درس الهدایة في النحو

درس نمبر 65: حروف الشرط

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

حروف الشرط

فَصْلٌ

" حُرُوفُ الشَّرْطِ إِنْ وَلَوْ وَأَمَّا"  فرماتے ہیں: کچھ حروف عربی میں ایسے ہیں جو شرطیت کا معنی دیتے ہیں یعنی ان کے ذریعے ایک شرط لگائی جاتی ہے کہ جیسے اردو میں ہوتا ہے اگر یہ ہوا تو پھر ان کا ایک جوابِ شرط ہوتا ہے۔ اردو میں ہم کہتے ہیں اگر یہ ہے تو یہ ہے۔ عربی میں کہتے ہیں "إِنْ"، "لَوْ" یا "أَمَّا"۔ یہ تین حروف، حروفِ شرط کہلاتے ہیں۔

احکامِ حروفِ شرط

فرماتے ہیں:  یہ حروفِ شرط بھی صدارتِ کلام چاہتے ہیں یعنی اگر آپ نے ان حروف کو استعمال کرنا ہے تو ان کو جملہ کی ابتداء میں لایا جائے گا، کلام کی ابتداء میں ذکر کیا جائے گا۔ دوسرا حکم یہ ہے کہ إِنْ ہو چاہے لَوْ ہو، چاہے أَمَّا، یہ تینوں، ان میں سے ہر ایک  دو جملوں پر داخل ہوتے ہیں، ایک جملے پر داخل نہیں ہوتے۔ اب وہ دو جملے، ایک نے شرط اور  دوسرے نے جزاء بننا ہوتا ہے ، اب وہ دونوں جملے اسمیہ ہوں تو بھی ٹھیک ہے، دونوں فعلیہ ہوں تو بھی کوئی مشکل نہیں، ایک اسمیہ اور ایک فعلیہ ہو تو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دو حکم ہو گئے۔ نمبر تین: إِنْ استقبال کا معنی دیتا ہے یعنی إِنْ آتا ہے استقبال کے لیے۔ چاہے وہ ماضی پر داخل ہو،  چاہے وہ ہاں، چاہے وہ ماضی پر ہی کیوں نہ داخل ہو۔ یعنی آپ یوں کہیں گے کہ إِنْ معنی استقبال دیتا ہے چاہے وہ فعلِ ماضی پر داخل بھی کیوں نہ ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جبکہ لَوْ، بہت توجہ، لَوْ ماضی کا معنی دیتا ہے چاہے وہ مضارع پر داخل بھی کیوں نہ ہو یعنی إِنْ استقبال کا معنی دیتا ہے چاہے ماضی پر داخل ہی کیوں نہ ہو اور لَوْ ماضی کا معنی دیتا ہے چاہے وہ مضارع پر داخل ہی کیوں نہ ہو اور ان کا حکم یہ ہے کہ ان کے بعد ایک فعل ہونا چاہیے، چاہے وہ لفظاً موجود ہو، چاہے وہ تقدیراً ہو، فعل کے علاوہ دوسرے پر داخل نہیں ہوتے۔

