادہ تھے، تو اس کے لیے پھر ہمیں ضرورت ہے ایک اور صیغہ بنانے کی، جو صیغہ یہ بتائے کہ تم سب مردوں نے مارا۔ اب ضَرَبْتَ بھی اس پر دلالت نہیں کرتا، ضَرَبْتُمَا بھی نہیں کرتا، تو اس کے لیے جو صیغہ بنایا گیا وہ ہے ضَرَبْتُمْ۔ کا معنیٰ کیا ہے؟ تم سب مردوں نے زمانہ گزشتہ میں اس کو مارا۔صيغه جمع مخاطب مذكّر  فعل، فعل ماضى صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

اشتقاق (بننے کا طریقہ):

اب یہ ضَرَبْتُمْ بنا کیسے؟ تو فرماتے ہیں ضَرَبْتُمْ در اصل ضَرَبْتَ بود۔ یہ بھی ہے تو اسی ضَرَبْتَ سے (تو ایک مرد نے مارا)۔ وہ دو تھے، دو سے زائد تھے، یا تو ہم تین تھے تو تین دفعہ ضَرَبْتَ ضَرَبْتَ ضَرَبْتَ، چار تھے تو چار دفعہ، دس تھے دس دفعہ، تو یہ ذرا مشکل تھا۔ تو بہرحال ہم نے اس مشکل سے بچنے کے لیے اس میں جو تبدیلی کی، جو تصرف کیا، وہ یہ ہے۔ "ضَرَبْتُمْ در اصل ضَرَبْتَ بود"۔

ضَرَبْتَ وہ صیغہ مفرد مذکر حاضر کا تھا۔ اب ہم جمع بنانا چاہتے تھے تو یا تو ہم بار بار کہتے ضَرَبْتَ ضَرَبْتَ ضَرَبْتَ، تو یہ مشکل ہو جاتا۔ ہم نے کیا کیا؟ "زائد بر یکے را حذف کردیم"۔ ایک ضَرَبْتَ کو رکھ لیا اور اس سے باقی سب  کو حذف کر دیا۔ اب کیا کیا؟ حذف کرنے کے بعد پھر کیا کیا؟ "عوض از محذوف واؤ کہ علامت جمع بود بہ آں ملحق کردیم، ضَرَبْتَوْ شد"۔ ہم نے پیچھے کہا تھا کہ واؤ علامتِ جمع ہے۔ اب ذرا غور کرنا ہے تفصیل کے ساتھ پھر اشتباہ نہ ہو جائے۔ ضَرَبْتَ، واحد مذکر مخاطب۔ اب ہم نے اس کے آگے لگایا واو جمع کو، تو یہ بن گیا ضَرَبْتَوْ۔ چونکہ ت تھا، اس کے آگے واؤِ جمع لگ گئی تو یہ بن گیا ضَرَبْتَوْ۔

"ماقبل واو را بہ جہتِ مناسبت واو ضمہ دادیم"۔ واو کا ماقبل کیا تھا؟ ت ۔ ت پر فتح تھا، ضَرَبْتَوْ یعنی زبر تھی۔ تو ہم نے واؤ کی مناسبت سے اس ت کے فتح کو ضمہ میں، یعنی اس کی زبر کو پیش میں تبدیل کر دیا تو یہ بن گیا ضَرَبْتُوْ۔

"واو جمع مشتبہ شد بہ واو اشباع"۔ یہ واؤِ جمع، جیسے پیچھے الفِ تثنیہ کا اشتباہ ہوگیا تھا الفِ اشباع کے ساتھ، اور ہمیں پھر اس سے پہلے ایک میم کا اضافہ کرنا پڑا، یہاں بھی اس واؤ کا اشتباہ ہوگیا واؤِ اشباع کے ساتھ۔ کیوں؟ چونکہ ایک واو اور بھی ہوتی ہے کہ جو جمع کی نہیں ہوتی۔

يَا قَوْمِ قَدْ حَوْقَلْتُ أوْ دَنَوتُو

وَبَعْدَ حِيْقَالِ الرِّجَالِ مَوتُوا

اب"دَنَوتُو"اور "مَوتُوا" دونوں میں "واو " جمع کی نہیں بلکہ اشباع کیہیں

"از برائے رفعِ اشتباہ میم را بہ آں ملحق کردیم"۔ لہٰذا اب ہم نے کیا کیا؟ یہ سمجھانے کے لیے کہ ضَرَبْتُوْ میں واو، واو اشتباہ نہیں ہے، اس کے بچنے کے لیے ہم نے کیا کیا؟ "میم را بہ آں ملحق کردیم"۔ ہم نے اس کے آخر میں ایک میم لگا دی۔ جب میم لگائی تو یہ بن گیا ضَرَبْتُوْمْ۔ "و" بھی ساکن اور میم بھی ساکن۔ ان شاءاللہ آگے ہم قانون پڑھیں گے جہاں دو ساکن اکٹھے ہو جائیں تو ایک کو گرا دیا جاتا ہے۔ التقاءِ ساکنین شد۔ و اور م، دو ساکن اکٹھے ہوگئے۔ التقاءِ ساکنین شد میانِ و و م۔

"خاستیم کہ واو را حذف کنیم"۔ اب ہم نے کیا کیا کہ واؤ کو حذف کر دیا، جو علامتِ جمع تھی۔ "خاستیم کہ میم را حذف کنیم"۔ اور اگر میم کو حذف کرتے تو وہ ہمارے مقصود کے خلاف تھی۔ اب اگر واو کو حذف کرتے ہیں تو جمع والا معنی ہاتھ سے جاتا ہے اور اگر میم کو حذف کرتے ہیں تو جس مقصد کے لیے میم کو لایا گیا تھا، وہ مقصد ہمارا ختم ہو جاتا ہے، خلافِ مقصود ہے۔ اب کیا کریں؟

اب فرماتے ہیں، "چون ما یدل علی الواؤ کہ ضمہ بود"۔ اب چونکہ واو سے پہلے ہم ایک ضمہ لائے تھے اور وہ ضمہ واو پر دلالت کر رہا تھا، تو پس اس ضمہ کی موجودگی کی وجہ سے،"ت" کی جو زبر کو پیش میں تبدیل کیا تھا اور وہ پیش بتاتی تھی کہ اس کے بعد کوئی واوتھی، اس کا مطلب ہے واو کو ہم پیش کی موجودگی سے سمجھ سکتے تھے، پس ہم نے واو کو گرا دیا اور میم کو رہنے دیا، یہ بن گیا ضَرَبْتُمْ۔

اجزاء:

  • ض: فاء الفعل
  • ر: عین الفعل
  • ب: لام الفعل
  • ت اور م، تُمْ، خالی میم نہ، تُمْ، یہ علامت ہوگی جمع مذکر مخاطب کی، اور یہ فاعل کی ضمیر بھی ہوگی اور اس کی ضمیر منفصل "اَنْتُمْ" آئے گی ۔

كتاب شرح الأمثلة

بسم الله الرحمن الرحيم

قال النبيّ ( صلّى الله عليه وآله وسلّم ) : «أوّل العلم معرفة الجبّار وآخر العلم تفويض الأمر إليه».

[تعريف چند اصطلاح‏]

بدان كه هر آوازى كه بوده باشد آن را عرب صوت خواند ؛ و هرچه از دهن بيرون آيد و معتمد بر مخرج فم بوده باشد آن را لفظ خوانند. و لفظ بر دو قسم است مُهْمَل و مُسْتَعْمَل ؛ مهمل آن است كه آن را معنى نباشد چون لفظ دَيْز ، ( مقلوبَ زَيْد ) و مستعمل آن است كه آن را معنى باشد چون زَيْد و ضَرَبَ و سَوْفَ. و لفظ مستعمل را كلمه گويند و كلمه بر سه قسم است : اسم است و فعل است و حرف. و اسم بر دو قسم است : مصدر و غير مصدر ، مصدر آن است كه در آخر وى به فارسى تا و نون ، يا دال و نون باشد چون : اَلْقَتْل ( كشتن ) وَالضَّرْب ( زدن ).

و بدان كه مصدر اصل كلام است و از وى نه وجه باز مى‌گردد : ماضى ، مستقبل ، اسم فاعل ، اسم مفعول ، امر ، نهى ، جحد ، نفى و استفهام.

مَصْدَر در لغت «بازگشتنگاهِ اِبِل و غَنَم» را گويند. و در اصْطِلاح

«اَلْمَصْدَرُ ما يَصْدُرُ عَنْهُ الْفِعْلُ أو شِبْهُهُ» يعنى : مصدر چيزى است كه صادر گرديده شود از او فعل چون : ضَرَبَ وَيَضْرِبُ و نَحْوهُمَا ، يا شبه فعل چون : ضارِبٌ ومَضْرُوبٌ و نحوهما.

اصل ، در لغت بيخ چيزى را گويند ؛ و در اصطلاح «اَلْأصْلُ ما يُبْنَى عَليْهِ شَيءٌ غَيْرُهُ» يعنى : اصل چيزى است كه بنا نهاده مى شود بر او چيزى غير آن ، چون پايه ديوار كه بنا مى شود بر او ديوار.

