درس شرح امثلہ

درس نمبر 8: اسم فاعل

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

اسم فاعل کے چھ صیغوں کی وضاحت

گزشتہ دروس میں گزارش کی تھی کہ مصدر سے نو چیزیں بنتی ہیں فعل ماضی، فعل مستقبل ،اسم فاعل، اسم مفعول اور دیگر ان شاءاللہ ترتیب سے، گزارش کردی کہ ماضی کے چودہ صیغے ہوتے ہیں کیونکہ ہم نے کہا تھا کہ شخص غائب جو کام کرنے والا ہے یا ایک ہوگا، یا دو ہوں گے، یا تین ہوں گے پھر یا وہ مذکر ہوگا، یا وہ مونث ہوگا یا غائب ہوگا، یا حاضر ہوگا، یا متکلم تو ان چودہ صیغے بنائے تھے ہر صیغے کا اپنا ایک مستقل معنی تھا جو معنی بتا رہا تھا کہ مثلا وہاں ہم نے کہا تھا کہ جو معنی ضَرَبَ کا ہے وہ ضَرَبُوا کا نہیں، جو ضَرَبُوا کا ہے وہ ضَرَبَت کا نہیں ہر صیغے کا اپنا ایک مستقل معنی تھا اسی طرح مضارع کے بھی چودہ صیغے ۔

اسم فاعل۔جوشخص کسی کام کو انجام دیتا ہے اسے فاعل کہتے ہیں  اب آپ تھوڑا  سا اسے سمجھ لیں تاکہ آپ کو ترجمہ سمجھنے میں آسانی ہو۔ ضَرب  مصدر ہے مصدر الضَربُ اردو میں آپ اس کا  ترجمہ کریں الضَربُ  یعنی مارنا، کبھی اس سے بنتا ہے  ضَرَبَ یعنی اس نے مارا  گزشتہ  زمانے میں۔ کبھی اس سے بنتا ہے یَضرِبُ یعنی وہ مارے گا  آئندہ  زمانے میں، لیکن جس شخص  نے مارنے والا عمل انجام دینا ہے  جس شخص  نے اس فعل کو انجام دیا ہے اسے  فاعل کہتے ہیں پس  جو صیغہ فعل ماضی کا ہے وہ فاعل کا نہیں ہو سکتا اسی طرح جو صیغہ مضارع و مستقبل کا ہے وہ بھی نہیں ہو سکتا تو اس فاعل کے لئے جسے اسم فاعل کہا جاتا ہے اس کے لئے علیحدہ اور مخصوص صیغے ہیں، کیوں؟ 

کیونکہ اس فعل کو انجام دینے والا انسان یا  تو مذکر ہوگا یاپھر مونث،  اسی طرح یا وہ فعل انجام دینے والا ایک شخص  ہوگا یا دو ہوں گے یا دو سے زیادہ ہوں گے ،تو اس لحاظ سے اسم فاعل  کے صیغوں کی تعداد چھ ہے۔ اسمِ فاعل کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ غائب کے لئے ہو تو بھی صیغہ وہی ہوتا ہے حاضر کے لئے ہو تو بھی صیغہ وہی ہوتا ہے اور اگر متکلم کے لئے ہو تو بھی صیغہ وہی ہوتا ہے اب یہ فرق ہے فرق کیا تھا؟ مثلاً ماضی میں ہم نے کہا تھا کہ غائب کے لئے ضَرَبَ ہوتا ہے حاضر کے لئے ضَرَبتَ ہوتا ہے اور متکلم کے لئے ضَرَبتُ ہوتا ہے مضارع میں ہم نے کہا تھا کہ غائب کے لئے یَضْرِبُ ہوتا ہے حاضر کے لیے تَضْرِبُ اور متکلم کے لئے اَضْرِبُ ہوتا ہے لیکن اسم فاعل میں غائب حاضر یا متکلم میں کوئی فرق نہیں پڑتا سب کے لئے ایک ہی صیغہ ہوتا ہے صرف ضمیر کے ساتھ اس کا فرق ہوتا ہے اگر غائب کے لئے ہوگا تو وہاں ھُوَ کی ضمیر لگا دیں گے اگر حاضر کے لئے ہوگا تو وہاں اَنْتَ کی ضمیر اور اگر متکلم کے لئے ہوگا تو پھر اَنَا یا نَحنُ جو بھی اس کی ضمیر ہوگی وہاں لگا دیں گے اب یہ باتیں دو ہو گئیں
نمبر ایک :یہ اسمِ فاعل کے چھ صیغے ہیں
نمبر دو :غائب حاضر متکلم کے لئے اس کے صیغے پر کوئی فرق نہیں پڑتا ضمیر کے ساتھ ۔ 

