درس شرح امثلہ

درس نمبر 9: اسم مفعول

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

اسم مفعول کی وضاحت

 اسم مفعول :

"و از اسم مفعول نيز شش وجه باز مى‌گردد : سه مذكّر و سه مؤنّث".

گذشتہ درس میں گذارش کی تھی کہ فاعل کام کرنے والے کو کہتے ہیں ایک ہوتا ہے اسم مفعول ،مفعول وہ ہوتا ہے جس پر  فعل واقع ہو  مثلا ضَارِبٌ مارنے والا یعنی جو مارنے کے عمل کو انجام دے رہا ہے اور ایک وہ ہوتا ہے جس کو مار پڑ رہی ہوتی ہے  ہم اردو میں کہتے ہیں فلاں مشروب اچھا ہے ایک ہوتا ہے شَارِبٌ   پینے والا اور ایک ہوتی ہے وہ چیز جسے   پیا جاتا ہے اسے مشروب  کہتے ہیں اسی طرح فرماتے ہیں ضَارِبٌ مارنے والا اب جس کو مار پڑی جس پر ضرب واقع ہوئی وہ بن جائے گا مضروب، تو مفعول کے لئے بھی ہمیں کچھ صیغے درکار ہیں تو ہمیں ایسے صیغے  بنانے ہوں گے جو یہ  بیان کریں کہ وہ مفعول ہے نہ فاعل ۔

ہم اگر بتانا چاہتے ہیں کہ فلاں شے پر یا فلاں بندے پر یہ فعل واقع ہوا ہے  تو اس کے لئے  ہمیں علیحدہ  صیغہ وضع کرنا ہوگا جیسا کہ  ہم نے جب  بتانا چاہا کہ فلاں شخص مارنے والا ہے  وہ فاعل ہے تو اس کے لئے ہم نے ضارِب کا صیغہ وضع کیا تو جس شخص کو مار پڑی ہے اس کے بارے میں  بتانا ہو تو کیا کریں گے ؟ وہاں ضارِب تو نہیں چل سکتا تو فرماتے ہیں اس کے لئے جو صیغہ  بنایا جاتا  ہے اسے اسم مفعول  کہتے ہیں،  ضارِب اسم فاعل تھا تو جس پر ضرب پڑے گی جس پر وہ فعل واقع  ہوگا اسے اسم مفعول کہا جائے گا ۔

فاعل کی طرح مفعول کے بھی چھ صیغے ہوتے ہیں  تین مذکر کے لئے اور تین مونث کے لئے ۔

اب  اگر مفعول مذکر غائب ہو تو بھی وہی صیغہ  چلے گا حاضر ہو تو بھی وہی اور اگر  متکلم ہو تو بھی وہی صیغہ استعمال ہوگا ، صرف مفرد تثنیہ اور جمع کے صیغوں میں فرق آئے گا اسی طرح اگر وہ مونث ہوں تب بھی حکم یہی ہوگا۔

 مفعول کے چھے صیغے درج ذیل  ہیں اگر اسم فاعل ضارِبٌ ہے تو  ہم مصدر وہی  الضَربُ لیں گے۔ اب یاد رکھنا یہ جو ہم مثالیں دے رہے ہیں یہ سب الضَربُ مصدر سے ہیں ایسا نہیں ہے کہ ہمیشہ مصدر " الضرب " ہی رہتا ہے۔

اسم مفعول کے چھ صیغے:

  مَضرُوبٌ واحد مذکر کے لئے ،مَضرُوبَانِ تثنیہ مذکر کے لئے،مَضرُوبُونَ جمع مذکر کے لئے 

 مَضرُوبَۃٌ  واحد مونث کے لئے ،مَضرُوبَتَانِ تثنیہ مونث کے لئے ،مَضرُوبَاتٌ جمع مونث کے لئے۔

4

اسم مفعول ( مَضرُوبٌ ) بنانے کا طریقہ

ایک وضاحت : ہم نےابتدائی  درسوں میں گزارش کی تھی کہ ہم فی الحال آپ کو آسان آسان چیزیں  بتائیں گے، تفصیل میں نہیں جائیں گے ؕ فعل کی دو قسمیں ہیں  معلوم اور مجہول۔ 

ان شاءاللہ  "صرف میر" میں ہم  تفصیل سے بتائیں گے جیسے ضَرَبَ یہ فعل ماضی معلوم تھا مختلف جگہوں پر  اس کے بارے میں  بتاتے بھی رہے ہیں اس کا  مجہول  ضُرِبَ ہے  ان شاءاللہ  آیندہ اس کے بارے میں بتائیں گے ۔

 اب اس میں دو تین لفظ غور سے سن لیں :
1- اسم مفعول مضارع مجہول سے بنتا ہے معلوم سے نہیں  ۔
2- اسم مفعول فعل مضارع کے تینوں  صیغوں واحد مذکر غائب ، واحد مذکر حاضر اور واحد متکلم سے بن سکتا ہے  لیکن مضارع مجہول  اگر الضَربُ مصدر سے  ہو تو اس کا مضارع مجہول  واحد مذکر غائب کا صیغہ آتا ہے يُضْرَبُ حاضر کا صیغہ آتا تُضْرَبُ اور متکلم کا صیغہ بنتا ہے اُضْرَبُ یہ انشاءاللہ ہم  آپ کو صرف میر میں ایک ایک کر کے  بیان کریں گے تو یہ مَضْرُوبٌ   يُضْرَبُ ، تُضْرَبُ  ،  یا اُضْرَبُ  انہیں سے بنتا ہے ٹھیک ہے اب اس میں تین چار مرحلے ہیں  ان مراحل  کو سمجھ لیں باقی جو پانچ صیغے ہیں  اسی کا تثنیہ جمع ہے با لکل آسان ہے خود مَضْرُوبٌ کو سمجھنا ہے 
مَضْرُوبٌ اگر بنے يُضْرَبُ سے ، یا تُضْرَبُ سے ،  یا اُضْرَبُ سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو یہ کیسے بنے گا؟ اب ذرا غور کرنا ہے اس کے کچھ مراحل ہیں :
پہلا : يُضْرَبُ اگر اصل ہے اور ہم نے بنانا ہے مَضْرُوبٌ  تو پہلے مرحلے پہ  اس يُضْرَبُ  کی یا ءکو حذف کریں گے اس کو ہٹا لیں گے اور اس کی بجائے  میم لے آئیں گے  ۔اور يُضْرَبُ ہو جس کے آخر میں ضمہ تھا وہاں پر ایک تنوین بھی لگا دیں گے کیوں چونکہ تنوین کے آنے سے پتا چلے گا کہ اب یہ فعل نہیں بلکہ یہ اسم ہے یہ بن جائے گا مُضْرَبٌ  تو يُضْرَبُ  کی یاء کو ہٹا دیا وہاں اس کی جگہ میم  آگئی  حرکت وہی رہ جائے گی اور با پر آ جائے گی آخر میں تنوین تو یہ بن جائے گا مُضْرَبٌ ۔  مُضْرَبٌ   اب یہاں پر ایک مسئلہ ہے ان شاءاللہ ہم صرف میر میں آگے پڑھیں گے کہ کچھ ابواب ثلاثی مجرد کے ہوتے ہیں کچھ ثلاثی مزید فیہ کے ہوتے ہیں ایک باب آئے گا اِفْعال اُس باب اِفْعال کا اسم مفعول بھی مُفعَل آتا ہے اب اگر یہ مُضْرَبٌ  ہو تو ہو سکتا ہےسامع  کو اس بات کی سمجھ نا آئے کہ یہ ضَرَبَ، یَضرِبُ کا اسم مفعول ہے یا اَفعَلَ یُفعِلُ کا اسم مفعول ہے یعنی اَضرَبَ، یُضرِبُ کا اسم مفعول ہے چونکہ وہ بھی مُضْرَبٌ  آتا ہے یا ضَرَبَ یَضرِبُ  کا اسم مفعول ہے چونکہ یہ بھی مُضْرَبٌ  ہے اب ظاہر ہے جو معنی ضَرَبَ کا ہے وہ باب اِفعال اَضَربَ کا معنی نہیں ہو سکتا مثلاً وہاں پر ہم   پڑھیں گے اَکرَمَ وغیرہ وہ مثالیں آئیں گی تو  یہ اشتباہ ہو سکتا ہے اس اشتباہ کو رفع کرنے کے لیے کیا کریں ؟ فرماتے ہیں اس اشتباہ کو رفع کرنے کے لیے ہم یہ کہتے ہیں بجائے مُضْرَبٌ  پڑھنے کے میم کے ضمہ کو فتح میں تبدیل کرتے ہیں میم کی پیش کو زبر میں تبدیل کرتے ہیں جب یہ کرتے ہیں تو یہ بن جائے گا مَضْرَبٌ  بہت توجہ سے يُضْرَبُ سے بنا مُضْرَبٌ  اور اب ایک اور  اشتباہ ہو گیاکیونکہ اسم زمان ومکان بھی مَفعَلٌ کے وزن پر آتا ہے پھر اشتباہ ہو جائے گا کہ یہ مَضْرَبٌ  اسم مفعول ہے یا اسم زمان اور  مکان ہے۔ ظاہر ہے اسم مکان کا معنی ایک ہوتا ہےجبکہ  اسم مفعول کا معنی دوسرا ہوتا ہے اب کیا کریں ؟ظاہر ہے اس اشتباہ سے جو اسم مفعول ہے وہاں معنی جو اسم مکان والا ہے اسے اسم زمان کی جو معنی ہے اس میں زمان بنانا ہے اب اگر اس کو مَضْرَبٌ  بناتے ہیں مَضْرَبٌ  تو اس کا اشتباہ ہو  رہا ہے مَفْعَلٌ اسمِ زمان کے ساتھ تو ہو سکتا ہے کسی کو سمجھنا ہے کہ یہاں پر یہ کیا ہے اب کیا کریں فرماتے ہیں اب یہ کرتے ہیں کہ مَضْرَبٌ  کیونکہ مَفْعَلٌ اسمِ زمان کے ساتھ اس کا اشتباہ تھا تو رَا کے فتح کو ضمہ سے تبدیل کرتے ہیں یعنی رَا پر جو زبر ہے اس کو پیش میں تبدیل کرتے ہیں تو یہ کیا بن جائے گا مَضْرُبٌ  اب جب مَضْرُبٌ  بن گیا تو جب مَضْرُبٌ  پر پہنچے تو دو اشتباہوں سے تو ہم بچ گئے ایک تو اسم زمان والے اشتباہ سے بھی جان چھوٹ گئی اور ایک بابِ افعال والے اسم مفعول سے بھی جان چھوٹ گئی لیکن جب ہم نے اس کو مَضْرُبٌ  بنایا تو عرب والے ناراض ہو گئے عربی زبان  میں مَضْرُبٌ  استعمال نہیں ہوتا وہ کہتے ہیں یا اس کے ساتھ تا لگاؤ یا اس کے ساتھ واو لگاؤ سمجھاتے ہیں یہ بات یعنی مَضْرُبٌ  بر وزن مَفْعُولٌ عربی میں یہ استعمال نہیں ہوتا وہ کہتے ہیں یا اس کے آخر میں تا لگاؤ یعنی مَفْعُلُۃٌ و مَضْرُبُۃٌ  یا پھر اس کے ساتھ واو لگاؤ اب مَضْرُبٌ  نہیں پڑھ سکتے اب کیا کریں ہم نے یہاں پر مَضْرُبٌ  میں جو را پر پیش ہے  ضمہ ، اس کو تھوڑا سا لمبا کیا جب لمبا کیا تو اسے واو نکل آئی جب واو نکل آئی تو ہم نے اس کو بنا دیا مَضْرُبٌ  کی بجا مَضْرُوبٌ  تھوڑا لمبا کر دیا تو واو نکل آئی اس واو کو یہاں لگا کے یہ بن گیا مَضْرُوبٌ  ٹھیک ہے ۔

جی اب آسان کرتا ہوں مَضْرُوبٌ  کی اصل ہے يُضْرَبُ ، يُضْرَبُ سے بنا مُضْرَبٌ  ، مُضْرَبٌ  سے بنا مَضْرَبٌ  ، مَضْرَبٌ  سے بنا مَضْرُبٌ  اور مَضْرُبٌ  سے بنا مَضْرُوبٌ  ٹھیک ہے جی باقی پانچ صیغے  بالکل آسان ہیں۔

5

باقی پانچ صیغے کیسے بنے ؟

 باقی پانچ صیغے بالکل آسان ہیں کہ مَضْرُوبٌ ، مَضْرُوبٰانِ اسی با کے ساتھ الفِ تثنیہ کی اور نون عوضِ تنوین لگا دی تو مَضْرُوبٰانِ بن گیا ، مَضْرُوبُونَ اسی با کے آگے واو جو علامت تھی جمع مذکر کی وہ لگا دی اور نون عوضِ تنوین آگئی تو وہ بن گیا مَضْرُوبُونَ ، اسی طرح مَضْرُوبَةٌ جو  کہ مَضْرُوبٌ سے بنا تھا با کے آگے تا علامتِ تانیث  لگا دی تو مَضْرُوبَةٌ بن گیا اور مَضْرُوبَتَانِ میں تا کے آگے الف علامت تثنیہ اور نون عوضِ رفع لگا دی تو مَضْرُوبَتَانِ  بن گیا اور مَضْرُوبٰاتٌ میں بھی اسی طرح تا کے آگے ایک الف اور تا لگا دی جو علامت ہوتی ہے جمع مونث کی اور چونکہ جمع الف اور تا کے آنے کی وجہ سے تانیث سمجھ میں آ رہی تھی تو جو پہلی تا ہم نے لگا دی تھی  علامت تانیث کی اب اس کی ہمیں ضرورت نہ رہی اس کو جب ہٹا دیں گے تو یہ بن جائے گا مَضْرُوبٰاتٌ ۔بالکل آسان۔

مَضْرُوبٌ  ایک مارا ہوا ضَارِبٌ کا ہم نے ترجمہ کیا کیا تھا اردو میں ضَارِبٌ  ایک مرد مارنے والا ، مَضْرُوبٌ  کا اردو ترجمہ ہم کیا کریں گے ایک مرد مارا ہوا ۔

مَضْرُوبٌ  صیغہ مفرد مذکر کا ہے اسمِ مفعول ہے مَضْرُوبٌ  اصل میں يُضْرَبُ تھا یَا تُضْرَبُ تھا یَا اُضْرَبُ میں نے آپ کو آسان سمجھایا تھا کہ آپ کہیں گے مَضْرُوبٌ  فعل مضارع مجہول سے بنتا ہے یا مستقبل مجہول سے بنتا ہے معلوم سے (نہیں بنتا) یہ يُضْرَبُ یَا تُضْرَبُ یَا اُضْرَبُ یہ مجہول کے صیغے ہیں ان سے بنتا ہے خوب جس سے بھی آپ بنائیں جیسے جی چاہے يُضْرَبُ سے جی چاہے تُضْرَبُ سے جی چاہے  اُضْرَبُ سے طریقہ یہی ہے ۔

