بسم الله الرحمن الرحيم 
"قال النبيّ ( صلّى الله عليه وآله وسلّم ) : «أوّل العلم معرفة الجبّار وآخر العلم تفويض الأمر إليه»"۔
مصنف نے کتاب کا آغاز حدیث نبوی سے کیا ہے کہ  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ذیشان ہے کہ علم کی ابتدا اللہ پاک کی معرفت حاصل کرنااور اس کی انتہا تمام امور کا اسی کے سپرد  اور اسی کو تفویض کرناہے ۔رہی یہ بات کہ تفویض کیا ہے تو یہ ایک علیحدہ موضوع ہے ان شاءاللہ  ہم اس کو کسی اور جگہ پر بیان کریں گے۔
(بدان كه هر آوازى كه بوده باشد آن را عرب صوت خواند)
لفظ کی تعریف
 آپ جان لیں کہ آواز  کو عربی زبان میں صوت کہتے ہیں البتہ فارسی میں آواز  ہی  کہتے ہیں ۔اور جو کچھ ہمارے منہ اور  زبان کے مخارج سے نکلتا ہے اسے لفظ کہتے ہیں (میں نے  بیان کیا ہے کہ جتنے بھی حروف تہجی ہیں ہر حرف کے ہمارے منہ سے نکلنے کا ایک خاص مقام ہے کہ کون سا حرف کہاں سے نکلتا ہے اس کو کہتے ہیں  مخرج فم ) میں نے آپ کو آسان سی مثال دی ہے کہ علم ایک آواز ہے جو آپ کے کان سے ٹکرائی ہے اور ایک ہے تین حروف(ع ل م) کا مجموعہ اس مجموعے کو کہتے ہیں لفظ۔
لفظ کی اقسام 
"و لفظ بر دو قسم است مُهْمَل و مُسْتَعْمَل ؛ مهمل آن است كه آن را معنى نباشد"
مہمل اس کو کہتے ہیں جس میں  حروف تو ہوں لیکن اس کا کوئی معنی نہ ہو جیسے  ایک شخص  کا نام ہے زید آپ اس کو الٹا کر کے کہہ دیں دیز اب دیز ایسا لفظ ہے جس کا کوئٰ معنی نہیں ہے جبکہ زید کہیں گے تو اس کا معنی ہے اس سے وہ شخص سمجھ آئے گا کہ جس کا یہ نام ہے۔ "و مستعمل آن است كه آن را معنى باشد"مستعمل وہ لفظ ہے کہ جس کا کوئ  معنی ہو  ۔جیسے  زَيْد،ضرب اور سوف ۔ زید اسم کی مثال ضرب فعل کی مثال اور سوف حرف کی مثال   ہے۔
کلمہ اور اسکی اقسام
"و لفظ مستعمل را كلمه گويند"  لفظ مستعمل کو کلمہ کہتے ہیں،  "و كلمه بر سه قسم است"  کلمہ کی تین قسمیں ہیں "اسم است و فعل است و حرف" اسم ،فعل اورحرف "و اسم بر دو قسم است" اسم کی دو قسمیں ہیں : "مصدر و غير مصدر"  میں نے آپ کو ابتدا میں کہا چونکہ آج آپ علم صرف  کی ابتدا کر رہے ہیں   لھذابہت ساری باتیں  ہم عمدا  فی ا لحال چھوڑرہے ہیں  ان  شاءاللہ جب آپ  اگلی کتابوں میں جائیں گے تو آہستہ آہستہ ان کی   مزید وضاحت  کی جائے گی ۔اب تک ہم نے یہ پڑھا ہے کہ لفظ کی دو قسمیں  ہیں مستعمل اورمہمل ،لفظ مستعمل کو کلمہ کہتے ہیں جس کی تین قسمیں ہیں اسم فعل اور حرف، اورپھراسم کی دو قسمیں ہیں : مصدر و غیر مصدر۔
مصدر کیا ہے؟
"مصدر آن است كه در آخر وى به فارسى تا و نون ، يا دال و نون باشد" مصدر وہ ہے  کہ جس کے فارسی   ترجمے میں آخر میں تا اور نون ، يا دال اور نون آئے  اور  اردو ترجمے  میں   ’’نا‘‘  آئے جیسےالقتل یہ عربی  کا لفظ ہے اس کا  فارسی ترجمہ ہے  کشتن    اور اردو  ترجمہ ہے  قتل کرنا اسی طرح  الضرب فارسی میں زدن اور اردو میں مارنا ہے۔
 "بدان كه مصدر اصل كلام است"  فرماتے ہیں کہ مصدر کلام کی اصل ، بنیاد اورجڑ ہے  "و از وى نه وجه باز مىگردد :ماضى ، مستقبل ، اسم فاعل ، اسم مفعول ، امر ، نهى ، جحد ، نفى و استفهام" کہ جس  سے  ماضی ،مستقبل ،اسم فاعل، اسم مفعول، امر ،نہی، جحد،نفی اور استفہام مشتق  ہوتے ہیں   انشاءاللہ ہم اسی کتاب میں ہر ایک کو تفصیل سے پڑھیں گے۔  چونکہ مصنف نے پیچھے کہا ہے کہ مصدر کلام کی  اصل اور بنیاد ہے تو اب یہاں پر  مصدر ،کلام اور اصل کے ان تینوں الفاظ کی  وضاحت کرتے ہیں ۔ چونکہ بعض عربی الفاظ کا ایک لغوی معنی ہوتا ہے اور ایک اصطلاحی معنی اور عین  ممکن ہے کہ لغوی معنی کچھ اور ہو جبکہ اصطلاحی  معنی کچھ اور  ہو اس لیے اب ان کی وضاحت کر رہے ہیں فرماتے ہیں "مصدر در لغت «بازگشتنگاهِ اِبِل و غَنَم را گویند" مصدر کا لغوی معنی  بھیڑ بکریوں اور اونٹوں کے واپس لوٹ کر  آنے کی جگہ ہے۔ "والمصدر ما یصدر عنہ الفعل او شبہہ" جبکہ علمی اصطلاح میں مصدر وہ ہے جس سے فعل یا شبہ فعل   مشتق ہوتا ہو،جیسے مصدر الضرب  سے ضرب  اور یضرب جیسے افعال اور  ضارب ومضروب  جیسے  شبہ فعل مشتق ہوتے ہیں ۔