اب اگلی بات یہ  کہ وہ چھ صیغے کون سے ہیں وہ چھ صیغے جو ہم نے لکھے ہیں :

 ضارِبٌ یہ واحد مذکر کے لئے، ضَارِبَانِ تثنیہ مذکر کے لئے ضَارِبُونَ جمع مذکر کے لئے۔

ضارِبَةٌ مفردمونث کے لئے، ضارِبَتانِ تثنیہ کے لئے، ضَارِباتٌ  جمع مونث کے لئے۔

 تو یہ چھے صیغے ہیں اب جب آپ ان کو لکھ لیں گے تو اب اگلے مرحلے میں ہم یہ سمجھاتے ہیں کہ یہ ضارِبٌ کس صیغے سے بنا ہے اور کیسے بنا ہے اسی طرح ضَارِبَانِ، ضَارِبُونَ، ضارِبَةٌ، ضارِبَتانِ اور ضَارِباتٌ ۔

4

اسم فاعل کے چھ صیغوں کا خلاصہ

 اسم فاعل کے صیغے بنانے کا طریقہ

 اب ہم آپ کو یہ سمجھائیں گے  کہ یہ کہاں سے  اور کیسے بنے ہیں؟   فرماتے ہیں ضَارِبٌ، یَضْرِبُ سے بنا ہے  یہ  فعل مضارع (یعنی مستقبل) کا  پہلا صیغہ ہے  یَضْرِبُ  اصل ہے اسی سے ضارب بنا ہے  ،اس میں کیا کیا تبدیلیاں   رونما  ہوئیں ؟بس  ایک کو سمجھ لیں باقی خود  بخود آپ  کی سمجھ میں آ جائیں گی  ۔یَضْرِبُ میں ضاد  سے پہلے ایک یاء تھی ضَارِبٌ میں وہ نہیں ہے یَضْرِبُ میں کوئی الف نہیں تھی یہاں ضَارِبٌ میں ایک الف ہے وہاں یَضْرِبُ تھا یہاں ضَارِبٌ ہے اس میں  تنوین ہے جبکہ یضرب میں  نہیں تھی   جبکہ ہم کہہ رہے ہیں ضَارِبٌ  یَضْرِبُ سے  بنا ہے۔

ضَارِبٌ بنانے کا طریقہ

 فرماتے ہیں یَضْرِبُ کی یاء  جو حرف استقبال تھی، کو حذف کیا اور    فاءُالفعل  ضاد کے بعد ہم نے ایک الف لگائی جو فاعل کی  علامت ہے  یَضْرِبُ کے آخر میں  با ء پر ضمہ تھا  ہم نے اسکے عوض  تنوین لگا دی اور یہ بن گیا ضَارِبٌ بروزن فاعلٌ،ضاد فاءالفعل ،الف اسم فاعل کی علامت ہے ،را عین الفعل ،باء لام الفعل اور تنوین اسم فاعل کی علامت ہے جبکہ اس میں ضمیر ھو یا انا یا  انت چھپی ہوئ ہے محلا مرفوع ہے۔

 یَضْرِبُ سے اس طرح  ضارب بنانا بالکل آسان ہے ۔

ضاربان کیسے بنا ؟

 اسی طرح ضَارِبَانِ بنانا  بھی آسان ہے، ضَارِبَانِ   بھی اسی  ضَارِبٌ کا تثنیہ ہے باء کے بعد الفِ تثنیہ لگا دی اور ضَارِبٌ کے  آخر میں  جو تنوین تھی اس کے عوض ہم نے  ایک نون لگا دی جو  علامتِ رفع ہے  بن جائے  گا ضَارِبَانِ (بالکل آسان )۔

اسی طرح ضَارِبُونَ  ہے، ضَارِبٌ واحد کے لئے تھا ہم نے اس کے آگے واؤ لگا دی کئی دفعہ گزارش کی ہے کہ واؤ جمع مذکر کی علامت ہے  اور آخر میں    ضَارِبٌ کی  تنوین کے عوض میں نون لگا دی تو یہ بن گیا ضَارِبُونَ  ۔

 ضَارِبٌ ایک مرد مارنے والا  ، ضَارِبَانِ دو مرد مارنے والے ، ضَارِبُونَ دو یا دو سے زائد مرد مارنے والے بالکل آسان ہے  ۔

