درس الهدایة في النحو

درس نمبر 66: حرف ردع ،تاء تانیث اور تاء تانیث ساکنه

 
1

ابتدائی عبارتیں

2

خطبہ

3

حرف الردع

 مختلف حروف کی بحث ہمارا چل رہی تھی کہ کونسا حرف کیا معنی دیتا ہے، کہاں استعمال ہوتا ہے۔ ایک حرف ہے جس کو حرفِ ردع کہا جاتا ہے۔ ردع کا معنی ہوتا ہے! روکنا، منع کرنا، جھڑکنا، باز رکھنا یعنی یہ ہوتا ہے، یہ جو حرفِ ردع  ہے "كَلَّا"، یہ بھی درحقیقت روکنے اور منع کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ کیسے؟ فرماتے ہیں:  یہ حرف، حرف "كَلَّا"، "كَلَّا" جسے حرفِ ردع کہا جاتا ہے، یہ وضع کیا گیا ہے کہ متکلم ایک کلام کر رہا ہو، اس حرف کے ذریعے اس کو جھڑکا جاتا ہے اور جو کچھ وہ بول رہا ہوتا ہے اس سے منع کیا جاتا ہے کہ بھائی آپ جو بول رہے ہیں یہ نہ بولیں، یہ درست نہیں ہے، بات ایسے نہیں جو آپ کر رہے ہیں۔ یعنی ایک متکلم ایک کلام کر رہا ہے، ذرا توجہ کے ساتھ۔ آپ حرفِ "كَلَّا" کے ذریعے اس کو کہتے ہیں کہ نہیں نہیں، یہ ایسا نہیں یا یہ بات ایسے نہ کرو یا ایسا نہیں ہے جو تم کہہ رہے ہو، بات ویسی نہیں ہے۔ اس کام کے لیے حرفِ "كَلَّا" کو عرب نے وضع کیا ہے۔ 

"كَلَّا"

حرف ردع "كَلَّا"۔ ردع کے لیے فقط ایک حرف ہے، وہ کونسا ہے؟ "كَلَّا"۔ "وُضِعَتْ لِزَجْرِ الْمُتَكَلِّمِ"۔ یہ وضع کیا گیا ہے تاکہ متکلم کو، جو بندہ کوئی کلام کر رہا ہے، کوئی خبر دے رہا ہے، کوئی بات کر رہا ہے، اس کو اس پر زجر کیا جائے، جھڑکا جائے "وَرَدْعِهِ" اور اس کو روکا جائے "عَمَّا يَتَكَلَّمُ بِهِ" اس سے جو وہ کلام کر رہا ہے۔ آیت مجیدہ۔ کیا؟ "وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ" ٹھیک "فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ"، "كَلَّا"۔ ہمارا محلِ شاہد یہ ہے۔ کہ جب اللہ نے اس کی آزمائش کی "فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ" اور اس کا رزق اس پر تنگ کیا، اب یہاں سے ہمارا محل شاہد ہے۔ جب رزق تنگ ہوا "فَيَقُولُ" اس نے کہا، وہ ایک خبر دے رہا ہے "رَبِّي أَهَانَنِ" میرے رب نے میری تذلیل کی ہے، میری اہانت کی ہے۔ اب یہاں جواب میں آیا "كَلَّا"۔ ہرگز نہیں! یعنی یہ جو تو بات کر رہا ہے کہ میرے رب نے میری اہانت کی ہے "كَلَّا" اس کو روکا جا رہا ہے، اس کو منع کیا جا رہا ہے کہ نہیں، بات ایسی نہیں ہے جو تو سمجھ رہا ہے۔ "أَيْ لَا يَتَكَلَّمُ بِهَذَا" کہ ناں ایسی بات نہ کرو "فَإِنَّهُ لَيْسَ كَذَلِكَ"۔ ایسا نہیں ہے جو تو کہہ رہا ہے کہ میرے رب نے میری اہانت کی ہے۔ ٹھیک ہوگئی؟ "هَذَا بَعْدَ الْخَبَرِ"۔  یہ "كَلَّا" یہ تو اس وقت ہوگا کہ کوئی متکلم کوئی خبر دے رہا ہو اور آپ اس کو جواب میں یہ کہیں۔

