درس الهدایة في النحو

درس نمبر 68: نون تاکید کے احکام

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

نون تاکید اور اس کے احکام

 ہدایت النحو کا آخری درس قسمِ سوم، قسمِ ثالث، حرف اور اس حرف میں بھی حرفِ نونِ تاکید۔ یہ نونِ تاکید وہ حرف ہے جو فعلِ مضارع یا امر کی تاکید کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ یعنی امر میں بھی طلب کا معنی ہوتا ہے تو اس کی مزید تاکید کی جاتی ہے اس کے ذریعے۔ اس میں جو طلب ہوتی ہے جس طرح مضارع میں تاکہ اس کی تاکید کرے۔ اس طلب کے معنی کی یعنی فعل کی طلب کی تاکید کرے۔

نون تاکید کی اقسام

فرماتے ہیں: نونِ تاکید کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ہوتی ہے نونِ تاکیدِ خفیفہ۔ خفیفہ کا مطلب ہوتا ہے کہ جو نونِ تاکید ساکن ہوتی ہے، اس پر کوئی حرکت نہیں ہوتی اور ایک نونِ تاکید دوسری ہوتی ہے ثقیلہ یعنی جس پر حرکت بھی ہوتی ہے اور وہ مشدد ہوتی ہے۔ البتہ مشدد ہونے میں اس کی پھر اور بھی کچھ شرائط ہیں، ان شرائط کے ساتھ۔ خفیفہ یعنی ساکنہ اور ثقیلہ یعنی مشددہ، اس پر شد ہو۔ بڑی مشہور ہیں۔ اب اس میں جو بحث ہے وہ یہ ہے کہ کونسی نون کہاں آتی ہے؟ نونِ تاکید ثقیلہ، خفیفہ کن صیغوں میں آتی ہے؟ پھر ان کے بعد پھر اگلی بحث یہ آئے گی کہ خود ان کا اپنا اعراب کیا ہوگا اور ان کے ماقبل کا اعراب کیا ہوتا ہے؟ 

فصل نون تاکید

فرماتے ہیں: حرف کی بحث میں آخری حرف وہ ہے جس کی یہاں بحث کی گئی ہے وہ ہے نونِ تاکید۔ "هِيَ" یہ نونِ تاکید وہ حرف ہے "وُضِعَتْ لِتَأْكِيدِ الْأَمْرِ وَالْمُضَارِعِ" جو امر اور مضارع کی تاکید کرتا ہے "إِذَا كَانَ فِيهِ طَلَبٌ" اگر مضارع میں بھی طلب کا معنی ہو، اس لیے کہ خبریہ ہو تو پھر نہیں، جب طلب ہو ان میں امر میں یا مضارع میں تو پھر یہ اس مضارع یا امر کے ذریعے جو فعل طلب کیا جا رہا ہوتا ہے اس فعل کے طلب کی تاکید کے لیے یہ نونِ تاکید آتی ہے اسی لیے اس کو نونِ تاکید کہتے ہیں تاکید کرتا ہے۔ "بِإِزَاءِ قَدْ" اس قد کے مقابل میں کہ جو ماضی کی تاکید کے لیے آتا ہے۔ پس ماضی کی تاکید کرنی ہو تو وہاں قد آئے گا، امر اور مضارع کی تاکید ہوگی تو یہ نونِ تاکید آئے گی۔ "وَهِيَ عَلَى ضَرْبَيْنِ" یہ نونِ تاکید، اس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ہے خفیفہ۔ خفیفہ کا مطلب ہوگا "أَيْ سَاكِنَةٌ أَبَدًا" جو ہمیشہ ساکن ہوتی ہے جیسے "اِضْرِبَنْ"، "اِضْرِبُنْ"، "اِضْرِبِنْ" جو بھی ہم پڑھتے ہیں بہرحال ساکن ہوتی ہے۔ اور دوسری قسم نونِ تاکید کی ہوتی ہے ثقیلہ۔ ثقیلہ سے کیا مراد؟ "أَيْ مُشَدَّدَةٌ" یعنی وہ نونِ تاکید مشدد ہوتی ہے اور "مَفْتُوحَةٌ" اس پر فتح ہوتا ہے اگر اس سے پہلے الف نہ ہو تو۔ لیکن اگر اس سے پہلے الف آ جائے گی تو پھر وہ مقصورہ ہو جائے گی۔ دوبارہ غور کرو۔ نونِ تاکید کی دوسری قسم نونِ تاکیدِ ثقیلہ۔ یہ ثقیلہ "مُشَدَّدَةٌ" یہ مشدد ہوتی ہے، اس پر شد پڑھی جاتی ہے۔ "مَفْتُوحَةٌ" اس پر ہمیشہ فتح پڑھا جاتا ہے اگر اس سے پہلے "إِنْ لَمْ يَكُنْ قَبْلَهَا أَلِفٌ" الف نہ ہو تو۔ جیسے "اِضْرِبَنَّ"، "اِضْرِبِنَّ"، "اِضْرِبُنَّ" یہ پڑھتے ہیں۔ "وَمَكْسُورَةٌ" اور مقصورہ ہوگی اگر اس سے پہلے الف آ جائے گی تو جیسے "اِضْرِبَانِّ" یا "اِضْرِبْنَانِّ" وہاں نون کو مقصورہ پڑھا جاتا ہے۔ 