كَلٰام در لغت ، سخن گفتن را گويند. و در اصْطِلٰاح «الْكَلامُ مَا أفادَ الْمُسْتَمِعَ فائِدَةً تَامَّةً يَصِحُّ السُكُوتُ عَلَيْها» يعنى : كلام چيزى است كه فايده بدهد شنونده را فائده تامّى كه صحيح باشد سكوت بر او چون : زَيْدٌ قَائِمٌ ، يعنى زيد ايستاده است.

ماضى در لغت ، گذشته را گويند. و در اصطلاح «اَلْماضِى مَا مَضَىٰ وَقْتُهُ وَلَزِمَ أجَلُهُ» يعنى : ماضى چيزى است كه گذشته باشد وقت او و بسر آمده باشد اَجَل او مثل : ضَرَبَ ، يعنى بزد يك مرد.

مُسْتَقْبِل در لغت ، آينده را گويند. و در اصطلاح «الْمُسْتَقْبِلُ ما يُنْتَظَرُ وُقُوعُهُ وَلَمْ يَقَعْ» يعنى : مستقبل در اصطلاح چيزى است كه انتظار كشيده شود واقع شدن آن و هنوز واقع نشده باشد مثل : يضرب ، يعنى مى زند يك مرد.

اِسْمِ فاعِل در لغت ، كننده را گويند ، و در اصطلاح الْفَاعِلُ مَا صَدَرَ عَنْهُ الْفِعْلُ» يعنى : فاعل چيزى است كه صادر شود از او فعل

چون ضَارِبٌ ، يعنى اوست يك مرد زننده.

اِسْمِ مَفْعُول در لغت ، كرده شده را گويند ، و در اصطلاح «اَلْمَفْعُولُ مَا وَقَعَ عَلَيْهِ الْفِعْلُ» يعنى : مفعول چيزى است كه واقع بشود بر او فعل ، چون : مَضْرُوبٌ ، يعنى يك مرد زده شده.

اَمْر در لغت ، فرمودن را گويند. و در اصطلاح «اَلْأمْرُ طَلَبُ الْفِعْلِ مِمَّنْ هُوَ دُونَهُ عَلى سَبيلِ الاسْتِعْلاءِ» يعنى : امر طلب نمودن فعل است از كسى كه پست‌تر است از او بر سبيل طلب بلندى ، چون : اِضْرِبْ ، يعنى بزن تو يك مرد حاضر.

نَهى در لغت ، بازداشتن را گويند. و در اصْطِلٰاح «اَلنَهْىُ طَلَبُ تَرْكِ الْفِعلِ مِمَّنْ هُوَ دُونَهُ عَلىٰ سَبيلِ الْاسْتِعْلاءِ» يعنى : نهى طلب نمودنِ تركِ فعل است از كسى كه پست‌تر است از او بر سبيل طلب بلندى ، چون : لَا يَضْرِبْ ، يعنى بايد نزند آن يك مرد غايب.

جَحْد در لغت ، انكار كردن را گويند. و در اصطلاح «اَلْجَحْدُ هُوَ الْاِخْبَارُ بِعَدَمِ وُقُوعِ الْفِعْلِ فِى الزَمانِ الْمَاضِى بِلَفْظِ الْمُسْتَقْبِل» يعنى : جحد خبر دادنِ بواقع نشدن فعل است در زمان ماضى بلفظ مستقبِل ، چون : لَمْ يَضْرِبْ ، يعنى نزده است يك مرد غايب.

نفى در لغت ، برطرف كردن و نيست كردن را گويند. و در اصطلاح «النَفْىُ هُوَ الْإخْبَارُ بعَدَمِ وُقُوع الْفِعْلِ فِى الزَمانِ الْمُسْتَقْبِل بِلَفْظِ

الْمُسْتَقْبِلِ» يعنى نفى خبر دادن بواقع نشدن فعل است در زمان مستقبل بلفظ مستقبل ، چون : لَا يَضْرِبُ يعنى نمى زند او.

إسْتِفْهام در لغت ، طلب فهم كردن را گويند. و در إِصْطِلاح «اَلْاسْتِفْهَامُ هُوَ طَلَبُ الْمُتَكَلِّمِ مِنْ الْمُخَاطَبِ فَهْمَ الْفِعْلِ» يعنى : استفهام ، طلب كردن متكلم است از مخاطب ، فهميدنِ فعل را چون : هَلْ يَضْرِبُ ، يعنى آيا مى زند او ؟

[ ماضى ]

و از ماضى چهارده وجه باز مى‌گردد : شش مغايب را بود ، و شش مخاطب را ، و دو حكايت نفس متكلّم را.

آن شش كه مغايب را بود : سه مذكّر را بود و سه مؤنّث را.

آن سه كه مذكّر را بود : ضَرَبَ ، ضَرَبٰا ، ضَرَبُوا.

ضَرَبَ : يعنى زد او يك مرد غايب در زمان گذشته. صيغه مفرد مذكّر غايب است از فعل ماضى صحيح و ثُلاثى و مُجَرَّد و معلوم.

ضَرَبَ در اصل الضَّرْب بود ( مصدر بود ) خواستيم كه فعل بنا كنيم ، الف و لام مصدرى را از اولش انداختيم و راء و باء را فتحه داديم ضَرَبَ شد بر وزن فَعَلَ. ضاد ، فاء الفعل ، راء ، عين الفعل ، باء ، لام الفعل. ضمير هو در او مستتر است به استتار جايزى ، محلّاً مرفوع است تا فاعلش بوده باشد.

ضَرَبَا : يعنى بزدند ايشان دو مرد غايب در زمان گذشته. صيغه تثنيه مذكّر غايب است از فعل ماضى صحيح و ثلاثى و مجرّد و معلوم.

ضَرَبَا در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد بود ) خواستيم تثنيه بنا كنيم ، چون به تثنيه رسيديم دو بار مى بايست گفت ضَرَبَ ضَرَبَ ، زايد بر يكى را حذف نموديم عوض از محذوف ، الف كه علامت تثنيه بود در آخرش درآورديم ، ضَرَبَا شد بر وزن فَعَلَا. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، الف ، علامتِ تثنيه و هم ضمير فاعل ، و ضمير منفصلش ، هُمَاست.

ضَرَبُوا : يعنى بزدند ايشان گروه مردان غايب در زمان گذشته. صيغه جمع مذكّر مغايب است از فعل ماضى صحيح و ثلاثى و مجرّد و معلوم.

ضَرَبُوا در اصل ضَرَبَ بود ( واحد بود ) خواستيم جمع بنا كنيم ؛ چون به جمع رسيديم سه بار يا بيشتر مى بايست گفت ضَرَبَ ضَرَبَ ضَرَبَ ، زايد بر يكى را حذف كرديم ، عوض از محذوف ، واو كه علامت جمع بود در آخرش درآورديم ضَرَبَوا شد ، فتحه لام الفعل را به مناسبت واو بَدَلَ به ضَمَّه نموديم ضَرَبُوا شد بر وزن فَعَلُوا. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، واو علامت جمع مذكّر وهَمْ ضمير فاعل است و ضمير منفصلش ، هُمْ است.

* * *

و آن سه كه مؤنّث را بود : ضَرَبَتْ ، ضَرَبَتَا ، ضَرَبْنَ.

ضَرَبَتْ : يعنى بزد او يك زن غائبة در زمان گذشته. صيغه واحده

غائبه مؤنّث است از فعل ماضى صحيح و ثلاثى و مجرد ومعلوم.

ضَرَبَتْ در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد مذكّر غايب بود ) خواستيم مفرده مغايبه مؤنّث بنا كنيم ، تاى ساكنه كه علامت مؤنّث بود در آخرش درآورديم ضَرَبَتْ شد بر وزن فَعَلَتْ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، تاى ساكنه علامت واحده مؤنّث ، و ضمير هِىَ در او مستتر است به استتار جايزى ، محلّاً مرفوع است تا فاعلش بوده باشد.

ضَرَبَتَا : يعنى بزدند ايشان دو زنان غائبه در زمان گذشته. صيغه تثنيه مؤنّث غايبه است از فعل ماضى ، صحيح و ثلاثى و مجرّد و معلوم.

ضَرَبَتَا ، در اصل ضَرَبَتْ بود ( مفرد بود ) خواستيم كه تثنيه بنا كنيم چون به تثنيه رسيديم دو بار مى بايست گفت ضَرَبَتْ ضَرَبَتْ ، زايد بر يكى را حذف كرديم ، عوض از محذوف ، الف كه علامت تثنيه بود در آخرش درآورديم ضَرَبَتَا شد بر وزن فَعَلَتا. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، الف ، علامت تثنيه و هَم ضمير فاعل است و ضمير منفصلش ، هُمَاست.

ضَرَبْنَ : يعنى بزدند ايشان گروه زنان غائبه در زمان گذشته. صيغه جمع مؤنّث غايبه است از فعل ماضى صحيح و ثلاثى و مجرّد و معلوم.