ضَارِبٌ کی مونث کیسے  بنتی ہے ؟

 بالکل آسان ،جس کو ضَارِبٌ کی  سمجھ آ  جائے  اس  کے لئے  یہ سمجھنا آسان ہے مونث کا پہلا صیغہ ہے ضارِبَةٌ،ضارِبَةٌ  بھی اسی ضَارِبٌ سے  بنا ہے ہم نے آخر میں  تا ءعلامت تانیث لگا دی ۔

ضَارِبٌ یعنی  ایک مرد مارنے والا جب تاء علامت تانیث آ گئی تو اس نے بتا دیا کہ ضارِبَةٌ یعنی ایک عورت مارنے والی ۔

 ضَارِبَتَانِ کیسے بنا ؟

ضارِبَةٌ کا تثنیہ  ضارِبَتانِ  ہے   تثنیہ  کی علامت  جو تاءہم نے ضارِبَةٌ میں لگائی تھی اس کے آگے ہم  ایک  الف تثنیہ لے آئیں  گے اور تنوین کے عوض  نون لگا دیں گےتو بن  جائے گا  ضارِبَتانِ یعنی دو عورتیں مارنے والی اور اس کا جمع کا صیغہ ہے   ضارِباتٌ ۔

ضَارِبَاتٌ بنانے کا طریقہ :

یہ ضارِباتٌ بھی در حقیقت اسی ضارِبَةٌ سے بنا ہے  ہم نے ضارِبَةٌ کی تا ءکے بعد  ایک الف اور تاء کا اضافہ کیاہے جو جمع مونث کی  علامت ہے  یعنی بہت ساری عورتوں کے لئے تھا تو ہم  ضارِبَةٌ کے ساتھ   الف اور تا ءلگائیں گے تو  بن جائے گا ضَارِبَتَاتٌ چونکہ ایک تا ء جو علامت تانیث تھی پہلے سے  ہی موجود تھی  ایک الف اور تاء جمع مونث کی علامت  اب آگئی  ہے  اب چونکہ الف اور تاء  جمع اور مونث دونوں کی علامت ہیں اب   ہمیں پہلی تاء کی  ضرورت  نہیں رہی تو  اس کو حذف دیں گے تو یہ بن جائے گا ضارِباتٌ تو اس میں فاعل کے یہ چھے صیغے اس طرح سے بنتے ہیں ضَارِبٌ ، ضَارِبانِ ، ضَارِبُونَ  مذکر کے لئے ، ضارِبَةٌ ، ضارِبَتانِ ، ضارِباتٌ. مونث کے لئے کونسا صیغہ کیسے بنا وہ بھی ہم نے گزارش کر دی ہے ۔

5

اسم فاعل کے صیغے بنانے کا طریقہ

اسم فاعل کے چھ صیغے:

اسم فاعل کے چھے صیغے ہیں ان میں سے تین  مذکر کے ہیں اور تین  مونث کے ۔

مذکر کے تین صیغے: ضَارِبٌ ، ضَارِبانِ ، ضَارِبُونَ ۔

 ضارِبٌ (یک مرد زننده) یعنی ایک مرد مارنے والا اب آپ سے پوچھا جائے  کہ ضارِبٌ کونسا ہے تو آپ  جواب میں کہیں گے ضارِبٌ  مفرد مذکر اسم فاعل کا صیغہ ہے  ضارِبٌ اصل میں یَضرِبُ تھا مفرد مذکر غائب کا صیغہ تھا فعل مضارع کا۔

یضرب سے اسم فاعل بنانے کا طریقہ:

  ہم نے چاہا کہ  یضرب  سے اسم فاعل بنائیں اس کے لیے ہم نے   يَضْرِبُ کی ابتدا ءسےحرفِ استقبال یاء  کو گرا دیا (والف کہ علامت اسم فاعل بود) اورالف جو اسم فاعل کی علامت ہے اس کو فاءالفعل (ضاد) اور عین الفعل(را) کے درمیان لے آئے تو یہ بن گیا ضارِب "تنوين كه از خواصِّ اسم بود" اور تنوین جو کہ اسم کی خصوصیات  میں سے  ہے ،فعل پر نہیں آسکتی اس لیے ہم  يَضْرِبُ پڑھیں گے يَضْرِبٌ کبھی بھی نہیں پڑھ سکتے لیکن چونکہ  یہ  اسم فاعل تھا  فعل نہیں تھا تو ہم نے ضارِبُ پر تنوین لگائی تو  بن گیا ضارِبٌ ، یہ ضارِبٌ ایک لفظ ہے جو غائب، حاضراور متکلم تینوں  کے لیے  استعمال ہوتا ہے  ۔

