درس شرح امثلہ

درس نمبر 1: کچھ اصطلاحوں کی تعریف 1

 
1

خطبہ

2

حرف آغاز

بسم الله الرحمن الرحيم

حرف آغاز

"قال النبيّ صلّى الله عليه وآله وسلّم : «أوّل العلم معرفة الجبّار وآخر العلم تفويض الأمر إليه»"۔

قرآن مجید اور احادیث نبویہ کو سمجھنے کے لئے ہمیں بہت سارے علوم کی ضرورت ہے ، جب تک  ان علوم پر ہماری  کافی حد تک دسترس نہ ہو ،ہم نہ تو قرآن کو سمجھ سکتے ہیں  نہ ہی حدیث کو۔قرآن مجید عربی زبان میں ہے ،احادیث  بھی عربی زبان میں ہیں ہر زبان کے اپنے کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں ،اگر ان  قواعد و ضوابط سے ہم واقف ہوں گے تو ہم اس زبان  سے وہ  کچھ سمجھ سکیں گے جو متکلم ہمیں سمجھانا چاہتا ہے اور اگر اس زبان کے قواعد سے ہم  واقف نہیں ہونگے  تو  عین ممکن ہے کہ کہنے والا کچھ اور کہنا چاہتا ہو  جبکہ  ہم اس سے کچھ اور سمجھ بیٹھیں ۔حوزہ  ہائےعلمیہ میں جو  علوم  پڑھائے جاتے ہیں ان سب کی غرض و غایت قرآن وحدیث کو سمجھنا ہوتا ہے ،کیوں ؟  اس    لئے کہ  قر آن وحدیث ہی  دین مبین اسلام کے اصلی  منابع ومآخذ ہیں  کہ جن کو سمجھنے کے لیے ہمیں  صرف ، نحو ،منطق ،معانی  بیان ، لغت اوراصول وغیرہ جیسے بہت سے علوم سے آگاہی حاصل کرنا پڑ تی ہے۔

 آج ہم جس علم کی کتاب  پڑھنے کا آغاز کر رہے ہیں وہ ہے علم صرف۔ چونکہ ہم سال اول کے طلباء وطالبات کے لئے یہ درس  شروع   کررہے ہیں یا ان لوگوں  کے لئیے  جو کسی وجہ سے مدارس دینیہ میں باقاعدہ  داخلہ نہیں لے سکتے  یا جاب کرتے ہیں   اور چاہتے ہیں کہ ان علوم کو حاصل کریں تو ہماری کوشش  ہے کہ ہم ان کے لیے ابتدا سے ہی یہ ساری کتابیں محفوظ کر لیں تاکہ وہ  گھر بیٹھے اپنی علمی تشنگی کو کسی حد تک بجھا سکیں، اللہ پاک ہمیں توفیق دے گا ،انشاءاللہ ہم کوشش کریں گے کہ   مدارس دینیہ میں پڑھایا جانے والا نصاب  اردو  زبان میں  ریکارڈ کر کے گھر گھر پہنچا سکیں۔

 آج جس کتاب کو ہم شروع کر رہے ہیں یہ علم صرف کی ابتدائی کتاب ہے۔صرف کا لغوی معنی ہوتا ہے کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت میں پھیرنا یا  تبدیل کرنا، لیکن یہاں ہماری مراد ایک  کلمہ یا لفظ کو مختلف صیغوں میں پھیرنا یا تبدیل کرنا ہے تاکہ اس سے مختلف معانی حاصل کر سکیں ۔مثلا  علم تین حرفوں  (ع ل م ) پر مشتمل ایک لفظ ہے  ہم دیکھتے ہیں کہ کہیں پر لکھا ہوتا ہے’’ عالم ‘‘ مثلا  اللہ عالم ہے  کہیں ہوتا ہے ’’ معلوم ‘‘  قرآن مجید میں  اس کے بہت سارے شواہد  موجود  ہیں کہیں  پر ﴿يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ  آیا ہے    اصل  میں تو وہی تین حرف تھے  عین ل اور م لیکن کہیں پر ہم نے  عالم پڑھا کہیں معلوم پڑھا کہیں یعلم  پڑھا کہیں علماء پڑھا ،پس وہ علم  جو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ  لفظ علم سے عالم کیسے بنتا ہے ؟اس  سے معلوم کیسے بنتا ہے؟ کہاں پر  عالمات ہے اور کہاں یعلم اس کا نام علم صرف ہے  ۔

