درس شرح مائة عامل

درس نمبر 30: قیاسی عوامل: اسم فاعل 2

 
1

خطبہ

2

اسم فاعل اگر الف اور لام کے ساتھ معرفہ ہو ؟

وَإِنْ كَانَ اسْمُ الْفَاعِلِ مُعَرَّفًا بِاللَّامِ يَعْمَلُ فِي مَا بَعْدَهُ فِي كُلِّ حَالٍ

گزشتہ درس میں گزارش کی تھی کہ اسم فاعل کے عمل کرنے کے لیے دو چیزیں شرط ہیں:

  1. ایک یہ تھی کہ وہ بمعنیٰ حال یا استقبال کے ہو۔

  2. دوسری یہ تھی کہ ان چھ چیزوں میں سے کسی ایک چیز پر اعتماد کرتا ہو، یعنی ان چھ میں سے کوئی ایک چیز اسم فاعل سے پہلے موجود ہوگی، تو عمل کرے گا۔
    آج کے درس کا آغاز یہاں سے فرما رہے ہیں کہ اگر اسم فاعل مُعَرَّف بِاللَّام ہو، یعنی اگر اسم فاعل پر الف لام تعریف کا آجائے (گزشتہ درس میں آپ کو یاد ہوگا تو میں نے کہا تھا کہ وہاں جو الف لام تھا، وہ الف لام موصول والا تھا۔ الف لام کی اقسام میں ان شاءاللہ اگلی کتاب میں آپ ترتیب سے پڑھیں گے)، تو اگر کسی اسم فاعل پر الف لام تعریف کا آجائے، تو وہ اسم فاعل ہر حال میں عمل کرے گا۔کیا مطلب؟
    یعنی وہ جو گزشتہ درس میں ہم نے شرائط پڑھی تھیں کہ اسم فاعل کے عمل کی شرط یہ ہے کہ بمعنیٰ حال یا استقبال کے ہو یا ان چھ چیزوں میں سے کسی ایک پر اعتماد کرتا ہو، آج آپ یہ کہیں گے کہ اگر کسی اسم فاعل پر الف لام تعریف کا آگیا، تو پھر اس کے لیے وہ شرائط نہیں ہیں۔ بے شک بمعنیٰ حال یا استقبال کے نہ ہو، یہ پھر بھی عمل کرے گا۔ بے شک اس سے پہلے ان چھ چیزوں میں سے (امور ستہ میں سے) کوئی نہ ہو، یہ پھر بھی عمل کرے گا۔
    لکھنا کیا ہے؟کہ اگر کسی بھی اسم فاعل پر الف لام تعریف کا آجائے، تو وہ ہر حال میں، یعنی پھر اس کے عمل کرتا ہے وہ جو گزشتہ درس میں ہم نے شرائط پڑھی تھیں (کہ بمعنیٰ حال یا استقبال کے ہو یا ان چھ چیزوں میں سے کسی ایک پر اعتماد کرتا ہو)، اب عمل کے لیے وہ چیزیں شرط نہیں ہیں۔ بس وہ الف لام تعریف کا جب آگیا، اب یہ اپنے مابعد میں عمل کرے گا۔ اگر یہ لازم سے مشتق ہوگا، تو فاعل کو رفع دے گا، اور اگر متعدی سے مشتق ہوگا، تو فاعل کو رفع اور مفعول کو نصب دے گا۔ بالکل آسان۔
    وَإِنْ كَانَ اسْمُ الْفَاعِلِ مُعَرَّفًا بِاللَّامِاور اگر اسم فاعل مُعَرَّف بِاللَّام ہو، ٹھیک ہے جی؟ یعنی اگر کسی اسم فاعل پر الف لام تعریف کا آجائے، مثلاً "ضَارِبٌ" کی بجائے "اَلضَّارِبُ" ہو۔
    يَعْمَلُ فِي مَا بَعْدَهُ یہ اپنے مابعد میں عمل کرے گا ، فِي كُلِّ حَالٍہر حال میں۔یہ لفظی ترجمہ ہوگیا آپ لکھیں  اگر اسم فاعل مُعَرَّف بِاللَّام ہو تو وہ ہر حال میں عمل کرتا ہے ۔  
    سَوَاءٌ كَانَ بِمَعْنَى الْمَاضِي أَوِ الحَالِ أَوِ الاستقبالِ،اب چاہے وہ بمعنی ماضی کے ہو، چاہے حال کے ہو، چاہے استقبال کے۔ یعنی وہ جو گزشتہ درس میں ہم نے کہا تھا کہ اسم فاعل کے عمل کرنے کی شرط ہے کہ وہ بمعنیٰ حال یا استقبال کے ہو، اب وہ شرط نہیں ہوگی۔
    وَسَوَاءٌ كَانَ مُعْتَمِدًا عَلَى أَحَدِ الْأُمُورِ الْمَذْكُورَةِ أَوْ غَيْرَ مُعْتَمِدٍ ،چاہے وہ ان چھ امور پر اعتماد کرتا ہو، چاہے اعتماد نہ کرتا ہو۔ کیا مطلب؟ چاہے اس اسم فاعل معرف باللام سے پہلے وہ چھ چیزوں میں سے کوئی ہو یا نہ ہو، اس پر فرق نہیں پڑتا۔ یہ پھر بھی عمل کرے گا۔

مثال:"اَلضَّارِبُ عَمرواً الْآنَ"یعنی اگر حال کا معنی ہو۔

"الضَّارِبُ  عَمرواً أَمْسِ"یہ ماضی کا معنی آگیا۔

"الضَّارِبُ عَمرواً غَدًا"یہ مستقبل کا معنی آگیا۔هو زيدٌ

تو پس الضَّارِبُ پر  الف لام آگیا، یہ ہو گیا معرف باللام۔ خب، یہ بات مکمل ہو گئی کہ اگر کوئی اسم فاعل معرف باللام ہوگا، تو وہ اپنے عمل میں، وہ اپنے عمل کرنے میں گزشتہ شرائط کا محتاج نہیں ہوگا۔

الف لام کی بہت ساری اقسام ہیں۔ البتہ یہ جو الف لام ہے، یہ الف لام موصول والا ہوگا، نہ کہ تاریخ والا۔ معذرت میں پہلے میں الف لام تعریف کھ بیٹھا ہوں، معذرت، وہ مراد نہیں ہے۔ یہ موصول والا ہوتا ہے۔

3

اسم فاعل مبالغہ کے معنی میں

ایک اور نقطہ:

فرماتے ہیں، ایک اور نقطہ بیان کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ ایک اسم فاعل تو یہ ہم نے جو پڑھا، "ضَارِبٌ"  ہم نے کھا کہ یہ حروف ،حرکات، سکنات میں فعل مضارع کے مشابہ ہوتا ہے، اسی جیسا ہوتا ہے۔ ایک بات آتی ہے، ان شاءاللہ آپ ضرور اس کو پڑھیں گے، کہ کچھ صیغے ہوتے ہیں مبالغہ کے۔ آپ ذرا اس کو دھیان سے سنو۔ اردو میں مبالغہ ہوتا ہے۔ ایک دفعہ ہم کہتے ہیں، یہ عالم ہے۔ ایک دفعہ اردو میں کہتے ہیں، بہت بڑا عالم ہے ، یہ جو کہتے ہیں کہ بھت بڑا عالم ہے  درحقیقت یہ مبالغہ ہوتا ہے ،یعنی علم اُس میں بھی ہے علم اس میں بھی علم ہے، لیکن اس کا علم اُس سے زیادہ ہے۔ ایک بندہ کو کہتے ہیں، فلان بندہ نیک ہے، اور ایک کو کہتے ہیں، فلان بندہ بہت نیک ہے۔ یہ جو "بہت نیک" ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟ نیکی دونوں میں ہے، لیکن اس کی نیکی اس سے زیادہ ہے۔ علمی دنیا میں، عربی کی دنیا میں اس کو کہتے ہیں مبالغہ۔ اس میں بھی علم ہے، اس میں بھی علم ہے۔ ایک کو کہتے ہیں "عَالِم"، ایک کو کہتے ہیں "عَلَّامَہ"۔ اب جس کو "عَالِم" کہہ رہے ہیں، علم میں دونوں شریک ہیں، لیکن "عَلَّامَہ" اس کو کہتے ہیں جس کا علم اس سے بہت زیادہ ہو۔ اس کو کہتے ہیں مبالغہ، اس میں بہت زیادہ کوئی چیز پائی جاتی ہو۔ بہت زیادہ اس کو کہتے ہیں۔ جب کہتے ہیں "جَنَابِ عَلَّامَہ فُلَان"، تو "عَلَّامَہ" وہ ہوتا ہے جس میں بہت زیادہ علم ہو۔ اگرچہ آج کل ہمارے معاشرے میں یہ لفظ مظلوم ہے، کہ جو جتنا بڑا جاہل ہوتا ہے، اگر وہ منبر پر کوئی فنکاری دکھا سکتا ہے، تو ہمارے لوگ اس کو بھی "عَلَّامَہ" کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ظلم ہے اس لفظ کے ساتھ۔ آپ دیکھیں کہ ہماری فقہی دنیا میں "عَلَّامَہ حِلّی" رحمت اللہ علیہ کے علاوہ علماء اکرام کسی کو "عَلَّامَہ" نہیں کہتے، فقط حلّی کو کہتے ہیں کہ وہی "عَلَّامَہ" تھا۔ کسی اور کے ساتھ "عَلَّامَہ" نہیں کہتے، چونکہ اس کے لیے ہوتا ہے کہ انسان ہر علم میں اس کی انتہا تک پہنچا ہو۔ آج تو پھر جو بندہ بھی سٹیج پر آ گیا، جو بندہ نے کوئی گپ شپ لگا لی، کوئی ٹوپی پہن لی خاص قسم کی، چاہے کچھ بھی نہ آتا ہو، بس وہ "عَلَّامَہ" بن گیا۔ جبکہ "عَلَّامَہ" یہ نہیں ہوتا۔ یہ اس لفظ "عَلَّامَہ" کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ بہرحال، آپ فرماتے ہیں، یہ جو مبالغے کے صیغے ہوتے ہیں، یہ بھی درحقیقت اسم فاعل ہوتے ہیں۔ جیسے ہم کہتے ہیں نا "عَالِمٌ"، یہ اسم فاعل ہے۔ "ضَارِبُ"، یہ اسم فاعل ہے۔ "عَلَّامَہ" اور "ضَرَّابٌ"، یہ بھی اسم فاعل ہیں، لیکن ان میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔

تو آپ فرماتے ہیں، یہاں جو آپ سمجھانا چاہتے ہیں، نکتہ وہ یہ ہے کہ:

"اعْلَمْ أَنَّ اسْمَ الْفَاعِلِ الْمَوْضوعَ لِلْمُبَالِغَۃِ"کہ وہ اسم فاعل جو مبالغہ کے لیے بنایا گیا ہو، جیسے "ضَرَّابٌ"، یعنی ایک ہے اسم فاعل "ضَارِب"، اور جب اس میں مبالغہ کریں گے، تو اس کو کہیں گے "ضَرَّابٌ" (بہت زیادہ مارنے والا) یا "ضَرُوبٌ"، یہ بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے، یا "مِضرَابٌ"۔

"كَضَرَّابٍ وَکضرُوبٍ وَضرابٍ""ضَرَّاب"، "ضَرُوب"، اور "مِضرَاب"، یہ تینوں مبالغہ کے لیے ہیں۔ضارب کا معنی ہوگا مارنے  والا پر

"ضَرَّابٌ" کا معنی ہوگا "مَا كَثِيرُ الضَرْبِ"یعنی بہت زیادہ مارنے والا۔ اسی طرح ایک اسم فاعل ہوتا ہے "عَالِمٌ"، اور ایک اسم فاعل ہوتا ہے "عَلَّامَةٌ" یا "عَلِيمٌ"۔ "عَالِمٌ" کا معنی ہوگا جاننے والا، صاحب علم۔ "عَلَّامَةٌ" یا "عَلِيمٌ" کا معنی ہوگا "كَثِيرُ الْعِلْمِ"، یعنی بہت زیادہ علم والا۔ اسی طرح "حَذِرٌ" کہتے ہیں بہت زیادہ ہوشیار آدمی ہو، بہت زیادہ بیدار، یعنی "كَثِيرُ الْحَذَرِ"، جو بہت زیادہ محتاط ہو۔

تو اب یہ فرماتے ہیں کہ یہ جو اسم فاعل کے مبالغہ کے صیغے ہوتے ہیں، مِثلُ اِسمِ الفاعِلِ یہ بھی مثل اسم فاعل کی طرح ہیں۔ یعنی اسم فاعل کی طرح  ہیں ،  اَلذِي لَيسَ للمبالَغة في العملِ جو مبالغہ کہ لیئے نہیں ہوتے ، یعنی "ضَرَّابٌ" بھی مثل "ضَارِبٌ" کے، "عَلَّامَةٌ" بھی مثل "عَالِمٌ" کے ہے ،کس میں ؟ عمل میں۔ یعنی جس طرح "عَالِمٌ" اور "ضارِبٌ" عمل کرتے ہیں، "عَلَّامَةٌ" اور "ضَرَّابٌ" بھی عمل میں اسی کی طرح ہیں۔ حالانکہ "عَالِمٌ" یا "ضارِبٌ" میں مبالغہ نہیں ہوتا، ان میں مبالغہ پایا جاتا ہے، لیکن پھر بھی عمل میں اسی طرح ہیں۔

"وَإِنْ زَالَتِ الْمُشَابَهَةُ اللَّفْظِيَّةُ بِالْفِعْلِ"اگرچہ یہ مبالغہ کے صیغے، جیسے "ضرَّابٌ"، "عَلِيمٌ"، یہ صیغے فعل کے ساتھ مشابہتِ لفظیہ نہیں رکھتے۔ کیوں؟ کیونکہ حروف، حرکات و سکنات میں یہ اس کی ترتیب پر نہیں ہوتے۔ لیکن پھر بھی یہ عمل میں "عَالِمٌ" کی طرح عمل کرتے ہیں۔

"لَكِنَّهُمْ جَعَلُوا"لیکن علماء نے کیا کہا؟ کہتے ہیں:"مَا فِيهِ مِنْ زِيَادَةِ الْمَعْنَى"ٹھیک ہے، فعل کی طرح حرکات و سکنات و حروف میں نہیں ہے، لیکن چونکہ "ضَرَّابٌ" میں معنی کی زیادتی پائی جاتی ہے۔ دیکھو نا، میں نے اب گزشتہ صیغے "ضارِبٌ" مارنے والا ، "عَالِمٌ" (جاننے والا)، اور "عَلَّامَةٌ" (بہت زیادہ جاننے والا) ضَرَّابٌ بہت زیادہ مارنے والا۔ چونکہ ان میں معنی کی زیادتی پائی جاتی ہے، علماء نے ان کو قرار دیا ہے:"قَائِمًا مَقَامَ مَا زَالَتِ الْمُشَابَهَةُ اللَّفْظِيَّةُ"ٹھیک ہے، مشابہت لفظیہ زائل ہوگئی، حروف، حرکات و سکنات میں یہ فعل کے مشابہ نہیں رہے، لیکن اس میں جو زیادتی والا معنی آگیا، وہ اس مشابہت جو زائل ہوگئی ہے،چلو ایک چیز زائل ہوگئی ہے یہ  اس کی قائم مقام بن جائے گا۔ یہ زیادتی والا معنی تو پس لہٰذا یہ عمل میں بھی اسی اسم فاعل کی طرح ہوں گے، جس میں زیادتی والا معنی نہیں پایا جاتا۔

تو اب آپ کیا کہیں گے؟ پس اسم فاعل ہو یا صیغہ مبالغہ ہو، دونوں عمل کرتے ہیں۔ ان کے عمل کی شرائط کل  بیان کی تھیں، لیکن اگر ان پر اسم فاعل پر الف لام آجائے، یعنی معرف باللام ہو جائے، تو پھر اس میں وہ شرائط ضروری نہیں۔

4

چوتھا عامل قیاسی : اسم مفعول کی بحث

اسم مفعول:

"وَرَابِعُها: ِاسْمُ الْمَفْعُولِ" عوامل قیاسیہ میں سے چوتھا عامل ہے۔ اسم مفعول وہ اسم ہے جو مشتق ہو فعل سے ایسی ذات کے لیے بنایا جاتا ہے، جس پر فعل واقع ہوا ہو۔ پہلے بھی کئی دفعہ میں بتا چکا ہوں، ایک کام کرنے والا اس کو فاعل کہتے ہیں، اور ایک ہوتا ہے جس پر اس نے اس فعل کو انجام دیا۔ یعنی ایک ہے مارنے والا، وہ فاعل ہو گیا، جس کو مار پڑی ہے، وہ مفعول ہوگا۔ تو جس کو پڑی ہے، اس کے لیے جو لفظ بنایا جاتا ہے، جو اسم ہوتا ہے، اس کو کہتے ہیں اسم المفعول، یعنی جس پر فعل واقع ہوا، اس کا اسم۔

"وَرَابِعُها: ِاسْمُ الْمَفْعُولِ"عوامل قیاسیہ میں سے چوتھا عامل بالکل آسان وہ ہے اسم المفعول۔ اسم مفعول کی تعریف ہے:"وھُوَ كُلُّ اسمِِ اُشْتُقَّ لِذَاتِ مَن وَقَعَ عَلَيْهَا الْفِعْلُ"یعنی ہر وہ اسم جو مشتق ہو، یعنی اس کو بنایا جاتا ہے، لِذَاتٍ (اس ذات کے لیے) جس پر فعل واقع ہو۔ یہ ہوگیا آسان۔

"وَهُوَ يَعمَلُ عملَ فعلِه المجهولُ"اسمِ مفعول اپنے  فعلِ مجہول والا عمل کرتا ہے، اور اسم فاعل فعل معلوم سے بنایا جاتا ہے۔ یعنی "ضارِبٌ" "يَضرَبُ" سے بنایا جاتا ہے، اور "مَضرُوبٌ" "يُضرَبُ" سے بنایا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے جی؟ "عَالِمٌ" یہ "يَعْلَمُ" سے مشتق ہوتا ہے، اور "مَعْلُومٌ" "يُعْلَمُ" سے مشتق ہوتا ہے۔

"فيَرفعُ اِسماً وَاحِداً"اسم مفعول فقط ایک اسم کو رفع دیتا ہے  بأنّه قائمٌ مقام فاعله، اس لیئے کہ گویا کہ وہ اسم فاعل کا قائم مقام ہے ، فعل مجہول کے بعد بھی ہمیشہ ایک اسم مرفوع ہوتا ہے۔، اسم مفعول کے بعد بھی ہمیشہ ایک اسم ہوگا مرفوع جو فاعل کا قائم مقام ہوگا ۔

آگے وہی باتیں ہیں جو پرسوں والے درس میں دیں تھیں کہ اسم فاعل میں جو شرائط تھیں کہ وہ اسم فاعل بمعنیٰ حال یا استقبال کے ہو یا چھ چیزوں میں سے کسی ایک پر اعتماد کرتا ہو، تو اسم مفعول میں بھی وہی چیزیں آ جائیں گی۔

"وَشَرْطُ عَمَلِهِ"کہ اسم مفعول کے عمل کرنے کی شرط کیا ہے؟ پہلی شرط كونه بمعنى الحال أو الاستقبال، یہ ہے کہ وہ اسم مفعول بمعنیٰ حال یا استقبال کے ہو۔ اور دوسری شرط یہ ہے کہ واعتمادُه وہ چھ چیزوں میں سے کسی ایک پر اعتماد کرتا ہو۔ اعتماد کا معنی بتا چکا ہوں کہ اس سے پہلے ان چھ میں سے کوئی ایک موجود ہو۔

" عَلَى الْمُبْتَدَأِ"یا اس سے پہلے مبتدأ ہو۔ جیسے اسم فاعل میں کہا تھا:"زَيْدٌ مَضرُوبٌ غُلَامُهُ الآن او غداََ "یہاں "مَضرُوبٌ" اسم مفعول ہے، "غُلَامُ" کو رفع دے رہا ہے، اس سے پہلے "زَيْدٌ" مبتدأ موجود ہے۔

"أَوِ الْمَوْصُولِ"یا اس سے پہلے موصول ہو۔ جیسے:"اَلمَضرُوبُ غُلَامُهُ زَیدٌ "یہاں "المَضرُوبٌ" اسم مفعول ہے، اس سے پہلے "اَلْ" موصول ہے، اس نے "غُلَامُ" کو رفع دیا۔

"أَوِالْمَوْصُوفِ"یا اس سے پہلے  موصوف ہو۔ جیسے:"جَائَنی رَجُلٌ مَضرُوبٌ غُلَامُهُ"یہاں "مَضرُوبٌ" اسم مفعول ہے، "رَجُلٌ" اس کا موصوف ہے، وہ پہلے ہے، اور اسی وجہ سے "مَضرُوبٌ" نے اپنے مابعد "غُلَامُ" کو رفع دیا ہے۔

"أَوْ ذِي الْحَالِ"یا ذوالحال ہو، اور یہ مفعول اس کا حال واقع ہو رہا ہو۔ جیسے:" جَائَنی رَجُلٌ مَضرُوباََ غُلَامُهُ"یہاں "زَيْدٌ" ذوالحال ہے، "مَضرُوباََ" اس کا حال ہے، چونکہ حال واقع ہو رہا ہے، اس لیے اس نے "غُلَامُ" کو رفع دیا۔

"أَوْ حَرفَ النَّفْيِ أَوِ الِاسْتِفْهَامِ"یا اس سے پہلے  حرف نفی ہو، یا حرف استفہام ہو۔ جیسے:"مَا مَضرُوبٌ غُلَامُهُ"یہاں "مَا" حرف نفی  پہلے ہے، اس لیے "مَضرُوبٌ" نے "غُلَامُ" کو رفع دیا۔یا:"آ مَضرُوبٌ غُلَامُهُ؟"یہاں "آ" حرف استفہام  پہلے ہے، "مَضرُوبٌ" سے پہلے ہے، جو اسم مفعول ہے، اس نے "غُلَامُ" کو رفع دیا،کیونکہ غلام قائم مقام فاعل ہے ۔

"وَإِذَا انْتَفیٰ فِیه اَحَدُ الشَّرَطَيْنِ الْمَذْكُورَيْنِ"جیسے اسم فاعل میں بھی ہم نے کہا تھا کہ اگر یہ دو شرائط ان میں موجود نہ ہوں، یعنی یا تو اسم مفعول بمعنیٰ حال یا استقبال کے نہ ہو، یا پھر ان چھ چیزوں میں سے کوئی ایک اگر اس سے پہلے موجود نہ ہو، تو اس اسم مفعول کا عمل منتفی ہو جائے گا، ختم ہو جائے گا، یعنی پھر یہ عمل نہیں کرے گا۔

"وحينئذٍ يَلْزَمُ إِضَافَتُهُ إِلَى مَا بَعْدَهُ" جب اس کا عمل ختم ہوجائے گا تو لازم ہے کہ ہم اس کو مضاف کریں اس کے مابعد کی طرف۔

"وَإِذَا دَخَلَ عَلَيْهِ الْأَلِفُ وَاللَّامُ"اگر اسم مفعول پر الف لام موصول آجائے، يكونُ مُستغنياً عن الشرطين في العملِ، مثل: «جاءني المضروب غلامه».البتہ وہ بھی اسم مفعول پھر اس کو عمل کرنے کے لیے ان شرائط کی ضرورت نہیں ہوگی۔

پس :"جَائَنی المضروبُ غُلَامُهُ"یہاں "الْمَضرُوبُ" اسم مفعول ہے، "اَلْ" آگیا ہے، لہٰذا اس نے "غُلَامُ" کو رفع دیا۔

ابنه جارية»، أو على ذي الحال؛ فيكون حالاً عنه، مثل: «مررت بزيد راكباً أبوه»، أو على النفْيِ أو الاستفهام بأن يكون قبله حرف النفْيِ أو الاستفهام، مثل: «ما قائم أبوه»، و«أقائم أبوه»، وإن فقد في اسم الفاعل أحد الشرطين المذكورين فلا يعمل أصلاً، بل يكون حينئذٍ مضافاً إلى ما بعده، مثل: «مررت بزید ضارب عمرو أمس»، وإن كان اسم الفاعل معرفاً باللام يعمل في ما بعده في كلّ حال سواء كان بمعنى الماضي أو الحال أو الاستقبال، وسواء كان معتمِداً على أحــــد الأمور المذكورة أو غير معتمد، مثل: «الضارب عمرواً الآن أو أمس أو غداً هو زيد».

اعلم أنَّ اسم الفاعل الموضوعَ للمبالَغة كـ «ضَرَّابٍ»، و «ضَرُوْبٍ»، و«مِضْرَابٍ» بمعنى كثير الضرب، و«عَلَّامَةٍ»، و «عَلِيْمٍ» بمعنى كثير العلم، و«حَذِرٍ» بمعنى كثير الحذر، مثل اسم الفاعل الذي ليس للمبالَغة في العمل، وإن زالت المشابَهة اللفظيّة بالفعل، لكنَّهم جعلوا ما فيها من زيادة المعنى قائمـــاً مقام ما زال من المشابَهة اللفظيّة.

ورابعها: اسم المفعول وهو كلّ اسم اشتقّ لذات من

وقع عليه الفعل، وهو يعمل عمل فعله المجهول؛ فيرفع اسماً واحداً بأنّه قائم مقام فاعله، وشرط عملِه كونه بمعنى الحال أو الاستقبال، واعتمادُه على المبتدأ كما في اسم الفاعل، مثل: «زيد مضروب غلامه الآن أو غداً»، أو الموصولِ، نحو: «المضروب غلامه زيد»، أو الموصوفِ، مثل: «جاءني رجل مضروب غلامه»، أو ذي الحال، مثل: «جاءني زيد مضروباً غلامه»، أو حرفَ النفْيِ أو الاستفهام، مثل: «ما مضروب غلامه»، و«أمضروب غلامه»، وإذا انتفى فيه أحد الشرطين المذكورين ينتفي عمله، وحينئذٍ يلزم إضافته إلى ما بعده، وإذا دخل عليه الألف واللام يكون مستغنياً عن الشرطين في العمل، مثل: «جاءني المضروب غلامه».

و خامسها: الصفة المشبهة وهي مشابِهة باسم الفاعل في التصريف، وفي كون كلّ منهما صفَة، مثل: «حسن حسنان حسنون، وحسنة وحسنتان وحسنات» على قياس «ضارب ضاربان ضاربون، وضاربة ضاربتان ضاربات»، وهي مشتقَّة من الفعل اللازم دالّة على ثبوت مصدرها لفاعلها على سبيل الاستمرار والدوام بحسب الوضع وتعمل عمل فعلها من غير اشتراط زمان؛ لكونها بمعنى الثبوت. وأمّا اشتراط الاعتماد