درس شرح مائة عامل

درس نمبر 25: افعال قلوب 1

 
1

خطبہ

2

افعال قلوب: حَسِبتُ، ظَنَنْتُ اور خِلتُ کی بحث

اَلنَّوعُ الثَالِثُ عَشَر

أَفعالُ القُلُوبِ وَإِنَّما سُمِّيَت بِهَا؛ لِأَنَّ صُدُورَهَا مِنَ القَلبِ وَلَا دَخَلَ فِيه لِلَجوارِحِ، وَتُسَمّى أفعالُ الشَكِّ وَاليقينِ أيضاً؛

الحمد للہ عوامل لفظیہ سماعیہ کی تیرا انواع تھیں جن میں سے بارہ کی بحث مکمل ہوگئی ، آج تیرویں اور آخری نوع ہے جس کے بعد عوامل معنویہ کی بحث آجائے گی ۔

تیرویں نوع عوامل لفظیہ سماعیہ میں سے ہیں افعال القلوب ، قلوب ، قلب دل کو کہتے ہیں ، یہ افعال قلوب کیا مطلب ؟ اس کا مطلب ہے کہ یہ وہ افعال ہیں جن کا تعلق قلب ، دل کے ساتھ ہے ۔

فرماتے ہیں :  افعال القلوب،  ان افعال کے معنی اعضاء و جوارح سے صادر نہیں ہوتے، بلکہ ان کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، جب میں کہتا ہوں: "مجھے یقین ہے کہ یہ کام ایسا ہوا ہے"، تو یقین کا تعلق آنکھ، ہاتھ، یا زبان سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق دل سے ہے۔ جب میں کہتا ہوں: "مجھے فلاں بات پر شک ہے"، تو شک کا تعلق بھی کسی ظاہری عضو (جیسے ہاتھ، پاؤں، زبان، یا آنکھ) سے نہیں ہوتا، بلکہ اس کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ چونکہ یہ افعال کے معنی دل سے صادر ہوتے ہیں، اس لیے انہیں "افعال القلوب" کہا جاتا ہے، یعنی دل سے متعلق افعال۔

انہی افعال القلوب کو "افعال شک و یقین" بھی کہا جاتا ہے۔ لہٰذا، اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ افعال القلوب کون سے ہیں، تو آپ انہیں بتا سکتے ہیں۔ اگر وہ یہ بھی پوچھے کہ افعال شک و یقین کون سے ہیں، تو آپ پریشان نہ ہوں، کیونکہ یہی افعال القلوب ہیں، جنہیں افعال شک و یقین بھی کہا جاتا ہے۔

افعال شک و یقین کیوں کہا جاتا ہے؟ ان شاءاللہ ہم آگے بتائیں گے کہ یہ کل سات ہیں: تین شک کے لیے استعمال ہوتے ہیں، تین یقین کے لیے استعمال ہوتے ہیں، اور ایک فعل مشترک ہے، جو شک اور یقین دونوں میں استعمال ہو سکتا ہے۔

افعال القلوب جملہ اسمیہ پر داخل ہوتے ہیں، یعنی اگر یہ افعال جملہ اسمیہ پر داخل نہ ہوں، تو جملہ اسمیہ میں مبتدا اور خبر ہوتے ہیں۔ لیکن جب افعال القلوب جملہ اسمیہ پر داخل ہوتے ہیں، تو مبتدا اور خبر دونوں منصوب ہو جاتے ہیں اور ان افعال کے مفعول بن جاتے ہیں۔

اَلنَّوعُ الثَالِثُ عَشَر ، تیرویں  اور آخری نوع عوامل لفظیہ سماعیہ میں سے ہیں افعال القلوب  کے بارے میں ہیں ،سوال ہوگا :  قلوب  جمع ہے، قلب کی قلب کہتے ہیں  دل کو ، یہ افعال قلوب کیا مطلب ؟

وَإِنَّما سُمِّيَت بِهَا؛افعال القلوب  کا نام افعال قلوب اس لیئے رکھا گیا ہے  لِأَنَّ صُدُورَهَا مِنَ القَلبِ یہ صادر ہوتے ہیں دل سے یعنی ان کے معانی صادر ہوتے ہیں دل سے  وَلَا دَخَلَ فِيه لِلَجوارِحِ،ان میں انسانی اعضاء و جوارح کا ان افعال کے معانی کے صادر ہونے کے لیئے کسی اعضاء و جوارح کا تعلق نہیں بلکہ ان سب  کا تعلق دل سے ہے  وَتُسَمّى أَفعَالُ الشَكِّ وَاليقينِ أيضاً؛ اور انہی کا نام افعال شک و یقین بھی رکھا جاتا ہے ، انہی کو افعال قلوب بھی کہتے ہیں اور انہی کو افعال شک و یقین بھی کہتے ہیں ۔انہیں افعال شک و یقین کیوں کہتے ہیں ؟افعال قلوب کہنے کی بات تو سمجھ میں آگئی ؟