علم صرف کی ابتدائی کتب میں پہلے صرف بہائی ہوا کرتی تھی  آج کل  حوزہ علمیہ سے ایک نئی کتاب جامع المقدمات کے نام سے چھپ  کرآئی ہے اس کتاب میں   امثلہ  پھرشرح امثلہ، صرف میر وغیرہ  ہیں  پاکستان میں بھی  علم صرف کی بہت ساری کتابیں پڑھائی جاتی تھیں مثلا  صرف بہائی، صرف میر، پنج گنج  اور علم الصیغہ  ساری فارسی میں تھیں  شافیہ علم صرف کی کتاب تھی اب جوں جوں زمانہ ماڈرن ہوتا جا رہا ہے تو شارٹ کٹ کے چکر میں بہت ساری کتابیں  متروک ہوتی جا رہی ہیں اور کم سے کم پر اکتفا کیا جا رہا ہے تا کہ جلدی سے جلدی پڑھ جائیں ۔ہم دیکھتے کہ صرف میر کے بعد زیادہ سے زیادہ کہیں تصریف پڑھاتے ہیں ورنہ بہت ساری جو علمی کتابیں تھیں ان کو چھوڑ دیا گیا ہے ہمارے منصوبے میں ہے انشاءاللہ اللہ پاک کی توفیق سے ہم ان کتابوں کو بھی ضرور پڑھیں گے کہ جو اب متروک ہو رہی ہیں تاکہ کم از کم وہ باقی رہیں کوئی پڑھنے والا کوئی باذوق آئے گا تو اس کے لیے ایک ماحول میسر ہو سکے گا۔

 آپ حضرات جو ابھی ابتدا کر رہے ہیں گویا آپ آج دینی مدرسے میں داخل ہوئے اور آج علم صرف کاپہلا درس پڑھنا چاہتے ہیں اس کے لیے اپ سے گزارش یہ ہے کہ ایک کتاب ہے جامع المقدمات پاکستان میں بھی جہاں مدارس کی دینی کتب ملتی ہیں  وہاں میسر ہے اب اس کے بہت سارے حصے اردو میں بھی ترجمہ ہو چکے ہیں وہ آپ لے لیں اسے آپ جونہی کھولیں گے توابتدا ہی میں پہلے ہے امثلہ  دو تین صفحے ہیں اس کو ہم نے جان بوجھ کے چھوڑ دیا ہے اس کے بعد اس کی تشریح ہے  شرح امثلہ آپ شرح امثلہ کو کھول کر اپنے سامنے رکھ لیں ہم نے آج جو کتاب شروع کرنی ہے وہ شرح امثلہ ہے ،ہم نے اردو کی بجائے فارسی کا انتخاب اس لئے کیا ہے چونکہ اس کےبعد صرف میر بھی  فارسی میں ہے تاکہ  آپ کو تھوڑی بہت فارسی زبان سے بھی آگاہی ہوجائے ۔ ہم ابھی جوکتاب شروع کررہے ہیں وہ ہے شرح امثلہ۔  جامع المقدمات  آپ کہیں سے بھی لے لیں جو  بچے  دینی مدارس مٰیں ہیں وہاں تو یہ کتاب موجود ہو گی جو مدارس میں نہٰیں ہیں لیکن وہ پڑھنا چاہتے ہیں توجہاں سے مدارس کی کتب ملتی ہیں وہاں سےلے لیں اور اسے سامنے رکھ لیں ۔ان شا ءاللہ اس کے چند درس ہونگے اس کے بعد ہم معروف کتاب صرف میر شروع کریں گے اورپھر اس کے بعد دوسری کتابیں۔

