درس شرح مائة عامل

درس نمبر 26: افعال قلوب 2

 
1

خطبہ

2

افعال قلوب کا پہلا حکم

بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَفِي هٰذِهِ الْأَفْعَالِ لَا يَجُوزُ الْاِقْتِصَارُ عَلَىٰ أَحَدِ الْمَفْعُولَيْنِ لِأَنَّهُمَا کَاِسْمِِ وَاحِدِِ، لِأَنَّ مَضْمُونَهُما مَعاََ مَفْعُولٌ بِه ِفيالحَقِيقَة۔

اب یہاں سے افعال قلوب کا عمل تو انہوں نے بتادیا اور مبتدا اور خبر پر داخل ہوکر انہیں مفعولیت کی بنا پر نصب دیتے ہیں ، جن میں سے تین یقین کے لیئے آتے ہیں تین شک کے لیئے ایک مشترک بین الشک و الیقین ہوتا ہے ۔

آج ان کے کچھ احکام بیان فرما رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ افعال قلوب دو مفعولوں کو چاہتے ہیں جیسے ہم مثالوں میں پڑہ آئے ہیں 

پہلا حکم :
افعالِ قلوب کے ساتھ دو مفعولوں میں سے کسی ایک پر اقتصار کرنا  اور دوسرے کو ذکر نہ کرنا جائز نہیں ہے، وجہ کیا ہے ؟ اگرچہ یہ ظاہرا دو مفعول نظر آتے ہیں جیسے «علمت زيداً أميناً»، ، زید ایک اسم ہے امینا دوسرا اسم ہے مگر یہ ہیں بمنزلہ اسم واحد ہے گویا کہ یہ ایک اسم ہیں دو نہیں ،اصل میں یہاں پر جیسے «علمت زيداً فاضلا»، درحقیقت یہ فاضل کا مصدر  ہی مفعول بن رہا ہوتا ہے ، اب اس میں ایک کو ذکر کریں دوسرے کو نہ کریں تو معنی درست نہیں ہوگا مثلا «علمت زيداً فاضلا»، عملت افعال قلوب کا فعل ، زید مفعول اول فاضل مفعول دوم ، درحقیقت یہ گرچہ آپ کو دو اسم دو مفعول نظر آرہے ہیں زید اور فاضل مگر حقیقت میں مفعول ایک ہے وہ ہے فاضل کا مصدر جو کہ فضل ہے درحقیقت وہی مفعول ہے جو پہلے مفعول کی طرف مضاف ہو رہا ہوتا ہے   جیسے «علمت زيداً فاضلاً» اصل میں تھا «علمت فضل زيد» یہ فاضلا کا مصدر ہے فضل یعنی میں نے زید کی فضیلت کو جانا ، یقین کیا ، اگر ہم فقط زید کو ذکر کریں تو یہ بھی درست نہیں یا فقط فضل کو ذکر کریں تو یہ بھی درست نہیں  کیوں جیسے ایک کلمہ یہی زید ، اب زید میں سے آپ زا کو حذف کو حذف کردیں یا دال کو یا یا کو حذف کردیں تو جیسے ایک کلمہ کے ایک جزء کو حذف کرنا درست نہیں ایسے ہیں افعال قلوب کے دو مفعولوں میں سے کسی ایک کو ذکر کرنا اور ایک کو حذف کرنا  ایسے ہی ہے ، تو جیسے وہ درست نہیں تو یہ بھی درست نہیں ۔

پہلا حکم :

وَفِي هٰذِهِ الْأَفْعَالِ لَا يَجُوزُ الْاِقْتِصَارُ عَلَىٰ أَحَدِ الْمَفْعُولَيْنِ لِأَنَّهُمَا کَاِسْمِِ وَاحِدِِ، لِأَنَّ مَضْمُونَهُما مَعاََ مَفْعُولٌ بِه ِفي الحَقِيقَة۔
افعال قلوب کے کسی ایک مفعول پر اقتصار کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ دونوں اسم مفعول ایک اسم کے ہوتے ہیں، حقیقت میں ایک ہیں، کیونکہ دونوں مفعولوں کے مضمون  مل کر ایک مفعول بہ بنتا ہے۔یعنی پہلا اور دوسرا جب ملتے ہیں تو ان کا مضمون جیسے «علمت زيداً فاضلاً» یہاں مضمون کیا ہے اس میں بتایا کیا جا رہا ہے ؟ بتایا جا رہا ہے فضیلت زید کو پس  درحقیقت فضیلت زید ہی عَلِمتُ کا مفعول بہ ہے ۔

