درس شرح مائة عامل

درس نمبر 31: عوامل قیاسی: صفت مشبہ / مضاف

 
1

خطبہ

2

عوامل قیاسی: صفت مشبہ

"وَخَامِسُهَا: صِفَةُ الْمُشَبَّهَةِ وهي مُشَابِهةٌ بِاِسمِ الفاعِلِ فِي التصريفِ، وَفِي كَونِ كُلِِّ مِنهُما صَفَةََ،"

عواملِ قیاسیہ میں سے پانچواں عامل "صفتِ مشبہہ" ہے۔
صفتِ مشبہہ کو صفتِ مشبہہ کیوں کہتے ہیں؟

 فرماتے ہیں کہ اس لیے کہ یہ جو صیغہ ہوتاہے، ایک تو یہ اسمِ فاعل کے مشابہ ہوتا ہے۔ جس طرح اسمِ فاعل کے چھ صیغے ہوتے ہیں (تین مذکر

کے اور تین مؤنث کے)، یہ بھی اسی طرح ہے۔ اور دوسرا، اسمِ فاعل بھی صفت کے لیے آتا ہے، اور یہ تو ہوتی ہی صفت ہے۔ تو چونکہ یہ

صفتیت میں اور تصریف میں اسمِ فاعل کے مشابہ ہوتی ہے، اس کو صفتِ مشبہہ کہتے ہیں۔
پھر ان کے درمیان فرق کیا ہوگا؟

جب صیغے بھی دونوں کے برابر ہیں اور دونوں ہی صفت ہیں، تو پھر اس کو اسمِ فاعل اور اس کو صفتِ مشبہہ کیوں کہتے ہیں؟
پہلا فرق :

فرماتے ہیں کہ ایک فرق تو یہ ہے کہ اسمِ فاعل کے صیغے قیاسی ہوتے ہیں، یعنی وہ قاعدہ و قانون کے تحت ہوتے ہیں۔ اگر فعل ایسا ہوگا، تو اس

کا اسمِ فاعل ایساآئے گا۔ جبکہ صفتِ مشبہہ کے صیغے سماعی ہیں قیاسی نہیں۔
دوسرا فرق:

صفتِ مشبہہ میں جو صفت ہوتی ہے، وہ دوام اور ثبوت پر دلالت کرتی ہے، یعنی یہ نہیں بتاتی کہ یہ چیز ماضی میں تھی، حال میں ہے، یا مستقبل

میں ہوگی۔ بلکہ یہ بتاتی ہے کہ یہ صفت فاعل کے ساتھ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی جبکہ اسمِ فاعل میں جو حدوث ہوتا ہے، وہ زمانے کے

ساتھ متعلق ہوتی ہے، یعنی یہ بتاتی ہے کہ فاعل ماضی میں تھا، حال میں ہے، یا مستقبل میں ہوگا۔
تیسرا فرق:

صفتِ مشبہہ ہمیشہ فعلِ لازم سے مشتق ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ فعل اصل میں ہی لازم ہو، جیسے "شَرُفَ"، یا ہو سکتا ہے کہ وہ اصل میں

لازم نہ ہو، بلکہ متعدی ہو۔ لیکن اگر متعدی ہوگا، تو پہلے اس کو لازم میں تبدیل کریں گے، پھر اس سے صفتِ مشبہہ کا صیغہ مشتق کریں گے۔

کیوں؟ اس لیے کہ صفتِ مشبہہ کا صیغہ ہمیشہ فعلِ لازم سے مشتق ہوتا ہے، متعدی سے نہیں۔کیوں ؟ گزارش کی ہے یہ دلالت کرتا ہے لزوم

وثبوت پر کہ اس کا مصدر اس کے فاعل کے لیئے ہمیشہ ہے دائم ہے۔
صفتِ مشبہہ کا عمل:

صفتِ مشبہہ بھی اپنے فعل والا عمل کرتی ہے۔یعنی اگر وہ لازم ہوگا، تو فقط فاعل کو رفع دے گی۔ اگر متعدی ہوگا، تو فاعل کو رفع اور مفعول کو

نصب دے گی۔ لیکن فرق یہ ہے کہ فعل کی دلالت زمانے پر ہوتی ہے (کبھی ماضی پر، کبھی حال پر، کبھی مستقبل پر)، جبکہ صفتِ مشبہہ کی

دلالت زمانے پر نہیں ہوتی۔ کیوں؟ چونکہ اس کی دلالت دوام اور استمرار پر ہوتی ہے، یہ کسی خاص زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔
صفتِ مشبہہ کے عمل کی شرائط:

صفتِ مشبہہ بھی اسمِ فاعل کی طرح ان چھ میں سے پانچ امور پر اعتماد کرے گی، یعنی تب عمل کرے گی جب چھ میں سے پانچ امور پر اعتماد

ہو۔ فقط موصول والا اعتماد یہاں نہیں ہوتا۔ کیوں؟ کیونکہ اس پر "ال" داخل ہوتا ہے، وہ موصول کا نہیں ہوتا۔

"وَخَامِسُهَاعواملِ قیاسیہ میں سے پانچواں عامل ہےصِفَةُ الْمُشَبَّهَةِ  "صفتِ مشبہہ" ( میں نے گزارش کر دی اسے صفت مشبہ کیوں کہتے ہیں )وهي مُشَابِهةٌ بِاِسمِ الفاعِلِ یہ صفت اسمِ فاعل کے مشابہ ہوتی ہے فِي التصريفِ، تصریف میں گردان میں جیسے اسم فاعل کے چھ صیغے ہوتے ہیں تین مذکرکے اور تین مؤنث کے ، اس کے بھی ایسے ہیں ہوتے ہیں  ۔ دوسری مشابہت ؟ وَفِي كَونِ كُلِِّ مِنهُما صَفَةََ،جیسے اسمِ فاعل بھی صفت کے لیے آتا ہے، اور یہ تو ہوتی ہی صفت ہے۔ پس یہ صفتیت میں اور تصریف میں اسمِ فاعل کے مشابہ ہوتی ہے، جیسے  "حَسَنٌ" (یہ صفتِ مشبہہ ہے، جو "حَسُنَ" (ہونا اچھا) سے مشتق ہے۔ صفتِ مشبہہ کے بھی چھ صیغے ہوتے ہیں، جیسے اسمِ فاعل کے ہوتے ہیں۔

  • مذکر کے لیے: "حَسَنٌ"، "حَسَنَانِ"، "حَسَنُونَ"
  • مؤنث کے لیے: "حَسَنَةٌ"، "حَسَنَتَانِ"، "حَسَنَاتٌ"

على قياس «ضارِبٌ ضاربان ضاربون، وضاربة ضاربتان ضاربات»، یہ اسم فاعل کے ہیں۔

صفتِ مشبہہ ہمیشہ فعلِ لازم سے مشتق ہوتی ہے۔ اگر فعل متعدی ہو، تو پہلے اس کو لازم میں تبدیل کیا جاتا ہے، پھر اس سے صفتِ مشبہہ کا

صیغہ مشتق کیا جاتا ہے۔
صفت مشبہ کا حکم :

وَهِيَ مشتقَّة ٌمِنَ الفعلِ اللازمِ ، صفتِ مشبہہ ہمیشہ فعلِ لازم سے مشتق ہوتی ہے ، ہو سکتا ہے کہ وہ فعل اصل میں ہی لازم ہو، جیسے "شَرُفَ"، یا ہو سکتا ہے کہ وہ اصل میں لازم نہ ہو، بلکہ متعدی ہو۔ لیکن اگر متعدی ہوگا، تو پہلے اس کو لازم میں تبدیل کریں گے، پھر اس سے