تطبیق

"فَصْلٌ حُرُوفُ الشَّرْطِ"۔ حروفِ شرط تین ہیں: "إِنْ"، "لَوْ" اور "أَمَّا"۔ "وَلَهَا صَدْرُ الْكَلَامِ"۔ ان کا ایک حکم کیا ہے؟ کہ یہ صدارتِ کلام چاہتے ہیں یعنی یہ کلام کی ابتدا میں آتے ہیں۔ دوسرا: "يَدْخُلُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهَا عَلَى الْجُمْلَتَيْنِ"۔ ان میں سے ہر ایک دو جملوں پر داخل ہوتا ہے، چاہے وہ جملے اسمیہ ہوں، چاہے فعلیہ ہوں، چاہے ایک اسمیہ ہو، ایک فعلیہ ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آگے مثالیں آ رہی ہیں۔ فرماتے ہیں: ان میں سے إِنْ استقبال کے لیے آتا ہے۔ "وَإِنْ دَخَلَتْ عَلَى الْمَاضِي" إِنْ استقبال کا معنی دیتا ہے چاہے وہ ماضی پر داخل بھی کیوں نہ ہو۔ جیسے ہم کہتے ہیں: "إِنْ زُرْتَنِي أَكْرَمْتُكَ"۔ اب "أَكْرَمْتُ" یہ ماضی ہے لیکن یہاں فرماتے ہیں جو إِنْ داخل ہو چکا ہے یہ معنی استقبال کا ہوگا: "إِنْ زُرْتَنِي" اگر تو میری زیارت کرے گا، مجھے ملنے آئے گا، "أَكْرَمْتُكَ" میں تیرا اکرام کروں گا۔ استقبال کا معنی دیتا ہے۔ "لَوْ" یہ ماضی کا معنی دیتا ہے یعنی ماضی کے لیے آتا ہے "وَإِنْ دَخَلَتْ عَلَى الْمُضَارِعِ" بے شک یہ مضارع پر داخل بھی کیوں نہ ہو۔ اب دیکھو نا جی اوپر "إِنْ زُرْتَ" اب وہاں پر وہ داخل ہوا تھا ماضی پر لیکن معنی دے استقبال کا۔ اب کہتے ہیں کہ لَوْ ماضی کے لیے آتا ہے چاہے مضارع پر کیوں نہ ہو جیسے "لَوْ تَزُورُنِي"۔ اب ظاہر ہے "تَزُورُ" یہ مضارع ہے لیکن پھر بھی یہاں معنی کس کا کریں گے؟ ماضی کا۔ "لَوْ تَزُورُنِي أَكْرَمْتُكَ"۔ "لَوْ تَزُورُنِي" اگر تو میری زیارت کو آیا ہوتا، او ماضی کا، اگر تو نے میری زیارت کی ہوتی تو میں تیرا اکرام کرتا۔ اب دیکھو وہاں "إِنْ زُرْتَ"، "زُرْتَ" ماضی تھا، ترجمہ ہم نے استقبال کا کیا کہ اگر تو میری ملاقات کرے گا اور نیچے "تَزُورُ" مضارع ہے لیکن ترجمہ ہم نے کرنا ہے ماضی والا لَوْ کی وجہ سے کہ اگر تو میرے زیارت کو آیا ہوتا یعنی ملنے میں آیا ہوتا۔"وَيَلْزَمُهُمَا الْفِعْلُ"۔ ایک بات یاد رکھنا کہ ان دونوں کے بعد ایک فعل کا آنا ضروری ہے، اب چاہے وہ لفظاً موجود ہو جیسے ان ساری دونوں مثالوں میں ہے یا چاہے تقدیراً ہو جیسے "إِنْ أَنْتَ زَائِرِي فَأَنَا أُكْرِمُكَ"۔ "إِنْ أَنْتَ زَائِرِي فَأَنَا أُكْرِمُكَ"۔ مراد کیا ہے؟ یعنی "إِنْ زُرْتَنِي"۔ مراد وہی ہے۔ فرماتے ہیں یہ ہے۔ "وَاعْلَمْ أَنَّ إِنْ لَا تُسْتَعْمَلُ إِلَّا فِي الْأُمُورِ الْمَشْكُوكَةِ" یہ حروفِ شرط امورِ مشکوکہ میں کہ جن کے ہونے کا شک ہو، وہاں استعمال ہوتے ہیں، یقینی میں نہیں۔ لہذا اگر آپ کسی کو یوں کہتے ہیں: "آتِيكَ إِنْ طَلَعَتِ الشَّمْسُ" یہ غلط ہے کیوں؟ چونکہ طلوعِ شمس امورِ مشکوکہ میں سے نہیں ہے کہ اس کے بارے میں شک ہے پتہ نہیں سورج طلوع ہوگا یا نہیں ہوگا، نہ۔ لہذا إِنْ یہاں پر استعمال کرنا درست نہیں ہے بلکہ آپ کہتے ہیں "آتِيكَ إِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ"۔ "إِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ"۔  چونکہ إِذَا وہاں استعمال ہوتا ہے کہ جو امورِ متیقنہ ہو اور یہ إِذَا امورِ متیقنہ میں سے ہے۔ طلوعِ شمس امورِ متیقنہ میں سے ہے۔

4

حروف شرط کی شرح اور ان کے احکام

 شرحِ "لَوْ"