  غائب کے لیے ہوگا تو اس کی ضمیر آئے گی  هُوَ ضارِبٌ یعنی وہ ایک مردِ غائب مارنے والا  اور اگر حاضر کے لیے ہوگا تو کہیں گے انت   ضارِبٌ  تو  ایک مرد مارنے والا  اور اگر متکلم کے لیے ہوگا تو کہیں گے اَنَا ضارِبٌ  ۔

  ضارِبٌ  بروزن فاعِلٌ ، ضاد فاء الفعل ، الف  اسمِ فاعل کی علامت  ، را عین الفعل اور با ءلام الفعل  اور تنوین اسم فاعل کی علامت ہے ۔

 ہم نے جب  يَضْرِبُ کی یاء کو گرا دیا تو ضاد ساکن ہو گیا تھااورچونکہ  ساکن سے ابتدا  نہیں کر  سکتے تو (لِاَن الفَتحۃَاخَفُ الحرکات) فتحہ خفیف ترین حرکت ہےاور  چونکہ ضاد کے بعد الف آنی تھی وہ الف بھی فتح کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے لھذا ہم نے ضاد کو فتحہ دے دیا  تو بن گیا  ضَارِب۔

 اسم فاعل میں ضمیر یا  ھُو ہوتی ہے یا اَنا ہوتی ہے یاپھر  اَنتَ جو اس میں مستتر ہوتی ہے ممکن ہے کبھی ظاہر بھی ہو لیکن اکثر مستتر ہی ہوتی ہے اور محلا مرفوع ۔

ضاربان کیسے بنا ؟

 ضاربان یعنی دو مرد مارنے والے صیغہ تثنیہ مذکر  اسمِ فاعل ۔

ضاربان اصل میں ضارِبٌ تھا ضارِبٌ مفرد تھا ہم ا س سے تثنیہ بنانا چاہتے ہیں اس کے لئے ہمیں  دو دفعہ کہنا پڑتا ضارِبٌ ، ضارِبٌ ، ہم نے ایک ضارِبٌ کو حذف کر دیا اور ایک ضارِبٌ کے بعد اس محذوف کے بدلے میں ضارِبٌ کے بعد الف تثنیہ لگا دی( جو علامت ہوتی ہے تثنیہ کی) یہ بن گیا ضاربا اور تنوین کے عوض  آخر میں ایک نون  لگا دی بن گیا ضاربان   بروزن فاعِلانِ  ۔ ضاد فاء الفعل ہے را عین الفعل ہے باء لام الفعل ہے ،   ضاد کے بعد  پہلی الف  اسم فاعل کی علامت   ہو جائے گی اور دوسری الف  جو باء کے بعد آ جائے گی وہ بن جائے گی علامت تثنیہ اور نون ہو جائے گی اس تنوین کے عوض جو ضارِبٌ میں تھی ، اس کے لیے جو ضمیریں ہوتی ہیں فاعل کی وہ ہوتی ہے ھُمَا غایب کے لیے   اَنتُمَا حاضر کے لیے اور نَحنُ متکلم کے لیے۔

 تیسرا صیغہ اسمِ فاعل کا تھا ضَارِبُونَ ،  جیسے میں نے پہلے گذارش کی تھی کہ آپ پوری توجہ دیں اسی  ضارِبٌ کو سمجھنے پر وہ سمجھ میں آ گیا یہ ضَارِبَانِ اور ضَارِبُونَ بالکل ہی آسان ہے کہ ضَارِبَانِ میں الف تثنیہ اور نون لگانی تھی ضارِبٌ  میں اس ضارِب کے بعد واو جمع اور نون عوضِ تنوین لگانی ہے۔

ضاربون صیغہ کی تفصیل 

  ضَارِبُونَ یعنی وہ سب مرد مارنے والے ضَارِبُونَ صیغہ ہے جمع مذکر کا اسمِ فاعل،صحیح ،مجرداور  معلوم ۔