3

کچھ اصطلاحوں کی تعریف

شرح امثلہ 

شروع ہی یہاں سے فرما رہے ہیں کہ ایک ہوتی ہے آواز اور ایک ہوتا ہے لفظ ،  ہماری  آواز جس کو عربی میں صوت کہتے ہیں جیسے آپ کہتے ہیں فلاں کی آواز بڑی اچھی ہے، فلاں کی آواز بڑی خراب ہے عربی میں اس کے لیے لفظ صوت استعمال ہوتا ہے لیکن اس احوال میں جو الفاظ بولے جاتے ہیں جو کلمات بولے جاتے ہیں مثلا کہ ایک شخص کہتا ہے ﴿بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ اب ایک اواز ہے اور ایک ہیں وہ الفاظ میم لفظ اللہ لفظ الرحمن لفظ الرحیم یہ ہیں الفاظ  ۔ ہمارا جو حصہ قرات و تجوید کا ہے انشاءاللہ وہاں بھی آپ چلے جائیں  وہاں آپ کو بتایا جاے گا کہ جتنے بھی عربی حروف ہیں الف ب ت ث و۔۔۔ یہ حروف تہجی  ان سب کی ادائیگی کا ایک خاص طریقہ ہوتا ہے ، ہر لفظ ایک ہی جگہ سے ادا نہیں ہوتا  مثلا حرف الف   کہاں سے ادا ہوتا ہے ،حرف  ب کہاں سے نکلتا ہے، ت  کہاں سے نکلتا ہے، ث   کہاں سے نکلتا ہے تو یہ وہاں بیان کیا گیا ہے ان کو کہتے ہیں مخارج  یعنی جو  ہمارے منہ کے جس حصے سے نکلتا ہے وہ حصہ اس کا مخرج کہا جاتا ہے کہ فلاں حرف کا مخرج یہ ہے فلاں کا یہ ہے کسی کا حلق ہے کسی کا زبان کی نوک ہے کسی کا دانتوں کے درمیان ہے کسی کا تالو کے ساتھ لگانا ہے الی آخرہ  یہ ساری چیزیں انشاءاللہ آپ کو وہاں ملیں گی۔

  حروف کے مجموعے کو کہتے ہیں لفظ جو حروف سے مل کر بنتا ہے جیسے میں نےآپ کو بتایا نا "علم" عین ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے میم ایک حرف ہے اب یہ تین حرف جب اکٹھے ہم نے   کیے تو بنا  علم،  ہم نے کہا کہ یہ ہے لفظ ، لفظ کی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک کو کہتے مہمل  اور ایک کو کہتے ہیں  مستعمل  ،ان دونوں میں کیا فرق ہوتا ہے؟ وہ لفظ جس کا کوئی معنی نہ ہو اس کو کہتے ہیں مہمل اور جس لفظ کا کوئی معنی ہو اس کو کہتے ہیں لفظ مستعمل ۔

مہمل الفاظ   ہماری اردو  زبان میں بھی بہت استعمال ہوتے ہیں جیسے آپ کہتے ہیں جناب کوئی روٹی ووٹی  کھائیں گے چلو روٹی کی تو  سمجھ آگئی یہ ووٹی کیا ہوتا ہے ؟ اس قسم کے بہت سارے الفاظ ہر زبان میں استعمال ہوتے ہیں  یہ لفظ ہیں باقاعدہ حروف سے مرکب ہیں لیکن ان کا کوئی معنی نہیں ہوتا تو پس ایک سطر اب یہاں یادکرتے  ہیں کہ جو لفظ کوئی معنی نہ رکھتا ہو اسے لفظ مہمل کہتے ہیں،جو لفظ کوئی معنی رکھتا ہو اسے مستعمل کہتے ہیں ،اب ایک نکتہ یہاں ختم ہوگیا۔اب اس کے بعد آگے چلیں یہ لفظ جو مستعمل کہلاتا ہے   جس کا کوئی معنی ہوتا ہے  اسے کہتے  ہیں  کلمہ ۔

کلمہ کی تین قسمیں ہیں : ایک کو کہتے ہیں اسم ،ایک کو کہتے ہیں فعل اور ایک کو کہتے ہیں حرف ،

اب ایک سطر  یہاں پر آپ نے یاد کرنی ہے وہ یہ  کہ اگر سوال ہو  کلمہ کی کتنی قسمیں ہیں ؟ تو ہمارا جواب ہوگا کلمہ کی تین قسمیں ہیں پہلے مرحلے پر یا اسم ہوگا یا فعل ہوگا یا حرف ہوگا آگے ان شاءاللہ تفصیل سے بتاتے ہیں ۔ یہ اسم اردو میں ہم کہتے ہیں نام کسی شئ  کا نام ،اسم   کی دو قسمیں  ہیں  ایک ہوتا ہے مصدر اور ایک ہوتا ہے غیر مصدر ۔

