اب اگلی جو بحث ہے، اس کو درست سمجھنا ہے، بہت دقت کے ساتھ۔ وہ یہ ہے کہ یہ اسمِ فاعل جو عمل کرتا ہے، جو اپنے فاعل کو رفع دیتا
ہے، اور اگر فعل متعدی سے مشتق ہو تو فاعل کے رفع کے ساتھ ساتھ یہ مفعول بہ کو نصب بھی دیتا ہے۔ آیا یہ اسم فاعل ہمیشہ یہی عمل کرتا
ہے،یا اسم فاعل کے عمل کی کچھ شرائط ہیں؟ 
بہت توجہ کے ساتھ! یہ جو ہم نے کہا ہے کہ اسم فاعل اپنے مصدر والا عمل کرتا ہے، آیا اس کے عمل کے لیے کوئی شرائط بھی ہیں، یا بس جو بھی اسم فاعل ہوگا، وہ عمل کرتا رہے گا؟ جواب میں فرماتے ہیں: نہیں! اسم فاعل کے عمل کرنے کے لیے کچھ شرائط ہیں۔ کچھ شرائط ہیں، اگر وہ شرائط پائی جائیں گی تو عمل کرے گا، اگر شرائط نہیں پائی جائیں گی تو وہ نہیں کرے گا۔ اچھا!
 دو قسم کی شرائط کو انہوں نے بیان فرمایا ہے۔
( 1) ایک شرط یہ ہے کہ خود اسم فاعل میں کیا؟ کہ اسم فاعل اس وقت عمل کرے گا جب بمعنیٰ حال یا استقبال کے ہوگا۔ یعنی اس  اسم فاعل کے عمل کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ اگر وہ حال یا استقبال کے معنی میں ہوگا، تب عمل کرے گا۔ یہ ہو گئی ایک۔
(2)  دوسری شرط یہ ہے کہ اسم فاعل سے پہلے چھ چیزوں میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے۔ یہ تو ہو گئی لفظی بات۔ جیسے انہوں نے لکھا، آپ اردو میں اس کو یوں کریں گے کہ اسمِ فاعل کے عمل کرنے کی دوسری شرط یہ ہے کہ اسمِ فاعل سے پہلے چھ چیزوں میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے۔ 
دوبارہ لکھ لیں کہ اسم فاعل کے عمل کرنے کے لیے پہلی شرط یہ تھی کہ وہ  بمعنی حال یا استقبال کے ہو، اور دوسری شرط یہ ہے کہ اسم فاعل سے پہلے چھ چیزوں میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے۔ پس اگر کوئی اسم فاعل  بمعنی حال اور استقبال کے نہ ہوا، یا اگر کسی اسم فاعل سے پہلے ان چھ چیزوں میں سے کوئی چیز نہ ہوئی، تو پھر یہ اسم فاعل عمل بھی نہیں کرے گا۔ اس لیے کہ اگر فات شرط، فات مشروط۔ اگر شرط نہ ہوگی تو پھر مشروط بھی نہ ہوگی۔ اور اسم فاعل کے عمل کرنے کے لیے یہ دو چیزیں شرط ہیں: پہلی یہ کہ وہ خود  بمعنی حال یا استقبال کے ہو، اور دوسری شرط یہ ہے کہ چھ چیزوں میں سے کوئی ایک چیز اس سے پہلے موجود ہو۔
اب ترجمہ سنو: 
وَشَرْطُ عَمَلِهِ، اسم فاعل کے عمل کرنے کی پہلی شرط یہ ہے۔ عمل کیا تھا؟ وہی کہ اگر وہ لازم سے مشتق ہے تو فقط فاعل کو رفع دے گا، اگر متعدی سے مشتق ہے تو فاعل کو رفع دے گا اور مفعول کو نصب دے گا۔ لیکن یہ کام وہ تب کرے گا، یہ عمل کہ اس کی پہلی شرط، پہلی شرط کیا ہے؟
"أَنْ يَكُونَ بِمَنْزِلَةِ الْحَالِ أَوِ الِاسْتِقْبَالِ" کہ یہ اسم فعل بمنزلہ حال یا بمنزلہ استقبال کے ہو، ٹھیک ہے؟ کیا مطلب ہے؟ یعنی اس میں حالیت والا منزلہ پایا جاتا ہو کہ ابھی وہ یہ کام کرنے والا ہے، یا استقبال والا کہ وہ یہ کام کرے گا۔ یعنی اس قسم کا معنی اس میں پایا جاتا ہو۔
