درس شرح امثلہ

درس نمبر 7: فعل مستقبل 2

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

مستقبل کے صیغوں کی وضاحت

"و آن شش كه مخاطب را بود : سه مذكّر را بود و سه مؤنّث را"

 گزارش کی تھی کہ فعل مستقبل کے بھی ماضی کی طرح چودہ  صیغے ہی  بنتے ہیں ،جن میں سے جو چھ غائب کے تھے تین مذکر کے اور تین مونث کے ان کی بحث مکمل ہو گئی ۔

حاضر کے صیغوں کی وضاحت

آج شروع کر رہے ہیں حاضر کے صیغوں کو،یعنی ممکن ہے آپ کے سامنے  جو شخص کھڑا ہے  اس کی طرف نسبت دے  کر آپ کہہ رہے ہوں کہ تو مارے گا زمانہ مستقبل میں، اب ہو سکتا ہے آپکا مخاطب ایک  شخص ہو ،ہو سکتا ہے وہ  دو ہوں  اور یہ  بھی ہو سکتا ہے وہ  زیادہ ہوں  اور یہ بھی ممکن ہے وہ مذکر ہو یا کہ  مونث ، تو اس کو کہتے ہیں مخاطب ۔یعنی اس مخاطب حاضر کے بھی اسی طرح چھ صیغے ہی بنیں گے   وہ چھ صیغے (جیسا کہ ہم نے آپ کو لکھ کر دئیے تھے ) 

تَضْرِبُ  ، یعنی تو ایک مرد مارے گا، تَضْرِبَانِ،تم دو مرد ماروگے زمانہ مستقبل میں اور  تَضْرِبُونَ. تم سب مرد مارو گے تَضْرِبِينَ ،تو ایک عورت مارے گی ،تَضْرِبَانِ  تم دو عورتیں مارو گی زمانہ مستقبل میں تَضْرِبْنَ ،تم سب عورتیں مارو گی اور متکلم  کے بھی دوسرے صیغوں کی طرح دو صیغے ہیں :   اَضْرِبُ ، نَضْرِبُ ہیں ۔

چونکہ میں نے پہلے گزارش کی تھی کہ متکلم میں مذکر اور مونث کا کوئی فرق نہیں ہوتا یہاں بھی نہیں ہے ، اب ہم  نے جو اصل چیز  دیکھنی ہے وہ یہ ہے کہ یہ  تضرب  یا  تضربان یا  تضربین ہے یہ  کس صیغہ سے اور  کہاں سے بنے ہیں؟ اور کیسے بنے ہیں؟ اب اسی کو لے کر ہم چلتے ہیں فرماتے ہیں: مخاطب کے چھ صیغے ہیں تین مذکر کے  لیے اور تین مونث کے لیے جو تین مذکر کے لیے ہیں وہ ہیں تضرب تضربان  تَضْرِبُونَ۔

4

تَضْرِبُ،تَضْرِبَانِ بنانے کا طریقہ

 فرماتے ہیں: مخاطب کے چھ صیغے ہیں تین مذکر کے لیے اور تین مونث کے لیے جو تین مذکر کے لیے ہیں وہ ہیں: تَضْرِبُ ، تَضْرِبَانِ ، تَضْرِبُونَ.

 تَضْرِبُ کیسے بنا ؟

 تضرب: یعنی  تو ایک مرد مارے گا زمانہ آئندہ میں  صیغہ واحد مذکر مخاطب ، فعل مضارع، صحیح، ثلاثی، مجرد اور معلوم  تَضْرِبُ بھی اصل میں ضرب تھا ،واحد مذکر غائب فعل ماضی کا صیغہ تھا اب ہم  چاہتے ہیں واحد مذکر مخاطب فعل مضارع کا  صیغہ بنایں تو اب ہم  ضرب کی ابتداء میں  "تاء  "کو لائیں گے یہ  تا علامت استقبال ہے یعنی تا کو ابتدا میں لائیں گے تو یہ بتائے گی کہ اب یہ فعل ماضی نہیں بلکہ مستقبل ہے مضارع ہے۔" فاء الفعل را ساكن و عين الفعل را مكسور و لام الفعل را مضموم كرديم"  جیسے  ہم نے یضرب  میں کیا تھا اس تضرب میں بھی تاء کو لائیں گے تو یہ علامت خطاب بھی ہے اور حرف استقبال بھی ہے اس کو ابتداء میں لائیں گے پھر فاء الفعل کو ساکن کریں گے عین الفعل را کو کسرہ دیں گے یعنی زیر دیں گے اور  "با " جو کہ  لام الفعل تھی اس کے فتحہ کو بھی تبدیل کر کے ضمہ دیں گے تو یہ بن جائے گا  تَضْرِبُ  ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، اس کی ضمیر منفصلہ  " انت "آئے گی تضرب کی ضمیر منفصلہ ہوتی ہے جو اس میں  مستتر ہوتی ہے  اس کا استتار واجب ہے  اور فاعل ہونے کی وجہ سے محلا  مرفوع ہے۔یہ تو تھا کہ اگر ایک  شخص  ہو۔

