عوامل قیاسیہ میں سے دوسرا عامل وہ ہے مصدر۔
مصدر کسے کہتے ہیں؟ بہت توجہ کے ساتھ، یہ دقیق بحث ہے۔ مثلاً انہوں نے یہ لکھا ہے:
 الْمَصْدَرُ هُوَ اسْمٌ لِلْحَدَثِ۔ یہ نام ہے اس حدث کا، اِشْتَقَّ مِنه الْفِعْلُ۔ جس سے فعل مشتق ہوتا ہے۔
حَدَثٌ کسے کہتے ہیں؟ کیونکہ یہ سمجھ آئے گی، تو پھر اگلی بات ہوگی۔ حَدَثٌ اس شے کو کہتے ہیں کہ جس کا خود بخود اپنا وجود نہ ہو، بلکہ وہ کسی اور شے کے ساتھ قائم ہو۔ وہ ہوگی تو اس کا وجود ہوگا، وَإِلَّا فَلَا۔مثال:
یہی ضَرْبٌ (مارنا)۔ اب یہ مارنا حدث ہے۔ یہ ایک ایسا معنی ہے کہ ہم کہیں کہ ہمیں یہ خارج میں دکھاؤ کہ مارنے کا کوئی وجود ہے؟ نہیں۔ کیوں؟
جب تک کوئی مارنے والا کسی کو مارے گا نہیں، یہ مار، یعنی مارنا، یہ وجود میں نہیں آتی ۔یہ قیام اور قعود کا اپنا کوئی وجود ہے خارج میں؟ نہیں۔ کوئی
کھڑا ہوگا، تو کہیں گے کہ یہ کھڑا ہے، اس نے قیام کیا۔ کوئی بیٹھے گا، تو کہیں گے کہ یہ قاعد ہے، اس نے قعود کیا۔ یعنی یہ معنی جو اپنا مستقل وجود
نہیں رکھتے، بلکہ جو کسی اور ذات کے ساتھ قائم ہوتے ہیں، کہ وہ اس کام کو کرتے ہیں، تو وہاں سے ظاہر ہوتا ہے، اس کو کہتے ہیں حَدَث۔
تو یہ مصدر بھی حدث ہوتا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں: الضَرْبُ (مارنا)۔ اب یہ جو مارنا ہے، ہم اگر کہیں کہ جناب، ہمیں خارج میں دکھاؤں کہ مارنا اس کا اپنا کوئی وجود ہے؟ جیسے ایک کمرے کا وجود ہوتا ہے، ایک بلڈنگ کا وجود ہوتا ہے، ایک کیمرے یا لیپ ٹاپ کا وجود ہوتا ہے، اس کا کوئی وجود نہیں۔ کیوں؟ جب تک کہ کوئی کسی کو مارے گا نہیں، یہ مارنے کا وجود میں آئے گا۔
اس کو کہتے ہیں: ہر ایسی چیز کو کہتے ہیں کہ یہ حدث ہے، یعنی ایک ایسا معنی جو کسی غیر کے ساتھ قائم ہو۔
ختم ہوگی بات۔
اب مصدر کیا ہے؟
حَدَثٌ کا نام ہے۔ حدث کا معنی سمجھ میں آگیا کہ جو قائم بالغیر ہو۔
آگے فرماتے ہیں:
اس مصدر سے فعل مشتق ہوتا ہے۔ یعنی مصدر کیا ہوتا ہے؟ مَفعَل کا وزن ہے، مقامِ صدور، جس سے کوئی شے نکلے، جس سے کوئی شے صادر ہو۔ تو اس سے بھی جو کہ فعل صادر ہوتا ہے، یہ فعل کے صادر ہونے کا مقام ہے، اس لیے اس کو مصدر کہتے ہیں۔
ایک بحث ہے نحویوں کے درمیان کہ آیا مصدر اصل ہے یا فعل؟
یعنی آیا فعل سے باقی چیزیں مشتق ہوتی ہیں، یا نہیں؟ مصدر اصل ہے، مصدر سے ساری  باقی چیزیں مشتق ہوتی ہیں۔ یہ ایک بحث ہے، اور اس میں دو مستقل نظریے ہیں:
	- بعض کہتے ہیں کہ فعل اصل ہے، اور مصدر فرع ہے۔
