فعل ماضی کی تعریف۔
یہ جو ہم کہہ رہے ہیں "ماضی" اس ماضی سے  ہماری مراد فعل ماٰ ضی ہے ۔ ماضی کی تعریف کل ہم نے یہ کی تھی  کہ: 
"ما مضی وقته ولزم اجله" ،کہ جس کا وقت گزرگیا ہو ۔ اگر آپ سے یہ سوال ہو کہ فعل ماضی کسے کہتے ہیں ؟ تو آپ جواب میں کہیں گے " ماضی گزرے ہوئے زمانے کو کہتے ہیں" ۔ایک کام جو گزشتہ زمانے میں انجام پایا  ہوااسے "فعل ماضی" کہتے ہیں ۔
فاعل (غایب ،حاضر،متکلم)
اب یہاں ایک نکتہ  یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ کام جو گزشتہ زمانے  میں ہوا ہے اس کام کے کرنے والا کون تھا ؟  اس کی تین صورتیں ہیں یا وہ کام کرنے  والا کوئی  دوسرا شخص (غائب)تھا اس کے بارے میں بتا رہے ہیں  یا کرنے والا وہ شخص تھا جو میرے سامنے  کھڑا(حاضر) ہے  یااس کام کو کرنے والا میں(متکلم) خود تھا ۔
مثال: مثلا ایک مصدر ہے، "الضَرب" اس کا معنی ہے (مارنا) "الفعل" کرنا "الشرب"پینا"الاکل" کہانا۔یہ سب "مصدر" ہیں ان مصادر سے نو چیزیں نکلتی ہیں۔ مثلا ماضی مصدر سے بنتا ہے، "الضرَب" سے بنتا ہے ضَرَبَ، "الاَکل" سے بنتا ہے اَکَلَ ۔ "الفَعل" سے بنتا ہے"  فَعَلَ"۔
اب یہیں "الَضَرب" کو لیں، کہ ہم نے کہا کہ "الضَرب" مارنا، اب یہ جو مارنے کا عمل وجود میں آیا ایک کام ہوا، یہ کام یا وہ کسی اور نے مارا، میں کسی کو بتا رہا ہوں کہ فلان نے گذشتہ زمانے میں مارا ،  یاجو میرے سامنے کھڑا ہے  خوداسے نے مارا ہے اور میں اسی سے کھہ رہاہوں تو نے گذشتہ زمانے میں مارا ہے ،یا میں نے خود مارا ہے اور میں اپنے بارے میں بتا رہا ہوں کہ میں نے مارا زمانے گذشتہ میں۔
پس وہ مارنے والا شخص جس کے بارے میں بتا رہاہوں  یا وہ غائب ہوگا  یعنی وہ محفل میں موجود نہیں ہے ،یا وہ حاضر ہوگا یعنی میرے سامنے کھڑاہے  اور  میں اس سے کہہ رہا ہوں تو نے زمانہ گزشتہ میں مارا ،یا میں خود ہوں تین صورتیں ہیں ان میں سے کوئی چوتھی صورت بن ہی نہیں سکتی ۔
اب جس نے بھی اس فعل کو انجام دیا ہے یا وہ "مذکر" ہوگا یا وہ "مؤنث" ہوگی  مثلا وہ مارنے والا یا مرد ہوگا یا عورت ہوگی ،وہ کھانے والا یا مرد ہوگا یا عورت ہوگی ،وہ   پینے والا یا مرد ہوگا یا عورت ہوگی پس فاعل یا مذکر ہوگا یا مونث، اگر غائب  ہو  تو ممکن ہے وہ غائب مذکر ہو اور ممکن ہے وہ غائب مونث ہو ۔اگر  حاضر ہے جو ہمارے سامنے  ہےیا وہ مذکر ہوگا یا وہ مونث ہوگی اسی طرح اگر  اپنے بارے  میں۔
