درس شرح مائة عامل

درس نمبر 28: قیاسی عوامل: مصدر 2

 
1

خطبہ

2

بصری اور کوفی نحویوں کے نظریہ پر گفتگو

وَلا شَكَّ أَنَّ دَلِيلَ الْبَصْرِيِّينَ يَدُلُّ عَلَى أَصَالَةِ الْمَصْدَرِ مُطْلَقًا، وَدَلِيلَ الْكُوفِيِّین يَدُلُّ عَلَى أَصَالَةِ الْفِعْلِ فِي الْإِعْلالِ۔

 گذشتہ درس میں گزارش کی تھی کہ کوفی اور بصری حضرات میں یہ بحث ہے کہ آیا مصدر اصل ہے یا فعل اصل ہے۔ گزارش کی تھی کہ

بصریوں کا نظریہ یہ ہے کہ مصدر اصل ہے اور فعل فرع ہے، اور کوفی کہتے ہیں کہ نہیں، فعل اصل ہے اور مصدر اس کی فرع ہے۔

 دونوں نے اپنی اپنی دلیلیں بھی دیں۔ بصریوں نے کہا تھا کہ چونکہ یہ معنی مستقل طور پر دلالت کرتا ہے اور یہ اپنے معنی میں فعل کا محتاج نہیں

ہے، لہٰذا مصدر اصل ہے، جبکہ فعل اسم کا محتاج ہوتا ہے۔ کوفیوں نے کہا تھا کہ نہیں، جی! چونکہ مصدر میں اعلال (تعلیل) کا ہونا یا نہ ہونا وہ

فعل میں تعلیل کے تابع ہے۔ فعل میں تعلیل ہوتی ہے تو مصدر میں بھی ہوتی ہے، اور فعل میں نہ ہو تو مصدر میں بھی نہیں ہوتی، لہٰذا اس لیے

فعل اصل ہے اور مصدر فرع ہے۔

وَلَا شَكَّ، یہاں پر صاحبِ شرح "ماۃ عامل" گزارش کی تھی، ملا جامعی مرحوم، وہ اپنا فیصلہ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک جو بصریوں کی دلیل ہے، وہ کوفیوں کی دلیل سے بہتر لگتی ہے۔ کیوں؟ کوفی جو دلیل دیتے ہیں، وہ فقط ایک بات میں دیتے ہیں کہ مصدر میں تعلیل (اعلال) معذرت ، فعل میں تعلیل ہوگی تو مصدر میں ہوگی، فعل میں نہیں ہوگی تو مصدر میں نہیں ہوگی، یعنی فقط ایک اعلال کی صورت میں وہ بات کرتے ہیں۔ جبکہ بصری مطلقاً کہتے ہیں کہ ہر حال میں وہ کہتے ہیں کہ مصدر اصل ہے، مطلقاً، چاہے اعلال کی صورت ہو یا اشتقاق کی، کوئی قید نہیں، ہر حال میں۔ اب دیکھو نہ  جی، ایک وہ ہیں جن کی دلیل مطلق ہے، اور ایک وہ ہیں جن کی دلیل میں فقط ایک صورتِ اعلال کو بیان کیا گیا ہے۔ تو یقیناً ہمارے حساب میں وہ دلیل مضبوط ہوگی جو مطلقاً اصلیت پر دلالت کرتی ہو، اس کی نسبت جو فقط ایک صورت میں اثر ہونے کو بیان کرتی ہے۔ بصری کہتے ہیں کہ مصدر اصل ہے، مطلقاً، نہ وہ اشتقاق کی قید لگاتے ہیں، نہ وہ کسی اعلال کی کوئی قید لگاتے ہیں، جبکہ کوفی وہ فقط اعلال کی صورت میں کہتے ہیں کہ فعل اصل ہے۔ تو جناب! جن کی دلیل میں اطلاق پایا جاتا ہو، ہمارے حساب میں تو وہ مضبوط ہے، بہ نسبت اس کے جو فقط ایک صورت کی بات کرتی ہو۔