لِأَنَّ بَعضَهَا لِلشَكِّ وَبَعضَهَا لِليَقِينِ، کیونکہ ان میں سے کچھ افعال شک کے لیئ آتے ہیں اور بعض آتے ہیں یقین کے لیئے یعنی بعض افعال ایسے ہیں کہ انسان کے دل میں شک ہو تو وہاں ان کو استعمال کیا جاتا ہے اور جہاں دل میں یقین ہو تو وہاں وہ استعمال ہوتے ہیں ۔

وَهِيَ تَدخُلُ عَلى المُبتَدَأِ وَالخَبَرِ،یہ افعال مبتدا اور خبر پر داخل ہوتے ہیں ، یعنی اگر یہ افعال قلوب ان پر داخل نہ ہوئے ہوتے تو یہ بعد والے اسم آپس میں مبتدا اور خبر ہوتے ، آگے مثال سے سمجھا دیں گے ۔

وَ تَنصِبُهُما مَعَاً،اور یہ افعال قلوب ان دونوں اسماء ( مبتدا اور خبر ) کو نصب دیتے ہیں اور دونوں ہو جائیں گے منصوب کیوں منصوب ہونگے ؟ أَن يَكُونَا مَفعُولَينِ لهَا، وہ دونوں اسم جو آپس میں مبتدا اور خبر تھے وہ دونوں ان افعال قلوب کے دو مفعول بن جائیں گے ، یعنی افعال قلوب دو مفعولوں کو چاہتے ہیں کبھی تین کو بھی چاہتے ہیں ۔

وَهِيَ سَبعَةٌ ، افعال قلوب ساتھ ہیں   ثَلَاثَةٌ مِنهَا لِلشَّكِّ، تین ہیں شک کے لیئے کیا مطلب ؟ جس چیز کے بارے میں ہمیں شک ہوگا وہاں پر ان تین کو استعمال کریں گے   

وَثَلاثَةٌ مِنها لِليَقِينِ، اور تین ہیں یقین کے لیئے یعنی جس چیز کے بارے میں ہمیں یقین ہوگا ہم ان تین کا استعمال کرتے ہیں ۔  

وَوَاحِدٌ مِنها مُشتَرَكٌ بَينَهما؛  اور ایک ان میں سے مشترک ہے یعنی شک کی صورت میں بھی اور یقین کی صورت میں بھی صحیح ہے ۔

وہ افعال جو شک کے لیئے آتے ہیں یعنی جس چیز کے بارے میں آپ کو شک ہو یقین کی کیفیت نہ ہو وہاں آپ شک کی صورت میں کسی مطلب کو بیان کرنا چاہتے ہیں تو ان تین کا استعمال کریں گے :

  1. تین افعال شک کے لیے:
    • حَسِبْتُ (سمجھنا) : «حَسِبتُ زَيداً فاضِلاً» (میں نے زید کو فاضل سمجھا) لیکن یہ جو آپ حَسِبْتُ کھ رہے ہیں کہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ مجھے یقین نہیں ہے (حَسِبَ یَحسَبُ  ، گمان کرنا) ( حَسِبْتُ  کا معنی یوں بھی کر سکتے ہیں ، میں نے گمان کیا زید کو فاضل ہے)

      اب پچھلی باتیں یہاں ملائیں:
      حَسِبْتُ افعالِ قلوب میں سے ہے۔ اس کا مدخول ہے  زَیْدًا فَاضِلًا۔ اب اگر اس زَیْدًا فَاضِلًا سے پہلے حَسِبْتُ نہ ہوتا، صرف زَیْدٌ اور فَاضِلٌ یہ دو اسم ہوتے، تو یہ آپس میں مبتدا اور خبر تھے، یعنی زَیْدٌ فَاضِلٌ۔ زَیْدٌ مبتدا ہے، فَاضِلٌ اس کی خبر ہے۔ اب جب اس سے پہلے حَسِبْتُ آگیا، تو اب یہ دونوں اس حَسِبْتُ کے مفعول بن گئے۔ زَیْدًا ،مفعولِ اول ہے، فَاضِلًا ،مفعولِ ثانی ہے۔

