درس الهدایة في النحو

درس نمبر 67: تنوین کے بارے میں

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

تنوين کی تعریف

یہ فصل تنوین کے بارے میں ہے اور اس تنوین کی اقسام کے بارے میں ہے۔ تنوین کسے کہتے ہیں؟ آپ جواب میں کہیں گے تنوین وہ ہر وہ نونِ ساکنہ ہے جو کلمہ کی آخر میں اس کی حرکت کے تابع ہوتی ہے۔ حرکت فتح ہوگی تو وہ مثلاً آخر میں کلمہ ہے فرض کرو تاء، اگر اس پر فتح ہے تو تَن پڑھیں گے، کسرہ ہے تو تِن پڑھیں گے، ضمہ ہے تو تُن پڑھیں گے یعنی اس آخر کلمہ کی حرکت کے تابع ہوتی ہے ایک نونِ ساکنہ، اس کو تنوین کہتے ہیں۔ اگلی بات یہ تنوین آقا جان فعل والی نہ، فعل کی تاکید کے لیے نہ ہو کیوں؟ وہ اور ہوتی ہے، او نونِ ثقیلہ اور نونِ خفیفہ جو آتی ہیں "يَضْرِبَنَّ"، "يَضْرِبَنْ" وہ اور چیز ہوتی ہے، یہ نونِ ساکنہ اور ہے۔

 تنوین کی اقسام

تنین کی پانچ قسمیں ہیں بڑی مشہور۔ تنوینِ تمکن ایک، تنوینِ تنکیر دو، تنوینِ عوض چار، تین، تنوینِ مقابلہ چار اور تنوینِ ترنم پانچ۔  کونسی تنوین کس اسم پر داخل ہوتی ہے؟  اس میں جو اہم چیز ہے وہ یہ ہے کہ اگر سوال ہو تنوین کی کتنی قسمیں ہیں؟ تو جواب ہوگا تنوین کی پانچ قسمیں ہیں۔ وہ پانچ قسمیں کونسی ہیں؟ ان کے نام ہمیں آنے چاہئیں اور کونسی قسم کس چیز پر دلالت کرتی ہے یہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے۔ بہت ہی مختصر سا ہے، پانچ چھ سطریں ہیں اگر آپ اس کو کاپی پہ لکھیں گے تو۔ تنوین کیا ہے؟ تنوین سے مراد تنوین "نُونٌ سَاكِنَةٌ" یہ نونِ ساکنہ ہے، اب چونکہ نونِ ساکنہ ہے لہٰذا یہ حرف ہے، پس تنوین بھی حرف ہے چونکہ یہ نونِ ساکنہ ہے۔ آگے، فرماتے ہیں یہ نونِ ساکنہ ہے "تَتْبَعُ حَرَكَةَ آخِرِ الْكَلِمَةِ" جو کلمہ کی آخری حرکت کے تابع ہوتی ہے، جیسی وہاں حرکت ہوگی جیسے میں نے مثال دی تَن، تِن، تُن یہ ہوتی ہے۔ "لَا لِتَأْكِيدِ الْفِعْلِ" یہ نونِ ساکنہ وہ نہیں جو کسی فعل کی تاکید، او جو ہم نے وہاں پڑھی تھی کہ اس کی او تاکید کی، نونِ تاکید کی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک نونِ مشقلہ ہوتی ہے، ایک مخففہ ہوتی ہے ایک تو "يَضْرِبَنَّ" اور ایک تو "يَضْرِبَنَّ" وغیرہ۔ فرماتے ہیں نا، یہ یہ تنوین یا آپ یوں کہہ دیں تنوین کبھی فعل پر نہیں آتی، وہ اور چیز ہوتی ہے جو اگر نونِ ساکنہ ہوتی ہے وہ تنوین نہیں ہوتی، "إِضْرِبَنْ"، "إِضْرِبُنْ"، "إِضْرِبِنْ" وہاں نونِ ساکنہ ہے لیکن وہ تنوین نہیں ہے، وہ اور چیز ہے۔ چونکہ تنوین اسم کا خاصہ ہے۔