 تضربان بنانے کا طریقہ :

اگروہ شخص دو ہوں جنہوں نے زمانہ مستقبل میں کسی کو مارنا ہے  تو اس کے لئے صیغہ بنے گا تَضْرِبَانِ،یعنی تم دو مرد ماروگے زمانہ آیندہ میں ۔ تَضْرِبَانِ صیغہ تثنیہ مذکرحاضر فعل  فعل مضارع صحیح ثلاثی مجرد اور معلوم ہے۔

تضربان اصل میں تضْرِبُ تھا یعنی تضرب چونکہ واحد مذکر حاضر کا صیغہ تھا تضربان  اسی سے بنا ہے اب ہم نے اسی تضرب کے آخر میں الف لگائی جو علامت تثنیہ ہے اور فاعل کی ضمیر بھی ہے اور ایک نون لگائی جو تضرب کے اخر میں رفع تھا اس کے عوض ہم نے ایک نون لگا دی تو یہ بن گیا، تَضْرِبَانِ  بروزن تفعلان، بالکل آسان، ضاد  فا الفعل راء  عین الفعل باء  لام الفعل الف علامت تثنیہ اور ضمیر فاعلی اور نون اس رفع کے عوض میں آی ہے  جو تضرب کےآخر میں تھی۔ البتہ اس کی ضمیر منفصلہ ہوگی " انتما

5

تَضْرِبُونَ بنانے کا طریقہ

تضربون   کی وضاحت :

اب اگر یہ  دو  افراد سے زائد ہوں جنہوں نے زمانہ مستقبل میں مارنا ہے اور ہم ان سے کہتے ہیں کہ تم سب مارو گے تو اس کے لیے جو صیغہ بنایا گیا ہے وہ ہے  تضربون تم سب مرد مارو گے زمانہ آئندہ میں ۔ 

تضربون صیغہ کی تفصیل :

   یہ صیغہ جمع مذکر مخاطب کا ہے، فعل مضارع ،صحیح ،ثلاثی ،مجرد اور معلوم ہے ۔

تضربون کیسے بنا؟

 تضربون بھی اصل میں تضرب تھا  فرماتے ہیں تضرب کے آخر میں ہم " واو   "لے آیے (کئی دفعہ گزارش کر چکا ہوں کہ  واؤ جمع مذکر کی علامت ہونے کے علاوہ   فاعل کی ضمیر بھی ہوتی ہے) اور آخر میں نون لگائیں گے  اس رفع کے عوض وہ جو تضرب میں  تھی ، تو یہ بن جائے گا تَضْرِبُونَ، بروزن تفعلون ،ضاد فاء الفعل ہے راء عین الفعل ہے ،با لام الفعل ،واو علامت جمع اور  ضمیر فاعل کی ضمیر ہے اور نون عوض ہے اس رفع کے جو تضرب (مفرد)     کے آخر میں تھی ، اس کی ضمیر منفصل ہوگی  'انتم

  تَضْرِبُ ، تَضْرِبَانِ ، تَضْرِبُونَ۔ یہ تین صیغے تھے مخاطب مذکر کے۔

6

تَضْرِبِينَ بنانے کا طریقہ

 مونث مخاطب کے صیغوں کی وضاحت :

اسی طرح تین صیغے مخاطب مونث کے بھی ہونے ہیں، کون سے ؟ ایک مفرد  ،ایک تثنیہ اور ایک جمع، تَضْرِبِينَ ، تَضْرِبَانِ ، تَضْرِبْنَ

تضربین صیغہ کی تفصیل 

تَضْرِبِينَ ( تو ایک عورت مارے گی زمانہ آئیندہ میں )صیغہ واحدہ  مخاطبہ ہے، فعل مضارع ہے ،صحیح ہے، ثلاثی ہے ، مجرد ہے  اور معلوم ہے ۔

 تضربین بنانے کا طریقہ :

  تَضْرِبِينَ اصل میں تَضْرِبُ تھا   یہ  بھی اسی تضرب سے  بنا ہے  جو واحد مذکر مخاطب کے لئے  تھا    یہ تضربین بھی اسی سے بنا ہے  ہم اس تَضْرِبُ  کے آخر میں ہم نے ایک یائے ساکنہ لگائی  تو  یہ بن گیا تضربی،  یائے ساکنہ  جو کہ مفرد مونث کی علامت ہے جیسے  کہ واو علامت تھی  جمع مذکر کی  نون علامت تھی جمع مونث کی  اسی طرح  یہ یائے ساکنہ  بھی  علامت ہے مفردہ  مونث کی ،اور آخر میں نون لگا دی  کیونکہ  تضرب کے آخر میں رفع تھا اس رفع کے عوض ہم نے نون لگائی  بن گیا تضربین بروزن تفعلین ضاد فاءالفعل  را عین الفعل با لام الفعل  "یا" علامت ہے  مخاطبہ مونث کی اور فاعل کی ضمیر بھی ہے اور نون  رفع کے عوض  ہے اس کی ضمیر منفصلہ ہوتی ہے،  اَنْتِ  جیسے تضرب  کی انت تضربین  کی ضمیر منفصل ہوگی انت۔

7

تَضْرِبَانِ بنانے کا طریقہ

 فرماتے ہیں  مخاطب  عورت اگر ایک نہیں بلکہ دو ہیں یعنی  تثنیہ ہیں تو اس کے لیے صیغہ بنے گا تضربان 

 تضربان یعنی تم دو عورتیں مارو گی زمان آئیندہ میں ۔

تضربان صیغہ کی تفصیل 

یہ صیغہ ہے تثنیہ مونث  مخاطبہ کا فعل فعل مضارع صحیح ثلاثی  مجرد معلوم 

تضربان بنانے کا طریقہ

تَضْرِبَانِ دراصل تضربین  تھا  آپ کو یاد ہوگا  ہم نے پہلے  گزارش کی تھی کہ تضربین واحد مونث مخاطبہ کے لیے تھا تو اب یہ بن گیا تضربین سے تضربان   الف علامت تثنیہ ہے  فرماتے ہیں:  یہاں ہم نے علامت تثنیہ لگائی جو فاعل کی ضمیر بھی ہے"قبل از ياء درآورديم" ہم نے اس الف کو یاء سے پہلے ذکر کیا، کیوں ؟ اس لیے کہ  "یا " علامت تھی  واحد مخاطبہ مونث کی یہاں پر مخاطب  ایک نہیں  بلکہ دو ہیں  تو ہم نے اس سے پہلے علامت تثنیہ لگا دی  ، اب جب الف آگئی یہ الف تثنیہ بھی ساکن  ہے اس پر بھی کوئی حرکت نہیں، اور جو یاء تھی  وہ پہلے سے  ہی ساکن تھی اس پر بھی کوئی حرکت نہیں  تھی ان شاءاللہ آگے ہم قوانین پڑھیں گے ،وہاں پر ایک  قانون آئے گا  کہ  جب دو ساکن اکھٹے ہوجائیں  تو ایک کو گرادیا جاتا ہے اب تضربین جب اس یاء سے پہلے الف آگئی الف بھی ساکن یاء بھی ساکن  جب یاء کو گر ادیا یہ بن گیا تضربان ۔

الف جو کہ علامت تثنیہ اور فاعل کی ضمیر ہے اسے ہم یا سے پہلے لے آئے "قبل از ياء درآورديم التقاى ساكنين شد ميان ياء والف ، ياء به التقاى ساكنين بيفتاد تَضْرِبَانَ شد ، فتحه نون را بدل به كسره كرديم" الف اور یا مین التقایے ساکنین ہوگیا  پہلے  تضربین تھا  تو اب بن گیا تضربان ، تو فرماتے ہیں : "فتحه نون را بدل به كسره كرديم" تو اب ہم نے یہاں تضربین کو پڑھتے ہیں تضربان نون کے فتحہ کو کسرہ میں تبدیل کردیا اور یہ ہوگیا تضربان بر وزن تَفْعِلانِ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، و ضمير منفصل ہوگی  "اَنْتُما".

8

تَضْرِبْنَ بنانے کا طریقہ

تضربن 

اب اگر وہ مخاطب عورتیں  ایک  یا دو  نہیں بلکہ زیادہ ہیں تو اس کے لیے ہمیں علیحدہ  صیغہ بنانا ہوگا اور  وہ صیغہ تَضْرِبْنَ ہے   یعنی تم سب عورتیں   ماروگی زمانہ آئندہ میں۔

تضربن صیغہ کی تفصیل :

یہ  صیغہ جمع مونث حاضر کا ہے  فعل مضارع ہے ،صحیح، ثلاثی ،مجرد اور معلوم ۔

تضربن بنانے کا طریقہ:

تَضْرِبْنَ کہاں سے بنا ہے ؟فرماتے ہیں تَضْرِبْنَ اصل میں وہی تضربین تھا   اسی مفرد والے صیغے سے ہیں تضربین تو ایک عورت مارے گی زمانہ آئندہ میں  اسی سے بنا ہے کہ تم سب عورتیں مارو گی زمانہ آئندہ میں ٹھیک  کہ  کیسے بنا ؟تَضْرِبِينَ سے تَضْرِبْنَ  فرماتے ہیں:  نون كه علامت جمع مؤنّث و ضمير فاعل بود در آخرش درآورديم تَضْرِبينَنَ شد "ذرا غور کرنا تَضْرِبِينَ   واحد مونث مخاطبہ کے لیے تھا ہم نے اس تضربین کی آخر میں ایک اور نون لگائی کیوں؟  جیسے واو علامت ہوتی ہے جمع مذکر کی یہ نون علامت ہوتی ہے جمع مونث کی تو ہم نے جمع مونث کی نون اس کے آخر میں لگا دی تو یہ بن گیا تضربینن  یعنی ایک نون پہلے سےموجود  تھی اور ایک نون اب آگئی تو یہ دو نون ہوں گی ۔"اجتماع نُونَيْن شد نون اوّل ، نون اعراب و نون ثانى ، نون بنا ، اجتماع اعراب و بنا در كلمه واحده جايز نبود ، لهذا نون اعرابى را حذف كرديم تَضْرِبِينَ شد" ، ان شاءاللہ آگے ہم نحو میں بہت ساری چیزیں پڑھیں گے کہ جو پہلی نون تھی وہ اعرابی تھی جو دوسری نون ہے یہ نون ہے بنا کی مبنی چونکہ یہ جمع کی نون ہمیشہ مفتوح ہوتی ہے، اس میں کوئی تبدیلی آہی نہیں سکتی تو ایک کلمہ میں ایک معرب  والی علامت اور ایک مبنی والی  یہ ہو نہیں سکتی   یہ معرب مبنی کیا ہوتا ہے ؟یہ بھی ان شاءاللہ آگے ہم نحو  میں پڑھیں گے  فی الحال آپ پر بوجھ نہیں ڈالتے بحر حال ان میں سے جو نون اعرابی تھی اس کو ہم نے حذف کردیا  تو یہ بن گیا تضربین  جب تضربین ہوگیا وہ ایک نون تو گرگئی تھی  نا اب یہ سمجھ میں نہیں آئیے گی یہ تضربین مفرد مخاطب کا صیغہ ہے یا یہ جمع مخاطبہ کا صیغہ ہے ؟ تو اب کیا کریں ؟ یا تو نون کو ہٹا دیں یا   یاء کو ہٹادیں ؟پھر فرماتے ہیں:اشتباہ  سے بچنے کیلئےکے لئے یاء کو حذف کردیا اور باء کو ساکن کردیا یہ بن گیا    تَضْرِبْنَ    جب یا حذف ہو گئی اور با ءساکن  ہو گئی تو یہ بن گیا،تَضْرِبْنَ  بر وزن تَفْعِلْنَ ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل. نون علامت جمع مؤنّث  کی ا ور وہ ضمير فاعل بھی ہے ، اس کے اندر  ضمير منفصل ،ہوگی  "اَنْتُنَّ " ۔ان شاءاللہ ضمیروں کی بحث میں اس کو پڑھیں گے۔

9

أضْرِبُ اور تَضْرِبُ بنانے کا طریقہ

  متکلم کے دو صیغے

باقی رہ گئے  متکلم کے دو صیغے  میں نے گزارش کی تھی کہ  چونکہ مفرد اور مذکر میں  کوئی فرق نہیں ہوتا اس کے دو حصے ہوتے ہیں کہ یا وہ متکلم فرد واحد ہوگا یا ایک سے زائد ہوں گے، ممکن ہے دو ہوں یا  دس ہوں ممکن ہے بیس ہوں اس کے دو صیغے ہیں :اَضْرِبُ اور نَضْرِبُ.

اَضْرِبُ:  میں ماروں گا زمانہ آئندہ  میں ایک شخص کے لیے اور نَضرِبُ ہم سب ماریں گے زمانہ آئندہ  میں ۔

صیغہ کی تفصیل 

 صیغہ واحد متکلم فعل مضارع صحیح، ثلاثی ،مجرد اور معلوم ۔

اِضرِب بنانے کا طریقہ :

یہ بھی اصل میں ضرب  تھا یعنی  اس کو بھی  فعل ماضٰی سے بنایا گیا ہے فعل ماضی کا صیغہ تھا اب ہم نے بنایا تھا واحد مذکر پہلے مضارع فعل مستقبل کا اب ہم نے کیا کیا " همزه مفتوحه كه حرف استقبال و علامت متكلّم وحده بود در اولش درآورديم اَضْرِبُ " ضرب کے اول میں ہم ہمزہ لائے اور وہ ہمزہ  مفتوحہ  ہمزہ  یہ  بتائے گا کہ  یہ اب مضارع بن چکا ہے چونکہ ہمزہ حرف استقبال ہے اور دوسرا یہ  ہمزہ  واحد متکلم کی علامت ہوتا ہے ہمزہ مفتوحہ چونکہ حرف استقبال بھی ہے اور واحد متکلم کی علامت بھی ہے اس کو اول میں لے آئے اور پھر ضرب  میں ضاد کو ساکن کر دیا را کی  زبر کو زیر میں (کسر ہ میں )تبدیل کر دیا اور با کے فتح کو بھی ضمہ  میں تبدیل کر دیا تو یہ بن گیا اَضْرِبُ  بر وزن اَفْعِلُ ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل اس کی ضمیر منفصل ہوگی "انا "کہ جو ہمیشہ اس میں مستتر ہوتی ہے اور اس کا استتار  واجب ہے ۔

نَضرِبُ :

اگر وہ متکلم ایک نہیں بلکہ ایک سے زائدہ ہوں   تو اس کے لیئے جو صیغہ ہوتا ہے وہ  ہے نَضْرِبُ  کہ ہم سب  ماریں گے  زمانہ آیندہ میں ۔ دو ہوں یا  دو سے زائد ہوں  ۔دو یا دو سے زاید عورتیں ہوںں تب بھی کہا جایے گا نضرب کیونکہ سب کے لیے یہی نَضْرِبُ ہی استعمال ہوتا ہے ہم  ماریں گے زمانہ آئندہ میں ۔  یہ  جمع متکلم  مع الغیر کا صیغہ ہے مع الغیر اس لیے کہتے ہیں کہ یہ تثنیہ اور جمع دونوں کو شامل ہے۔  

نَضرِبُ صیغہ کی تفصیل

 فعل مضارع ،صحیح، ثلاثی، مجرد ،معلو م۔

نَضرِبُ  بنانے کا طریقہ

  نَضْرِبُ  بھی در اصل ضرب تھا یعنی نَضْرِبُ   کو بھی اسی ضرب  سے ہی بنایا گیا ہے ، واحد مذکر غائب فعل ماضی کا صیغہ تھا اب ہم نے بنانا  تھا فعل مضارع اور وہ بھی مضارع  مع الغیر جو  تثنیہ اور جمع کو شامل ہو اب کیا کریں؟ فرماتے ہیں اس ضرب  کی ابتدا میں ہم نون  کو لے آئے نون بھی حرف استقبال ہے ،یہ چار حروف ہوتے ہیں، ان کو کہتے ہیں حروف استقبال ہمزہ ،تا، یا اور نون ان کو  کہتے ہیں حروف اتین ان شاءاللہ آگے ہم پڑھیں گے بہرحال یہ نون حرف علامت استقبال ہے اور یہ علامت ہے جمع متکلم کی اور جیسے اوپر ہمزہ مفتوحہ علامت واحد متکلم کی یہ نون علامت جمع متکلم کی  اس کے ابتدا میں لا ئے پھر اسی طرح فاء الفعل پہ یعنی ضاد کو ساکن کر دیا، را کو کسرہ دے دیا،اور با کو ضمہ دے دیا ،فتحہ ان کا ختم کر دیا، تو یہ بن گیا نَضْرِبُ  وہ بر وزن نَفْعِلُ. نون ، حرف استقبال و علامت متكلّم مع الغير و ضاد ، فاء الفعل راء ، عين الفعل باء ، لام الفعل و نَحْنُ  نضرب  میں  فاعل کی ضمیر  ہے جو ہمیشہ واجب اس میں مستتر ہوتی ہے اور یہ محلامرفوع ہے ۔  وصلی اللہ علی محمد و ال محمد

و آن شش كه مخاطب را بود : سه مذكّر را بود و سه مؤنّث را. آن سه كه مذكّر را بود : تَضْرِبُ ، تَضْرِبَانِ ، تَضْرِبُونَ.

تَضْرِبُ : يعنى مى زنى تو يك مرد حاضر در زمان آينده. صيغه واحد مذكّر مخاطب است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

تَضْرِبُ در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد مذكّر مغايب بود از فعل ماضى ) خواستيم مفرد مذكّر مخاطب بنا كنيم از فعل مستقبل ، تاء كه علامت استقبال بود در اولش درآورديم ، و فاء الفعل را ساكن و عين الفعل را مكسور و لام الفعل را مضموم كرديم تَضْرِبُ شد بر وزن تَفْعِلُ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، و ضمير منفصلش اَنْتَ است كه در وى مستتر است به استتار واجبى ، محلّاً مرفوع است تا فاعلش بوده باشد.

تَضْرِبَانِ : يعنى مى زنيد شما دو مردان حاضر در زمان آينده. صيغه تثنيه مذكّر حاضر است از فعل مضارع صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

تَضْرِبَانِ در اصل تَضْرِبُ بود ( مفرد بود ) خواستيم تثنيه بنا كنيم ، الف كه علامت تثنيه و هم ضمير فاعل بود با نون عوض رفع در آخرش درآورديم تَضْرِبانِ شد بر وزن تَفْعِلانِ ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، و الف علامت تثنيه و هَم ضمير فاعل و نون عوض رفعى است كه در واحد بوده ، و ضمير منفصلش اَنْتُماست.

تَضْرِبُونَ : يعنى مى زنيد شما گروه مردان حاضر در زمان آينده. صيغه جمع مذكّر مخاطب است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

تَضْرِبُونَ در اصل تَضْرِبُ بود ( واحد بود ) خواستيم كه جمع بنا كنيم واو كه علامت جمع مذكّر و ضمير فاعل بود با نون عوض رفع در آخرش درآورديم تَضْرِبُونَ شد بر وزن تَفْعِلُونَ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، واو علامت جمع و هم ضمير فاعل ، و نون عوض رفعى است كه در واحد بوده. و ضمير منفصلش ، اَنْتُمْ است.

* * *

وآن سه كه مؤنّث را بود : تَضْرِبِينَ ، تَضْرِبَانِ ، تَضْرِبْنَ.