فرماتے ہیں: ان حروفِ شرط میں سے ایک ہے لَوْ۔ یہ لَوْ کیا کہتا ہے؟ یہ لَوْ کہتا ہے کہ دوسرا جملہ اس لیے، دوسرے جملے کی نفی کرتا ہے کیوں؟ چونکہ پہلے جملے کی وجہ سے۔ چونکہ دوسرے جملے کی نفی، دوسرا جملہ نہیں ہو سکتا، کیوں؟ چونکہ پہلے کی نفی کی ہے، چونکہ یہ نہیں ہو سکتا، اگر وہ اس کی نفی نہ ہوتی تو پھر دوسرے کی نفی بھی نہ ہوتی۔  "وَلَوْ" حروفِ شرط میں سے ہے لَوْ۔ "تَدُلُّ" یہ حرفِ لَوْ دلالت کرتا ہے "عَلَى نَفْيِ الْجُمْلَةِ الثَّانِيَةِ"۔ جملۂ ثانیہ کی نفی پر کہ نہیں یہ کام نہیں ہو سکتا۔ بھئی کیوں نہیں ہو سکتا؟ "بِسَبَبِ نَفْيِ الْجُمْلَةِ الْفِعْلِيَّةِ الْأُولَى"۔ اس لیے چونکہ پہلے جملے کی نفی ہے، چونکہ یہ دو جملوں پر داخل ہوتے ہیں، چونکہ پہلے جملے کے وہ نہیں ہو سکتا، لہذا یہ بھی نہیں ہو سکتا۔ جیسے یہ ہے۔ "لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا"۔ اب یہ لَوْ فساد کی نفی کر رہا ہے کہ "لَفَسَدَتَا" نفی کر رہا ہے، یہ فاسد نہیں ہے، کیوں؟ اس لیے کہ پہلا جملہ، اس لیے کہ اِلٰہ متعدد نہیں ہیں۔ تو پہلے کی نفی کی وجہ سے دوسرے کی نفی کر رہا ہے۔ 

 شرط اور قسم کا اجتماع

 فرماتے ہیں: "إِذَا وَقَعَ الْقَسَمُ فِي أَوَّلِ الْكَلَامِ وَتَقَدَّمَ عَلَى الشَّرْطِ" کہ اگر ابتداء  کلام میں قسم آ گئی ہے۔ اولِ کلام میں کیا ہے؟ ایک قسم ہے جیسے "وَاللَّهِ"۔ ابتداء  کلام میں آ گئی ہے قسم۔ اور وہ قسم اس حرفِ شرط پر بھی مقدم ہے۔

 ہم نے کہا ہے کہ قسم صدرِ کلام کا تقاضا کرتی ہے ، حرفِ شرط بھی کہتا ہے کہ میں ابتداء میں ہوں، اب ایک جملے کی ابتداء میں قسم آ گئی ہے اور قسم کے بعد شرط آ گئی ہے۔ تو ایک بحث آتی ہے کہ جب قسم آئی ہے تو وہ چاہتی ہے کہ دوسرا جملہ جوابِ قسم ہو اور شرط آئی ہے تو شرط چاہتا ہے کہ دوسرا جملہ جوابِ شرط ہو۔ تو ایک بحث تو یہ ہوگی کہ بعد میں جو دوسرا جملہ ہوگا آیا وہ جوابِ قسم کہلائے گا یا اس شرط کا جوابِ شرط کہلائے گا؟ ایک بحث یہ آئے گی۔ اور ایک بحث یہ آئے گی کہ پھر وہ جملہ ہونا کیسا چاہیے؟ یہ دو سوال ذہن میں رکھ لیں، پھر آگے کتاب میں بالکل آسان لکھا ہوا ہے۔ فرماتے ہیں:  "إِذَا وَقَعَ الْقَسَمُ فِي أَوَّلِ الْكَلَامِ" اگر ابتداء  کلام میں قسم واقع ہو جائے، ابتداء  کلام میں قسم آ جائے۔  "وَتَقَدَّمَ عَلَى الشَّرْطِ" اور وہ شرط پر مقدم ہو۔ یہ لفظی ترجمہ ہے، اب آپ کیا کہیں گے؟ کہ ایک کلام ہے، اس کلام میں پہلے ایک قسم آئی ہے، اس قسم کے بعد آ گئی ہے شرط۔ دونوں آ گئیں، قسم بھی ہے اور پھر حروفِ شرط میں سے بھی آ گیا، شرط بھی ہے، اب "يَجِبُ أَنْ يَكُونَ الْفِعْلُ الَّذِي تَدْخُلُ عَلَيْهِ حَرْفُ الشَّرْطِ"اب جس فعل پر حرفِ شرط داخل ہوا ہے، اس فعل کا ماضی ہونا واجب ہے۔ یعنی جب قسم آئی، قسم کے بعد آ گئی شرط۔ تو فرماتے ہیں: جس فعل پر حرفِ شرط داخل ہوا ہے، اس فعل کا ماضی ہونا واجب ہے۔ اب چاہے وہ لفظاً ماضی ہو، چاہے معنی ماضی میں ہو، ہونا ماضی واجب ہے۔ مثال جیسے "وَاللَّهِ إِنْ أَتَيْتَنِي أَكْرَمْتُكَ"۔ اب "وَاللَّهِ" یہ قسم آ گئی، "إِنْ" حرفِ شرط آ گیا تو فرماتے ہیں: اس کے بعد "أَتَيْتَ" یہ او "أَتَى يَأْتِي" یہ ماضی ہے، لہذا یہاں ماضی کا لانا واجب ہے اور یہاں "أَتَيْتَ" ماضی لفظاً موجود ہے۔ "أَوْ مَعْنًى" یا لفظاً نہ ہو لیکن معنی ماضی میں ضرور ہو جیسے "وَاللَّهِ إِنْ لَمْ تَأْتِنِي"۔ اگرچہ یہاں "لَمْ تَأْتِنِي" ظاہراً لفظ مضارع کا ہے لیکن ہے معنی ماضی میں۔ "إِنْ لَمْ تَأْتِنِي لَهَجَرْتُكَ"۔ اب فرماتے ہیں توجہ۔ "حِينَئِذٍ" اب "حِينَئِذٍ" کا ترجمہ علیحدہ کرنا ہے۔ "حِينَئِذٍ" کا مطلب کیا ہے؟ کہ اگر ایک کلام کی ابتداء  میں قسم آ گئی ہے اور اس قسم کے بعد شرط آ گئی ہے تو اب جملۂ ثانیہ میں بحث ہوگی کہ آیا وہ قسم کا جوابِ قسم ہے یا وہ شرط کی جزا ہے؟ اب اس سوال کا جواب یہاں سے شروع ہو رہا ہے۔ 

