درس الهدایة في النحو

درس نمبر 63: حروف مصدریہ اور حروف التحضيض

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

حروف المصدريّة

"فَصْلٌ حُرُوفُ الْمَصْدَرِ ثَلَاثَةٌ" اس فصل میں حروفِ مصدر جنہیں حروفِ مصدریہ کہتے ہیں، بیان کیا جا رہا ہے۔ ان حروف کو حروفِ مصدر یا حروفِ مصدریہ کیوں کہا جاتا ہے؟ آپ کہیں گے اس لیے کہ یہ فعل میں داخل ہو کر اس فعل کو مصدر کی تاویل میں کر دیتے ہیں۔ اس لیے ان حروف کو حروفِ مصدر کہا جاتا ہے۔

حروفِ مصدریہ

حروفِ مصدریہ تین ہیں "مَا"، "وَأَنْ"، "وَأَنَّ" فرماتے ہیں: ما اور أن یہ جملۂ فعلیہ پر داخل ہوتے ہیں اور پھر اس کو مصدر کی تاویل میں کر دیتے ہیں۔ جبکہ أنّ جملۂ اسمیہ پر داخل ہوتا ہے اور اس کو تاویلِ مصدر میں کر دیتا ہے۔ "حُرُوفُ الْمَصْدَرِ ثَلَاثَةٌ"۔ حروفِ مصدر، حروفِ مصدریہ تین ہیں۔ "مَا"، "وَأَنْ"، "وَأَنَّ"۔ تین ہو گئے۔ "فَالْأُولَيَانِ" جو پہلے دو ہیں، کون سے؟ ما اور أن : "لِلْجُمْلَةِ الْفِعْلِيَّةِ" یہ ہیں جملہ فعلیہ کے لیے یعنی یہ جملہ فعلیہ پر داخل ہوتے ہیں۔ جیسے آیت مجیدہ ہے "وَضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ"۔ اب "بِمَا رَحُبَتْ" اگرچہ "رَحُبَتْ" یہاں پر فعل ہے لیکن اس با نے اس کو معنی مصدر میں کیا ہے؟ اصل ہے کہ "بِمَا رَحُبَتْ" بمعنی "بِرَحْبِهَا"۔ رحب کہتے ہیں یعنی وسعت کو کہ وسعت کے باوجود زمین ان پر تنگ ہو گئی۔  وسعت کے باوجود یعنی اس "بِمَا رَحُبَتْ" پر ما نے رحب اس کو تاویلِ مصدر میں کیا کہ "وَضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ" زمین ان پر تنگ ہو گئی "بِمَا رَحُبَتْ" یعنی "بِرَحْبِهَا" باوجود کس کے؟ کشادگی کے، وسعت کے۔ اسی طرح شاعر کا شعر بھی ہے وہ کہتا ہے ""يَسُرُّ الْمَرْءَ مَا ذَهَبَ اللَّيَالِي وَكَانَ ذَهَابُهُنَّ لَهُ ذَهَابَا" "كَانَ ذَهَابُهُنَّ لَهُ ذَهَابَا"۔اب فرماتے ہیں: "مَا ذَهَبَ" اب "ذَهَبَ" فعل ہے اس پر ما داخل ہوئی ہے تو اب اس ما نے اس "ذَهَبَ" کو تاویلِ مصدر میں کر دیا ہے۔ ترجمہ کیا ہے؟ "يَسُرُّ الْمَرْءَ" سَرَّ یَسُرُّ ہوتا ہے خوش کرنا۔ آدمی کو خوش کر دیتا ہے "مَا ذَهَبَ اللَّيَالِي" راتوں کا گزرنا۔ "مَا ذَهَبَ"۔ اب یہ "مَا ذَهَبَ" یہ ہمارا محلِ شاہدہ ہے کہ یعنی اصل ہے گویا آدمی کو خوش کر دیتا ہے "ذَهَابُ اللَّيَالِي" راتوں کا گزرنا اور "ذَهَبَ" پر ما نے اس کو تاویلِ مصدر میں کیا۔ "وَكَانَ ذَهَابُهُنَّ" بہت مزیدار بات، حالانکہ راتوں کا گزر جانا، جو جو رات، یہ تو بندہ خوش ہوتا ہے بس الحمدللہ جی آج رات گزر گئی، آج دن بڑا اچھا گزر گیا، کل بڑی اچھی رات گزر گئی۔ بڑا پیارا جملہ ہے، کہتا ہے "وَكَانَ ذَهَابُهُنَّ" ان راتوں کا گزر جانا "لَهُ ذَهَابَا" خود تیرا اپنا گزرنا ہے۔ تو جو کہتا ہے جی بس بڑی اچھی رات گزر گئی، بھائی رات نہیں گزرنی، تیری زندگی کی ایک رات کم ہو گئی ہے، تو مزید اس سے گزر گیا ہے۔ اسی طرح اور فرماتے ہیں ایک اور شاہد ہے وہ بھی اسی طرح ہے۔ کون سا؟ "نَحْوَ قَوْلِهِ تَعَالَى"۔ "فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا"۔ اب یہ أن کی مثال ہے کہ أن داخل ہوا ہے کس پر؟ فعلیہ پر یعنی "قَالُوا" پر اور اس نے اس کو تاویلِ مصدر میں کیا ہے۔ "فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا" کے بجائے یعنی "أَيْ قَوْلُهُمْ"۔ "أَنْ قَالُوا"، "قَوْل" "قَالُوا" یعنی قول مصدر کے زمرے میں، معنی میں تبدیل ہو جائے گا۔ "قَوْلُهُمْ" یعنی ان کا کہنا۔ تیسرا ہے أنّا، وہ آتا ہے جملہ اسمیہ پر اور پھر اس کو تاویلِ مصدر میں کرتا ہے جیسے "عَلِمْتُ أَنَّكَ قَائِمٌ"۔ اب اس "أَنَّكَ قَائِمٌ" یہ جملہ اسمیہ پر ہوا اور پہلی کاف جو ہے ضمیر ہے آگے قائم ہے۔ یعنی "أَنَّكَ قَائِمٌ" گویا کہ اصل کہہ رہے ہیں "عَلِمْتُ قِيَامَكَ"۔ جملہ کو اس نے کیا مصدر کی تاویل میں کر دیا ہے۔  بعض لوگ کَيْ اور لَوْ، ہاں کَيْ اور لَوْ کو بھی حروفِ مصدر میں بعض حضرات شمار کہتے ہیں۔ چونکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ حروفِ مصدر اس لیے ہیں کہ کَيْ اور لَوْ بھی اپنے صلہ پر داخل ہو کر اس کو مصدر کے معنی میں تبدیل کر دیتے۔ بہرحال انہوں نے تحریر نہیں فرمایا۔