صفتِ مشبہہ کا صیغہ مشتق کریں گے۔

دالّةٌ عَلى ثُبُوتِ مَصدَرِها لِفَاعِلِها عَلى سَبيلِ الاستمرارِ والدَوامِ بِحَسَبِ الوَضعِ ، دالۃٌ اگر پڑہیں گے تو یہ مشتقۃٌ  کی صفت ہو جائے گی دالۃََ پڑہیں گے تو یہ حال ہو جائے گا یعنی یہ دلالت کرتا ہے لزوموثبوت پر کہ اس کا مصدر اس کے فاعل کے لیئے ہمیشہ ہے دائم ہے۔اس کی وضع ہی ایسے ہے کہ کسی زمانے کے ساتھ نہیں ہوتا ۔

جیسے حَسَنٌ اس کا مطلب ہے کہ جس کے لیے یہ صفت استعمال ہو رہی ہے، وہ ہمیشہ سے اچھا ہے اور ہمیشہ اچھا رہے گا۔

صفتِ مشبہہ کے اعمال کی تفصیل:
وتَعمَلُ عَمَلَ فِعلِهَا ،صفتِ مشبہہ بھی  اپنے فعل والاعمل کرتی ہے، مِن غَيرِ اِشتِراطِ زَمانِِ؛البتہ اس میں زمانے کی شرط نہیں ہوتی ہے کہ فعل کی دلالت زمانے پر ہوتی ہے (کبھی ماضی پر، کبھی حال پر، کبھی مستقبل پر)، لیکن صفتِ مشبہہ کی دلالت زمانے پر نہیں ہوتی۔
کیوں؟ لِكَونِها بمعنى الثبوتِ چونکہ اس کی دلالت دوام اور استمرار پر ہوتی ہے،یہ ہمیشگی کے لیئے ہے اس لیئے یہ عمل تو فعل والا کرتی ہے پر

اس میں زمانے والی کوئی شرط نہیں۔

اب تھوڑا نکتہ یہاں سمجھ لو:
ہم نے کیا کہا تھا کہ اسمِ فاعل تب عمل کرے گا کہ اس میں پہلی شرط یہ ہے کہ وہ بمنزلہ حال یا استقبال کے ہو۔ لیکن صفتِ مشبہہ میں یہ نہیں کہیں گے کہ صفتِ مشبہہ نے فعل والا عمل کر دیا ہے اگر بمنزلہ حال یا استقبال کے ہو۔ نہیں، اس میں نہیں کہتی۔ کیوں؟ کیونکہ اصلاً اس میں زمانہ شرط نہیں ہے۔ اس کا تو کام ہی دوام اور ثبُوت ہے۔

اسمِ فاعل کے عمل کرنے میں ایک اور شرط تھی کہ وہ چھ چیزوں میں سے کسی ایک پر اعتماد کرتا ہو، یعنی اس سے پہلے ان چھ امور میں سے کوئی ایک ہو۔ صفتِ مشبہہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟
فرماتے ہیں :وأمّا اشتراطُ الاعتماد ،   کہ اسمِ فاعل کے عمل کرنے میں جو شرط تھی کہ وہ چھ چیزوں میں سے کسی ایک پر اعتماد کرتا ہو،فمعتبرٌ فِيهَا وہ اعتماد والی شرط یہاں صفتِ مشبہہ میں بھی ہے، وہ اس میں بھی ہے۔إلّا لیکن چھ میں سے پانچ میں کیوں؟ أنّ الاعتمادَ على الموصولِاس لیے کہ موصول پر اعتماد کرنا لا يَتَأَتّٰى فيها؛ وہ صفتِ مشبہہ میں نہیں ہوتا، یعنی یہ نہیں کہیں گے کہ صفتِ مشبہہ تب عمل کرے گی کہ یا اس سے پہلے موصول ہو۔

کیوں ؟ فرماتے ہیں وجہ یہ ہے:
لأنّ اللام الداخلة عليها کیونکہ جو الف و لام  اس صفتِ مشبہہ پر داخل ہوتا ہے،ليست بموصول بالاتّفاق، تمام نحویوں کا اتفاق ہے کہ یہ موصول نہیں ہے، یہ لام لامِ موصول نہیں ہے۔ کیونکہ جو لامِ موصول ہوتی ہے، اس کا صلہ یا تو اسمِ فاعل ہوتا ہے یا مبالغہ ہوتا ہے یا اسمِ مفعول لیکن  صفتِ مشبہہ اس کا  صلہ واقع نہیں ہو سکتی ۔ اس لیے وہ الف لام بھی موصول کا نہیں ہو سکتا۔
صفت مشبہ کا معمول ؟

وقد يكون معمولُها منصوباً فرماتے ہیں کہ صفتِ مشبہہ کا ایک اور حکم یہ ہے کہ کبھی کبھار صفتِ مشبہہ کا معمول منصوب ہوتا ہے، یعنی جس پر یہ عمل کرتی ہے، اس پر نصب پڑتا ہے، اس پر زبر پڑتی ہے۔ اچھا، وہ کیوں منصوب کیوں ہوتا ہے؟ فرماتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے:
"عَلَى تَشْبِيهٍ بِالْمَفْعُولِ فِي الْمَعْرِفَةِ"
یعنی کبھی کبھی صفتِ مشبہہ کا معمول منصوب ہوتا ہے کیوں؟ "عَلَى تَشْبِيهٍ" اس کو تشبیہ دیتے ہوئے کس کے ساتھ؟ "بِالْمَفْعُولِ" مفعول کے ساتھ۔ کہاں پر؟ "فِي الْمَعْرِفَةِ" معرفہ میں۔ کیا مطلب؟ جیسے معرفہ منصوب ہوتا ہے "عَلَى تَشْبِيهٍ بِالْمَفْعُولِ" مفعول سے تشبیہ کی صورت میں، تو اس کا معمول بھی کبھی منصوب آتے ہیں۔ اس لیے کہ گویا کہ یہ "قَدْ يَكُونُ مَعْمُولًا" اس کا معمول منصوب ہوتا ہے۔ اس کو تشبیہ دیتے ہوئے "بِالْمَفْعُولِ فِي الْمَعْرِفَةِ" مفعول فی المعرفہ، یعنی وہ کہتے ہیں کہ معرفہ منصوب ہوتا ہے کیوں؟ اس لیے اس کو تشبیہ دیتے ہیں مفعول کے ساتھ۔

تو فرماتے ہیں یہاں پر بھی غور کرنا ہے:
ایک بحث ہے کہ معرفہ منصوب ہوتا ہے  ، مفعول کے سات  تشبیہ دیتے ہیں اور نکرہ منصوب ہوتا ہے تمیز کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے۔ ایسی طرح فرماتے ہیں کہ کبھی کبھار اب ذرا غور کرنا ہے کہ کبھی کبھار صفتِ مشبہہ کا معمول منصوب ہوتا ہے جب "عَلَى تَشْبِيهٍ بِالْمَفْعُولِ" مفعول کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے "فِي الْمَعْرِفَةِ" وہ "عَلَى التَمْيِيزِ" اور تمیز کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے "فِي النَّكِرَةِ" اگر وہ نکرہ ہوگا، و مجروراً۔ اور کبھی کبھی اس کا معمول مجرور بھی ہوتا ہے على الإضافة، اضافت کی بنیاد پر۔ ٹھیک ہے۔
اب ذرا غور کرنا ہے دوبارہ اس کو ذرا توجہ سے:

کہ صفتِ مشبہہ کا معمول منصوب ہوتا ہے تشبیہ دیتے ہوئے مفعول کے ساتھ اگر وہ معرفہ ہو، اور تشبیہ دیتے ہوئے تمیز کے ساتھ اگر وہ نکرہ ہو،