 مصدر( میم، ص، دال، ر ) ہے یہ لکھا ہوا ہے کتاب آپ سامنے رکھیں گے تو آپ کو سمجھ آجائے گی کون سا اسم "مصدر" کہلاتا ہے اب اگر آپ سے پوچھا جائے کہ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ یہ مصدر ہے ؟ تو جواب کہ اگر آپ اس عربی لفظ کا فارسی میں  ترجمہ کرتے ہیں اگر اس کے  آخر میں تا ،نون یا دال و نون ہے تو وہ مصدر ہوگا اور اردو میں  نا۔   مثال ایک اسم ہے وہ ہے "القتل" اگر القتل ہم سے پوچھا جائے کیا ہے؟ آپ جواب میں کہیں گے مصدر ہے جناب آپ نے کہاں سے پہچانا کہ یہ مصدر ہے جواب ہو گااس      لیے کہ القتل کا فارسی میں ترجمہ ہوتا ہے کشتن اور القتل کا اردو میں ترجمہ ہوتا ہے قتل کرنا۔" الضرب" ہم کہتے ہیں یہ مصدر ہے کیوں  ہم جب اس کا اردو ترجمہ کرتے ہیں تو الضرب اس کا مصدر ہے مارنا۔ "الشرب"  اردو میں ترجمہ ہے  پینا۔ "الاکل" اردو میں ترجمہ ہے کھانا تو اب اس کو یاد کر لینا ہے اب یہ بات یہاں ختم ہو گئی کہ  اسم کی دو قسمیں ہیں ایک ہوتا ہے مصدر ایک ہے غیر مصدر۔ جو مصدر ہوتا ہے اس کی پہچان یہ ہے کہ ہم اگر اس کا اردو میں ترجمہ کریں تو اس کے آخر میں نون  آئے نون الف نا فارسی میں کریں گے تو اس کے آخر میں تانون یادال و نون آئے گا۔

 اب یہاں ایک اور نکتہ  ،وہ نکتہ  یہ ہے ( انشاءاللہ آگے ایک بحث ہماری آئے گی فی الحال ہم اس کو نہیں چیھڑتے چونکہ آج ظاہر ہے آپ ابھی ابتدا کر رہے ہیں) ایک بحث ہے کہ کیا مصدر اصل ہے یہ فعل اصل ہے؟ یہ کہ کسی بھی کلام میں مصدر اصل ہوتا ہے یعنی مصدر سے چیزیں بنتی ہیں مصدر ہی  سے ان شاءاللہ آگے ہم بتائیں گے ماضی بنتا ہے مستقبل بنتا ہے فاعل بنتا ہے مفعول بنتا ہے سارے انشاءاللہ تفصیل میں ہم بتائیں گے۔

 مصدر عربی زبان  کا لفظ ہے اس کا لغت میں (منجد میں) آپ دیکھیں  گے تو اس کا جو معنی لکھا ہوگا وہ : بھیڑ بکریوں کا یا اونٹوں کا جہاں وہ چرنے پھرنے کے بعد اپنا گھاس پھوس کھانے کے بعد واپس آ کر جہاں وہ بیٹھتے ہیں جہاں وہ قیام کرتے ہیں ،لغت میں تو مصدر اس کو کہا جاتا ہے لیکن ہم جو بات کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ یہاں ہمارا موضوع  بحث جوعلم صرف  میں ہےمصدر کا وہ یہ "اَلْمَصْدَرُ ما يَصْدُرُ عَنْهُ الْفِعْلُ أو شِبْهُهُ" مصدروہ جو ہے جس سے فعل یا شبہ فعل  صادر ہو۔

انشاءاللہ آگے بتائیں گے کہ مصدر وہ ہے جس سے فعل بنتا ہے مصدر وہ ہے کہ جس سے فاعل بنتا ہے مصدر وہ ہے کہ جس سے مفعول بنتا ہے مصدر وہ ہے کہ جس سے نفی و استفام بنتے ہیں ان شاءاللہ آگے ہم تفصیل سے بتایں گے کہ  مصدر وہ ہے کہ جس سے چیزیں نکلتی ہیں پھوٹتی ہیں وہ مرکز ہوتا ہے اور باقی ہیں  اس کی  شاخیں ہوتی ہیں انشاءاللہ آگے ہم اس کو تفصیل سے بتائیں گے ۔

 اب یہاں پر ایک لفظ استعمال ہوا ہے کہ مصدر کلام میں اصل ہے، کلام بھی عربی زبان  کا لفظ ہے ، میں نے  آپ کو گزارش کر دیا کہ مصدر کالغوی ڈیکشنری میں اسکا معنی تو ہوتا ہے  وہ جگہ جہاں اونٹ اور  بھیڑ بکریاں چرنے کے بعد واپس لوٹ آتے ہیں  لیکن ہماری مراد وہ  لغوی معنی نہیں ہے ہماری مراد  یہ ہے جس سے فعل ،شبہ فعل ، اسم فاعل، اسم مفعول  ،نفی  اور جحد جس سےمشتق ہوتے  ہوں  یا نکلتے ہوں اسے مصدر کہتے ہیں۔