فرماتے ہیں: "وَحِينَئِذٍ" جب پہلے ابتداء  کلام میں قسم آ جائے اور اس کے بعد آ جائے شرط "تَكُونُ الْجُمْلَةُ الثَّانِيَةُ فِي اللَّفْظِ" اب لفظاً جو جملۂ ثانیہ موجود ہوگا، وہ قسم کا جواب ہوگا "لَا جَزَاءً لِلشَّرْطِ" نہ کہ وہ شرط کی جزا۔ اب یہ جواب وہ جو میں نے پہلے سوال اٹھایا تھا۔ جناب اگر ابتداء  کلام میں قسم ہے، اس کے بعد شرط ہے، قسم جوابِ قسم مانگتی ہے، شرط جزا مانگتی ہے، بعد میں جملہ ایک ہے دو نہیں، دوسرا جملہ اب اس کو آیا قسم کے جواب بنائیں یا شرط کی جزا؟ فرماتے ہیں "تَكُونُ الْجُمْلَةُ الثَّانِيَةُ فِي اللَّفْظِ" او لفظاً جملۂ ثانیہ موجودہ وہ قسم کا جواب ہوگا، شرط کی جزا نہیں ہوگا۔ اب جملۂ ثانیہ جب بن گیا جوابِ قسم، بہت توجہ آقا، تو پھر "فَلِذَلِكَ" اب چونکہ وہ جوابِ قسم ہے تو لہذا واجب ہے کہ اس میں وہ سب لائیں جو جوابِ قسم میں واجب ہوتا ہے۔ "فَلِذَلِكَ" یہی وجہ ہے کہ "وَجَبَ فِيهَا" اس جملۂ ثانیہ میں لازم ہے، واجب ہے کیا؟ "مَا وَجَبَ فِي جَوَابِ الْقَسَمِ" جو کچھ جوابِ قسم میں واجب ہوتا ہے، اس جملۂ ثانیہ پر بھی وہ سب کچھ واجب ہو جائے گا،  یہاں پر بھی سارے احکام وہی ہوں گے۔ فرماتے ہیں "فَلِذَلِكَ" پس یہی وجہ ہے، چونکہ یہ جوابِ قسم واقع ہو رہا ہے، "وَجَبَ فِيهَا" ھا کا مرجع جملۂ ثانیہ۔ اس جملۂ ثانیہ میں واجب ہوگا "مَا وَجَبَ" جو کچھ واجب ہوتا ہے "فِي جَوَابِ الْقَسَمِ"۔ کیسے؟ "مِنَ اللَّامِ" جیسے جوابِ قسم پر لام کو لگانا ضروری ہوتا ہے یا دیگر، جیسے آپ نے مثالوں میں دیکھا، ہم نے کیا کہا تھا؟ "إِنْ أَتَيْتَنِي" "وَاللَّهِ إِنْ أَتَيْتَنِي لَأَكْرَمْتُكَ"۔ یہ لام اس لیے ہے کہ یہ واللہ کا جوابِ قسم ہے۔ "وَاللَّهِ إِنْ لَمْ تَأْتِنِي لَهَجَرْتُكَ" واجب اس پر بھی لام ہے کیوں؟ اس لیے کہ یہ واللہ کا جوابِ قسم ہے۔