اب یہاں جب اپنے بارے میں ہو تو وہاں مذکر مؤنث کا خاص فرق نہیں ہوتا  وہ ظاہر ہے کہ اگر مرد ہو گا تو اس نے کہناہے  میں نے مارا اگر عورت ہوگی تو بھی  اس نے کہناہے میں نے مارا ۔
اب اس کو یوں تقسیم کرتے ہیں یا وہ فعل انجام دینے والا "غائب "ہوگا یا "حاضر" ہوگا یا وہ "متکلم"  ہوگا۔
فاعل ( مفرد،تثنیہ ،جمع)
اب اس کے بعد  یہ بھی دیکھنا ہے کہ آیا وہ  کام کرنے والا ایک  انسان تھاتو اس کو عربی  میں "مفرد" کہتے ہیں،  یادو تھے تو ان کو" تثنیہ" کہتے ہیں یا تو دوسے زیادہ تھے تو اس کو "جمع" کہتے ہیں،( یعنی ممکن ہے مارنے کے عمل کو ایک آدمی نے انجام دیا ہو اور ممکن ہے دو نے انجام دیا ہو اور ممکن  ہے دو سے زائد تین چار نے انجام دیا ہو)۔
اب    اس ترتیب کے مطابق   ایک فعل ماضی کے  چودہ صیغے  بن جائیں گے  یا ہم یوں کہیں ایک فعل ماضی کی چودہ  صورتیں بنتی ہیں۔  ہر صورت کے لئے ہم نے صیغہ تبدیل کرنا ہے  تاکہ وہ اس صورت کو بیان کرے، یعنی اگر مارنے والا ایک فرد تھا،  مذکر تھا اور   محفل سے غائب بھی تھا   تو اس کے لیے ہمیں مخصوص  صیغہ بنانا ہوگا اور اگر وہ دو  تھے  اس کے لئے کوئی اور  اگر وہ تین  یا تین سے زیادہ  تھے تو اس کے لیے جداگانہ صیغہ بنانا ضروری ہے۔ اور اگر وہ مارنے والی  عورت تھی تو اس کے لیے علیحدہ  صیغہ  اور اگر  میں خود تھا تو اس کے  بھی مخصوص صیغہ بنانا پڑے گا ۔
  اب یہاں آ پ کو سمجھ آ گئی جو پہلے درس میں ہم نے گزارش کی تھی کہ  "علم صرف" کا کام  ایک "لفظ" کو مختلف صیغوں میں تبدیل کرنا  ہے  تاکہ اس سے مختلف "معانی"  حاصل کیے جائیں۔ اصل میں مصدر تو تھا "الضرب" تین حرفوں پر مشتمل ایک کلمہ تھا، اس کو ہم نے کہا مصدر اس سے  "نو" چیزیں مشتق ہوتی  ہیں ۔
اور جب ہم فعل ماضی میں آئے تو چونکہ ماضی کی مختلف حالتیں ہوتی ہیں کبھی وہ کام ایک بندے نے کیا ہوتا ہے کبھی دو نے کبھی تین نے کبھی عورت نے کبھی مرد  نےکبھی غائب نے کبھی حاضر  نے  تو ہر ایک سے ہم نے پھر صیغے بھی مختلف بنانے ہوں گے تاکہ ہر صیغہ اس خاص حالت والا معنی دے مثلا جو معنی ضَرَبَ دے گا وہ معنی ضَرَبَت سے حاصل نہیں ہوگا جو معنی  "ضَرَبَ" دے گا وہ معنی "ضَرَبَا" یعنی اس کے ساتھ الف لگائیں گے تو اس سے وہ حاصل نہیں ہوگا اب ہم جاتے ہیں اگلے مرحلے میں:
 ہم فرض کرتے ہیں کہ ایک کام گزشتہ زمانے میں ہوا، کرنے والا بھی ایک انسان تھا اور تھا بھی "مذکر" تو عربی میں ہم یوں کہیں گے "ضَرَبَ" (با) کے آگے (الف) نہیں ہے اور سب سے اوپر آپ دیکھیں جو ہم نے یہ پہلا مرحلہ میں لکھا ہے تو یہ "ضَرَبَ "کا مطلب کیا ہے ؟اس ایک مرد نے  زمانہ گزشتہ میں مارا، اب آپ نے اس کو سامنے رکھنا ہے کہ یہ جو ہے یہ "ضَرَبَ "کیا کیا بتا رہا ہے؟ نمبر ایک مارنے والا مرد تھا، عورت نہیں تھی، نمبر دو ایک تھا دو نہیں تھے نمبر تین زمانہ گزشتہ میں مارا چونکہ یہ ماضی کی مثال ہے۔ لیکن اگر وہ مارنے والے دو ہوں گے تو پھر ہم یہ لے آئیں گے پھر "ضَرَبَ" نہیں ہوگا پھر کہیں گے "ضَرَبَا" یعنی اس با کے ساتھ ایک "الف" لگائیں گے یہ الف علامت ہوتی ہے " تثنیہ" کی جو یہ بتائے گی کہ مارنے والے زمانے گزشتہ میں دو مرد تھے ایک نہیں تھا اور اگر وہ  دو سے زائد ہوں گے تو پھر ہم لکھیں گے  "ضَرَبُوا" واو آ جائے گا جو علامت جمع ہے۔ مارنے والا ایک نہیں تھا دو نہیں تھے بلکہ زیادہ تھے اور تھے  بھی سارے کے سارے مرد، لیکن اگر وہ مارنے والا  مرد  نہ ہو بلکہ عورت ہوگی مؤنث ہو تو پھر صیغہ بدل جائے گا پھر ہم کہیں گے "ضَرَبَت" جو "ضَرَبَ" تھا اس "با" کے ساتھ ہم نے "تا" کو لگانا ہے یہ تا علامت تانیث ہے یہ تا"ضَرَ بَت" یہ تا بتا رہی ہے کہ وہ مارنے والا مرد نہیں بلکہ عورت تھی اور اگر دو ہوں گی تو ہوئی "ضَرَبَتَا" الف آ جائے گی تثنیہ والی اور اگر وہ مختلف ہوں جب زیادہ ہوں گی تو پھر کہیں گے "ضَرَبنَ " اس پر "نون" آجائے گی ان شاءاللہ آگے ہم اس کی تفصیل  آپ کو ترتیب سے بتاتے رہیں گے۔ تو اس کا مطلب ہے یہ چھ بن جائیں گے غائب کے صیغے  مذکر غائب کے لیے   بن جائیں گے۔(ضَرَبَ،ضَرَبَا،ضَرَبُوا) اور (ضَرَ بَت ،ضَرَبَتَا،ضَرَبنَ)یہ مونث غائبہ کے لیے بن جائیں گے۔  مردکے لیے وہ اور عورت کے لیے یہ ۔
اب آپ اس کتاب کا ترجمہ بھی ساتھ ملاتے رہیں تاکہ آپ کو بعد میں اپنی کتاب پر آسانی ہو۔
ترجمہ اورتطبیق
"واز ماضی چہاردہ وجه باز می گردد؛ شش مغایب را بود" اس ماضی سے چودہ صیغیں بنتے ہیں  "شش مغائب رابود" چھ صیغے غائب کے ہوتے ہیں  اور چھ   مخاطب کے  جبکہ دو صیغے متکلم کی حکایت کرتے ہیں ۔"آن شش كه مغايب را بود" وہ چھ صیغیں جو غایب  کے ہوتے ان  غایب کے چھ صیغوں میں سے " سه مذكّر را بود و سه مؤنّث را"  تین مذکر کے اور تین صیغے مونث کے ہیں ۔جو تین مذکر کے ہوتے ہیں وہ یہ ہیں (ضَرَبَ،ضَرَبَا،ضَرَبُوا)  اب آپ کو میں ترجمہ سمجھاتا جاتا ہوں پھر آسان ہے ضرب کا مطلب کیا ہے ؟ضرب صیغہ ہے اب اس کا ترجمہ یوں کریں گے" يعنى زد او يك مرد غايب در زمان گذشته" اردو میں ترجمہ ہوگا ضرب کا،اس ایک مرد غائب نے مارا زمانہ گزشتہ میں اب ضرب  یہ بتا رہا ہے کہ یہ مارنے کا عمل گزرے ہوئے زمانے میں انجام پایا ضرب  یہ بتا رہا ہے کہ وہ مارنے والا ایک بندہ تھا یہ ضرب بتا رہا ہے کہ وہ مرد تھا عورت  نہیں تھی اس کو کہتے ہیں   صیغہ مفرد مذکر غائب ،مفردکیوں چونکہ ایک تھا اور مذکر،مونث کے مقابلے  غائب،حاضر کے مقابل ماضی ،"صحیح ،ثلاثی، مجرد اور معلوم،مجھول کے مقابل میں اس کی تفصیل ان شاءاللہ ہم آپ کو آگے تفصیل سے بتائیں گے کہ جب ہم ہفت اقسام میں جائیں گے تو وہاں تفصیل سے بیان کریں گے ہم کہتے ہیں کہ یہ جو ہے "ضَرَبَ "ہے  صحیح ہے ۔ان شاءاللہ آگے ہم بتائیں گے صحیح اس کو کہتے ہیں کہ جس میں کوئی حرف علت نہ ہو حرف علت تین ہوتے ہیں وہ بھی ان شاءاللہ ہم تفصیل  سے  بتائیں گے دو حرف ایک جنس کے نہ ہوں ٓاخر تک۔۔ثلاثی، ثلاثی کا مطلب ہے کہ اس کے اصل حروف "تین" ہیں یعنی چار نہیں ہیں یہ بھی ان شاءاللہ ہم آگے آپ کو بتائیں گے ایک  ثلاثی ہوتا ہے ایک رباعی ہوتا ہے مجرد کا مطلب ہوتا ہے یعنی اس کے تینوں حرف اصلی ہیں ان میں کوئی حرف زائد نہیں ہے مجرد اور مزید فیہ  یہ بھی ان شاءاللہ آگے ہم اپ کو تفصیل سے بتائیں گے ۔معلوم، معلوم مقابلے مجہول ہوتا ہے ان شاءاللہ آگے ہم بتائیں گے یہ "ضَرَب" معلوم ہے پھر "ضُرِب" مجہول ہوتا ہے وہ بھی ان شاءاللہ آجائے گا۔ اب ہم  اصل بحث میں واپس آئیں۔
مصدر سے فعل ماضی بنانے کا طریقہ۔
"ضَرَبَ در اصل الضَّرْب بود" ( مصدر بود )۔،ضرب،مشتق ہوا ہے "الضَّرْب" سے۔"خواستيم كه فعل بنا كنيم"  اب ہم نے کہا کہ "الضرب" سے فعل بنایا جائے تو کیا کیا؟"الف و لام مصدرى را از اولش انداختيم"  اس کی ابتدا میں موجود الف لام کو گرا دیا اس کے بعد" و راء و باء را فتحه داديم ضَرَبَ شد بر وزن فَعَلَ" "را "اور "باء " کو فتح دیا( فتحہ زبر کو کہتے ہیں) بن گیا ضَرَب،بروزن فعل  ۔اب یہاں پر ایک اور نقطہ ،آپ کو ابھی سے یاد کرنا ہوگا وہ یہ ہے کہ آگے ان شاءاللہ ہم بتائیں گے کہ جتنے بھی یہ الفاظ  آپ کے سامنے پورے قران مجید میں ہوتے ہیں ان میں کچھ حروف اصلی ہوتے  ہیں وہ حرف اصلی تین ہوتے ہیں اب آپ جب "المنجد" میں جائیں کسی عربی لفظ کا معنی دیکھنا ہوگا تو بھی آپ پہلے اس کے اصل تین حرف نکالتے ہیں کہ وہ کون سے ہیں، خوب اُن کو حروف اصلی کہتے ہیں یہ بھی ان شاءاللہ آگے ہم آپ کو گزارش کریں گے۔ اب یہ ضرب، فَعَلَ کے وزن پر ہوتا ہے ۔ "ضاد ، فاء الفعل ، راء ، عين الفعل ، باء ، لام الفعل"  اب ذرا  اس نقطہ  کو یاد کر لیں، اگر آپ سے پوچھا جائے کہ میں "ضرب" میں "ضاد" کیا ہے؟ تو آپ کہیں گے یہ "فاء الفعل"چونکہ اصل ہے "فَعَلَ"  تین حرف ہیں تو یہ اس فعل کا  فاء کلمہ ہے  "را" بن جائے گا عین الفعل اور "با" بن جائے گا لام الفعل یعنی اگر اپ سے کوئی سوال ویسے کریں کہ ضَرَبَ میں عین الفعل کیا ہے؟ تو اپ کہیں گے عین الفعل یعنی " را"جو عین کے مقابل میں ہے ،فَعَلَ" ض"ف  کے مقابل میں اور "را" عین   کے مقابل میں اور "با" لام کے مقابل ٹھیک ہو گیا۔" ضمير هو در او مستتر است به استتار جايزى"  یہ ضرب میں ایک ضمیر (ھو) مستتر ہوتی ہے  ان کی تفصیل ان شاء اللہ بعد میں بیان کریں گے ایک ضمیرمتصل ہوتی ہے ایک ضمیر منفصل ہوتی ہے "ھو" یہ ضمیر مستتر ہوتی ہے  قرآن میں بھی یہ ضمیر  ھومتعدد بار  استعمال ہوی ہے ۔
 "ھو" کیا ہے؟"محلّاً مرفوع است تا فاعلش بوده باشد" یہ  ھو ضرب میں مستتر ہوتی ہے جو کہ اس کا فاعل ہوتی ہے۔
"ضَرَبَا"کے بنانے کا طریقہ۔
ضَرَبَا : يعنى بزدند ايشان دو مرد غايب در زمان گذشته.
"ضَرَبَ" کے بعد فرماتے ہیں اگلا کیا تھا؟ "ضَرَبَا"۔ جیسے میں نے کہا تھا زمانہ گزشتہ میں مارنے والا ایک مذکر نہیں تھا، دو تھے تو اس کے لیے ہم نے صیغہ جو بنانا تھا وہ کیا بنانا تھا؟ "تثنیہ" کا بنانا تھا تاکہ پتہ چلے کہ وہ مارنے والا ایک نہیں بلکہ دو تھے۔ اس کے لیے صیغہ یہ ہے۔ "ضَرَبَا" یعنی "با" کے ساتھ "الف" لگانی ہے۔ یعنی "بزدند ایں شان دو مرد غائب در زمان گزشتہ"۔ کہ ان دو مردوں نے گزشتہ زمانے میں مارا۔ اس الف نے بتایا کہ وہ گزشتہ زمانے میں مارنے والا ایک نہیں تھا بلکہ دو تھے۔ اس "ضَرَبَا" کو کہتے ہیں صیغہ "تثنیہ مذکر غائب"۔ پہلا تھا صیغہ "ضَرَبَ"، صیغہ مفرد مذکر غائب اور "ضَرَبَا" اس کو کہتے ہیں صیغہ "تثنیہ مذکر غائب" چونکہ یہ دو کے لیے ہے۔ فعل ماضی "صحیح، ثلاثی، مجرد و معلوم" جیسے میں نے اوپر بتایا ہے کہ یہ ان شاءاللہ اگے وضاحتیں اس کی ساری آ جائیں گی۔
"ضَرَبَا در اصل ضَرَبَ بود"۔ "ضَرَبَ" اسی "ضَرَبَا" سے بنا۔ "مفرد بود" "ضَرَبَ" ایک بندے کے لیے تھا۔ "خواستیم تثنیہ بنا کُنیم"۔ہم نے کہا بتایا ہم چاہتے تھے کہ وہ مارنے والا ایک نہیں بلکہ دو تھے۔ تو اس کے لیے اب ہم نے کیا کیا؟ "بتثنیہ رساندیم"۔ تو اب یا تو ہم دو دفعہ کہتے "ضَرَبَ ضَرَبَ" دو دفعہ کہتے۔ تو یہ ذرا کلام لمبی ہو جاتی، مشکل ہو جاتی۔ تو اب ہم نے کیا کیا؟ ہم نے یہ کیا ہے کہ ایک "ضَرَبَ" کو باقی رکھا۔ "و زید بر یک را حذف نمودیم"۔ جو دوسرا "ضَرَبَ" تھا اس کو حذف کر لیا اور اس کے بدلے میں ہم نے پہلے "ضَرَبَ" کی با کے آگے ایک الف لگا دی، وہ الف علامت "تثنیہ" ہے۔ یہ الف بتا رہی ہے کہ وہ زمانہ گزشتہ میں مارنے والا ایک نہیں بلکہ دو تھے۔ "و آن را آخرش آوردیم" اور یہ ہو گیا "ضَرَبَا"۔
"بر وزن فعل"۔ اب پھر وہی بات آ جائے گی۔ کہ "ضاد" "فاء الفعل" کہلائے گی، چونکہ یہ "فَعَلَ" کی "فا" کے مقابل میں ہے۔ "را" "عین الفعل" کہلائے گی، چونکہ یہ عین کے مقابل میں ہے۔ اور "با" "لام الفعل" کہلائے گی، چونکہ یہ "فَعَلَ" کی لام کے مقابل میں ہے۔ اور جو اس کے آگے الف آ گئی، فرماتے ہیں الف علامت "تثنیہ" ہے۔ وہ یہ بتا رہی ہے کہ وہ مارنے والا ایک نہیں بلکہ دو تھے۔
"و ھم ضمیر فاعل"۔ اور اس میں فاعل کی ضمیر یہی ہے۔ یعنی "ضَرَبَا" یہ جو الف ہے، یہ فاعل کی ضمیر ہے، یہ ضمیر متصل ہے۔ ان شاءاللہ آگے بتائیں گے اور اس کی ضمیر منفصل جیسے "ضَرَبَ" میں "ھو" تھی، یہاں پر آئے گی "ھما"۔ یہ ضمیروں کی بحث بھی بعد میں ہم نے پوری طرح پڑھنی ہے۔ چونکہ میں نے گزشتہ درس میں کہا تھا کہ یہ جو شرح عامل ہے، یہ فقط ایک جیسے خبرنامے کی ہیڈ لائن ہوتی ہے یہ ہیڈ لائن ہے۔ وضاحتیں، تفصیلیں ان شاءاللہ ہم آگے صرف میر،میں جا کر پڑھیں گے ان شاءاللہ۔
"ضَرَبُو"کے بنانے کا طریقہ۔
 اس کے آگے آ گیا تیسرا صیغہ وہ کیا تھا؟ کہ اگر وہ زمانہ گزشتہ میں مارنے والا ایک مرد بھی نہیں، دو بھی نہیں بلکہ دو سے زیادہ تھے، تین چار آٹھ دس زیادہ تھے، تو اس کے لیے صیغہ چاہیے تو اس کے لیے ہم نے صیغہ بنایا "ضَرَبُوا"۔ "بزدن ایشاں گروہ" یعنی مردوں کے ایک گروپ نے زمانہ گزشتہ میں ایک شخص کو مارا۔ "ضَرَبُوا" یعنی بہت سارے لوگوں نے زمانہ گزشتہ میں اس کو مارا۔ "ضَرَبُوا" یہ صیغہ کہلائے گا "جمع مذکر غائب" کا۔ "جمع" کا ہے۔ "مذکر" کا ہے اور "غائب" کا۔ "ضَرَبَ" مفرد مذکر غائب، "ضَرَبَا" تثنیہ مذکر غائب، "ضَرَبُوا" جمع مذکر غائب۔ فعل ماضی "صحیح، ثلاثی، مجرد و معلوم" یہ میں نے گزارش کی ہے کہ یہ ان  شاءاللہ یہ اگلی اس میں ہم آپ کو تفصیل سے سمجھائیں گے۔
"ضَرَبُو در اصل ضَرَبَ بود"۔ یہ "ضَرَبُوا" بھی اسی "ضَرَبَ" او مفرد سے بنا ہے۔ "واحد بود" "ضَرَبَ" کا معنی تھا ایک مرد نے مارا، لیکن یہاں تو ایک سے زائد تھے۔ تو اب ہم چاہتے تھے کہ ایک ایسا لفظ ہم میں وضع کریں، ایسا صیغہ بنائیں کہ جس سے یہ پتہ چلے کہ زمانہ گزشتہ میں مارنے والا ایک نہیں بلکہ بہت سارے تھے۔ تو اب ہمارے پاس تین راستے تھے۔ یا ہم کہتے "ضَرَبَ ضَرَبَ ضَرَبَ ضَرَبَ" یعنی جتنے بندے تھے اتنی دفعہ "ضَرَبَ" کہتے، تو یہ مشکل تھا۔ پھر ہم نے کیا کیا؟ ایک "ضَرَبَ" کو رکھ لیا۔ " زايد بر يكى را حذف كرديم"۔اور اس کے بعد جتنے بھی تھے ان کو حذف کر دیا اور ان کے بدلے میں ہم نے واو لگا دی۔ "ضَرَبُوا" واو، واو کیوں لے آئے؟ کیونکہ واو علامت "جمع" ہے۔ واو بتاتی ہے کہ یہاں ایک نہیں بلکہ بہت سارے ہیں۔
اب جب "ضَرَبَ" کے ساتھ واو   لگے گی تو با پر تو فتحہ تھی او زبر تھی تو یہ بن جائے گا "ضَرَبَوا"۔ "ضَرَبُوا" نہیں بنے گا ابھی، پہلے مرحلے میں بنے گا "ضَرَبَوا" یعنی با پر فتحہ رکھنا ہے، زبر رکھنی ہے آگے لگانا ہے واؤ تو یہ بن گیا "ضَرَبَوا"۔ "فتح لام الفعل را بمناسبت واؤ بدل بضمّہ نمودیم"۔ اب چونکہ "ضَرَبَ" میں با "لام الفعل" تھی تو "لام الفعل" کے فتح کو اس کی زبر کو "ضمّہ" میں یعنی پیش میں تبدیل کر دیا کیوں؟ واؤ کی خاطر۔ پیش واؤ کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے، زبر الف کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے، اسی طرح زیر یا کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے، ان شاءاللہ یہ باتیں ساری تفصیل سے آئیں گی۔ تو جب ہم نے اس زبر کو پیش میں یعنی فتح کو "ضمّہ" میں تبدیل کیا تو یہ بن گیا "ضَرَبُوا" بر وزن "فَعَلُوا"۔
"ضاد" "فاء الفعل"، "را" "عین الفعل"، "با" "لام الفعل"، واؤ علامت "جمع مذکر"۔
"ضَرَبُوا" میں فاعل کی ضمیر ہوگی "ھم"۔ "ضَرَبُوا"۔ واؤ جیسے میں نے کہا، جمع مذکر کی علامت بھی ہے اور ضمیر فاعل بھی ہے متصل کے حساب سے اور اس کی ضمیر منفصل آئے گی "ھم"۔
یہ تین تھے "ضَرَبَ، ضَرَبَا، ضَرَبُوا" جو مفرد مذکر کے لیے آتے تھے۔ ا گلے تین وہ ان شاءاللہ پڑھتے ہیں وہ  مؤنث کے لیے ہیں۔ صلی اللہ علی محمد وآلہ۔