      حَسِبْتُ میں نے جیسے کہا ہے،  گمان کرنا۔ پس حَسِبْتُ افعالِ قلوب میں سے ہے۔ زَیْدًا فَاضِلًا یہ دو اس کے مفعول ہیں، اور ان دونوں کو نصب اس حَسِبْتُ نے دیا ہے۔ حَسِبْتُ میں نے گمان کیا زید کو کہ وہ فاضل ہے۔ اب سمجھ آگئی۔

اسی طرح آگے فرماتے ہیں:
ظَنَنْتُ، ظَنَّ، یَظُنُّ۔ ظَنَّ، یَظُنُّ بھی گمان کے معنی میں آتا ہے۔ یہ ہم اردو میں استعمال کرتے ہیں کہ میں گمان کرتا ہوں، میں نے گمان کیا۔ مثال: ظَنَنْتُ بَکرًا نَائِمًا۔ (میں نے گمان کیا کہ بکر سو رہا ہے۔) اب بَکراََ مفعول اول نَائِماََ مفعول ثانی۔

«خِلتُ خَالِداً قَائِماً» خَالَ ، یَخَالُ یہ ہوتا ہے خیال کرنا یہ وہی گمان کی معنی ہے   یہ دو اسی گمان کے معنی میں ہیں۔میں نے خیال کیا کہ  خالد کو  کہ وہ  کھڑا ہے۔ اب خیال جو ہے  وہ  یقین نہیں ہوتا۔ پس حَسِبْتُ، ظَنَنْتُ، اور خِلْتُ یہ یقین کے برخلاف، یعنی شک کے لیے آتے ہیں۔ ٹھیک ہے۔

آگے ایک جملہ ہے، جیسے میں نے کہا ہے:
ظَنَنْتُ ایک ہوتا ہے:ظَنَّ، یَظُنُّ۔ فرماتے ہیں: و«ظَنَنتُ» إِذَا كَانَ مِن الظِنَّةِ۔ یہی ظَنَنْتُ ایک دفعہ یہ مصدر اس کا ہوتا ہے: اَلظَّنُّ۔گمان  اَلظِّنَّةُ ، یعنی ظا کے اوپر  کسرہ ہوتا ہے۔ اگر یہ ظَنَنْتُ ، اَلظِّنَّةُ سے مشتق ہو، تو اَلظِّنَّةُ کامعنی ہوتا ہے، تہمت لگانا، اب دھیان سے غور کرنا ہے۔ اگر ظَنَنْتُ بمعنی گمان کے ہوگا، کہ میرا ظَن یہ ہے، میرا گمان یہ ہے، پھر تو یہ ہوگا افعالِ قلوب میں سے، اور اس کے مفعول بھی بعد میں دو ہوں گے۔ لیکن اگر یہی ظَنَنْتُ ،الظِنَّہ سے مشتق ہو، الظِنَّةِ کہتے ہیں تہمت کو، تو پھر یہ افعالِ قلوب سے نہ ہوگا۔

 لَمْ يَقْتَضِ مَفْعُولَ الثَّانِيَ، اور پھر یہ دوسرے مفعول کو تقاضا بھی نہیں کرے گا، چونکہ پھر یہ افعالِ قلوب میں سے ہی نہیں ہوگا۔

مثلاً آپ کہیں گے:

ظَنَنْتُ زَیْدًا۔اگر یہ اَلظِّنَّةُ سے مشتق ہوگا، تو اس کا ترجمہ ہوگا: میں نے زید پر تہمت لگائی،اب یہاں اس کا افعالِ قلوب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

أَي: أِتَّهَمتُهُ،یعنی میں نے اس پر تہمت لگائی۔ یہ تین تو ہوگئے جو افعالِ شک ہیں۔

3

افعال قلوب: عَلِمْتُ، رَأَيْتُ، اور وَجَدْتُ کی بحث

اسی طرح فرماتے ہیں:
وَأَمَّا الثَلَاثَةُ الثَّانِيَةُ۔ اب میں نے جیسے پہلے کہا تھا کہ سات میں سے تین شک کے لیے ہیں، اور تین یقین کے لیے۔ اب آگے فرما رہے ہیں کہ جو تین یقین کے لیے ہیں، وہ ہیں: جیسے میں نے پہلے بتایا، عَلِمْتُ، رَأَيْتُ، اور وَجَدْتُ۔

مثال:

  • عَلِمْتُ زَیْدًا أَمِينًا۔ (میں نے جان لیا کہ زید امین ہے۔) یعنی مجھے یقین ہے کہ زید امین ہے۔
  • رَأَيْتُ عَمرَواََ فَاضِلًا۔ (میں نے عمروکو فاضل دیکھا۔) یہاں بھی آپ وہی کہیں گے، یقین کے معنی میں لیں گے۔ یقین ہے کہ عمرو فاضل ہے۔
  • وَجَدْتُ الْبَیْتَ رَهِینًا۔ (میں نے گھر کو گِروی رکھا ہوا پایا۔) مجھے یقین ہے کہ یہ گھر گِروی رکھا ہوا ہے۔اب ذرا فرماتے ہیں:
  • وَأَمَّا الثَلَاثَةُ الثَّانِيَةُ، کیا مطلب؟ یعنی وہ دوسرے تین جو یقین کے لیے آتے ہیں، وہ ہیں: عَلِمْتُ، رَأَيْتُ، اور  وَجَدْتُ۔

    مثال:

  • عَلِمْتُ زَیْدًا أَمِينًا۔ (میں نے زید کو امانتدار یقین کیا۔)
  • رَأَيْتُ عَمرواََ فَاضِلًا۔ (میں نے عمرو کو فاضل یقین کیا۔)
  • وَجَدْتُ الْبَیْتَ رَهِینًا۔ (میں نے یقین کیا کہ مکان گِروی رکھا ہوا ہے۔) ٹھیک ہوگئے۔
    وَعَلِمْتُ قَدْ يَجِيءُ بِمَعْنَى عَرَفْتُ۔ فرماتے ہیں: یہی عَلِمْتُ کبھی کبھی بمعنی عَرَفْتُ کے بھی آتا ہے۔ لیکن جب یہ بمعنی عَرَفْتُ کے آئے گا، تو پھر یہ دو مفعولوں کو نہیں چاہے گا، بلکہ بس ایک ہی مفعول پر اکتفا کرے گا۔ اب سظر آپ یوں لکھیں کاپی پر کہ جب عَلِمتُ بمعنی عَرَفتُ کے آئے گا تو اس وقت اس کے بعد دو مفعول نہیں ہونگے بلکہ ایک ہی مفعول ہوگا مثال:
  • عَلِمْتُ زَیْدًا۔ (میں نے زید کو جانا۔) بس آگے دوسرا مفعول نہیں ہے۔ کیا مطلب؟ یعنی عَرَفْتُ زَیْدًا۔ اب تھوڑی سی توجہ کریں تو ایک بڑا پیارا سا نکتہ ہے۔
    وہ   پیارا سا نکتہ یہ ہے کہ یہ عِلْم اور مَعْرِفَت کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ میں بالکل مختصر بتاتا ہوں۔وہ کیا ہے؟ فرماتے ہیں: وہ یہ ہے کہ اگر کسی شے کو بغیر کسی نسبت کے جانا گیا ہو، تو اس کو مَعْرِفَت کہتے ہیں۔ اور اگر اس شے کے ساتھ کسی نسبت کو بھی جانا گیا ہو، تو اس کو عِلْم کہتے ہیں۔ انہیں دو مثالوں میں توجہ کریں :
  • عَلِمْتُ زَیْدًا۔ (میں نے زید کو جانا۔)  میں نے ذات زید کو جانا یہ فقط مَعْرِفَت ہے،  یعنی یہ زید ہے بس۔
  • عَلِمْتُ زَیْدًا أَمِينًا۔ (میں نے جانا کہ زید امین ہے۔) یہاں فقط ذات زید کو نہیں جانا، بلکہ ساتھ اس کے امین ہونے کو بھی جانا ہے۔ تو یہ ہو جائے گا عِلْم۔بعض لوگ اس فرق کو بیان کرتے ہیں۔اب یہاں یہ بات ختم کہ عَلِمْتُ کبھی بمعنی عَرَفْتُ کے آتا ہے، اور جب عَرَفْتُ کے معنی میں آئے گا، اس وقت اس کو ایک مفعول چاہیے ہوگا، پھر دو مفعول نہیں چاہیے ہوں گے۔ یہ ختم ہے۔
    اسی طرح فرماتے ہیں:
  • و «رَأَيتُ» قَد يَكُونُ بِمعنى «أَبصرتُ» یہ رَأَيْتُ بھی کبھی کبھی بمعنی عَرَفْتُ کے استعمال ہوتا ہے۔كَقَوله تعالى: جیسے قرآن مجید میں ہے: فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى۔ (پھر دیکھو کہ تم کیا دیکھتے ہو۔) یہ جو مَاذَا تَرَى ہے، یعنی یہاں پر یہ کیا بتا رہا ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ جو آپ مناسب دیکھتے ہیں، فَانْظُرْ آپ اس کو مزید دیکھیں، سوچیں، اور کریں جو آپ بہتر سمجھتے ہیں۔