آپ نے کہا( مصدر اصل کلام است )یہ اصل کیا ہوتا ہے ؟ اصل کالغوی معنی ہوتا ہے بنیاد  یا جڑ  ۔لیکن ہماری مراد کیا ہے یہاں اصل سے ہماری مراد ہے اصل  "اَلْأصْلُ ما يُبْنَى عَليْهِ شَيءٌ غَيْرُهُ" کہ جس کے اوپر کسی اور شے کی بنیاد رکھی جائے چونکہ اصل مسئلہ ہے اب اس مصدر سے کبھی ہم  ماضی بنائیں گے کبھی مضارع بناءیں گے کبھی اسم فاعل بنائیں گے کبھی فلاں بنیں گے وغیرہ وغیرہ مصدر کلام میں اصل ہے اصل کا معنی بھی سمجھ آگیا مصدر کا ۔

 کلام کسے کہتے ہیں ؟ کلام کا لغوی معنی ہے بات کرنا  لیکن یہاں مراد کیا ہے؟ یہاں مراد ہے:  "مَا أفادَ الْمُسْتَمِعَ فائِدَةً تَامَّةً يَصِحُّ السُكُوتُ عَلَيْها" اب یہ ہمارے عام معاشرے اردو معاشرے  میں ہوتا ہے بعض اوقات کہتے ہیں بندے نے بات تو کی ہے مجھے سمجھ کوئی نہیں بعض بندہ بات کرتے ہیں ایک جملہ کہے تو آپ کہتے ہیں یار اگلی بات کر رہا تھا کہ پتہ بھی چلے آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ہوتی وہ بھی بات ہے اور بسا اوقات انسان بات کرتا ہے لیکن سننے والے کو بالکل سمجھ آجاتی ہے وہ خاموش ہو بھی جائے تو مزید اس کو کسی چیز کے سوال کی ضرورت نہیں رہتی عربی والے کلام اس بات کو کہتے ہیں کہ جو سننے والے کو پورا فائدہ دے کہ سننے والے کو بات سمجھ ا جائے اور اگر یہ خاموش ہو جائے بات کرنے والا تو سننے والے کو کسی سوال کی ضرورت تھی نہ پڑے یہ اس کو کلام کہتے ہیں اب اس کا مطلب ہے کہ بندے نے بات کی ہے کسی کو کوئی سمجھ نہیں آئی عربی اس کوکلام نہیں کہتےہیں۔ یا اگر اسنے ایک بات کی ہے لیکن بات  کی ادھوری سننے والے کو پھر مزید اس سے پوچھنا پڑتا ہے بھئی اگلی بات کر تاکہ پتہ چلے 

اس کو کلام نہیں کہتے ہیں  عربی کلام اس کو کہتے ہیں ۔

4

عبارت کا ترجمہ

بسم الله الرحمن الرحيم 

"قال النبيّ ( صلّى الله عليه وآله وسلّم ) : «أوّل العلم معرفة الجبّار وآخر العلم تفويض الأمر إليه»"۔

مصنف نے کتاب کا آغاز حدیث نبوی سے کیا ہے کہ  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ذیشان ہے کہ علم کی ابتدا اللہ پاک کی معرفت حاصل کرنااور اس کی انتہا تمام امور کا اسی کے سپرد  اور اسی کو تفویض کرناہے ۔رہی یہ بات کہ تفویض کیا ہے تو یہ ایک علیحدہ موضوع ہے ان شاءاللہ  ہم اس کو کسی اور جگہ پر بیان کریں گے۔

(بدان كه هر آوازى كه بوده باشد آن را عرب صوت خواند)

لفظ کی تعریف

 آپ جان لیں کہ آواز  کو عربی زبان میں صوت کہتے ہیں البتہ فارسی میں آواز  ہی  کہتے ہیں ۔اور جو کچھ ہمارے منہ اور  زبان کے مخارج سے نکلتا ہے اسے لفظ کہتے ہیں (میں نے  بیان کیا ہے کہ جتنے بھی حروف تہجی ہیں ہر حرف کے ہمارے منہ سے نکلنے کا ایک خاص مقام ہے کہ کون سا حرف کہاں سے نکلتا ہے اس کو کہتے ہیں  مخرج فم ) میں نے آپ کو آسان سی مثال دی ہے کہ علم ایک آواز ہے جو آپ کے کان سے ٹکرائی ہے اور ایک ہے تین حروف(ع ل م) کا مجموعہ اس مجموعے کو کہتے ہیں لفظ۔

