درس شرح امثلہ

درس نمبر 2: کچھ اصطلاحوں کی تعریف 2

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

ماضی کی تعریف

(ماضى در لغت، گذشته را گويند.)

 گذشتہ درس میں گزارش کی تھی  کہ مصنف  نے فرمایا  مصدر اصل کلام ہے اور پھر انہوں نے مصدر کامعنی بھی بتایا اصل کامعنی بھی بتایا اور کلام کامعنی بھی بتایا پھر آگے یہ لکھا تھا کہ مصدر سے نو چیزیں نکلتی ہیں، یعنی نو چیزیں مشتق ہوتی  ہیں یا نو چیزیں بنتی ہیں، ماضی، مستقبل، اسم فاعل، اسم مفعول، امر، نہی، جحد، نفی ،استفہام ،آج کے اس درس میں ان نو چیزوں کو بیان کر رہے ہیں کہ ماضی کسے کہتے ہیں؟ مستقبل کسے کہتے ہیں؟ اسم فاعل کسے کہتے ہیں؟ اس کی لغوی معنی کیا ہے؟ اس کا اصطلاحی معنی کیا ہے ؟وغیرہ 

ماضی کا  لغوی معنی:

لغت میں گزرے ہوے وقت کو ماضی کہتے ہیں، یعنی جو گذر گیا ہے، جو ہو گیا ۔

ماضی کی  اصطلاحی تعریف :

 اس کی اصطلاحی تعریف میں  فرماتے ہیں: «اَلْماضِى مَا مَضَىٰ وَقْتُهُ » ماضی اسے کہتے ہیں، جس کا وقت گذر چکا ہو «وَلَزِمَ أجَلُهُ» اور اس کی مدت پہنچ چکی ہویعنی ابھی اس  کا وقت ختم ہوگیا ہو اس سے  مزیدآ گے نہیں ہے۔

ترجمہ وتطبیق:

( ماضى در لغت ، گذشته را گويند)  ماضی کا لغوی معنی ہےگذشتہ  یعنی  گزرا ہوا۔ (و در اصطلاح «اَلْماضِى مَا مَضَىٰ وَقْتُهُ وَلَزِمَ أجَلُهُ») لیکن علمی اصطلاح میں اگر کہا جائے کہ ماضی کی اصطلاحی تعریف کیا ہے ؟ علمی اس کی تعریف کیا ہے؟ تو آپ جواب یہ دیں گے کہ ماضی کی اصطلاحی تعریف ہے :«اَلْماضِى مَا مَضَىٰ وَقْتُهُ وَلَزِمَ أجَلُهُ» ماضی اسے کہتے ہیں اس کا وقت گزرچکا ہو «وَلَزِمَ أجَلُهُ» اور اس کی اجل  یعنی  انتہا  آچکی ہو۔ (يعنى : ماضى چيزى است یعنی ماضی وہ چیز ہے (كه گذشته باشد وقت او)  جس کا  وقت گزر چکا ہو  (و بسر آمده باشد اَجَل او) اور اس کی "اجل" مدت   آچکی ہو ،مثال ضَرَبَ ، عربی میں کہتے ہیں: ضَرَبَ ماضی ہے ،اچھا جی کیا مطلب ؟ جس کا معنی ہے:  (بزد يك مرد).ضَرَبَ: ایک مرد نے مارا لیکن کب؟ ضَرَبَ  زمان گزشتہ میں یہ کام ہوچکا ہے ،اس کی مدت ختم ہو چکی ہے مارا ایک آدمی نے ۔

4

مُسْتَقْبِل کی تعریف

 لفظ مستقبل کی وضاحت :

ماضی کے بعد  ہے مُسْتَقْبِل، اس کو مُسْتَقْبِل پڑھنا بھی جائز ہے جیسے  ہمارے معاشرے میں  کچھ لوگ اس کو مُسْتَقْبِل کہتے ہیں کہ  "میں مستقبل کی بات کر رہا ہوں" اور اس کو مستقبَل پڑھنا بھی جائز ہے دونوں جائز ہیں ان شاءاللہ شرح تصریف میں  اس کی بحث آئے گی مُسْتَقْبِل اگر کوئی پڑھتا ہے تو یہ غلط نہیں ہے۔ بعض لوگ مستقبَل  پڑھتے ہیں لیکن اگر کوئی  شخص مستقبِل کہہ دے تو وہ کہتے ہیں غلط ہے آیت اللہ مدرس افغانی کہتے ہیں غلط نہیں ہے۔ مستقبِل پڑھنا بھی جائز ہے مستقبَل پڑھنا بھی جائز ہے۔ بحث اس کی فی الحال نہیں ابھی تمہاری ابتدا  ہے پہلا دوسرا درس ہےآگے بڑی کتابوں میں ساری وضاحت کریں گے  کہ کیوں جائز ہے، 

مستقبِل یا مستقبَل کا   لغوی معنی:

(در لغت ، آينده را گويند.) لغت میں  آنے والے وقت کو مستقبِل کہتے ہیں ۔ لیکن اصطلاحی تعریف «الْمُسْتَقْبِلُ ما يُنْتَظَرُ وُقُوعُهُ وَلَمْ يَقَعْ»  مستقبِل اسے کہتے ہیں کہ جس کے وقوع کا انتظار کیا جائے، " وَلَمْ يَقَعْ" ابھی واقع نہ ہوا ہو بلکہ اس کے واقع ہونے کا انتظار کیا جائے ۔

مستقبل کا اصطلاحی معنی:

(مستقبل در اصطلاح چيزى است كه انتظار كشيده شودواقع شدن آن ): مستقبل کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ جس  کے واقع  ہونے کا انتظار کیا جائے (و ہنوز واقع نشده باشد)ابھی واقع ہوا نہ ہو، جیسے: يضرب  ایک ادمی مارے گا   ابھی اس نے مارا نہیں ہے، مارے گامثلا  ماضی میں کہیں گے ضَرَبَ زید، زید نے مارا یعنی مار واقع ہو چکی ہے اس نے جو مارنا تھا مار چکا ہے اور مستقبل میں اگر ہم کہتے ہیں یضرب زید  تو اس کا مطلب ہوگا زید مارے گا یعنی ابھی اس نے مارا نہیں ہے، زمان آئندہ میں مستقبِل میں مارے گا۔

5

اِسْمِ فاعِل کی تعریف

تیسری چیز جو مصدر سے نکلتی ہے یا  مصدر سے صادر ہوتی ہے وہ ہے اسم فاعل ۔

 فاعل کا لغوی معنی:

(فاعل در لغت كننده را گويند) لغت میں    کام انجام دینے والے کو فاعل کہتے ہیں  اردو  زبان میں بھی استعمال ہوتا ہے اس کام کو کس نے کیا؟ اس کا کرنے والا کون ہے ؟ وہی جو کرنے والا ہوتا ہے اس کو  فاعل کہتے ہیں۔

فاعل کی اصطلاحی تعریف:

 اس کی اصطلاحی تعریف یہ ہوگی ( الْفَاعِلُ مَا صَدَرَ عَنْهُ الْفِعْلُ) فاعل وہ ہوتا ہے جس سے فعل صادر ہو، جیسے میں نے مثال دی ضَرَبَ زید ایک ہے مارنا، اور ایک ہے وہ شخص   جس سے  کسی  دوسرے کو مار  پڑ نی ہے تو جس سے وہ ضرب واقع ہونی ہے جو اس فعل کو انجام دےگا اسی کو کہتے ہیں فاعل ۔

ترجمہ وتطبیق:

( الْفَاعِلُ مَا صَدَرَ عَنْهُ الْفِعْلُ)  یعنی فاعل وہ ہوتا ہے جس سے فعل صادر ہو ،پانی پینا ایک فعل  جو بندہ  پانی پیے گا وہ فاعل ہوگا  اسی طرح کھانا کھانا  ایک فعل ہےجو بندہ کھا رہا ہوگا وہ فاعل ہوگا  اس لیے اسے کہتے ہیں فاعل جس سے فعل صادر ہو ۔خوب اس کی اور بھی وضاحتیں ہیں جنہیں بعد میں بیان کیا جاے گا۔ اصل وہی "ضرب "تھا وہ جو مصدر تھا  کبھی اس سے ضَربَ  بن گیا کبھی اس سے  یَضرِبُ   بن گیا کبھی اس سے  ضَارِبٌ بنا  اب یہ سارے  اسی" الضرب"  سے صادر ہوے ہیں۔

6

اِسْمِ مَفْعُول کی تعریف

 اسم مفعول 

اسم مفعول کا لغوی  معنی :

(اسم مفعول در لغت ،كرده شده را گويند) لغت میں اسم مفعول   اسے کہتے ہیں جسے کیا گیا ہو یا جس کام کو انجام دیا گیا   ہواسے  مفعول کہتے ہیں ۔

 اسم مفعول کی اصطلاحی تعریف:

 «اَلْمَفْعُولُ مَا وَقَعَ عَلَيْهِ الْفِعْلُ»مفعول وہ ہے جس پر فعل واقع ہوا ہو۔جیسے میں نے مثال دی تھی ضَارِبٌ مارنے والا اور  جس کو مارا ہے وہ بن جائے گا مضروب چونکہ وہ فعل اس پر واقع ہوا ہے۔

 فرماتے ہیں (مفعول چيزى است كه واقع بشود بر او فعل )، یعنی مفعول وہ چیز ہے کہ جس پر فعل واقع  ہوا۔

7

امر کی تعریف

امر

پانچویں چیز جو مصدر سے صادر ہوتی ہے جو مصدر سے بنتی تھی وہ ہے امر ،امر کیا ہے؟

امر کا معنی  

( امر در لغت ، فرمودن را گویند )

امر کا لغوی  معنی حکم دینا یا آرڈر کرنا ہے۔ جیسے ہم بھی کہتے ہیں جناب کا جو امر ہوگا جو حکم ہوگا۔

امر کا اصطلاحی معنی :

اگر پوچھا جائے کہ علمی اصطلاح میں امر کی تعریف کیا ہے؟ تو ہم جواب میں کہیں گے:«طَلَبُ الْفِعْلِ مِمَّنْ هُوَ دُونَهُ عَلى سَبيلِ الاسْتِعْلاءِ» اپنے سے پست شخص سے اپنی برتری کی بنا پر کسی کام کی انجام دہی کو طلب کرنا ۔

وضاحت :

امر کیا ہے؟ اس سے پہلے ذرا اردو میں بات کو سمجھ لو،  ایک دفعہ مالک نوکر کو کہتا ہے فلاں شے لے آ، اور ایک دفعہ نوکر مالک سے کہتا ہے فلاں چیز لے آ۔ یعنی مالک بھی کہتا ہے: یہ کر اور نوکر بھی مالک سے کہتا ہے :کہ یہ کر ۔ مثلا نوکر کہتا ہے: جناب میری تنخواہ دو ،  ابھی یہ طلب کررہا ہے یا مالک  نوکر کو  جب کہتا ہے چل گاڑی نکال ۔طلب وہ بھی کررہا ہے گاڑی نکالنے کو طلب وہ بھی کررہا ہے   جا یہ کام کر آ۔  ایک طلب وہ ہےایک چیز وہ  مالک نوکر سے  چاہ رہا ہے۔اور ایک دفعہ  خود نوکر مالک سے چاہ رہا ہو  ہے  ہر چاہنے کو امر نہیں کہتے ہیں،امر وہ ہوتا ہے : کہ مانگنے والا طلب کرنے والا اس سے طلب کرے جو اس سے پست ہو اور"عَلىٰ سَبيلِ الْاسْتِعْلاءِ"  یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ پست ہے اور میں اعلی ہوں، مثال نوکر جب مالک کو کہتا ہے :مجھے تنخوا دو تو نوکر اس وجہ سے نہیں کہتا کیونکہ یہ میرا مالک مجھ سے پست ہے میں اس سے بڑا ہوں تو اپنی بڑائی کی بنیاد پر میں کہہ رہا ہوں مجھے تنخواہ دے، نہ ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ایسا نہیں ہوتا یہ امر بھی نہیں ہے لیکن جب  مالک نوکر کو کہتا ہے : چل گاڑی دھو اب گاڑی کا دھونا طلب کر رہا ہے لیکن وہ کیوں کہہ رہا ہے وہ کہہ رہا ہے کہ چونکہ میں مالک ہوں یہ میرا نوکر ہے میں اس سے اعلی ہوں، یہ ادنی ہے اور میں مالک ہونے کی بنیاد پر اس کو کہہ رہا ہوں کہ گاڑی دھو ،گاڑی کا دھونا طلب کر رہا ہوں  یہ والی طلب امر کہلاتی ہے ہر طلب امر نہیں ہوتی۔

ترجمہ وتطبیق:

( امر در لغت ، فرمودن را گویند) امرکا  لغوی معنی ہوتا ہے فرمانا یا حکم دینا لیکن امر  کو علمی اصطلاح میں کہتے ہیں  "اَلْأمْرُ طَلَبُ الْفِعْلِ مِمَّنْ هُوَ دُونَهُ " ایک شخص  دوسرے شخص سے  کسی کام کوطلب کرے ،اس کو کہے کہ تو یہ کام کر لیکن کس کو کہے (ممَّنْ هُوَ دُونَهُ) جو اس سے پست ہے۔( عَلى سَبيلِ الاسْتِعْلاءِ)اس انداز میں کہ میں بڑا ہوں اور تو مجھ سے پست ہے، لہذا تو یہ کام کر، جب اس انداز میں وہ طلب کرے گا  تو اس کو امر کہتے ہیں :يعنى امر طلب نمودن فعل است یعنی امر کا مطلب کیا ہے ؟کہ ایک شخص دوسرے ہر شخص سے کسی فعل کو طلب کرے یعنی اس سے  کہے کہ تو یہ کام کر،"از كسى كه پست‌تر است از او " بر سبيل طلب بلندى ،  اس کو کہے کہ جو اس سے پست تر ہے بر سبیل طلب بلندی اس انداز میں کہ  طلب کرنے والا اس سے بڑا ہے اور بڑا ہونے کے ناطے اس سے کہے کہ تو یہ کام انجام دےجیسے کہتے ہیں (اضرب ) مالک نوکر سے  کہتا ہے  تو مار ،یہ  مارنے کا کام  مالک جو اپنے نوکر سے چاہ رہا ہے امر ہوگا ورنہ امر نہیں ہوتا ۔ يعنى "بزن تو يك مرد"  تو ایک مرد  مارو،اس کو ان شاءاللہ آگے ہم بیان کریں گے۔

نہی:

نہی کا لغوی معنی :

باز داشتن را گویند یعنی روکنے اور کسی کام سے منع کرنے کو نہی  کہتے ہیں۔  امر میں اپنے سے پست  شخص سے کسی فعل  کی انجام دہی کو طلب کرنا تھا  جبکہ نہی میں اپنے سے پست شخص سے کسی کام کے انجام نہ دینے کو طلب کرنا ہے مثلا ہم کہتے ہیں  خبردار ادھر نہیں جانا اگر کہتا ادھر جاؤ تو یہ امر ہے جانا طلب کر رہا ہے جب کہتا ہے نہیں جاؤ یعنی جانے کے ترک کو طلب کر رہا ہے ادھر نہیں جانا  یہ نہی کہلاتا ہے۔

8

نَهى کی تعریف

نہی کا لغوی معنی :

"نَهى در لغت بازداشتن را گويند" نہی کا لغوی  معنی کیا ہوتا ہے؟ بازداشتنن، پرہیز کرنا، روکنا، روک کے رکھنا

نہی کا اصطلاحی معنی: 

یہاں نہی سے  کیا مراد  ہے؟«اَلنَهْىُ طَلَبُ تَرْكِ الْفِعلِ مِمَّنْ هُوَ دُونَهُ عَلىٰ سَبيلِ الْاسْتِعْلاءِ» وہ امر کا الٹ ،امر میں کیا تھا؟ طَلَبُ  الْفِعلِ اپنےسے  پست  شخص سے کسی فعل کو طلب کرنا، چاہنا کہ یہ انجام دے ۔ نہی کیا ہے؟ "طَلَبُ تَرْكِ الْفِعلِ مِمَّنْ هُوَ دُونَهُ" کہ اپنے سے پست سے کسی کام کے نہ کرنے کو طلب کرنا

وضاحت:

  مثلا ہم  کہتے ہیں خبردار ادھر نہیں جانا، اگر کہتا ادھر جاؤ، تو یہ امر ہے جانا طلب کر رہا ہے جب کہتا ہے نہیں جاؤ ،یعنی جانے کے ترک کو طلب کر رہا ہے ادھر نہیں جانا  ہے یہ نہی کہلاتا ہے،"عَلىٰ سَبيلِ الْاسْتِعْلاءِ"   برسبیل طلب بلندی اس انداز میں چونکہ میں بڑا ہوں لہذا میں تمہیں کہہ رہا ہوں کہ یہ کام تم نے نہیں کرنا ،جب ایسا ہوگا تو اس کو کہتے ہیں نہی۔پس امر اور نہی کیا ہو گیا ؟ کہ کوئی بڑا کسی پست کو کہے کہ یہ کر اس انداز میں کہے کہ چونکہ میں بڑا ہوں تمہیں یہ کہہ رہا ہوں تو یہ  امر ہو جائے گا۔ نہی کیا ہو گی؟ کہ کوئی بڑا اپنے سے کسی پست کو کہتا ہے کہ یہ کام نہ کرو، کیوں؟ نہ کرنا اس لیے کہہ رہا ہے کیونکہ میں تم سے بڑا ہوں یہ بن جائے گی نہی جیسے: " لَا يَضْرِبْ ، يعنى بايد نزند آن يک مرد غايب". یعنی لَا يَضْرِبْ معنی کیا ہے کہ وہ ایک شخص نہ مارے ان شاءاللہ  ہر  ایک کا ترجمہ ہم آگے بتائیں گے۔

9

جَحْد کی تعریف

جحد:

مصدر سے جحد بھی صادر ہوتا ہے۔ جحد کا لغوی  معنی ہے انکار کرنا ۔

جحد کا اصطلاحی معنی:

 اصطلاحی معنی کیا ہے؟ اب ذرا غور کرنا اصطلاحی معنی یہ ہے «هُوَ الْاِخْبَارُ ( اَخبار نہیں پڑھنا)  بِعَدَمِ وُقُوعِ الْفِعْلِ فِى الزَمانِ الْمَاضِى بِلَفْظِ الْمُسْتَقْبِل» کیا مطلب؟ اصطلاح میں کسی کام کے زمانہ ماضی میں  انجام نہ پانے کے بارے میں خبر دینا، یعنی خبر  دے رہا ہے کہ یہ کام گزشتہ زمانہ  میں نہیں ہوا، لیکن لفظ اس میں مستقبل کا استعمال کرے۔

وضاحت :

اس کاآسان اردو میں آپ یوں بنا لینا کہ اگر سوال ہو جحد کسے کہتے ہیں؟ تو آپ کہیں گے: لغوی معنی انکار کرنا اور علمی اصطلاح میں اس کا معنی ہے صیغہ  مستقبل کے ساتھ کسی کام کے زمانہ ماضی میں واقع نہ ہونے کی خبر دینا، کہ یہ کام گزشتہ زمانے میں نہیں ہوا، یہ خبر دینا لیکن جو لفظ استعمال کرے وہ ماضی کے نہ کرے بلکہ مستقبل کے کرے، "جحد خبر دادنِ بواقع نشدن فعل است در زمان ماضى بلفظ مستقبِل" جیسے :لَمْ يَضْرِبْ یعنی اس ایک آدمی نے زمانہ ماضی میں نہیں مارا ،یضرب مستقبل ہے انشاءاللہ اگے ہم تفصیل بتائیں گے لیکن یہ خبر دے رہا ہے کہ گزشتہ زمانے میں اس نے کسی کو نہیں مارا، لَمْ يَضْرِبْ زید یعنی زید نہیں کسی کو نہیں مارا۔

10

نفی کی تعریف

 جحد اور نفی کے معنی کو صحیح سمجھنا ہے، نفی کیا ہے؟ "در لغت، برطرف كردن ونيست كردن را گويند" لغوی  معنی کیا ہے؟ برطرف کرنا ،فلاں نے فلاں کی نفی کر دی۔ لیکن یہاں پر مراد کیا ہے؟ «النَفْىُ هُوَ الْإخْبَارُ بعَدَمِ وُقُوع الْفِعْلِ فِى الزَمانِ الْمُسْتَقْبِل بِلَفْظِ الْمُسْتَقْبِلِ» یہاں پر مراد کچھ اور ہے یہاں مراد یہ ہے بڑا غور کرنا ہے کہ اگر پوچھا جائے کہ نفی کی اصطلاحی تعریف کیا ہے ؟ تو  جواب ہوگا لفظ مستقبل کے ساتھ کسی  کام کے آنے والے زمانے میں واقع نہ ہونے کی خبر دینا ۔

خلاصہ: پس جحد اور نفی میں فرق یہ ہے کہ جحد میں لفظ مستقبل کے ساتھ زمانہ ماضی میں کسی کام کے نہ ہونے کی خبر دینا جبکہ نفی  لفظ مستقبل کے ساتھ زمانہ  مستقبل میں کسی کام کے نہ ہونے کی خبر دینا ہے  مثلا لا یضرب  وہ ایک مرد نہیں مارے گا ۔

11

استفہام کی تعریف

استفہام کا لغوی معنی :

ایک اور  چیز جو  مصدر سے صادر ہوتی ہے  یا اس سے  نکلتی ہے وہ ہے استفہام ،استفہام  کا لغوی معنی ہوتا ہے "طلب فهم كردن" کسی سے پوچھنایا  بات کو سمجھنے کے لئے کسی سے سوال کرنا مثلا ہم کہتے ہیں  یار مجھے یہ بات سمجھاو ۔

استفہام کا اصطلاحٰی معنی:

 علمی اصطلاح میں (طَلَبُ الْمُتَكَلِّمِ مِنْ الْمُخَاطَبِ فَهْمَ الْفِعْلِ ) متکلم کا اپنے مخاطب سے فعل کی سمجھ کو طلب کرنا ،متکلم مخاطب سے کسی فعل کے سمجھنے  کو طلب کرتا ہے  مثلا کوی شخص کہتا ہے یار مجھے سمجھا یہ فعل ہوا ؟یا یہ فعل کیا ہوا؟ اس کو کہتے ہیں استفھام  ۔استفہام کرنے والے شخص کو متکلم اور جس سے پوچھا جاتا ہے اسے مخاطب کہیں گے۔

جیسے ایک شخص کہتا ہے هَلْ يَضْرِبُ، مثلا زید بکر سے پوچھتا ہے زید متکلم ہے بکر مخاطب ہے زید کہتا ہے هَلْ يَضْرِبُ

کیا وہ  مارے گا تواب یہ جو متکلم ہے بکر  سے پوچھتا ہے اس فعل کے بارے میں کیا یہ فعل اس شخص سے صادر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا  ۔ وصلی اللہ علی محمد وآلہ 

«اَلْمَصْدَرُ ما يَصْدُرُ عَنْهُ الْفِعْلُ أو شِبْهُهُ» يعنى : مصدر چيزى است كه صادر گرديده شود از او فعل چون : ضَرَبَ وَيَضْرِبُ و نَحْوهُمَا ، يا شبه فعل چون : ضارِبٌ ومَضْرُوبٌ و نحوهما.

اصل ، در لغت بيخ چيزى را گويند ؛ و در اصطلاح «اَلْأصْلُ ما يُبْنَى عَليْهِ شَيءٌ غَيْرُهُ» يعنى : اصل چيزى است كه بنا نهاده مى شود بر او چيزى غير آن ، چون پايه ديوار كه بنا مى شود بر او ديوار.

كَلٰام در لغت ، سخن گفتن را گويند. و در اصْطِلٰاح «الْكَلامُ مَا أفادَ الْمُسْتَمِعَ فائِدَةً تَامَّةً يَصِحُّ السُكُوتُ عَلَيْها» يعنى : كلام چيزى است كه فايده بدهد شنونده را فائده تامّى كه صحيح باشد سكوت بر او چون : زَيْدٌ قَائِمٌ ، يعنى زيد ايستاده است.

ماضى در لغت ، گذشته را گويند. و در اصطلاح «اَلْماضِى مَا مَضَىٰ وَقْتُهُ وَلَزِمَ أجَلُهُ» يعنى : ماضى چيزى است كه گذشته باشد وقت او و بسر آمده باشد اَجَل او مثل : ضَرَبَ ، يعنى بزد يك مرد.

مُسْتَقْبِل در لغت ، آينده را گويند. و در اصطلاح «الْمُسْتَقْبِلُ ما يُنْتَظَرُ وُقُوعُهُ وَلَمْ يَقَعْ» يعنى : مستقبل در اصطلاح چيزى است كه انتظار كشيده شود واقع شدن آن و هنوز واقع نشده باشد مثل : يضرب ، يعنى مى زند يك مرد.

اِسْمِ فاعِل در لغت ، كننده را گويند ، و در اصطلاح الْفَاعِلُ مَا صَدَرَ عَنْهُ الْفِعْلُ» يعنى : فاعل چيزى است كه صادر شود از او فعل

چون ضَارِبٌ ، يعنى اوست يك مرد زننده.

اِسْمِ مَفْعُول در لغت ، كرده شده را گويند ، و در اصطلاح «اَلْمَفْعُولُ مَا وَقَعَ عَلَيْهِ الْفِعْلُ» يعنى : مفعول چيزى است كه واقع بشود بر او فعل ، چون : مَضْرُوبٌ ، يعنى يك مرد زده شده.

اَمْر در لغت ، فرمودن را گويند. و در اصطلاح «اَلْأمْرُ طَلَبُ الْفِعْلِ مِمَّنْ هُوَ دُونَهُ عَلى سَبيلِ الاسْتِعْلاءِ» يعنى : امر طلب نمودن فعل است از كسى كه پست‌تر است از او بر سبيل طلب بلندى ، چون : اِضْرِبْ ، يعنى بزن تو يك مرد حاضر.

نَهى در لغت ، بازداشتن را گويند. و در اصْطِلٰاح «اَلنَهْىُ طَلَبُ تَرْكِ الْفِعلِ مِمَّنْ هُوَ دُونَهُ عَلىٰ سَبيلِ الْاسْتِعْلاءِ» يعنى : نهى طلب نمودنِ تركِ فعل است از كسى كه پست‌تر است از او بر سبيل طلب بلندى ، چون : لَا يَضْرِبْ ، يعنى بايد نزند آن يك مرد غايب.

جَحْد در لغت ، انكار كردن را گويند. و در اصطلاح «اَلْجَحْدُ هُوَ الْاِخْبَارُ بِعَدَمِ وُقُوعِ الْفِعْلِ فِى الزَمانِ الْمَاضِى بِلَفْظِ الْمُسْتَقْبِل» يعنى : جحد خبر دادنِ بواقع نشدن فعل است در زمان ماضى بلفظ مستقبِل ، چون : لَمْ يَضْرِبْ ، يعنى نزده است يك مرد غايب.

نفى در لغت ، برطرف كردن و نيست كردن را گويند. و در اصطلاح «النَفْىُ هُوَ الْإخْبَارُ بعَدَمِ وُقُوع الْفِعْلِ فِى الزَمانِ الْمُسْتَقْبِل بِلَفْظِ

الْمُسْتَقْبِلِ» يعنى نفى خبر دادن بواقع نشدن فعل است در زمان مستقبل بلفظ مستقبل ، چون : لَا يَضْرِبُ يعنى نمى زند او.

إسْتِفْهام در لغت ، طلب فهم كردن را گويند. و در إِصْطِلاح «اَلْاسْتِفْهَامُ هُوَ طَلَبُ الْمُتَكَلِّمِ مِنْ الْمُخَاطَبِ فَهْمَ الْفِعْلِ» يعنى : استفهام ، طلب كردن متكلم است از مخاطب ، فهميدنِ فعل را چون : هَلْ يَضْرِبُ ، يعنى آيا مى زند او ؟

[ ماضى ]

و از ماضى چهارده وجه باز مى‌گردد : شش مغايب را بود ، و شش مخاطب را ، و دو حكايت نفس متكلّم را.

آن شش كه مغايب را بود : سه مذكّر را بود و سه مؤنّث را.

آن سه كه مذكّر را بود : ضَرَبَ ، ضَرَبٰا ، ضَرَبُوا.

ضَرَبَ : يعنى زد او يك مرد غايب در زمان گذشته. صيغه مفرد مذكّر غايب است از فعل ماضى صحيح و ثُلاثى و مُجَرَّد و معلوم.

ضَرَبَ در اصل الضَّرْب بود ( مصدر بود ) خواستيم كه فعل بنا كنيم ، الف و لام مصدرى را از اولش انداختيم و راء و باء را فتحه داديم ضَرَبَ شد بر وزن فَعَلَ. ضاد ، فاء الفعل ، راء ، عين الفعل ، باء ، لام الفعل. ضمير هو در او مستتر است به استتار جايزى ، محلّاً مرفوع است تا فاعلش بوده باشد.