اور کبھی مجرور بھی ہوتا ہے بنابر اضافت کے۔ ٹھیک ہے ۔ اب یہ چیزیں ذرا آسان ہوگئیں۔ 

اب ان کی تھوڑی سی مثالیں ہیں آپ کو سمجھا دوں تو نسبتاً آپ کے لیے آسان ہوگا کہ :

 اس کا معمول کبھی منصوب ہوتا ہے اگر معرفہ ہو تو تشبیہ دیتے ہوئے مفعول کے ساتھ۔ مثلاً: "الْحَسَنُ الْوَجْهَ" یہاں "الْوَجْهَ" منصوب ہے

کیونکہ یہ معرفہ ہے اور تشبیہ دیتے ہوئے مفعول کے ساتھ ہے۔

اور ہم نے کہا ہے کہ یہ کبھی منصوب ہوتا ہے بنابر تمیز کے۔ اس کا معمول کبھی منصوب ہوتا ہے اگر نکرہ ہو"الحَسَنُ وَجْهًا" یہاں "وَجْهًا" منصوب ہے کیونکہ یہ نکرہ ہے اور تمیز کے ساتھ تشبیہ دی گئی

ہے۔

بنا بر اضافت کے مجرور ہوگا"حَسَنُ الْوَجْهِ" یہاں "الْوَجْهِ" مجرور ہے کیونکہ یہ اضافت کی بنیاد پر ہے۔

ایک بات یاد رکھنا، وہ کیا ہے؟ "تَکونُ صِيغَةُ اسْمِ الْفَاعِلِ قِيَاسِيَّةٌ وَصِيغُھَا سَمَاعِيَّةٌ"۔
میں نے پہلے بتایا تھا کہ اسمِ فاعل اور صفتِ مشبہہ میں ایک فرق ہے۔ اسمِ فاعل کے صیغے قیاسی ہوتے ہیں، یعنی وہ قاعدہ و قانون کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اگر فلاں باب ہوگا، تو اس کا اسمِ فاعل فلاں صیغے پر ہوگا۔ صِیَغُ جمع ہے صیغہ کی جبکہ صفتِ مشبہہ کے صیغے سماعی ہیں، یعنی وہ قاعدے کے تحت نہیں ہوتے، بلکہ یہ سماعی ہیں جیسے ہم نے عرب والوں سے سنا ہم بھی ویسے ہی پڑہیں گے جیسے «حَسَنٌ» خوبصورت و «صَعْبٌ» سخت و دشوار و «شَدِيْدٌ». سخت کو کہتے ہیں۔

3

عوامل قیاسی: مضاف


عواملِ قیاسیہ میں سے ایک اور عامل وہ ہے "مضاف"۔

مضاف عامل ہے۔ مضاف کیا ہوتا ہے؟ کسے کہتے ہیں؟ہر وہ اسم جس کو دوسرے اسم کی طرف اضافت دی گئی ہو، نسبت دی گئی ہو۔ تو یہ

اسم، جس کو دوسرے کی طرف نسبت دی جا رہی ہے، یہ دوسرے اسم کو جر دیتا ہے۔ یعنی اس کا عمل کیا ہے؟ مضاف، مضاف الیہ کو جر

دیتا ہے۔ البتہ مضاف اُس صورت میں جر دے گا، یعنی اُس صورت میں جر دے گا، بشرطے کہ پہلے اسم پر الف لام بھی نہ ہو، تنوین بھی نہ ہو،

نون تثنیہ اور نون جمع بھی نہ ہو۔ ان سے خالی ہوگا تو جر دے گا ۔
تو اس کے بعد پھر اضافت کی قسمیں ہیں:

کبھی اضافت بمعنیٰ لام کی ہوگی، کبھی بمعنیٰ مِن کی ہوگی، کبھی بمعنیٰ فی کی ہوگی۔ وہ بالکل آسان سی ہے۔ مثال میں  بتاتا ہوں، بالکل آسان

