درس الهدایة في النحو

درس نمبر 64: حرف توقع (قد) اور استفھام کی بحث

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

حرف توقع (قد) اور اس کے معانی

فَصْلٌ

" حَرْفُ التَّوَقُّعِ قَدْ" قسمِ سِوُم، حرف ہمارا موضوعِ بحث تھا۔ اس فصل میں فرما رہے ہیں ایک حرف ایسا ہے جس حرف کو حرفِ توقع کہا جاتا ہے۔ اور اس حرف کا دوسرا نام حرفِ تقریب بھی ہے۔ جناب! اس حرف کو حرفِ توقع کیوں کہا جاتا ہے؟ جواب: چونکہ متکلم مخاطب کو ایسی خبر دے رہا ہوتا ہے جس کی مخاطب کو اس متکلم سے توقع تھی اور یہ بھی ویسی خبر دے رہا ہے اس لیے اس کو حرفِ توقع کہتے ہیں۔ اور اسی کو حرفِ تقریب بھی کہتے ہیں۔ کیوں؟ چونکہ یہ ماضی کو حال کے قریب کرتا ہے، ان شاء اللہ ترجمے میں بتاؤں گا تو اس لیے اس کو حرفِ تقریب بھی کہا جاتا ہے۔ اور وہ حرفِ توقع یا حرفِ تقریب ہے "قَدْ"۔ فقط ایک، قرآن مجید میں بہت سارے مقامات پر یہ حرف استعمال ہوا ہے۔

 دیگر معانی "قَدْ"

فرماتے ہیں یہ حرفِ قد جو توقع کے لیے آتا ہے، کبھی کبھار یہ تاکید کا معنی بھی دیتا ہے۔ کبھی کبھار یہ تقلیل کا معنی بھی دیتا ہے۔ کبھی کبھار یہ تحقیق کا معنی بھی دیتا ہے۔ یعنی یہی قد اس توقع کے علاوہ یا تقریب کے علاوہ تاکید کے لیے بھی آتا ہے، کہیں تحقیق کے لیے آتا ہے، کہیں تقلیل کے لیے آتا ہے یعنی تین اور معنی میں بھی یہی قد استعمال ہوتا ہے۔ خوب۔ اور اس کے خاص چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں، خاص نہیں۔

شرح متن "حرف التوقع"