- بعض کہتے ہیں کہ مصدر اصل ہے، اور فعل فرع ہے۔
 دونوں کی اپنی اپنی دلیلیں بھی ہیں، وہ ان شاءاللہ بھی دیکھتے ہیں۔
وَالثَّانِی :  الْمَصْدَرُ هُوَ اسْمٌ لِلْحَدَثِ ،یعنی عوامل قیاسیہ میں سے دوسرا عامل ہے الْمَصْدَرُ۔مصدر کیا ہے؟
وَھُوَ اِسْمُ حَدَثِِ۔ یہ نام ہے حدث کا، اِشْتَقَّ مِنہُ الْفِعْلُ۔ جس سے فعل مشتق ہوتا ہے۔
وَإِنَّمَا سُمِّيَ مَصْدَرًا۔
مصدر کو مصدر کیوں کہتے ہیں؟ اس کا نام مصدر کیوںرکھا  گیا ہے؟
لِصُدُورِ الْفِعْلِ مِنْهُ۔
چونکہ فعل اس مصدر سے صادر ہوتا ہے۔ مصدر مِفعَلٌ کا وزن ہے، یعنی اس سے کچھ صادر ہوتی ہے۔
فَيَكُونُ محلاًّ لَه لہٰذا یہ فعل کے صادر ہونے کا محل ہے۔ چونکہ فعل اسی سے مشتق ہوتا ہے، فعل اسی سے نکلتا ہے، تو اسی لیے اس کو مصدر کہتے ہیں۔ یعنی جس سے کچھ صادر ہو، نکلے، مشتق ہو۔ اور چونکہ اس سے فعل مشتق ہوتا ہے، فعل صادر ہوتا ہے، اس لیے اس کو مصدر کہتے ہیں۔
ایک بحث ہے آگے ان شاءاللہ بڑی کتابوں میں پھر آپ تفصیل سے پڑھیں گے، یہاں فقط اشارہ کافی ہے۔
قـَـــالَ البَصرِيُّونَ ، بصریوں نحویوں کا نظریہ ، بعض بصری نحویوں کا نظریہ یہ ہے کہ
 إِنَّ الْمَصْدَرَ أَصْلٌ، یعنی مصدر اصل ہے، وَالْفِعْلَ فَرْعٌ، جبکہ فعل فرع ہے۔ یعنی مصدر اصل ہے،اور فعل فرع ہے۔دلیل ؟
لِاسْتِقْلَالِهِ بِنَفْسِهِ۔مصدر کیوں اصل ہے؟ اس لیے کہ مصدر اسم ہے، مصدر ایک اسم مُستقل بِنَفْسِهِ ہے، خود ایک مُستقل اسی معنی پر
دلالت کرتا ہے ۔
وعَدَمِ احْتِيَاجِهِ إِلَى الْفِعْلِ،اور مصدر کو کسی فعل کی ضرورت نہیں ہے۔ مصدر، مصدر ہوتا ہے، حدث موجود ہوتا ہے، چاہے اس سے کوئی فعل نکلے یا نہ نکلے، یعنی کوئی اس کو انجام دے یا نہ دے، وہ علیحدہ چیز ہے۔
بِخِلافِ الفِعلِ لیکن فعل مُستقل نہیں ہے۔
فَإِنَّهُ غَيْرُ مُسْتَقِلٍّ بِنَفْسِهِ۔ کیونکہ فعل مصدر کی طرح مُستقل فی ذاتہ نہیں، بلکہ 
وَمُحْتَاجٌ إِلَى الِاسْمِ۔ بلکہ وہ تو مُحتاجِ اسم ہوتا ہے، یعنی یہ مُحتاجِ اسم ہونا اسی غیر مُستقل کی تفسیر ہے۔
کیا مطلب؟ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مُحتاجِ اسم ہے۔ کیوں؟ جب تک فعل کے بعد کسی اسم فاعل  کا ذکر نہ ہو، وہ فعل کیا کرے گا؟ وہ
اسم کا مُحتاج ہے، اس کے بغیر اس کا کوئی معنی ہوتا ہی نہیں۔ جبکہ مصدر کا اپنا مُستقل معنی ہوتا ہے، اور وہ فعل نہ بھی ہو، تو وہ مُحتاج نہیں
ہے۔ یہ نظریہ ہے کس کا؟ بصریوں کا۔