ہے۔ فرماتے ہیں:

"وَسَادِسُھا " عواملِ قیاسیہ میں سے چھٹا عامل ہے "المضافُ"۔ مضاف کیا ہے؟ فرماتے ہیں:

"كُلُّ اسْمٍ أُضِيفَ إِلَى اسْمٍ آخَرَ"

یعنی مضاف وہ اسم ہے کہ اُضِيفَ إِلَى اسْمٍ آخَرَ، جس کو دوسرے اسم کی طرف اضافت دی گئی ہو، دوسرے اسم کی طرف نسبت دی گئی

ہو۔

"فَيَجُرُّ الْأَوَّلُ الثَّانِيَ" یعنی پہلا اسم دوسرے اسم کو جر دے گا۔

"فَيَجُرُّ الْأَوَّلُ" یعنی پہلا اسم جر دے گا۔"الثَّانِيَ"دوسرے کو۔

 پہلے کو کہتے ہیں مضاف، دوسرے کو کہتے ہیں مضاف الیہ۔ مضاف یعنی جس کو نسبت دی گئی، مضاف الیہ یعنی جس کی طرف نسبت دی

گئی۔آگے مثالیں ہیں، سب کچھ واضح ہو جائے گا:

"فَيَجُرُّ الْأَوَّلُ" پہلا اسم جر دے گا دوسرے اسم کو ۔

"مُجَرَّدًا" یہ حال ہے اُس اول کا کہ پہلا اسم دوسرے کو جر دے گا درحالنکہ وہ خالی ہو مجرداََ، خالی ہو۔ کس سے ؟ "عَنِ اللَّامِ" یعنی پہلے اسم پر

الف لام بھی نہ ہو۔"وَالتَّنْوِينِ" ،تنوین سے خالی ہو، یعنی اُس پر تنوین بھی نہ ہوگی۔ "وَمَا يَقُومُ مَقَامَهُ" یعنی جو تنوین کے قائم مقام ہے،

یعنی نونِ تثنیہ بھی نہیں ہوگی، اور نونِ جمع بھی نہیں ہوگی۔
کیا مطلب؟

بہت غور کریں۔ یعنی جب ایک اسم کو دوسرے اسم کی طرف مضاف کریں گے، اور وہ دوسرے اسم کو جر دے رہا ہوگا، تو مضاف پر الف

لام بھی نہیں ہوگا، تنوین بھی نہیں ہوگی، تثنیہ کی نون اور جمع کی نون بھی نہیں ہوں گی۔ کیوں؟
"لِعَجْلِ الْإِضَافَةِ" اسی اضافت کی وجہ سے۔  لام لامِ تعلیل ہے۔ کیوں نہیں ہوگی؟ یعنی اضافت کی وجہ سے، چونکہ ہم اس کو دوسرے کی طرف

مضاف کر رہے ہیں، لہٰذا اس لیے اس پر الف لام نہیں ہے۔ لہٰذا اس لیے اس پر تنوین نہیں ہے۔ لہٰذا اضافت کی وجہ سے اس پر نونِ تثنیہ یا

نونِ جمع نہیں ہے۔
اب  فرماتے ہیں:

ایک تو ہم نے یہ پڑھا کہ چھٹا عامل ہے مضاف۔ پہلے تھا کہ مضاف کیا ہے؟ یعنی وہ اسم جس کو دوسرے کی طرف نسبت دی گئی ہو، اضافت

دی گئی ہو۔ عمل کیا کرتا ہے؟ وہ پہلا اسم دوسرے کو جر دیتا ہے۔ شرط کیا ہے؟ کہ اس پر الف لام بھی نہ ہو، تنوین بھی نہ ہو، نونِ تثنیہ اور جمع

بھی نہ ہو۔
اب فرماتے ہیں:

یہ جو اضافت ہے، یعنی یہ جو ہم ایک اسم کو دوسرے اسم کی طرف نسبت دے رہے ہیں، یہ اضافت اس کے آگے کچھ قسمیں لکھی ہیں۔ میں

اس کو آسان کر کے گزارش کرنا چاہوں گا۔
"والإِضافةُ إِمَّا بِمَعْنَى اللَّامِ"

یا اضافت لامیہ ہوگی۔ بِمَعْنَى اللَّامِ کیا مطلب؟ یعنی اس اسم کو جب دوسرے اسم کی طرف مضاف کریں گے، تو اس مضاف الیہ سے پہلے

ایک لام المقدّرةِ مقدر ہوگی۔ یعنی فرض کریں گے کہ یہاں ایک لام ہے، لیکن یہ کہاں ہوگی؟
"إِنْ لَمْ يَكُنِ الْمُضَافُ إِلَيْهِ مِنْ جِنْسِ الْمُضَافِ" اضافت لامیہ وہاں ہوتی ہے جہاں مضاف الیہ مضاف کی جنس سے بھی نہ ہو۔
"وَأَنْ لَا يَكُونَ ظَرْفًا" اور وہ مضاف الیہ ظرف بھی نہ بن رہا ہو۔

دو مثال دیتے ہوں، آسان ہے:
مثال 1: ہم کہتے ہیں: "غُلَامُ زَيْدٍ"۔

اب ساری بحث اس میں آگئی۔ "غُلَامُ" اسم ہے ، "زَيْدٍ" بھی اسم۔ "غُلَامُ" پہلا اسم ہے، اس کو نسبت دی گئی ہے "زَيْدٍ" کی طرف،

یعنی زید کا غلام۔ یہاں پر لام مقدر ہے، یعنی اصل میں ہے: "غُلَامٌ لِزَيْدٍ"۔ اصل میں یہ ہے: "غُلَامٌ لِزَيْدٍ"۔ کیوں؟ کیونکہ زید غلام کی جنس

سے بھی نہیں ہے، اور زید غلام کے لیے ظرف بھی نہیں ہے۔ یہاں پر "غُلَامُ" اور "زَيْدٍ" ہم کہیں گے، یہاں اضافت ہے، لیکن یہاں اس

اضافت میں لام مقدر ہے، لام چھپی ہوئی ہے، یعنی اصل میں "غُلَامُ لِزَيْدٍ"۔
"وَإِمَّا بِمَعْنَى مِنْ"

اور کبھی اضافت بِمَعْنَى مِنْ ہوگی، اس مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان ایک مِن مقدر ہوگی۔ یہ کہاں ہوگا؟

"إِنْ كَانَ مِنْ جِنْسِہ" اگر مضاف اور مضاف الیہ ایک ہی جنس سے ہوں۔
مثال 2: "خَاتَمُ فِضَّةٍ" خاتم انگوٹھی کو کہتے ہیں، "فِضَّةٍ" چاندی کو کہتے ہیں۔ "خَاتَمُ" اس میں ہم نے اس کو نسبت دی ہے "فِضَّةٍ" کی طرف،

کیونکہ وہ انگوٹھی بھی اسی فِضَّةٍ سے بنی ہے، یعنی "خَاتَمُ فِضَّةٍ" چاندی کی انگوٹھی۔ چونکہ وہ ظاہر ہے اسی کی جنس میں سے ہے، "فِضَّہ"، تو

