درس الهدایة في النحو

درس نمبر 62: حروف زیاد اور حروف تفسیر

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

حروف الزيادة

"فَصْلٌ حُرُوفُ الزِّيَادَةِ سَبْعَةٌ"۔ کچھ حروف ایسے ہوتے ہیں جن کو حروفِ زائدہ کہا جاتا ہے۔ زائدہ سے مراد یہاں یہ ہے کہ اگر وہ کلام میں نہ بھی ہوں، اگر ان سے کلام کو حذف بھی کر دیا جائے تو معنی کلام پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بہت سارے ہم نے حروفِ جارہ میں بھی کافی سارے گنے تھے کہ یہ کبھی زائدہ ہوتی ہے، فلاں چیز زائدہ ہوتی ہے، فلاں چیز زائدہ ہوتی ہے۔ زائدہ سے مراد یہی تھا کہ اگر وہ نہ ہوں یا ان کو حذف بھی کر دیا جائے، معنی کلام میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ اب فرماتے ہیں: وہ حروفِ زیادت ہیں کتنے جو زائد ہوتے ہیں؟ فرماتے ہیں: سات ہیں۔ "إِنْ" ایک، "أَنْ" دو، "مَا" تین، "لَا" چار، "مِنْ" پانچ، "بَاء" چھ، "لَام" سات۔ یہ من، با، لام ان کی تو خیر پیچھے ہم نے حروفِ جارہ میں تفصیلات پڑھ بھی لی ہیں۔ ان سات حروف کو کہا جاتا ہے حروفِ زائدہ، یعنی اگر یہ نہ بھی ہوں تو اس سے کلام میں نقص واقع نہیں ہوتا۔

إِنْ اور أَنْ کا زائد ہونا

اب یہ ہے کہ یہ "إِنْ"، "أَنْ"، "مَا"، "لَا" یہ کہاں زائد ہوتے ہیں؟ یا جب جہاں چاہیں ہم لگا دیں؟ فرماتے ہیں: نہیں، "فَإِنْ تُزَادُ مَعَ مَا النَّافِيَةِ"۔  تین مقامات پر "إِنْ" زائدہ ہوتا ہے۔ تین مقامات پر "إِنْ" زائدہ ہوتا ہے۔ نمبر ایک، "مَا" نافیہ کے ساتھ اگر ہو۔ نمبر دو، اگر "مَا" مصدریہ کے بعد ہو۔ نمبر تین، اگر "لَمَّا" کے ساتھ ہو۔ کہ تین مقامات پر حرفِ "إِنْ" زائد ہوتا ہے۔ کہاں پر؟ "مَا" نافیہ کے بعد، "مَا" مصدریہ کے بعد اور "لَمَّا" کے بعد۔ یہاں "إِنْ" زائد ہوتا ہے۔ "مَا" نافیہ کے بعد مثال، جیسے "مَا إِنْ زَيْدٌ قَائِمٌ"۔ اب یہاں "إِنْ" نہ بھی ہو تو معنی کلام میں خلل نہیں پڑتا۔ "مَا" مصدریہ، انشاءاللہ آگے حروفِ مصدر آ رہے ہیں۔ جیسے "انْتَظِرْ مَا إِنْ يَجْلِسُ الْأَمِيرُ"۔ اب یہاں جو "مَا" ہے یہ "مَا"، "مَا" مصدریہ ہے، آگے حروفِ مصدر میں انشاءاللہ اس کی وضاحت بھی کریں گے کیا ہے۔ یہاں پر بھی "إِنْ" "إِنِّ" زائدہ ہے۔ اسی طرح فرماتے ہیں اگر "لَمَّا" کے ساتھ آ جائے جیسے "لَمَّا إِنْ جَلَسْتَ جَلَسْتُ"۔ اب "لَمَّا" کے بعد بھی "إِنْ"، یہاں "إِنْ" جو ہے یہ "إِنِّ" زائدہ ہے۔ آسان ہے بالکل۔ "إِنْ" ہو گیا۔ آگے فرماتے ہیں "أَنْ"۔ "أَنْ" تقریباً دو مقامات پر زائد ہوتا ہے۔ کہاں پر؟ اگر "لَمَّا" کے بعد ہو تو بھی زائدہ اور "لَوْ" اور "وَاوِ قَسَم" کے درمیان آ جائے "أَنْ" تو بھی زائدہ ہوتا ہے۔ یعنی "أَنْ" دو مقامات پر زائدہ ہوتا ہے۔ نمبر ایک، اگر "لَمَّا" کے ساتھ آ جائے۔ نمبر دو، اگر "وَاوِ قَسَم" اور "لَوْ" کے درمیان آ جائے تو بھی زائدہ ہوتا ہے۔ "وَأَنْ تُزَادُ" یعنی "أَنْ" زائدہ ہو گا "مَعَ لَمَّا" اگر "لَمَّا" کے ساتھ ہے جیسے قرآن کی آیت ہے۔ "فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ"۔ اب "لَمَّا" کے بعد جو "أَنْ" ہے یہ "أَنِّ" زائدہ ہے، اس "أَنْ" کو حذف بھی کر لو تو بھی معنی کلام پر فرق نہیں پڑتا۔ دوسرا مقام جہاں "أَنْ" زائد ہوتا ہے وہ ہے "بَيْنَ لَوْ وَالْقَسَمِ الْمُتَقَدِّمِ عَلَيْهَا" کہ اگر "أَنْ" واقع ہو جائے "لَوْ" اور واو، وہ جو قسمیہ پہلے اس پر مقدم ہے، اگر اس قسم یعنی واوِ قسم اور "لَوْ" کے درمیان آ جائے تو بھی یہ "أَنْ"، "أَنِّ" زائد ہوتا ہے جیسے "وَاللهِ" اب یہ قسم پہلے آ گئی "أَنْ لَوْ قُمْتَ قُمْتُ"۔ "لَوْ" بعد میں آ گیا درمیان میں "أَنْ"، یہ "أَنِّ" زائدہ ہے۔ اب یہ "أَنْ" نہ بھی ہو تو معنی کلام پر فرق نہیں پڑتا۔ 