ضَارِبُونَ  بھی اصل میں ضارِبٌ  تھا ضارِبٌ  سے اب ہم کیا کرتے یا تو ہم تین دفعہ کہیں ضارِبٌ  ، ضارِبٌ  ، ضارِبٌ   چار ہوں تو چار دفعہ سو ہو تو سؤ دفعہ اس سے بھتر ہے ہم نے ایک ضارِبٌ   کو رکھا باقیوں کو کر دیا حذف اور ان محذوف  کے بدلے میں واو لگا دی کیوں واو علامت ہوتی ہے جمع مذکر کی جب ضارِبُو  واو آ جائے گی تو یہ بتائے گی کہ یہ جو ضارِبو  ہیں یہ سارے کے سارے مرد ہیں اور ہیں بھی بہت سارے اور آخر میں ایک نون لگا دی جو اس تنوین کے عوض ہے جو ضارِبٌ  پر تھی تو یہ بن گیا ضَارِبُونَ ،ضَارِبُونَ   کی ضمیریں کون سی ہوتی ہیں؟  غائب کے لئے" ھُم" کی ضمیر ہوگی اور حاضر کے لئے"اَنتُم" کی ہوگی اور متکلم کے لئے "نَحنُ "کی ہوگی  ۔ 
(و آن سه كه مؤنّث را بود) وہ تین صیغے جو مونث کے ہیں یعنی اسمِ فاعل میں مونث کے بھی تین صیغے ہیں وہ ہیں : ضارِبَةٌ ، ضارِبَتانِ ، ضارِباتٌ ( بالکل آسان) ۔

 ضارِبَةٌ یعنی  ایک عورت مارنے والی ضارِبَةٌ صیغہ ہے مفرد مونث کا اسم فاعل ہے ،صحیح ،مجرد اور معلوم ہے ضارِبَةٌ بھی اصل میں ضارِبٌ تھا یعنی ضارِبٌ اصل ہے اُس سے ہم نے بنایا ہے ضارِبَةٌ۔

ضَارِبَة ٌ بنانے کا طریقہ:

 ضَارِبٌ مفرد مذکر کے لئے تھا اور ہم نے اس سے بنایا ہے مفرد مونث کے لئے اب طریقہ کار بنا کیسے؟  فرماتے ہیں: اسی ضارِبٌ کے آخر میں باء کے آخر میں "تاء مُنَوَّنه كه علامت واحده مؤنّث بود در آخرش درآورديم ہم نے اسی ضارِب کے آخر میں ایک تاء لگا دی کیونکہ تاء علامتِ  تانیث  ہے اور ہوتی بھی واحد کے لئے اگر تاء ، تنوین کے ساتھ ہوتا ہے تو وہ واحد مونث کے لئے وہ لگا دی "ماقبل تاء را فتحه داديم" اور تاء  کی ما قبل کو وہ جو با تھی اسے فتحہ (زبر) لگا دی  وہ جو ضارِبٌ تھا اب ہم نے اس کو بنا دیا ضارِبَةٌ ، بر وزن فاعِلَةٌ  بالکل آسان ،  ضاد فاء الفعل ، الف علامت اسم فاعل کی ہوگی ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل اور تاء یہ ہوگی وہی علامت تانیث ، جیسے میں نے گزارش کی تھی ضارِبٌ غائب کے لئے حاضر اور متکلم کے لئے وہی استعمال ہوتا ہے کوئی فرق نہیں تھا اس مونث میں بھی ضارِبَةٌ غائبہ کے لئے بھی یہی ہوگا حاضرہ کے      لئے بھی   یہی ہوگا متکلمہ کے لئے بھی یہی ہوگا فقط ضمیروں کا فرق ہوگا غائبہ کے لئے ہوگا تو یہ ہوگا هِىَ ضارِبَةٌ اور حاضرہ کے لئے ہوگا تو اَنْتِ ضارِبَةٌ اور متکلمہ کے لئے ہوگا تو اَنَا ضارِبَةٌ اور کوئی فرق نہیں ۔

ضَارِبَتَانِ 

 یہ تثنیہ کا صیغہ ہے دو عورتیں مارنے والی یہ صيغہ ہے تثنيہ مؤنّث اسمِ فاعل ، صحيح و مجرد و معلوم  ضارِبَتانِ    یہ اسی ضارِبَةٌ سے بنا ہے بالکل آسان اب ضارِبَةٌ کے آخر میں ہم نے ایک الف کا اضافہ کیا جو الف علامت تثنيہ تھی تو یہ بن گیا ضارِبَتا اور آخر میں ایک نون لے آئے اور  ضارِبَةٌ پر جو تنوین تھی اس تنوین کے عوض میں ، تو یہ بن گیا ضارِبَتانِ  بر وزن فاعِلَتانِ بالکل آسان ، ضاد فاء الفعل ، الف علامت اسم فاعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ،  دوسری الف علامت تثنيه ،  اور نون عوض ہے اس تنوين جو ضارِبَةٌ  پر  موجود تھی ، ضارِبَتانِ  یہ بھی  وہ ہی ہے کہ جو غائب کے لئے ہوگا تو کہیں گے" هُما "ضارِبَتانِ اور اگر حاضر کے لئے ہوگا تو کہیں گے" اَنْتُما" ضارِبَتانِ اور اگر متکلم کے لیے ہوگا تو کہیں گے" نَحْنُ" ضارِبَتانِ ۔

 ضَارِبَاتٌ 

اور اس کے بعد  جمع کا صیغہ آتا ہے ضَارِبَات ، ضَارِبَات یہ بھی اسی صيغہ جمع مؤنّث  کا ہے اسم فاعل ، صحيح و مجرّد و معلوم ، ضَارِبَاتٌ اصل میں ضارِبَةٌ  تھا ضارِبَةٌ  سے کیسے ضاربات بنا ؟ بالکل آسان فرماتے ہیں  کہ ضارِبَةٌ   کی آخر میں ایک الف اور تا کا اضافہ کیا ان شاءاللہ ہم نحو میں پڑھیں گے کہ الف اور تا  جمع مونث  کی علامت ہیں  جیسے "واو" علامت ہوتی ہے جمع مذکر کی ، الف اور تا علامت ہوتی ہے جمع مونث کی تو ضارِبَةٌ  کے آخر میں جب الف اور تا آ جائے گی تو یہ بن جائے گا ضَارِبتَاتٌ  تنوین کے ساتھ الف  نہیں آسکتی تو یہ بن جائے گی اب چونکہ پہلی تا علامت تانیث تھی اور بعد میں جب الف اور تا آ گئے تو وہ بھی علامت تھے جمع مونث کے لئے تو الف اور تا چونکہ جمع کے ساتھ ساتھ مونث کی بھی علامت ہے تو پہلی تا کی ہمیں ضرورت نہیں رہی جب نہیں رہی تو یہ بن گیا ضَارِباتٌ "تاىِ اوّل ، دلالت مى كرد بر تأنيث و الف و تاىِ دوم دلالت مى‌كرد هم بر جمع و هم بر تأنيث چونکہ پہلی تا فقط تانیث کیلئے تھی وہ ضارِبَةٌ  والی جبکہ بعد میں جب الف اور تا لگیں  تو یہ الف اور تا دو کام کر رہے ہیں ایک جمع پر دلالت کر رہی اور دوسرا تانیث پر تو پہلی کی ہمیں ضرورت نہیں رہی اس کو حذف کر دیا یہ بن گیا ضَارِباتٌ بر وزن فاعِلات "ضاد فاء الفعل، الف اوّلى علامت اسم فاعل، و راء عين الفعل، باء لام الفعل، الف ثانى و تاء علامت جمع مؤنثوہ جو الف ثانی و تا جو الف تا آخر میں ہے وہ بن جائے گی علامت جمع مونث کی اب یہ غائب کے لئے بھی ضارِبات پڑھا جائے گا حاضر کے لئے بھی ضارِبات اور متکلم کے لئے بھی البتہ ضمیریں فرق کریں گی اگر غائب کے لئے ہوگا تو کہیں گے هُنَّ ضارِبات اور اگر حاضر کے لئے ہوگا تو اَنْتُنّ ضارِبات ، اور اگر متکلم کے لئے ہوگا تو نَحْنُ ضارِبات ۔ صلی اللہ علی محمد و آلہ

اَضْرِبُ در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد مذكّر غايب بود از فعل ماضى ) خواستيم متكلّم وحده بنا كنيم از فعل مستقبل ، همزه مفتوحه كه حرف استقبال و علامت متكلّم وحده بود در اولش درآورديم و فاء الفعل را ساكن وعين الفعل را مكسور و لام الفعل را مضموم كرديم ، اَضْرِبُ شد بر وزن اَفْعِلُ ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، و ضمير منفصلش ، اَنَا است كه در وى مستتر است به استتار واجبى ، محلّاً مرفوع است تا فاعلش بوده باشد.

نَضْرِبُ : يعنى مى زنيم ما دو مردان يا دو زنان يا گروه مردان يا گروه زنان در زمان آينده. صيغه متكلّم مع الغير است از فعل مضارع ، صحيح و ثلاثى و مجرّد و معلوم.

نَضْرِبُ در اصل ضَرَبَ بود ( مفرد مذكّر غايب بود از فعل ماضى ) خواستيم كه متكلّم مع الغير بنا كنيم از فعل مضارع ، نون كه علامت استقبال و متكلّم مع الغير بود در اولش درآورديم و فاء الفعل را ساكن و عين الفعل را كسره ولام الفعل را ضمه داديم نَضْرِبُ شد بر وزن نَفْعِلُ. نون ، حرف استقبال و علامت متكلّم مع الغير و ضاد ، فاء الفعل راء ، عين الفعل باء ، لام الفعل و نَحْنُ در او مستتر است به استتار واجبى ، محلّاً مرفوع است تا فاعلش بوده باشد.

[ اسم فاعل ]

و از اسم فاعل شش وجه بازمى‌گردد : سه مذكّر را بود و سه مؤنّث را.

آن سه كه مذكّر را بود : ضَارِبٌ ، ضَارِبانِ ، ضَارِبُونَ.

ضارِبٌ : يعنى يك مرد زننده. صيغه مفرد مذكّر است از اسم فاعل.

ضارِبٌ در اصل يَضْرِبُ بود ( مفرد مذكّر غايب بود از فعل مضارع ) خواستيم مفرد مذكّر بنا كنيم از اسم فاعل ، ياء كه حرف استقبال بود از اولش انداختيم و الف كه علامت اسم فاعل بود در ميانه فاء الفعل و عين الفعل درآورديم و تنوين كه از خواصِّ اسم بود به او ملحق نموديم ، ضارِبٌ شد. و آن [ ضاربٌ ] يك لفظ است بجاى سه معنى چنان كه گويى : هُوَ ضارِبٌ يعنى اوست يك مرد زننده ، و اَنَا ضارِبٌ يعنى منم يك مرد زننده ، و اَنْتَ ضارِبٌ يعنى تويى يك مرد زننده.

وضارِبٌ بر وزن فاعِلٌ ، ضاد فاء الفعل ، الف علامت اسم فاعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل و تنوين علامت اسم فاعل ، ضمير هُوَ يا اَنَا يا اَنْتَ در او مستتر است به استتار جايزى ، محلّاً مرفوع است تا فاعلش بوده باشد.

ضَارِبَانِ : يعنى دو مردان زننده. صيغه تثنيه مذكّر است از اسم فاعل.

در اصل ضارِبٌ بود ( مفرد بود ) خواستيم كه تثنيه بنا كنيم ، چون به تثنيه رسيديم دو بار مى بايست گفت ضارِبٌ ضارِبٌ ، زايد بر يكى را حذف كرديم وعوض از محذوف ، الف كه علامت تثنيه بود با نون عوض تنوين در آخرش درآورديم ضارِبانِ شد بر وزن فاعِلانِ. ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، الفِ اوّل علامت اسم فاعل ، الفِ دوم علامت تثنيه ، نون ، عوض تنوين ، ضمير هُما يا اَنْتُما يا

نَحْنُ در او مستتر است به استتار جايزى ، محلّاً مرفوع است تا فاعلش بوده باشد.

واو [ ضاربان ] يك لفظ است به جاى سه معنى ، چنانكه گويى : هُما ضارِبانِ يعنى ايشانند دو مردان زننده ، و اَنْتُمَا ضَارِبَانِ يعنى شماييد دو مردانِ زننده ، ونَحْنُ ضارِبانِ يعنى ماييم دو مردانِ زننده.

ضَارِبُونَ : يعنى گروه مردان زننده. صيغه جمع مذكّر است از اسم فاعل ، صحيح و مجرّد و معلوم.

ضارِبُونَ در اصل ضارب بود ( مفرد بود ) خواستيم كه جمع بنا كنيم چون به جمع رسيديم ديديم سه بار يا زيادتر مى بايست گفت ضَارِبٌ ضَارِبٌ ضَارِبٌ ، زايد بر يكى را حذف كرديم و عوض از محذوف ، واو كه علامت جمع بود با نون عوض تنوين در آخرش درآورديم ضَارِبُونَ شد بر وزن فَاعِلُونَ. ضاد فاء الفعل ، الف علامت اسم فاعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، واو علامت جمع ، نون عوض تنوين.

و ضارِبُونَ نيز يك لفظ است از براى سه معنى چنانكه گويى : هُمْ ضَارِبُونَ يعنى ايشانند گروه مردانِ زننده ، و اَنْتُمْ ضَارِبُونَ يعنى شماييد گروه مردان زننده ، و نَحْنُ ضارِبُونَ يعنى ماييم گروه مردان زننده.

* * *

و آن سه كه مؤنّث را بود : ضارِبَةٌ ، ضارِبَتانِ ، ضارِباتٌ.

ضارِبَةٌ : يعنى يك زن زننده.

صيغه مفرده مؤنّث است از اسم فاعل ، صحيح و مجرّد و معلوم.

ضارِبَةٌ در اصل ضارِبٌ بود ، واحد مذكّر بود خواستيم واحده مؤنّث

بنا كنيم ، تاء مُنَوَّنه كه علامت واحده مؤنّث بود در آخرش درآورديم و ماقبل تاء را فتحه داديم ضارِبَةٌ شد بر وزن فاعِلَةٌ ، ضاد فاء الفعل ، الف علامت اسم فاعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، تاء منوّنه از جمله خواصّ اسم.

و ضارِبَةٌ نيز يك لفظ است به جاى سه معنى چنانكه گويى : هِىَ ضارِبَةٌ يعنى اوست يك زن زننده. و اَنْتِ ضارِبَةٌ يعنى تويى يك زن زننده ، و اَنَا ضارِبَةٌ يعنى منم يك زن زننده.

ضارِبَتانِ : يعنى دو زنان زننده. صيغه تثنيه مؤنّث است از اسم فاعل ، صحيح و مجرد و معلوم.

ضارِبَتانِ در اصل ضارِبَةٌ بود ( مفرد بود ) خواستيم تثنيه بنا كنيم الف كه علامت تثنيه بود با نون عوض تنوين در آخرش در آورديم ضارِبَتانِ شد بر وزن فاعِلَتانِ. ضاد فاء الفعل ، الف علامت اسم فاعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، الف ثانى علامت تثنيه ، نون عوض تنوين كه در واحده بوده.

و ضارِبَتانِ يك لفظ است به جاى سه معنى چنانكه گويى : هُما ضارِبَتانِ يعنى ايشانند دو زنان زننده ، و اَنْتُما ضارِبَتانِ يعنى شماييد دو زنان زننده ، و نَحْنُ ضارِبَتانِ يعنى ماييم دو زنان زننده.

ضَارِباتٌ : يعنى گروه زنان زننده. صيغه جمع مؤنّث است از اسم فاعل ، صحيح و مجرّد و معلوم.

ضارِباتٌ در اصل ضارِبَةٌ بود ( مفرد بود ) خواستيم جمع بنا كنيم ، الف و تاء كه علامت جمع مؤنّث بود در آخرش درآورديم ضارِبَتات

شد. تاىِ اوّل ، دلالت مى كرد بر تأنيث و الف و تاىِ دوم دلالت مى‌كرد هم بر جمع و هم بر تأنيث ، با وجود الف و تاىِ ثانى از تاى اوّل مستغنى شده و او را حذف كرديم ضارِبات شد بر وزن فاعِلات. ضاد فاء الفعل ، الف اوّلى علامت اسم فاعل ، و راء عين الفعل ، باء لام الفعل الف ثانى و تاء علامت جمع مؤنث است.

و آن [ ضاربات ] نيز يك لفظ است به جاى سه معنى چنانكه گويى : هُنَّ ضارِبات ، و اَنْتُنّ ضارِبات ، و نَحْنُ ضارِبات. يعنى ايشانند گروه زنان زننده ، و شماييد گروه زنان زننده ، و ماييم گروه زنان زننده.

[ اسم مفعول ]

و از اسم مفعول نيز شش وجه باز مى‌گردد : سه مذكّر و سه مؤنّث.

آن سه كه مذكّر را بود : مَضْرُوبٌ ، مَضْروبَانِ ، مَضْرُوبُونَ.

مَضْرُوبٌ : يعنى يك مرد زده شده. صيغه مفرد مذكّر است از اسم مفعول.

مَضْرُوبٌ در اصل يُضْرَبُ يا تُضْرَبُ يا اُضْرَبُ بود ( عَلَىٰ اَيِّ تقدير ) حرف استقبال را از اولش انداختيم و به جاى او ميم مضموم ، درآورديم و تنوين كه از جمله خواصّ اسم بود به او ملحق نموديم مُضْرَبٌ شد ، مشتبه شد به اسم مفعول باب اِفْعال بر وزن مُكْرَمٌ ، از براى رفع اشتباه ضمّه ميم را بدل كرديم به فتحه ، مَضْرَبٌ شد ، اشتباه