اصل کیا ہے؟
آپ نے کہا ہے کہ مصدر اصل کلام ہےتو  یہاں  اصل کا مطلب کیا ہے؟ (اصل در لغت بیخ چیزی را گویند) اصل کا لغوی معنی ہوتا ہے کسی بھی چیز کی بیخ، بنیادیا جڑ  کو کہتے ہیں جبکہ  علمی اصطلاح میں فرماتے ہیں"اَلْأصْلُ ما يُبْنَى عَليْهِ شَيءٌ غَيْرُهُ" اصل وہ ہے کہ جس پر کسی دوسری  چیز کی بنیاد ہو ۔ جیسے ہم دیوار کی پہلے ایک بنیاد رکھتے ہیں جو  لمبی چوڑی ہوتی ہے لیکن اوپر ہم فقط نو انچ کی دیوار  کھڑی کرتے ہیں ۔
کلام کیا ہے؟
تیسرا لفظ تھا کلام ،کلام کیا ہے؟  اردوزبان  میں  کلام کا معنی ہے بات کرنا ، لیکن کلام سے  ہماری مراد کیا ہے ؟ ہم کس  بات کو کلام کہتے ہیں  "مَا أفادَ الْمُسْتَمِعَ فائِدَةً تَامَّةً يَصِحُّ السُكُوتُ عَلَيْها"  ہر بات کو ہم کلام نہیں کہتے ہم اس کو کلام کہتے ہیں جو سننے والے کو پورا فائدہ  پہنچائے یعنی بات کرنے والے نے جو بات کی ہے وہ سننے والے کو پوری طرح سمجھ آ جاےاور بات کرنے  والے کے  لیے وہاں خاموش ہو جانا صحیح ہو یعنی  اب اگر وہ مزید کوئی بات نہیں کرتا تو سننے والا اس سے کسی سوال کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا ہم ایسی بات  کو کلام کہتے ہیں ہر بات کو نہیں ۔جیسے ایک شخص کہتا ہے زید کھڑا ہے۔
خلاصہ 
حروف کےمجموعے کولفظ  کہتے ہیں میں نے آپ کو آسان مثال دی ہے کہ 'علم' ایک آواز ہے جو آپ کے کان سے ٹکرائی ہے اور ایک ہے تین حروف کا مجموعہ اس مجموعے کو کہتے ہیں لفظ ،لفظ کی دو قسمیں ہیں مہمل اور  مستعمل مہمل اس کو کہتے ہیں جس کا لفظ تو ہو  لیکن اس کا کوئی معنی نہ ہو جیسے کسی بندے کا نام ہے زید آ پ اس کو الٹا کر کے کہہ دیں دیز، دیز ایسا لفظ ہے جس کا کوی معنی نہیں ہے جبکہ زید کہیں گے تو اس کا معنی ہے اس سے ایک شخص سمجھ میں آے گا کہ یہ فلاں کی بات کر رہے ہیں ۔
اور مستعمل اسے کہتے ہیں جس کا کوی معنی ہو جیسے زید ۔ مصدر کلام کی اصل اور بنیاد ہے فعل ماضی فعل مضارع اسم فاعل اسم مفعول اس کی شاخیں ہیں اصل مصدر ہے باقی چیزیں اس سے بنتی ہیں مصدر سے نو چیزیں مشتق ہوتی ہیں  ماضی ،مستقبل ،اسم فاعل، اسم مفعول، امر ونہی ہر ایک کے بارے میں ان شااللہ ہم اسی کتاب میں آگے  پڑھیں گے ماضی کیا ہے ؟مستقبل کیا ہے؟ اسم فاعل کی پوری تفصیل ان شاءاللہ   آگے آۓ گی۔
  مصنف نے پیچھے کہا ہے کہ مصدر اصل کلام ہے مصدر کلام کی بنیاد ہے  انہوں نے کہا مصدر اصل اور کلام یہ تین لفظ ہیں ہر لفظ کے آگے وضاحت کر رہے ہیں کہ مصدر کسے کہتے ہیں؟ اصل سے مراد کیا ہے ؟اور کلام سے مراد کیا ہے ؟کیوں کہ  عربی الفاظ کے دو معانی ہوتے ہیں  ایک لغوی  اور ایک اصطلاحی معنی  ممکن ہے لغوی معنی کوئی اور ہو لیکن علمی اصطلاح میں وہ لغوی معنی میں استعمال نہ ہوتا ہو بلکہ کسی اور معنی میں استعمال ہوتا ہو اس لیے اب ان کی وضاحت کر رہے ہیں فرماتے ہیں مصدر لغت  میں اونٹ اور بھیڑ بکری کے واپس لوٹ آنے کی جگہ ہے ۔
"الضرب" مصدر ہے ضارب اسم فاعل وہ اسی مصدر سے مشتق ہوا ہے اسی طرح "مضروب" بھی اسی مصدر  سے بنا  ہے آگے ان شاءاللہ ہم وضاحت کریں گے ۔   ۔ وصلی اللہ علی محمد وآلہ