تَضْرِبِينَ : يعنى مى زنى تو يك زن حاضره در زمان آينده ، صيغه واحده مخاطبه مؤنّث است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

تَضْرِبِينَ در اصل تَضْرِبُ بود ( واحد مذكّر مخاطب بود ) خواستيم مفرده مخاطبه مؤنّث بنا كنيم ، ياى ساكنه كه علامت واحده مخاطبه مؤنّث بود با نون عوض رفع در آخرش درآورديم و ماقبل ياء را از براى مناسبت ياء ، كسره داديم تَضْرِبِينَ شد بر وزن تَفْعِلِينَ ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل و ياى ساكنه علامت مخاطبه مؤنّث و هم ضمير فاعل ، و نون ، عوض رفع واحد ، و ضمير منفصلش ، اَنْتِ است.

تَضْرِبَانِ : يعنى مى زنيد شما دو زن حاضره در زمان آينده. صيغه تثنيه مخاطبه مؤنّث است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

تَضْرِبَانِ در اصل تَضْرِبِينَ بود ( مفرد بود ) خواستيم تثنيه بنا كنيم ،

الف كه علامت تثنيه و ضمير فاعل است ، قبل از ياء درآورديم ، التقاى ساكنين شد ميان ياء والف ، ياء به التقاى ساكنين بيفتاد تَضْرِبَانَ شد ، فتحه نون را بدل به كسره كرديم تَضْرِبَانِ شد بر وزن تَفْعِلانِ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، و ضمير منفصلش اَنْتُماست.

تَضْرِبْنَ : يعنى مى زنيد شما گروه زنان حاضره در زمان آينده. صيغه جمع مؤنّث حاضره است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرد و معلوم.

تَضْرِبْنَ در اصل تَضْرِبِينَ بود ( واحد بود ) خواستيم جمع بنا كنيم ، نون كه علامت جمع مؤنّث و ضمير فاعل بود در آخرش درآورديم تَضْرِبينَنَ شد ، اجتماع نُونَيْن شد نون اوّل ، نون اعراب و نون ثانى ، نون بنا ، اجتماع اعراب و بنا در كلمه واحده جايز نبود ، لهذا نون اعرابى را حذف كرديم تَضْرِبِينَ شد ، مشتبه شد به مفرد خودش از براى رفع اشتباه ، ياء را حذف كرديم و لام الفعل را ساكن كرديم تَضْرِبْنَ شد بر وزن تَفْعِلْنَ ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل. نون علامت جمع مؤنّث و هَم ضمير فاعل است ، و ضمير منفصلش ، اَنْتُنَّ است.

* * *

و آن دو كه حكايت نفس متكلّم را بود : اَضْرِبُ ، نَضْرِبُ.

أضْرِبُ : يعنى مى زنم من يك مرد يا يك زن در زمان آينده. صيغه متكلّم وحده است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرّد و معلوم.

اَضْرِبُ در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد مذكّر غايب بود از فعل ماضى ) خواستيم متكلّم وحده بنا كنيم از فعل مستقبل ، همزه مفتوحه كه حرف استقبال و علامت متكلّم وحده بود در اولش درآورديم و فاء الفعل را ساكن وعين الفعل را مكسور و لام الفعل را مضموم كرديم ، اَضْرِبُ شد بر وزن اَفْعِلُ ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، و ضمير منفصلش ، اَنَا است كه در وى مستتر است به استتار واجبى ، محلّاً مرفوع است تا فاعلش بوده باشد.

نَضْرِبُ : يعنى مى زنيم ما دو مردان يا دو زنان يا گروه مردان يا گروه زنان در زمان آينده. صيغه متكلّم مع الغير است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرّد و معلوم.

نَضْرِبُ در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد مذكّر غايب بود از فعل ماضى ) خواستيم كه متكلّم مع الغير بنا كنيم از فعل مضارع ، نون كه علامت استقبال و متكلّم مع الغير بود در اولش درآورديم و فاء الفعل را ساكن و عين الفعل را كسره ولام الفعل را ضمه داديم نَضْرِبُ شد بر وزن نَفْعِلُ. نون ، حرف استقبال و علامت متكلّم مع الغير و ضاد ، فاء الفعل راء ، عين الفعل باء ، لام الفعل و نَحْنُ در او مستتر است به استتار واجبى ، محلّاً مرفوع است تا فاعلش بوده باشد.

[ اسم فاعل ]

و از اسم فاعل شش وجه بازمى‌گردد : سه مذكّر را بود و سه مؤنّث را.