وأمّا المَعْنَوِيَّةٌُ
اٹھانوے عوامل مکمل ہو گئے۔ آخر میں دو مختصر سے رہ گئے۔ فرماتے ہیں کہ اٹھانوے عوامل تھے عواملِ لفظیہ، اور دو عوامل ہیں عواملِ معنویہ۔ فرماتے ہیں:
"مَعْنَوِيَّةٌ فَمِنْهَا عَدَدَانِ" معنویہ فقط دو ہیں:
	- ایک ہے مبتدا اور خبر کا عامل۔
- اور ایک ہے فعلِ مضارع کا عامل۔
سوال یہ ہے کہ اُن عوامل کو عواملِ لفظیہ تو اس لیے کہتے تھے، چونکہ وہ لفظ تھے، اور ہر لفظ اپنے مابعد میں عمل کرتا تھا۔
دیکھو نا جی، لفظ تھے: "إِنَّ" لفظ تھا، "كَاَنَّ" مثلًا لفظ تھا، فعل لفظ تھا، مصدر لفظ تھا، اسمِ فاعل لفظ تھا، وغیرہ۔ ان کو معنویہ کیوں کہتے ہیں؟
فرماتے ہیں کہ اس لیے کہ ان میں، ان کے عمل کرنے میں زبان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بڑا پیارا جملہ ہے:
"لَيْسَ لِلِّسَانِ حَظٌّ فِيهِ" یعنی ان کے عمل کرنے میں زبان کا کوئی حصہ نہیں ہے، بلکہ یہ فقط قلبی ہوتے ہیں۔ نہ کوئی لفظ زبان سے نکلتا ہے،
نہ کوئی حرف۔ یہ فقط دل میں ہوتا ہے۔ چونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ الفاظ زبان سے اس کا تعلق نہیں ہوتا، اس لیے ان کو کہتے ہیں عواملِ
معنویہ۔ ٹھیک ہے۔
اَمّا المَعْنَوِيَّةُ اٹھانوے عواملِ لفظیہ تھے، جن میں سے اکیانوے سماعیہ اور سات قیاسیہ، اٹھانوے ہو گئے۔
" فَمِنْهَا عَدَدَانِ" معنویہ فقط دو ہیں:وہ فقط دو ہیں۔تو پہلا سوال: معنویہ سے مراد کیا ہے؟ فرماتے ہیں:
"الْمُرَادُ مِنَ الْعَامِلِ الْمَعْنَوِيِّ" عاملِ معنوی سے مراد کیا ہے؟ فرماتے ہیں کہ عاملِ معنوی سے مراد ہے:
"مَا يُعْرَفُ بِالْقَلْبِ" جس کے بارے میں انسان کو دل ہی دل میں پتا چلتا ہے، یعنی یہ قلبی ہوتے ہیں، معنوی ہوتے ہیں، ذہنی ہوتے ہیں۔
"لَيْسَ لِلِّسَانِ حَظٌّ فِيهِ" زبان کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ ٹھیک ہے جی، زبان کے اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ قلب سے ہی انسان کو پتا چلتا ہے۔ یہ کوئی ملفوظات میں سے نہیں ہے۔
"أَحَدُّهُمَا" وہ جو دو عوامل معنوی ہیں، ان میں سے ایک پہلا:
"الْعَامِلُ فِي الْمُبْتَدَأِ وَالْخَبَرِ" پہلا ہے مبتدا اور خبر کا عامل، جس نے مبتدا کو رفع دیا اور خبر کو۔ جو ہم کہتے ہیں: "زَيْدٌ قَائِمٌ"
تو سوال ہوگا کہ اس "زَيْدٌ" کو آخر میں رفع کس نے دیا، اور "قَائِمٌ" کو رفع کس نے دیا؟ تو جواب ہوگا کہ اس مبتدا اور خبر کا عامل معنوی ہے۔ وہ
کیا ہے؟
"هُوَ الْإِبْتِدَاءُ" یعنی ابتدائیت۔ ابتداء سے مطلب کیا؟ یعنی:
"خُلُوُّ الْإِسْمِ مِنَ الْعَوَامِلِ اللَّفْظِيَّةِ"  اسم کا عواملِ لفظیہ سے خالی ہونا۔ چونکہ "زَيْدٌ قَائِمٌ"، زید کھڑا ہے۔ اب زید سے پہلے کسی قسم کا
کوئی عاملِ لفظی موجود نہیں ہے۔ ابتداء کلام ہے۔ میں نے کہا:"زَيْدٌ قَائِمٌ" زید کھڑا ہے۔ اب چونکہ زید سے پہلے کسی قسم کا کوئی عاملِ لفظی
موجود نہیں ہے، بس اس عاملِ لفظی کا موجود نہ ہونا، یہی ابتداء ہے، اور یہی ابتداء ایک عامل معنوی ہے مبتدا اور خبر کے لیے۔ لہٰذا ہم کہتے