لفظ کی اقسام 

"و لفظ بر دو قسم است مُهْمَل و مُسْتَعْمَل ؛ مهمل آن است كه آن را معنى نباشد"

مہمل اس کو کہتے ہیں جس میں  حروف تو ہوں لیکن اس کا کوئی معنی نہ ہو جیسے  ایک شخص  کا نام ہے زید آپ اس کو الٹا کر کے کہہ دیں دیز اب دیز ایسا لفظ ہے جس کا کوئٰ معنی نہیں ہے جبکہ زید کہیں گے تو اس کا معنی ہے اس سے وہ شخص سمجھ آئے گا کہ جس کا یہ نام ہے۔ "و مستعمل آن است كه آن را معنى باشد"مستعمل وہ لفظ ہے کہ جس کا کوئ  معنی ہو  ۔جیسے  زَيْد،ضرب اور سوف ۔ زید اسم کی مثال ضرب فعل کی مثال اور سوف حرف کی مثال   ہے۔

کلمہ اور اسکی اقسام

"و لفظ مستعمل را كلمه گويند لفظ مستعمل کو کلمہ کہتے ہیں،  "و كلمه بر سه قسم است"  کلمہ کی تین قسمیں ہیں "اسم است و فعل است و حرف" اسم ،فعل اورحرف "و اسم بر دو قسم استاسم کی دو قسمیں ہیں : "مصدر و غير مصدر میں نے آپ کو ابتدا میں کہا چونکہ آج آپ علم صرف  کی ابتدا کر رہے ہیں   لھذابہت ساری باتیں  ہم عمدا  فی ا لحال چھوڑرہے ہیں  ان  شاءاللہ جب آپ  اگلی کتابوں میں جائیں گے تو آہستہ آہستہ ان کی   مزید وضاحت  کی جائے گی ۔اب تک ہم نے یہ پڑھا ہے کہ لفظ کی دو قسمیں  ہیں مستعمل اورمہمل ،لفظ مستعمل کو کلمہ کہتے ہیں جس کی تین قسمیں ہیں اسم فعل اور حرف، اورپھراسم کی دو قسمیں ہیں : مصدر و غیر مصدر۔

مصدر کیا ہے؟

"مصدر آن است كه در آخر وى به فارسى تا و نون ، يا دال و نون باشدمصدر وہ ہے  کہ جس کے فارسی   ترجمے میں آخر میں تا اور نون ، يا دال اور نون آئے  اور  اردو ترجمے  میں   ’’نا‘‘  آئے جیسےالقتل یہ عربی  کا لفظ ہے اس کا  فارسی ترجمہ ہے  کشتن    اور اردو  ترجمہ ہے  قتل کرنا اسی طرح  الضرب فارسی میں زدن اور اردو میں مارنا ہے۔

 "بدان كه مصدر اصل كلام است فرماتے ہیں کہ مصدر کلام کی اصل ، بنیاد اورجڑ ہے  "و از وى نه وجه باز مى‌گردد :ماضى ، مستقبل ، اسم فاعل ، اسم مفعول ، امر ، نهى ، جحد ، نفى و استفهامکہ جس  سے  ماضی ،مستقبل ،اسم فاعل، اسم مفعول، امر ،نہی، جحد،نفی اور استفہام مشتق  ہوتے ہیں   انشاءاللہ ہم اسی کتاب میں ہر ایک کو تفصیل سے پڑھیں گے۔  چونکہ مصنف نے پیچھے کہا ہے کہ مصدر کلام کی  اصل اور بنیاد ہے تو اب یہاں پر  مصدر ،کلام اور اصل کے ان تینوں الفاظ کی  وضاحت کرتے ہیں ۔ چونکہ بعض عربی الفاظ کا ایک لغوی معنی ہوتا ہے اور ایک اصطلاحی معنی اور عین  ممکن ہے کہ لغوی معنی کچھ اور ہو جبکہ اصطلاحی  معنی کچھ اور  ہو اس لیے اب ان کی وضاحت کر رہے ہیں فرماتے ہیں "مصدر در لغت «بازگشتنگاهِ اِبِل و غَنَم را گویندمصدر کا لغوی معنی  بھیڑ بکریوں اور اونٹوں کے واپس لوٹ کر  آنے کی جگہ ہے۔ "والمصدر ما یصدر عنہ الفعل او شبہہجبکہ علمی اصطلاح میں مصدر وہ ہے جس سے فعل یا شبہ فعل   مشتق ہوتا ہو،جیسے مصدر الضرب  سے ضرب  اور یضرب جیسے افعال اور  ضارب ومضروب  جیسے  شبہ فعل مشتق ہوتے ہیں ۔