 نون تاکید کا استعمال

اب آگے فرماتے ہیں۔ "وَتَدْخُلُ" یہ نونِ تاکید امر، نہی، استفہام، تمنی اور عرض میں داخل ہوتی ہے "جَوَازًا"۔ کیا مطلب؟ یعنی جائز ہے کہ آپ اس نونِ تاکید کو تمنی میں، استفہام میں، نہی میں، امر میں، عرض میں، ان سب کے آخر میں لا سکتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ "لِأَنَّ فِي كُلٍّ مِنْهَا طَلَبًا" اس لیے کہ امر میں بھی طلب پائی جاتی ہے وہاں طلب ہوتی ہے فعل کرنے کی۔ نہی میں طلب ہوتی ہے فعل کو نہ کرنا طلب کیا جاتا ہے۔ استفہام پوچھا جاتا ہے، وہ بھی طلب ہے، تمنی بھی طلب ہے، عرض الی آخره۔ جیسے "اِضْرِبَنَّ مَثَلًا"۔ اب یہ ہو گئی مثال کس کی؟ امر میں نونِ تاکید آ گئی۔ "لَا تَضْرِبَنَّ" یہ نہی کی مثال آ گئی۔ "هَلْ تَضْرِبَنَّ" یہ تاکید، یہ استفہام کی مثال آ گئی۔ "لَيْتَكَ تَضْرِبَنَّ" یہ تمنی کے لیے مثال ہے۔ "أَلَا تَنْزِلَنَّ بِنَا فَتُصِيبَ خَيْرًا" یہ عرض کی مثال ہے۔ ان سب میں جیسے یہ مثالیں ہم نے دی ہیں، نونِ تاکید کو داخل کرنا جائز ہے۔

