اسم مفعول:
"وَرَابِعُها: ِاسْمُ الْمَفْعُولِ" عوامل قیاسیہ میں سے چوتھا عامل ہے۔ اسم مفعول وہ اسم ہے جو مشتق ہو فعل سے ایسی ذات کے لیے بنایا جاتا ہے، جس پر فعل واقع ہوا ہو۔ پہلے بھی کئی دفعہ میں بتا چکا ہوں، ایک کام کرنے والا اس کو فاعل کہتے ہیں، اور ایک ہوتا ہے جس پر اس نے اس فعل کو انجام دیا۔ یعنی ایک ہے مارنے والا، وہ فاعل ہو گیا، جس کو مار پڑی ہے، وہ مفعول ہوگا۔ تو جس کو پڑی ہے، اس کے لیے جو لفظ بنایا جاتا ہے، جو اسم ہوتا ہے، اس کو کہتے ہیں اسم المفعول، یعنی جس پر فعل واقع ہوا، اس کا اسم۔
"وَرَابِعُها: ِاسْمُ الْمَفْعُولِ"عوامل قیاسیہ میں سے چوتھا عامل بالکل آسان وہ ہے اسم المفعول۔ اسم مفعول کی تعریف ہے:"وھُوَ كُلُّ اسمِِ اُشْتُقَّ لِذَاتِ مَن وَقَعَ عَلَيْهَا الْفِعْلُ"یعنی ہر وہ اسم جو مشتق ہو، یعنی اس کو بنایا جاتا ہے، لِذَاتٍ (اس ذات کے لیے) جس پر فعل واقع ہو۔ یہ ہوگیا آسان۔
"وَهُوَ يَعمَلُ عملَ فعلِه المجهولُ"اسمِ مفعول اپنے  فعلِ مجہول والا عمل کرتا ہے، اور اسم فاعل فعل معلوم سے بنایا جاتا ہے۔ یعنی "ضارِبٌ" "يَضرَبُ" سے بنایا جاتا ہے، اور "مَضرُوبٌ" "يُضرَبُ" سے بنایا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے جی؟ "عَالِمٌ" یہ "يَعْلَمُ" سے مشتق ہوتا ہے، اور "مَعْلُومٌ" "يُعْلَمُ" سے مشتق ہوتا ہے۔
"فيَرفعُ اِسماً وَاحِداً"اسم مفعول فقط ایک اسم کو رفع دیتا ہے  بأنّه قائمٌ مقام فاعله، اس لیئے کہ گویا کہ وہ اسم فاعل کا قائم مقام ہے ، فعل مجہول کے بعد بھی ہمیشہ ایک اسم مرفوع ہوتا ہے۔، اسم مفعول کے بعد بھی ہمیشہ ایک اسم ہوگا مرفوع جو فاعل کا قائم مقام ہوگا ۔
آگے وہی باتیں ہیں جو پرسوں والے درس میں دیں تھیں کہ اسم فاعل میں جو شرائط تھیں کہ وہ اسم فاعل بمعنیٰ حال یا استقبال کے ہو یا چھ چیزوں میں سے کسی ایک پر اعتماد کرتا ہو، تو اسم مفعول میں بھی وہی چیزیں آ جائیں گی۔
"وَشَرْطُ عَمَلِهِ"کہ اسم مفعول کے عمل کرنے کی شرط کیا ہے؟ پہلی شرط كونه بمعنى الحال أو الاستقبال، یہ ہے کہ وہ اسم مفعول بمعنیٰ حال یا استقبال کے ہو۔ اور دوسری شرط یہ ہے کہ واعتمادُه وہ چھ چیزوں میں سے کسی ایک پر اعتماد کرتا ہو۔ اعتماد کا معنی بتا چکا ہوں کہ اس سے پہلے ان چھ میں سے کوئی ایک موجود ہو۔