ہیں: "زَيْدٌ مُنْطَلِقٌ" اب "زَيْدٌ" کو مرفوع پڑھا ہے، "مُنْطَلِقٌ" کو مرفوع پڑھا ہے۔ تو ہم کہیں گے کہ اس "زَيْدٌ" مبتدا ہے، "مُنْطَلِقٌ" خبر
ہے۔ اس خبر اور مبتدا کا عامل کیا ہے؟ تو آپ جواب میں کیا کہیں گے؟ اس کا عامل ہے وہی ابتداء۔ ابتداء سے مراد کیا؟ یعنی اس زید سے
پہلے کسی قسم کا کوئی عامل لفظی موجود نہیں ہے، اور یہی خالی ہونا، یہی ابتداء ہی ان کا عامل ہے۔
"وَثَانِيهِمَا" وہ جو دو عامل معنوی ہیں، ان میں سے جو دوسرا عامل ہے، وہ کیا ہے؟ وہ ہے فعلِ مضارع میں جو عمل کرتا ہے۔ اچھا، فعلِ
مضارع کا عامل کیا ہے؟
البتہ یہ ایک نظریہ ہے، وہ ہے بصریوں کا۔ وہ کہتے ہیں کہ  وهو صحّةُ وقوعِ الفعلِ المضارعِ موقعَ الاسمِ فعلِ مضارع کا عامل ہے فعلِ مضارع کا اسمِ فاعل صحیح ہونا۔ یعنی اگر ہم اسمِ فاعل کی بجائے فعلِ مضارع کو وہاں ذکر کریں، تو وہ بھی صحیح ہے۔ پس اس کا یہی صحیح ہونا، اس فعلِ مضارع کا عامل ہے۔جیسے ہم کہتے ہیں: "زَيْدٌ يَعلَمُ" زید مبتدا ہے، آگے ہم کہتے ہیں: "يَعلَمُ" فرماتے ہیں:
"فَيَعلَمُ مَرْفُوعٌ"یہ "يَعلَمُ" مرفوع ہے، کیوں؟
"لِصِحَّةِ وَقُوعِهِ مَوْقِعَ الِاسْمِ" اس لیے کہ یہ "يَعلَمُ" اسم کے مقام پر واقع ہوا، یعنی یہ اس لیے کہ اسم کے مقام پر اس کو رکھنا صحیح ہے۔ اس
لیے کہ: اس لیے کہ اگر ہم کہیں: "زَيْدٌ يَعلَمُ" یا اگر ہم کہیں:"زَيْدٌ عَالِمٌ"
تو بھی صحیح ہے۔ اب جیسے "زَيْدٌ عالِمٌ" میں عامل معنوی ہوتا ہے، پس اگر ہم "عَالِمٌ" کی بجائے کہتے ہیں:
"زَيْدٌ يَعلَمُ" تو پس اس کا عامل بھی عاملِ معنوی ہوگا۔
یہ ہے البتہ نحاتِ بصرہ کا نظریہ۔ البتہ جو کوفہ کے نحات ہیں،
 وعند الكوفيّين: أنّ عامل الفعل المضارع تجرّدُه عن العامل الناصب والجازم،وہ کہتے ہیں کہ جوازم سے خالی ہونا، یہ اس کا عامل ہے۔ یعنی وہ کیا کہتے ہیں؟ چونکہ جب فعلِ مضارع پر کوئی اور حروفِ ناصبہ میں سے کوئی نہیں آیا، حروفِ جازمہ میں سے کوئی نہیں آیا، بس فعلِ مضارع کا ہونا، جوازم اور جوازم سے خالی ہونا، یہی اس کا عامل ہے۔ یعنی اس کا عامل معنوی نہیں ہے۔
وهو مختارُ ابن مالكٍ ابنِ مالک کا نظریہ۔
ابنِ مالک ایک بہت بڑی شخصیت ہے، نحوی، ماشاءاللہ، ان کا بڑا نام ہے۔ "الْفِيَّةُ" ابنِ مالک کے نام سے مشہور ہے۔ الفیہ جس میں ہزار شعر ہیں، اور پھر جو کتاب جس کی شرح ہوئی، وہ مختلف اس کی شروحات ہیں۔ شرح ابنِ عقیل بھی ہے، اور البهجة المرضية جس کو لوگ اس سیوطی کے نام سے جانتے ہیں، حالانکہ اس سیوطی لکھنے والا ہے، لیکن بہرحال سیوطی کے نام سے بھی اس کو جانتے ہیں۔ تو اس کا نظریہ بھی یہی ہے۔
الحمدللہ رب العالمین۔
آج اس لحاظ سے ہم نے الحمدللہ، یہ سو عوامل جو شروع کیے تھے، ان کی بات ہم نے آج مکمل کر لی۔ عوامل مکمل ہو گئے۔ اب اللہ پاک نے توفیق دی تو ان شاءاللہ ہم سال اول کا کورس بھی اس لحاظ سے مکمل ہو گیا۔ اب ان شاءاللہ ہم سال دوم کا کورس شروع کریں گے۔ الحمدللہ رب العالمین۔
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَعَجِّلْ فَرَجَهُمْ۔