یہ تو ہو گئی  اگر قسم ابتداء  کلام میں واقع ہے۔ اب فرماتے ہیں "وَأَمَّا إِنْ وَقَعَ الْقَسَمُ فِي وَسَطِ الْكَلَامِ" اگر کوئی جملہ ایسا ہے، کوئی کلام ایسی ہے کہ جہاں شرط پہلے ہے لیکن قسم وسط میں آ گئی ہے،  "إِنْ وَقَعَ الْقَسَمُ فِي وَسَطِ الْكَلَامِ" ابتداء میں نہ ہو بلکہ وسط میں ہو، اب کیا کریں؟ "جَازَ أَنْ يُعْتَبَرَ الْقَسَمُ" یہ بھی جائز ہے کہ آپ معیار قسم کو بنا لیں اور "بِأَنْ يَكُونَ الْجَوَابُ لَهُ" اور دوسرے جملے کو جوابِ قسم قرار دیں جیسے "إِنْ أَتَيْتَنِي وَاللَّهِ" اب "وَاللَّهِ" درمیان میں آ گیا، ایک جملہ اس سے پہلے ہے، ایک جملہ اس کے بعد میں ہے۔ تو اب فرماتے ہیں جب بعد میں ہے، اب آپ کے لیے جائز ہے۔ کیا جائز ہے؟ کہ آپ دوسرے جملے کو اس پہلے جملے کا کیا قرار دیں؟ جوابِ قسم قرار دیں، جیسے "إِنْ أَتَيْتَنِي فَوَاللَّهِ لَأُؤْتِيَنَّكَ"۔ اب اس پر لام داخل کر لو اور اس کو اللہ کا کیا بنا لو؟ جوابِ قسم۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ نہ، آپ قسم کو معیار قرار نہ دیں، آپ یوں کہہ دیں "إِنْ أَتَيْتَنِي وَاللَّهِ آتِيكَ"۔ "وَجَازَ أَنْ يُلْغَى" "نَحْوَ إِنْ تَأْتِنِي وَاللَّهِ آتِكَ"۔

 شرحِ أَمَّا

اس کے بعد باقی رہ گیا أَمَّا، حروفِ شرط میں سے۔ أَمَّا کے بارے میں فرماتے ہیں یہ أَمَّا حروفِ شرط میں تو ہے۔ فرماتے ہیں أَمَّا، تھوڑا سا آسان، فرماتے ہیں "لِتَفْصِيلِ مَا ذُكِرَ مُجْمَلًا"۔ ایک چیز پہلے بیان ہوئی لیکن اس میں اجمال پایا جاتا تھا، اجبام پایا جاتا تھا۔ آپ اسی مجمل کو واضح اور اس کی تفصیل بیان کرنا چاہتے ہیں تو وہاں پر اس أَمَّا کا استعمال کیا جاتا ہے۔ أَمَّا کس کے لیے آتا ہے؟ پھر اس کے بعد آگے چند مقامات ہیں کہ یہاں پر اس کو أَمَّا پڑھنا ہے، کہاں اس کو جواب پر شرط لگانی ہے، فرماتے ہیں حروفِ شرط میں سے ایک ہے أَمَّا "لِتَفْصِيلِ مَا ذُكِرَ مُجْمَلًا" جس چیز کو مجمل یعنی اجمالی انداز میں بیان کیا گیا ہے، یہ أَمَّا اسی کی تفصیل کو بیان کرتا ہے۔ جیسے "النَّاسُ سَعِيدٌ وَشَقِيٌّ"۔ لوگ سعادت مند بھی ہیں، بدبخت بھی ہیں، اب سعید کون ہیں؟ اجمال ہے۔ شقی کون ہیں؟ اجمال ہے۔ أَمَّا کے ذریعے اب اس کا، اس کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے، کیا؟ "أَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا" جو لوگ سعید ہوں گے "فَفِي الْجَنَّةِ"۔ "وَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ"۔ اب اس أَمَّا نے آ کر اس سعید اور شقی کی تفصیل کو بیان کر دیا۔ 

احکامِ أَمَّا

أَمَّا کے احکام۔ فرماتے ہیں "يَجِبُ فِي جَوَابِهَا الْفَاءُ"۔ أَمَّا کے ذریعے جب ہم أَمَّا کو استعمال کریں گے حروفِ شرط میں سے تو اس کے جواب پر فا کا لگانا واجب ہے۔ آپ نے دیکھا ہے نا "أَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا" آگے ہم نے کہا ہے "فَفِي الْجَنَّةِ"۔ "أَمَّا الَّذِينَ شَقُوا" یعنی جو لوگ خوش بخت تھے "فَفِي الْجَنَّةِ" یعنی جواب پر فا کا لگانا واجب ہے۔  اور یہ بھی واجب ہے "أَنْ يَكُونَ الْأَوَّلُ سَبَبًا لِلثَّانِي"  دوسرا، یہ بھی واجب ہے کہ أَمَّا بھی دو جملوں پر ہوتا ہے نا کہ جملۂ اول جملۂ ثانی کے لیے سبب بن رہا ہو کہ ان کا سعادت مند ہونا سبب ہے جنت میں جانے کا، ان کا شقی ہونا سبب ہے نار میں جانے کا۔ دو ہو گئے۔ نمبر تین: "وَأَنْ يُحْذَفَ فِعْلُهَا" اس کے فعل کو حذف کر دیا جائے، کب؟ ذرا توجہ کرنی ہے۔ کہ "أَنْ يُحْذَفَ فِعْلُهَا" "مَعَ أَنَّ الشَّرْطَ لَابُدَّ لَهُ مِنْ فِعْلٍ"۔ جہاں پر شرط یہ تھی کہ اس کے لیے فعل ہونا چاہیے، وہاں حذف کر دیا جائے۔ کیوں حذف کر دیا جائے؟ وجہ کیا ہے؟ "لِيَكُونَ تَنْبِيهًا" تاکہ اس طرف متوجہ کیا جائے کہ "أَنَّ الْمَقْصُودَ بِهَا" کہ یہاں ہمارا مقصود "حُكْمُ الِاسْمِ الْوَاقِعِ بَعْدَهَا"۔ کہ اس اسم کا حکم بیان کرنا مقصود ہے جو اس کے بعد ہو رہا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں "أَمَّا زَيْدٌ فَمُنْطَلِقٌ"۔ "أَمَّا زَيْدٌ فَمُنْطَلِقٌ"۔ لیکن واقع میں جملہ کیا تھا؟ واقع میں جملہ یہ تھا "مَهْمَا يَكُنْ مِنْ شَيْءٍ فَزَيْدٌ مُنْطَلِقٌ"۔ اب ہم نے یکن فعل کو حذف کر دیا چونکہ ہمارا مقصد یہ تھا کہ اس اسم کے حکم کو بیان کرنا ہے، لہذا فعل حذف ہو گیا اور ہم نے کہہ دیا "أَمَّا زَيْدٌ فَمُنْطَلِقٌ"۔ "فَحُذِفَ الْفِعْلُ وَالْجَارُّ وَالْمَجْرُورُ"۔ یکن بھی حذف ہو گیا، "مِنْ شَيْءٍ" بھی حذف ہو گیا، "وَأُقِيمَ أَمَّا مَقَامَ مَهْمَا" اور أَمَّا مہما کا قائم مقام بن گیا اور باقی جملہ رہ گیا "أَمَّا فَزَيْدٌ مُنْطَلِقٌ"۔ "أَمَّا فَزَيْدٌ" چونکہ اصل میں تھا نا او مہما یکن من شیء "فَزَيْدٌ مُنْطَلِقٌ"۔ اب بن جائے گا "أَمَّا فَزَيْدٌ مُنْطَلِقٌ"۔ آگے فرماتے ہیں "وَلَمَّا لَمْ يُنَاسِبْ دُخُولُ حَرْفِ الشَّرْطِ عَلَى فَاءِ الْجَزَاءِ" چونکہ حرفِ شرط کو فاء جزائیہ پر داخل کرنا مناسب نہیں تھا، انہوں نے اس فاء کو زید سے نقل کر کے منطلق ان کو دے دیا تو یہ بن گیا "أَمَّا زَيْدٌ فَمُنْطَلِقٌ"۔ چونکہ أَمَّا ڈائریکٹ فاء جزائیہ پر داخل نہیں ہو سکتا، مناسب نہیں تھا، اس لیے زید سے فاء جزائیہ کو ہٹا کر منطلق ان کو دے دی تو "أَمَّا فَزَيْدٌ" کی بجائے بن گیا "أَمَّا زَيْدٌ فَمُنْطَلِقٌ"۔ ٹھیک ہو گیا۔ "فَوَضَعُوا الْجُزْءَ الْأَوَّلَ بَيْنَ أَمَّا وَالْفَاءِ عِوَضًا عَنِ الْفِعْلِ الْمَحْذُوفِ"۔ بعد میں انہوں نے کیا کیا؟ یعنی جز اول کو، بعد میں انہوں نے او پہلی جز کو یعنی أَمَّا اور فاء کے درمیان فعلِ محذوف کے عوض میں رکھ دیا اور "أَمَّا زَيْدٌ فَمُنْطَلِقٌ" اور یہی پہلا جز اگر ابتدا میں آنے کی سکتا ہے تو وہ مبتدا بن جائے گا اور اگر نہیں تو اس کا عامل وہی ہوگا جو فاء کے بعد ہوگا جیسے ہم کہتے ہیں "أَمَّا يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَزَيْدٌ مُنْطَلِقٌ"۔ منطلق عامل ہے "يَوْمَ الْجُمُعَةِ" ظرفیت کی کیا ہے؟ او "يَوْمَ الْجُمُعَةِ"۔ مثال دے رہے ہیں فرماتے ہیں "فَوَضَعُوا الْجُزْءَ الْأَوَّلَ بَيْنَ أَمَّا وَالْفَاءِ عِوَضًا عَنِ الْفِعْلِ الْمَحْذُوفِ"۔ "ثُمَّ وَلَكَ الْجُزْءُ الْأَوَّلُ" اگر وہ جز اول مبتدا بننے کی صلاحیت رکھتی ہے تو وہ مبتدا بن جائے گی، نہیں تو اس کا عامل وہی ہوگا جو فاء کے بعد ہوگا جیسے ہم کہتے ہیں "أَمَّا يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَزَيْدٌ مُنْطَلِقٌ"۔ اب یہ منطلق عامل بنے گا "يَوْمَ الْجُمُعَةِ" او جو "يَوْمَ الْجُمُعَةِ" کہہ رہے ہیں اس لیے کہ وہ اس کا ظرف بن رہا ہے۔

  وَصَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ مُحَمَّدٍ

وقد يجيء للتحقيق كقوله تعالى : «قَدْ يَعْلَمُ اللَّـهُ الْمُعَوِّقِينَ» (١) ، ويجوز الفصل بينه وبين الفعل بالقسم نحو : قَدْ وَاللهِ أحْسَنْتَ ، ويحذف الفعل بعده عند وجود القرينة نحو قول الشاعر :

أَفِدَ التَّرَحُّلُ غَيْرَ أنَّ رِكابَنا

لَمّا تَزَلْ بِرحالِنا وَكَأَنْ قَدْ (٢)

أي وكان قد زالت.

فصل : حروف الاستفهام :

«الهمزة ، وهل».

ولهما صدر الكلام ، وتدخلان على الجملة الاسميّة والفعليّة نحو : أزَيْدٌ قائِمٌ ؟ وهَلْ قامَ زَيْدٌ ؟ ودخولهما على الفعليّة أكثر لأنّ الاستفهام بالفعل أولى.

وقد تدخل «الهمزة» في مواضع لا يجوز دخول «هل» فيها نحو : أزَيْداً ضَرَبْتَ ؟ وأتَضْربُ زَيْداً وَهُوَ أخُوكَ ؟ وأزَيْدٌ عِنْدَكَ أم عَمْروٌ ؟ وأوَمَنْ كانَ وأفَمَنْ كانَ ، ولا تستعمل هل في هذه المواضع وهاهنا بحث.

فصل : حروف الشرط

ثلاثة : «إنْ ، ولَوْ ، وأمّا». ولها صدر الكلام ويدخل كلّ واحد منها على الجملتين اسميتين كانتا أو فعليّتين أو مختلفتين.

____________________________

(١) الأحزاب : ١٨

(٢) يعنى : نزديك كرد كوچ كردن و بار بستن بر شتران جز آنكه شتران سوارى ما هنوز برطرف نشده اند و برنخواسته اند از خوابگاه خود و منزلگاه ما و گويا كه بتحقيق كه برخواسته اند به جهت آنكه اسباب سفر مهيّاست. شاهد در اين جا حذف فعل قد است بعد از او ، اى و كان قد زالت. (جامع الشواهد : ج ١ ص ١٣٥ ـ ١٣٦).

فـ «إنْ» للاستقبال وإن دخلت على الفعل الماضي نحو : إنْ زُرْتَني فَاُكْرمُكَ.

و «لَوْ» : للماضي وإن دخل على المضارع نحو : لَوْ تَزُرْني أكْرَمْتُكَ ويلزمها الفعل لفظاً كما مرّ أو تقديراً نحو : إنْ أنْتَ زائِري فَأكْرَمْتُكَ.

واعلم أنّ «إنْ» لا تستعمل إلّا في الاُمور المشكوك فيها مثل : إنْ قُمْتَ قُمْتُ ، فلا يقال آتيكَ إنْ طَلَعَت الشَّمْسُ ، وإنّما يقال آتيكَ إذا طَلَعَت الشَّمْسُ.

«ولَوْ» : تدلّ على نفي الجملة الثانية بسبب نفي الجملة الاُولى كقوله تعالى : «لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا» (١).

وإذا وقع القسم في أوّل الكلام وتقدّم على الشرط يجب أن يكون الفعل الّذي يدخل عليه حرف الشرط ماضياً لفظاً نحو : وَاللهِ إنْ أتَيْتَني لَأكْرَمْتُكَ ، أو معنىً نحو : وَاللهِ إنْ لَمْ تَأْتِني لَأهجُرَنَّكَ ، وحينئذ يكون الجملة الثانية في اللفظ جواباً للقسم لا جزاء للشرط فلذلك وجب فيها ما يجب في جواب القسم من اللام ونحوها كما رأيت في المثالين أمّا إنْ وقع القسم في وَسَطِ الكلام جاز أنْ يعتبر القسم بأن يكون الجواب باللام له نحو : إنْ تَأْتِني وَاللهِ لأتيتُكَ ، وجاز أنْ يلغى نحو : إنْ تَأْتِني وَاللهِ أتَيْتُكَ.

و «أمّا» : لتفصيل ما ذكر مجملاً نحو : «فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ» «أَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ» و «فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ» (٢).

وتجب في جوابه الفاء ، وأن يكون الأوّل سبباً للثاني ، وأن يحذف فعلها مع أنّ الشرط لا بدّ له من فعل ليكون تنبيهاً على أنّ المقصود بها حكم الاسم الواقع بعدها نحو : أمّا زَيْدٌ فَمُنْطَلِقٌ ، تقديره : مهما يكنْ من

____________________________

(١) الانبياء : ٢٢.

(٢) هود : ١٠٨ ، ١٠٦

شيءٍ فزيدٌ منطلق ، فحذف الفعل والجار والمجرور حتى بقى : أمّا فزيدٌ منطلق ، ولمّا لم يناسب دخول الشرط على فاء الجزاء نقل الفاء إلى الجزء الثاني ، ووضعوا الجزء الأوّل بين أمّا والفاء عوضاً عن الفعل المحذوف ، ثمّ ذلك الجزء إنْ كان صالحاً للابتداء فهو مبتدأ كما مرّ ، وإلّا فعامله ما بعد الفاء نحو : أمّا يَوْمُ الْجُمُعَةِ فَزَيْدٌ مُنْطَلِقٌ ، فمنطلقٌ عامل في يوم الجمعة على الظرفيّة.

فصل : حرف الردع

«كَلّا».

وضعت لزجر المتكلّم وردعه عمّا تكلّم به كقوله تعالى : «رَبِّي أَهَانَنِ كَلَّا» (١) أي لا تتكلّم بهذا فإنّه ليس كذلك. هذا في الخبر ، وقد يجيء بعد الأمر أيضاً كما إذا قيل لك : اضْربْ زَيْداً ، فقلت : كَلّا ، أي لا أفعل هذا قطّ.

وقد جاء بمعنى حقّاً كقوله تعالى : «كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ» (٢) ، وحينئذٍ يكون اسماً يبنى لكونه مشابهاً لكلّا حرفاً ، وقيل يكون حرفاً أيضاً بمعنى إنّ لكونه لتحقيق معنى الجملة.

فصل : التاء الساكنة

وهي تلحق الماضي لتدلّ على تأنيث ما اُسند إليه الفعل نحو : ضَرَبَتْ هِنْدٌ ، وعرفت مواضع وجوب إلحاقها. وإذا لقيها ساكن بعدها وجب تحريكها بالكسر لأنّ الساكن إذا حرّك حرّك بالكسر نحو : قَدْ

____________________________

(١) الفجر : ١٦ ـ ١٧.

(٢) التكاثر : ٤.