مَا کا زائد ہونا

اس کے بعد فرماتے ہیں اور، اور "إِنْ" "أَنْ" کے بعد آ گیا "مَا"۔ یہ "مَا" یہ کہاں زائد ہوتا ہے؟ کتنے مقامات پر زائد ہوتا ہے؟ غالباً یہ بھی کوئی ایک دو مقام ہیں۔ نمبر ایک۔ "وَمَا" یہ "مَا" زائد ہوتا ہے کہاں؟ "إِذَا" "مَتَى" "أَيّ" "أَنَّى" "أَيْنَمَا" جیسے کہتے ہیں "أَيْنَ" کے بعد آ جائے یا "إِنِّ شَرْطِيَّة" اگر "إِنْ" کے بعد ان سب کے بعد آ جائے یعنی یہ وہی ہیں کہ جو شرطیہ ہوتے ہیں، جو شرط میں استعمال ہوتے ہیں۔ اگر ان کے بعد آ جائے گا تو بھی یہ "مَا" زائد ہو گا۔ جیسے مثال دی ہے "إِذَا مَا قُمْتَ قُمْتُ"۔ "أَيْنَمَا كُنْتَ كُنْتُ" مثلاً۔ "وَبَعْدَ بَعْضِ حُرُوفِ الْجَرِّ" اور دوسرا مقام جہاں "مَا" زائدہ ہوتا ہے وہ ہے کہ سارے نہیں، کچھ حروفِ جر ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اس "مَا" پر داخل ہوں۔ پس اگر کسی "مَا" کے ساتھ کوئی حرفِ جر آ جائے تو وہاں پر بھی وہ "مَا"، "مَاءِ" زائدہ ہو گا۔ جیسے آیت مجیدہ ہے۔ "فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللهِ"۔ یہاں پر "فَبِمَا" باء جار داخل ہے "مَا" پر، یہ "مَاءِ"، "مَاءِ" زائدہ ہے۔ "فَبِرَحْمَةٍ مِنَ اللهِ" پڑھو تو بھی معنی وہی ہے جو "فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللهِ" کا ہے۔ "وَعَمَّا قَلِيلٍ"۔ اب دیکھو نا "عَمَّا" یعنی "عَنْ مَا" تھا، یہاں پر بھی "مَا"، "مَاءِ" زائدہ ہے۔ "لَيُصْبِحُنَّ نَادِمِينَ"۔ "وَمِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ" اصل میں "مِنْ مَا" "أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا"۔ اسی طرح فرماتے ہیں "زَيْدٌ صَدِيقِي كَمَا أَنَّ عَمْرًا أَخِي"۔ اب دیکھو آپ کاف جو ہے وہ، او "كَمَا" "مَا" پر جو ہے، او کاف داخل ہے۔ "زَيْدٌ صَدِيقِي كَمَا أَنَّ عَمْرًا أَخِي"۔ اب دیکھا ہے کہ "مَا" پر کاف جار داخل ہے لہٰذا یہ "مَا" یہاں کیا ہے؟ زائدہ ہے۔ اصل یہ نہ بھی ہو تو ایسے ہو گا جیسے ہم کہیں کہ "زَيْدٌ صَدِيقِي كَإِنَّ عَمْرًا أَخِي"۔