ضَرَبْنَ در اصل ضَرَبَتْ بود ( مفرد بود ) خواستيم جمع بنا كنيم ، چون به جمع رسيديم ديديم سه بار مى بايست گفت ضَرَبَتْ ضَرَبَتْ ضَرَبَتْ ، زايد بر يكى را حذف كرديم ، عوض از محذوف ، نون كه علامت جمع مؤنّث بود در آخرش درآورديم ضَرَبَتْنَ شد ، تاء دلالت

مى‌كرد بر تأنيث ، نون دلالت مى‌كرد هم بر جمع و هم بر تأنيث ، با وجود نون از تاء مستغنى شديم و تاء را حذف كرديم ضَرَبَنَ شد ، توالىِ اربع حركات شد و آن در كلام عرب سنگين بود لهذا باء را ساكن كرديم ضَرَبْنَ شد بر وزن فَعَلْنَ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، نون علامت جمع مؤنّث و هم ضمير فاعل و ضمير منفصلش ، هُنَّ است.

* * *

و آن شش كه مخاطب را بود : سه مذكّر را بود و سه مؤنّث را.

آن سه كه مذكّر را بود : ضَرَبْتَ ، ضَرَبْتُما ، ضَرَبْتُمْ.

ضَرَبْتَ : يعنى بزدى تو يك مرد حاضر در زمان گذشته ، صيغه مفرد مذكّر حاضر است از فعل ماضى صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

ضَرَبْتَ در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد مذكّر مغايب بود ) خواستيم مفرد مخاطب مذكّر بنا كنيم ، تاىِ مفتوحه كه علامت مفرد مخاطب بود به او مُلْحَق ساختيم و لام الفعل را ساكن كرديم ، ضَرَبْتَ شد بر وزن فَعَلْتَ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، و تاء علامت مفرد مذكّر مخاطب و هم ضمير فاعل و ضمير منفصلش ، اَنْتَ است.

ضَرَبْتُما : يعنى بزديد شما دو مردان حاضر در زمان گذشته. صيغه تثنيه مذكّر حاضر است از فعل ماضى صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

ضَرَبْتُمَا در اصل ضَرَبْتَ بود ، ( واحد بود ) خواستيم كه تثنيه بنا كنيم ، چون به تثنيه رسيديم دو بار مى بايست گفت ضَرَبْتَ ضَرَبْتَ ، زايد بر يكى را حذف كرديم ، عوض از محذوف ، الف كه علامت

تثنيه بود در آخرش درآورديم ضَرَبْتَا شد. الف تثنيه مشتبه شد به الف إشْباع در آنجا كه شاعر شِئْتَ را شئتا خوانده مثل :

تَحَكَّمْ يا إِلٰهى كَيْفَ شِئْتَا

فَإنّى قَدْ رَضِيتُ بِمَا رَضِيتَا

يعنى : حكم بفرما اى پروردگار من به هر قسمى كه اراده و خواهش تو است به سبب اينكه به تحقيق راضيم به آنچه كه رضاى تو است.

از براى رفع اشتباه ، ميمى فيما بين الف و تاء درآورديم و ما قبل ميم را به جهت مناسبتِ ميم ضمّه داديم ، ضَرَبْتُمَا شد بر وزن فَعَلْتُمَا. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، وتُمَا علامتِ تثنيه مخاطب مذكّر و هَم ضمير فاعل ، و ضمير منفصلش ، اَنْتُماست.

ضَرَبْتُمْ : يعنى بزديد شما گروه مردان حاضر در زمان گذشته. صيغه جمع مخاطب مذكّر است از فعل ماضى صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

ضَرَبْتُمْ در اصل ضَرَبْتَ بود ( مفرد بود ) خواستيم جمع بنا كنيم ، چون به جمع رسيديم سه بار يا بيشتر مى بايست گفت ضَرَبْتَ ضَرَبْتَ ضَرَبْتَ ، زايد بر يكى را حذف كرديم عوض از محذوف ، واو كه علامت جمع بود به او ملحق كرديم ضَرَبْتَوا شد ، و ماقبل واو را به جهت مناسبت با واو ضمّه داديم ضَرَبْتُوا شد. واو جمع مشتبه شد به واو اِشباع ، در آنجا كه شاعر در شعر خود دَنَوْتُ را دَنَوتُو خوانده مثل :

يَا قَوْمِ قَدْ حَوْقَلْتُ أوْ دَنَوتُو

وَبَعْدَ حِيْقَالِ الرِّجَالِ مَوتُوا

يعنى : اى قوم من ، به تحقيق كه پير شدم يا نزديك است كه پير شوم و بعد از پير شدن مردمان مرگ است.

لهذا از براى رفع اشتباه ، ميمى را به او ملحق كرديم ضَرَبْتُوْم شد. التقاىِ ساكنَيْن شد ميان واو وميم ، خواستيم كه واو را حذف كنيم ، علامت جمع بود ، خواستيم كه ميم را حذف كنيم ، خلاف مقصود حاصل مى شد. چون مايَدُلُّ على الواو كه ضمّه باشد در كلام بود ، لهذا واو را حذف كرديم ، ضَرَبْتُمْ شد بر وزن فَعَلْتُمْ ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، و تاء و ميم علامت جمع مذكّر مخاطب و هم ضمير فاعل است. و ضمير منفصلش ، اَنْتُمْ است.

* * *

وآن سه كه مؤنّث را بود : ضَرَبْتِ ، ضَرَبْتُما ، ضَرَبْتُنَّ.

ضَرَبْتِ : يعنى زدى تو يك زن حاضره در زمان گذشته. صيغه مفرده مؤنّث حاضره است از فعل ماضى ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

ضَرَبْتِ در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد مذكّر غايب بود ) خواستيم مفرده مؤنّث حاضره بنا كنيم ، تاىِ مكسوره را كه علامت مفرده حاضره مؤنّث بود در آخرش درآورديم و ماقبل تاء را به جهت شدّتِ اِتّصال ضمير به فعل ، ساكن كرديم ضَرَبْتِ شد بر وزن فَعَلْتِ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل و تاىِ مكسوره علامت مفرده مخاطبه مؤنّث و هم ضمير فاعل است و ضمير منفصلش اَنْتِ است.

ضَرَبْتُما : يعنى بزديد شما دو زنان حاضره در زمان گذشته. صيغه تثنيه مؤنث حاضره است از فعل ماضى صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

ضَرَبْتُما در اصل ضَرَبْتِ بود ( مفرد بود ) خواستيم تثنيه بنا كنيم

چون به تثنيه رسيديم دو بار مى بايست گفت ضَرَبْتِ ضَرَبْتِ ، زايد بر يكى را حذف كرديم و عوض از محذوف ، الف كه علامت تثنيه بود در آخرش درآورديم و ماقبل الف را فتحه داديم ضَرَبْتا شد ، الف تثنيه مشتبه شد به الف اشباع ، در آنجا كه شاعر در شعر خود شِئْتَ را شِئْتا خوانده مثل :

تَحَكَّمْ يا اِلٰهى كَيْفَ شِئْتا

فاِنّى قَدْ رَضيتُ بِما رَضيتا

از براى رفع اشتباه ميمى فيما بين تاء و الف درآورديم و ماقبل ميم را ضمّه داديم ضَرَبْتُما شد بر وزن فَعَلْتُما. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، وتُما نشانه تثنيه مخاطبه مؤنّث است و هم ضمير فاعل و ضمير منفصلش اَنْتُماست.

ضَرَبْتُنَّ : يعنى بزديد شما گروه زنان حاضره در زمان گذشته. صيغه جمع مخاطبه مؤنّث است از فعل ماضى صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

ضَرَبْتُنَّ در اصل ضَرَبْتِ بود ( مفرد بود ) خواستيم جمع بنا كنيم چون به جمع رسيديم سه بار يا زيادتر مى بايست گفت ضَرَبْتِ ضَرَبْتِ ضَرَبْتِ ، زايد بر يكى را حذف كرديم عوض از محذوف ، نون كه علامت جمع مخاطبه مؤنّث بود در آخرش درآورديم ضَرَبْتِنَ شد. چون در جمع مذكّر مخاطب كه اصل بود ميم در آورديم در اين جمع مؤنّث كه فرع است نيز ميم درآورديم تا فرع مطابق اصل گردد ضَرَبْتِمْنَ شد. ماقبل ميم را از براى مناسبت ميم ضمه داديم ضَرَبْتُمْنَ شد. ميم و نون قريب المَخْرَج بودند ، ميم را قلب به نون و نون را در نون ادغام كرديم ضَرَبْتُنَّ شد بر وزن فَعَلْتُنَّ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام

الفعل وتُنَّ علامت جمع مخاطبه مؤنّث و هم ضمير فاعل است و ضمير منفصلش اَنْتُنَّ است.

* * *

و آن دو كه حكايت نفس متكلّم را بود : ضَرَبْتُ ، ضَرَبْنا.

ضَرَبْتُ : يعنى بزدم من يك مرد يا يك زن در زمان گذشته. صيغه متكلّم وحده است از فعل ماضى صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

ضَرَبْتُ در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد مذكّر غايب بود ) خواستيم متكلّم وحده بنا كنيم ، تاء مضمومه كه علامت متكلّم وحده بود در آخرش درآورديم و لام الفعل را از براى شدّت اتّصال ضمير به فعل ، ساكن كرديم ضَرَبْتُ شد بر وزن فَعَلْتُ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، و تاى مضمومه علامت متكلّم وحده و هم ضمير فاعل است و ضمير منفصلش ، اَنَا است.