 نون تاکید کا قسم میں وجوبی استعمال

یہ تو ہو گئے جواز۔ آگے فرماتے ہیں "وَقَدْ تَدْخُلُ فِي الْقَسَمِ وُجُوبًا"۔ نونِ تاکید کا قسم، یہاں قسم سے مراد ہے جوابِ قسم، نہ کہ خود قسم۔ یعنی نونِ تاکید کا جوابِ قسم پر داخل ہونا واجب ہوتا ہے۔ واجب ہوتا ہے کبھی کہ جوابِ قسم پر نونِ تاکید کو لگاؤ۔ کیوں؟ "لِوُقُوعِهِ عَلَى مَا يَكُونُ مَطْلُوبًا لِلْمُتَكَلِّمِ غَالِبًا" اس لیے کہ عام طور پر جوابِ قسم جو ہوتا ہے وہ واقع ہوتا ہے کہاں؟ کہ جو عام طور پر، غالب طور پر متکلم کا مطلوب ہوتا ہے "فَأَرَادُوا" لہٰذا وہ چاہتے ہیں "أَنْ لَا يَكُونَ" یہ علماء چاہتے ہیں۔ کیا؟ "أَنْ لَا يَكُونَ آخِرُ الْقَسَمِ" کہ قسم کا آخر یعنی جوابِ قسم آخر وہ معنیِ تاکید سے خالی نہ ہو اس لیے وہ کہتے ہیں ضروری ہے۔ "كَمَا لَا يَخْلُو أَوَّلُهُ مِنْهُ" جیسا کہ اس کے اول میں بھی تاکید ہے۔ جب کہہ دیا "وَاللهِ" اب جب بندہ قسم اٹھاتا ہے تو یہ بھی تاکید ہے تو فرماتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اس کا جوابِ قسم بھی تاکید سے خالی نہ ہو لہٰذا وہ کہتے ہیں "وَاللهِ لَأَفْعَلَنَّ كَذَا" یہاں بھی نونِ تاکید کو لے آتے ہیں جیسے ابتداء تاکید سے ہوئی ہے، اس کی جواب بھی تاکید سے ہی ہونا چاہیے۔ 

 نون تاکید سے ماقبل کے احکام

آگے فرماتے ہیں "وَاعْلَمْ" یعنی ایک اور چیز کہ "يَجِبُ ضَمُّ مَا قَبْلَهَا"۔ اب اس نونِ تاکید کے کچھ احکام بیان کر رہے ہیں۔ کہ یہ نونِ تاکید جہاں آتی ہے اس کے ماقبل سے متعلق بھی کچھ احکام ہیں۔ مثلاً پہلا حکم یہ بیان فرما رہے ہیں "يَجِبُ ضَمُّ مَا قَبْلَهَا فِي جَمْعِ الْمُذَكَّرِ"۔ اگر نونِ تاکید بہت توجہ کے ساتھ۔ اگر نونِ تاکید جمع مذکر کے صیغے کے آخر میں آتی ہے تو نونِ تاکید کا ماقبل مضموم رکھنا واجب ہے۔ واجب ہے کہ اس کے ماقبل پر ضمہ پڑھا جائے۔ وجہ؟ وجہ یہ تھی  کہ جمع مذکر کیا تھا؟ "اِضْرِبْ اِضْرِبَا اِضْرِبُوا" اب "اِضْرِبُوا" جمع تھا۔ اب جب اس نے ہم نے اس کے آخر میں نونِ تاکید لگانی ہے تو فرماتے ہیں اس کے ماقبل پر ضمہ پڑھنا واجب ہے، کیوں؟ "لِيَدُلَّ عَلَى الْوَاوِ الْمَحْذُوفَةِ" وہ ضمہ دلالت کر رہا ہوگا کہ یہاں واو کو حذف کیا گیا ہے۔ او "اِضْرِبُوا" تھا نا تو اب ہم پڑھیں گے "اِضْرِبُنَّ" اس لیے باء کو مفتوح، مضموم پڑھنا ہے تاکہ پتہ چلے کہ یہاں سے حذف ہونے والا حرف نونِ تاکید سے پہلے واو تھا۔ ٹھیک؟ ختم۔ دوسرا۔ "وَكَسْرُ مَا قَبْلَهَا فِي الْمُخَاطَبَةِ" لیکن جو مخاطبہ کا صیغہ ہوتا ہے، او "اِضْرِبْ اِضْرِبَا اِضْرِبِي" اب "اِضْرِبِي" میں فرماتے ہیں یہاں پر اگر ہم نے نونِ تاکید لگانی ہے تو وہاں پر کیا کریں گے؟ ماقبل کو کسرہ دیں گے، نونِ تاکید کا ماقبل مقصور پڑھیں گے یعنی ہم پڑھیں گے "اِضْرِبِنَّ"۔ کیوں "اِضْرِبِنَّ" پڑھیں گے؟ "لِيَدُلَّ عَلَى الْيَاءِ الْمَحْذُوفَةِ" تاکہ وہ کسرہ دلالت کرے کہ اس یہاں سے حذف ہونے والا حرف وہ حرفِ یاء تھا۔  اب یہ سوال میں گویا کیا حکم بیان ہوا ہے؟ جمع مذکر کے صیغہ میں نونِ تاکید کا ماقبل مضموم ہو تاکہ وہ دلالت کرے کہ یہاں سے واو حذف ہوئی۔ واحد مخاطبہ کے صیغہ میں نونِ تاکید کا ماقبل مقصور ہو، کسرہ دیا جائے تاکہ وہ دلالت کرے کہ یہاں سے حذف ہونے والا حرف یاء تھا۔ دو ہو گئے۔ "وَفَتْحُ مَا قَبْلَهَا فِيمَا عَدَاهُمَا" اس جمع مذکر اور واحد مخاطبہ کے علاوہ باقی صیغوں میں فرماتے ہیں ماقبل مفتوح ہوگا۔اب فرماتے ہیں : "أَمَّا الْمُفْرَدُ" مفرد میں کیوں پڑھیں؟ او "اِضْرِبْ" سے "اِضْرِبَنَّ" کیوں پڑھیں گے "اِضْرِبُنَّ" کیوں نہیں پڑھتے؟ فرماتے ہیں اس لیے "لِأَنَّهُ لَوْ ضُمَّ" اگر ہم "اِضْرِبْ" کو "اِضْرِبُنَّ" پڑھ دیں، اس کو ضمہ دے دیں تو یہ جمع مذکر کے ساتھ اس کا التباس ہو جائے گا اور اگر "اِضْرِبِنَّ" پڑھ دیں تو اس کا واحد مخاطبہ کے ساتھ التباس ہو جائے گا لہٰذا اس کو "اِضْرِبَنَّ" ہی پڑھا جائے گا۔  یہ ایک حکم ہو گیا آپ کا۔ لہٰذا مفرد میں تو اس کو "اِضْرِبَنَّ" ہی پڑھنا ہے چونکہ اگر "بُنَّ" پڑھیں گے تو اس کے ساتھ التباس اور "بِنَّ" پڑھتے ہیں۔

4

تثنیہ اور جمع مؤنث کے احکام

باقی رہ گیا  تثنیہ اور جمع مؤنث کے صیغے، ان کے بارے میں کیا کریں؟ فرماتے ہیں "أَمَّا فِي الْمُثَنَّىٰ" تثنیہ اور جمع مؤنث میں فرماتے ہیں "فَلِأَنَّ مَا قَبْلَهَا أَلِفٌ" چونکہ اس کا ماقبل، اس یعنی نونِ تاکید سے پہلے الف ہوتی ہے، ماقبل الف ہوتی ہے جیسے ہم پڑھتے ہیں "اِضْرِبَانِّ"، "اِضْرِبْنَانِّ"۔ تو اب فرماتے ہیں:  اب یوں پڑھنا ہے اس کو "اِضْرِبَانِّ" باء پر فتح پڑھنا ہے۔ "اِضْرِبْنَانِّ" یہاں نون پر فتح پڑھنا ہے کیوں؟ اس لیے کہ اس نونِ تاکید سے پہلے ایک الف موجود ہے۔ فرماتے ہیں "وَزِيدَتْ أَلِفٌ قَبْلَ النُّونِ"۔ جناب اس نون سے پہلے وہ جمع مؤنث کی ہو یا تثنیہ کی ہو، نون سے پہلے یہ الف کو اضافہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ "اِضْرِبَانِّ" تو آپ ڈائریکٹ "اِضْرِبَنِّ" پڑھ دیں، "اِضْرِبْنَنِّ" پڑھ دیں جبکہ آپ پڑھ رہے ہیں "اِضْرِبَانِّ" یا "اِضْرِبْنَانِّ"۔ فرماتے ہیں: "زِيدَتْ أَلِفٌ" ان کے درمیان الف کا اضافہ کیا گیا ہے، نونِ تاکید سے پہلے الف زائد کی گئی ہے جمع مؤنث میں کیوں؟ "اِضْرِبْنَانِّ" کیوں پڑھا گیا ہے؟ "لِكَرَاهَةِ اجْتِمَاعِ ثَلَاثِ نُونَاتٍ" چونکہ یہ ناپسندیدہ ہے کہ تین نون اکٹھی ہو جائیں۔ تین نون اکٹھی ہو جائیں جن میں ایک نون ضمیر ہو اور دو نونِ تاکید کی ہو  تو فرماتے ہیں: اس لیے ہم نے اس نون اور ایک نون جو جمع کی تھی اس کے اور دو نون جو تاکید کی تھی جو مشدد ہوتی ہے واقع میں وہ دو نونیں ہوتی ہیں، ان کے درمیان الف لگا دی "اِضْرِبْنَانِّ" کر دیا تاکہ تین نون اکٹھے نہ ہو جائیں۔ 