لَا کا زائد ہونا

حرفِ "لَا" "تُزَادُ" یہ زائد ہو گا، کہاں پر؟ اگر واو نفی کے بعد ہو۔ جیسے "مَا جَاءَنِي زَيْدٌ وَلَا عَمْرٌو" اب یہ واو کے بعد ایک "لَا" ہے اور آیا بھی ہے نفی کے بعد ابتداء  میں ما نافیہ موجود ہے، یہاں پر بھی "لَا" زائدہ ہے۔ یعنی یہ نہ بھی ہو تو "مَا جَاءَنِي زَيْدٌ وَعَمْرٌو" "مَا جَاءَنِي زَيْدٌ" تو بھی کلام درست رہتی ہے۔ ایک، نمبر دو۔ "وَبَعْدَ أَنِ الْمَصْدَرِيَّةِ" دو یعنی پہلا مقام "لَا" کے زائد ہونے کا یہ ہو گیا کہ اگر وہ واو کے ساتھ ہو نفی کے بعد۔ دوسرا مقام جو "لَا" کے زائد ہونے کا، وہ کیا ہے؟ وہ ہے کہ اگر یہ "أَنْ" مصدریہ کے بعد آ جائے جیسے "مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ"۔ یہ "أَنِّ"، "أَنِّ" مصدریہ ہے، اس کے بعد "لَا" آیا ہے، یہاں بھی "لَا" زائد ہے، دو مقام ہو گئے۔ تیسرا مقام کہ جہاں "لَا" زائد ہے وہ ہے کہ اگر یہ قسم سے پہلے آ جائے۔ جیسے قرآن مجید کی یہ آیت مجیدہ ہے۔ "لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ" یعنی اصل میں ہے "أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ"۔ باقی رہ گیا "مِنْ"، "بَاء" اور "لَام" ان کا ذکر "قَدْ مَرَّ ذِكْرُهُ فِي حُرُوفِ الْجَرِّ فَلَا نُعِيدُهَا"۔