" عَلَى الْمُبْتَدَأِ"یا اس سے پہلے مبتدأ ہو۔ جیسے اسم فاعل میں کہا تھا:"زَيْدٌ مَضرُوبٌ غُلَامُهُ الآن او غداََ "یہاں "مَضرُوبٌ" اسم مفعول ہے، "غُلَامُ" کو رفع دے رہا ہے، اس سے پہلے "زَيْدٌ" مبتدأ موجود ہے۔
"أَوِ الْمَوْصُولِ"یا اس سے پہلے موصول ہو۔ جیسے:"اَلمَضرُوبُ غُلَامُهُ زَیدٌ "یہاں "المَضرُوبٌ" اسم مفعول ہے، اس سے پہلے "اَلْ" موصول ہے، اس نے "غُلَامُ" کو رفع دیا۔
"أَوِالْمَوْصُوفِ"یا اس سے پہلے  موصوف ہو۔ جیسے:"جَائَنی رَجُلٌ مَضرُوبٌ غُلَامُهُ"یہاں "مَضرُوبٌ" اسم مفعول ہے، "رَجُلٌ" اس کا موصوف ہے، وہ پہلے ہے، اور اسی وجہ سے "مَضرُوبٌ" نے اپنے مابعد "غُلَامُ" کو رفع دیا ہے۔
"أَوْ ذِي الْحَالِ"یا ذوالحال ہو، اور یہ مفعول اس کا حال واقع ہو رہا ہو۔ جیسے:" جَائَنی رَجُلٌ مَضرُوباََ غُلَامُهُ"یہاں "زَيْدٌ" ذوالحال ہے، "مَضرُوباََ" اس کا حال ہے، چونکہ حال واقع ہو رہا ہے، اس لیے اس نے "غُلَامُ" کو رفع دیا۔
"أَوْ حَرفَ النَّفْيِ أَوِ الِاسْتِفْهَامِ"یا اس سے پہلے  حرف نفی ہو، یا حرف استفہام ہو۔ جیسے:"مَا مَضرُوبٌ غُلَامُهُ"یہاں "مَا" حرف نفی  پہلے ہے، اس لیے "مَضرُوبٌ" نے "غُلَامُ" کو رفع دیا۔یا:"آ مَضرُوبٌ غُلَامُهُ؟"یہاں "آ" حرف استفہام  پہلے ہے، "مَضرُوبٌ" سے پہلے ہے، جو اسم مفعول ہے، اس نے "غُلَامُ" کو رفع دیا،کیونکہ غلام قائم مقام فاعل ہے ۔
"وَإِذَا انْتَفیٰ فِیه اَحَدُ الشَّرَطَيْنِ الْمَذْكُورَيْنِ"جیسے اسم فاعل میں بھی ہم نے کہا تھا کہ اگر یہ دو شرائط ان میں موجود نہ ہوں، یعنی یا تو اسم مفعول بمعنیٰ حال یا استقبال کے نہ ہو، یا پھر ان چھ چیزوں میں سے کوئی ایک اگر اس سے پہلے موجود نہ ہو، تو اس اسم مفعول کا عمل منتفی ہو جائے گا، ختم ہو جائے گا، یعنی پھر یہ عمل نہیں کرے گا۔
"وحينئذٍ يَلْزَمُ إِضَافَتُهُ إِلَى مَا بَعْدَهُ" جب اس کا عمل ختم ہوجائے گا تو لازم ہے کہ ہم اس کو مضاف کریں اس کے مابعد کی طرف۔
"وَإِذَا دَخَلَ عَلَيْهِ الْأَلِفُ وَاللَّامُ"اگر اسم مفعول پر الف لام موصول آجائے، يكونُ مُستغنياً عن الشرطين في العملِ، مثل: «جاءني المضروب غلامه».البتہ وہ بھی اسم مفعول پھر اس کو عمل کرنے کے لیے ان شرائط کی ضرورت نہیں ہوگی۔
پس :"جَائَنی المضروبُ غُلَامُهُ"یہاں "الْمَضرُوبُ" اسم مفعول ہے، "اَلْ" آگیا ہے، لہٰذا اس نے "غُلَامُ" کو رفع دیا۔