اور وہ مضمون کیا ہے ؟ فرماتے ہیں : وهُوَ مَصدَرُ المفعُولِ الثِاني المضافُ إلى المفعولِ الأوّلِ؛ دوسرے مفعول کا مصدر جو پہلے مفعول کی طرف مضاف ہوتا ہے ۔ حقیقت میں مفعول بہ وہی ہوتا ہے

إذ معنى «علمت زيداً فاضلاً»: جب ہم کہتے ہیں زیدا مفعول اور فاضلا مفعول ثانی ، دونوں اسم ہیں دونوں مفعول ہیں  ظاہرا تو دو اسم ہیں بمنزلہ ایک اسم ہیں درحقیقت معنی یوں بنتا ہے اور اس کا معنی یہ ہوگا  «علمت فضل زيد» اس فاضلا کا مصدر ہے فضل جو مضاف ہو رہا ہے زید کی طرف  اور اس کا معنی یہ ہوگا کہ  میں نے زید کے فضل کو جانا۔

فلو حذف أحدهما  اب اگر ان دو مفعولوں میں سے کسی ایک مفعول کر حذف کردیا جائے تو كان كحذف بعض أجزاء الكلمة الواحدة  ، جیسے ایک کلمہ کی  کسی جزء کو حذف کردیا جائے، اور جیسے ایک  کلمہ کے کسی ایک جز کو حذف کر د دینا جائز  نہیں ہوگا۔ اسی طرح، افعالِ قلوب کے دو مفعولوں میں سے کسی ایک کو حذف کرنا جائز  نہیں ہے۔

 یہ ہو گیا افعال قلوب کا پہلا حکم:
یعنی افعالِ قلوب کے دو مفعولوں میں سے کسی ایک کو حذف کرنا جائز نہیں ہے۔

3

افعال قلوب کا دوسرا ،تیسرا،چوتھا، اور پانچواں حکم

دوسرا حکم:
ہم نے جتنی مثالیں پڑھی ہیں، ان میں ہم نے دیکھا ہے کہ پہلے افعالِ قلوب آتے ہیں، پھر ان کے دو مفعول آتے ہیں۔ دوسرا حکم لیکن اگر کبھی بہت توجہ کے ساتھ، اگر کبھی افعال قلوب میں سے جو فعل قلب کا ایک مفعول یا دونوں مفعول ان افعال سے  پہلے آجائیں،۔
اگر افعالِ قلوب میں سے کوئی فعل اپنے دو مفعولوں کے درمیان واقع ہو جائے،آگے مثالیں آرہیں ہیں  یا اس کے دونوں مفعول پہلے آجائیں اور یہ فعل بعد میں آئے، تو ایسی صورت میں افعالِ قلوب کے عمل کو باطل کرنا جائز ہے۔ کیا مطلب؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ چاہیں تو ان کو مفعول بنا کر ان پر نصب پڑھیں، اور یہی فعل ان کو نصب دے، یعنی عمل کرے۔ اور آپ چاہیں تو چونکہ وہ فعل دو مفعولوں کے درمیان آگیا ہے یا بعد میں آگیا ہے، لہٰذا آپ چاہیں تو ان کو اسی طرح مبتدا و خبر بنائیں، اور ان افعالِ قلوب کو ان کا عامل قرار نہ دیں، گویا انہوں نے کوئی عمل کیا ہی نہیں۔ یہ دوسرا حکم ہے۔

إذا توسّطت هذه الأفعال بين مفعوليها، ،اگر یہ افعالِ قلوب درمیان میں آجائیں اپنے دونوں مفعولوں کے  یعنی ایک مفعول پہلے ہو اور ایک مفعول بعد میں ہو، درمیان میں افعالِ قلوب میں سے کوئی ایک فعل موجود ہو، 