"حَرْفُ التَّوَقُّعِ"، "حَرْفُ التَّوَقُّعِ قَدْ"۔ حرفِ توقع فقط ایک ہے، نہ حروف ہے نہ حرفان۔ ایک ہی حرف ہے جو توقع کے لیے وہ ہے "قَدْ"۔ میں نے گزارش کر دی، اس کو حرفِ توقع کیوں کہا جاتا ہے۔ "حَرْفُ التَّوَقُّعِ قَدْ"۔ "هِيَ فِي الْمَاضِي" جب یہ قد کسی فعلِ ماضی پر داخل ہوتا ہے تو پھر یہ کیا کام کرتا ہے؟ "لِتَقْرِيبِ الْمَاضِي إِلَى الْحَالِ"۔ ماضی کو حال کے قریب تر کرتا ہے کہ اگرچہ وہ کام ماضی میں ہوا ہے لیکن ماضی بہت پرانا ماضی نہیں ہے، بالکل تازہ، نزدیک ترین، حال کے نزدیک کرتا ہے۔ جیسے اگر کوئی شخص یوں کہے "قَدْ رَكِبَ الْأَمِيرُ"۔ اب "رَكِبَ الْأَمِيرُ" کا معنی کیا ہوتا ہے؟ امیر سوار ہو گیا زمانہ گزشتہ میں۔ لیکن جب اس پر قد آ جائے گا کہ "قَدْ رَكِبَ الْأَمِيرُ" تو اس کا مرنا ہوگا، اس کا ترجمہ ہوگا "قُبَيْلَ هَذَا"۔ قبیل یعنی تھوڑی دیر پہلے، قبل ہوتا ہے پہلے، قبیل یعنی تھوڑی دیر پہلے۔ تو پس "قَدْ رَكِبَ الْأَمِيرُ" کا ترجمہ آپ یوں کریں گے گویا امیر سوار ہوا تھوڑی دیر پہلے، امیر سوار ہوا، ٹھیک ہے جی۔ "وَلِأَجْلِ ذَلِكَ" اور اسی وجہ سے چونکہ یہ ماضی کو حال کے قریب کرتا ہے جب ماضی پر داخل ہو، "سُمِّيَتْ حَرْفَ تَقْرِيبٍ أَيْضًا"۔ اسی لیے اس قد کو حرفِ توقع کے علاوہ حرفِ تقریب بھی کہا جاتا ہے چونکہ یہ یہی یعنی تقریب کا کام کرتا ہے کہ ماضی کو حال کے قریب کرتا ہے۔ ختم۔ "وَلِهَذَا تَلْزَمُ الْمَاضِيَ"۔ لہذا ضروری ہے کیا؟ کہ یہ ہمیشہ ماضی پر داخل ہو، لہذا یہ ماضی کو لازم ہوتا ہے۔ کیوں؟ "لِيَصْلُحَ أَنْ يَقَعَ حَالًا"۔ تاکہ اسے حال واقع ہونے کے قابل بنا سکے چونکہ اس نے تو قریب کرنا ہوتا ہے تو ظاہر ہے ماضی پر داخل ہوگا تو حال بنائے گا اگر حال پر ہوگا وہ تو پہلے ہی حال ہوتا ہے تو اس لیے فرماتے ہیں یہ ماضی پر ہی داخل ہوتا ہے۔  آگے فرماتے ہیں: کہ یہی قد کبھی کبھار "قَدْ تَجِيءُ لِلتَّأْكِيدِ"۔ کبھی یہ تاکید کا معنی دیتا ہے اور بس۔ یعنی کسی ماضی کو حال کے قریب نہیں کرتا بلکہ تاکید کے لیے آتا ہے۔ وہ کب؟ "إِذَا كَانَ جَوَابًا لِمَنْ يَسْأَلُ"۔ اگر یہ قد کسی سوال کے جواب میں واقع ہو، کوئی شخص سوال کرتا ہے اور قد اس کے جواب میں آئے تو وہاں فقط تاکید کا معنی دے گا۔ مثلاً ایک شخص اس کو کہتا ہے "هَلْ قَامَ زَيْدٌ"؟ اور آپ جواب میں کہیں "قَدْ قَامَ زَيْدٌ" تو یہاں قد نے فقط تاکید کا معنی دیا ہے کہ ہاں زید کھڑا ہوا۔ آگے فرماتے ہیں: "وَفِي الْمُضَارِعِ لِلتَّقْلِيلِ"۔ اور اگر یہی قد کبھی آپ کو فعلِ مضارع پر داخل ہوتا نظر آ جائے تو وہاں یہ تقلیل کا معنی دے گا، جیسے "إِنَّ الْكَذُوبَ وَقَدْ يَصْدُقُ"۔ کہ جھوٹا شخص بھی "وَقَدْ يَصْدُقُ" کبھی کبھار سچ بولتا ہے۔ یا اگر کذوب نہ ہو تو آپ کہیں گے "إِنَّ الْكَاذِبَ" یعنی فاعل کے معنی میں لائیں، کذب نہیں پڑھنا، مصدر نہیں لانا کہ کاذب یعنی جھوٹا شخص بھی "قَدْ يَصْدُقُ" کبھی کبھی سچ بولتا ہے۔ یہاں قد فعلِ مضارع یصدق پر داخل ہوا اور معنی تقلیل کا ہے۔ "أَنَّ الْجَوَادَ قَدْ يَبْخَلُ"۔ جواد یعنی سخی بھی "قَدْ يَبْخَلُ" کبھی کبھی بخل کر جاتا ہے۔ تو یہاں قد جب مضارع پر داخل ہوگا تو وہاں پر یہ تقلیل کا معنی دے گا یعنی کبھی کبھار۔ "وَقَدْ تَجِيءُ لِلتَّحْقِيقِ"۔ فرماتے ہیں یہی قد کبھی تحقیق، محقق ہونے، یقین، اس بات کا معنی بھی دیتا ہے۔ جیسے قرآن کی آیت ہے "قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الْمُعَوِّقِينَ"۔ "قَدْ يَعْلَمُ" اب "قَدْ يَعْلَمُ" پر تقلیل کا معنی نہیں دیتا، یہاں پر یہ تحقیق کا معنی دے رہا ہے۔ "قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الْمُعَوِّقِينَ" تحقیق اللہ جانتا ہے روکنے والوں کو۔

