وَلا شَكَّ أَنَّ دَلِيلَ الْبَصْرِيِّينَ يَدُلُّ عَلَى أَصَالَةِ الْمَصْدَرِ مُطْلَقًا، وَدَلِيلَ الْكُوفِيِّین يَدُلُّ عَلَى أَصَالَةِ الْفِعْلِ فِي الْإِعْلالِ۔
 گذشتہ درس میں گزارش کی تھی کہ کوفی اور بصری حضرات میں یہ بحث ہے کہ آیا مصدر اصل ہے یا فعل اصل ہے۔ گزارش کی تھی کہ
بصریوں کا نظریہ یہ ہے کہ مصدر اصل ہے اور فعل فرع ہے، اور کوفی کہتے ہیں کہ نہیں، فعل اصل ہے اور مصدر اس کی فرع ہے۔
 دونوں نے اپنی اپنی دلیلیں بھی دیں۔ بصریوں نے کہا تھا کہ چونکہ یہ معنی مستقل طور پر دلالت کرتا ہے اور یہ اپنے معنی میں فعل کا محتاج نہیں
ہے، لہٰذا مصدر اصل ہے، جبکہ فعل اسم کا محتاج ہوتا ہے۔ کوفیوں نے کہا تھا کہ نہیں، جی! چونکہ مصدر میں اعلال (تعلیل) کا ہونا یا نہ ہونا وہ
فعل میں تعلیل کے تابع ہے۔ فعل میں تعلیل ہوتی ہے تو مصدر میں بھی ہوتی ہے، اور فعل میں نہ ہو تو مصدر میں بھی نہیں ہوتی، لہٰذا اس لیے
فعل اصل ہے اور مصدر فرع ہے۔
وَلَا شَكَّ، یہاں پر صاحبِ شرح "ماۃ عامل" گزارش کی تھی، ملا جامعی مرحوم، وہ اپنا فیصلہ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک جو بصریوں کی دلیل ہے، وہ کوفیوں کی دلیل سے بہتر لگتی ہے۔ کیوں؟ کوفی جو دلیل دیتے ہیں، وہ فقط ایک بات میں دیتے ہیں کہ مصدر میں تعلیل (اعلال) معذرت ، فعل میں تعلیل ہوگی تو مصدر میں ہوگی، فعل میں نہیں ہوگی تو مصدر میں نہیں ہوگی، یعنی فقط ایک اعلال کی صورت میں وہ بات کرتے ہیں۔ جبکہ بصری مطلقاً کہتے ہیں کہ ہر حال میں وہ کہتے ہیں کہ مصدر اصل ہے، مطلقاً، چاہے اعلال کی صورت ہو یا اشتقاق کی، کوئی قید نہیں، ہر حال میں۔ اب دیکھو نہ  جی، ایک وہ ہیں جن کی دلیل مطلق ہے، اور ایک وہ ہیں جن کی دلیل میں فقط ایک صورتِ اعلال کو بیان کیا گیا ہے۔ تو یقیناً ہمارے حساب میں وہ دلیل مضبوط ہوگی جو مطلقاً اصلیت پر دلالت کرتی ہو، اس کی نسبت جو فقط ایک صورت میں اثر ہونے کو بیان کرتی ہے۔ بصری کہتے ہیں کہ مصدر اصل ہے، مطلقاً، نہ وہ اشتقاق کی قید لگاتے ہیں، نہ وہ کسی اعلال کی کوئی قید لگاتے ہیں، جبکہ کوفی وہ فقط اعلال کی صورت میں کہتے ہیں کہ فعل اصل ہے۔ تو جناب! جن کی دلیل میں اطلاق پایا جاتا ہو، ہمارے حساب میں تو وہ مضبوط ہے، بہ نسبت اس کے جو فقط ایک صورت کی بات کرتی ہو۔
ٹھیک! نمبر دو: اگر ہم کوفیوں کی دلیل کو مان لیں، کس بات کو؟ کہ جناب! جہاں اعلال ہو، جہاں فعل میں تعلیل ہوتی ہے، وہاں مصدر میں ہوتی ہے، لہٰذا فعل اصل ہے اور مصدر فرع ہے۔ جہاں فعل میں نہیں ہوتی، وہاں مصدر میں بھی نہیں ہوتی، لہٰذا اس بنیاد پر تو ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے مقامات ایسے ہیں، جیسے "وَعَد یَعِدَُ" ، وہاں پر ہم نے واو کو گرایا تھا باب افعال میں واحد  متکلم میں ہمزہ کو گرایا تھا تو اس ہمزہ کی وجہ سے ہم نے باقیوں میں بھی ہم نے  "تَعِدَُ"میں بھی   "نَعِدُ" میں بھی، "نُکْرِمُ" میں بھی، "یُکْرِمُ" میں بھی۔ ان سب میں ہمزہ کو گرایا تھا۔ تو پھر ہمیں وہاں یہ کہنا چاہیے کہ "یَعِدُ" اور "اُکْرِمُ" اصل ہیں، اور باقی  صیغے سارے سب فرع ہیں، حالانکہ کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔ 
حالانکہ باقیوں میں تعلیل کی وجہ بھی "یَعِدُ" میں واو کا گرنا اور "یُکْرِمُ" میں ہمزہ کا گرنا تھا، اور ان کی وجہ سے باقیوں میں گرایا گیا۔ تو آپ کی دلیل کے مطابق تو پھر ہمیں یہ کہنا ہوگا کہ یہ اصل ہیں اور باقی سارے صیغے فرع ہیں، حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ پس نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا ووٹ بھی بصریوں کے ساتھ ہے، کہ جو بصریوں کی دلیل ہے کہ مصدر اصل ہے، اور فعل فرع ہے  ہمارے حساب میں بھی وہی درست ہے۔ ختم!
اب آپ سے اگر پوچھا جائے کہ صاحب شرح ماۃ عامل کا نظریہ  کیا ہے؟ تو آپ جواب میں دیں گے کہ وہ بصریوں کی تائید  میں ہیں، اور ان کے نزدیک بھی مصدر اصل ہے اور فعل فرع ہے۔
مصدر کیا عمل کرتا ہے؟ بالکل آسان! مصدر وہی عمل کرے گا جو اس کا فعل کرے گا۔ کیا مطلب؟ اگر فعل لازم ہوگا تو وہ فقط فاعل کو رفع دے گا، تو مصدر بھی فقط فاعل کو رفع دے گا۔ اگر فعل متعدی ہوگا تو وہ فاعل کو رفع دینے کے ساتھ ساتھ اپنے مفعول کو نصب بھی دے گا، تو مصدر بھی پھر فاعل کو رفع دینے کے ساتھ ساتھ مفعول کو نصب بھی دے گا۔ یعنی یہ مصدر فاعل کے ساتھ اپنے فعل والا عمل کرتا ہے، بالکل آسان!
وَلَا شَكَّ، اوہ کل گذشتہ درس میں ہم نے کہا تھا کہ بصری اور کوفیوں کے دو نظریے ہیں۔ بصری کہتے ہیں کہ مصدر اصل ہے اور فعل فرع ہے، جبکہ کوفی کہتے ہیں کہ نہیں، فعل اصل ہے اور مصدر فرع ہے۔ فرماتے ہیں: 
وَلَا شَكَّ، اس میں کوئی شک نہیں کہ أَنَّ دَليلَ البَصرِيّينَ جو بصریوں کی دلیل ہے، يَدُلُّ وہ دلالت کرتی ہے ، عَلى أَصالةِ المصدرِمصدر کے اصل ہونے پر مطلقاً، یعنی بغیر کسی قید کے۔ نہ اس میں کوئی اعلال کی قید ہے، نہ اس میں کوئی اشتقاق کی قید ہے۔ چونکہ وہ کہتے ہیں کہ وہ مستقل ہوتا  ہے اور فعل کا محتاج نہیں ہوتا، ان کی دلیل تھی، لہٰذا مطلقاً مصدر اصل ہے۔
وَدَلِيلُ الكُوفيّين  جبکہ یہ کوفیوں کی دلیل ہے، يَدُلُّ وہ دلالت کرتی ہے ، على أصالةِ الفعلِ فعل کے اصل ہونے پر،في الإعلالِ؛ اعلال میں چونکہ انہوں نے یہی کہا تھا نا کہ جہاں فعل میں تعلیل ہوتی ہے، وہاں مصدر میں ہوتی ہے، جہاں فعل میں نہیں ہوتی، وہاں مصدر میں بھی نہیں ہوتی۔ تو پس بہت غور! بصریوں کی دلیل کہتی ہے کہ مصدر اصل ہے مطلقاً، اور کوفی کہتے ہیں کہ فعل اصل ہے اعلال میں پس ایک صورت بیان کرتے ہیں پس
لَا تَلْزَمُ مِنْهُ أَصَالَتُهُ مطلقاً۔ پس اگر اعلال میں اصل فعل ہے، تو فقط اعلال کی صورت میں فعل کا اصل ہونا مطلقاً فعل کے اصل ہونے پر دلالت نہیں کرتا، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مطلقاً، ہمیشہ جہاں اعلال ہے، باقی تمام مقامات پر بھی فعل اصل ہو۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا۔ ٹھیک ہے جی! بس آگے فرماتے ہیں: وَلَوْ كَانَ ھَذَا القَدرُ۔ درحقیقت یہاں سے صاحب شرح "ماۃ عامل" ان کوفیوں کی دلیل کو رد کر رہے ہیں، ان پر نقد کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: وَلَوْ كَانَ ھَذَا القَدرُ، اگر فقط اعلال میں فقط اعلال میں مصدر کا اصل ہونا ،فقط اعلال میں فعل کا اصل ہونا کفایت کرتا کس میں؟ مطلقاً فعل کا اصل ہونے میں۔ وَلَوْ كَانَ ھَذَا القَدرُ، فقط اعلال  کی حد تک فعل کا اصل ہونا اگر يقتضي الأصالةَ وہ تقاضا کرتا کہ فعل بس مطلقاً اصل ہے، تو ایک نقضی جواب ہے۔ يَلْزَمُ أَنْ يَكُونَ "يَعِدُ"بالياء و«أُكْرِمُ» متكلّماً اس سے لازم آئے گا  کہ مثال واوی کا یَعِدُ اور باب افعال کا اُکرِمُ جو صیغہ واحد متکلم کا ہے  بالهمزة أصلاً۔ یہ ہم صرف میر اور شرح امثلہ میں پڑہ چکے ہیں کہ یَعدُ میں واو گری تھی اس کی وجہ سے  باقی صیغوں میں بھی واو گرایا تھا  ،اُکرِمُ میں ایک ہمزہ گرایا تھا جس کی وجہ سے باقی صیغوں یُکرِمُ، تُکرِمُ، نُکرِمُ میں ہمزہ کو گرایا تھا  اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ ہم کہیں کہ یعد اور اکرم  اصل ہیں اور باقی جتنے بھی صیغے ہیں، وہ سارے کے سارے فرع ہیں کیوں؟ چونکہ ان میں تعلیل ہوئی ہے تو ان میں ہوئی ہے، ان میں نہ ہوتی تو ان میں بھی نہ ہوتی۔ لہٰذا ہم کہیں کہ یہ دو اصل ہیں، باقی فرع ہیں، لَا قَائِلَ بِهِ اَحدٌ، جبکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ پھر یہ نقضی جواب ہے کہ اگر صرف اس بنیاد پر، چونکہ جہاں فعل پر تعلیل ہوتی ہے، وہاں مصدر میں ہوتی ہے، لہٰذا فعل اصل ہے۔ اگر یہ کافی ہے تو پھر آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ "یَعِدُ" اور "یُکْرِمُ" اصل ہیں اور باقی سارے فرع ہیں، حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ ختم! یہ تو ایک اختلاف تھا کہ اصل مصدر ہے، یہ اصل فعل ہے۔