درس شرح مائة عامل

درس نمبر 32: عوامل قیاسی: اسم تام / عوامل معنوی

 
1

خطبہ

2

عوامل قیاسی: اسم تام

"وَسَابِعُهَا: الْإِسْمُ التَّامُّ"
ہماری بحث ہو رہی تھی عواملِ قیاسیہ کی۔ اب تھوڑا سا واپس جائیں۔ پہلے دن گزارش کی تھی کہ کل علماء نے جو عوامل ذکر کیے ہیں، وہ سو ہیں۔ جنہوں نے ابتدا میں فرمایا تھا کہ کچھ عوامل لفظیہ ہیں اور کچھ معنویہ ہیں۔ پھر لفظیہ کو تقسیم کیا تھا سماعیہ اور قیاسیہ میں۔ جنہوں نے فرمایا تھا کہ عواملِ سماعیہ 91 ہیں، اور عواملِ قیاسیہ سات(۷) ہیں۔ تو ان سات میں سے چھ کی بحث مکمل ہو چکی ہے۔ آج آخری ساتواں عامل ہے، اور 91+7 ہوئے 98 اور ان شاءاللہ اسی کے ساتھ یہ آگے دو ہیں عواملِ معنویہ، تو یہ اٹھانوے اور دو ،  سو پورے ہو جائیں گے۔ ان شاءاللہ۔

ساتواں عامل وہ ہے "اسمِ تام"۔
پہلی بات یہ ہے کہ اسمِ تام سے مراد کیا ہے؟ اسمِ تام کسے کہتے ہیں؟ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہر وہ اسم جو اضافت سے مستغنی ہو، جس کو اضافت کی ضرورت نہ ہو، یعنی وہ مضاف ہو کر استعمال نہ ہوا ہو۔ اچھا، اس کی علامت کیا ہوگی؟ یہ اضافت سے مستغنی ہے، مضاف ہو کر استعمال نہیں ہوا۔ فرماتے ہیں کہ اس کی علامت یہ ہے:

  1. یا اس کے آخر میں تنوین ہوگی۔
  2. یا اس کے آخر میں نونِ تثنیہ موجود ہوگی۔
  3. یا نونِ جمع ہوگی۔
  4. یا اس اسم کے ساتھ ایک اور اسم ہوگا جو اس کا مضاف الیہ ہوگا۔ یہ مضاف اور مضاف الیہ مل کر اسمِ تام ہوں گے۔ یہ عامل ہوں گے اپنے مابعد میں۔

پھر ذرا غور سے :
عواملِ قیاسیہ میں سے ساتواں عامل ہے اسمِ تام۔ اسمِ تام کس کو کہیں گے؟ یعنی ہر وہ اسم جو اضافت سے مستغنی ہو، جو مضاف ہو کر استعمال نہ ہوا ہو۔ اس معنی میں یا اس کے آخر میں تنوین ہو، یا اس کے آخر میں نونِ تثنیہ ہو، یا نونِ جمع ہو۔ ان شاءاللہ آگے ہم ساری پڑھیں گے۔ یا یہ ہے کہ نہیں، ایک اسم دوسرے اسم کی طرف مضاف ہوا ہے، وہ مضاف اور مضاف الیہ مل کر ایک اسم ہے، اس کو بھی اسمِ تام کہتے ہیں۔ اسمِ تام مرکب اس کا نام ہوتا ہے۔ اسمِ تام عامل کیا کرتا ہے؟
فرماتے ہیں کہ یہ اسمِ تام اپنے مابعد کسی اسمِ نکرہ کو نصب دیتا ہے، اور وہ اسمِ نکرہ اس اسمِ تام سے ابہام کو دور کرتا ہے۔ اس میں ایک ابہام پایا جاتا ہے۔ وہ جو اسمِ نکرہ جو بعد میں آتا ہے، جو منصوب ہوتا ہے، وہ آ کر اس کو نصب دیتا ہے۔ ٹھیک ہے۔ مثالیں آگے بالکل آسان ہیں۔فرماتے ہیں:

"وَسَابِعُھا" عواملِ قیاسیہ میں سے ساتواں اور عواملِ لفظیہ کی فہرست میں یہ آ جائے گا اٹھانوے نمبر پر، 98 نمبر پر۔ وہ ہے:

"الْإِسْمُ التَّامُّ" اسمِ تام۔ اسمِ تام کسے کہتے ہیں؟ فرماتے ہیں:

"كُلُّ اسْمٍ تَمّّ " یعنی ہر وہ اسم جو تام ہو، پورا ہو۔

"فَاسْتَغْنَى عَنِ الْإِضَافَةِ" اضافت سے بے نیاز ہو، اضافت کے استعمال نہ ہوا ہو۔

اچھا، وہ کیسے ہوگا؟ آگے با کے ساتھ  بیان کر رہے ہیں کہ کیسے اسمِ تام ہوگا اور وہ اضافت سے مستغنی ہوگا:

"بِأَنْ يَكُونَ فِي آخِرِهِ تَنْوِينٌ" یہ اس طرح ہوگا کہ اس اسم کے آخر میں تنوین ہوگی۔

"أَوْ مَا يَقُومُ مَقَامَهُ" یا تنوین کی قائم مقام 

مِن نُونَي التثنيةِ والجمعِ  نونِ تثنیہ یا نونِ جمع ہوگی۔ ٹھیک ہے جی، ایسا ہوگا تو یہ اسم بھی تام کہلاتا ہے، اور یہ اضافت سے بے نیاز ہے،

یعنی گویا یہ مضاف ہو کر استعمال نہیں ہوگا۔یا ایسا ہوگا:

"أَوْ يَكُونُ لَهُ فِي آخِرِهِ مُضَافٌ إِلَيْهِ" یا اس اسم کے آخر میں ہوگا مضاف الیہ، یعنی یہ مضاف اور مضاف الیہ مل کر ایک اسم بن رہے

ہوں گے، تو یہ بھی اسمِ تام کہلائے گا۔ البتہ اسمِ تام میں مرکب کہلاتا ہے۔خوب، وہ ہوگا۔

وَهُوَ پس جو ایسا اسمِ تام ہوگا، یعنی جس کے آخر میں تنوین ہے، یا جس کے آخر میں نونِ تثنیہ ہے، یا جس کے آخر میں نونِ جمع ہے، یا جو کسی کی طرف مضاف ہو کر استعمال ہو رہا ہے،وہ اسمِ تام:

"يَنْصِبُ النَكِرَةَ" اپنے بعد ایک اسمِ نکرہ کو نصب دے گا، یعنی اس کا عمل یہ ہوگا کہ یہ ایک اسمِ نکرہ کو نصب دیتا ہے۔ کیوں؟

"عَلیٰ أَنَّهَا تَمْيِيزٌلَه" اس بنیاد پر کہ وہ نکرہ اس اسمِ تام کی تمیز ہے۔

"فَيَرْفَعُ مِنْهُ الْإِبْهَامَ" اور اُس مِنْہُ سے مراد اسمِ تام ہے۔ وہ اسمِ تام میں جو ابہام پایا جاتا تھا، یہ تمیز اُس ابہام کو دور کرتی ہے۔ مثال دیں گے، بالکل کلیر ہو جائے گا: مثال 1:

"عِنْدِي رِطْلٌ زَيْتاََ"اب "رِطْلٌ" یہ اسم ہے، لام پر تنوین ہے۔ ہم پڑھ جائیں "رِطْلٌ"۔ اب اس "رِطْلٌ" (اسمِ تام) نے "زَيْتاََ" (زیت نکرہ ہے) کو نصب دیا ہے۔ البتہ اس زَيْتاََ نے اس رطل میں جو ابہام تھا، اُس کو دور کیا ہے۔ کیوں؟ یہ اُس کی تمییز بنائے۔ میرے پاس ہے ایک رطل زیتون۔ اب دیکھو، اگر میں کہوں: "عِنْدِي رِطْلٌ"
میرے پاس ایک رطل ہے۔ پس اب میں کہتا ہوں: میرے پاس ایک کلو ہے۔ تو اب کلو میں ابہام پایا جاتا ہے۔ بھئی، یہ جو کلو ہے، کس چیز کا کلو ہے؟ تو جو بعد میں ذکر کروں گا، وہ اُس کلو والے ابہام کو دور کرے گا، کہ اُس کلو میں کیا ابہام پایا جاتا ہے۔ یہاں پر بھی اس زیت نے وہ جو رطل میں ابہام تھا، رطل عربی پیمانہ ہے نا، ہم اِس کو مثال کرتے ہیں: میرے پاس ایک کلو یا ایک لیٹر۔ پھر کہتے ہیں:
"زَيْتًا" ایک کلو یا اسی طرح:

"عِنْدِي مِنوَانِ سَمَناََ"
میرے پاس  دو من  سمن کہتے ہیں گیھ کو ۔ اب "مِنوان" یہ "مِنوان" اسمِ تام ہے، کیونکہ اس پر نونِ تثنیہ ہے، اضافت سے بے پرواہ ہے۔ "مِنوان" اس نے نصب دیا ہے "سَمَن" کو، جو اس کی تمییز بنایا ہے۔ کہ میں جو کہتا ہوں: "مِنوان" میرے پاس دو مَنّ (پیمانہ) ہے، یعنی دو کلو ہے۔ تو دو کلو کیا ہے؟ "سَمَناََ" تمییز اُس کا بناہے، کہ دو کلو  گیھ کا۔ اب آگے چلیں:

"عِنْدِي عِشْرُونَ دِرْهَمًا" میرے پاس ہیں بیس درہم۔ اب "عِشْرُونَ" اب یہاں پر دیکھو، یہاں "عِشْرُونَ" یہ بھی اسمِ تام ہے۔ اس نے

نصب دیا ہے "دِرْهَمًا" کو۔ اس نے اسمِ تام بصورتِ عدد: "عِنْدِي عِشْرُونَ"میرے پاس بیس ہیں۔ اب اس عدد میں ہمیں کیا تھا؟ ابہام

کہا کہ بیس کیا ہے؟ پھر کہا کہ "دِرْهَمًا"۔ اب "عِشْرُونَ" نے "دِرْهَمًا" کو نصب بھی دیا، اور یہ منصوب ہے، اور یہ تمییز بنا "عِشْرُونَ" کے لیے۔

ایسی طرح:

"لِي مِلئُهُ عَسَلًا" میرے پاس مِلئُهُ عَسَلًا۔ اب درجہ غور کرو، "عَسَلًا" کہتے ہیں شہد کو۔ ہم نے پیچھے کہا تھا نا کہ اسمِ تام یہ ہوگا، اس کے بعد

مضاف الیہ ہوگا۔ اب "مِلئُ" مضاف ہے، "ہُ" مضاف الیہ ہے۔ یہ "مِلئُهُ " مضاف اور مضاف الیہ ہے۔ مل کر ایک اسمِ تام ہے۔ یہ

اسمِ تام مرکب ہے۔ "عَسَلًا"  عسل کہتے ہیں شہد کو۔ عسل نے آ کر اس سے ابہام کو دور کر دیا ہے۔ اس "مِلئُهُ " نے اس عسل کو نصب

دیا ہے۔ عسل نکرہ ہے۔ ہم نے پڑھا ہے کہ: "عِنْدِي مِلئُهُ عَسَلًا"

ٹھیک ہے جی، "مِلئُهُ یا مَلئہ"۔ فتح پڑہیں یا کسرہ میرے پاس  بھرے ہوئے اس کے شہد کے۔ جی، "مِلئُهُ " تو پُر شدہ معنی ایک ہی ہے۔

3

عوامل معنوی کے دو عامل

وأمّا المَعْنَوِيَّةٌُ
اٹھانوے عوامل مکمل ہو گئے۔ آخر میں دو مختصر سے رہ گئے۔ فرماتے ہیں کہ اٹھانوے عوامل تھے عواملِ لفظیہ، اور دو عوامل ہیں عواملِ معنویہ۔ فرماتے ہیں:
"مَعْنَوِيَّةٌ فَمِنْهَا عَدَدَانِ" معنویہ فقط دو ہیں:

  1. ایک ہے مبتدا اور خبر کا عامل۔
  2. اور ایک ہے فعلِ مضارع کا عامل۔

سوال یہ ہے کہ اُن عوامل کو عواملِ لفظیہ تو اس لیے کہتے تھے، چونکہ وہ لفظ تھے، اور ہر لفظ اپنے مابعد میں عمل کرتا تھا۔

دیکھو نا جی، لفظ تھے: "إِنَّ" لفظ تھا، "كَاَنَّ" مثلًا لفظ تھا، فعل لفظ تھا، مصدر لفظ تھا، اسمِ فاعل لفظ تھا، وغیرہ۔ ان کو معنویہ کیوں کہتے ہیں؟

فرماتے ہیں کہ اس لیے کہ ان میں، ان کے عمل کرنے میں زبان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بڑا پیارا جملہ ہے:

"لَيْسَ لِلِّسَانِ حَظٌّ فِيهِ" یعنی ان کے عمل کرنے میں زبان کا کوئی حصہ نہیں ہے، بلکہ یہ فقط قلبی ہوتے ہیں۔ نہ کوئی لفظ زبان سے نکلتا ہے،

نہ کوئی حرف۔ یہ فقط دل میں ہوتا ہے۔ چونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ الفاظ زبان سے اس کا تعلق نہیں ہوتا، اس لیے ان کو کہتے ہیں عواملِ

معنویہ۔ ٹھیک ہے۔

اَمّا المَعْنَوِيَّةُ اٹھانوے عواملِ لفظیہ تھے، جن میں سے اکیانوے سماعیہ اور سات قیاسیہ، اٹھانوے ہو گئے۔

" فَمِنْهَا عَدَدَانِ" معنویہ فقط دو ہیں:وہ فقط دو ہیں۔تو پہلا سوال: معنویہ سے مراد کیا ہے؟ فرماتے ہیں:

"الْمُرَادُ مِنَ الْعَامِلِ الْمَعْنَوِيِّ" عاملِ معنوی سے مراد کیا ہے؟ فرماتے ہیں کہ عاملِ معنوی سے مراد ہے:

"مَا يُعْرَفُ بِالْقَلْبِ" جس کے بارے میں انسان کو دل ہی دل میں پتا چلتا ہے، یعنی یہ قلبی ہوتے ہیں، معنوی ہوتے ہیں، ذہنی ہوتے ہیں۔

"لَيْسَ لِلِّسَانِ حَظٌّ فِيهِ" زبان کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ ٹھیک ہے جی، زبان کے اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ قلب سے ہی انسان کو پتا چلتا ہے۔ یہ کوئی ملفوظات میں سے نہیں ہے۔

"أَحَدُّهُمَا" وہ جو دو عوامل معنوی ہیں، ان میں سے ایک پہلا:

"الْعَامِلُ فِي الْمُبْتَدَأِ وَالْخَبَرِ" پہلا ہے مبتدا اور خبر کا عامل، جس نے مبتدا کو رفع دیا اور خبر کو۔ جو ہم کہتے ہیں: "زَيْدٌ قَائِمٌ"

تو سوال ہوگا کہ اس "زَيْدٌ" کو آخر میں رفع کس نے دیا، اور "قَائِمٌ" کو رفع کس نے دیا؟ تو جواب ہوگا کہ اس مبتدا اور خبر کا عامل معنوی ہے۔ وہ

کیا ہے؟

"هُوَ الْإِبْتِدَاءُ" یعنی ابتدائیت۔ ابتداء سے مطلب کیا؟ یعنی:

"خُلُوُّ الْإِسْمِ مِنَ الْعَوَامِلِ اللَّفْظِيَّةِ"  اسم کا عواملِ لفظیہ سے خالی ہونا۔ چونکہ "زَيْدٌ قَائِمٌ"، زید کھڑا ہے۔ اب زید سے پہلے کسی قسم کا

کوئی عاملِ لفظی موجود نہیں ہے۔ ابتداء کلام ہے۔ میں نے کہا:"زَيْدٌ قَائِمٌ" زید کھڑا ہے۔ اب چونکہ زید سے پہلے کسی قسم کا کوئی عاملِ لفظی

موجود نہیں ہے، بس اس عاملِ لفظی کا موجود نہ ہونا، یہی ابتداء ہے، اور یہی ابتداء ایک عامل معنوی ہے مبتدا اور خبر کے لیے۔ لہٰذا ہم کہتے

ہیں: "زَيْدٌ مُنْطَلِقٌ" اب "زَيْدٌ" کو مرفوع پڑھا ہے، "مُنْطَلِقٌ" کو مرفوع پڑھا ہے۔ تو ہم کہیں گے کہ اس "زَيْدٌ" مبتدا ہے، "مُنْطَلِقٌ" خبر

ہے۔ اس خبر اور مبتدا کا عامل کیا ہے؟ تو آپ جواب میں کیا کہیں گے؟ اس کا عامل ہے وہی ابتداء۔ ابتداء سے مراد کیا؟ یعنی اس زید سے

پہلے کسی قسم کا کوئی عامل لفظی موجود نہیں ہے، اور یہی خالی ہونا، یہی ابتداء ہی ان کا عامل ہے۔

"وَثَانِيهِمَا" وہ جو دو عامل معنوی ہیں، ان میں سے جو دوسرا عامل ہے، وہ کیا ہے؟ وہ ہے فعلِ مضارع میں جو عمل کرتا ہے۔ اچھا، فعلِ

مضارع کا عامل کیا ہے؟

البتہ یہ ایک نظریہ ہے، وہ ہے بصریوں کا۔ وہ کہتے ہیں کہ  وهو صحّةُ وقوعِ الفعلِ المضارعِ موقعَ الاسمِ فعلِ مضارع کا عامل ہے فعلِ مضارع کا اسمِ فاعل صحیح ہونا۔ یعنی اگر ہم اسمِ فاعل کی بجائے فعلِ مضارع کو وہاں ذکر کریں، تو وہ بھی صحیح ہے۔ پس اس کا یہی صحیح ہونا، اس فعلِ مضارع کا عامل ہے۔جیسے ہم کہتے ہیں: "زَيْدٌ يَعلَمُ" زید مبتدا ہے، آگے ہم کہتے ہیں: "يَعلَمُ" فرماتے ہیں:

"فَيَعلَمُ مَرْفُوعٌ"یہ "يَعلَمُ" مرفوع ہے، کیوں؟

"لِصِحَّةِ وَقُوعِهِ مَوْقِعَ الِاسْمِ" اس لیے کہ یہ "يَعلَمُ" اسم کے مقام پر واقع ہوا، یعنی یہ اس لیے کہ اسم کے مقام پر اس کو رکھنا صحیح ہے۔ اس

لیے کہ: اس لیے کہ اگر ہم کہیں: "زَيْدٌ يَعلَمُ" یا اگر ہم کہیں:"زَيْدٌ عَالِمٌ"
تو بھی صحیح ہے۔ اب جیسے "زَيْدٌ عالِمٌ" میں عامل معنوی ہوتا ہے، پس اگر ہم "عَالِمٌ" کی بجائے کہتے ہیں:
"زَيْدٌ يَعلَمُ" تو پس اس کا عامل بھی عاملِ معنوی ہوگا۔

یہ ہے البتہ نحاتِ بصرہ کا نظریہ۔ البتہ جو کوفہ کے نحات ہیں،

 وعند الكوفيّين: أنّ عامل الفعل المضارع تجرّدُه عن العامل الناصب والجازم،وہ کہتے ہیں کہ جوازم سے خالی ہونا، یہ اس کا عامل ہے۔ یعنی وہ کیا کہتے ہیں؟ چونکہ جب فعلِ مضارع پر کوئی اور حروفِ ناصبہ میں سے کوئی نہیں آیا، حروفِ جازمہ میں سے کوئی نہیں آیا، بس فعلِ مضارع کا ہونا، جوازم اور جوازم سے خالی ہونا، یہی اس کا عامل ہے۔ یعنی اس کا عامل معنوی نہیں ہے۔

وهو مختارُ ابن مالكٍ ابنِ مالک کا نظریہ۔
ابنِ مالک ایک بہت بڑی شخصیت ہے، نحوی، ماشاءاللہ، ان کا بڑا نام ہے۔ "الْفِيَّةُ" ابنِ مالک کے نام سے مشہور ہے۔ الفیہ جس میں ہزار شعر ہیں، اور پھر جو کتاب جس کی شرح ہوئی، وہ مختلف اس کی شروحات ہیں۔ شرح ابنِ عقیل بھی ہے، اور البهجة المرضية جس کو لوگ اس سیوطی کے نام سے جانتے ہیں، حالانکہ اس سیوطی لکھنے والا ہے، لیکن بہرحال سیوطی کے نام سے بھی اس کو جانتے ہیں۔ تو اس کا نظریہ بھی یہی ہے۔

الحمدللہ رب العالمین۔
آج اس لحاظ سے ہم نے الحمدللہ، یہ سو عوامل جو شروع کیے تھے، ان کی بات ہم نے آج مکمل کر لی۔ عوامل مکمل ہو گئے۔ اب اللہ پاک نے توفیق دی تو ان شاءاللہ ہم سال اول کا کورس بھی اس لحاظ سے مکمل ہو گیا۔ اب ان شاءاللہ ہم سال دوم کا کورس شروع کریں گے۔ الحمدللہ رب العالمین۔
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَعَجِّلْ فَرَجَهُمْ۔

فمعتبر فيها إلّا أنّ الاعتماد على الموصول لا يتأتّى فيها؛ لأنّ اللام الداخلة عليها ليست بموصول بالاتّفاق، وقد يكون معمولُها منصوباً على التشبيه بالمفعول في المعرفة، وعلى التمييز في النكرة، ومجروراً على الإضافة، وتكون صيغة اسم الفاعل قياسيّة وصِيَغُها سماعيّة، مثل: «حَسَنٌ» و «صَعْبٌ» و «شَدِيْدٌ».

و سادسها: المضاف كلّ اسم أضيف إلى اسم آخرَ فيجرّ الأوّلُ الثانيَ مجرّداً عن اللام والتنوين وما يقوم مقامه من نوني التثنية والجمع؛ لأجل الإضافة، والإضافة إمّا بمعنى اللام المقدّرة إن لَم يكن المضاف إليه من جنس المضاف ولا يكون ظرفاً له، مثل: «غلام زيد»، وإمّا بمعنى «مِنْ» إن كان من جنسه، مثل: «خاتم فضّة»، وإمّا بمعنى «في» إن كان ظرفاً له، نحو: «ضرب اليوم».

وسابعها: الاسْمُ التَامُّ كلّ اسم تَمَّ فاستغنى عن الإضافة بأن يكون في آخره تنوين أو ما يقوم مقامه من نوني التثنية والجمع، أو يكون في آخره مضاف إليه، وهو ينصب النكرة على أنّها تمييز له فيرفع منه الإبهام، مثل: «عندي رِطلٌ زيتاً ومنوان سمناً وعشرون درهماً»، و«لي مَلْوَةٌ عسلاً».

وأمّا المعنويّة فمنها: عددان

المراد من العامل المعنويّ ما يُعرف بالقلب وليس للسان حظّ فيه، أحدهما: العامل في المبتدأ والخبر وهو الابتداء أي: خلوّ الاسم عن العوامل اللفظيّة، نحو: «زيد منطلق»، وثانيهما: العامل في الفعل المضارع وهو صحّة وقوع الفعل المضارع موقعَ الاسم، مثل: «زيد يعلم»؛ فـ «يعلم» مرفوع لصحّة وقوعه موقع الاسم؛ إذ يصحّ أن يقال موقع «يعلم»: «عالم»؛ فعامله معنويّ، وعند الكوفيّين: أنّ عامل الفعل المضارع تجرّدُه عن العامل الناصب والجازم، وهو مختار ابن مالكٍ.