4

تنوین کی پانچ قسمیں

تنوین کی پانچ قسمیں ہیں۔ بس یہی  پانچ قسمیں یاد رکھنا ہے۔

 تنوین تمکن

"الْأَوَّلُ" پہلی قسم تنوین کی ہے تنوینِ تمکن۔ کیا مطلب؟ یعنی "هُوَ" تنوینِ تمکن سے مراد کیا ہے؟ یعنی یہ وہ تنوین جو دلالت کرے کہ یہ اسم، اسمِ متمکن ہے کس میں؟ "فِي مُقْتَضَى الْإِسْمِيَّةِ" یعنی اسمیت کے مقتضی ہونے میں، کیا مطلب؟ متمکن کا معنی یہ ہے کہ یہ تنوین کا آنا بتا رہا ہے کہ یہ اسم، اسمِ منصرف ہے، متمکن ہے یعنی جس قسم کی حرکت آنا چاہے وہ آسکتی ہے، یہ غیر منصرف نہیں ہے کہ بعض حرکات کے لیے رکاوٹ بن جائے، نا! بلکہ اس کے لیے اسم، اسمِ منفرد، یہ آسان اس کو آپ یوں لکھ لیں گے کہ تنوینِ تمکن وہ ہوتی ہے جو دلالت کرتی ہے کہ یہ اسم متمکن ہے یعنی یہ اسم، اسمِ منصرف ہے جیسے "رَجُلٌ"، "جَاءَنِي رَجُلٌ"، "رَأَيْتُ رَجُلًا"، "مَرَرْتُ بِرَجُلٍ"۔ "جَاءَنِي زَيْدٌ"، "رَأَيْتُ زَيْدًا"، "مَرَرْتُ بِزَيْدٍ"۔ اب یہ زید یا رجل کے منصرف ہونے پر، مقتضائے اسمیت ہونے پر کہ یہ اسم ہے اور اسم بھی اسمِ متمکن ہے، ہر قسم کے اعراب اس پر آسکتا ہے۔

 تنوین تنکیر

دوسری تنوین وہ ہے تنوینِ تنکیر۔ تنوینِ تنکیر کا کیا مطلب ہے؟ یعنی "مَا يَدُلُّ" یہ تنوین دلالت کرتی ہے کہ "أَنَّ الْاِسْمَ نَكِرَةٌ" کہ یہ اسم، اسمِ نکرہ ہے، معرفہ نہیں جیسے ہم کہتے ہیں "صَهٍ"۔ اب "صَهٍ" نکرہ ہے کیا؟ یعنی "اُسْكُتْ سُكُوتًا مَا فِي وَقْتٍ مَا"۔ نکرہ ہے کیا مطلب؟ خاموش رہ کچھ دیر۔ ٹھیک ہے جی؟ کچھ دیر، کچھ وقت کے لیے تو خاموش رہ۔ اب اس میں کوئی معرفہ نہیں ہے، کتنی دیر کے لیے، کس انداز میں، نا بس یہ ہے ٹوٹل نکرہ ہے۔ اگر "صَهٍ" کی بجائے یہ لفظ پڑھا جائے "صَهْ"، سکون کے ساتھ یعنی ہا پر تنوین نہ ہو پھر یہ نکرہ نہ ہوگا پھر اس کا معنی ہوگا "اُسْكُتِ السُّكُوتَ الْآنَ" کہ تو خاموش، ابھی اس وقت خاموش رہ، پھر نکرے والا معنی اس سے، یہ نہیں کہ او جس وقت بھی خاموش رہ، پھر وہ والا نہیں بلکہ خاص معنی دے گا "اُسْكُتْ" یعنی تو خاموش رہ "السُّكُوتَ الْآنَ" یعنی ابھی کی خاموشی۔ 

 تنوین عوض

تنوین کی تیسری قسم : "مَا يَكُونُ عِوَضًا عَنِ الْمُضَافِ إِلَيْهِ" یعنی وہ تنوین کہ جہاں کسی مضاف کے مضاف الیہ کو حذف کیا گیا ہو اور اس کے بدلے میں تنوین کو لایا گیا ہو، تنوین کے، کو عوض،  جیسے "حِينَئِذٍ"۔ اب ذرا توجہ رکھو یہ "حِينَئِذٍ" اصل میں کیا تھا؟ "حِينَ إِذْ كَانَ كَذَا"۔ حین مضاف ہو رہا تھا "إِذْ كَانَ كَذَا" اور وہ مضاف الیہ محذوف ہوا، اس کے بدلے ہم نے پڑھا "حِينَئِذٍ" تنوین آگئی۔ اسی طرح "سَاعَتَئِذٍ"، "يَوْمَئِذٍ" وغیرہ۔ "أَيْ حِينَ إِذْ كَانَ كَذَا، سَاعَةَ إِذْ أَوْ يَوْمَ إِلَى آخِرِهِ"۔

 تنوین مقابلہ

فرماتے ہیں:  تنوین کی ان پانچ اقسام میں سے جو پہلی چار ہیں، کون کونسی؟ تنوینِ تمکن ایک، تنوینِ تنکیر دو، تنوینِ عوض چار اور تنوینِ مقابلہ، ابھی نہیں پڑھی ہم نے، ہاں سوری تین ہوگئیں۔ ہاں چوتھی تنوین ہے تنوینِ مقابلہ۔ یہ کونسی ہوتی ہے؟ "هُوَ التَّنْوِينُ الَّذِي مَعَ الْمُؤَنَّثِ السَّالِمِ" یعنی یہ وہ تنوین ہوتی ہے جو جمع مؤنث سالم پر لگتی ہے جیسے "مُسْلِمَاتٍ"۔ یہ تنوین تنوینِ مقابلہ کہلاتی ہے۔ اب فرماتے ہیں کہ یہ جو چار تنوینیں ہیں، تنوینِ تمکن، تنوینِ تنکیر، تنوینِ عوض اور تنوینِ مقابلہ، یہ چار "تَخْتَصُّ بِالْاِسْمِ"۔ توجہ! یہ مختص ہیں اسم کے ساتھ۔ کیا؟ کہ یہ والی چار تنوینیں کبھی بھی فعل پر داخل نہیں ہوسکتیں، یہ فقط اور فقط اسم، یعنی وہ جو ہم کہتے ہیں کہ اسم کا خاصہ یہ ہے کہ اس پر تنوین آسکتی ہے، تو اس سے وہ خصوصیت میں یہ چار تنوینیں ہیں کہ جو فعل پر نہیں آتیں، فقط اسم پر داخل ہوتی ہیں۔

تنوین ترنم

فرماتے ہیں جو پانچویں قسم ہے تنوین کی وہ ہے تنوینِ ترنم۔ پانچویں قسم کونسی ہے؟ تنوینِ ترنم۔ اچھا یہ کونسی ہے؟ "هُوَ الَّذِي يَلْحَقُ آخِرَ الْأَبْيَاتِ وَالْمَصَارِيعِ"۔ یہ تنوین وہ ہوتی ہے جو اشعار اور مصروں کے آخر میں آتی ہے۔ ترنم یعنی ایک خاص آواز تو وہاں بھی چونکہ اشعار کے آخر میں اس تنوین کو لایا جاتا ہے تاکہ وہ جو ایک خاص جو اشعار کی ایک آواز اور ایک دھن چل رہی ہے اسی پر چلتے رہیں تاکہ اس میں کسی قسم کی وہ کمی نہ آئے تو پس اس کا مطلب ہے کہ یہ اسم پر بھی داخل ہوسکتی ہے اور فعل پر بھی داخل ہوسکتی ہے چونکہ یہ شعر اور مصروں کے آخر میں آتی ہے اب ممکن ہے وہاں پر اسم ہو اور ممکن ہے کہ وہاں پر فعل ہو، یہ سب پر آتی ہے۔ تنوینِ ترنم اس کو کہتے ہیں۔ مثال؟ مثال یہ ہے۔ شاعر کہتا ہے "أَقِلِّي اللَّوْمَ عَاذِلَ وَالْعِتَابَنْ"، "وَقُولِي إِنْ أَصَبْتُ لَقَدْ أَصَابَنْ"۔ اب، اصل میں کیا ہے؟ "أَقِلِّي اللَّوْمَ عَاذِلَ وَالْعِتَابَا"، "وَقُولِي إِنْ أَصَبْتُ لَقَدْ أَصَابَا"۔ کیا مطلب اس شعر کا؟ "أَقِلِّي اللَّوْمَ عَاذِلَ" اے عاذل! ملامت کو کم کر۔ "أَقِلِّي اللَّوْمَ" یعنی کم کر ملامت کو "وَالْعِتَابَ" اور عتاب کرنے کو سزا دینے کو ملامت کرنے کو کم کر۔ "وَقُولِي إِنْ أَصَبْتُ" اور اگر میں ٹھیک کہہ رہا ہوں "لَقَدْ أَصَابَ" تو تو بھی اس کو کہہ دے ٹھیک کہہ دے۔ اب "عِتَابَا" اور "أَصَابَا" فعل تھے لیکن چونکہ "عِتَابَنْ" اور "أَصَابَنْ" یہ نون نونِ ترنم ہے چونکہ پیچھے اس کا پورا ایک سیٹ چل رہا ہوگا کوئی نہ کوئی قصیدہ تو ان کے آخر میں نون آرہی ہوگی تو یہاں بھی اس نے اس نون کو لگا دیا ہے، ٹھیک ہے۔ اسی طرح فرماتے ہیں ایک اور شعر ہے۔ ایک اور قول مثلاً کوئی کہتا ہے "يَا أَبَتَا عَلَّكَ أَوْ عَسَاكَنْ"۔ اب "عَلَّكَ أَوْ عَسَاكَنْ"۔ اب اصل میں "عَسَاكَ" ہے یعنی عنقریب لیکن یہاں اس کے آخر میں بھی نون آگئی ہے،  آسان ہے۔

5

عَلَم سے حذف تنوین

عَلَم سے حذف تنوین

"قَدْ يُحْذَفُ مَعَ الْعَلَمِ" کبھی کبھی علم سے اس تنوین کو حذف کر دیا جاتا ہے۔ یعنی علم پر جو تنوین آسکتی ہے وہ ظاہر ہے اسم کی اقسام میں سے علم ہے، آسکتی ہے لیکن پھر بھی اس پر یہ تنوین نہیں پڑھی جاتی، بہت توجہ آقا! بسا اوقات علم پر یعنی زیدٌ کو زیدٌ نہیں پڑھا جاتا، علیٌ کو علیٌ نہیں پڑھا جاتا، حسنٌ کو حسنٌ نہیں پڑھا جاتا، یہ نونِ تنوین علم سے حذف کی جاتی ہے۔ وجہ؟ "إِذَا كَانَ مَوْصُوفًا بِابْنٍ أَوِ ابْنَةٍ" کہ اگر کسی علم کی صفت ابن یا ابنتہ واقع ہو رہا ہو اور وہ ابن اور ابنتہ کسی اور علم کی طرف مضاف ہو رہے ہوں، بسا اوقات علم سے تنوین کو حذف کر دیا جاتا ہے جب وہ علم موصوف ہو، اس کی صفت ابن یا ابنتہ ہو لیکن وہ ابن یا ابن بھی آگے کسی اور علم کی طرف مضاف ہو رہے ہوں جیسے "جَاءَنِي زَيْدٌ" کی بجائے پڑھیں گے "جَاءَنِي زَيْدُ ابْنُ عَمْرٍو"، "جَاءَتْنِي هِنْدُ ابْنَةُ بَكْرٍ" یعنی "هِنْدٌ" یا "زَيْدٌ" نہیں پڑھنا۔ اس کی بحث الحمدللہ یہیں تک تھی اور یہ ختم ہوگئی۔

وَصَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ مُحَمَّدٍ

قامَتِ الصلاة وحركتها لا يوجب ردّ ما حذف لأجل سكونها فلا يقال : رَماتِ المرأة ، لأنّ حركتها عارضيّة لدفع التقاء الساكنين وقولهم : الْمَرْأتانِ رَماتا ضعيف.

وأمّا إلحاق علامة التثنية وجمع المذكّر وجمع المؤنّث فضعيف فلا يقال : قاما الزيْدانِ ، وقامُوا الزيْدُونَ ، وقُمْنَ النساءُ. وبتقدير الإلحاق لا تكون ضمائراً لئلّا يلزم الإضمار قبل الذكر بل علامات دالّة على أحوال الفاعل كتاء التأنيث.

فصل : التنوين

نون ساكنة تتبع حركة آخر الكلمة ولا تدخل الفعل وهي خمسة أقسام :

الأوّل : للتمكّن : وهي ما تدلّ على أنّ الاسم متمكّن في مقتضى الاسميّة يعني أنّه منصرف قابل للحركات الإعرابيّة نحو زَيْدٌ.

والثاني : للتنكير : وهي ما تدلّ على أنّ الاسم نكرة نحو : صَهٍ ، أي اسكت سكوتاً ما.

والثالث : للعِوَض : وهو ما يكون عوضاً عن المضاف إليه نحو : حينئِذٍ ويَوْمَئِذٍ ، أي حين إذْ كان ، ويوم إذْ كان ، وساعَتئِذٍ ، أي ساعة إذْ كان كذا.

الرابع : للمقابلة : وهو التنوين الّذي في جمع المؤنّث السالم نحو : مُسْلِماتٍ ، ليقابل نون جمع المذكّر السالم كمسلمين. وهذه الأربعة تختصّ بالاسم.

الخامس : الترنّم : وهو الّذي يلحق في آخر الأبيات وأنصاف المصراع كقول الشاعر :

أقِلّي اللَّوْمَ عاذِلُ وَالْعتابا

وقُولي إنْ أصَبْتُ لَقَدْ أصابا (١)

وكقوله :

تقولُ بِنْتي قَدْ أنىٰ إناكاً

يا أبَتا عَلَّكَ أوْ عَساكاً (٢)

وقد يحذف التنوين من العَلَمِ إذا كان موصوفاً بابن مضافاً إلى عَلَم آخر نحو : جاءني زَيْدُ بْنُ عَمْروٍ.

فصل : نون التأكيد

وهي نون وضعت لتأكيد الأمر والمضارع إذا كان فيه طلب ، بازاء «قد» لتأكيد الماضي وهي على ضربين :

خفيفة ، أي ساكنة.

وثقيلة أي مشدّدة. وهي مفتوحة إن لم يكن قبلها ألف نحو : اضْربَنَّ واضْربُنَّ واضْربِنَّ ، وإلّا فمكسورة نحو : اضْربانِّ واضْربْنانِّ.

وتدخل على الأمر والنهي والاستفهام والتمنّي والعرض جوازاً لأنّ في كلّ منها طلباً نحو : اضْرِبَنَّ ، ولا تَضْرِبَنَّ ، وهَلْ تَضْرِبَنَّ ، ولَيْتَ

____________________________

(١) يعنى : كم كن ملامت وعتاب را اى عاذله وفكر بكن در سخن من درباره تو پس اگر راست گفته ام ورسيده ام بسخن پس ملامت مكن وبگو كه راست گفته است و خوب فهميده است. شاهد در دخول تنوين ترنم است در آخر فعل كه اصاباً بوده باشد. (جامع الشواهد : ج ١ ص ١٤٥).

(٢) يعنى : مى گويد دختر من كه به تحقيق رسيده است وقت سفر كردن به جهت طلب روزى نيكويى اى پدر من. شايد تو بيابى روزى را يا اميد است كه تو غنيمت ببرى از اين سفر ، پس استخاره بكن و طلب خير بكن از خدا در قصد كردن در سفر و واگذار قول خودت را كه شايد بهره مند نشوم بخيرى هرگاه سفر كنم و حاصل نشود از براى من غير تعب و مشقت. شاهد در دخول تنوين ترنم است در «اناكاً» و «عساكاً». (جامع الشواهد).