4

حَرْفَا التَّفْسِيرِ

حَرْفَا التَّفْسِيرِ

اس کے بعد آگے چھوٹی سی ایک اور ہے فصل، وہ فصل یہ ہے کہ دو حرف ایسے ہیں جن کو حروف، "حَرْفَا التَّفْسِيرِ" جن کو حرفا، تفسیر، حرفا کیوں کہا ہے؟ اصل میں تھا حرفانِ نونِ تثنیہ کی اضافت کی وجہ سے گر گئی ہے۔ دو حرف ہیں جو تفسیر کے لیے آتے ہیں۔ تفسیر کا معنی ہوتا ہے شرح، کسی بات کی وضاحت کرنی۔ اب وہ قولِ مبہم ہو یا کوئی بھی ایسی چیز ہو جس میں تھوڑا بہت ابہام پایا جاتا ہو تو پھر جس حرف کے ساتھ اس کو تھوڑا واضح کریں گے، کھول کے بیان کریں گے اس کو کہتے ہیں تفسیر۔ تو عربی میں دو حرف ایسے ہیں کہ جو اس تفسیر کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ایک ہے "أَنْ" اور دوسرا ہے "أَيْ"۔ یعنی "أَنْ" اور "أَيْ" کے ذریعے کسی بات کی وضاحت کی جاتی ہے، کسی بات کو کھول کر بیان کیا جاتا ہے۔ "أَيْ" اس کی مثال قرآن مجید میں ہے جیسے ہم کہتے ہیں "وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ" تم سوال کرو گاؤں سے، بھائی گاؤں سے تو سوال نہیں ہوتا، در و دیوار سے سوال تو نہیں ہوتا، آگے کیا کہتے ہیں؟ "أَيْ أَهْلَ الْقَرْيَةِ"۔ یہ جو "أَيْ" ہے نا یعنی یہ وضاحت کر رہا ہے کہ گاؤں سے سوال کرنے کا مطلب ہے یعنی گاؤں والوں سے سوال کرنا۔ پس جب آپ "أَيْ" کہتے ہیں نا کہ "أَيْ أَهْلَ الْقَرْيَةِ" "كَأَنَّكَ تُفَسِّرُهُ" گویا کہ آپ اس کی، اہل قریہ سے وضاحت کر رہے ہیں، آپ بتا رہے ہیں کہ یہاں قریہ سے مراد کیا ہے، آپ اس کی وضاحت کر رہے ہیں اہل قریہ کے ساتھ کہ بھائی گاؤں سے سوال کا مطلب ہے گاؤں والوں سے سوال کرو۔ اور دوسرا جو حرفِ تفسیر ہے وہ ہے "أَنْ"۔ "أَنْ إِنَّمَا يُفَسَّرُ بِهَا فِعْلٌ بِمَعْنَى الْقَوْلِ"۔ "أَنْ" کے ذریعے اس فعل کی تفسیر کی جاتی ہے جو بمعنی قول کے ہو۔ "أَنْ" کے ذریعے اس فعل کی تفسیر کی جاتی ہے جو قول کے معنی میں ہو۔ لفظِ قول کی بات نہیں ہے جو معنی قول میں ہو تو اس کی تفسیر اس "أَنْ" کے ذریعے کی جاتی ہے۔ جیسے آیت مجیدہ ہے۔ "وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ"۔ "نَادَيْنَاهُ" ہم نے اس کو ندا دی، یعنی یہ ندا دینا معنی قول کو متضمن ہے، کسی کو بلانا، آواز دینا، اور اس ندا "نَادَيْنَاهُ" کی تفسیر ہوئی ہے "أَنْ" کے ساتھ کہ وہ ندا کیا تھی؟ وہ بات تھی "يَا إِبْرَاهِيمُ"۔ لہٰذا اگر کوئی کہے "فَلَا يُقَالُ" لہٰذا یہ کہنا "قُلْتُ لَهُ أَنِ اكْتُبْ" فرماتے ہیں نا یہاں پر یہ "أَنْ"، "أَنِّ" تفسیریہ نہیں ہو گا کیوں؟ چونکہ "إِذْ هُوَ لَفْظُ الْقَوْلِ" چونکہ یہ تو لفظِ قول ہے "قُلْتُ" معنی قول نہیں ہے۔ تو اسی لیے فرماتے ہیں کہ "أَنْ" کے ذریعے اس فعل کی تفسیر ہوتی ہے جو معنی قول دیتا ہو۔ 

وَ صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ مُحَمَّدٍ

أمّا «نعم» : فلتقرير كلام سابق مثبتاً كان أو منفيّاً.