4

حروف التحضيض

حروف التحضيض اربعة : «هَلّا ، وألّا ، ولَوْلا ، ولَوْما»۔

تحضیض، کسی کو  "اوبھار"نے کو کہتے ہیں،ان حروف  کی وجہ تسمیہ یہ کہ ان حروف کے ذریعے سے، کسی بندے کو کوئی کام انجام دینے پر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ حروف چار ہیں۔«هَلّا ، وألّا ، ولَوْلا ، ولَوْما»۔

"ولها صدر الكلام ومعناها حثّ على الفعل إذا دخل على المضارع۔۔"

یہ حروف صدر کلام چاہتے ہیں، یعنی یہ حروف ابتدای کلام میں آجاتے ہیں۔

یہ حروف جب فعل مضارع پر  داخل ہوجاتے ہیں تو یہ:" حث علی الفعل" کا معنی دیتے ہیں، یعنی ان حروف کے ذریعے سے مخاطب کو کہاجاتا ہے کہ تو یہ کام کر، اپ تک تو نے یہ کام کیوں انجام نہیں دیا ہے۔ جیسے "هَلا تَأكُلُ"۔

"إنْ دخل على الماضي۔۔۔"

اور جب فعل ماضی پر داخل ہوجاتے ہیں تو "لَوْمٌ" اور مذمت کا معنی دیتے ہیں۔جیسے "هَلّا ضَرَبْتَ زَيْداً"

"وحينئذ لا يكون تحضيضاً إلّا باعتبار ما فات"

جب یہ حروف، فعل ماضی پر داخل ہوجاتےہیں تو اس وقت ملامت کے معنا  دے رہے ہونگے، اس وقت ان میں تحضیض نہیں پائی جاتی ہے، مگر بہ اعتبار مافات اور جو گذر گیا ہے۔

"ولا تدخل إلّا على الفعل كما مرّ۔۔۔"

یہ حروف فقط فعل پر داخل ہوتے ہیں، لیکن اگر کہیں آپ کو نظر آجائے کہ ان حروف کے بعد کوئی اسم آیا ہے ، تو در حقیقت وہاں فعل تقدیرمیں ہوگا۔ جیسے آپ کہتے ہیں کسی فرد کو جس نے کسی قوم کو مارا ہے: "هَلّا زَيْداً" جو در حقیقت:" هَلّا ضَرَبْتَ زيداً" تھا۔

"وجميعها مركّبة جزؤها الثاني حرف النفي"

یہ چارو حرف در حقیقت مرکب ہیں، مفرد نہیں ہیں۔ جیسے"هَلّا"  (ھ) اور(لا ) سے بنا ہے۔