5

نون خفیفہ کے احکام

 نون خفیفہ کے احکام

یہ تو ہو گئی ثقیلہ کی بات۔ باقی رہ گئی نونِ خفیفہ، اس کا حکم یہ ہے کہ "نُونُ الْخَفِيفَةِ لَا تَدْخُلُ فِي التَّثْنِيَةِ أَصْلًا"۔ نونِ تاکیدِ خفیفہ تثنیہ پر داخل نہیں ہوتی ایک، "وَلَا فِي الْجَمْعِ الْمُؤَنَّثِ" جمع مؤنث پر بھی داخل نہیں ہوتی۔ یعنی نہ تثنیہ میں اور نہ ہی جمع مؤنث میں یہ داخل نہیں ہوتی۔ وجہ؟ وجہ یہ ہے۔ "لَوْ حَرَّكْتَ النُّونَ" اگر آپ نون کو حرکت دیتے ہیں، حرکت دیں گے تو لم تبق علی رمز الخفیہ، پھر وہ خفیفہ نہ رہے گی۔ خفیفہ تو ہوتی ہی وہی ہے جو ساکنہ ہو۔ جب آپ حرکت دیں گے وہ خفیفہ نہ ہو گی۔ جب خفیفہ نہ ہو گی "فَلَمْ تَكُنْ عَلَى الْأَصْلِ" تو لہٰذا آپ اس قاعدے سے ہٹ گئے چونکہ ہم نے کہا تھا یہ نونِ تاکیدِ خفیفہ ہے، جناب اگر خفیفہ ہے تو پھر وہ ساکنہ نہیں ہے، یہ درست نہیں ہے۔ "وَإِنْ أَبْقَيْتَهَا سَاكِنَةً" لیکن اگر آپ اس کو ساکنہ کو ساکنہ ہی رکھیں گے تو لازم آ جائے گا التقاء ساکنین "عَلَىٰ غَيْرِ حَدِّهِ" کہ جہاں نہیں ہو سکتا، یہ درست نہیں ہے، التقاء ساکنین درست نہیں ہے۔ فرماتے ہیں "وَهُوَ غَيْرُ حَسَنٍ"۔ تو اس لیے کہتے ہیں کہ تثنیہ میں اور اگلا جملہ کیا تھا؟ تثنیہ اور جو مؤنث میں نونِ تاکید ثقیلہ داخل نہیں ہو سکتی۔

 اختتامی کلمات

بحمداللہ یہاں تک ہماری یہ کتاب مکمل ہو گئی۔ کوشش ہم نے کی ہے کہ جہاں تک ممکن ہے چونکہ 17، 18 سال کے بعد اس کتاب کو اب دوبارہ پڑھا ہے اور پھر جولائی کی شدید گرمی بھی تھی۔ اپنی طرف سے کوشش کی ہے کسی حد تک اس کو حل کیا جائے، آپ کو سمجھ آ جائے۔ اور انشاءاللہ جب یہ سمجھ آ جائے گی تو ہمارے حق میں بھی دعا کریں اور میرے اساتذہ محترم علامہ ملک مراد حسین مرحوم، علامہ غلام محمد اسدی مرحوم، ان کے استاد علامہ سید محمد یار نجفی رحمۃ اللہ علیہم ان سب کے لیے اگر ممکن ہو تو ان کے لیے سورہ فاتحہ اور ہمارے حق میں دعا ضرور فرمانا۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

أقِلّي اللَّوْمَ عاذِلُ وَالْعتابا

وقُولي إنْ أصَبْتُ لَقَدْ أصابا (١)

وكقوله :

تقولُ بِنْتي قَدْ أنىٰ إناكاً

يا أبَتا عَلَّكَ أوْ عَساكاً (٢)

وقد يحذف التنوين من العَلَمِ إذا كان موصوفاً بابن مضافاً إلى عَلَم آخر نحو : جاءني زَيْدُ بْنُ عَمْروٍ.

فصل : نون التأكيد

وهي نون وضعت لتأكيد الأمر والمضارع إذا كان فيه طلب ، بازاء «قد» لتأكيد الماضي وهي على ضربين :

خفيفة ، أي ساكنة.

وثقيلة أي مشدّدة. وهي مفتوحة إن لم يكن قبلها ألف نحو : اضْربَنَّ واضْربُنَّ واضْربِنَّ ، وإلّا فمكسورة نحو : اضْربانِّ واضْربْنانِّ.

وتدخل على الأمر والنهي والاستفهام والتمنّي والعرض جوازاً لأنّ في كلّ منها طلباً نحو : اضْرِبَنَّ ، ولا تَضْرِبَنَّ ، وهَلْ تَضْرِبَنَّ ، ولَيْتَ

____________________________

(١) يعنى : كم كن ملامت وعتاب را اى عاذله وفكر بكن در سخن من درباره تو پس اگر راست گفته ام ورسيده ام بسخن پس ملامت مكن وبگو كه راست گفته است و خوب فهميده است. شاهد در دخول تنوين ترنم است در آخر فعل كه اصاباً بوده باشد. (جامع الشواهد : ج ١ ص ١٤٥).

(٢) يعنى : مى گويد دختر من كه به تحقيق رسيده است وقت سفر كردن به جهت طلب روزى نيكويى اى پدر من. شايد تو بيابى روزى را يا اميد است كه تو غنيمت ببرى از اين سفر ، پس استخاره بكن و طلب خير بكن از خدا در قصد كردن در سفر و واگذار قول خودت را كه شايد بهره مند نشوم بخيرى هرگاه سفر كنم و حاصل نشود از براى من غير تعب و مشقت. شاهد در دخول تنوين ترنم است در «اناكاً» و «عساكاً». (جامع الشواهد).

تَضْرِبَنَّ وألا تضْرِبنَّ.

وقد يدخل النون على القسم وجوباً لوقوع القسم على ما يكون مطلوباً للمتكلّم غالباً فأراد أن لا يكون آخر القسم خالياً عن معنى التأكيد كما لا يخلو أوّله منه نحو : وَاللهِ لَأفْعَلَنَّ كَذا.

واعلم أنّه يجب ضمّ ما قبلها في الجمع المذكّر نحو : اضْربُنَّ ، لتدلّ على واو الجمع المحذوف وكسر ما قبلها في الواحد المؤنّث المخاطبة نحو : اضْرِبنَّ ، لتدلّ على الياء المحذوفة ، والفتح فيما عداها.

أمّا في المفرد فلأنّه لو انضمّ لالتبس بالجمع المذكّر ولو كسر لالتبس بالمخاطبة ، وأمّا في المثنّى وجمع المؤنّث فلأنّ ما قبلها ألف نحو : اضْربانِّ واضْربْنانِّ ، وزيدت الألف في الجمع المؤنّث قبل نون التأكيد لكراهة اجتماع ثلاث نونات ، نون المضمر ، ونون التأكيد.

ونون الخفيفة لا تدخل على التثنية أصلاً ولا في الجمع المؤنّث لأنّه لو حرّك النون لم يبق على الأصل فلم يكن خفيفة ، وإن ابقوها ساكنة فيلزم التقاء الساكنين على غير حدّه وهو غير حسن.

والحمد لله ربّ العالمين وصلّى الله على خاتم النبيّين وسيّد الوصيّين.