و «بلى» : تختصّ بإيجاب نفي بعد الاستفهام كقوله تعالى : «أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَىٰ» (١) ، وخبراً كما يقال : لَمْ يَقُمْ زَيْدٌ ، قلت : بَلىٰ ، أي قد قام.

و «إيْ» : للإثبات بعد الاستفهام ويلزمها «هل» كما اذا قيل لك : هَلْ كانَ كَذا ؟ قلت : إيْ وَاللهِ.

و «أجَلْ ، وجيْر وإنَّ» : لتصديق الخبر فإذا قيل : جاءَ زَيْدٌ ، قلت : أجَلْ وجَيْر وإنَّ ، أي اُصدِّقُكَ في هذا الخبر.

فصل : حروف الزيادة

سبعة : «إنْ ، وأنْ ، وما ، ولا ، ومِنْ ، والباء ، واللام».

«فإنْ» : تزاد مع ما النافية نحو : ما إنْ زيدٌ قائِمٌ ، ومع ما المصدريّة نحو : انتظِرْ ما إنْ يَجْلِس الْأميرُ ، ومع لَمّا نحو : لَمّا إنْ جَلَسْتَ جَلَسْتُ.

و «أنْ» : تزاد مع لمّا نحو قوله تعالى : «فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ» (٢) ، وبين واو القسم ولو نحو : وَاللهِ أنْ لَوْ قُمْتَ قُمْتُ.

و «ما» : تزاد مع إذْ ، ومَتىٰ ، وأنّى ، وأيْنَ ، وإنْ الشرطيّة كما تقول : إذْ ما صُمْتَ صُمْتُ ، وكذلك البواقي ، وبعد بعض حروف الجرّ نحو قوله تعالى : «فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ» (٣).

و «لا» : قليل وتزاد مع الواو بعد النفي نحو : ما جاءَ زَيْدٌ ولا عَمْروٌ ، وبعد أنْ المصدريّة نحو قوله تعالى : «مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ» (٤).

____________________________

(١) الأعراف : ١٧٢.

(٣) آل عمران : ١٥٩.

(٢) يوسف : ٩٦.

(٤) الأعراف : ١٢.

وقبل القسم كقوله تعالى : «لَا أُقْسِمُ» (١) بمعنى اُقسم.

وأمّا «مِنْ ، والباء ، واللام» فقد تقدّم ذكرها في حرف الجرّ فلا نعيدها.

فصل : حروف المصدريّة

ثلاثة : «ما ، وأنْ ، وأنَّ». فالأوليان للجملة الفعليّة كقوله تعالى : «وَضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ» (٢) ، أي برحبها ، وكقول الشاعر :

يَسُرُّ الْمَرْءُ ما ذهبَ الْليالي

وَكانَ ذِهابُهُنَّ لَهُ ذِهاباً (٣)

و «أنْ» : نحو قوله تعالى : «فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا» (٤).

و «أنَّ» : للجملة الاسميّة نحو : عَلِمْتُ أنَّكَ قائِمٌ ، أي علمت قيامَك.

فصل : حرفا التفسير :

«أيْ ، وأنْ».

«فأي» كما قال الله تعالى : «وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ الَّتِي» (٥) أي أهل القرية ، كأنّك قلت تفسيره أهل القرية.

و «أنْ» إنّما يفسّر به فعل بمعنى القول كقوله تعالى : «وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ» (٦) ، فلا يقال قلناه أنْ ، إذ هو لفظ القول لا معناه.

____________________________

(١) القيامة : ١.

(٢) التوبة : ١١٨.

(٣) يعنى : خوشحال ميكند مرد را رفتن روزگارها و حال آنكه رفتن روزگارها از براى آن مرد رفتنى و منقصتى است از عمر. شاهد در وقوع ما ، است مصدريّه نه موصوله. بنابر توهّم بعضى به دليل آنكه فاعل واقع شده است با مابعد خود از براى يسّر. اى يسّر المرء ذهاب الليالى. (جامع الشواهد : ج ٣ ص ٣٦٣).

(٤) النمل : ٥٦.

(٥) يوسف : ٨٢.

(٦) الصافات : ١٠٤.