مثلا:لولا، لو اور لا سے بنا ہے ۔ گویا ان حروف کا دوسرا حرف (لا) ہے ، جب کہ پہلا حرف یا حرف شرط ہے یااستفہام ہے یا حرف مصدر ہے۔

ولَوْلا ولَوْما» لهما معنى آخر وهو امتناع الجملة الثانية لوجود الجملة الاُولى۔۔۔"

«ولَوْلا ولَوْما»، تحضیض کے علاوہ ایک اور معنی کو بھی بیان کرتا ہے اور وہ ہے، گویا اس کے بعد دوجملے ہیں، اور دوسرا جملہ اس لئے نہیں ہوا اور تحقق نہیں پایا،چونکہ پہلا موجود تھا۔جیسے" لَوْلا عَلِيٌّ لَهَلَكَ عُمَر

 

وقبل القسم كقوله تعالى : «لَا أُقْسِمُ» (١) بمعنى اُقسم.

وأمّا «مِنْ ، والباء ، واللام» فقد تقدّم ذكرها في حرف الجرّ فلا نعيدها.

فصل : حروف المصدريّة

ثلاثة : «ما ، وأنْ ، وأنَّ». فالأوليان للجملة الفعليّة كقوله تعالى : «وَضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ» (٢) ، أي برحبها ، وكقول الشاعر :

يَسُرُّ الْمَرْءُ ما ذهبَ الْليالي

وَكانَ ذِهابُهُنَّ لَهُ ذِهاباً (٣)

و «أنْ» : نحو قوله تعالى : «فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا» (٤).

و «أنَّ» : للجملة الاسميّة نحو : عَلِمْتُ أنَّكَ قائِمٌ ، أي علمت قيامَك.

فصل : حرفا التفسير :

«أيْ ، وأنْ».

«فأي» كما قال الله تعالى : «وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ الَّتِي» (٥) أي أهل القرية ، كأنّك قلت تفسيره أهل القرية.

و «أنْ» إنّما يفسّر به فعل بمعنى القول كقوله تعالى : «وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ» (٦) ، فلا يقال قلناه أنْ ، إذ هو لفظ القول لا معناه.

____________________________

(١) القيامة : ١.

(٢) التوبة : ١١٨.

(٣) يعنى : خوشحال ميكند مرد را رفتن روزگارها و حال آنكه رفتن روزگارها از براى آن مرد رفتنى و منقصتى است از عمر. شاهد در وقوع ما ، است مصدريّه نه موصوله. بنابر توهّم بعضى به دليل آنكه فاعل واقع شده است با مابعد خود از براى يسّر. اى يسّر المرء ذهاب الليالى. (جامع الشواهد : ج ٣ ص ٣٦٣).

(٤) النمل : ٥٦.

(٥) يوسف : ٨٢.

(٦) الصافات : ١٠٤.

فصل : حروف التحضيض

اربعة : «هَلّا ، وألّا ، ولَوْلا ، ولَوْما».

ولها صدر الكلام ومعناها حثّ على الفعل إذا دخل على المضارع نحو : هَلا تَأكُلُ ، ولَوْمٌ وتعيير إنْ دخل على الماضي نحو : هَلّا ضَرَبْتَ زَيْداً ، وحينئذ لا يكون تحضيضاً إلّا باعتبار ما فات.

ولا تدخل إلّا على الفعل كما مرّ. وإنْ وقع بعدها اسم فبإضمار فعل كما تقول لمن ضرب قوماً : هَلّا زَيْداً ، أي هَلّا ضَرَبْتَ زيداً.

وجميعها مركّبة جزؤها الثاني حرف النفي ، والجزء الأوّل حرف الشرط ، أو حرف المصدر ، أو حرف الاستفهام.

«ولَوْلا ولَوْما» لهما معنى آخر وهو امتناع الجملة الثانية لوجود الجملة الاُولى نحو : لَوْلا عَلِيٌّ لَهَلَكَ عُمَر ، وحينئذ يحتاج إلى الجملتين أوليهما اسميّة أبداً.

فصل : حرف التوقيع

«قَدْ».

وهي في الماضي لتقريب الماضي إلى الحال نحو : قَدْ رَكِبَ الْأميرُ ، أي قبل هذا. ولأجل ذلك سمّيت حرف التقريب أيضاً ، ولهذا تلزم الماضي ليصلح أن يقع حالاً.

وقد يجيء للتأكيد إذا كان جواباً لمن يسأل : هَلْ قامَ زَيْدٌ ؟ فتقول : قَدْ قامَ زَيْدٌ.

وفي المضارع للتقليل نحو : إنَّ الْكَذُوبَ قَدْ يَصْدُقُ ، وإنَّ الْجَوادَ قَدْ يَفْتُرُ.