"وَإِنَّمَا اِشْتُرِطَ بِأَحَدِهِمَا"یہ اسم فاعل کے عمل کرنے کے لیے یہ جو شرط لگائی گئی ہے "بِأَحَدِهِمَا" کہ اسم فاعل یا حال کا معنی دے رہا ہو یا استقبال کا۔ یہ شرط کیوں لگائی گئی ہے؟ فرماتے ہیں: "إِنَّ مَشْرُوطًا" اسم فاعل کے عمل کرنے کے لیے بمعنیٰ حال یا استقبال کا ہونے کی شرط لگائی گئی ہے۔ کیوں؟ جواب:
"لِيَكمُلَ مُشَابِهًا لِلْفِعْلِ الْمُضَارِعِ"تاکہ اسم فاعل کی فعلِ مضارع کے ساتھ مشابہت تام ہو جائے۔ کیوں فرماتے ہیں کہ مشابہت تام ہو جائے؟ کیا مطلب ہے؟مشابہت دو طرح کی ہوتی ہے:
	- 
	مشابہت لفظیہ (لفظی مشابہت) 
- 
	مشابہت معنویہ (معنوی مشابہت) 
یہ جو کہہ رہے ہیں کہ مشابہت کامل ہو جائے، تو اس کا مطلب ہے کہ لفظاً اور معناً دونوں لحاظ سے وہ مشابہ ہوگا، تب کہیں گے کہ یہ مشابہت کامل ہے۔
آگے بتا رہے ہیں:
"لِأَنَّهُ لَمَّا كَانَا مُشَابِھاََ بِالْفِعْلِ الْمُضَارِعِ بِحَسَبِ اللَّفْظِ"یہ اسم فاعل  فعل مضارع کے مشابہ تھا بحسب اللفظ (لفظی لحاظ سے)۔ کس میں؟ "
فِي عَدَدِ الْحُرُوفِ "یعنی جتنے حروف فعل مضارع میں ہوتے ہیں، اتنے ہی حروف اسم فاعل میں ہوتے ہیں۔ جتنے حرکات فعل مضارع میں ہوتے ہیں، اتنے ہی اسم فاعل میں ہوتے ہیں۔ جتنے ساکن فعل مضارع میں ہوتے ہیں، اتنے ہی اسم فاعل میں ہوتے ہیں۔
مثال:فعل مضارع ہے: "يَضرِبُ"اس کے حروف گنیں:
	- 
	یا  (یاء) 
- 
	ض (ضا) 
- 
	ر (راء) 
- 
	ب (با) 
یعنی عدد حروف چار ہیں۔اب اسم فاعل اس کا کیا بنتا ہے "ضَارِبٌ" ہے۔ اس کے حروف گنیں:
	- 
	ض (ضا) 
- 
	ا (الف) 
- 
	ر (راء) 
- 
	ب (با) 
یعنی اس میں بھی چار حروف ہیں اس میں بھی چار ہیں۔حرکات  وَالْحَرَكَاتِ ۔"يَضرِبُ" میں:
جب یہی اسم فاعل بمعنیٰ حال یا استقبال کے ہو جائے گا: تو یہ مشابہ ہو جائے گا فعل مضارع کے ساتھ
"فكان حينئذٍ مشابِهاً بِحَسَبِ الْمَعْنَى أيضاً" یعنی معنی کے لحاظ سے بھی مشابہ ہو جائے گا۔ تو اسم فاعل میں لفظاً بھی مشابہت ہوگی اور معناً بھی مشابہت ہوگی۔ اس طرح اسم فاعل کی فعل مضارع کے ساتھ مشابہت کامل ہو جائے گی۔ جب مشابہت کامل ہو جائے گی، تو پھر جو کام فعل مضارع کرتا ہے، وہی کام یہ فعل بھی کرے گا۔
دوسری شرط:جیسے پہلے گزارش کی تھی کہ چھ چیزوں میں سے کسی  پر اعتماد رکھتا ہو کیا مطلب دوسری شرط یہ ہے کہ چھ چیزوں میں سے کوئی ایک
چیز اس سے پہلے موجود ہو۔اعتماد کا مطلب ہے کہ وہ چیزیں اس سے پہلے موجود ہوں اور اسم فاعل ان کے بعد آئے۔
"ويُشتَرطُ أَيضاً اِعتِمادُهُ عَلَى المُبْتَدَأِ"اسم فاعل کے عمل کرنے میں ایک اور شرط بھی ہے، کونسی ؟ درحقیقت اس شرط میں چھ چیزیں ذکر