اصل کیا ہے؟

آپ نے کہا ہے کہ مصدر اصل کلام ہےتو  یہاں  اصل کا مطلب کیا ہے؟ (اصل در لغت بیخ چیزی را گویند) اصل کا لغوی معنی ہوتا ہے کسی بھی چیز کی بیخ، بنیادیا جڑ  کو کہتے ہیں جبکہ  علمی اصطلاح میں فرماتے ہیں"اَلْأصْلُ ما يُبْنَى عَليْهِ شَيءٌ غَيْرُهُ" اصل وہ ہے کہ جس پر کسی دوسری  چیز کی بنیاد ہو ۔ جیسے ہم دیوار کی پہلے ایک بنیاد رکھتے ہیں جو  لمبی چوڑی ہوتی ہے لیکن اوپر ہم فقط نو انچ کی دیوار  کھڑی کرتے ہیں ۔

کلام کیا ہے؟

تیسرا لفظ تھا کلام ،کلام کیا ہے؟  اردوزبان  میں  کلام کا معنی ہے بات کرنا ، لیکن کلام سے  ہماری مراد کیا ہے ؟ ہم کس  بات کو کلام کہتے ہیں  "مَا أفادَ الْمُسْتَمِعَ فائِدَةً تَامَّةً يَصِحُّ السُكُوتُ عَلَيْها"  ہر بات کو ہم کلام نہیں کہتے ہم اس کو کلام کہتے ہیں جو سننے والے کو پورا فائدہ  پہنچائے یعنی بات کرنے والے نے جو بات کی ہے وہ سننے والے کو پوری طرح سمجھ آ جاےاور بات کرنے  والے کے  لیے وہاں خاموش ہو جانا صحیح ہو یعنی  اب اگر وہ مزید کوئی بات نہیں کرتا تو سننے والا اس سے کسی سوال کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا ہم ایسی بات  کو کلام کہتے ہیں ہر بات کو نہیں ۔جیسے ایک شخص کہتا ہے زید کھڑا ہے۔

خلاصہ 

حروف کےمجموعے کولفظ  کہتے ہیں میں نے آپ کو آسان مثال دی ہے کہ 'علم' ایک آواز ہے جو آپ کے کان سے ٹکرائی ہے اور ایک ہے تین حروف کا مجموعہ اس مجموعے کو کہتے ہیں لفظ ،لفظ کی دو قسمیں ہیں مہمل اور  مستعمل مہمل اس کو کہتے ہیں جس کا لفظ تو ہو  لیکن اس کا کوئی معنی نہ ہو جیسے کسی بندے کا نام ہے زید آ پ اس کو الٹا کر کے کہہ دیں دیز، دیز ایسا لفظ ہے جس کا کوی معنی نہیں ہے جبکہ زید کہیں گے تو اس کا معنی ہے اس سے ایک شخص سمجھ میں آے گا کہ یہ فلاں کی بات کر رہے ہیں ۔

اور مستعمل اسے کہتے ہیں جس کا کوی معنی ہو جیسے زید ۔ مصدر کلام کی اصل اور بنیاد ہے فعل ماضی فعل مضارع اسم فاعل اسم مفعول اس کی شاخیں ہیں اصل مصدر ہے باقی چیزیں اس سے بنتی ہیں مصدر سے نو چیزیں مشتق ہوتی ہیں  ماضی ،مستقبل ،اسم فاعل، اسم مفعول، امر ونہی ہر ایک کے بارے میں ان شااللہ ہم اسی کتاب میں آگے  پڑھیں گے ماضی کیا ہے ؟مستقبل کیا ہے؟ اسم فاعل کی پوری تفصیل ان شاءاللہ   آگے آۓ گی۔

  مصنف نے پیچھے کہا ہے کہ مصدر اصل کلام ہے مصدر کلام کی بنیاد ہے  انہوں نے کہا مصدر اصل اور کلام یہ تین لفظ ہیں ہر لفظ کے آگے وضاحت کر رہے ہیں کہ مصدر کسے کہتے ہیں؟ اصل سے مراد کیا ہے ؟اور کلام سے مراد کیا ہے ؟کیوں کہ  عربی الفاظ کے دو معانی ہوتے ہیں  ایک لغوی  اور ایک اصطلاحی معنی  ممکن ہے لغوی معنی کوئی اور ہو لیکن علمی اصطلاح میں وہ لغوی معنی میں استعمال نہ ہوتا ہو بلکہ کسی اور معنی میں استعمال ہوتا ہو اس لیے اب ان کی وضاحت کر رہے ہیں فرماتے ہیں مصدر لغت  میں اونٹ اور بھیڑ بکری کے واپس لوٹ آنے کی جگہ ہے ۔

"الضرب" مصدر ہے ضارب اسم فاعل وہ اسی مصدر سے مشتق ہوا ہے اسی طرح "مضروب" بھی اسی مصدر  سے بنا  ہے آگے ان شاءاللہ ہم وضاحت کریں گے ۔   ۔ وصلی اللہ علی محمد وآلہ 

كتاب شرح الأمثلة

بسم الله الرحمن الرحيم

قال النبيّ ( صلّى الله عليه وآله وسلّم ) : «أوّل العلم معرفة الجبّار وآخر العلم تفويض الأمر إليه».

[تعريف چند اصطلاح‏]

بدان كه هر آوازى كه بوده باشد آن را عرب صوت خواند ؛ و هرچه از دهن بيرون آيد و معتمد بر مخرج فم بوده باشد آن را لفظ خوانند. و لفظ بر دو قسم است مُهْمَل و مُسْتَعْمَل ؛ مهمل آن است كه آن را معنى نباشد چون لفظ دَيْز ، ( مقلوبَ زَيْد ) و مستعمل آن است كه آن را معنى باشد چون زَيْد و ضَرَبَ و سَوْفَ. و لفظ مستعمل را كلمه گويند و كلمه بر سه قسم است : اسم است و فعل است و حرف. و اسم بر دو قسم است : مصدر و غير مصدر ، مصدر آن است كه در آخر وى به فارسى تا و نون ، يا دال و نون باشد چون : اَلْقَتْل ( كشتن ) وَالضَّرْب ( زدن ).

و بدان كه مصدر اصل كلام است و از وى نه وجه باز مى‌گردد : ماضى ، مستقبل ، اسم فاعل ، اسم مفعول ، امر ، نهى ، جحد ، نفى و استفهام.

مَصْدَر در لغت «بازگشتنگاهِ اِبِل و غَنَم» را گويند. و در اصْطِلاح

«اَلْمَصْدَرُ ما يَصْدُرُ عَنْهُ الْفِعْلُ أو شِبْهُهُ» يعنى : مصدر چيزى است كه صادر گرديده شود از او فعل چون : ضَرَبَ وَيَضْرِبُ و نَحْوهُمَا ، يا شبه فعل چون : ضارِبٌ ومَضْرُوبٌ و نحوهما.

اصل ، در لغت بيخ چيزى را گويند ؛ و در اصطلاح «اَلْأصْلُ ما يُبْنَى عَليْهِ شَيءٌ غَيْرُهُ» يعنى : اصل چيزى است كه بنا نهاده مى شود بر او چيزى غير آن ، چون پايه ديوار كه بنا مى شود بر او ديوار.

كَلٰام در لغت ، سخن گفتن را گويند. و در اصْطِلٰاح «الْكَلامُ مَا أفادَ الْمُسْتَمِعَ فائِدَةً تَامَّةً يَصِحُّ السُكُوتُ عَلَيْها» يعنى : كلام چيزى است كه فايده بدهد شنونده را فائده تامّى كه صحيح باشد سكوت بر او چون : زَيْدٌ قَائِمٌ ، يعنى زيد ايستاده است.

ماضى در لغت ، گذشته را گويند. و در اصطلاح «اَلْماضِى مَا مَضَىٰ وَقْتُهُ وَلَزِمَ أجَلُهُ» يعنى : ماضى چيزى است كه گذشته باشد وقت او و بسر آمده باشد اَجَل او مثل : ضَرَبَ ، يعنى بزد يك مرد.

مُسْتَقْبِل در لغت ، آينده را گويند. و در اصطلاح «الْمُسْتَقْبِلُ ما يُنْتَظَرُ وُقُوعُهُ وَلَمْ يَقَعْ» يعنى : مستقبل در اصطلاح چيزى است كه انتظار كشيده شود واقع شدن آن و هنوز واقع نشده باشد مثل : يضرب ، يعنى مى زند يك مرد.

اِسْمِ فاعِل در لغت ، كننده را گويند ، و در اصطلاح الْفَاعِلُ مَا صَدَرَ عَنْهُ الْفِعْلُ» يعنى : فاعل چيزى است كه صادر شود از او فعل