ضَرَبْنَا : يعنى بزديم ما دو مردان يا دو زنان يا گروه مردان يا گروه زنان در زمان گذشته. صيغه متكلّم مع الغير است از فعل ماضى صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

ضَرَبْنَا در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد مغايب مذكّر بود ) خواستيم متكلّم مع الغير بنا كنيم «نا» كه علامت متكلّم مع الغير و هم ضمير فاعل بود ، در آخرش در آورديم و لام الفعل را از براى شدّت اِتّصال ضمير به فعل ، ساكن كرديم ضَرَبْنَا شد بر وزن فَعَلْنَا ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، نَا علامت متكلّم مع الغير و هم ضمير فاعل است و ضمير منفصلش ، نَحْنُ است.

[ مستقبل ]

و از مستقبل نيز چهارده وجه باز مى‌گردد : شش مغايب را بود و شش مخاطب را و دو حكايت نفس متكلّم را.

آن شش كه مغايب را بود : سه مذكّر را بود و سه مؤنّث را.

آن سه كه مذكّر را بود : يَضْرِبُ ، يَضْرِبَانِ ، يَضْرِبُونَ.

يَضْرِبُ : يعنى مى زند او يك مرد غايب در زمان آينده. صيغه مفرد مذكّر غايب است از فعل مستقبل صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

يَضْرِبُ در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد مذكّر غايب بود از فعل ماضى ) خواستيم مفرد مذكّر غايب بنا نمائيم از فعل مضارع ، ياء كه علامت و حرف استقبال بود در اولش درآورديم ، فاء الفعل را ساكن و عين الفعل را مكسور و لام الفعل را مضموم كرديم يَضْرِبُ شد بر وزن يَفْعِلُ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل و ياء علامت غيبت و حرف استقبال است و ضمير هُوَ در او مستتر است به استتار جايزى ، محلّاً مرفوع است تا فاعلش بوده باشد.

يَضْرِبَانِ : يعنى مى زنند ايشان دو مردان غايب در زمان آينده ، صيغه تثنيه مذكّر غايب است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

يَضْرِبَانِ در اصل يَضْرِبُ بود ( مفرد بود ) خواستيم تثنيه بنا كنيم ، الف كه علامت تثنيه و ضمير فاعل بود با نون عوض رفع در آخرش در

آورديم ، يَضْرِبَانِ شد بر وزن يَفْعِلانِ. ياء ، حرف استقبال ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، و الف علامت تثنيه و هم ضمير فاعل و ضمير منفصلش ، هُماست ، و نون عوض رفعى است كه در واحد بوده.

يَضْرِبُونَ : يعنى مى زنند ايشان گروه مردان غايب در زمان آينده. صيغه جمع مذكّر غايب است از فعل مستقبل ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

يَضْرِبُونَ در اصل يَضْرِبُ بود ( مفرد بود ) خواستيم كه جمع مذكّر غايب بنا كنيم ، واو كه علامت جمع مذكّر و هم ضمير فاعل بود با نون عوض رفع در آخرش درآورديم ، يَضْرِبُونَ شد بر وزن يَفْعِلُونَ. ياء ، حرف استقبال ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، واو علامت جمع مذكّر و هم ضمير فاعل است و ضمير منفصلش ، هُمْ است ، و نون عوض رفعى است كه در واحد بوده.

* * *

و آن سه كه مؤنّث را بود : تَضْرِبُ ، تَضْرِبَان ، يَضْرِبْنَ.

تَضْرِبُ : يعنى مى زند او يك زن غايبه در زمان آينده. صيغه مفرده غايبه مؤنّث است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

تَضْرِبُ در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد مذكّر بود از فعل ماضى ) خواستيم مفرده مؤنّث بنا كنيم از فعل مضارع ، تاء كه علامت استقبال بود در اولش درآورديم ، و فاء الفعل را ساكن و عين الفعل را مكسور ولام الفعل را مضموم كرديم ، تَضْرِبُ شد بر وزن تَفْعِلُ. ضاد فاء الفعل ، راء

عين الفعل ، باء لام الفعل ، وضمير هِىَ در وَىْ مُسْتَتِر است به استتار جايزى ، محلّاً مرفوع است تا فاعلش بوده باشد.

تَضْرِبَانِ : يعنى مى زنند ايشان دو زنان غايبه در زمان آينده. صيغه تثنيه مؤنّث غايبه است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

تَضْرِبَانِ در اصل تَضْرِبُ بود ( واحده مغايبه مؤنّث بود ) خواستيم تثنيه بنا كنيم ، الف كه علامت تثنيه و هم ضمير فاعل بود با نون عوض رفع در آخرش درآورديم تَضْرِبَانِ شد بر وزن تَفْعِلَانِ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، و الف علامت تثنيه و هم ضمير فاعل و نون عوض رفعى است كه در واحد بوده. و ضمير منفصلش ، هُماست.

يَضْرِبْنَ : يعنى مى زنند ايشان گروه زنان غايبه در زمان آينده. صيغه جمع مؤنّث غايبه است از فعل مستقبل ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

يَضْرِبْنَ در اصل تَضْرِبُ بود ( مفرد بود ) خواستيم كه جمع مغايبه مؤنّث بنا كنيم ، نون كه علامت جمع مؤنّث و هم ضمير فاعل بود در آخرش درآورديم و لام الفعل را ساكن كرديم تَضْرِبْنَ شد ، مشتبه شد به جمع مخاطبه مؤنّث ، از جهت رفع اشتباه و مناسبت ياء با غايب ، تاء را بدل كرديم بياء يَضْرِبْنَ شد بر وزن يَفْعِلْنَ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، نون ، علامت جمع مؤنّث و هم ضمير فاعل و ضمير منفصلش ، هُنَّ است.

* * *

و آن شش كه مخاطب را بود : سه مذكّر را بود و سه مؤنّث را. آن سه كه مذكّر را بود : تَضْرِبُ ، تَضْرِبَانِ ، تَضْرِبُونَ.

تَضْرِبُ : يعنى مى زنى تو يك مرد حاضر در زمان آينده. صيغه واحد مذكّر مخاطب است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

تَضْرِبُ در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد مذكّر مغايب بود از فعل ماضى ) خواستيم مفرد مذكّر مخاطب بنا كنيم از فعل مستقبل ، تاء كه علامت استقبال بود در اولش درآورديم ، و فاء الفعل را ساكن و عين الفعل را مكسور و لام الفعل را مضموم كرديم تَضْرِبُ شد بر وزن تَفْعِلُ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، و ضمير منفصلش اَنْتَ است كه در وى مستتر است به استتار واجبى ، محلّاً مرفوع است تا فاعلش بوده باشد.

تَضْرِبَانِ : يعنى مى زنيد شما دو مردان حاضر در زمان آينده. صيغه تثنيه مذكّر حاضر است از فعل مضارع صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

تَضْرِبَانِ در اصل تَضْرِبُ بود ( مفرد بود ) خواستيم تثنيه بنا كنيم ، الف كه علامت تثنيه و هم ضمير فاعل بود با نون عوض رفع در آخرش درآورديم تَضْرِبانِ شد بر وزن تَفْعِلانِ ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، و الف علامت تثنيه و هَم ضمير فاعل و نون عوض رفعى است كه در واحد بوده ، و ضمير منفصلش اَنْتُماست.

تَضْرِبُونَ : يعنى مى زنيد شما گروه مردان حاضر در زمان آينده. صيغه جمع مذكّر مخاطب است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

تَضْرِبُونَ در اصل تَضْرِبُ بود ( واحد بود ) خواستيم كه جمع بنا كنيم واو كه علامت جمع مذكّر و ضمير فاعل بود با نون عوض رفع در آخرش درآورديم تَضْرِبُونَ شد بر وزن تَفْعِلُونَ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، واو علامت جمع و هم ضمير فاعل ، و نون عوض رفعى است كه در واحد بوده. و ضمير منفصلش ، اَنْتُمْ است.

* * *

وآن سه كه مؤنّث را بود : تَضْرِبِينَ ، تَضْرِبَانِ ، تَضْرِبْنَ.

تَضْرِبِينَ : يعنى مى زنى تو يك زن حاضره در زمان آينده ، صيغه واحده مخاطبه مؤنّث است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

تَضْرِبِينَ در اصل تَضْرِبُ بود ( واحد مذكّر مخاطب بود ) خواستيم مفرده مخاطبه مؤنّث بنا كنيم ، ياى ساكنه كه علامت واحده مخاطبه مؤنّث بود با نون عوض رفع در آخرش درآورديم و ماقبل ياء را از براى مناسبت ياء ، كسره داديم تَضْرِبِينَ شد بر وزن تَفْعِلِينَ ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل و ياى ساكنه علامت مخاطبه مؤنّث و هم ضمير فاعل ، و نون ، عوض رفع واحد ، و ضمير منفصلش ، اَنْتِ است.

تَضْرِبَانِ : يعنى مى زنيد شما دو زن حاضره در زمان آينده. صيغه تثنيه مخاطبه مؤنّث است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

تَضْرِبَانِ در اصل تَضْرِبِينَ بود ( مفرد بود ) خواستيم تثنيه بنا كنيم ،

الف كه علامت تثنيه و ضمير فاعل است ، قبل از ياء درآورديم ، التقاى ساكنين شد ميان ياء والف ، ياء به التقاى ساكنين بيفتاد تَضْرِبَانَ شد ، فتحه نون را بدل به كسره كرديم تَضْرِبَانِ شد بر وزن تَفْعِلانِ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، و ضمير منفصلش اَنْتُماست.

تَضْرِبْنَ : يعنى مى زنيد شما گروه زنان حاضره در زمان آينده. صيغه جمع مؤنّث حاضره است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

تَضْرِبْنَ در اصل تَضْرِبِينَ بود ( واحد بود ) خواستيم جمع بنا كنيم ، نون كه علامت جمع مؤنّث و ضمير فاعل بود در آخرش درآورديم تَضْرِبينَنَ شد ، اجتماع نُونَيْن شد نون اوّل ، نون اعراب و نون ثانى ، نون بنا ، اجتماع اعراب و بنا در كلمه واحده جايز نبود ، لهذا نون اعرابى را حذف كرديم تَضْرِبِينَ شد ، مشتبه شد به مفرد خودش از براى رفع اشتباه ، ياء را حذف كرديم و لام الفعل را ساكن كرديم تَضْرِبْنَ شد بر وزن تَفْعِلْنَ ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل. نون علامت جمع مؤنّث و هَم ضمير فاعل است ، و ضمير منفصلش ، اَنْتُنَّ است.

* * *

و آن دو كه حكايت نفس متكلّم را بود : اَضْرِبُ ، نَضْرِبُ.

أضْرِبُ : يعنى مى زنم من يك مرد يا يك زن در زمان آينده. صيغه متكلّم وحده است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرّد و معلوم.

اَضْرِبُ در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد مذكّر غايب بود از فعل ماضى ) خواستيم متكلّم وحده بنا كنيم از فعل مستقبل ، همزه مفتوحه كه حرف استقبال و علامت متكلّم وحده بود در اولش درآورديم و فاء الفعل را ساكن وعين الفعل را مكسور و لام الفعل را مضموم كرديم ، اَضْرِبُ شد بر وزن اَفْعِلُ ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، و ضمير منفصلش ، اَنَا است كه در وى مستتر است به استتار واجبى ، محلّاً مرفوع است تا فاعلش بوده باشد.

نَضْرِبُ : يعنى مى زنيم ما دو مردان يا دو زنان يا گروه مردان يا گروه زنان در زمان آينده. صيغه متكلّم مع الغير است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرّد و معلوم.

نَضْرِبُ در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد مذكّر غايب بود از فعل ماضى ) خواستيم كه متكلّم مع الغير بنا كنيم از فعل مضارع ، نون كه علامت استقبال و متكلّم مع الغير بود در اولش درآورديم و فاء الفعل را ساكن و عين الفعل را كسره ولام الفعل را ضمه داديم نَضْرِبُ شد بر وزن نَفْعِلُ. نون ، حرف استقبال و علامت متكلّم مع الغير و ضاد ، فاء الفعل راء ، عين الفعل باء ، لام الفعل و نَحْنُ در او مستتر است به استتار واجبى ، محلّاً مرفوع است تا فاعلش بوده باشد.

[ اسم فاعل ]

و از اسم فاعل شش وجه بازمى‌گردد : سه مذكّر را بود و سه مؤنّث را.

آن سه كه مذكّر را بود : ضَارِبٌ ، ضَارِبانِ ، ضَارِبُونَ.

ضارِبٌ : يعنى يك مرد زننده. صيغه مفرد مذكّر است از اسم فاعل.

ضارِبٌ در اصل يَضْرِبُ بود ( مفرد مذكّر غايب بود از فعل مضارع ) خواستيم مفرد مذكّر بنا كنيم از اسم فاعل ، ياء كه حرف استقبال بود از اولش انداختيم و الف كه علامت اسم فاعل بود در ميانه فاء الفعل و عين الفعل درآورديم و تنوين كه از خواصِّ اسم بود به او ملحق نموديم ، ضارِبٌ شد. و آن [ ضاربٌ ] يك لفظ است بجاى سه معنى چنان كه گويى : هُوَ ضارِبٌ يعنى اوست يك مرد زننده ، و اَنَا ضارِبٌ يعنى منم يك مرد زننده ، و اَنْتَ ضارِبٌ يعنى تويى يك مرد زننده.

وضارِبٌ بر وزن فاعِلٌ ، ضاد فاء الفعل ، الف علامت اسم فاعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل و تنوين علامت اسم فاعل ، ضمير هُوَ يا اَنَا يا اَنْتَ در او مستتر است به استتار جايزى ، محلّاً مرفوع است تا فاعلش بوده باشد.

ضَارِبَانِ : يعنى دو مردان زننده. صيغه تثنيه مذكّر است از اسم فاعل.

در اصل ضارِبٌ بود ( مفرد بود ) خواستيم كه تثنيه بنا كنيم ، چون به تثنيه رسيديم دو بار مى بايست گفت ضارِبٌ ضارِبٌ ، زايد بر يكى را حذف كرديم وعوض از محذوف ، الف كه علامت تثنيه بود با نون عوض تنوين در آخرش درآورديم ضارِبانِ شد بر وزن فاعِلانِ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، الفِ اوّل علامت اسم فاعل ، الفِ دوم علامت تثنيه ، نون ، عوض تنوين ، ضمير هُما يا اَنْتُما يا

نَحْنُ در او مستتر است به استتار جايزى ، محلّاً مرفوع است تا فاعلش بوده باشد.

واو [ ضاربان ] يك لفظ است به جاى سه معنى ، چنانكه گويى : هُما ضارِبانِ يعنى ايشانند دو مردان زننده ، و اَنْتُمَا ضَارِبَانِ يعنى شماييد دو مردانِ زننده ، ونَحْنُ ضارِبانِ يعنى ماييم دو مردانِ زننده.

ضَارِبُونَ : يعنى گروه مردان زننده. صيغه جمع مذكّر است از اسم فاعل ، صحيح و مجرّد و معلوم.

ضارِبُونَ در اصل ضارب بود ( مفرد بود ) خواستيم كه جمع بنا كنيم چون به جمع رسيديم ديديم سه بار يا زيادتر مى بايست گفت ضَارِبٌ ضَارِبٌ ضَارِبٌ ، زايد بر يكى را حذف كرديم و عوض از محذوف ، واو كه علامت جمع بود با نون عوض تنوين در آخرش درآورديم ضَارِبُونَ شد بر وزن فَاعِلُونَ. ضاد فاء الفعل ، الف علامت اسم فاعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، واو علامت جمع ، نون عوض تنوين.

و ضارِبُونَ نيز يك لفظ است از براى سه معنى چنانكه گويى : هُمْ ضَارِبُونَ يعنى ايشانند گروه مردانِ زننده ، و اَنْتُمْ ضَارِبُونَ يعنى شماييد گروه مردان زننده ، و نَحْنُ ضارِبُونَ يعنى ماييم گروه مردان زننده.

* * *

و آن سه كه مؤنّث را بود : ضارِبَةٌ ، ضارِبَتانِ ، ضارِباتٌ.

ضارِبَةٌ : يعنى يك زن زننده.

صيغه مفرده مؤنّث است از اسم فاعل ، صحيح و مجرّد و معلوم.

ضارِبَةٌ در اصل ضارِبٌ بود ، واحد مذكّر بود خواستيم واحده مؤنّث

بنا كنيم ، تاء مُنَوَّنه كه علامت واحده مؤنّث بود در آخرش درآورديم و ماقبل تاء را فتحه داديم ضارِبَةٌ شد بر وزن فاعِلَةٌ ، ضاد فاء الفعل ، الف علامت اسم فاعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، تاء منوّنه از جمله خواصّ اسم.

و ضارِبَةٌ نيز يك لفظ است به جاى سه معنى چنانكه گويى : هِىَ ضارِبَةٌ يعنى اوست يك زن زننده. و اَنْتِ ضارِبَةٌ يعنى تويى يك زن زننده ، و اَنَا ضارِبَةٌ يعنى منم يك زن زننده.

ضارِبَتانِ : يعنى دو زنان زننده. صيغه تثنيه مؤنّث است از اسم فاعل ، صحيح و مجرد و معلوم.

ضارِبَتانِ در اصل ضارِبَةٌ بود ( مفرد بود ) خواستيم تثنيه بنا كنيم الف كه علامت تثنيه بود با نون عوض تنوين در آخرش در آورديم ضارِبَتانِ شد بر وزن فاعِلَتانِ. ضاد فاء الفعل ، الف علامت اسم فاعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، الف ثانى علامت تثنيه ، نون عوض تنوين كه در واحده بوده.

و ضارِبَتانِ يك لفظ است به جاى سه معنى چنانكه گويى : هُما ضارِبَتانِ يعنى ايشانند دو زنان زننده ، و اَنْتُما ضارِبَتانِ يعنى شماييد دو زنان زننده ، و نَحْنُ ضارِبَتانِ يعنى ماييم دو زنان زننده.

ضَارِباتٌ : يعنى گروه زنان زننده. صيغه جمع مؤنّث است از اسم فاعل ، صحيح و مجرّد و معلوم.