ٹھیک! نمبر دو: اگر ہم کوفیوں کی دلیل کو مان لیں، کس بات کو؟ کہ جناب! جہاں اعلال ہو، جہاں فعل میں تعلیل ہوتی ہے، وہاں مصدر میں ہوتی ہے، لہٰذا فعل اصل ہے اور مصدر فرع ہے۔ جہاں فعل میں نہیں ہوتی، وہاں مصدر میں بھی نہیں ہوتی، لہٰذا اس بنیاد پر تو ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے مقامات ایسے ہیں، جیسے "وَعَد یَعِدَُ" ، وہاں پر ہم نے واو کو گرایا تھا باب افعال میں واحد  متکلم میں ہمزہ کو گرایا تھا تو اس ہمزہ کی وجہ سے ہم نے باقیوں میں بھی ہم نے  "تَعِدَُ"میں بھی   "نَعِدُ" میں بھی، "نُکْرِمُ" میں بھی، "یُکْرِمُ" میں بھی۔ ان سب میں ہمزہ کو گرایا تھا۔ تو پھر ہمیں وہاں یہ کہنا چاہیے کہ "یَعِدُ" اور "اُکْرِمُ" اصل ہیں، اور باقی  صیغے سارے سب فرع ہیں، حالانکہ کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔ 

حالانکہ باقیوں میں تعلیل کی وجہ بھی "یَعِدُ" میں واو کا گرنا اور "یُکْرِمُ" میں ہمزہ کا گرنا تھا، اور ان کی وجہ سے باقیوں میں گرایا گیا۔ تو آپ کی دلیل کے مطابق تو پھر ہمیں یہ کہنا ہوگا کہ یہ اصل ہیں اور باقی سارے صیغے فرع ہیں، حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ پس نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا ووٹ بھی بصریوں کے ساتھ ہے، کہ جو بصریوں کی دلیل ہے کہ مصدر اصل ہے، اور فعل فرع ہے  ہمارے حساب میں بھی وہی درست ہے۔ ختم!

اب آپ سے اگر پوچھا جائے کہ صاحب شرح ماۃ عامل کا نظریہ  کیا ہے؟ تو آپ جواب میں دیں گے کہ وہ بصریوں کی تائید  میں ہیں، اور ان کے نزدیک بھی مصدر اصل ہے اور فعل فرع ہے۔

مصدر کیا عمل کرتا ہے؟ بالکل آسان! مصدر وہی عمل کرے گا جو اس کا فعل کرے گا۔ کیا مطلب؟ اگر فعل لازم ہوگا تو وہ فقط فاعل کو رفع دے گا، تو مصدر بھی فقط فاعل کو رفع دے گا۔ اگر فعل متعدی ہوگا تو وہ فاعل کو رفع دینے کے ساتھ ساتھ اپنے مفعول کو نصب بھی دے گا، تو مصدر بھی پھر فاعل کو رفع دینے کے ساتھ ساتھ مفعول کو نصب بھی دے گا۔ یعنی یہ مصدر فاعل کے ساتھ اپنے فعل والا عمل کرتا ہے، بالکل آسان!

وَلَا شَكَّ، اوہ کل گذشتہ درس میں ہم نے کہا تھا کہ بصری اور کوفیوں کے دو نظریے ہیں۔ بصری کہتے ہیں کہ مصدر اصل ہے اور فعل فرع ہے، جبکہ کوفی کہتے ہیں کہ نہیں، فعل اصل ہے اور مصدر فرع ہے۔ فرماتے ہیں: 

وَلَا شَكَّ، اس میں کوئی شک نہیں کہ أَنَّ دَليلَ البَصرِيّينَ جو بصریوں کی دلیل ہے، يَدُلُّ وہ دلالت کرتی ہے ، عَلى أَصالةِ المصدرِمصدر کے اصل ہونے پر مطلقاً، یعنی بغیر کسی قید کے۔ نہ اس میں کوئی اعلال کی قید ہے، نہ اس میں کوئی اشتقاق کی قید ہے۔ چونکہ وہ کہتے ہیں کہ وہ مستقل ہوتا  ہے اور فعل کا محتاج نہیں ہوتا، ان کی دلیل تھی، لہٰذا مطلقاً مصدر اصل ہے۔

وَدَلِيلُ الكُوفيّين  جبکہ یہ کوفیوں کی دلیل ہے، يَدُلُّ وہ دلالت کرتی ہے ، على أصالةِ الفعلِ فعل کے اصل ہونے پر،في الإعلالِ؛ اعلال میں چونکہ انہوں نے یہی کہا تھا نا کہ جہاں فعل میں تعلیل ہوتی ہے، وہاں مصدر میں ہوتی ہے، جہاں فعل میں نہیں ہوتی، وہاں مصدر میں بھی نہیں ہوتی۔ تو پس بہت غور! بصریوں کی دلیل کہتی ہے کہ مصدر اصل ہے مطلقاً، اور کوفی کہتے ہیں کہ فعل اصل ہے اعلال میں پس ایک صورت بیان کرتے ہیں پس
لَا تَلْزَمُ مِنْهُ أَصَالَتُهُ مطلقاً۔ پس اگر اعلال میں اصل فعل ہے، تو فقط اعلال کی صورت میں فعل کا اصل ہونا مطلقاً فعل کے اصل ہونے پر دلالت نہیں کرتا، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مطلقاً، ہمیشہ جہاں اعلال ہے، باقی تمام مقامات پر بھی فعل اصل ہو۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا۔ ٹھیک ہے جی! بس آگے فرماتے ہیں: وَلَوْ كَانَ ھَذَا القَدرُ۔ درحقیقت یہاں سے صاحب شرح "ماۃ عامل" ان کوفیوں کی دلیل کو رد کر رہے ہیں، ان پر نقد کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: وَلَوْ كَانَ ھَذَا القَدرُ، اگر فقط اعلال میں فقط اعلال میں مصدر کا اصل ہونا ،فقط اعلال میں فعل کا اصل ہونا کفایت کرتا کس میں؟ مطلقاً فعل کا اصل ہونے میں۔ وَلَوْ كَانَ ھَذَا القَدرُ، فقط اعلال  کی حد تک فعل کا اصل ہونا اگر يقتضي الأصالةَ وہ تقاضا کرتا کہ فعل بس مطلقاً اصل ہے، تو ایک نقضی جواب ہے۔ يَلْزَمُ أَنْ يَكُونَ "يَعِدُ"بالياء و«أُكْرِمُ» متكلّماً اس سے لازم آئے گا  کہ مثال واوی کا یَعِدُ اور باب افعال کا اُکرِمُ جو صیغہ واحد متکلم کا ہے  بالهمزة أصلاً۔ یہ ہم صرف میر اور شرح امثلہ میں پڑہ چکے ہیں کہ یَعدُ میں واو گری تھی اس کی وجہ سے  باقی صیغوں میں بھی واو گرایا تھا  ،اُکرِمُ میں ایک ہمزہ گرایا تھا جس کی وجہ سے باقی صیغوں یُکرِمُ، تُکرِمُ، نُکرِمُ میں ہمزہ کو گرایا تھا  اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ ہم کہیں کہ یعد اور اکرم  اصل ہیں اور باقی جتنے بھی صیغے ہیں، وہ سارے کے سارے فرع ہیں کیوں؟ چونکہ ان میں تعلیل ہوئی ہے تو ان میں ہوئی ہے، ان میں نہ ہوتی تو ان میں بھی نہ ہوتی۔ لہٰذا ہم کہیں کہ یہ دو اصل ہیں، باقی فرع ہیں، لَا قَائِلَ بِهِ اَحدٌ، جبکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ پھر یہ نقضی جواب ہے کہ اگر صرف اس بنیاد پر، چونکہ جہاں فعل پر تعلیل ہوتی ہے، وہاں مصدر میں ہوتی ہے، لہٰذا فعل اصل ہے۔ اگر یہ کافی ہے تو پھر آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ "یَعِدُ" اور "یُکْرِمُ" اصل ہیں اور باقی سارے فرع ہیں، حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ ختم! یہ تو ایک اختلاف تھا کہ اصل مصدر ہے، یہ اصل فعل ہے۔

3

مصدر کیا عمل کرتا ہے ؟

اب بتاتے ہیں کہ مصدر عمل کیا کرتا ہے ؟

اِعْلَمْ! تو جان کہ أنَّ المصدرَ يَعمَلُ عَمَلَ فِعلِه؛ یہ مصدر وہی عمل کرتا ہے جو اس سے مشتق ہونے والا فعل عمل کرتا ہے۔

فَإِنْ كَانَ فِعْلُهُ لَازِمًا، اگر اس سے مشتق ہونے والا فعل لازم ہے، تو لازم فقط فاعل کو رفع دیتا ہے۔ 

فَيَرْفَعُ الْفَاعِلَ فَقَطْ، تو یہ مصدر بھی فقط فاعل کو ہی رفع دے گا۔ جیسے "أَعْجَبَنِي قِيَامُ زَيْدٍ"، اب اس نے "قِيَامُ" (قیام) کو، اس قیام کو، اس نے رفع دیا ہے۔ 

وَإِنْ كَانَ مُتَعَدِّيًا، اور اگر مصدر سے مشتق ہونے والا فعل متعدی ہے، اور متعدی فاعل کو رفع اور مفعول کو نصب دیتا ہے، فرماتے ہیں:

فَيَرْفَعُ الْفَاعِلَ وَيَنْصِبُ الْمَفْعُولَ، تو پھر یہ مصدر بھی، یہ مصدر بھی فاعل کو رفع اور مفعول کو نصب دے گا۔ ٹھیک ہے جی! "أَعْجَبَنِي قِيَامُ زَيْدٍ"، اب قیامُ مصدر ہے "زَيْدٌ"، اگرچہ لفظاً مضاف الیہ ہونے کے بعد "زَيْدٍ" ہم نے پڑھا ہے، لیکن معناً وہ اس کا فاعل ہے۔ اسی طرح "أَعْجَبَنِي ضَرْبُ زَيْدٍ عَمْرواََ"، یہاں "ضَرْب" مصدر ہے، "زَيْدِِ" اس کا فاعل ہے، اور "عَمْرواََ" اس کا مفعول ہے۔ پس

فَزَيْدٌ فِي المثالين مجرورٌ لفظاً"، اگرچہ "قِيَامُ زَيْدٍ" میں اور "ضَرْبُ زَيْدٍ" میں دونوں میں لفظی طور پر تو "زَيْد" مجرور ہے۔ "قِيَامُ زَيْدٍ" اور "ضَرْبُ زَيْدٍ"، کیوں لفظاً مجرور کیوں ہے؟ فرماتے ہیں: اس  لیے

لِاِضَافَةِ الْمَصْدَرِ إِلَيْهِ، چونکہ مصدر اس کی طرف مضاف ہے، اور یہ بات اصولِ نحو  میر میں پڑھ چکے ہیں کہ مضاف الیہ مجرور ہوتا ہے۔ چونکہ "زَيْد" مضاف الیہ ہے، لہٰذا مجرور ہے۔ اگرچہ "زَيْد" "قِيَامُ زَيْدٍ" اور "ضَرْبُ زَيْدٍ" میں لفظاً مجرور ہے، لیکن

 مرفوعٌ مَعْنًى، لیکن معناً یہ مرفوع ہے۔ کیوں؟ اس لیے

لِانَّهُ فَاعِلٌ، چونکہ یہ "زَيْد" اُس "ضَرْب" کا اور "قِيَام" کا فاعل ہے۔

4

مصدر کے استعمال کے پانچ طریقے

وَهُوَ عَلَى خَمْسَةِ أَنْوَاعٍ، یہ جو مصدر ہوتا ہے، اب یہ لفظی ترجمہ تو آپ کریں گے نا کہ مصدر کی پانچ قسمیں، لیکن مراد یہ نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد کیا ہے؟ یعنی یہ مصدر کہ جس کا فعل متعدی ہوتا ہے، اس کو پانچ طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ جس مصدر کا فعل متعدی ہوگا، اس مصدر کو پانچ طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔

  1. : أَحدُها: أن يَكونَ مُضافاً إلى الفاعِلِ ، پہلا طریقہ استعمال یہ ہوگا کہ مصدر اپنے ہی فاعل کی طرف مضاف ہو ويُذكُرُ المفعولُ مَنصوباً، كالمثال المذكوراور بعد میں مفعول کو منصوب ذکر کیا جائے۔ جیسا کہ مثال تھی: "أَعْجَبَنِي ضَرْبُ زَيْدٍ عَمْرًا"، "ضَرْب" مصدر ہے، "زَيْد" اپنے فاعل کی طرف مضاف ہے، اور بعد میں "عَمْرًا" مفعول کو باقاعدہ منصوب ذکر کیا گیا ہے۔ تو ایک تو اس مصدر کا، جو جس مصدر کا فعل متعدی ہوتا ہے، جس مصدر سے مشتق ہونے والا فعل متعدی ہوتا ہے، اس مصدر کے استعمال کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ وہ مضاف ہو اپنے فاعل کی طرف اور بعد میں اس کا مفعول منصوب ذکر ہو۔ جیسے "أَعْجَبَنِي ضَرْبُ زَيْدٍ عَمْرًا"، "ضَرْب" مضاف ہے "زَيْد" اپنے فاعل کی طرف، اور "عَمْرًا" بعد میں مفعول مذکور ہے اور ہے بھی منصوب۔
  2. وثانیًا: دوسرا طریقہ کیا ہے؟ أَنْ يَكُونَ مُضَافًا إِلَى الْفَاعِلِ، کہ یہ مصدر اپنے فاعل کی طرف مضاف ہو،ولَم يُذكَرِ المفعولُ اپنے فاعل کی طرف مضاف ہو، بعد میں مفعول کو ذکر بھی نہ کیا گیا ہو، فقط اپنے فاعل کی طرف مضاف ہو اور بعد میں مفعول کو ذکر بھی نہ کیا گیا ہو۔ اچھا مثال یہ ہے: "عَجِبْتُ مِنْ ضَرْبِ زَيْدٍ"، یعنی میں متعجب ہوا۔ ترجمہ آیا: "مِنْ ضَرْبِ زَيْدٍ"، اب "ضَرْب" مصدر ہے جو "زَيْد" کی طرف ہے، مضاف ہے، لیکن اس کے بعد مفعول کو ذکر نہیں کیا گیا۔
  3. وثالثُها: اس مصدر جس سے مشتق ہونے والا فعل متعدی ہوتا ہے، اس کا تیسرا طریقہ استعمال یہ ہے: أَنْ يَكُونَ مُضَافًا إِلَى الْمَفْعُولِ، کہ یہ مصدر اپنے مفعول کی طرف مضاف ہو ، حالَ كَوْنِهِ مَبْنِيًّا لِلْمَفْعُولِ، جبکہ وہ مجہول ہو، الْقَائِمَ مَقَامَ الْفَاعِلِ، کہ وہ مفعول قائم مقام فاعل ہو۔ ٹھیک ہو گیا۔ "عَجِبْتُ مِنْ ضَرْبِ زَيْدٍ"، اب یہاں ضرب اگرچہ زید کی طرف مضاف ہےمقصد کیا ہے؟ اصل میں ہے: "عَجِبْتُ مِنْ أَنْ يُضْرَبَ زَيْدٌ"، در حقیقت یہاں مفعول جس کو ہم نائب فاعل کہتے ہیں، "أَنْ يُضْرَبَ" مجہول ہے۔
  4. وَرَابِعُھا: چوتھا طریقہ استعمال کیا ہے؟ وہ یہ ہے: أَنْ يَكُونَ مُضَافًا إِلَى الْمَفْعُولِ مصدر مضاف ہو اپنے مفعول کی طرف  وَيُذْكَرَ الْفَاعِلُ مَرْفُوعًا، اور فاعل کو بھی باقاعدہ مرفوع ذکر کیا جائے، ذکر کیا جائے۔ جس کی مثال مثال اس کی یہ ہے: "عَجِبْتُ مِنْ ضَرْبِ اللِّصِّ الْجَلَّادُ"، صحیح پڑھنا: "عَجِبْتُ مِنْ ضَرْبِ اللِّصِّ الْجَلَّادُ"، یعنی "اللِّص" چور، یہ در حقیقت مفعول ہے، "الْجَلَّادُ" یہ فاعل ہے۔ لہٰذا یہاں "ضَرْب" مصدر ، مفعول کی طرف یہ مصدر مضاف ہے، اور "الْجَلَّادُ" فاعل کو بھی باقاعدہ مرفوع، رفع کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ "عَجِبْتُ مِنْ ضَرْبِ اللِّصِّ الْجَلَّادُ"،  میں تعجب میں ہوا ایک جلاد نے چور کو مارا۔ اب یہاں "اللِّص" جو ہے، در حقیقت مفعول ہے جو "ضَرْب" کا مفعول ہے، اور "ضَرْب" مصدر مفعول کی طرف مضاف ہے، "الْجَلَّادُ" فاعل ہے جو مرفوع ہے۔
  5. وَخَامِسًا: پانچواں  اور آخری طریقہ استعمال کا وہ یہ ہے: أَنْ يَكُونَ مُضَافًا إِلَى الْمَفْعُولِ، مصدر کو مفعول کی طرف مضاف کیا گیا ہو، وَيُحْذَفَ الْفَاعِلُ، اور فاعل کو حذف کر دیا گیا ہو، یعنی فاعل کو ذکر نہ کیا جائے۔ اب چوتھی اور پانچویں میں فرق ہے۔ چوتھی میں بھی مصدر مفعول کی طرف مضاف، پانچویں میں بھی مصدر مفعول کی طرف مضاف، لیکن فرق کیا ہے؟ چوتھی میں یہ تھا کہ بعد میں فاعل کو مرفوعاً ذکر کیا گیا تھا، جبکہ پانچویں میں یہ ہے کہ اصلاً فاعل کو حذف کر دیا جائے۔ نَحوُقَوْلِهِ تَعَالَى: قرآنِ مجید کی آیت ہے: "لَا يَسْأَمُ الْإِنْسَانُ مِنْ دُعَاءِ الْخَيْرِ"، اب آپ دیکھیں کہ "دُعَاء" مصدر، "الْخَيْرِ" اپنے مفعول کی طرف مضاف ہے۔ اصل میں تھا: "مِنْ دُعَائِهِ الْخَيْرَھِی جو اس کا فاعل تھا، وہ یہاں پر محذوف ہے ۔

أمّا القياسيّة فسبعة عوامل

الأوّل منها: الفعل مطلقاً سواء كان لازماً أو متعدّياً، ماضياً كان أو مضارعاً، أمراً كان أو نهياً، كلّ فعل يرفع الفاعل، نحو: «قام زيد»، و«ضرب زيد»، وأمّا إذا كان متعدِّياً فينصب المفعول به أيضاً، مثل: «ضرب زيد عمرواً»، ولا يجوز تقديم الفاعل على الفعل بخلاف المفعول؛ فإنَّ تقديمه عليه جائز، ولا يجوز حذف الفاعل بخلاف المفعول؛ فإنَّ حذفه جائز، نحو: «ضرب زيد».

والثاني: المصدر وهو اسم حدث اشتقّ منه الفعل وإنَّما سمّي مصدراً؛ لصُدور الفعل عنه فيكون محلاًّ له. قــــال البصريون: إنَّ المصدر أصل والفعلَ فرع؛ لاستقلاله بنفسه وعدم احتياجه إلى الفعل، بخلاف الفعل؛ فإنّه غير مستقلٍّ بنفسه ومحتاج إلى الاسم، وقال الكوفيّون: إنَّ الفعل أصل والمصدرَ فرع؛ لإعلال المصدر بإعلاله وصِحَّتِه بصحّته، نحو: «قام قياماً»، و «قاوم قواماً»؛ أُعِلَّ «قياماً» بقلب الواو فيه ياءً؛ لقلب الواو ألفاً في «قام»، وصحّ «قواماً»؛ لصحّة «قاوم»، ولا شكّ أن دليل البصريّين يدلّ على أصالة المصدر مطلقاً، ودليل

الكوفيّين يدلّ على أصالة الفعل في الإعلال؛ فلا تلزم منه أصالته مطلقاً، ولو كان هذا القدر يقتضي الأصالة يلزم أن يكون «يَعِدُ» بالياء و«أُكْرِمُ» متكلّماً بالهمزة أصلاً وباقي الأمثلة فرعاً، ولا قائل به أحد.

اعلم أنَّ المصدر يعمل عمل فعله؛ فإن كان فعله لازماً فيرفع الفاعل فقط، مثل: «أعجبني قيام زيد»، وإن كان متعدِّياً فيرفع الفاعل وينصب المفعول، نحو: «أعجبني ضرب زيد عمرواً»؛ فـ «زيد» في المثالين مجرور لفظاً؛ لإضافة المصدر إليه، مرفوع معنى؛ لأنّه فاعل، وهو على خمسة أنواع: أحدها: أن يكون مضافاً إلى الفاعل ويذكر المفعول منصوباً، كالمثال المذكور، وثانيها: أن يكون مضافاً إلى الفاعل ولم يذكر المفعول، نحو: «عجبت من ضرب زيد»، وثالثها: أن يكون مضافاً إلى المفعول حال كونه مبنيّاً للمفعول القائم مقام الفاعل، نحو: «عجبت من ضرب زيد» أي: من أن يُضرَب زيدٌ، ورابعها: أن يكون مضافاً إلى المفعول ويذكر الفاعل مرفوعاً، نحو: «عجبت من ضرب اللصِّ الجلّاد»، وخامسه:ا أن يكون مضافاً إلى المفعول ويحذف الفاعل، نحو قوله تعالى: ﴿لَا يَسْأَمُ الإِنْسَانُ مِن دُعَاءِ الْخَيْرِ [فصلت: ٤٩]، أي: من دعائه الخير.