"وَخَامِسُهَا: صِفَةُ الْمُشَبَّهَةِ وهي مُشَابِهةٌ بِاِسمِ الفاعِلِ فِي التصريفِ، وَفِي كَونِ كُلِِّ مِنهُما صَفَةََ،"
عواملِ قیاسیہ میں سے پانچواں عامل "صفتِ مشبہہ" ہے۔
صفتِ مشبہہ کو صفتِ مشبہہ کیوں کہتے ہیں؟
 فرماتے ہیں کہ اس لیے کہ یہ جو صیغہ ہوتاہے، ایک تو یہ اسمِ فاعل کے مشابہ ہوتا ہے۔ جس طرح اسمِ فاعل کے چھ صیغے ہوتے ہیں (تین مذکر
کے اور تین مؤنث کے)، یہ بھی اسی طرح ہے۔ اور دوسرا، اسمِ فاعل بھی صفت کے لیے آتا ہے، اور یہ تو ہوتی ہی صفت ہے۔ تو چونکہ یہ
صفتیت میں اور تصریف میں اسمِ فاعل کے مشابہ ہوتی ہے، اس کو صفتِ مشبہہ کہتے ہیں۔
پھر ان کے درمیان فرق کیا ہوگا؟
جب صیغے بھی دونوں کے برابر ہیں اور دونوں ہی صفت ہیں، تو پھر اس کو اسمِ فاعل اور اس کو صفتِ مشبہہ کیوں کہتے ہیں؟
پہلا فرق :
فرماتے ہیں کہ ایک فرق تو یہ ہے کہ اسمِ فاعل کے صیغے قیاسی ہوتے ہیں، یعنی وہ قاعدہ و قانون کے تحت ہوتے ہیں۔ اگر فعل ایسا ہوگا، تو اس
کا اسمِ فاعل ایساآئے گا۔ جبکہ صفتِ مشبہہ کے صیغے سماعی ہیں قیاسی نہیں۔
دوسرا فرق:
صفتِ مشبہہ میں جو صفت ہوتی ہے، وہ دوام اور ثبوت پر دلالت کرتی ہے، یعنی یہ نہیں بتاتی کہ یہ چیز ماضی میں تھی، حال میں ہے، یا مستقبل
میں ہوگی۔ بلکہ یہ بتاتی ہے کہ یہ صفت فاعل کے ساتھ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی جبکہ اسمِ فاعل میں جو حدوث ہوتا ہے، وہ زمانے کے
ساتھ متعلق ہوتی ہے، یعنی یہ بتاتی ہے کہ فاعل ماضی میں تھا، حال میں ہے، یا مستقبل میں ہوگا۔
تیسرا فرق:
صفتِ مشبہہ ہمیشہ فعلِ لازم سے مشتق ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ فعل اصل میں ہی لازم ہو، جیسے "شَرُفَ"، یا ہو سکتا ہے کہ وہ اصل میں
لازم نہ ہو، بلکہ متعدی ہو۔ لیکن اگر متعدی ہوگا، تو پہلے اس کو لازم میں تبدیل کریں گے، پھر اس سے صفتِ مشبہہ کا صیغہ مشتق کریں گے۔
کیوں؟ اس لیے کہ صفتِ مشبہہ کا صیغہ ہمیشہ فعلِ لازم سے مشتق ہوتا ہے، متعدی سے نہیں۔کیوں ؟ گزارش کی ہے یہ دلالت کرتا ہے لزوم
وثبوت پر کہ اس کا مصدر اس کے فاعل کے لیئے ہمیشہ ہے دائم ہے۔
صفتِ مشبہہ کا عمل:
صفتِ مشبہہ بھی اپنے فعل والا عمل کرتی ہے۔یعنی اگر وہ لازم ہوگا، تو فقط فاعل کو رفع دے گی۔ اگر متعدی ہوگا، تو فاعل کو رفع اور مفعول کو
نصب دے گی۔ لیکن فرق یہ ہے کہ فعل کی دلالت زمانے پر ہوتی ہے (کبھی ماضی پر، کبھی حال پر، کبھی مستقبل پر)، جبکہ صفتِ مشبہہ کی
دلالت زمانے پر نہیں ہوتی۔ کیوں؟ چونکہ اس کی دلالت دوام اور استمرار پر ہوتی ہے، یہ کسی خاص زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔
صفتِ مشبہہ کے عمل کی شرائط:
صفتِ مشبہہ بھی اسمِ فاعل کی طرح ان چھ میں سے پانچ امور پر اعتماد کرے گی، یعنی تب عمل کرے گی جب چھ میں سے پانچ امور پر اعتماد
ہو۔ فقط موصول والا اعتماد یہاں نہیں ہوتا۔ کیوں؟ کیونکہ اس پر "ال" داخل ہوتا ہے، وہ موصول کا نہیں ہوتا۔
"وَخَامِسُهَا:  عواملِ قیاسیہ میں سے پانچواں عامل ہےصِفَةُ الْمُشَبَّهَةِ   "صفتِ مشبہہ" ( میں نے گزارش کر دی اسے صفت مشبہ کیوں کہتے ہیں )وهي مُشَابِهةٌ بِاِسمِ الفاعِلِ یہ صفت اسمِ فاعل کے مشابہ ہوتی ہے فِي التصريفِ، تصریف میں گردان میں جیسے اسم فاعل کے چھ صیغے ہوتے ہیں تین مذکرکے اور تین مؤنث کے ، اس کے بھی ایسے ہیں ہوتے ہیں  ۔ دوسری مشابہت ؟ وَفِي كَونِ كُلِِّ مِنهُما صَفَةََ،جیسے اسمِ فاعل بھی صفت کے لیے آتا ہے، اور یہ تو ہوتی ہی صفت ہے۔ پس یہ صفتیت میں اور تصریف میں اسمِ فاعل کے مشابہ ہوتی ہے، جیسے  "حَسَنٌ" (یہ صفتِ مشبہہ ہے، جو "حَسُنَ" (ہونا اچھا) سے مشتق ہے۔ صفتِ مشبہہ کے بھی چھ صیغے ہوتے ہیں، جیسے اسمِ فاعل کے ہوتے ہیں۔
	- مذکر کے لیے: "حَسَنٌ"، "حَسَنَانِ"، "حَسَنُونَ"
- مؤنث کے لیے: "حَسَنَةٌ"، "حَسَنَتَانِ"، "حَسَنَاتٌ"
على قياس «ضارِبٌ ضاربان ضاربون، وضاربة ضاربتان ضاربات»، یہ اسم فاعل کے ہیں۔
صفتِ مشبہہ ہمیشہ فعلِ لازم سے مشتق ہوتی ہے۔ اگر فعل متعدی ہو، تو پہلے اس کو لازم میں تبدیل کیا جاتا ہے، پھر اس سے صفتِ مشبہہ کا
صیغہ مشتق کیا جاتا ہے۔
صفت مشبہ کا حکم :
وَهِيَ مشتقَّة ٌمِنَ الفعلِ اللازمِ ، صفتِ مشبہہ ہمیشہ فعلِ لازم سے مشتق ہوتی ہے ، ہو سکتا ہے کہ وہ فعل اصل میں ہی لازم ہو، جیسے "شَرُفَ"، یا ہو سکتا ہے کہ وہ اصل میں لازم نہ ہو، بلکہ متعدی ہو۔ لیکن اگر متعدی ہوگا، تو پہلے اس کو لازم میں تبدیل کریں گے، پھر اس سے
صفتِ مشبہہ کا صیغہ مشتق کریں گے۔
دالّةٌ عَلى ثُبُوتِ مَصدَرِها لِفَاعِلِها عَلى سَبيلِ الاستمرارِ والدَوامِ بِحَسَبِ الوَضعِ ، دالۃٌ اگر پڑہیں گے تو یہ مشتقۃٌ  کی صفت ہو جائے گی دالۃََ پڑہیں گے تو یہ حال ہو جائے گا یعنی یہ دلالت کرتا ہے لزوموثبوت پر کہ اس کا مصدر اس کے فاعل کے لیئے ہمیشہ ہے دائم ہے۔اس کی وضع ہی ایسے ہے کہ کسی زمانے کے ساتھ نہیں ہوتا ۔
جیسے حَسَنٌ اس کا مطلب ہے کہ جس کے لیے یہ صفت استعمال ہو رہی ہے، وہ ہمیشہ سے اچھا ہے اور ہمیشہ اچھا رہے گا۔
صفتِ مشبہہ کے اعمال کی تفصیل:
وتَعمَلُ عَمَلَ فِعلِهَا ،صفتِ مشبہہ بھی  اپنے فعل والاعمل کرتی ہے، مِن غَيرِ اِشتِراطِ زَمانِِ؛البتہ اس میں زمانے کی شرط نہیں ہوتی ہے کہ فعل کی دلالت زمانے پر ہوتی ہے (کبھی ماضی پر، کبھی حال پر، کبھی مستقبل پر)، لیکن صفتِ مشبہہ کی دلالت زمانے پر نہیں ہوتی۔
کیوں؟ 
لِكَونِها بمعنى الثبوتِ چونکہ اس کی دلالت دوام اور استمرار پر ہوتی ہے،یہ ہمیشگی کے لیئے ہے اس لیئے یہ عمل تو فعل والا کرتی ہے پر
اس میں زمانے والی کوئی شرط نہیں۔
اب تھوڑا نکتہ یہاں سمجھ لو:
ہم نے کیا کہا تھا کہ اسمِ فاعل تب عمل کرے گا کہ اس میں پہلی شرط یہ ہے کہ وہ بمنزلہ حال یا استقبال کے ہو۔ لیکن صفتِ مشبہہ میں یہ نہیں کہیں گے کہ صفتِ مشبہہ نے فعل والا عمل کر دیا ہے اگر بمنزلہ حال یا استقبال کے ہو۔ نہیں، اس میں نہیں کہتی۔ کیوں؟ کیونکہ اصلاً اس میں زمانہ شرط نہیں ہے۔ اس کا تو کام ہی دوام اور ثبُوت ہے۔
اسمِ فاعل کے عمل کرنے میں ایک اور شرط تھی کہ وہ چھ چیزوں میں سے کسی ایک پر اعتماد کرتا ہو، یعنی اس سے پہلے ان چھ امور میں سے کوئی ایک ہو۔ صفتِ مشبہہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟
فرماتے ہیں :وأمّا اشتراطُ الاعتماد ،   کہ اسمِ فاعل کے عمل کرنے میں جو شرط تھی کہ وہ چھ چیزوں میں سے کسی ایک پر اعتماد کرتا ہو،فمعتبرٌ فِيهَا وہ اعتماد والی شرط یہاں صفتِ مشبہہ میں بھی ہے، وہ اس میں بھی ہے۔إلّا  لیکن چھ میں سے پانچ میں کیوں؟ أنّ الاعتمادَ على الموصولِاس لیے کہ موصول پر اعتماد کرنا لا يَتَأَتّٰى فيها؛ وہ صفتِ مشبہہ میں نہیں ہوتا، یعنی یہ نہیں کہیں گے کہ صفتِ مشبہہ تب عمل کرے گی کہ یا اس سے پہلے موصول ہو۔
کیوں ؟ فرماتے ہیں وجہ یہ ہے:
لأنّ اللام الداخلة عليها کیونکہ جو الف و لام  اس صفتِ مشبہہ پر داخل ہوتا ہے،ليست بموصول بالاتّفاق، تمام نحویوں کا اتفاق ہے کہ یہ موصول نہیں ہے، یہ لام لامِ موصول نہیں ہے۔ کیونکہ جو لامِ موصول ہوتی ہے، اس کا صلہ یا تو اسمِ فاعل ہوتا ہے یا مبالغہ ہوتا ہے یا اسمِ مفعول لیکن  صفتِ مشبہہ اس کا  صلہ واقع نہیں ہو سکتی ۔ اس لیے وہ الف لام بھی موصول کا نہیں ہو سکتا۔
صفت مشبہ کا معمول ؟
وقد يكون معمولُها منصوباً فرماتے ہیں کہ صفتِ مشبہہ کا ایک اور حکم یہ ہے کہ کبھی کبھار صفتِ مشبہہ کا معمول منصوب ہوتا ہے، یعنی جس پر یہ عمل کرتی ہے، اس پر نصب پڑتا ہے، اس پر زبر پڑتی ہے۔ اچھا، وہ کیوں منصوب کیوں ہوتا ہے؟ فرماتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے:
"عَلَى تَشْبِيهٍ بِالْمَفْعُولِ فِي الْمَعْرِفَةِ"
یعنی کبھی کبھی صفتِ مشبہہ کا معمول منصوب ہوتا ہے کیوں؟ "عَلَى تَشْبِيهٍ" اس کو تشبیہ دیتے ہوئے کس کے ساتھ؟ "بِالْمَفْعُولِ" مفعول کے ساتھ۔ کہاں پر؟ "فِي الْمَعْرِفَةِ" معرفہ میں۔ کیا مطلب؟ جیسے معرفہ منصوب ہوتا ہے "عَلَى تَشْبِيهٍ بِالْمَفْعُولِ" مفعول سے تشبیہ کی صورت میں، تو اس کا معمول بھی کبھی منصوب آتے ہیں۔ اس لیے کہ گویا کہ یہ "قَدْ يَكُونُ مَعْمُولًا" اس کا معمول منصوب ہوتا ہے۔ اس کو تشبیہ دیتے ہوئے "بِالْمَفْعُولِ فِي الْمَعْرِفَةِ" مفعول فی المعرفہ، یعنی وہ کہتے ہیں کہ معرفہ منصوب ہوتا ہے کیوں؟ اس لیے اس کو تشبیہ دیتے ہیں مفعول کے ساتھ۔
 
تو فرماتے ہیں یہاں پر بھی غور کرنا ہے:
ایک بحث ہے کہ معرفہ منصوب ہوتا ہے  ، مفعول کے سات  تشبیہ دیتے ہیں اور نکرہ منصوب ہوتا ہے تمیز کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے۔ ایسی طرح فرماتے ہیں کہ کبھی کبھار اب ذرا غور کرنا ہے کہ کبھی کبھار صفتِ مشبہہ کا معمول منصوب ہوتا ہے جب "عَلَى تَشْبِيهٍ بِالْمَفْعُولِ" مفعول کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے "فِي الْمَعْرِفَةِ" وہ "عَلَى التَمْيِيزِ" اور تمیز کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے "فِي النَّكِرَةِ" اگر وہ نکرہ ہوگا، و مجروراً۔ اور کبھی کبھی اس کا معمول مجرور بھی ہوتا ہے على الإضافة، اضافت کی بنیاد پر۔ ٹھیک ہے۔
اب ذرا غور کرنا ہے دوبارہ اس کو ذرا توجہ سے:
کہ صفتِ مشبہہ کا معمول منصوب ہوتا ہے تشبیہ دیتے ہوئے مفعول کے ساتھ اگر وہ معرفہ ہو، اور تشبیہ دیتے ہوئے تمیز کے ساتھ اگر وہ نکرہ ہو،
اور کبھی مجرور بھی ہوتا ہے بنابر اضافت کے۔ ٹھیک ہے ۔ اب یہ چیزیں ذرا آسان ہوگئیں۔ 
اب ان کی تھوڑی سی مثالیں ہیں آپ کو سمجھا دوں تو نسبتاً آپ کے لیے آسان ہوگا کہ :
 اس کا معمول کبھی منصوب ہوتا ہے اگر معرفہ ہو تو تشبیہ دیتے ہوئے مفعول کے ساتھ۔ مثلاً: "الْحَسَنُ الْوَجْهَ" یہاں "الْوَجْهَ" منصوب ہے
کیونکہ یہ معرفہ ہے اور تشبیہ دیتے ہوئے مفعول کے ساتھ ہے۔
اور ہم نے کہا ہے کہ یہ کبھی منصوب ہوتا ہے بنابر تمیز کے۔ اس کا معمول کبھی منصوب ہوتا ہے اگر نکرہ ہو"الحَسَنُ وَجْهًا" یہاں "وَجْهًا" منصوب ہے کیونکہ یہ نکرہ ہے اور تمیز کے ساتھ تشبیہ دی گئی
ہے۔
بنا بر اضافت کے مجرور ہوگا"حَسَنُ الْوَجْهِ" یہاں "الْوَجْهِ" مجرور ہے کیونکہ یہ اضافت کی بنیاد پر ہے۔
ایک بات یاد رکھنا، وہ کیا ہے؟ "تَکونُ صِيغَةُ اسْمِ الْفَاعِلِ قِيَاسِيَّةٌ وَصِيغُھَا سَمَاعِيَّةٌ"۔
میں نے پہلے بتایا تھا کہ اسمِ فاعل اور صفتِ مشبہہ میں ایک فرق ہے۔ اسمِ فاعل کے صیغے قیاسی ہوتے ہیں، یعنی وہ قاعدہ و قانون کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اگر فلاں باب ہوگا، تو اس کا اسمِ فاعل فلاں صیغے پر ہوگا۔ صِیَغُ جمع ہے صیغہ کی جبکہ صفتِ مشبہہ کے صیغے سماعی ہیں، یعنی وہ قاعدے کے تحت نہیں ہوتے، بلکہ یہ سماعی ہیں جیسے ہم نے عرب والوں سے سنا ہم بھی ویسے ہی پڑہیں گے جیسے «حَسَنٌ» خوبصورت و «صَعْبٌ» سخت و دشوار و «شَدِيْدٌ». سخت کو کہتے ہیں۔