ضارِباتٌ در اصل ضارِبَةٌ بود ( مفرد بود ) خواستيم جمع بنا كنيم ، الف و تاء كه علامت جمع مؤنّث بود در آخرش درآورديم ضارِبَتات

شد. تاىِ اوّل ، دلالت مى كرد بر تأنيث و الف و تاىِ دوم دلالت مى‌كرد هم بر جمع و هم بر تأنيث ، با وجود الف و تاىِ ثانى از تاى اوّل مستغنى شده و او را حذف كرديم ضارِبات شد بر وزن فاعِلات. ضاد فاء الفعل ، الف اوّلى علامت اسم فاعل ، و راء عين الفعل ، باء لام الفعل الف ثانى و تاء علامت جمع مؤنث است.

و آن [ ضاربات ] نيز يك لفظ است به جاى سه معنى چنانكه گويى : هُنَّ ضارِبات ، و اَنْتُنّ ضارِبات ، و نَحْنُ ضارِبات. يعنى ايشانند گروه زنان زننده ، و شماييد گروه زنان زننده ، و ماييم گروه زنان زننده.

[ اسم مفعول ]

و از اسم مفعول نيز شش وجه باز مى‌گردد : سه مذكّر و سه مؤنّث.

آن سه كه مذكّر را بود : مَضْرُوبٌ ، مَضْروبَانِ ، مَضْرُوبُونَ.

مَضْرُوبٌ : يعنى يك مرد زده شده. صيغه مفرد مذكّر است از اسم مفعول.

مَضْرُوبٌ در اصل يُضْرَبُ يا تُضْرَبُ يا اُضْرَبُ بود ( عَلَىٰ اَيِّ تقدير ) حرف استقبال را از اولش انداختيم و به جاى او ميم مضموم ، درآورديم و تنوين كه از جمله خواصّ اسم بود به او ملحق نموديم مُضْرَبٌ شد ، مشتبه شد به اسم مفعول باب اِفْعال بر وزن مُكْرَمٌ ، از براى رفع اشتباه ضمّه ميم را بدل كرديم به فتحه ، مَضْرَبٌ شد ، اشتباه

شد بر اسم زمان و مكان بر وزن مَقْتَل ، حَذَراً مِنَ الْاِشْتِبٰاه فتحه عين الفعل را بدل كرديم به ضمّه ، مَضْرُبٌ شد بر وزن مَفْعُلٌ ، و آن در كلام عرب بدون واو و تاء يافت نمى شد بنابراين ضمّه را اشباع كرديم ، واو از اشباع ضمّه تولّد يافت مَضْرُوبٌ شد بر وزن مَفْعُولٌ.

و آن [ مضروبٌ ] يك لفظ است به جاى سه معنى چنانكه گويى : هُوَ مَضْرُوبٌ يعنى اوست يك مرد زده شده ، و اَنْتَ مَضْرُوبٌ يعنى تويى يك مرد زده شده ، و اَنَا مَضْرُوبٌ يعنى منم يك مرد زده شده.

مَضْرُوبٰانِ : يعنى دو مرد زده شده.

اصلش مَضْرُوبٌ بود ( واحد بود ) خواستيم كه تثنيه بنا كنيم الف كه علامت تثنيه بود با نون عوض تنوين در آخرش درآورديم مَضْرُوبٰانِ شد.

و آن [ مضروبان ] يك لفظ است به جاى سه معنى چنانكه گويى هُمٰا مَضْرُوبٰانِ ، واَنْتُمٰا مَضْرُوبٰانِ ، ونَحْنُ مَضْرُوبٰانِ ، يعنى ايشانند دو مردان زده شده ، وشماييد دو مردان زده شده ، وماييم دو مردان زده شده.

مَضْرُوبُونَ : يعنى گروه مردان زده شده.

اصلش مَضْرُوبٌ بود ، خواستيم كه جمع بنا كنيم واو كه علامت جمع مذكّر بود با نون عوض تنوين در آخرش درآورديم مَضْرُوبُونَ شد.

و آن [ مضروبون ] نيز يك لفظ است به جاى سه معنى چنانكه گويى : هُمْ مَضْرُوبُونَ و اَنْتُمْ مَضْروبُونَ ، و نَحْنُ مَضْرُوبُونَ يعنى ايشان و شماييد گروه مردان زده شده ، و ماييم گروه مردان زده شده.

* * *

و آن سه كه مؤنّث را بود : مَضْرُوبَةٌ ، مَضْرُوبَتانِ ، مَضْرُوبٰات.

مَضْرُوبَةٌ : يعنى يك زن زده شده.

در اصل مَضْرُوبٌ بود ( مفرد مذكّر بود ) خواستيم مفرده مؤنّث بنا كنيم تاء منوّنه كه علامت تأنيث اسم بود در آخرش درآورديم و ماقبل تاء را فتحه داديم مَضْرُوبَةٌ شد.

و آن [ مضروبةٌ ] يك لفظ است به جاى سه معنى چنانكه گويى : هِىَ مَضْرُوبَةٌ ، و اَنْتِ مَضْرُوبَةٌ ، و اَنَا مَضْرُوبَةٌ ، يعنى اوست يك زن زده شده ، و تويى يك زن زده شده ، و منم يك زن زده شده.

مَضْرُوبَتٰانِ : يعنى دو زن زده شده. صيغه تثنيه مؤنّث است از اسم مفعول.

اصلش مَضْرُوبَة بود ، ( مفرد بود ) خواستيم تثنيه بنا كنيم ، الف كه علامت تثنيه بود با نون عوض تنوين در آخرش درآورديم مَضْرُوبَتٰانِ شد.

و آن [ مضروبتان ] يك لفظ است به جاى سه معنى چنانكه گويى : هُمٰا مَضْرُوبَتٰانِ ، و اَنْتُمٰا مَضْرُوبَتٰانِ ، و نَحْنُ مَضْرُوبَتٰانِ ، يعنى ايشانند دو زنان زده شده ، و شماييد دو زنان زده شده ، و ماييم دو زنان زده شده.

مَضْرُوبٰات : يعنى گروه زنان زده شده.

در اصل مَضْرُوبَة بود ( مفرد بود ) خواستيم جمع بنا كنيم ، الف و تاء كه علامت جمع مؤنّث بود در آخرش درآورديم مَضْرُوبَتٰات شد. تاىِ اوّل دلالت مى كرد بر تأنيث و تاىِ ثانى هم دلالت مى كرد بر جمع و

هم بر تأنيث ، بنابراين از تاىِ اوّل مستغنى شده و آن را حذف كرديم مَضْرُوبٰات شد.

وآن [ مضروبات ] يك لفظ است به جاى سه معنى ، چنانكه گويى : هُنَّ مضروبات ، يعنى ايشانند گروه زنان زده شده ، و اَنْتُنَّ مَضْرُوبٰات يعنى شماييد گروه زنان زده شده ، و نَحْنُ مَضْرُوبٰات يعنى ماييم گروه زنان زده شده.

[ امر ]

و از امر نيز چهارده وجه باز مى‌گردد : شش مغايب ، و شش مخاطب ، و دو حكايت نفس متكلّم را. آن شش كه مغايب را بود سه مذكّر را بود و سه مؤنّث را.

آن سه كه مذكّر را بود : لِيَضْرِبْ ، لِيَضْرِبٰا ، لِيَضْرِبُوا.

لِيَضْرِبْ : يعنى بايد بزند او يك مرد غايب در زمان حال يا زمان آينده. صيغه مفرد مذكّر غايب است از فعل امر ، صحيح و مجرّد و معلوم.

لِيَضْرِبْ در اصل يَضْرِبُ بود ، لام امر در سرش درآورديم و آخرش را وقف كرديم لِيَضْرِبْ شد بر وزن لِيَفْعِلْ. لام ، لام امر ، ياء ، حرف استقبال ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، لام امر غايب در سرش دو عمل كرد : لفظاً و مَعنًى ، لفظاً حركت آخرش را به جزمى ساقط كرده ، و معنًى خبر را بدل به انشاء كرد.

لِيَضْرِبٰا : يعنى بايد بزنند ايشان دو مردان غايب در زمان حال يا زمان آينده. صيغه تثنيه مغايب مذكّر است از فعل امر ، صحيح و مجرّد و معلوم. لِيَضْرِبٰا بر وزن لِيَفْعِلٰا. لام ، لام امر غايب ، ياء ، حرف استقبال ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، الف علامت تثنيه و هَم ضمير فاعل.

لِيَضْرِبٰا در اصل يَضْرِبٰانِ بود ( تثنيه مذكّر غايب بود از فعل مضارع ) خواستيم تثنيه مذكّر غايب بنا كنيم از فعل امر غايب ، لام امر غايب را در سرش درآورديم ، دو عمل كرد : لفظاً و معنًى ، لفظاً نون اعرابى را به جزمى ساقط كرد ، و معنًى خبر را بدل به انشاء كرد لِيَضْرِبٰا شد.

لِيَضْرِبُوا : يعنى بايد بزنند ايشان گروه مردان غايب در زمان حال يا زمان آينده.

صيغه جمع مذكّر غايب است از فعل امر ، صحيح و مجرّد و معلوم. لِيَضْرِبُوا بر وزن لِيَفْعِلُوا. لام ، لام امر غايب ، ياء ، حرف استقبال ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، و واو علامت جمع مذكّر و ضمير فاعل.

[ لِيَضْرِبُوا ] در اصل يَضْرِبُونَ بود ( مستقبل بود ) خواستيم امر غايب بنا كنيم لام امر بر سرش درآورديم ، دو عمل كرد : لفظاً ومعنًى ، لفظاً نون اعرابى را به جزمى ساقط كرد ، ومعنًى خبر را بدل به انشاء نمود لِيَضْرِبُوا شد.

* * *

و آن سه كه مؤنّث را بود : لِتَضْرِبْ ، لِتَضْرِبٰا ، لِيَضْرِبْنَ.

لِتَضْرِبْ : يعنى بايد بزند او يك زن غايبه در زمان حال يا زمان آينده. صيغه مفرده مؤنّث غايبه است از فعل امر غايب ، صحيح و مجرّد و معلوم بر وزن لتفعل. لام ، لام امر غايب ، تاء ، علامت استقبال ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل.

لِتَضْرِبْ در اصل تَضْرِبُ بود ( واحده مؤنّث غايبه بود از فعل مضارع ) خواستيم مفرده مؤنّث بنا كنيم از فعل امر غايب ، لام امر بر سرش درآورديم ، دو عمل كرد : لفظاً ومعنًى ، لفظاً حركت آخر را به جزمى ساقط كرد ، ومعنًى خبر را بدل به انشاء كرد لِتَضْرِبْ شد.

لِتَضْرِبٰا : يعنى بايد بزنند ايشان دو زنان غايبه در زمان حال يا زمان آينده. صيغه تثنيه مؤنّث غايبه است از فعل امر غايب ، صحيح و مجرّد و معلوم بر وزن لِتَفْعِلٰا. لام ، لام امر غايب ، تاء علامت استقبال ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، الف علامت تثنيه.

[ لتضربا ] در اصل تَضْرِبٰانِ بود ( تثنيه مؤنّث غايبه بود از فعل مضارع ) خواستيم تثنيه مؤنّث بنا كنيم از فعل امر غايب لام امر در سرش درآورديم ، دو عمل كرد : لفظاً و معنًى ، لفظاً عمل كرد نون عوض رفع را به جزمى ساقط كرد ، ومعنًى عمل كرد خبر را بدل به انشاء كرد لِتَضْرِبٰا شد.

لِيَضْرِبْنَ : يعنى بايد بزنند ايشان گروه زنان غايبه در زمان حال يا زمان آينده. صيغه جمع مؤنّث غايبه است از فعل امر غايب ، صحيح و مجرد و معلوم. لِيَضْرِبْنَ بر وزن لِيَفْعِلْنَ. لام ، لام امر غايب ، ياء ،

حرف استقبال ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، نون علامت جمع مؤنّث و ضمير فاعل.

[ ليضربن ] در اصل يَضْرِبْنَ بود ( جمع مؤنّث غايبه بود از فعل مضارع ) خواستيم جمع مغايبه مؤنّث بنا كنيم از فعل امر غايب ، لام امر غايب بر سرش درآورديم ، لفظاً عمل نكرد زيرا كه نون علامت جمع است نه عوض رفع ، ومعنًى عمل نموده وخبر را بدل به انشاء كرده لِيَضْرِبْنَ شد.

* * *

و از امر حاضر نيز شش وجه بازمى‌گردد : سه مذكّر را بود ، و سه مؤنّث را.

آن سه كه مذكّر را بود : اِضْرِبْ ، اِضْرِبٰا ، اِضْرِبُوا.

اِضْرِبْ : يعنى بزن تو يك مرد حاضر در زمان حال يا در زمان آينده. صيغه مفرد مذكّر حاضر است از فعل امر حاضر ، صحيح و مجرّد و معلوم. اِضْرِبْ بر وزن اِفْعِلْ. همزه علامت امر حاضر ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل.

اِضْرِبْ امر است از تَضْرِبُ ، تاء كه حرف مضارع بود از اوّلش انداختيم ، ما بعد تاء ساكن و ابتداء بساكن محال بود محتاج بهمزه وصل شديم ، نظر كرديم به عين الفعلش مكسور بود ، همزه وصل مكسور بر سرش درآورديم وآخرش را وقف كرديم ، حركت آخر به وقفى بيفتاد اِضْرِبْ شد.

اِضْرِبٰا : يعنى بزنيد شما دو مردان حاضر در زمان حال يا زمان

آينده. صيغه تثنيه مذكّر است از فعل امر حاضر ، صحيح و مجرّد و معلوم. اِضْرِبٰا بر وزن اِفْعِلٰا. همزه ، علامت امر حاضر ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، الف ، علامت تثنيه و ضمير فاعل است.

اِضْرِبٰا امر است از تَضْرِبٰانِ ، تاء كه حرف مضارع بود از اولش انداختيم ما بعد حرف مضارع ساكن و ابتداء بساكن محال بود محتاج شديم به همزه وصل ، به عين الفعلش نظر كرديم مكسور بود ، همزه وصل مكسوره در اولش درآورديم و آخرش را وقف كرديم ، نون اعرابى به وقفى بيفتاد اِضْرِبٰا شد.

اِضْرِبُوا : يعنى بزنيد شما گروه مردان حاضر در زمان حال يا زمان آينده. صيغه جمع مذكّر است از فعل امر حاضر ، صحيح و مجرّد و معلوم. اِضْرِبُوا بر وزن اِفْعِلُوا ، همزه ، علامت امر حاضر ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، واو ، علامت جمع مذكّر و هَم ضمير فاعل.

اِضْرِبُوا امر است از تَضْرِبُونَ ، تاء كه حرف مضارع بود از اولش برداشتيم مابعد تاء ، ساكن و ابتداء بساكن محال بود محتاج شديم به همزه وصل و نظر به عين الفعل او كرديم مكسور بود ، همزه وصل مكسوره در سرش درآورديم و آخرش را وقف كرديم ، نون اعرابى به وقفى بيفتاد اِضْرِبُوا شد.

* * *

و آن سه كه مؤنّث را بود : اِضْرِبى ، اِضْرِبٰا ، اِضْرِبْنَ.

اِضْرِبى : يعنى بزن تو يك زن حاضره در اين زمان يا زمان آينده. صيغه مفرده مؤنّث است از فعل امر حاضر ، صحيح و مجرّد و معلوم.

اِضْرِبى بر وزن اِفْعِلى ، همزه ، علامت امر حاضر ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، ياء ، علامت مخاطبه مؤنّث و هَم ضمير فاعل است.

اِضْرِبى امر است از تَضْرِبِينَ ، تاء كه حرف استقبال است از اولش انداختيم ما بعد تاء ، ساكن ، ابتداء بساكن محال بود محتاج شديم به همزه وصل ، نظر به عين الفعل او كرديم مكسور بود ، همزه وصل مكسوره در اولش درآورديم و آخر را وقف نموديم ، نون اعرابى به وقفى بيفتاد اِضْرِبى شد.

اِضْرِبٰا : يعنى بزنيد شما دو زنان حاضره در زمان حال يا زمان آينده. صيغه تثنيه مخاطبه مؤنّث است از فعل امر حاضر ، صحيح و مجرّد و معلوم.

اِضْرِبٰا بر وزن اِفْعِلٰا ، همزه ، علامت امر حاضر ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، الف علامت تثنيه و ضمير فاعل.

اِضْرِبٰا امر است از تَضْرِبٰانِ ، تاء كه حرف استقبال بود از اولش برداشتيم ، ما بعد حرف مضارع ساكن ، ابتداء بساكن محال بود محتاج شديم به همزه وصل ، نظر به عين الفعل او كرديم مكسور بود همزه وصل مكسوره در اولش درآورديم وآخرش را وقف كرديم ، نون اعرابى به وقفى بيفتاد اِضْرِبٰا شد.

* * *

اِضْرِبْنَ : يعنى بزنيد شما گروه زنان حاضر در زمان حال يا زمان آينده. صيغه جمع مؤنّث حاضره است از فعل امر ، صحيح و مجرّد و معلوم.

اِضْرِبْنَ بر وزن اِفْعِلْنَ ، همزه علامت امر حاضر ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، نون ، علامت جمع مؤنّث و هَم ضمير فاعل است.

اِضْرِبْنَ در اصل تَضْرِبْنَ بود ، ( جمع مؤنّث بود از فعل مضارع ) خواستيم كه جمع مؤنّث بنا كنيم از فعل امر حاضر ، تاء كه حرف استقبال بود از اولش برداشتيم ما بعد آن ساكن بود ، ابتداء بساكن محال بود همزه وصل مكسور در اولش درآورديم وآخرش را وقف نكرديم ونون را بر حال خود گذاشتيم زيرا كه نون علامت جمع است نه عوض رفع ( وَالْعَلٰامَةُ لٰا تُغَيَّرُ وَلٰا تُحْذَفُ ، يعنى : علامت ، تغيير داده و حذف كرده نمى شود ) اِضْرِبْنَ شد.

* * *

و آن دو كه حكايت نفس متكلّم را بود : لِاَضْرِبْ ، لِنَضْرِبْ.

لِأضْرِبْ : يعنى بايد بزنم من يك مرد يا يك زن در زمان حال يا زمان آينده. صيغه متكلّم وحده است از فعل امر ، صحيح و مجرّد و معلوم.

لِاَضْرِبْ بر وزن لِاَفْعِلْ ، لام ، لام امر غايب ، همزه ، علامت متكلّم وحده ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل.

لِاَضْرِبْ در اصل اَضْرِبُ بود ( متكلّم وحده بود از فعل مضارع )

خواستيم متكلّم وحده بنا كنيم از فعل امر ، لام امر غائب را بر سرش درآورديم ، دو عمل كرد : لفظاً و معنًى ، لفظاً عمل كرد حركت آخر را به جزمى ساقط كرد ، و معنًى عمل كرد خبر را بدل به انشاء كرد لِاَضْرِبْ شد.

لِنَضْرِبْ : يعنى بايد بزنيم ما دو مردان يا دو زنان يا گروه مردان يا گروه زنان در زمان حال يا زمان آينده. صيغه متكلّم مع الغير است از فعل امر ، صحيح و مجرد و معلوم. لِنَضْرِبْ بر وزن لِنَفْعِلْ ، لام ، لام امر غايب و نون ، علامت متكلم مع الغير ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل.

لِنَضْرِبْ در اصل نَضْرِبُ بود ، متكلّم مع الغير بود از فعل مضارع خواستيم متكلّم مع الغير بنا نماييم از فعل امر لام امر غايب بر سرش درآورديم دو عمل كرد : لفظاً و معنًى ، لفظاً عمل كرد حركت آخر را به جزمى ساقط كرد ، و معنًى عمل كرد خبر را بدل به انشاء كرد لِنَضْرِبْ شد.

[ نهى ]

و از نهى نيز چهارده وجه باز مى‌گردد : شش مغايب را بود و شش مخاطب را و دو حكايت نفس متكلّم را. آن شش كه مغايب را بود سه مذكّر را بود ، و سه مؤنّث را.

آن سه كه مذكّر را بود : لٰا يَضْرِبْ ، لٰا يَضْرِبٰا ، لٰا يَضْرِبُوا.

لٰا يَضْرِبْ : يعنى بايد نزند او يك مرد غايب در زمان حال يا زمان آينده.

صيغه واحد مذكّر غايب است از فعل نهى ، صحيح و مجرّد و معلوم.

لٰا يَضْربْ در اصل يَضْربُ بود ، واحد مذكّر مغايب بود از فعل مضارع خواستيم واحد مذكّر غايب بنا كنيم از فعل نهى ، لاى ناهيه بر سرش درآورديم دو عمل كرد : لفظاً و معنى ، لفظاً عمل كرد حركت آخر را به جزمى ساقط كرد ، و معنى عمل كرد خبر را بدل به انشاء نمود لٰا يَضْربْ شد.

لٰا يَضْرِبٰا : يعنى بايد نزنند ايشان دو مردان غايب در اين زمان يا در زمان آينده.

صيغه تثنيه مذكّر غايب است از فعل نهى ، صحيح و مجرّد و معلوم.

لٰا يَضْرِبٰا در اصل يَضْرِبٰانِ بود ( تثنيه مذكّر مغايب بود از فعل مضارع ) خواستيم تثنيه مذكر مغايب بنا كنيم از فعل نهى ، لاىِ ناهيه بر سرش درآورديم دو عمل كرد : لفظاً و معنًى ، لفظاً عمل كرد نون عوض رفع را به جزمى ساقط كرد ، معنًى عمل كرد خبر را بدل به انشاء كرد لٰا يَضْرِبٰا شد.

لٰا يَضْرِبُوا : يعنى بايد نزنند ايشان گروه مردان غايب در زمان حال يا

زمان آينده. صيغه جمع مذكّر غايب است از فعل نهى ، صحيح و مجرد و معلوم.

لٰا يَضْرِبُوا در اصل يَضْرِبُونَ بود (جمع مذكّر غايب بود از فعل مضارع) خواستيم جمع مذكّر غايب بنا كنيم از فعل نهى ، لاىِ ناهيه بر سرش درآورديم دو عمل كرد : لفظاً و معنًى ، لفظاً عمل كرد نون عوض رفع را به جزمى ساقط كرد ، و معنًى عمل كرد خبر را بدل به انشاء نمود لٰا يَضْرِبُوا شد.

* * *

وآن سه كه مؤنّث را بود : لٰا تَضْرِبْ ، لٰا تَضْرِبٰا ، لٰا يَضْرِبْنَ.

لٰا تَضْرِبْ : يعنى بايد نزند او يك زن غايبه در زمان حال يا زمان آينده. صيغه واحده مؤنّث غايبه است از فعل نهى ، صحيح و مجرد و معلوم.

لٰا تَضْرِبْ در اصل تَضْرِبُ بود ( مفرده مؤنّث غايبه بود از فعل مضارع ) خواستيم مفرده مؤنّث مغايبه بنا كنيم از فعل نهى ، لاىِ ناهيه بر سرش آورديم دو عمل كرد : لفظاً و معنًى ، لفظاً حركت آخر را به جزمى ساقط كرد ، و معنًى عمل كرد خبر را بدل به انشاء كرد لٰا تَضْرِبْ شد.

لٰا تَضْرِبٰا : يعنى بايد نزنند ايشان دو زنان غايبه در اين زمان يا زمان آينده. صيغه تثنيه مؤنّث غايبه است از فعل نهى ، صحيح و مجرد و معلوم.

لٰا تَضْرِبٰا در اصل تَضْرِبٰانِ بود ( تثنيه مؤنّث غايبه بود از فعل مضارع )

خواستيم تثنيه مؤنّث غايبه بنا كنيم از فعل نهى ، لاىِ ناهيه بر سرش درآورديم دو عمل كرد : لفظاً و معنًى ، لفظاً عمل كرد نون اعرابى را به جزمى ساقط كرد ، معنى عمل كرد خبر را بدل به انشاء كرد لٰا تَضْرِبٰا شد.

لٰا يَضْرِبْنَ : يعنى بايد نزنند ايشان گروه زنان غايبه در زمان حال يا آينده. صيغه جمع مؤنّث غايبه است از فعل نهى ، صحيح و مجرد و معلوم.

لٰا يَضْرِبْنَ در اصل يَضْرِبْنَ بود ( جمع مؤنّث غايبه بود از فعل مضارع ) خواستيم جمع مؤنّث غايبه بنا كنيم از فعل نهى ، لاىِ ناهيه بر سرش درآورديم ، لفظاً عمل نكرد زيرا كه نون علامت جمع است نه عوض رفع ، و لكن معنًى عمل كرد خبر را بدل كرد به انشاء ، لٰا يَضْرِبْنَ شد.

* * *

وآن شش كه مخاطب را بود سه مذكّر را و سه مؤنّث را بود.

آن سه كه مذكّر را بود : لٰا تَضْرِبْ ، لٰا تَضْرِبٰا ، لٰا تَضْرِبُوا بود.

لٰا تَضْرِبْ : يعنى بايد نزنى تو يك مرد حاضر در زمان حال يا زمان آينده. صيغه مفرد مذكّر مخاطب است از فعل نهى ، صحيح و مجرد و معلوم.

لٰا تَضْرِبْ در اصل تَضْرِبُ بود ( مفرد مذكّر حاضر بود از فعل مضارع ) خواستيم مفرد مذكّر حاضر بنا كنيم از فعل نهى ، لاىِ ناهيه بر سرش درآورديم دو عمل كرد : لفظاً و معنًى ، لفظاً عمل كرد حركت آخر را به

جزمى ساقط كرد و معنىً عمل كرد خبر را بدل به انشاء نمود لٰا تَضْرِبْ شد.

لٰا تَضْرِبٰا : يعنى بايد نزنيد شما دو مردان حاضر در زمان حال يا آينده. صيغه تثنيه مذكّر حاضر است از فعل نهى ، صحيح و مجرد و معلوم.

لٰا تَضْرِبٰا در اصل تَضْرِبٰانِ بود ( تثنيه مذكّر مخاطب بود از فعل مضارع ) خواستيم تثنيه مخاطب مذكّر بنا كنيم از فعل نهى ، لاىِ ناهيه در سرش درآورديم دو عمل كرد : لفظاً و معنىً ، لفظاً عمل كرد نون اعرابى را به جزمى ساقط كرد ، و معنًى عمل كرد خبر را بدل به انشاء كرد لٰا تَضْرِبٰا شد.

لٰا تَضْرِبُوا : يعنى بايد نزنيد شما گروه مردان حاضر در زمان حال يا زمان آينده. صيغه جمع مذكّر حاضر است از فعل نهى ، صحيح و مجرد و معلوم.

لٰا تَضْرِبُوا در اصل تَضْرِبُونَ بود ( جمع مذكر مخاطب بود از فعل مضارع ) خواستيم جمع مذكّر حاضر بنا كنيم از فعل نهى ، لاىِ ناهيه بر سرش درآورديم دو عمل كرد : لفظاً و معنىً لفظاً عمل كرد نون اعرابى را به جزمى ساقط كرد ، و معنىً عمل كرد خبر را بدل به انشاء كرد لٰا تَضْرِبُوا شد.

* * *

و آن سه كه مؤنّث را بود : لٰا تَضْرِبى ، لٰا تَضْرِبٰا ، لٰا تَضْرِبْنَ.