"وَقَد تَجِيءُ بَعدَ الأَمرِ أَيضاً" کبھی کبھی یہی "كَلَّا" صیغہ امر کے بعد چونکہ امر ظاہر ہے وہ خبر نہیں ہوتی وہ تو انشاء کی قسم میں سے ہے، ماضی اور مضارع امر و خبر ہوتے ہیں۔ کبھی امر کے بعد مثلاً اگر کوئی تمہیں کہے "اِضْرِبْ زَيْدًا" زید کو مار۔ آپ جواب میں کہتے ہیں "كَلَّا"۔ "كَلَّا" یعنی کیا؟ یعنی "لَا أَفْعَلُ هَذَا قَطُّ"۔ نه میں ایسا نہیں کروں گا۔ "كَلَّا" یعنی وہ بھی درحقیقت اس نے جو کہا ہے کہ اس کو مار، آپ کہہ رہے ہیں "كَلَّا" ناں ایسا نہیں ہوسکتا یوں نہیں ہے۔

 "وَقَد تَجِيءُ بِمَعنَى حَقاً" یہی "كَلَّا" بجائے زجر کے، بجائے منع کے، کبھی بمعنی "حَقًّا" کے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے آیت مجیدہ ہے۔ "كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ"، "كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ"۔ اب فرماتے ہیں ذرا غور کرنا ہے "حِينَئِذٍ" جب "كَلَّا" "حَقًّا" کے معنی آئے گا، ردع کے معنی میں نہیں ہوگا، حرف ردع نہیں ہوگا "تَكُونُ اسْمًا" تو اس وقت یہ اسم ہوگا اور "يُبْنَىٰ" لیکن یہ مبنی ہوگا کیوں؟ چونکہ یہ مشابہ ہے حرفِ او "كَلَّا" کے حرف ہونے، جو "كَلَّا" اگر حرف ہو تو وہ مبنی ہوتا ہے۔ اب اگرچہ یہاں اسم ہے لیکن بہرحال یہ چونکہ اس کے مشابہ ہے اس وجہ سے۔ بعض کہتے ہیں کہ نہیں "تَكُونُ حَرْفًا أَيْضًا" بے شک وہ بمعنی "حَقًّا" کے کیوں نہ ہو "كَلَّا" پھر بھی حرف ہوتا ہے اور یہ حرف بمعنی "إِنَّ" کے ہوتا ہے۔ جیسے کیوں؟ یہ جملہ کی تحقیق کرتا ہے۔ جیسے "كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَىٰ"۔ وہ کہتے ہیں یہاں بھی یہ بمعنی "إِنَّ" کے ہے۔

4

تاء تانیث اور  تاء  تانیث ساکنه

تاء تانیث

ایک اور فصل، وہ ہے تاء  تانیث کے بارے میں۔ یہ تاء  تانیث کیا ہوتی ہے؟ فرماتے ہیں: اس کے نام سے بھی واضح ہے کہ ایک تاء ہوتی ہے جو ماضی کے آخر میں آتی ہے۔ وہ ساکنہ ہوتی ہے۔ اس ماضی کے آخر میں تاء  تانیث کا آنا دلالت کرتا ہے کہ اس فعل کو جس فاعل کی طرف نسبت دی جا رہی ہے، جس فاعل کی طرف اس کا اسناد کیا جا رہا ہے، وہ مؤنث ہے مذکر نہیں۔ 

 تاء  تانیث ساکنه

فرماتے ہیں: "تَاءُ التَّأْنِيثِ السَّاكِنَةِ"۔ ایک اور حرف ہے اس کو کہتے ہیں حرفِ تاء  تانیث ساکنہ۔ "تَلْحَقُ الْمَاضِيَ" یہ ماضی فعل ماضی کے آخر میں ملحق ہوتی ہے۔ کیوں؟ "لِتَدُلَّ" تاکہ یہ دلالت کرے "عَلَىٰ تَأْنِيثِ مَا أُسْنِدَ إِلَيْهِ الْفِعْلُ" اس کے مؤنث ہونے پر، جس کی طرف فعل کو اسناد کیا گیا ہے۔ یعنی ایک فعل ماضی کے آخر میں تاء  ساکنہ لگائی جاتی ہے اور وہ تاء ساکنہ بتاتی ہے کہ اس فعل کی جس فاعل کی طرف نسبت دی جا رہی ہے وہ مؤنث ہے۔ اس کو کہتے ہیں تاء تانیثِ ساکنہ۔ جیسے "ضُرِبَتْ هِنْدٌ" یا "ضَرَبَتْ هِنْدٌ"۔ یہ تاء  تانیث ساکنہ بتاتی ہے کہ اس فعل کا فاعل مؤنث ہے۔ "وَقَدْ عَرَفْتَ مَوَاضِعَ وُجُوبِ إِلْحَاقِهَا" فرماتے ہیں کہاں کہاں تاء  تانیثِ ساکنہ کا لگانا ضروری ہے۔

 آگے فرماتے ہیں: "إِذَا لَاقَاهَا سَاكِنٌ بَعْدَهَا"۔ اگر اس تاء  تانیث کے بعد ایک اور حرفِ ساکن آجائے یعنی اس کی ملاقات ہوجائے یعنی اس کے بعد آجائے ایک اور حرف جو وہ بھی ساکن ہو۔ اب دو ساکن اکٹھے تو ہو نہیں سکتے۔ "وَجَبَ تَحْرِيكُهَا" پھر واجب ہوجائے گا کہ اس تاء  تانیثِ ساکنہ کو اب ساکنہ نہیں بلکہ اس کو اب حرکت دیں اور کونسی حرکت؟ وہ بھی کسرے والی۔ یعنی "ضَرَبَتْ" کی تاء کو حرکت دیں اور وہ حرکت بھی کسرہ ہو۔ جناب یہ کسرہ کیوں؟ جواب ہوگا "لِأَنَّ السَّاكِنَ إِذَا حُرِّكَ حُرِّكَ بِالْكَسْرِ" اس لیے کہ قانون ہے کہ جب بھی کسی ساکن کو حرکت دی جاتی ہے تو اس کو کسرے سے دی جاتی ہے اس وجہ سے۔ جیسے "قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ"۔ اب یہ "الصَّلَاةُ" اب فرماتے ہیں:  یہاں پر پہلی صاد جو ہے یہ ایک ساکن ہے تو "قَامَتْ" کی بجائے "قَامَتِ الصَّلَاةُ" پڑھتے ہیں۔ اس تاء ساکنہ کو حرکت دیتے ہیں۔  آگے فرماتے ہیں "وَحَرَكَتُهَا لَا تُوجِبُ رَدَّ مَا حُذِفَ"۔ اگر ہم کہیں اس تاء  تانیثِ ساکنہ کو حرکت دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ اگر سکون کی وجہ سے کوئی حذف کیا گیا تھا جس کو حذف کر دیا گیا تھا اب جب حرکت آئے گی تو وہ حذف شدہ دوبارہ واپس آجائے گا، یہ درست نہیں ہے۔ "فَلَا يُقَالُ رَمَاتِ" اب دیکھو: جہاں الف بھی ساکن تھی، تاء بھی ساکن تھی، الف گر گئی تھی "رَمَتْ" بن گیا تھا۔ اب جب تاء کو ہم نے حرکت دینی ہے "الْمَرْأَةِ" کے لیے تو پھر "رَمَاتِ الْمَرْأَةِ" تو نہیں کہنا، وہی "رَمَتِ الْمَرْأَةِ" تو کہنا ہے۔ یعنی یہ نہیں کہ اب چونکہ تاء متحرک ہوگئی ہے لہذا الف جو پہلے التقاء ساکنین کی وجہ سے گر گئی تھی اب اس کو واپس لے آئیں، ناں ایسا نہیں ہے۔ کیوں؟ فرماتے ہیں: اس لیے "لِأَنَّ حَرَكَتَهَا عَارِضِيَّةٌ" چونکہ اس تاء  تانیث کی حرکت یہ عارضی ہے "وَاقِعَةٌ لِرَفْعِ الْتِقَاءِ السَّاكِنَيْنِ" یہ جو تو فقط التقاء  ساکنین کی وجہ سے آئی ہے اس لیے کہ دو ساکن اکٹھے ہو نہیں سکتے مجبوری تھی۔ اب کوئی کہے جناب ہم نے دیکھا ہے عربی کہتے ہیں "الْمَرْأَتَانِ رَمَاتَا" کی بجائے کہتے ہیں "رَمَاتَا" یعنی او تاء سے پہلے الف کو واپس لیتے ہیں۔ فرماتے ہیں "ضَعِيفٌ"۔ اگر ایسا کرتے ہیں تو یہ قول قولِ ضعیف ہے، فرماتے ہیں :"أَمَّا إِلْحَاقُ عَلَامَةِ التَّأْنِيثِ" کیا علامتِ تانیث، علامتِ جمع مذکر، علامتِ جمع مؤنث، وہ اس کے ساتھ ملحق ہوسکتی ہیں؟ فرماتے ہیں: وہ بھی ضعیف ہیں لہذا "قَامَا الزَّيْدَانِ" او الف علامت تثنیہ آجائے "قَامُوا الزَّيْدُونَ" واو علامتِ جمع آگئی "قُمْنَ النِّسَاءُ" نون جمع مؤنث کی آگئی، فرماتے ہیں ان کو بھی یہاں لگانا یہ ضعیف ہے، ختم۔ اسی طرح "وَبِتَقْدِيرِ الْإِلْحَاقِ" اور اگر فرض کرو ان کو لگا بھی دیا جائے "لَا تَكُونُ ضَمَائِرَ" اس وقت یہ ضمائر نہیں کہیں گی، کیوں؟ اس لیے کہ لازم آئے گا "إِضْمَارٌ قَبْلَ الذِّكْرِ"۔ جناب اگر وہ ضمیر جمع مذکر یا جمع مؤنث یا کی نہیں ہے تو پھر کیا ہوگا؟ فرماتے ہیں: ہم کہیں گے کہ یہ علامات ہیں جو فاعل کے مختلف حالات پر دلالت کر رہی ہیں، جیسے تائے تانیث فاعل کی حالت بتاتی ہے کہ یہاں فاعل مؤنث ہے۔ تو ہم کہیں گے یہ بھی علامتیں ہیں کہ یہاں فاعل جمع ہے، یہاں فاعل تثنیہ ہے، یہاں جمع مؤنث ہے وغیرہ۔

وَصَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ مُحَمَّدٍ

شيءٍ فزيدٌ منطلق ، فحذف الفعل والجار والمجرور حتى بقى : أمّا فزيدٌ منطلق ، ولمّا لم يناسب دخول الشرط على فاء الجزاء نقل الفاء إلى الجزء الثاني ، ووضعوا الجزء الأوّل بين أمّا والفاء عوضاً عن الفعل المحذوف ، ثمّ ذلك الجزء إنْ كان صالحاً للابتداء فهو مبتدأ كما مرّ ، وإلّا فعامله ما بعد الفاء نحو : أمّا يَوْمُ الْجُمُعَةِ فَزَيْدٌ مُنْطَلِقٌ ، فمنطلقٌ عامل في يوم الجمعة على الظرفيّة.

فصل : حرف الردع

«كَلّا».

وضعت لزجر المتكلّم وردعه عمّا تكلّم به كقوله تعالى : «رَبِّي أَهَانَنِ كَلَّا» (١) أي لا تتكلّم بهذا فإنّه ليس كذلك. هذا في الخبر ، وقد يجيء بعد الأمر أيضاً كما إذا قيل لك : اضْربْ زَيْداً ، فقلت : كَلّا ، أي لا أفعل هذا قطّ.

وقد جاء بمعنى حقّاً كقوله تعالى : «كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ» (٢) ، وحينئذٍ يكون اسماً يبنى لكونه مشابهاً لكلّا حرفاً ، وقيل يكون حرفاً أيضاً بمعنى إنّ لكونه لتحقيق معنى الجملة.

فصل : التاء الساكنة

وهي تلحق الماضي لتدلّ على تأنيث ما اُسند إليه الفعل نحو : ضَرَبَتْ هِنْدٌ ، وعرفت مواضع وجوب إلحاقها. وإذا لقيها ساكن بعدها وجب تحريكها بالكسر لأنّ الساكن إذا حرّك حرّك بالكسر نحو : قَدْ

____________________________

(١) الفجر : ١٦ ـ ١٧.

(٢) التكاثر : ٤.

قامَتِ الصلاة وحركتها لا يوجب ردّ ما حذف لأجل سكونها فلا يقال : رَماتِ المرأة ، لأنّ حركتها عارضيّة لدفع التقاء الساكنين وقولهم : الْمَرْأتانِ رَماتا ضعيف.

وأمّا إلحاق علامة التثنية وجمع المذكّر وجمع المؤنّث فضعيف فلا يقال : قاما الزيْدانِ ، وقامُوا الزيْدُونَ ، وقُمْنَ النساءُ. وبتقدير الإلحاق لا تكون ضمائراً لئلّا يلزم الإضمار قبل الذكر بل علامات دالّة على أحوال الفاعل كتاء التأنيث.

فصل : التنوين

نون ساكنة تتبع حركة آخر الكلمة ولا تدخل الفعل وهي خمسة أقسام :

الأوّل : للتمكّن : وهي ما تدلّ على أنّ الاسم متمكّن في مقتضى الاسميّة يعني أنّه منصرف قابل للحركات الإعرابيّة نحو زَيْدٌ.

والثاني : للتنكير : وهي ما تدلّ على أنّ الاسم نكرة نحو : صَهٍ ، أي اسكت سكوتاً ما.

والثالث : للعِوَض : وهو ما يكون عوضاً عن المضاف إليه نحو : حينئِذٍ ويَوْمَئِذٍ ، أي حين إذْ كان ، ويوم إذْ كان ، وساعَتئِذٍ ، أي ساعة إذْ كان كذا.

الرابع : للمقابلة : وهو التنوين الّذي في جمع المؤنّث السالم نحو : مُسْلِماتٍ ، ليقابل نون جمع المذكّر السالم كمسلمين. وهذه الأربعة تختصّ بالاسم.

الخامس : الترنّم : وهو الّذي يلحق في آخر الأبيات وأنصاف المصراع كقول الشاعر :