مقابل میں دوسرا نظریہ ہے کوفیوں کا: وقَالَ الكُوفِيُّونَ جو نحوی کوفہ کے ہیں، وہ کہتے ہیں: نہیں، إِنَّ الْفِعْلَ أَصْلٌ، یعنی فعل اصل ہے، وَالْمَصْدَرَ فَرْعٌ، جبکہ مصدر اس کی فرع ہے۔دلیل:
لِإِعْلَالِ الْمَصْدَرِ بِإِعْلَالِهِ وَصِحَّتِهِ بِصِحَّتِهِ۔
بصریوں کی دلیل کیا تھی ؟ وہ کہتے ہیں کہ مصدر اصل ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں  مصدر کا اپنا مُستقل معنی ہوتا ہے، اور وہ فعل کا وہ مُحتاج نہیں ہے ، لحاذا یہ اصل ہے اور فعل اسم کا محتاج ہوتا ہے اور ظاہر ہے جو محتاج ہوتا ہے اس سے غیر محتاج افضل ہوتا ہے ۔اور غیر محتاج اصل ہے اور محتاج فرع ہے ، کوفی کہتے ہیں فعل اصل ہے اور مصدر فرع ہے ، دلیل کیا ہے ؟ تو وہ کہتے ہیں :
وقَالَ الكُوفِيُّونَ جو نحوی کوفہ کے ہیں، وہ کہتے ہیں: نہیں، إِنَّ الْفِعْلَ أَصْلٌ، یعنی فعل اصل ہے، وَالْمَصْدَرَ فَرْعٌ، جبکہ مصدر اس کی فرع ہے۔دلیل یہاں سے شروع ہوتی ہے وہ کہتے ہیں :
لِإِعْلَالِ الْمَصْدَرِ بِإِعْلَالِهِ ۔
چونکہ مصدر کی تعلیل ہوتی ہے فعل کی تعلیل سے یعنی جہاں فعل میں تعلیل ہوگی،اس کے مصدر میں بھی تعلیل ہوگی وَصِحَّتِهِ بِصِحَّتِهِ اور جہاں فعل میں تعلیل نہیں ہوتی تو مصدر میں بھی تعلیل نہیں ہوتی پس مصدر میں تعلیل کا ہونا یا نہ ہونا فعل کی تعلیل کے تابع ہے اس لیئے فعل اصل ہے اور مصدر فرع ہے ۔
تعلیل کیا ہے یعنی ایک حرف کو دوسرے حرف میں تبدیل کرنا جیسے قَامَ ، قِیاماََ 
قَامَ (فعل) اور قِيَامٌ (مصدر)۔ قَامَ فعل میں تعلیل ہوئی ہے، لہٰذا اس کے مصدر قِيَامٌ میں بھی تبدیل ہوئی ہے۔
قَوَمَ (فعل) اور قِوَاماً (مصدر)۔
قَوَمَ فعل میں تعلیل نہیں ہوئی، تو اس کے مصدر قِوَاماً میں بھی نہیں ہوئی۔
فرماتے ہیں : أُعِلَّ «قياماً» قیاماََ میں تعلیل کی گئی ہے کیسے ؟
بقلب الواو فيه ياءً؛ قِواماََ کو قیاما ، واو کو یاء میں تبدیل کیا گیا
لِقَلبِ الْوَاوِ ألفاً فِي قَامَ۔
اس لیے کہ قَامَ فعل میں چونکہ واؤ میں تعلیل ہوئی تھی، لہٰذا اس کے مصدر قِيَامٌ میں بھی واؤ میں تعلیل ہو گئی۔
وصَحَّ «قِوَاماً» صحّة «قاوم»لیکن: قَوَمَ فعل میں تعلیل نہیں ہوئی، تو اس کے مصدر قِوَاماً میں بھی نہیں ہوئی۔
لہٰذا چونکہ مصدر تعلیل ہونے یا نہ ہونے میں فعل کی تعلیل کے تابع ہے، اس لیے یہ کہتے ہیں کہ فعل اصل ہے، اور مصدر فرع ہے۔
دو نظریے ہمارے پاس آگئے ہیں:
	- بصریوں کا نظریہ: مصدر اصل ہے، اور فعل فرع ہے۔
- کوفیوں کا نظریہ: فعل اصل ہے، اور مصدر فرع ہے۔
اب ہمارا نظریہ کیا ہے؟
ہم ان شاءاللہ اپنا فیصلہ آگے درس میں سنائیں گے۔