دیگر احکام "قَدْ"

فرماتے ہیں:  "يَجُوزُ الْفَصْلُ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْفِعْلِ بِالْقَسَمِ"۔ یہ قد جو فعل پر داخل ہوتا ہے، جائز ہے کہ اگر آپ قد اور اس کے مدخول فعل کے درمیان قسم کا فاصلہ لے آئیں، کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسے "قَدْ أَحْسَنْتَ" کی بجائے اگر آپ کہیں "قَدْ وَاللَّهِ أَحْسَنْتَ" تو بھی کوئی حرج نہیں، یہ جائز ہے۔ اور آخری حکم اس کا یہ ہے "قَدْ يُحْذَفُ الْفِعْلُ بَعْدَهَا"۔ بعض اوقات "عِنْدَ الْقَرِينَةِ" چونکہ بار بار کہا ہے کہ قد فعل پر داخل ہوتا ہے، فرماتے ہیں اگر کوئی قرینہ موجود ہو، بہت توجہ، اگر کوئی قرینہ موجود ہو تو وہاں پر قد کے بعد والے فعل کو حذف بھی کر دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ شاعر نے اپنے اس شعر میں حذف کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے: "أَفِدَ التَّرَحُّلُ" کوچ کا وقت قریب ہے۔ "غَيْرَ أَنَّ رِكَابَنَا لَمَّا تَزُلْ بِرِحَالِنَا" لیکن "رِكَابَنَا" یعنی ہماری سواریوں نے "لَمَّا تَزُلْ بِرِحَالِنَا" ابھی تک کچاووں کے ساتھ نہیں آئیں یعنی وہ آئی نہیں ہیں، ہمارے پاس پہنچی نہیں ہیں۔ آگے کہتا ہے "وَكَأَنَّ قَدْ"۔ اب وہ فرماتے ہیں:  یہ جو "كَأَنَّ قَدْ" ہے یہ درحقیقت ہمارا محلِ شاہد ہے۔ کس بات کا؟ کہ اس کے بعد درحقیقت "وَكَأَنَّ قَدْ زَالَتْ" یہاں پر زالت فعل تھا جو کہ محذوف ہے کیوں؟ چونکہ پہلے "لَمَّا تَزُلْ" آ گیا تھا، وہ محلِ شاہدہ ہے، لہذا یہاں پر فعل کو حذف کیا گیا ہے۔

4

حرفا الاستفهام کے قواعد

 حرفا الاستفهام کے قواعد

"حَرْفَا الِاسْتِفْهَامِ"۔ استفہام کے دو حروف، یعنی اس کے لیے فقط دو حرف ہیں زائد نہیں ہیں۔ "الْهَمْزَةُ" ایک ہے ہمزہ جیسے "أ" اور دوسرا ہے "هَلْ"، دو ہو گئے۔ ان کا حکم یہ ہے کہ "لَهُمَا صَدْرُ الْكَلَامِ"۔ یہ بھی کلام کی صدارت چاہتے ہیں، یعنی کلام کی ابتدا میں آتے ہیں۔ اگر آپ جملہ شروع کرنا چاہتے ہیں اور حروفانِ یا اس کا حرفِ استفہام کا استعمال کرنا ہے تو حرفِ استفہام چاہتا ہے کہ مجھ سے پہلے کچھ نہ ہو، کلام شروع ہی مجھ سے کی جائے۔ صدر کلام یعنی ابتدائے کلام میں آتے ہیں۔ "تَدْخُلَانِ عَلَى الْجُمْلَةِ"۔ ہمزہ اور "هَلْ" یہ داخل ہوتے ہیں جملہ پر۔ اب جملہ، جملہ فعلیہ ہو یا جملہ، جملہ اسمیہ ہو، اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ توجہ فرما رہے ہیں جی؟ "تَدْخُلَانِ عَلَى الْجُمْلَةِ"۔ ہمزہ اور "هَلْ" یہ داخل ہوتے ہیں جملہ پر۔ "اِسْمِيَّةً كَانَتْ" چاہے وہ جملہ اسمیہ ہو، جیسے "أَزَيْدٌ قَائِمٌ؟" چاہے جملہ فعلیہ ہو جیسے "هَلْ قَامَ زَيْدٌ؟" "أ" اور "هَلْ" دونوں استفہام کے لیے ہیں، کیا زید قائم ہوا؟ "وَدُخُولُهُمَا عَلَى الْفِعْلِيَّةِ أَكْثَرُ"۔ البتہ یہ ہمزہ اور "هَلْ" اگرچہ دونوں پر داخل ہوتے ہیں لیکن فعلیہ پر ان کا داخل ہونا زیادہ ہے۔ یعنی کیا؟ کہ یہ زیادہ تر جملہ فعلیہ پر داخل ہوتے ہیں۔ زیادہ تر جملہ فعلیہ پر داخل ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے جی؟ کیوں؟ فرماتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ "إِذِ الِاسْتِفْهَامُ بِالْفِعْلِ أَوْلَى"۔ اس لیے چونکہ فعل کے ذریعے استفہام، فعل یعنی زیادہ ہوتا ہے، کام کے بارے میں زیادہ پوچھا جاتا ہے، تو اس لیے فرماتے ہیں فعل کے ذریعے استفہام زیادہ ہوتا ہے، اس لیے جملہ فعلیہ پر داخل ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے جی؟

 همزه استفهامیه اور هل کا فرق اور موارد استعمال

"وَقَدْ تَدْخُلُ الْهَمْزَةُ فِي مَوَاضِعَ لَا يَجُوزُ دُخُولُ هَلْ فِيهَا"۔ اب تھوڑی سی آپ توجہ فرمائیں گے، وہ یہ ہے کہ کچھ مقامات ایسے ہیں کہ جہاں همزه داخل ہوتا ہے، یعنی وہاں همزه کا استعمال ہوتا ہے لیکن هل کا استعمال جائز نہیں ہوتا۔ اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جہاں هل استعمال ہوتا ہے، وہاں همزه کا استعمال جائز نہیں ہوتا۔ ٹھیک ہے جی؟ مختلف مقام ہیں۔ فرماتے ہیں مثلاً "أَزَيْداً ضَرَبْتَ؟" اب یہاں پر هل زیداً ضربت نہیں کہیں گے، آپ کہیں گے "أَزَيْداً ضَرَبْتَ؟"۔ یا "أَتَضْرِبُ زَيْداً؟" "أَتَضْرِبُ زَيْداً؟" اچھا جی۔ اسی طرح اگلی مثال "أَتَضْرِبُ زَيْداً وَهُوَ أَخُوكَ؟" اب یہاں پر صرف هل استعمال ہونا ہے۔ سوری، أ استعمال ہونا ہے، همزه، هل نہیں ہونا۔ دو ہو گئے۔ "أَزَيْدٌ عِنْدَكَ أَمْ عَمْرٌو؟" یہاں پر بھی همزه کا استعمال ہے۔ خب، آگے فرماتے ہیں۔ "أَزَيْدٌ عِنْدَكَ أَوْ مَنْ كَانَ؟" یا اس کے خلاف فرماتے ہیں، نہیں "أَزَيْدٌ عِنْدَكَ أَمْ عَمْرٌو؟" یہاں پر هل کا استعمال درست نہیں ہے۔ آگے فرماتے ہیں اسی طرح "أَوَمَنْ كَانَ؟" "أَفَمَنْ كَانَ؟" "أَثُمَّ إِذَا وَقَعَ؟" یہاں پر بھی صرف أ استعمال ہو سکتا ہے لیکن هل استعمال نہیں ہو سکتا۔ ٹھیک ہے جی؟ "أَوَمَنْ" یا "أَفَمَنْ كَانَ" یا "أَثُمَّ إِذَا وَقَعَ"۔ "وَلَا تُسْتَعْمَلُ هَلْ فِي هَذِهِ الْمَوَاضِعِ" یہاں پر فقط أ استعمال ہوتا ہے۔ وھنا بحث مراد کیا ہے؟ کہ یہاں جس طرح همزه ان مقامات پر داخل ہوتا ہے اور هل کا استعمال جائز نہیں ہے، کچھ مقام ایسے ہیں کہ جہاں هل کا استعمال ہو سکتا ہے، همزه کا نہیں ہو سکتا۔ وہ انشاءاللہ بڑی کتابوں میں بھی آئیں گے۔ یہاں بھی مثلاً حرف عطف کے بعد اگر آ جائے تو وہاں صرف هل ہوتا ہے۔ أم کے بعد آ جائے تو بھی هل ہوتا ہے۔ اثبات میں نفی کا معنی ہو تو بھی هل ہوتا ہے وغیرہ۔ ان شاءاللہ اس کی پھر تفصیل آگے آئے گی۔

"وَصَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ مُحَمَّد"

فصل : حروف التحضيض

اربعة : «هَلّا ، وألّا ، ولَوْلا ، ولَوْما».

ولها صدر الكلام ومعناها حثّ على الفعل إذا دخل على المضارع نحو : هَلا تَأكُلُ ، ولَوْمٌ وتعيير إنْ دخل على الماضي نحو : هَلّا ضَرَبْتَ زَيْداً ، وحينئذ لا يكون تحضيضاً إلّا باعتبار ما فات.

ولا تدخل إلّا على الفعل كما مرّ. وإنْ وقع بعدها اسم فبإضمار فعل كما تقول لمن ضرب قوماً : هَلّا زَيْداً ، أي هَلّا ضَرَبْتَ زيداً.

وجميعها مركّبة جزؤها الثاني حرف النفي ، والجزء الأوّل حرف الشرط ، أو حرف المصدر ، أو حرف الاستفهام.

«ولَوْلا ولَوْما» لهما معنى آخر وهو امتناع الجملة الثانية لوجود الجملة الاُولى نحو : لَوْلا عَلِيٌّ لَهَلَكَ عُمَر ، وحينئذ يحتاج إلى الجملتين أوليهما اسميّة أبداً.

فصل : حرف التوقيع

«قَدْ».

وهي في الماضي لتقريب الماضي إلى الحال نحو : قَدْ رَكِبَ الْأميرُ ، أي قبل هذا. ولأجل ذلك سمّيت حرف التقريب أيضاً ، ولهذا تلزم الماضي ليصلح أن يقع حالاً.

وقد يجيء للتأكيد إذا كان جواباً لمن يسأل : هَلْ قامَ زَيْدٌ ؟ فتقول : قَدْ قامَ زَيْدٌ.

وفي المضارع للتقليل نحو : إنَّ الْكَذُوبَ قَدْ يَصْدُقُ ، وإنَّ الْجَوادَ قَدْ يَفْتُرُ.

وقد يجيء للتحقيق كقوله تعالى : «قَدْ يَعْلَمُ اللَّـهُ الْمُعَوِّقِينَ» (١) ، ويجوز الفصل بينه وبين الفعل بالقسم نحو : قَدْ وَاللهِ أحْسَنْتَ ، ويحذف الفعل بعده عند وجود القرينة نحو قول الشاعر :

أَفِدَ التَّرَحُّلُ غَيْرَ أنَّ رِكابَنا

لَمّا تَزَلْ بِرحالِنا وَكَأَنْ قَدْ (٢)

أي وكان قد زالت.

فصل : حروف الاستفهام :

«الهمزة ، وهل».

ولهما صدر الكلام ، وتدخلان على الجملة الاسميّة والفعليّة نحو : أزَيْدٌ قائِمٌ ؟ وهَلْ قامَ زَيْدٌ ؟ ودخولهما على الفعليّة أكثر لأنّ الاستفهام بالفعل أولى.

وقد تدخل «الهمزة» في مواضع لا يجوز دخول «هل» فيها نحو : أزَيْداً ضَرَبْتَ ؟ وأتَضْربُ زَيْداً وَهُوَ أخُوكَ ؟ وأزَيْدٌ عِنْدَكَ أم عَمْروٌ ؟ وأوَمَنْ كانَ وأفَمَنْ كانَ ، ولا تستعمل هل في هذه المواضع وهاهنا بحث.

فصل : حروف الشرط

ثلاثة : «إنْ ، ولَوْ ، وأمّا». ولها صدر الكلام ويدخل كلّ واحد منها على الجملتين اسميتين كانتا أو فعليّتين أو مختلفتين.

____________________________

(١) الأحزاب : ١٨

(٢) يعنى : نزديك كرد كوچ كردن و بار بستن بر شتران جز آنكه شتران سوارى ما هنوز برطرف نشده اند و برنخواسته اند از خوابگاه خود و منزلگاه ما و گويا كه بتحقيق كه برخواسته اند به جهت آنكه اسباب سفر مهيّاست. شاهد در اين جا حذف فعل قد است بعد از او ، اى و كان قد زالت. (جامع الشواهد : ج ١ ص ١٣٥ ـ ١٣٦).

فـ «إنْ» للاستقبال وإن دخلت على الفعل الماضي نحو : إنْ زُرْتَني فَاُكْرمُكَ.

و «لَوْ» : للماضي وإن دخل على المضارع نحو : لَوْ تَزُرْني أكْرَمْتُكَ ويلزمها الفعل لفظاً كما مرّ أو تقديراً نحو : إنْ أنْتَ زائِري فَأكْرَمْتُكَ.

واعلم أنّ «إنْ» لا تستعمل إلّا في الاُمور المشكوك فيها مثل : إنْ قُمْتَ قُمْتُ ، فلا يقال آتيكَ إنْ طَلَعَت الشَّمْسُ ، وإنّما يقال آتيكَ إذا طَلَعَت الشَّمْسُ.

«ولَوْ» : تدلّ على نفي الجملة الثانية بسبب نفي الجملة الاُولى كقوله تعالى : «لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا» (١).

وإذا وقع القسم في أوّل الكلام وتقدّم على الشرط يجب أن يكون الفعل الّذي يدخل عليه حرف الشرط ماضياً لفظاً نحو : وَاللهِ إنْ أتَيْتَني لَأكْرَمْتُكَ ، أو معنىً نحو : وَاللهِ إنْ لَمْ تَأْتِني لَأهجُرَنَّكَ ، وحينئذ يكون الجملة الثانية في اللفظ جواباً للقسم لا جزاء للشرط فلذلك وجب فيها ما يجب في جواب القسم من اللام ونحوها كما رأيت في المثالين أمّا إنْ وقع القسم في وَسَطِ الكلام جاز أنْ يعتبر القسم بأن يكون الجواب باللام له نحو : إنْ تَأْتِني وَاللهِ لأتيتُكَ ، وجاز أنْ يلغى نحو : إنْ تَأْتِني وَاللهِ أتَيْتُكَ.

و «أمّا» : لتفصيل ما ذكر مجملاً نحو : «فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ» «أَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ» و «فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ» (٢).

وتجب في جوابه الفاء ، وأن يكون الأوّل سبباً للثاني ، وأن يحذف فعلها مع أنّ الشرط لا بدّ له من فعل ليكون تنبيهاً على أنّ المقصود بها حكم الاسم الواقع بعدها نحو : أمّا زَيْدٌ فَمُنْطَلِقٌ ، تقديره : مهما يكنْ من

____________________________

(١) الانبياء : ٢٢.

(٢) هود : ١٠٨ ، ١٠٦