أو تأخّرت عنهمایا اس سے بڑھ کر دونوں مفعول پہلے آجائیں اور افعالِ قلوب میں سے کوئی بھی فعل اس کے بعد آجائے، تو ایسی صورتحال ہو ۔

 جازَ إبطالُ عملِها،  افعالِ قلوب کے عمل کو باطل کرنا جائز ہے۔

مقصد کیا ہے؟
یعنی آپ چاہیں تو پھر بھی ان کو ان کا مفعول بنا کر منصوب پڑھ لیں، اور چاہیں تو آپ ان کو آپس میں مبتدا و خبر بنا لیں، اور ان کا مفعول نہ بنائیں، اور یہ اس وقت ان کو نصب نہ دیں۔یعنی عمل کے ابطال کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ دو مفعولوں کو نصب نہ دیں ۔

مثال:

«زيد ظَنَنتُ قائم»، بھی پڑہ سکتے ہیں ، ظَنَنتُ کے عمل کو باطل کر دیں کہ اس نے نہ زید کو نصب دی نہ قائم کو

زَيْدًا ظَنَنتُ قَائِمًا آپ چاہیں تو ظَنَنتُ کے عمل کو برقرار رکھیں، یعنی اس نے زید کو بھی نصب دیا ہے اور قائم کو بھی نصب دیا ہے۔

اسی طرح :

زَيْدٌ قَائِمٌ ظَنَنتُ۔ اگر دونوں مفعول پہلے آگئے ہیں، تو آپ چاہیں تو ظَنَنتُ کے عمل کو باطل کر دیں، یعنی زید اور قائم کو کوئی نصب نہ دیں، اور ان کو مبتدا و خبر بنا لیں۔

زَيْدًا قَائِمًا ظَنَنتُ۔ یا آپ چاہیں تو ظَنَنتُ کے عمل کو برقرار رکھیں، یعنی زید اور قائم کو نصب دیں۔

فَإِعْمَالُهَا وَإِبْطَالُهَا حِينَئِذٍ مُتَّسَاوِيَانِ۔
اس سطر کا ترجمہ غور سے سمجھنا ہے: اگر افعالِ قلوب کے دونوں مفعول ان افعال سے پہلے آجائیں، یا ایک اس فعل قلبی سے پہلے اور ایک بعد میں ہو، تو ان افعال کو عمل دینا (یعنی ان کا عمل کرنا) اور ان کے عمل کو باطل کرنا دونوں برابر ہیں۔ 

یعنی زَيْدٌ قَائِمٌ ظَنَنتُ اور زَيْدًا قَائِمًا ظَنَنتُ پڑھنے میں کسی کو کسی پر کوئی ترجیح نہیں ہے۔ آپ کو اختیار ہے کہ آپ چاہیں تو ظَنَنتُ کو عمل دے کر زَيْدًا قَائِمًا ظَنَنتُ پڑھیں، اور آپ چاہیں تو اس کے عمل کو باطل کریں، اور آپ کہیں زَيْدٌ قَائِمٌ ظَنَنتُ۔

درمیان میں ایک جملہ یہ فرماتے ہیں:
وَقَالَ بَعْضُهُمْ بعض نحوی حضرات کہتے ہیں کہ 

«إنَّ إعمالَها أولى على تقديرِ التوسّطِ، وإبطالَها أولى على تقديرِ التأخّر»،ہم نے کیا کھا ہے کہ اگر افعالِ قلوب کے دونوں مفعول ان افعال سے پہلے آجائیں، یا ایک اس فعل قلبی سے پہلے اور ایک بعد میں ہو، تو ان افعال کو عمل دینا (یعنی ان کا عمل کرنا) اور ان کے عمل کو باطل کرنا دونوں برابر ہیں۔ لیکن بعض علمِ نحو تفصیل کے قائل ہیں٘ کہ  اگر افعالِ قلوب میں سے کسی فعل کا ایک مفعول فعل سے پہلے ہو فعل سے  اور ایک بعد میں ہو، یعنی وہ فعلِ قلبی درمیان میں آجائے اپنے مفعولوں کے ، تو وہاں عمل کرنا اولیٰ ہے۔ یعنی وہاں بہتر یہ ہے کہ وہ فعلِ قلبی عمل کرے، یعنی ان کو مفعول بنایا جائے اور ان پر نصب پڑھیں۔زَيْدًا ظَنَنتُ قَائِمًا پڑہنا اولیٰ ہے

وإبطالَها أولى على تقديرِ التأخّرلیکن اگر دونوں مفعول ان افعالِ قلوب سے پہلے ہوں، فعلِ قلبی سے پہلے ہوں  تو وہ کہتے ہیں کہ پھر ان کے عمل کو باطل کر دینا اولیٰ ہے۔
یعنی زَيْدٌ قَائِمٌ ظَنَنتُ پڑھنا بہتر ہے، اولیٰ ہے  بنسبت زَيْدًا قَائِمًا ظَنَنتُ کے۔

تیسرا حکم:
یہ جو ہم نے کہا ہے کہ عَلِمْتُ اور رَأَيْتُ افعالِ قلوب میں سے ہیں، لیکن اگر ان سے پہلے ہمزہ آ جائے، تو یہ باب افعال میں تبدیل ہو جائیں گے۔ أَعلَمتُ ،أَرأَيتُ  ہمزہ سے مراد یہ ہے کہ یہ باب افعال میں تبدیل ہو جائیں، نہ کہ وہ ہمزہ استفہام والا۔

اگر عَلِمْتُ اور رَأَيْتُ ثلاثی مجرد سے باب افعال میں تبدیل ہو جائیں، تو پھر یہ دو مفعول نہیں، بلکہ تین مفعولوں کی طرف متعدی ہوں گے۔
یعنی عَلِمْتُ کی بجائے اگر ہم پڑھتے ہیں أَعْلَمْتُ، تو اس کے بعد تین مفعول ہوں گے، دو مفعول نہیں ہوں گے۔ اسی طرح رَأَيْتُ کی بجائے اگر ہوگا أَرْأَيْتُ، تو پھر وہاں اس کے بعد تین مفعول ہوں گے، دو مفعول نہیں ہوں گے
وإِذا زِيدَتِ الهَمزةُ في أوّلِ «عَلِمتُ» و «رَأَيتُ» اگر ہمزہ کی زیادتی کی جائے: اگر عَلِمْتُ اوررَأَيتُ  کی ابتدا میں ہمزہ کی زیادتی کی جائے، تو یہ لفظی ترجمہ ہوگیا۔ لیکن آپ نے کاپی پر یوں لکھنا ہے: اگر کوئی عَلِمْتُ اور رَأَيتُ ثلاثی مجرد سے مزید فیہ میں، یعنی باب افعال میں تبدیل کر دیا جائے،صَارَا

مُتَعدّيين إلى ثلاثةِ مَفاعيلَ تو پھر یہ أَعْلَمْتُ اور أَرْأَيْتُ متعدی ہوں گے تین مفعولوں کی طرف  یعنی ان کے بعد تین مفعول ہوں گے، دو نہیں ہوں گے۔

مثال:

  • أَعْلَمْتُ زَيْدًا عَمَرواََ فَاضِلًا۔
    یہاں أَعْلَمْتُ فعل ہے از افعال قلوب ، زَيْدًا مفعول اول ہے، عمرواََ  مفعول دوم ہے، اور فَاضِلًا مفعول سوم ہے۔

اب اس کا معنی کیا ہوگا؟
أَعْلَمْتُ میں نے جنوایا زَيْدًا زید کو، عَمَرواََ فَاضِلًا کہ عمر فاضل ہے۔ اگر عَلِمْتُ ہوتا، تو ہم پڑھتے عَلِمْتُ عَمَرواََ فَاضِلًا، لیکن اب میں نے جنوایا، یعنی کسی کو خود نہیں جانا، بلکہ اگلے بندے کو جنوایا۔

اسی طرح:

  • أَرْأَيْتُ عَمَرواََ خَالِدًا عَالِمًا۔
    یہاں أَرْأَيْتُ فعل ہے، عَمَرواََ مفعول اول ہے، خَالِدًا مفعول دوم ہے، اور عَالِمًا مفعول سوم ہے۔

کیوں؟ فرماتے ہیں:

 فَزِيدَ فِيهِمَا بِسَبَبِ الْهَمْزَةِ مفعولٌ آخرُ؛
یعنی ان دو میں  أَعْلَمْتُ اور أَرْأَيْتُ ایک ہمزہ آگیا  تو ہمزہ کی وجہ سے ایک مفعول کا اضافہ کیا گیا۔یہ تو لفظی ترجمہ ہے مرادی ترجمہ کیا ہوگا ؟ جب ہم نے  أَعْلَمْتُ اور  أَرْأَيْتُ ثلاثی مجر د سے باب افعال میں تبدیل کیا تو ایک مفعول کا اضافہ ہوگیا  کیوں؟

لِانَّ الْهَمْزَةَ لِلتَّصيِيرِ۔
کیونکہ ہمزہ آتا ہے تصییر کے لیے۔ کئی دفعہ ہم نے کہا ہے کہ عَلِمَ ہوتا ہے جاننا، اور أَعْلَمَ ہوتا ہے جنوایا۔ ٹھیک ہے جی؟ ذَهَبَ جانا، أَذْهَبَ لے جانا۔ یعنی وہ کسی اور کے لیے ہوتا ہے۔

پس فمعنى المثال الأوّل :

  • أَعْلَمْتُ زَيْدًا عَمَرواََ فَاضِلًا۔
    اس کا مطلب کیا ہے؟ حَمَلْتُ زَيْدًا عَلَى أَنْ يَعْلَمَ أَنَّ عَمَرواََ فَاضِلًا۔ یعنی میں نے زید کو آمادہ کیا، وادار کیا اس بات پر کہ وہ یہ بات جان لے کہ عمر و فاضل ہے۔

اسی طرح ومعنى المثال الثاني:

  • أَرْأَيْتُ عَمَرواََ خَالِدًا عَالِمًا۔
    اس کا معنی بھی کیا ہوگا؟حملت عمرواً على أن يعلم خالداً عالِماً یعنی میں نے عَمَروکو آمادہ کیا اس بات پر کہ وہ جان لے کہ خالد عالم ہے۔

ٹھیک ہے، ختم۔

چوتھا حکم:
یہ جو ہم نے کہا ہے کہ یہ  حکم فقط عَلِمْتُ اور رَأَيْتُ کے لیے ہے کہ ان کو اگر باب افعال میں تبدیل کریں تو ان میں ایک مفعول کا اضافہ ہو جاتا ہے  چوتھا حکم یہ ہے کہ یہ  حکم فقط عَلِمْتُ اور رَأَيْتُ کے لیے ہے، باقی پانچ جو افعالِ قلوب میں سے ہیں، ان کے لیے یہ حکم نہیں ہے کہ ان کو بھی ہم بابِ افعال میں تبدیل کر دیں، یعنی وَجَدْتُ کو أَوْجَدْتُ بنا دیں، یا خِلْتُ کو أَخْلْتُ بنا دیں۔ فرماتے ہیں: نہیں،

یہ چوتھا حکم ہے۔ ذَلِكَ مَخْصُوصٌ بِهَذَيْنِ الْفِعْلَيْنِ۔
یعنی اس سے مطلب یہ ہے کہ یہ جو ہم نے کہا ہے کہ جب عَلِمْتُ اور رَأَيْتُ کے ابتدا میں ہمزہ لائیں گے، یعنی بابِ افعال میں تبدیل کریں گے، تو دو مفعولوں پر ایک مفعول کا اضافہ ہو جائے گا، یہ فقط عَلِمْتُ اور رَأَيْتُ کے لیے یہ حکم مختص ہے۔ 

دُونَ ا خَوَاتِهِمَا۔
یعنی ان کے باقی بھائیوں، یعنی حَسِبْتُ، زَنَنْتُ، وَجَدْتُ، خِلْتُ، اور ظَنَنْتُ، ان کے لیے یہ حکم نہیں ہے کہ ہم ان کو بھی بابِ افعال میں تبدیل کریں اور پھر ایک مفعول کا اضافہ کریں۔

کیوں؟
وَھَذَا مَسْمُوعٌ مِنَ الْعَرَبِ۔
کیونکہ ہم نے عرب سے یہی سنا ہے کہ وہ عَلِمْتُ اور رَأَيْتُ کو بابِ افعال میں تبدیل کرکے ایک مفعول کا اضافہ کرتے ہیں، لیکن باقیوں کے بارے میں ایسا حکم نہیں ہے۔

خِلَافًا لِلْأَخْفَشِ۔
اخفش، جو بہت بڑا نحوی ہے، اس بات سے اختلاف کرتا ہے۔ کونسی بات؟ کہ فقط عَلِمْتُ اور رَأَيْتُ کو باب افعال میں تبدیک کر کے ایک مفعول کا اضافہ کیا جاسکتا ہے باقی پانچ میں نہیں۔ کیوں؟

فَإِنَّهُ أَجَازَ۔
اخفش نحوی اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ وہ اس نظریہ کا قائل ہے کہ

 زيادة الهمزة في جميع هذه الأفعال ہمزہ کی زیادتی، یعنی بابِ افعال میں تبدیل کرنا، فقط عَلِمْتُ اور رَأَيْتُ کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ تمام افعالِ قلوب کو بابِ افعال کا ہمزہ دیا جا سکتا ہے۔ یعنی ان میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔قياساً على «أعلمت» و «أرأيت»

جیسے علمت کو اعلمت رئیت کو ارئیت پڑہ سکتے ہیں :

  • أَحْسَبْتُ، أَخْلْتُ، أَوْجَدْتُ، وأزعمت زيداً عمرواً فاضلاً»۔
    یہ سب جائز ہیں۔ لہٰذا أَحْسَبْتُ، أَوْجَدْتُ، أَخْلْتُ، أَوْجَدْتُ وأزعمت پڑھنا جائز ہے۔

ٹھیک ہے جی، یہ بات یہاں پر ختم ہو گئی۔

آخر میں ایک اور پانچواں حکم و نقطہ:
فرماتے ہیں: 

أَنْبَأَ نَبَّأَ  أَخْبَرَ خَبَّر أيضاً تتعدَّى إلى ثلاثة مفاعيل،
 یہ سب خبر دینے کی معنی میں ہوتے ہیں  أَنْبَأَ ،أَخْبَرَ   دو باب افعال سے  ، نَبَّأَ  خَبَّر  دو باب تفعیل سے ،  یہ  جو افعال ہیں یہ  بھی تین مفعولوں کی طرف متعدی ہوتے ہیں۔ یعنی أَنْبَأَ نَبَّأَ  أَخْبَرَ خَبَّر ان کے بعد بھی یہ ان افعال میں سے  ہیں جو اپنے بعد تین مفعول چاہتے ہیں۔

اَخبَر یا اَخبَرتُ زیداََ یہ زیداََ پہلا مفعول ہوگیا عمرواََ فاضلا یا ذاھباََ فرماتے ہیں أَنْبَأَ نَبَّأَ  أَخْبَرَ خَبَّر یہ چار افعال بھی ان فعلوں میں سے ہیں جو تین مفعولوں کی طرف متعدی ہوتے ہیں ۔

آخری حکم ان کا یہ ہے کہ اعلم أنّه لا يجوز حذف المفعول الأوّل من المفاعيل الثلاثة لكنْ يجوز حذف المفعولين الأخيرين معاً، ولا يجوز حذف أحدهما بدون الآخر كما مرّ. یہ ایک حکم ہے وہ تمام افعال جو تین مفعولوں کی طرف متعدی ہوتے ہیں جیسے اعلمت ، ارئیت ، أَنْبَأَ، نَبَّأَ ، أَخْبَرَ ،خَبَّر یعنی وہ فعل جن کو تین مفعول درکار ہوتے ہیں ان میں قانون یہ ہے کہ کبھی بھی ان تین مفعولوں میں سے پہلے مفعول کو حذف کرنا جائز نہیں ہے کسی صورت بھی ، باقی دوسرا اور تیسرا اس کا حکم یہ ہے کہ یا ان دونوں کو حذف کریں یا دونوں کو ذکر کریں لیکن آپ فقط دوسرے یا تیسرے کو حذف کریں تو یہ جائز نہیں کیونکہ یہ ظاہرا یہ دوسرا اور تیسرا آپ کو دو اسم نظر آتے ہیں پر ہوتے بمنزلہ اسم واحد کے ہیں ۔

المفعول الثاني، مثل: «ظننت زيداً»، أي: أتّهمته، وأمّا الثلاثة الثانية فـ «عَلِمْتُ» و «رَأَيْتُ» و «وَجَدتُ»، مثل: «علمت زيداً أميناً»، و «رأيت عمرواً فاضلاً»، و«وجدت البيت رهيناً»، و «علمت» قد يجيء بمعنى «عرفت»، نحو: «علمت زيداً» أي: عرفته، و «رأيت» قد يكون بمعنى «أبصرت» كقوله تعالى: ﴿فَانظُرْ مَاذَا تَرَى [الصافات: ۱۰۲]، و«وجدت» قد يكون بمعنى «أصبت»، مثل: «وجدت الضالّة» أي: أصبتها؛ فإنَّ كلّ واحد من هذه المعاني لا يقتضي إلّا متعلَّقاً واحداً فلا يتعدّى إلّا إلى مفعول واحد، والواحد المشترَك بينهما هو «زعمت» مثل: «زعمت الله غفوراً»؛ فهو لليقين، و «زعمت الشيطان شكوراً» فهو للشكّ، وفي هذه الأفعال لا يجوز الاقتصار على أحد المفعولين؛ لأنّهما كاسم واحد؛ لأنّ مضمونهما معاً مفعول به في الحقيقة، وهو مصدر المفعول الثاني المضافُ إلى المفعول الأوّل؛ إذ معنى «علمت زيداً فاضلاً»: «علمت فضل زيد»؛ فلو حذف أحدهما كان كحذف بعض أجزاء الكلمة الواحدة، وإذا توسّطت هذه الأفعال بين مفعوليها، أو تأخّرت عنهما جاز إبطال عملها، مثل: «زيد ظننت قائم»، و«زيداً ظننت قائماً»، و «زيد قائم ظننت» و «زيداً قائماً ظننت»؛ فإعمالُها وإبطالُها

حينئذ متساويان، وقال بعضهم: «إنّ إعمالَها أولى على تقدير التوسّط، وإبطالَها أولى على تقدير التأخّر»، وإذا زيدت الهمزة في أوّل «علمت» و «رأيت» صارا متعدّيين إلى ثلاثة مفاعيلَ نحو: «أعلمت زيداً عمرواً فاضلاً»، و«أرأيت عمرواً خالداً عالِماً»؛ فزِيْدَ فيهما بسبب الهمزة مفعولٌ آخرُ؛ لأنَّ الهمزة للتصيير؛ فمعنى المثال الأوّل: «حملت زيداً على أن يعلم عمرواً فاضلاً» ومعنى المثال الثاني: «حملت عمرواً على أن يعلم خالداً عالِماً»، وذلك مخصوص بهذين الفعلين دون أخواتهما، وهذا مسموع من العرب خلافاً للأخفش؛ فإنّه أجاز زيادة الهمزة في جميع هذه الأفعال قياساً على «أعلمت» و «أرأيت» نحو: «أظننت وأحسبت وأخلت وأوجدت وأزعمت زيداً عمرواً فاضلاً»، و«أَنْبَأَ» و «نَبَّأَ» و «أَخْبَرَ» و «خَبَّرَ» أيضاً تتعدَّى إلى ثلاثة مفاعيل، اعلم أنّه لا يجوز حذف المفعول الأوّل من المفاعيل الثلاثة لكنْ يجوز حذف المفعولين الأخيرين معاً، ولا يجوز حذف أحدهما بدون الآخر كما مرّ.