کی ہیں یعنی دوسری شرط کیا ہے اِعتِمادُهُ عَلَى المُبْتَدَأِ  اسم فاعل کا مبتدأ پر اعتماد ہونا۔ یہ تو لفظی ترجمہ ہوگیا یعنی  اسم فاعل کے عمل کرنے کی
شرط یہ ہے کہ یا اسم فاعل  سے پہلے مبتدأ ہو، فَيَكُونُ خَبراً عَنهُ اور یہ اسم فاعل  اس مبتدا کی خبر واقع ہو رہا ہو۔مثال:"«زيدٌ ضارِبٌ
غلامُهُ عمرواً»"زَيْدٌ" مبتدأ ہے، اور "ضارِبٌ غلامُهُ عمرواً" اس کی خبر  بن رہا ہے۔
دوسری شرط کیا تھی کہ اسم فاعل سے پہلے مبتدا ہو
"أَوْ عَلَى الْمَوْصُولِ"یا اسم فاعل موصول پر اعتماد رکھتا ہو  یعنی اسم فاعل سے پہلے ایک موصول ہو ، فَيَكُونُ صلةََ لَه اور یہ اسم فاعل اس کا صلہ بن رہا ہو تب عمل کرے گا  مثال:«اَلضَّارِبٌ عَمرواً في الدارِ»  ضارِبٌ جو اسم فاعل ہے اس سے پہلے الف لام موجود ہے جو موصول کا ہے اصل عبار ت ایسے ہے أَي: اَلَّذِي هُوَ ضَارِبٌ عَمرواً في الدارِ، یہاں "الَّذِي" موصول ہے، اور "ضَاربٌ " اس کی صلة (یعنی موصول کی وضاحت) بن رہا ہے۔
"أو على الموصوفِ؛اور یہ اسم فاعل تب عمل کرے گا جب وہ اعتماد کرتا ہوایک موصوف پر  یعنی اسم فاعل سے پہلے ایک موصوف ہو فَيَكُونُ صِفَةََ لَه اور یہ اسم فاعل اس موصوف کی صفت بن رہا ہو، تب عمل کرے گا۔ جیسے مثال یہ ہے:"مَرَرْتُ بِرَجُلٍ ضَاربِِ ابْنَهُ جَارِيَةً"ٹھیک ہے، یہ ہوگی اس کی مثال۔"مَرَرْتُ بِرَجُلٍ ضَاربِِ ابْنَهُ جَارِيَةً"کہ میں گزر رہا ہوں ایک ایسے مرد سے جس کا بیٹا لونڈی کو مارنے والا ہے۔ اب "رَجُلٍ" موصوف ہے، اور "ضَاربِِ " اس کی صفت واقع ہو رہا ہے۔
"أَو عَلى ذِي الْحَالِ"یا اسم فاعل حال پر اعتماد کرتا ہو۔ کیا مطلب ہے؟ یعنی اسم فاعل سے پہلے کوئی حال ہو، "فَيَكُونُ حَالًا لَهُ"، اور یہ اسم فاعل اس ذوالحال کا حال بن رہا ہو، تب جا کر اسم فاعل عمل کرے گا۔جیسے:"مَرَرْتُ بِزَيْدٍ رَاكِبًا أَبُوهُ"میں گزر رہا ہوں زید کے قریب سے، درحالیکہ اس کا باپ سوار تھا۔ اب "رَاكِبًا" حال ہے، اور پیچھے جو "زَيْدٍ" ہے، یہ ذوالحال ہے۔ "رَاكِبًا" چونکہ زید کے لیئے  حال واقع ہو رہا تھا، اس لیے "أَبُوهُ" کو رفع دیا ہے۔
"أَوْ عَلَى النَّفْيِ أَوِ الِاسْتِفْهَامِ"یا یہ اعتماد کرتا ہو نفی یا استفہام پر۔ کیا مطلب ہے؟ یعنی اسم فاعل تب عمل کرے گا کہ اس سے پہلے اگر حرف نفی ہو، "بَانَ يَكُونَ قَبْلَهُ حَرْفُ النَّفْيِ"، یا اس سے پہلے حرف نفی ہو یا حرف استفہام ہو، تب عمل کرے گا۔جیسے:"مَا قَائِمٌ أَبُوهُ"یہاں "مَا" حرف نفی ہے، "قَائِمٌ" نے "أَبُوهُ" کو رفع دیا ہے۔یا:"اَقَائِمٌ أَبُوهُ؟ "اَ" حرف استفہام ہے، "قَائِمٌ" سے پہلے ہے جو اسم فاعل ہے، اور اسم فاعل نے "أَبُوهُ" کو رفع دیا ہے۔
خلاص سمجھ لیں :
اسم فاعل کے عمل کرنے کی دو شرطیں ہیں:
	- 
	پہلی شرط یہ ہے کہ وہ بمعنیٰ حال یا استقبال کے ہو۔ 
- 
	دوسری شرط یہ ہے کہ اس سے پہلے ان چھ چیزوں میں سے کوئی ایک ہو: