درس شرح مائة عامل

درس نمبر 27: قیاسی عوامل: فعل اور مصدر 1

 
1

خطبہ

2

قیاسی عوامل کا پہلا عامل: الفِعلُ

أَمّا القِياسِيّةُ فَسَبعَةُ عَوَامِلَ : اَلاَوّلُ مِنہا الفِعلُ۔
ابتداءِ کتاب میں گذارش کی تھی کہ عوامل دو قسم کے ہیں: کچھ عوامل لفظیہ ہیں، اور کچھ عوامل معنویہ ہیں۔ پھر جو عوامل لفظیہ تھے، ان کی پھر دو قسمیں تھیں: کچھ سمائیہ اور کچھ قیاسیہ۔ سماعیہ چونکہ بہت زیادہ تھے، تو انہیں اس لیے تیرہ فصلوں میں سماعیہ کی بحث کوتقسیم کیا گیا۔ اب اس کے بعد شروع فرما رہے ہیں عوامل قیاسیہ۔

اب دوبارہ یاد کریں:
اکیانوی(۹۱) عوامل لفظیہ سماعیہ تھے، اور سات(۷) عوامل لفظیہ قیاسیہ ہیں۔ یہ ہوگئے اکیانوے اور سات۔ اکیانوے اور دو ان شاءاللہ آئیں گے اوامل معنویہ، تو یہ بن جائیں گے سو ّ(۱۰۰)۔ اور ہماری کتاب کا نام بھی تھا: شرح ماۃ عامل یعنی سو عامل کی شرح سماعیہ و قیاسیہ، غالباً پہلے گذارش کی ہو کہ سماعی سے مطلب یہ ہے کہ جو ہم نے عرب سے سنا ہے کہ وہ کس کس لفظ کو عامل قرار دیتے ہیں، اور وہ کیا عمل کرتے ہیں، وہ سماعی کہلاتے ہیں۔ اور قیاسیہ کا مطلب یہ ہے کہ ایک قاعدہ کلیہ آ جائے گا، بس اس قاعدہ کلیہ کے تحت وہ قانون ہوگا، اور پھر وہ آگے چلتا جائے گا۔

مثال:
حروفِ جارہ سترہ تھے، ہم نے وہی سنے، ہم نے وہی لکھے۔ افعالِ ناقصہ جو ہم نے سنے، وہی لکھے۔ لیکن جہاں قیاسیہ میں نہیں، ایک قاعدہ کلیہ ایک ہمیں دے دیں گے۔ مثلاً کلیہ کیا ہے؟ ہر فعل اپنے فاعل کو رفع دیتا ہے۔ یہ ایک قانون آ گیا۔ لہٰذا جتنے بھی فعل ہوں گے، لاکھ کروڑ جتنے بھی آپ شمار کر سکتے ہیں، یہ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا جو بھی فعل ہوگا، چاہے وہ لازم ہو، چاہے متعدی ہو، چاہے ماضی ہو، چاہے مضارع ہو، چاہے امر ہو، چاہے نہی ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

فعل کی اقسام ہیں :
فعل لازم وہ ہوتا ہے کہ جس کے بعد فقط ایک فاعل آ جائے، تو جملہ تام ہو جاتا ہے۔ جیسے:  ذَهَبَ زَيْدٌ۔ ذَهَبَ فعل ہے، زَيْدٌ اس کا فاعل ہے، جملہ تام ہو گیا۔ ذَهَبَ زَيْدٌ، زید چلا گیا۔

اور ایک ہوتا ہے کہ جب تک اس فعل کے فاعل کے بعد اس کے مفعول کو ذکر نہ کیا جائے، تب تک جملہ تام نہیں ہوتا، تب تک بات مکمل نہیں ہوتی۔ جیسے ہم کہتے ہیں: ضَرَبَ زَيْدٌ، زید نے مارا۔ تو اب یہاں سوال ہوگا، سامع بھی منتظر ہوگا کہ زید نے جو مارا، کس کو مارا؟ تو ہمیں مجبوری ہے کہ آگے ہم اس کے مفعول کو ذکر کریں: ضَرَبَ زَيْدٌ عَمَرواََ  ۔ یہ عَمَرواََ  اس کا مفعول ہوتا ہے کہ زید نے عمرو کو مارا۔

لہٰذا اگر یہاں سوال ہو کہ یہ فعل لازم اور متعدی کا کیا مطلب ہے؟ تو آپ مختصر جواب یہاں دیں گے:
فعل لازم اس کو کہتے ہیں کہ جو فقط فاعل کے ذکر کرنے سے بات مکمل ہو جائے، تام ہو جائے۔ اور فعل متعدی وہ ہوتا ہے کہ نہیں، فاعل کے بعد اس کے مفعول کو بھی ذکر کرنا ضروری ہو، جب تک مفعول ذکر نہ ہو، بات مکمل نہ ہو۔پھر فعل کبھی ماضی ہوتا ہے اور کبھی مضارع ہوتا ہے۔
یہ باتیں ہم ماضی و مضارع میں کر چکے ہیں۔ ماضی یعنی گزرے ہوئے زمانے کے بیان کرنا، مضارع یعنی حال یا مستقبل کے بیان کرنا۔فعلِ امر ہوتا ہے، امر کیا ہوتا ہے؟ یعنی کسی سے کچھ کرنے کو طلب کرنا۔ اور نہی ہوتا ہے، یعنی کسی سے کچھ نہ کرنے کو طلب کرنا، یا اس کو روکنا کہ وہ کام نہ کرے۔

عاملِ قیاسیہ میں پہلا عامل لفظیہ قیاسیہ ہے: فِعل۔
جو بھی فعل ہوگا، وہ عمل کیا کرتا ہے؟ عمل یہ کرتا ہے کہ وہ اپنے فاعل کو رفع دیتا ہے۔ یہ قانون آگیا۔ ٹھیک ہے جی؟ پس اگر وہ لازم ہوگا، تو فقط فاعل کو رفع دے گا، اور بعد میں ختم ہو جائے گی۔ اور اگر وہ متعدی ہوگا، تو فاعل کے بعد ایک مفعول کو نصب بھی دے گا۔ یہ ہوتا ہے اس کا عمل۔

بہت توجہ کے ساتھ اگر سوال ہو  کہ فعل کیا عمل کرتا ہے؟

تو آپ جواب دیں گے: فعل، چاہے لازم ہو یا متعدی، فعل اپنے فاعل کو رفع دیتا ہے۔ اور اگر متعدی ہوگا، تو اپنے مفعول کو نصب بھی دے

گا۔ یہ ہو گیا فعل کا عمل۔

اب اس کے بعد کچھ احکام ہیں، وہ ان شاءاللہ بیان کرنے ہیں:

  1. کسی بھی  فعل کے فاعل کو فعل پر مقدم کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ بسااوقات مفعول کو فعل پر مقدم کرنا جائز ہوتا ہے۔ دوبارہ سن لیں: پہلا حکم کیا ہے؟ کسی بھی  فعل کے فاعل کو فعل پر مقدم کرنا جائز نہیں ہے، لیکن یہ جائز ہے کہ مفعول کو فعل پر مقدم کیا جائے، اور فعل بعد میں ہو۔ بلکہ ان شاءاللہ آگے آپ پڑھیں گے، بسااوقات تو ضروری بھی ہوتا ہے کہ اگر مفعول ایسا ہو کہ جو صدارتِ کلام چاہتا ہو، جو ابتداءِ کلام میں آنا چاہتا ہو، تو ان شاءاللہ آگے ہم پڑھیں گے۔
  2. دوسرا حکم یہ ہے کہ فعل کے فاعل کو حذف کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ مفعول کو حذف کرنا جائز ہے۔ یعنی یہ جائز نہیں کہ آپ فعل کو ذکر کریں اور اس کے فاعل کو ذکر نہ کریں۔ لیکن یہ جائز ہے کہ آپ فعل کے ساتھ فاعل کو تو ذکر کر دیں، لیکن اس کے مفعول کو ذکر نہ کریں، حذف کر دیں۔ اس میں یہ جائز ہے۔ یہ بات یہاں ہو گئی۔
    اگلا پھر دوبارہ پڑھتے ہیں:
    أَمّا القِياسِيّةُ یعنی وہ عوامل لفظیہ جو دو قسم کے ہم نے کہے تھے کہ ان میں سے کچھ سماعیہ ہیں، اور کچھ قیاسیہ۔ سماعیہ کو ہم نے تیرہ نوع میں تقسیم کیا تھا، وہ تھے اکیانوے۔ ان کی بات مکمل ہو گئی۔ اب آگئے قیاسیہ۔
    فَسَبْعَةُ عَوَامِلِ قِيَاسِيَّةٍ۔

قیاسیہ عوامل کتنے ہیں؟ فرماتے ہیں: سات عوامل ہیں۔ سات عوامل ہیں قیاسیہ۔ ٹھیک ہے جی؟

خب، میں نے گذارش کی ہے کہ ان کو قیاسیہ کیوں کہتے ہیں؟

چونکہ ان میں سے ایک ایک کو شمار کرنا، جیسے سماعیہ کو، حروفِ جارہ کو گننا آسان تھا، افعالِ ناقصہ کو آسان تھا، حروفِ مشبہ بالفعل کو آسان تھا، وغیرہ وغیرہ، وہ سارے آسان تھے، تھوڑے تھے۔ لیکن یہ ہوتے ہیں بہت زیادہ، تو یہاں ہم ایک قاعدہ کلیہ دے دیتے ہیں کہ بس اس قاعدہ کلیہ میں جو آتا جائے گا، وہ یہ عمل کرے گا۔

اَلاَوَّلُ: ان سات عوامل قیاسیہ میں سے پہلا عامل ہے الفِعلُ ، الفِعلُ  کسے کہتے ہیں؟

بہت توجہ آجائیں۔ آپ جواب دیں گے: فعل، ہر وہ کلمہ  جو کسی معنی پر دلالت کرتا ہو، اور ساتھ ساتھ زمانے کو بھی بیان کرتا ہو۔ بہت آسان۔ جیسے : ضَرَبَ، یہ ضَرَبَ  ایک تو یہ مارنے کی معنی بھی بیان کر رہا ہے کہ اس نے مارا ہے، اور وہ بھی گزرے ہوئے زمانے میں۔ فقط مارنے کو بیان نہیں کر رہا، اس مارنے کے زمانے کو بھی ساتھ بتا رہا ہے کہ کب مارا؟ گزرے ہوئے زمانے میں۔ يَضْرِبُ، اب یہ فعل ہے یہ بھی مارنے کو بیان کر رہے  اور ساتھ مارنے کہ یہ بھی بیان کر رہا ہے کہ زمان آیندہ میں

اب آپ سے پوچھیں: فعل کسے کہتے ہیں؟

فعل وہ لفظ ہے جو کسی کام کے ہونے یا کرنے کو بیان کرتا ہے، اور ساتھ ساتھ  ماضی ، حال ، استقبال کسی بھی  زمانے کو بھی بیان کرتا ہے۔

فرماتے ہیں: عوامل قیاسیہ میں سے پہلا عامل ہے فعل۔

مُطلَقاً فعل، چاہے لازم ہو یا متعدی، اس کی وجہ میں نے گذارش کر دی ہے کہ لازم وہ ہے کہ جو فقط فاعل کے ساتھ تام ہو جائے، مفعول کی

ضرورت نہ رہے۔ اور متعدی وہ ہوتا ہے کہ جس کے لیے اس کے مفعول کی بھی ضرورت پیش آئے۔

ماضياً كان أو مضارعاً، أمراً كان أو نهياً، چاہے وہ فعل ماضی ہو، مضارع ہو، امر ہو، یا نہی ہو:

ماضی: گزرے ہوئے زمانے کی بات بیان کرتا ہے۔

مضارع: حال یا مستقبل کی بات بیان کرتا ہے۔

امر: کسی کام کے کرنے کو طلب کرتا ہے۔

نہی: کسی کام کے نہ کرنے کو طلب کرتا ہے۔
فرماتے ہیں:
کُلُّ فِعْلٍ یَرْفَعُ الْفَاعِلَ۔
قاعدہ کلیہ ، ہر فعل اپنے فاعل کو رفع دیتا ہے۔ فاعل کسے کہتے ہیں؟ بالکل آسان، آپ کہیں گے: جس کی طرف اس فعل کی نسبت دی گئی ہو۔ اسی کو ہم جب کہتے ہیں: ضَرَبَ زَيْدٌ، تو مارنے کی نسبت کس کی طرف دے رہے ہیں؟ زید کی طرف۔ تو یہ زید اس کا فاعل ہے۔مثال:

قَامَ زَيْدٌ۔ (زید کھڑا ہوا۔) یہ فعلِ لازم کی مثال ہے۔

ضَرَبَ زَيْدٌ۔ (زید نے مارا۔) یہ فعلِ متعدی کی مثال ہے۔

وَأَمَّا إِذَا كَانَ مُتَعَدِّيًا:

لیکن اگر یہی فعل لازم نہ ہو، بلکہ فعل متعدی ہو، 

فَيَنْصِبُ الْمَفْعُولَ بِهِ أَيضاً۔ تو پھر وہ دو عمل کرتا ہے، یعنی فاعل کو رفع بھی دیتا ہے، اور ساتھ اپنے مفعول بہ کو نصب بھی دیتا ہے۔
مفعول  بہ کسے کہتے ہیں؟ بالکل آسان جواب: جس پر فاعل کا فعل واقع ہوا ہو۔ جیسے کہتے ہیں: ضَرَبَ زَيْدٌ عَمَرواََ  ۔

ضَرَبَ: فعل

زَيْدٌ فاعل

عَمَرواََ  : مفعول بہ

کیوں؟ چونکہ زید نے جو مارا ہے، اس کا جو فعل ہے، زید کا وہ فعل واقع ہوا ہے عَمروپر۔ یہ اس کا مفعول بہ ہے۔ ضَرَبَ نے زید کو رفع دیا ہے، فاعل ہونے کی بنیاد پر، اور عَمَرواََ  کو نصب دیا ہے، اپنے مفعول ہونے کی بنیاد پر۔
یہ تو تھا فعل کا عمل۔ فعل کا عمل کیا ہے؟ وہ فاعل کو رفع دیتا ہے، اور اگر متعدی ہو، تو مفعول کو نصب بھی دیتا ہے۔

آگے کچھ احکام ہیں:

پہلا حکم:ولا يَجُوزُ تَقدِيمُ الفَاعِلِ عَلى الفِعلِ

کسی بھی فاعل کا اس کے اپنے فعل پر مقدم کرنا جائز نہیں ہے۔ یعنی یہ جائز نہیں کہ ہم فاعل

کو پہلے ذکر کریں، اور فعل کو بعد میں ذکر کریں۔بِخِلافِ المَفعُولِ؛ البتہ یہ جائز ہے کہ فَإنَّ تقديمَه عَليه جَائِزٌ، مفعول کا فعل پر مقدم کیا جائے یہ جائز ہے، یعنی ہم اگر مفعول کو پہلے ذکر کریں، اور فعل کو بعد میں ذکر کریں، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن یہ جائز نہیں کہ ہم فاعل کو پہلے ذکر کریں، اور مفعول کو بعد میں لائیں۔ ایسا جائز نہیں۔

دوسرا حکم:وَلَا يَجُوزُ حَذفُ الفَاعِلِ بِخِلافِ المفعولِ؛  فعل کے فاعل کو حذف کرنا جائز نہیں بخلاف مفعول کے، فَإِنَّ حَذْفَهُ جَائِزٌ۔ مفعول کا حذف جائز ہے۔ کیا مطلب؟ یعنی یہ جائز نہیں ہے کہ ہم فعل کو تو ذکر کریں، اور اس کے فاعل کو ذکر نہ کریں۔ لیکن یہ جائز ہے کہ ہم فعل اور فاعل کو ذکر کریں، لیکن اس کے مفعول کو ذکر نہ کریں۔ یہ جائز ہے۔

مثال: ضَرَبَ زَيْدٌ۔ اگر کہہ دیں، تو کوئی حرج نہیں کہ ضَرَبَ فعل ہے، زَيْدٌ اس کا فاعل ہے، لیکن بعد میں اس کا جو مفعول ہے، وہ حذف ہے، اس کو ذکر نہیں کیا۔ اس سے فرق نہیں پڑتا۔ لیکن خود فاعل کو حذف کرنا یہ جائز نہیں۔

یہ ہو گیا عوامل قیاسیہ میں سے پہلا عامل، وہ ہے فعل۔

3

قیاسی عوامل دوسرا عامل: الْمَصْدَرُ

عوامل قیاسیہ میں سے دوسرا عامل وہ ہے مصدر۔
مصدر کسے کہتے ہیں؟ بہت توجہ کے ساتھ، یہ دقیق بحث ہے۔ مثلاً انہوں نے یہ لکھا ہے:

 الْمَصْدَرُ هُوَ اسْمٌ لِلْحَدَثِ۔ یہ نام ہے اس حدث کا، اِشْتَقَّ مِنه الْفِعْلُ۔ جس سے فعل مشتق ہوتا ہے۔
حَدَثٌ کسے کہتے ہیں؟ کیونکہ یہ سمجھ آئے گی، تو پھر اگلی بات ہوگی۔ حَدَثٌ اس شے کو کہتے ہیں کہ جس کا خود بخود اپنا وجود نہ ہو، بلکہ وہ کسی اور شے کے ساتھ قائم ہو۔ وہ ہوگی تو اس کا وجود ہوگا، وَإِلَّا فَلَا۔مثال:

یہی ضَرْبٌ (مارنا)۔ اب یہ مارنا حدث ہے۔ یہ ایک ایسا معنی ہے کہ ہم کہیں کہ ہمیں یہ خارج میں دکھاؤ کہ مارنے کا کوئی وجود ہے؟ نہیں۔ کیوں؟

جب تک کوئی مارنے والا کسی کو مارے گا نہیں، یہ مار، یعنی مارنا، یہ وجود میں نہیں آتی ۔یہ قیام اور قعود کا اپنا کوئی وجود ہے خارج میں؟ نہیں۔ کوئی

کھڑا ہوگا، تو کہیں گے کہ یہ کھڑا ہے، اس نے قیام کیا۔ کوئی بیٹھے گا، تو کہیں گے کہ یہ قاعد ہے، اس نے قعود کیا۔ یعنی یہ معنی جو اپنا مستقل وجود

نہیں رکھتے، بلکہ جو کسی اور ذات کے ساتھ قائم ہوتے ہیں، کہ وہ اس کام کو کرتے ہیں، تو وہاں سے ظاہر ہوتا ہے، اس کو کہتے ہیں حَدَث۔
تو یہ مصدر بھی حدث ہوتا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں: الضَرْبُ (مارنا)۔ اب یہ جو مارنا ہے، ہم اگر کہیں کہ جناب، ہمیں خارج میں دکھاؤں کہ مارنا اس کا اپنا کوئی وجود ہے؟ جیسے ایک کمرے کا وجود ہوتا ہے، ایک بلڈنگ کا وجود ہوتا ہے، ایک کیمرے یا لیپ ٹاپ کا وجود ہوتا ہے، اس کا کوئی وجود نہیں۔ کیوں؟ جب تک کہ کوئی کسی کو مارے گا نہیں، یہ مارنے کا وجود میں آئے گا۔

اس کو کہتے ہیں: ہر ایسی چیز کو کہتے ہیں کہ یہ حدث ہے، یعنی ایک ایسا معنی جو کسی غیر کے ساتھ قائم ہو۔

ختم ہوگی بات۔
اب مصدر کیا ہے؟
حَدَثٌ کا نام ہے۔ حدث کا معنی سمجھ میں آگیا کہ جو قائم بالغیر ہو۔

آگے فرماتے ہیں:
اس مصدر سے فعل مشتق ہوتا ہے۔ یعنی مصدر کیا ہوتا ہے؟ مَفعَل کا وزن ہے، مقامِ صدور، جس سے کوئی شے نکلے، جس سے کوئی شے صادر ہو۔ تو اس سے بھی جو کہ فعل صادر ہوتا ہے، یہ فعل کے صادر ہونے کا مقام ہے، اس لیے اس کو مصدر کہتے ہیں۔

ایک بحث ہے نحویوں کے درمیان کہ آیا مصدر اصل ہے یا فعل؟
یعنی آیا فعل سے باقی چیزیں مشتق ہوتی ہیں، یا نہیں؟ مصدر اصل ہے، مصدر سے ساری  باقی چیزیں مشتق ہوتی ہیں۔ یہ ایک بحث ہے، اور اس میں دو مستقل نظریے ہیں:

  • بعض کہتے ہیں کہ فعل اصل ہے، اور مصدر فرع ہے۔
  • بعض کہتے ہیں کہ مصدر اصل ہے، اور فعل فرع ہے۔
    دونوں کی اپنی اپنی دلیلیں بھی ہیں، وہ ان شاءاللہ بھی دیکھتے ہیں۔

وَالثَّانِی :  الْمَصْدَرُ هُوَ اسْمٌ لِلْحَدَثِ ،یعنی عوامل قیاسیہ میں سے دوسرا عامل ہے الْمَصْدَرُ۔مصدر کیا ہے؟

وَھُوَ اِسْمُ حَدَثِِ۔ یہ نام ہے حدث کا، اِشْتَقَّ مِنہُ الْفِعْلُ۔ جس سے فعل مشتق ہوتا ہے۔

وَإِنَّمَا سُمِّيَ مَصْدَرًا۔

مصدر کو مصدر کیوں کہتے ہیں؟ اس کا نام مصدر کیوںرکھا  گیا ہے؟

لِصُدُورِ الْفِعْلِ مِنْهُ۔

چونکہ فعل اس مصدر سے صادر ہوتا ہے۔ مصدر مِفعَلٌ کا وزن ہے، یعنی اس سے کچھ صادر ہوتی ہے۔

فَيَكُونُ محلاًّ لَه لہٰذا یہ فعل کے صادر ہونے کا محل ہے۔ چونکہ فعل اسی سے مشتق ہوتا ہے، فعل اسی سے نکلتا ہے، تو اسی لیے اس کو مصدر کہتے ہیں۔ یعنی جس سے کچھ صادر ہو، نکلے، مشتق ہو۔ اور چونکہ اس سے فعل مشتق ہوتا ہے، فعل صادر ہوتا ہے، اس لیے اس کو مصدر کہتے ہیں۔

ایک بحث ہے آگے ان شاءاللہ بڑی کتابوں میں پھر آپ تفصیل سے پڑھیں گے، یہاں فقط اشارہ کافی ہے۔

قـَـــالَ البَصرِيُّونَ ، بصریوں نحویوں کا نظریہ ، بعض بصری نحویوں کا نظریہ یہ ہے کہ

 إِنَّ الْمَصْدَرَ أَصْلٌ، یعنی مصدر اصل ہے، وَالْفِعْلَ فَرْعٌ، جبکہ فعل فرع ہے۔ یعنی مصدر اصل ہے،اور فعل فرع ہے۔دلیل ؟

لِاسْتِقْلَالِهِ بِنَفْسِهِ۔مصدر کیوں اصل ہے؟ اس لیے کہ مصدر اسم ہے، مصدر ایک اسم مُستقل بِنَفْسِهِ ہے، خود ایک مُستقل اسی معنی پر

دلالت کرتا ہے ۔

وعَدَمِ احْتِيَاجِهِ إِلَى الْفِعْلِ،اور مصدر کو کسی فعل کی ضرورت نہیں ہے۔ مصدر، مصدر ہوتا ہے، حدث موجود ہوتا ہے، چاہے اس سے کوئی فعل نکلے یا نہ نکلے، یعنی کوئی اس کو انجام دے یا نہ دے، وہ علیحدہ چیز ہے۔

بِخِلافِ الفِعلِ لیکن فعل مُستقل نہیں ہے۔

فَإِنَّهُ غَيْرُ مُسْتَقِلٍّ بِنَفْسِهِ۔ کیونکہ فعل مصدر کی طرح مُستقل فی ذاتہ نہیں، بلکہ 

وَمُحْتَاجٌ إِلَى الِاسْمِ۔ بلکہ وہ تو مُحتاجِ اسم ہوتا ہے، یعنی یہ مُحتاجِ اسم ہونا اسی غیر مُستقل کی تفسیر ہے۔

کیا مطلب؟ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مُحتاجِ اسم ہے۔ کیوں؟ جب تک فعل کے بعد کسی اسم فاعل  کا ذکر نہ ہو، وہ فعل کیا کرے گا؟ وہ

اسم کا مُحتاج ہے، اس کے بغیر اس کا کوئی معنی ہوتا ہی نہیں۔ جبکہ مصدر کا اپنا مُستقل معنی ہوتا ہے، اور وہ فعل نہ بھی ہو، تو وہ مُحتاج نہیں

ہے۔ یہ نظریہ ہے کس کا؟ بصریوں کا۔

مقابل میں دوسرا نظریہ ہے کوفیوں کا: وقَالَ الكُوفِيُّونَ جو نحوی کوفہ کے ہیں، وہ کہتے ہیں: نہیں، إِنَّ الْفِعْلَ أَصْلٌ، یعنی فعل اصل ہے، وَالْمَصْدَرَ فَرْعٌ، جبکہ مصدر اس کی فرع ہے۔دلیل:

لِإِعْلَالِ الْمَصْدَرِ بِإِعْلَالِهِ وَصِحَّتِهِ بِصِحَّتِهِ۔
بصریوں کی دلیل کیا تھی ؟ وہ کہتے ہیں کہ مصدر اصل ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں  مصدر کا اپنا مُستقل معنی ہوتا ہے، اور وہ فعل کا وہ مُحتاج نہیں ہے ، لحاذا یہ اصل ہے اور فعل اسم کا محتاج ہوتا ہے اور ظاہر ہے جو محتاج ہوتا ہے اس سے غیر محتاج افضل ہوتا ہے ۔اور غیر محتاج اصل ہے اور محتاج فرع ہے ، کوفی کہتے ہیں فعل اصل ہے اور مصدر فرع ہے ، دلیل کیا ہے ؟ تو وہ کہتے ہیں :

وقَالَ الكُوفِيُّونَ جو نحوی کوفہ کے ہیں، وہ کہتے ہیں: نہیں، إِنَّ الْفِعْلَ أَصْلٌ، یعنی فعل اصل ہے، وَالْمَصْدَرَ فَرْعٌ، جبکہ مصدر اس کی فرع ہے۔دلیل یہاں سے شروع ہوتی ہے وہ کہتے ہیں :

لِإِعْلَالِ الْمَصْدَرِ بِإِعْلَالِهِ ۔

چونکہ مصدر کی تعلیل ہوتی ہے فعل کی تعلیل سے یعنی جہاں فعل میں تعلیل ہوگی،اس کے مصدر میں بھی تعلیل ہوگی وَصِحَّتِهِ بِصِحَّتِهِ اور جہاں فعل میں تعلیل نہیں ہوتی تو مصدر میں بھی تعلیل نہیں ہوتی پس مصدر میں تعلیل کا ہونا یا نہ ہونا فعل کی تعلیل کے تابع ہے اس لیئے فعل اصل ہے اور مصدر فرع ہے ۔

تعلیل کیا ہے یعنی ایک حرف کو دوسرے حرف میں تبدیل کرنا جیسے قَامَ ، قِیاماََ

قَامَ (فعل) اور قِيَامٌ (مصدر)۔ قَامَ فعل میں تعلیل ہوئی ہے، لہٰذا اس کے مصدر قِيَامٌ میں بھی تبدیل ہوئی ہے۔

قَوَمَ (فعل) اور قِوَاماً (مصدر)۔

قَوَمَ فعل میں تعلیل نہیں ہوئی، تو اس کے مصدر قِوَاماً میں بھی نہیں ہوئی۔

فرماتے ہیں : أُعِلَّ «قياماً» قیاماََ میں تعلیل کی گئی ہے کیسے ؟

بقلب الواو فيه ياءً؛ قِواماََ کو قیاما ، واو کو یاء میں تبدیل کیا گیا

لِقَلبِ الْوَاوِ ألفاً فِي قَامَ۔
اس لیے کہ قَامَ فعل میں چونکہ واؤ میں تعلیل ہوئی تھی، لہٰذا اس کے مصدر قِيَامٌ میں بھی واؤ میں تعلیل ہو گئی۔

وصَحَّ «قِوَاماً» صحّة «قاوم»لیکن: قَوَمَ فعل میں تعلیل نہیں ہوئی، تو اس کے مصدر قِوَاماً میں بھی نہیں ہوئی۔

لہٰذا چونکہ مصدر تعلیل ہونے یا نہ ہونے میں فعل کی تعلیل کے تابع ہے، اس لیے یہ کہتے ہیں کہ فعل اصل ہے، اور مصدر فرع ہے۔

دو نظریے ہمارے پاس آگئے ہیں:

  1. بصریوں کا نظریہ: مصدر اصل ہے، اور فعل فرع ہے۔
  2. کوفیوں کا نظریہ: فعل اصل ہے، اور مصدر فرع ہے۔

اب ہمارا نظریہ کیا ہے؟
ہم ان شاءاللہ اپنا فیصلہ آگے درس میں سنائیں گے۔

أمّا القياسيّة فسبعة عوامل

الأوّل منها: الفعل مطلقاً سواء كان لازماً أو متعدّياً، ماضياً كان أو مضارعاً، أمراً كان أو نهياً، كلّ فعل يرفع الفاعل، نحو: «قام زيد»، و«ضرب زيد»، وأمّا إذا كان متعدِّياً فينصب المفعول به أيضاً، مثل: «ضرب زيد عمرواً»، ولا يجوز تقديم الفاعل على الفعل بخلاف المفعول؛ فإنَّ تقديمه عليه جائز، ولا يجوز حذف الفاعل بخلاف المفعول؛ فإنَّ حذفه جائز، نحو: «ضرب زيد».

والثاني: المصدر وهو اسم حدث اشتقّ منه الفعل وإنَّما سمّي مصدراً؛ لصُدور الفعل عنه فيكون محلاًّ له. قــــال البصريون: إنَّ المصدر أصل والفعلَ فرع؛ لاستقلاله بنفسه وعدم احتياجه إلى الفعل، بخلاف الفعل؛ فإنّه غير مستقلٍّ بنفسه ومحتاج إلى الاسم، وقال الكوفيّون: إنَّ الفعل أصل والمصدرَ فرع؛ لإعلال المصدر بإعلاله وصِحَّتِه بصحّته، نحو: «قام قياماً»، و «قاوم قواماً»؛ أُعِلَّ «قياماً» بقلب الواو فيه ياءً؛ لقلب الواو ألفاً في «قام»، وصحّ «قواماً»؛ لصحّة «قاوم»، ولا شكّ أن دليل البصريّين يدلّ على أصالة المصدر مطلقاً، ودليل