درس شرح مائة عامل

درس نمبر 29: قیاسی عوامل: اسم فاعل 1

 
1

خطبہ

2

اسمِ فاعل کی تعریف اور عمل کا بیان

وَالثَالِثُ اِسْمُ الْفَاعِلِ، وَهُو كُلُّ اِسمِِ اِشتُقَّ مِنْ فِعْلٍ لِذَاتِ مَنْ قَامَ بِالفِعْلِ، وَهُوَ يَعْمَلُ عَمَلَ فِعْلِهِ، كَالمَصدرِ۔

 آج کل ہمارا موضوع چل رہا ہے عَوَامِلِ لَفْظِيَّةِ قَیَاسِیَّہ کا۔ عَامِلِ لَفْظِيَّہِ قَیَاسِی سب سے پہلا فعل تھا، دوسرا مصدر تھا، آج ہے تیسرا عَامِلِ لَفْظِيَّہِ قَیَاسِی، اِسْمُ الْفَاعِلِ۔ یعنی اسم فاعل بھی عَامِلِ لَفْظِيَّہِ قَیَاسِی ہے۔ 

اسم فاعل کسے کہتے ہیں؟  ویسے اردو میں تو آسان ہے، فاعل کسے کہتے ہیں؟ یعنی جو اس فعل کو انجام دینے والا ہو، ٹھیک! لیکن یہاں تعریف اشتراعی کیا ہے: وَهُو كُلُّ اِسْمٍ اُشْتُقَّ مِنْ فَعْلٍ۔ آپ اس کو یوں سمجھیں گے کہ اسم فاعل ہر ایسا اسم ہے جو فعل سے مشتق ہو اور ایسی ذات کے لیے مشتق ہو  اور ایسی ذات کے  لیئے مشتق ہو جس کے ساتھ فعل قائم ہوا۔

 یہ ہو گیا لکھنے کا۔ اب ذراسمجھیں، ہم نے کہا ہے کہ "ضَارِبٌ" اسم الفاعل ہے، یہ تعریف اس پر کیسے فٹ ہوگی؟ آپ کہیں گے: "ضَارِبٌ" مشتق ہے، "ضَرَبَ" فعل سے، ٹھیک! اس سے مشتق ہو گیا۔ "ضَارِبٌ" کیوں بنایا؟ کس لیے بنایا؟ فرماتے ہیں: "ضَارِبٌ" بنایا ہے اس ذات کے لیے جس سے فعل قائم ہے، یعنی اس شخص کے لیے جس نے "ضَرَبَ" یعنی اس عمل کو، اس فعل کو انجام دیا، جس نے مارنے والا کام کیا ہے، اس ذات کے لیے یہ بنایا گیا ہے۔ ہم اس کو کہتے ہیں "ضَارِبٌ"، یعنی اس "ضَرَبَ" فعل جس کے ساتھ قائم ہے، وہ اس مصدر کو، اس حدث کو، "ضَرَبَ" کو، جس نے انجام دیا ہے، اس کے لیے یہ بنایا گیا ہے۔ یہ ہو گیا آسان۔

عامل کیسے ہیں؟ فرماتے ہیں:

 یہ اسمِ فاعل بھی  اس کا عمل بھی مصدر کی طرح ہے۔ جیسے مصدر اپنے فعل والا عمل کرتا تھا، اسمِ فاعل بھی اپنے فعل والا عمل کرتا ہے۔ کیا مطلب؟ یعنی جس فعل سے یہ مشتق ہے، اگر یہ اسم فاعل کسی فعل لازم سے مشتق ہوگا  تو یہ اسمِ فاعل فقط اپنے فاعل کو رفع دے گا، اگر کوئی اسم فاعل کسی فعل متعدی سے بنایا گیا ہو تو وہ اسمِ فاعل اپنے فاعل کو رفع دے گا اور ساتھ اپنے مفعول بہ کو نصب بھی دے گا   بالکل آسان! پہلے اس کو پڑھ لیں، پھر آگے ایک بحث ہے، اس کو پھر شروع کرتے ہیں۔

فرماتے ہیں:

وَالثَالِثُ ، یعنی عَوَامِلِ قَیَاسِیَّہَ میں سے تیسرا عَامِلِ قَیَاسِی ہے ، 

اِسْمُ الْفَاعِلِ۔ اسمِ فاعل

ھُوَ كُلُّ اِسمِِ اِشتُقَّ مِنْ فِعْلٍ ،یعنی اسم ِفاعل اس اسم کو کہتے ہیں جسے فعل سے مشتق کیا گیا ہو، فعل سے بنایا گیا ہو۔ اچھا! کیوں بنایا گیا ہو؟

لِذَاتِ، یہ بنایا گیا ہو اس ذات کے لیئے

مَنْ قَامَ بِهِ الْفِعْلُ، جس کے ساتھ فعل قائم ہے۔ یعنی اگر وہ ذات نہ ہوتی تو یہ فعل انجام نہ پاسکتا۔ ہم جو کہتے ہیں: "ضَرَبَ"، اس نے مارا، آخر

کوئی ذات ہے نہ جس نے "ضَرَبَ"، اس حدث کو انجام دیا ہے۔ تاکہ جس سے یہ "ضَرَبَ" قائم ہے۔ یہ تو ہو گئی اس کی تعریف۔ اسم فاعل

کسے کہتے ہیں؟ ۔

دوسرا سوال: اسم فاعل کا عمل کیا ہے؟ جواب:وهُو يَعمَلُ عَمَلَ فِعلِه اسمِ فاعل بھی اپنے  فعل والا  عمل کرتا ہے۔ یعنی جس فعل سے یہ مشتق

ہوا ہے، اسی فعل والا عمل کرتا ہے ۔

كَالمَصدرِ مثل مصدر کے۔ چونکہ ہم نے پہلے پڑھا تھا کہ مصدر بھی وہی عمل کرتا ہے جو اس فعل سے مشتق ہے۔ اب وہ عمل کیا تھا؟ وہ

عمل یہ ہے:

فَإِنْ كَانَ مُشْتَقًا مِنَ الْفِعْلِ اللَّازِمِ، اگر یہ اسم فاعل کسی فعل لازم سے مشتق ہوگا،

 فيَرفَعُ الفَاعِلَ فَقَط، تو یہ اسم فاعل اپنے فاعل کو رفع دے گا، فَقَط ، یعنی فاعل کو رفع دے کر مزید اس کا کوئی اور عمل نہیں ہوگا۔ کیوں؟ کیونکہ یہ مشتق ہے فعل لازم سے، اور لازم جو ہے، وہ اپنے فاعل کے ساتھ تام ہو جاتا ہے، اس کا مفعول ہوتا ہی نہیں۔ جیسے: "زَيْدٌ قَائِمٌ أَبُوْهُ"، اب دیکھو: "قَائِمٌ"، بہت غور کرنا ہے۔ "قَائِمٌ" اسمِ فاعل ہے، اور "أَبُوْهُ" اس کا فاعل ہے۔ اور اس "أَبُوْهُ" جو "قَائِمٌ" کے ساتھ پڑھ رہے ہیں، اسی "قَائِمٌ" نے اس کو رفع دیا ہے، اور اس کا فاعل ہے "أَبُوْهُ

وَإِنْ كَانَ مُشْتَقًا مِنَ الْفِعْلِ الْمُتَعَدِّي، لیکن اگر کوئی اسمِ فاعل کسی فعل متعدی سے مشتق ہو، کسی فعل متعدی سے بنایا گیا ہو،

 فَيَرْفَعُ الْفَاعِلَ، تو وہ اس میں فاعل اپنے فاعل کو رفع دے گا،

وَيَنْصِبُ الْمَفْعُولَ بِهِ أَيْضًا، اور ساتھ مفعول بہ کو نصب بھی دے گا۔ مفعول بہ گزارش کر چکا ہوں پہلے، جس پر فاعل کا فعل واقع ہوتا ہے۔ جیسے: "مَثَلُ زَيْدٌ ضَارِبٌ غُلَامُهُ عَمْرًا"، "ضَارِبٌ" اسمِ فاعل ہے جو "ضَرَبَ" فعل سے مشتق ہے، اور "ضَرَبَ" متعدی ہے، لہٰذا یہ "ضَارِبٌ" بھی متعدی ہوگا۔ "ضَارِبٌ غُلَامُهُ"، یہ "غُلَامُ" کی میم پر جو ہم رفع پڑھ رہے ہیں، پیش پڑھ رہے ہیں، یہ "غُلَامُهُ" "ضَارِبٌ" کا فاعل ہے۔ "عَمْرًا" یہ اس کا مفعول ہے۔ لہٰذا اس "ضَارِبٌ" نے "غُلَام" کو رفع دیا ہے جو اس کا فاعل بنا، اور "عَمْرًا" کو نصب دیا جو اس کا مفعول بنا۔ اچھا جی! آگے "زَيْدٌ" مبتدا ہے کہ زید "ضَارِبٌ غُلَامُهُ"، اس کا غلام مارنے والا۔ یہ بات ہو گئی آسان۔

3

اسمِ فاعل کے عمل کرنے کی ۲ شرطوں کا بیان

اب اگلی جو بحث ہے، اس کو درست سمجھنا ہے، بہت دقت کے ساتھ۔ وہ یہ ہے کہ یہ اسمِ فاعل جو عمل کرتا ہے، جو اپنے فاعل کو رفع دیتا

ہے، اور اگر فعل متعدی سے مشتق ہو تو فاعل کے رفع کے ساتھ ساتھ یہ مفعول بہ کو نصب بھی دیتا ہے۔ آیا یہ اسم فاعل ہمیشہ یہی عمل کرتا

ہے،یا اسم فاعل کے عمل کی کچھ شرائط ہیں؟ 

بہت توجہ کے ساتھ! یہ جو ہم نے کہا ہے کہ اسم فاعل اپنے مصدر والا عمل کرتا ہے، آیا اس کے عمل کے لیے کوئی شرائط بھی ہیں، یا بس جو بھی اسم فاعل ہوگا، وہ عمل کرتا رہے گا؟ جواب میں فرماتے ہیں: نہیں! اسم فاعل کے عمل کرنے کے لیے کچھ شرائط ہیں۔ کچھ شرائط ہیں، اگر وہ شرائط پائی جائیں گی تو عمل کرے گا، اگر شرائط نہیں پائی جائیں گی تو وہ نہیں کرے گا۔ اچھا!

 دو قسم کی شرائط کو انہوں نے بیان فرمایا ہے۔

( 1) ایک شرط یہ ہے کہ خود اسم فاعل میں کیا؟ کہ اسم فاعل اس وقت عمل کرے گا جب بمعنیٰ حال یا استقبال کے ہوگا۔ یعنی اس  اسم فاعل کے عمل کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ اگر وہ حال یا استقبال کے معنی میں ہوگا، تب عمل کرے گا۔ یہ ہو گئی ایک۔

(2)  دوسری شرط یہ ہے کہ اسم فاعل سے پہلے چھ چیزوں میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے۔ یہ تو ہو گئی لفظی بات۔ جیسے انہوں نے لکھا، آپ اردو میں اس کو یوں کریں گے کہ اسمِ فاعل کے عمل کرنے کی دوسری شرط یہ ہے کہ اسمِ فاعل سے پہلے چھ چیزوں میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے۔ 

دوبارہ لکھ لیں کہ اسم فاعل کے عمل کرنے کے لیے پہلی شرط یہ تھی کہ وہ  بمعنی حال یا استقبال کے ہو، اور دوسری شرط یہ ہے کہ اسم فاعل سے پہلے چھ چیزوں میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے۔ پس اگر کوئی اسم فاعل  بمعنی حال اور استقبال کے نہ ہوا، یا اگر کسی اسم فاعل سے پہلے ان چھ چیزوں میں سے کوئی چیز نہ ہوئی، تو پھر یہ اسم فاعل عمل بھی نہیں کرے گا۔ اس لیے کہ اگر فات شرط، فات مشروط۔ اگر شرط نہ ہوگی تو پھر مشروط بھی نہ ہوگی۔ اور اسم فاعل کے عمل کرنے کے لیے یہ دو چیزیں شرط ہیں: پہلی یہ کہ وہ خود  بمعنی حال یا استقبال کے ہو، اور دوسری شرط یہ ہے کہ چھ چیزوں میں سے کوئی ایک چیز اس سے پہلے موجود ہو۔

اب ترجمہ سنو: 

وَشَرْطُ عَمَلِهِ، اسم فاعل کے عمل کرنے کی پہلی شرط یہ ہے۔ عمل کیا تھا؟ وہی کہ اگر وہ لازم سے مشتق ہے تو فقط فاعل کو رفع دے گا، اگر متعدی سے مشتق ہے تو فاعل کو رفع دے گا اور مفعول کو نصب دے گا۔ لیکن یہ کام وہ تب کرے گا، یہ عمل کہ اس کی پہلی شرط، پہلی شرط کیا ہے؟

"أَنْ يَكُونَ بِمَنْزِلَةِ الْحَالِ أَوِ الِاسْتِقْبَالِ" کہ یہ اسم فعل بمنزلہ حال یا بمنزلہ استقبال کے ہو، ٹھیک ہے؟ کیا مطلب ہے؟ یعنی اس میں حالیت والا منزلہ پایا جاتا ہو کہ ابھی وہ یہ کام کرنے والا ہے، یا استقبال والا کہ وہ یہ کام کرے گا۔ یعنی اس قسم کا معنی اس میں پایا جاتا ہو۔

"وَإِنَّمَا اِشْتُرِطَ بِأَحَدِهِمَا"یہ اسم فاعل کے عمل کرنے کے لیے یہ جو شرط لگائی گئی ہے "بِأَحَدِهِمَا" کہ اسم فاعل یا حال کا معنی دے رہا ہو یا استقبال کا۔ یہ شرط کیوں لگائی گئی ہے؟ فرماتے ہیں: "إِنَّ مَشْرُوطًا" اسم فاعل کے عمل کرنے کے لیے بمعنیٰ حال یا استقبال کا ہونے کی شرط لگائی گئی ہے۔ کیوں؟ جواب:

"لِيَكمُلَ مُشَابِهًا لِلْفِعْلِ الْمُضَارِعِ"تاکہ اسم فاعل کی فعلِ مضارع کے ساتھ مشابہت تام ہو جائے۔ کیوں فرماتے ہیں کہ مشابہت تام ہو جائے؟ کیا مطلب ہے؟مشابہت دو طرح کی ہوتی ہے:

  1. مشابہت لفظیہ (لفظی مشابہت)

  2. مشابہت معنویہ (معنوی مشابہت)

یہ جو کہہ رہے ہیں کہ مشابہت کامل ہو جائے، تو اس کا مطلب ہے کہ لفظاً اور معناً دونوں لحاظ سے وہ مشابہ ہوگا، تب کہیں گے کہ یہ مشابہت کامل ہے۔

آگے بتا رہے ہیں:

"لِأَنَّهُ لَمَّا كَانَا مُشَابِھاََ بِالْفِعْلِ الْمُضَارِعِ بِحَسَبِ اللَّفْظِ"یہ اسم فاعل  فعل مضارع کے مشابہ تھا بحسب اللفظ (لفظی لحاظ سے)۔ کس میں؟ "

فِي عَدَدِ الْحُرُوفِ "یعنی جتنے حروف فعل مضارع میں ہوتے ہیں، اتنے ہی حروف اسم فاعل میں ہوتے ہیں۔ جتنے حرکات فعل مضارع میں ہوتے ہیں، اتنے ہی اسم فاعل میں ہوتے ہیں۔ جتنے ساکن فعل مضارع میں ہوتے ہیں، اتنے ہی اسم فاعل میں ہوتے ہیں۔

مثال:فعل مضارع ہے: "يَضرِبُ"اس کے حروف گنیں:

  1. یا  (یاء)

  2. ض (ضا)

  3. ر (راء)

  4. ب (با)

یعنی عدد حروف چار ہیں۔اب اسم فاعل اس کا کیا بنتا ہے "ضَارِبٌ" ہے۔ اس کے حروف گنیں:

  1. ض (ضا)

  2. ا (الف)

  3. ر (راء)

  4. ب (با)

یعنی اس میں بھی چار حروف ہیں اس میں بھی چار ہیں۔حرکات  وَالْحَرَكَاتِ ۔"يَضرِبُ" میں:

  • یا پر حرکت ہے ،  ر پر حرکت ہے ، اور با  پر حرکت ہے ۔

  • ضَارِبٌ میں بھی  ضا پر حرکت ہے را پر حرکت ہے اور با پر حرکت ہے
    وَالسَّكَنَاتِ ، يَضرِبُ مضارع میں بھی فقط ضاد ساکن ہے اور"ضَارِبٌ" میں بھی الف ساکن ہے ، تو یہ  اسم فاعل، فعل مضارع کے مشابہ ہوتا ہے لفظی لحاظ سے، کیونکہ حروف، حرکات اور سکنات برابر ہیں۔

جب یہی اسم فاعل بمعنیٰ حال یا استقبال کے ہو جائے گا: تو یہ مشابہ ہو جائے گا فعل مضارع کے ساتھ

"فكان حينئذٍ مشابِهاً بِحَسَبِ الْمَعْنَى أيضاً" یعنی معنی کے لحاظ سے بھی مشابہ ہو جائے گا۔ تو اسم فاعل میں لفظاً بھی مشابہت ہوگی اور معناً بھی مشابہت ہوگی۔ اس طرح اسم فاعل کی فعل مضارع کے ساتھ مشابہت کامل ہو جائے گی۔ جب مشابہت کامل ہو جائے گی، تو پھر جو کام فعل مضارع کرتا ہے، وہی کام یہ فعل بھی کرے گا۔

دوسری شرط:جیسے پہلے گزارش کی تھی کہ چھ چیزوں میں سے کسی  پر اعتماد رکھتا ہو کیا مطلب دوسری شرط یہ ہے کہ چھ چیزوں میں سے کوئی ایک

چیز اس سے پہلے موجود ہو۔اعتماد کا مطلب ہے کہ وہ چیزیں اس سے پہلے موجود ہوں اور اسم فاعل ان کے بعد آئے۔

"ويُشتَرطُ أَيضاً اِعتِمادُهُ عَلَى المُبْتَدَأِ"اسم فاعل کے عمل کرنے میں ایک اور شرط بھی ہے، کونسی ؟ درحقیقت اس شرط میں چھ چیزیں ذکر

کی ہیں یعنی دوسری شرط کیا ہے اِعتِمادُهُ عَلَى المُبْتَدَأِ  اسم فاعل کا مبتدأ پر اعتماد ہونا۔ یہ تو لفظی ترجمہ ہوگیا یعنی  اسم فاعل کے عمل کرنے کی

شرط یہ ہے کہ یا اسم فاعل  سے پہلے مبتدأ ہو، فَيَكُونُ خَبراً عَنهُ اور یہ اسم فاعل  اس مبتدا کی خبر واقع ہو رہا ہو۔مثال:"«زيدٌ ضارِبٌ

غلامُهُ عمرواً»"زَيْدٌ" مبتدأ ہے، اور "ضارِبٌ غلامُهُ عمرواً" اس کی خبر  بن رہا ہے۔

دوسری شرط کیا تھی کہ اسم فاعل سے پہلے مبتدا ہو

"أَوْ عَلَى الْمَوْصُولِ"یا اسم فاعل موصول پر اعتماد رکھتا ہو  یعنی اسم فاعل سے پہلے ایک موصول ہو ، فَيَكُونُ صلةََ لَه اور یہ اسم فاعل اس کا صلہ بن رہا ہو تب عمل کرے گا  مثال:«اَلضَّارِبٌ عَمرواً في الدارِ»  ضارِبٌ جو اسم فاعل ہے اس سے پہلے الف لام موجود ہے جو موصول کا ہے اصل عبار ت ایسے ہے أَي: اَلَّذِي هُوَ ضَارِبٌ عَمرواً في الدارِ، یہاں "الَّذِي" موصول ہے، اور "ضَاربٌ " اس کی صلة (یعنی موصول کی وضاحت) بن رہا ہے۔

"أو على الموصوفِ؛اور یہ اسم فاعل تب عمل کرے گا جب وہ اعتماد کرتا ہوایک موصوف پر  یعنی اسم فاعل سے پہلے ایک موصوف ہو فَيَكُونُ صِفَةََ لَه اور یہ اسم فاعل اس موصوف کی صفت بن رہا ہو، تب عمل کرے گا۔ جیسے مثال یہ ہے:"مَرَرْتُ بِرَجُلٍ ضَاربِِ ابْنَهُ جَارِيَةً"ٹھیک ہے، یہ ہوگی اس کی مثال۔"مَرَرْتُ بِرَجُلٍ ضَاربِِ ابْنَهُ جَارِيَةً"کہ میں گزر رہا ہوں ایک ایسے مرد سے جس کا بیٹا لونڈی کو مارنے والا ہے۔ اب "رَجُلٍ" موصوف ہے، اور "ضَاربِِ " اس کی صفت واقع ہو رہا ہے۔

"أَو عَلى ذِي الْحَالِ"یا اسم فاعل حال پر اعتماد کرتا ہو۔ کیا مطلب ہے؟ یعنی اسم فاعل سے پہلے کوئی حال ہو، "فَيَكُونُ حَالًا لَهُ"، اور یہ اسم فاعل اس ذوالحال کا حال بن رہا ہو، تب جا کر اسم فاعل عمل کرے گا۔جیسے:"مَرَرْتُ بِزَيْدٍ رَاكِبًا أَبُوهُ"میں گزر رہا ہوں زید کے قریب سے، درحالیکہ اس کا باپ سوار تھا۔ اب "رَاكِبًا" حال ہے، اور پیچھے جو "زَيْدٍ" ہے، یہ ذوالحال ہے۔ "رَاكِبًا" چونکہ زید کے لیئے  حال واقع ہو رہا تھا، اس لیے "أَبُوهُ" کو رفع دیا ہے۔

"أَوْ عَلَى النَّفْيِ أَوِ الِاسْتِفْهَامِ"یا یہ اعتماد کرتا ہو نفی یا استفہام پر۔ کیا مطلب ہے؟ یعنی اسم فاعل تب عمل کرے گا کہ اس سے پہلے اگر حرف نفی ہو، "بَانَ يَكُونَ قَبْلَهُ حَرْفُ النَّفْيِ"، یا اس سے پہلے حرف نفی ہو یا حرف استفہام ہو، تب عمل کرے گا۔جیسے:"مَا قَائِمٌ أَبُوهُ"یہاں "مَا" حرف نفی ہے، "قَائِمٌ" نے "أَبُوهُ" کو رفع دیا ہے۔یا:"اَقَائِمٌ أَبُوهُ؟ "اَ" حرف استفہام ہے، "قَائِمٌ" سے پہلے ہے جو اسم فاعل ہے، اور اسم فاعل نے "أَبُوهُ" کو رفع دیا ہے۔

خلاص سمجھ لیں :

اسم فاعل کے عمل کرنے کی دو شرطیں ہیں:

  1. پہلی شرط یہ ہے کہ وہ بمعنیٰ حال یا استقبال کے ہو۔

  2. دوسری شرط یہ ہے کہ اس سے پہلے ان چھ چیزوں میں سے کوئی ایک ہو:

    • اس سے پہلے مبتدأ ہو۔

    • اس سے پہلے موصول ہو۔

    • اس سے پہلے موصوف ہو۔

    • اس سے پہلے ذوالحال ہو۔

    • اس سے پہلے حرف نفی ہو۔

    • اس سے پہلے حرف استفہام ہو۔ تب عمل کرے گا
      آگے فرماتے ہیں : وَإِن فُقِدَ فِي اِسمِ الفَاعِلِ أَحَدُ الشَرطَينِ
      اگر اسم فاعل میں یہ جو دو شرطیں ہم نے ذکر کی ہیں کونسی ؟ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ بمعنیٰ حال یا استقبال کے ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اس سے پہلے ان چھ چیزوں میں سے کوئی ایک چیز اس سے پہلے ہو ، اگر ان شرائط میں سے کوئی شرط مفقود ہو، یعنی یا تو اس میں فعل بمعنیٰ حال یا استقبال کے نہیں تھا، یا بمعنیٰ حال یا استقبال کے تو تھا لیکن ان چھ چیزوں میں سے کوئی بھی اس سے پہلے موجود نہیں تھی،
      فلا يَعمَلُ أصلاً، تو پھر اسم فاعل کوئی عمل نہیں کرے گا۔ کیوں؟ چونکہ ظاہر ہے، پھر اس کی مشابہت فعل مضارع کے ساتھ کمزور ہو جائے گی۔پھر کیا ہوگا ؟ فرماتے ہیں : بَل يَكُونُ حِينَئِذٍ مُضَافاً إلى مَا بَعدَه ،اگر مثلاً اسم فاعل بمعنیٰ حال یا استقبال کے نہیں ہوا، تو کوئی عمل نہیں کرے گا، بلکہ اس وقت وہ اسم فاعل اپنے مابعد کی طرف مضاف ہو کر استعمال ہوگا، کسی فاعل یا مفعول کو رفع یا نصب نہیں دے گا۔
      «مَرَرتُ بِزَیدِِ ضَارِبُ عَمروِِ أَمسِ»"چونکہ "أَمْسِ" کہتے ہیں گذشتہ دن کو ، تو اس کا مطلب ہے کہ ضَارِبُ بمعنیٰ حال یا استقبال کے نہیں ہے۔ تو اب اس کا ترجمہ کیا جائے گا؟"مَرَرتُ بِزَیدِِ ضَارِبُ عَمروِِ أَمسِ "کہ میں گزرا زید کے پاس سے  جس نے عمر کو مارا تھا کل (گذشتہ کل )۔

اعلم أن هذه الصُوَر جارية في مصدر الفعل المتعدّي، وأمّا في مصدر الفعل اللازم فصورة واحدة، وهي أن يضاف إلى الفاعل، نحو: «أعجبني قعود زيد»، وفاعل المصدر لا يكون مستَتِراً، ولا يتقدّم معموله عليه.

والثالث: اسم الفاعل وهو كلّ اسم اشتقّ من فعلٍ لذاتِ مَن قام به الفعل، وهو يعمل عمل فعله كالمصدر؛ فإن كان مشتقَّا من الفعل اللازم فيرفع الفاعل فقط، مثل: «زيد قائم أبوه»، وإن كان مشتقَّا من الفعل المتعدّي فيرفع الفاعل وينصب المفعول به أيضاً، مثل: «زيد ضارب غلامه عمرواً»، وشرط عمَله أن يكون بمعنى الحال أو الاستقبال، وإنّما اشترط بأحدهما؛ ليكمل مشابهته بالفعل المضارع؛ لأنّه لَمَّا كان مشابِهاً بالفعل المضارع بحسب اللفظ في عدد الحروف والحركات والسكنات فكان حينئذٍ مشابِهاً بحسب المعنى أيضاً، ويشترط أيضاً اعتماده على المبتدأ؛ فيكون خبراً عنه، مثل المثال المذكور، أو على الموصول؛ فيكون صلة له، نحو: «الضارب عمرواً في الدار» أي: الذي هو ضارب عمرواً في الدار، أو على الموصوف؛ فيكون صفة له مثل: «مررت برجل ضارب

ابنه جارية»، أو على ذي الحال؛ فيكون حالاً عنه، مثل: «مررت بزيد راكباً أبوه»، أو على النفْيِ أو الاستفهام بأن يكون قبله حرف النفْيِ أو الاستفهام، مثل: «ما قائم أبوه»، و«أقائم أبوه»، وإن فقد في اسم الفاعل أحد الشرطين المذكورين فلا يعمل أصلاً، بل يكون حينئذٍ مضافاً إلى ما بعده، مثل: «مررت بزید ضارب عمرو أمس»، وإن كان اسم الفاعل معرفاً باللام يعمل في ما بعده في كلّ حال سواء كان بمعنى الماضي أو الحال أو الاستقبال، وسواء كان معتمِداً على أحــــد الأمور المذكورة أو غير معتمد، مثل: «الضارب عمرواً الآن أو أمس أو غداً هو زيد».

اعلم أنَّ اسم الفاعل الموضوعَ للمبالَغة كـ «ضَرَّابٍ»، و «ضَرُوْبٍ»، و«مِضْرَابٍ» بمعنى كثير الضرب، و«عَلَّامَةٍ»، و «عَلِيْمٍ» بمعنى كثير العلم، و«حَذِرٍ» بمعنى كثير الحذر، مثل اسم الفاعل الذي ليس للمبالَغة في العمل، وإن زالت المشابَهة اللفظيّة بالفعل، لكنَّهم جعلوا ما فيها من زيادة المعنى قائمـــاً مقام ما زال من المشابَهة اللفظيّة.

ورابعها: اسم المفعول وهو كلّ اسم اشتقّ لذات من