اسم فاعل کے چھ صیغے:
اسم فاعل کے چھے صیغے ہیں ان میں سے تین  مذکر کے ہیں اور تین  مونث کے ۔
مذکر کے تین صیغے: ضَارِبٌ ، ضَارِبانِ ، ضَارِبُونَ ۔
 ضارِبٌ (یک مرد زننده) یعنی ایک مرد مارنے والا اب آپ سے پوچھا جائے  کہ ضارِبٌ کونسا ہے تو آپ  جواب میں کہیں گے ضارِبٌ  مفرد مذکر اسم فاعل کا صیغہ ہے  ضارِبٌ اصل میں یَضرِبُ تھا مفرد مذکر غائب کا صیغہ تھا فعل مضارع کا۔
یضرب سے اسم فاعل بنانے کا طریقہ:
  ہم نے چاہا کہ  یضرب  سے اسم فاعل بنائیں اس کے لیے ہم نے   يَضْرِبُ کی ابتدا ءسےحرفِ استقبال یاء  کو گرا دیا (والف کہ علامت اسم فاعل بود) اورالف جو اسم فاعل کی علامت ہے اس کو فاءالفعل (ضاد) اور عین الفعل(را) کے درمیان لے آئے تو یہ بن گیا ضارِب "تنوين كه از خواصِّ اسم بود" اور تنوین جو کہ اسم کی خصوصیات  میں سے  ہے ،فعل پر نہیں آسکتی اس لیے ہم  يَضْرِبُ پڑھیں گے يَضْرِبٌ  کبھی بھی نہیں پڑھ سکتے لیکن چونکہ  یہ  اسم فاعل تھا  فعل نہیں تھا تو ہم نے ضارِبُ پر تنوین لگائی تو  بن گیا ضارِبٌ ، یہ ضارِبٌ ایک لفظ ہے جو غائب، حاضراور متکلم تینوں  کے لیے  استعمال ہوتا ہے  ۔
  غائب کے لیے ہوگا تو اس کی ضمیر آئے گی  هُوَ ضارِبٌ یعنی وہ ایک مردِ غائب مارنے والا  اور اگر حاضر کے لیے ہوگا تو کہیں گے انت   ضارِبٌ  تو  ایک مرد مارنے والا  اور اگر متکلم کے لیے ہوگا تو کہیں گے اَنَا ضارِبٌ  ۔
  ضارِبٌ  بروزن فاعِلٌ ، ضاد فاء الفعل ، الف  اسمِ فاعل کی علامت  ، را عین الفعل اور با ءلام الفعل  اور تنوین اسم فاعل کی علامت ہے ۔
 ہم نے جب  يَضْرِبُ کی یاء کو گرا دیا تو ضاد ساکن ہو گیا تھااورچونکہ  ساکن سے ابتدا  نہیں کر  سکتے تو (لِاَن الفَتحۃَاخَفُ الحرکات) فتحہ خفیف ترین حرکت ہےاور  چونکہ ضاد کے بعد الف آنی تھی وہ الف بھی فتح کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے لھذا ہم نے ضاد کو فتحہ دے دیا  تو بن گیا  ضَارِب۔
 اسم فاعل میں ضمیر یا  ھُو ہوتی ہے یا اَنا ہوتی ہے یاپھر  اَنتَ جو اس میں مستتر ہوتی ہے ممکن ہے کبھی ظاہر بھی ہو لیکن اکثر مستتر ہی ہوتی ہے اور محلا مرفوع ۔
ضاربان کیسے بنا ؟
 ضاربان یعنی دو مرد مارنے والے صیغہ تثنیہ مذکر  اسمِ فاعل ۔
ضاربان اصل میں ضارِبٌ تھا ضارِبٌ مفرد تھا ہم ا س سے تثنیہ بنانا چاہتے ہیں اس کے لئے ہمیں  دو دفعہ کہنا پڑتا ضارِبٌ ، ضارِبٌ ، ہم نے ایک ضارِبٌ کو حذف کر دیا اور ایک ضارِبٌ کے بعد اس محذوف کے بدلے میں ضارِبٌ کے بعد الف تثنیہ لگا دی( جو علامت ہوتی ہے تثنیہ کی) یہ بن گیا ضاربا اور تنوین کے عوض  آخر میں ایک نون  لگا دی بن گیا ضاربان   بروزن فاعِلانِ  ۔ ضاد فاء الفعل ہے را عین الفعل ہے باء لام الفعل ہے ،   ضاد کے بعد  پہلی الف  اسم فاعل کی علامت   ہو جائے گی اور دوسری الف  جو باء کے بعد آ جائے گی وہ بن جائے گی علامت تثنیہ اور نون ہو جائے گی اس تنوین کے عوض جو ضارِبٌ میں تھی ، اس کے لیے جو ضمیریں ہوتی ہیں فاعل کی وہ ہوتی ہے ھُمَا غایب کے لیے   اَنتُمَا حاضر کے لیے اور نَحنُ متکلم کے لیے۔
 تیسرا صیغہ اسمِ فاعل کا تھا ضَارِبُونَ ،  جیسے میں نے پہلے گذارش کی تھی کہ آپ پوری توجہ دیں اسی  ضارِبٌ کو سمجھنے پر وہ سمجھ میں آ گیا یہ ضَارِبَانِ اور ضَارِبُونَ بالکل ہی آسان ہے کہ ضَارِبَانِ میں الف تثنیہ اور نون لگانی تھی ضارِبٌ  میں اس ضارِب کے بعد واو جمع اور نون عوضِ تنوین لگانی ہے۔
ضاربون صیغہ کی تفصیل 
  ضَارِبُونَ یعنی وہ سب مرد مارنے والے ضَارِبُونَ صیغہ ہے جمع مذکر کا اسمِ فاعل،صحیح ،مجرداور  معلوم ۔
ضَارِبُونَ  بھی اصل میں ضارِبٌ  تھا ضارِبٌ  سے اب ہم کیا کرتے یا تو ہم تین دفعہ کہیں ضارِبٌ  ، ضارِبٌ  ، ضارِبٌ   چار ہوں تو چار دفعہ سو ہو تو سؤ دفعہ اس سے بھتر ہے ہم نے ایک ضارِبٌ   کو رکھا باقیوں کو کر دیا حذف اور ان محذوف  کے بدلے میں واو لگا دی کیوں واو علامت ہوتی ہے جمع مذکر کی جب ضارِبُو  واو آ جائے گی تو یہ بتائے گی کہ یہ جو ضارِبو  ہیں یہ سارے کے سارے مرد ہیں اور ہیں بھی بہت سارے اور آخر میں ایک نون لگا دی جو اس تنوین کے عوض ہے جو ضارِبٌ  پر تھی تو یہ بن گیا ضَارِبُونَ ،ضَارِبُونَ   کی ضمیریں کون سی ہوتی ہیں؟  غائب کے لئے" ھُم" کی ضمیر ہوگی اور حاضر کے لئے"اَنتُم" کی ہوگی اور متکلم کے لئے "نَحنُ "کی ہوگی  ۔ 
(و آن سه كه مؤنّث را بود) وہ تین صیغے جو مونث کے ہیں یعنی اسمِ فاعل میں مونث کے بھی تین صیغے ہیں وہ ہیں : ضارِبَةٌ ، ضارِبَتانِ ، ضارِباتٌ ( بالکل آسان) ۔
 ضارِبَةٌ یعنی  ایک عورت مارنے والی ضارِبَةٌ صیغہ ہے مفرد مونث کا اسم فاعل ہے ،صحیح ،مجرد اور معلوم ہے ضارِبَةٌ بھی اصل میں ضارِبٌ تھا یعنی ضارِبٌ اصل ہے اُس سے ہم نے بنایا ہے ضارِبَةٌ۔
ضَارِبَة ٌ بنانے کا طریقہ:
 ضَارِبٌ مفرد مذکر کے لئے تھا اور ہم نے اس سے بنایا ہے مفرد مونث کے لئے اب طریقہ کار بنا کیسے؟  فرماتے ہیں: اسی ضارِبٌ کے آخر میں باء کے آخر میں "تاء مُنَوَّنه كه علامت واحده مؤنّث بود در آخرش درآورديم"  ہم نے اسی ضارِب کے آخر میں ایک تاء لگا دی کیونکہ تاء علامتِ  تانیث  ہے اور ہوتی بھی واحد کے لئے اگر تاء ، تنوین کے ساتھ ہوتا ہے تو وہ واحد مونث کے لئے وہ لگا دی "ماقبل تاء را فتحه داديم" اور تاء  کی ما قبل کو وہ جو با تھی اسے فتحہ (زبر) لگا دی  وہ جو ضارِبٌ تھا اب ہم نے اس کو بنا دیا ضارِبَةٌ ، بر وزن فاعِلَةٌ  بالکل آسان ،  ضاد فاء الفعل ، الف علامت اسم فاعل کی ہوگی ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل اور تاء یہ ہوگی وہی علامت تانیث ، جیسے میں نے گزارش کی تھی ضارِبٌ غائب کے لئے حاضر اور متکلم کے لئے وہی استعمال ہوتا ہے کوئی فرق نہیں تھا اس مونث میں بھی ضارِبَةٌ غائبہ کے لئے بھی یہی ہوگا حاضرہ کے      لئے بھی   یہی ہوگا متکلمہ کے لئے بھی یہی ہوگا فقط ضمیروں کا فرق ہوگا غائبہ کے لئے ہوگا تو یہ ہوگا هِىَ ضارِبَةٌ اور حاضرہ کے لئے ہوگا تو اَنْتِ ضارِبَةٌ اور متکلمہ کے لئے ہوگا تو اَنَا ضارِبَةٌ اور کوئی فرق نہیں ۔
ضَارِبَتَانِ : 
 یہ تثنیہ کا صیغہ ہے دو عورتیں مارنے والی یہ صيغہ ہے تثنيہ مؤنّث اسمِ فاعل ، صحيح و مجرد و معلوم  ضارِبَتانِ    یہ اسی ضارِبَةٌ سے بنا ہے بالکل آسان اب ضارِبَةٌ کے آخر میں ہم نے ایک الف کا اضافہ کیا جو الف علامت تثنيہ تھی تو یہ بن گیا ضارِبَتا اور آخر میں ایک نون لے آئے اور  ضارِبَةٌ پر جو تنوین تھی اس تنوین کے عوض میں ، تو یہ بن گیا ضارِبَتانِ  بر وزن فاعِلَتانِ بالکل آسان ، ضاد فاء الفعل ، الف علامت اسم فاعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ،  دوسری الف علامت تثنيه ،  اور نون عوض ہے اس تنوين جو ضارِبَةٌ  پر  موجود تھی ، ضارِبَتانِ   یہ بھی  وہ ہی ہے کہ جو غائب کے لئے ہوگا تو کہیں گے" هُما "ضارِبَتانِ اور اگر حاضر کے لئے ہوگا تو کہیں گے" اَنْتُما" ضارِبَتانِ اور اگر متکلم کے لیے ہوگا تو کہیں گے" نَحْنُ" ضارِبَتانِ ۔
 ضَارِبَاتٌ 
اور اس کے بعد  جمع کا صیغہ آتا ہے ضَارِبَات ، ضَارِبَات یہ بھی اسی صيغہ جمع مؤنّث  کا ہے اسم فاعل ، صحيح و مجرّد و معلوم ، ضَارِبَاتٌ اصل میں ضارِبَةٌ  تھا ضارِبَةٌ  سے کیسے ضاربات بنا ؟ بالکل آسان فرماتے ہیں  کہ ضارِبَةٌ   کی آخر میں ایک الف اور تا کا اضافہ کیا ان شاءاللہ ہم نحو میں پڑھیں گے کہ الف اور تا  جمع مونث  کی علامت ہیں  جیسے "واو" علامت ہوتی ہے جمع مذکر کی ، الف اور تا علامت ہوتی ہے جمع مونث کی تو ضارِبَةٌ  کے آخر میں جب الف اور تا آ جائے گی تو یہ بن جائے گا ضَارِبتَاتٌ  تنوین کے ساتھ الف  نہیں آسکتی تو یہ بن جائے گی اب چونکہ پہلی تا علامت تانیث تھی اور بعد میں جب الف اور تا آ گئے تو وہ بھی علامت تھے جمع مونث کے لئے تو الف اور تا چونکہ جمع کے ساتھ ساتھ مونث کی بھی علامت ہے تو پہلی تا کی ہمیں ضرورت نہیں رہی جب نہیں رہی تو یہ بن گیا ضَارِباتٌ "تاىِ اوّل ، دلالت مى كرد بر تأنيث و الف و تاىِ دوم دلالت مىكرد هم بر جمع و هم بر تأنيث"  چونکہ پہلی تا فقط تانیث کیلئے تھی وہ ضارِبَةٌ  والی جبکہ بعد میں جب الف اور تا لگیں  تو یہ الف اور تا دو کام کر رہے ہیں ایک جمع پر دلالت کر رہی اور دوسرا تانیث پر تو پہلی کی ہمیں ضرورت نہیں رہی اس کو حذف کر دیا یہ بن گیا ضَارِباتٌ  بر وزن فاعِلات "ضاد فاء الفعل، الف اوّلى علامت اسم فاعل، و راء عين الفعل، باء لام الفعل، الف ثانى و تاء علامت جمع مؤنث" وہ جو الف ثانی و تا جو الف تا آخر میں ہے وہ بن جائے گی علامت جمع مونث کی اب یہ غائب کے لئے بھی ضارِبات پڑھا جائے گا حاضر کے لئے بھی ضارِبات اور متکلم کے لئے بھی البتہ ضمیریں فرق کریں گی اگر غائب کے لئے ہوگا تو کہیں گے هُنَّ ضارِبات اور اگر حاضر کے لئے ہوگا تو اَنْتُنّ ضارِبات ، اور اگر متکلم کے لئے ہوگا تو نَحْنُ ضارِبات ۔ صلی اللہ علی محمد و آلہ