لہٰذا اس لیے ہم جہاں کہیں گے، اصل میں "خَاتَمٌ مِنْ فِضَّةٍ"، انگوٹھی چاندی سے۔ یہاں پر "مِنْ" مقدر ہوگا، بِمَعْنَى مِنْ المقدرِ۔
"وَإِمَّا بِمَعْنَى فِي" یا اضافت ظرفیہ اس کو کہتے ہیں، یا یہاں پر "فِي" مقدر ہوگی۔ "فِي" کب مقدر ہوتا ہے؟
"إِنْ كَانَ ظَرْفًا لَہُ" اگر وہ مضاف الیہ ظرف ہوگا، یعنی اس کے لیے ظرف ہوگا۔
مثال 3:"ضَرْبُ الْيَوْمِ"  ضَرب کو ہم نے "يَوْم" کی طرف نسبت دی ہے، لیکن چونکہ "يَوْم" ظرف ہے، ضَرب کے لیے ، اصل میں "ضَرْبٌ فِي

الْيَوْمِ"، یعنی دن میں مارنا۔

وقع عليه الفعل، وهو يعمل عمل فعله المجهول؛ فيرفع اسماً واحداً بأنّه قائم مقام فاعله، وشرط عملِه كونه بمعنى الحال أو الاستقبال، واعتمادُه على المبتدأ كما في اسم الفاعل، مثل: «زيد مضروب غلامه الآن أو غداً»، أو الموصولِ، نحو: «المضروب غلامه زيد»، أو الموصوفِ، مثل: «جاءني رجل مضروب غلامه»، أو ذي الحال، مثل: «جاءني زيد مضروباً غلامه»، أو حرفَ النفْيِ أو الاستفهام، مثل: «ما مضروب غلامه»، و«أمضروب غلامه»، وإذا انتفى فيه أحد الشرطين المذكورين ينتفي عمله، وحينئذٍ يلزم إضافته إلى ما بعده، وإذا دخل عليه الألف واللام يكون مستغنياً عن الشرطين في العمل، مثل: «جاءني المضروب غلامه».

و خامسها: الصفة المشبهة وهي مشابِهة باسم الفاعل في التصريف، وفي كون كلّ منهما صفَة، مثل: «حسن حسنان حسنون، وحسنة وحسنتان وحسنات» على قياس «ضارب ضاربان ضاربون، وضاربة ضاربتان ضاربات»، وهي مشتقَّة من الفعل اللازم دالّة على ثبوت مصدرها لفاعلها على سبيل الاستمرار والدوام بحسب الوضع وتعمل عمل فعلها من غير اشتراط زمان؛ لكونها بمعنى الثبوت. وأمّا اشتراط الاعتماد

فمعتبر فيها إلّا أنّ الاعتماد على الموصول لا يتأتّى فيها؛ لأنّ اللام الداخلة عليها ليست بموصول بالاتّفاق، وقد يكون معمولُها منصوباً على التشبيه بالمفعول في المعرفة، وعلى التمييز في النكرة، ومجروراً على الإضافة، وتكون صيغة اسم الفاعل قياسيّة وصِيَغُها سماعيّة، مثل: «حَسَنٌ» و «صَعْبٌ» و «شَدِيْدٌ».

و سادسها: المضاف كلّ اسم أضيف إلى اسم آخرَ فيجرّ الأوّلُ الثانيَ مجرّداً عن اللام والتنوين وما يقوم مقامه من نوني التثنية والجمع؛ لأجل الإضافة، والإضافة إمّا بمعنى اللام المقدّرة إن لَم يكن المضاف إليه من جنس المضاف ولا يكون ظرفاً له، مثل: «غلام زيد»، وإمّا بمعنى «مِنْ» إن كان من جنسه، مثل: «خاتم فضّة»، وإمّا بمعنى «في» إن كان ظرفاً له، نحو: «ضرب اليوم».

وسابعها: الاسْمُ التَامُّ كلّ اسم تَمَّ فاستغنى عن الإضافة بأن يكون في آخره تنوين أو ما يقوم مقامه من نوني التثنية والجمع، أو يكون في آخره مضاف إليه، وهو ينصب النكرة على أنّها تمييز له فيرفع منه الإبهام، مثل: «عندي رِطلٌ زيتاً ومنوان سمناً وعشرون درهماً»، و«لي مَلْوَةٌ عسلاً».