"حرف استقبال را از اولش انداختيم" یا کو یا تا کو یا الف کو (جوکہ دراصل ہمزہ  تھا) گرا دیا "و به جاى او ميم مضموم" اور اس کی بجائے ایک میمِ مَضمُوم  لگائی اور آخر میں تنوین لگائی کیوں؟ یہ بتانے کے لئے کہ اب یہ فعل نہیں بلکہ اسم ہے تو یہ بن جائے گا مُضْرَبٌ۔ اب جب مُضْرَبٌ  بن گیا "مشتبه شد به اسم مفعول باب اِفْعال" ابھی آپ نے نہیں پڑھاانشااللہ ہم صرف میر میں آگے پڑھیں گے کہ کچھ ابواب ثلاثی مجرد کے ہوتے ہیں کچھ ثلاثی مزید فیہ کے ہوتے ہیں ایک باب آئے گا اِفْعال اَفْعَلَ يُفْعَلُ اِفْعَال اُس باب اِفْعال کا اسم مفعول بھی مُفعَل آتا ہے  چونکہ وہ مُفْعَلٌ ہے اور ہم اگر اس کو بھی مُضْرَبٌ  پڑھتے ہیں تو یہ سمجھ نہیں آئے گی کہ یہ ضَرَب یَضرِبُ کا اسمِ مَفْعُول ہے یا بابِ اِفْعَال کا اسمِ مَفْعُول ہے اس سے اشتباہ ہو جائے گا خوب "از براى رفع اشتباه" ہم نے اس اشتباہ سے بچنے کے لئے "ضمّه ميم را بدل كرديم به فتحه" وہ جو پہلی میم پر ضمّہ تھا اس کو تبدیل کر دیا فتحہ میں تو اب یہ بن گیا مَضْرَبٌ اب جب مُضْرَبٌ  سے مَضْرَبٌ بنا پھر ایک اور اشتباہ ہو گیا اب یہ مَضْرَبٌ اشتباہ ہو گیا "اشتباہ شد بر اسم زمان و مكان بر وزن مَقْتَل" کیوں؟  چونکہ اسمِ زمان اور مکان بھی مَفْعَلٌ کے وزن پر آتے ہیں اور یہ مَضْرَبٌ بھی اسی مَفْعَل کے وزن پر ہے تو پھر سمجھ نہیں آئے گی کہ یہ اسمِ زمان یا مکان ہے یا اسمِ مَفْعُول ہے اب کیا کریں ؟ اب اس اشتباہ سے بچنے کے لئے ہم نے کیا کیا ؟ "فتحه عين الفعل را بدل كرديم به ضمّه" را جو عَيْنُ الفعل تھی ہم نے اس کے فَتَحہ کو ضمَّہ سے،  زبر کو پیش سے تبدیل کر دیا تو یہ بن گیا مَضْرُبٌ بر وزن مَفْعُلٌ اب اس سے وہ دو اشتباہ تو ہو    گئے ختم لیکن "و آن در كلام عرب بدون واو و تا يافت نمى شد" لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ  عرب کہتے ہیں اگر مَضْرُب پڑھنا ہے تو یا اس کے ساتھ وَاو لگاؤ یا اس کے ساتھ تَا لگاؤ بغیر وَاو اور تَا کے عرب والے اس وزن کو نہیں پڑھتے اب کیا کریں؟ "بنابراين ضمّه را اشباع كرديم ، واو از اشباع ضمّه تولّد يافتہم نے کیا کیا؟اُسی رَا والی پیش کو ضمے کو تھوڑا سا لمبا کیا اُس لمبائی سے ایک وَاو   پیدا ہوئی جب وَاو   پیدا ہوئی تو یہ بن گیا مَضْرُوبٌ بر وزن مَفْعُولٌ. پس اسم فاعل کی طرح اسم مفعول بھی ایک ہی لفظ ہوتا ہے یہ مضروبٌ پڑھا جائے گا غائب کے لئے بھی مضروبٌ ہوگا اور حاضر کے لئے بھی مضروبٌ ہوگا اور متکلم کے لئے بھی مضروبٌ ہوگا جب غائب کے لئے ہوگا تو ھُوَ مضروبٌ یعنی وہ ایک مرد مارا گیا اور حاضر کے لئے ہوگا تو اَنْتَ مَضْرُوبٌ یعنی تُو ایک مرد مارا گیا اور اگر متکلم کے لئے ہوگا تو ہوگا اَنَا مَضْرُوبٌ ۔

اس کا تثنیہ آئے گا مَضْرُوبٰانِ ۔ یہ بالکل آسان ہے مَضْرُوبٰانِ اصل میں مَضْرُوبٌ تھا تو اب ہمارے پاس دو راستے تھے یا مَضْرُوبٌ مَضْرُوبٌ کہیں یا اس میں کوئی تبدیلی کریں جس سے دو کا معنیٰ تثنیہ کا معنیٰ سمجھ میں آجائے فرماتے ہیں ہم نے مَضْرُوبٌ کے آخر میں الِف جو علامت تثنیہ تھی وہ لگا دی اور پھر رفع کے عوض میں نون لگا دی تو یہ بن گیا مَضْرُوبٰانِ غائب کے لئے بھی یہی ہو گا اور حاضر کے لئے بھی۔غائب کے لئے ہو گا تو ضمیر ہو گی  هُمٰا مَضْرُوبٰانِ حاضر کے لئے ہو گاتو اَنْتُمٰا مَضْرُوبٰانِ اور اگر متکلم کے لئے ہو گا تو وہ ہو گی نَحْنُ مَضْرُوبٰانِ۔ جمع اس کا ہے مَضْرُوبُونَ۔مَضْرُوبُونَ بھی اصل میں مَضْرُوبٌ تھا  مَضْرُوبٌ میں با جو لام الفعل تھی اس کے بعد ہم نے واو کو لگایا واو علامت ہوتی ہے جمع مذکر کی اور نون کو لگایا مَضْرُوبٌ والی تنوین کے عوض یہ بن گیا مَضْرُوبُونَ اب غائب کے لئے ہو گا تو ضمیر ہوگی  هُمْ مَضْرُوبُونَ  ، جمع  حاضر کے لئے ہو گا تو ضمیر ہو گی  اَنْتُمْ مَضْروبُونَ اور اگر متکلم کے لئے ہو گا تو نَحْنُ مَضْرُوبُونَ ۔

"و آن سه كه مؤنّث را بود" اب اس اسم مفعول کے تین صیغےمونث کے لئے یہ بھی بالکل آسان ہیں مَضْرُوبَةٌ ، مَضْرُوبَتانِ ، مَضْرُوبٰات ۔

مَضْرُوبَةٌ بھی اصل میں مَضْرُوبٌ  سے بنا ہے اس مَضْرُوبٌ  کے بعد ہم نے تاء تانیث تنوین کے ساتھ لگا دی تو اب  یہ مونث کے لیے ہے پس اگر غایب کے لیے ہوگا تو ضمیر ہوگی هِىَ مَضْرُوبَةٌ ، حاضر کے لیے ہوگا تو  اَنْتِ مَضْرُوبَةٌ ، اور اگر متکلم کے لیے ہوگا تو اَنَا مَضْرُوبَةٌ ۔

مَضْرُوبَتٰانِ  جو اس کا تثنیہ ہے  اُسی مَضْرُوبَةٌ  کے آگے الف لگا دیں  جو علامت تثنیہ ہوتی ہے اور ایک نون لگا دیں  جو مَضْرُوبَةٌ  والی  تنوین کے عوض بنتی ہے تو یہ بن جایے گا مَضْرُوبَتٰانِ   اگر غایب کے لیے ہوگی تو کہیں گے هُمٰا مَضْرُوبَتٰانِ ، حاضر کے لیے ہوگی تو  اَنْتُمٰا مَضْرُوبَتٰانِ ، اور اگر متکلم کے لیے ہوگی تو نَحْنُ مَضْرُوبَتٰانِ ۔

اور آخری صیغہ اسم مفعول جمع مونث  کا مَضْرُوبٰات  ہے۔  مَضْرُوبٰات  بھی اصل میں مَضْرُوبَةٌ تھا اسی مَضْرُوبَةٌ کی آخر میں ایک الف اور تاء لگائیں  گے (مَضْرُوبَتٰات) الف اور تا علامت ہوتی ہے جمع مونث کی ، اب جب الف اور تاء آجائے گی علامت ہوگی جمع مونث کی تو پہلے جو تاء کھڑی ہے تو وہ بھی تو علامتِ تانیث تھی  لیکن جب الف اور تا ءآگئی  تو پہلی علامتِ تانیث کی ہمیں ضرورت باقی نہیں رہے گی تو یہ ہوجائے  گا مضروبات ۔ اب اس کے لیے جو ضمیریں ہیں اگر غائب کے لیے ہو تو هُنَّ مضروبات اگر حاضر کے لیے ہو تو اَنْتُنَّ مَضْرُوبٰات اور اگر متکلم کے لیے ہو تو نَحْنُ مَضْرُوبٰات۔

شد. تاىِ اوّل ، دلالت مى كرد بر تأنيث و الف و تاىِ دوم دلالت مى‌كرد هم بر جمع و هم بر تأنيث ، با وجود الف و تاىِ ثانى از تاى اوّل مستغنى شده و او را حذف كرديم ضارِبات شد بر وزن فاعِلات. ضاد فاء الفعل ، الف اوّلى علامت اسم فاعل ، و راء عين الفعل ، باء لام الفعل الف ثانى و تاء علامت جمع مؤنث است.

و آن [ ضاربات ] نيز يك لفظ است به جاى سه معنى چنانكه گويى : هُنَّ ضارِبات ، و اَنْتُنّ ضارِبات ، و نَحْنُ ضارِبات. يعنى ايشانند گروه زنان زننده ، و شماييد گروه زنان زننده ، و ماييم گروه زنان زننده.

[ اسم مفعول ]

و از اسم مفعول نيز شش وجه باز مى‌گردد : سه مذكّر و سه مؤنّث.

آن سه كه مذكّر را بود : مَضْرُوبٌ ، مَضْروبَانِ ، مَضْرُوبُونَ.

مَضْرُوبٌ : يعنى يك مرد زده شده. صيغه مفرد مذكّر است از اسم مفعول.

مَضْرُوبٌ در اصل يُضْرَبُ يا تُضْرَبُ يا اُضْرَبُ بود ( عَلَىٰ اَيِّ تقدير ) حرف استقبال را از اولش انداختيم و به جاى او ميم مضموم ، درآورديم و تنوين كه از جمله خواصّ اسم بود به او ملحق نموديم مُضْرَبٌ شد ، مشتبه شد به اسم مفعول باب اِفْعال بر وزن مُكْرَمٌ ، از براى رفع اشتباه ضمّه ميم را بدل كرديم به فتحه ، مَضْرَبٌ شد ، اشتباه

شد بر اسم زمان و مكان بر وزن مَقْتَل ، حَذَراً مِنَ الْاِشْتِبٰاه فتحه عين الفعل را بدل كرديم به ضمّه ، مَضْرُبٌ شد بر وزن مَفْعُلٌ ، و آن در كلام عرب بدون واو و تاء يافت نمى شد بنابراين ضمّه را اشباع كرديم ، واو از اشباع ضمّه تولّد يافت مَضْرُوبٌ شد بر وزن مَفْعُولٌ.

و آن [ مضروبٌ ] يك لفظ است به جاى سه معنى چنانكه گويى : هُوَ مَضْرُوبٌ يعنى اوست يك مرد زده شده ، و اَنْتَ مَضْرُوبٌ يعنى تويى يك مرد زده شده ، و اَنَا مَضْرُوبٌ يعنى منم يك مرد زده شده.

مَضْرُوبٰانِ : يعنى دو مرد زده شده.

اصلش مَضْرُوبٌ بود ( واحد بود ) خواستيم كه تثنيه بنا كنيم الف كه علامت تثنيه بود با نون عوض تنوين در آخرش درآورديم مَضْرُوبٰانِ شد.

و آن [ مضروبان ] يك لفظ است به جاى سه معنى چنانكه گويى هُمٰا مَضْرُوبٰانِ ، واَنْتُمٰا مَضْرُوبٰانِ ، ونَحْنُ مَضْرُوبٰانِ ، يعنى ايشانند دو مردان زده شده ، وشماييد دو مردان زده شده ، وماييم دو مردان زده شده.

مَضْرُوبُونَ : يعنى گروه مردان زده شده.

اصلش مَضْرُوبٌ بود ، خواستيم كه جمع بنا كنيم واو كه علامت جمع مذكّر بود با نون عوض تنوين در آخرش درآورديم مَضْرُوبُونَ شد.

و آن [ مضروبون ] نيز يك لفظ است به جاى سه معنى چنانكه گويى : هُمْ مَضْرُوبُونَ و اَنْتُمْ مَضْروبُونَ ، و نَحْنُ مَضْرُوبُونَ يعنى ايشان و شماييد گروه مردان زده شده ، و ماييم گروه مردان زده شده.

* * *

و آن سه كه مؤنّث را بود : مَضْرُوبَةٌ ، مَضْرُوبَتانِ ، مَضْرُوبٰات.

مَضْرُوبَةٌ : يعنى يك زن زده شده.

در اصل مَضْرُوبٌ بود ( مفرد مذكّر بود ) خواستيم مفرده مؤنّث بنا كنيم تاء منوّنه كه علامت تأنيث اسم بود در آخرش درآورديم و ماقبل تاء را فتحه داديم مَضْرُوبَةٌ شد.

و آن [ مضروبةٌ ] يك لفظ است به جاى سه معنى چنانكه گويى : هِىَ مَضْرُوبَةٌ ، و اَنْتِ مَضْرُوبَةٌ ، و اَنَا مَضْرُوبَةٌ ، يعنى اوست يك زن زده شده ، و تويى يك زن زده شده ، و منم يك زن زده شده.

مَضْرُوبَتٰانِ : يعنى دو زن زده شده. صيغه تثنيه مؤنّث است از اسم مفعول.

اصلش مَضْرُوبَة بود ، ( مفرد بود ) خواستيم تثنيه بنا كنيم ، الف كه علامت تثنيه بود با نون عوض تنوين در آخرش درآورديم مَضْرُوبَتٰانِ شد.

و آن [ مضروبتان ] يك لفظ است به جاى سه معنى چنانكه گويى : هُمٰا مَضْرُوبَتٰانِ ، و اَنْتُمٰا مَضْرُوبَتٰانِ ، و نَحْنُ مَضْرُوبَتٰانِ ، يعنى ايشانند دو زنان زده شده ، و شماييد دو زنان زده شده ، و ماييم دو زنان زده شده.

مَضْرُوبٰات : يعنى گروه زنان زده شده.

در اصل مَضْرُوبَة بود ( مفرد بود ) خواستيم جمع بنا كنيم ، الف و تاء كه علامت جمع مؤنّث بود در آخرش درآورديم مَضْرُوبَتٰات شد. تاىِ اوّل دلالت مى كرد بر تأنيث و تاىِ ثانى هم دلالت مى كرد بر جمع و

هم بر تأنيث ، بنابراين از تاىِ اوّل مستغنى شده و آن را حذف كرديم مَضْرُوبٰات شد.

وآن [ مضروبات ] يك لفظ است به جاى سه معنى ، چنانكه گويى : هُنَّ مضروبات ، يعنى ايشانند گروه زنان زده شده ، و اَنْتُنَّ مَضْرُوبٰات يعنى شماييد گروه زنان زده شده ، و نَحْنُ مَضْرُوبٰات يعنى ماييم گروه زنان زده شده.

[ امر ]

و از امر نيز چهارده وجه باز مى‌گردد : شش مغايب ، و شش مخاطب ، و دو حكايت نفس متكلّم را. آن شش كه مغايب را بود سه مذكّر را بود و سه مؤنّث را.

آن سه كه مذكّر را بود : لِيَضْرِبْ ، لِيَضْرِبٰا ، لِيَضْرِبُوا.

لِيَضْرِبْ : يعنى بايد بزند او يك مرد غايب در زمان حال يا زمان آينده. صيغه مفرد مذكّر غايب است از فعل امر ، صحيح و مجرّد و معلوم.

لِيَضْرِبْ در اصل يَضْرِبُ بود ، لام امر در سرش درآورديم و آخرش را وقف كرديم لِيَضْرِبْ شد بر وزن لِيَفْعِلْ. لام ، لام امر ، ياء ، حرف استقبال ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، لام امر غايب در سرش دو عمل كرد : لفظاً و مَعنًى ، لفظاً حركت آخرش را به جزمى ساقط كرده ، و معنًى خبر را بدل به انشاء كرد.