    پھر فرماتے ہیں:
    وَ«وَجَدتُ» قَد يَكُونُ بِمعنى «أَصَبتُ»، وَجدتُ کبھی بمعنی أَصَبتُ کے ہوتا ہے ، أَصَبتُ کیا ہوتا ہے؟ فرماتے ہیں: أَصَبتُ کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کو پا لینا، حاصل کر لینا۔
    پس اگر "وَجَدْتُ" بمعنی "أَصَبتُ" کے ہوگا، تو اس صورت میں بھی یہ فقط ایک مفعول چاہے گا۔
    جیسے کہتے ہیں: «وَجَدتُ الضَّالَّةَ» أَي: أَصَبتُهَا؛ "گمشدہ چیز کو میں نے پا لیا"، "میں نے گمشدہ چیز حاصل کر لی"۔ پس جب ایسا ہوگا، جب "وَجَدْتُ" بمعنی "أَصَبتُ" کے ہوگا، تو اس وقت بھی یہ افعالِ قلوب میں سے نہیں ہوگا۔ بات ختم ہوگئی۔

    آگے فرماتے ہیں:
    فَإِنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ هَذِهِ الْمَعَانِي لَا يَقتَضِى إِلَّا إِلَى مُتَعَلَّقٍ وَاحِدٍ۔
    یہ جو ہم نے بتایا ہے، کیا بتایا ہے؟ ہم نے بتایا ہے کہ جب "رَأَيْتُ" بمعنی "اَبصَرتُ" کے ہوگا، "عَلِمْتُ" بمعنی "عَرَفْتُ" کے ہوگا، اور اسی طرح "وَجَدْتُ" بمعنی "أَصَبتُ" کے ہوگا، جب یہ افعال یقین ان معانی میں استعمال ہونگے  تو اس وقت یہ فقط ایک متعلق چاہتے ہیں۔
     فَلَا يَتَعَدَّى إِلَّا إِلَى مَفْعُولٍ وَاحِدٍ، یعنی وہ ایک مفعول سے زیادہ کی طرف متعدی نہیں ہوتے۔ یعنی ان کو پھر وہ افعالِ قلوب جیسے دو مفعولوں کی طرف متعدی نہیں ہوتے، بلکہ ایک مفعول درکار ہوتا ہے، اور اسی کی طرف ہی متعدی ہوتے ہیں۔اور آخری فرماتے ہیں:
    وَالْوَاحِدُ الْمُشْتَرَكُ۔ جیسے پہلے میں نے گزارش کی کہ سات میں سے تین ہوگئے شک کے لیے۔ شک یعنی یقین کے خلاف، وہ گمان ہو، جو بھی ہو۔ چونکہ ایک تقسیم کی جاتی ہے، اور میں اس کو آسان سمجھاتا  ہوں کہ جب کہتے ہیں:

  • "مجھے یقین ہے"، اس کا مطلب ہے سو فیصد۔
  • "مجھے شک ہے"، اس کا مطلب ہے پچاس فیصد۔
  • "مجھے ظن ہے"، اس کا مطلب ہے ستر فیصد، اسی فیصد۔
  • "مجھے وہم ہے"، اس کا مطلب ہے بیس فیصد، دس فیصد۔
    تو یہاں جو ہم نے دو قسمیں کی ہیں، اس کا مطلب ہے یقین کے مقابل میں وہ چاہے ظن ہو، چاہے وہم ہو، چاہے شک ہو، سب کو ہم نے شک قرار دیا، جو خلاف یقین ہے،  بس وہ افعالِ شک میں، وہ بے شک ظن ہی کیوں نہ ہو۔ فرماتے ہیں:
    وَالْوَاحِدُ الْمُشْتَرَكُ بَيْنَهُمَا۔افعالِ قلوب میں سے ایک فعل ایسا ہے جو مشترک بین شک اور یقین ہے۔ ایک جو مشترک بین شک اور یقین ہے، شک میں بھی استعمال ہوتا ہے اور یقین میں بھی۔ وہ کیا ہے؟ کون سا ہے؟ وہ ہے "زَعَمْتُ"۔
    اب موارد فرق کرتے ہیں کہ وہ مورد ہمیں بتائے گا کہ یہ یقین کے معنی میں ہے یا شک کے معنی میں ہے۔فرماتے ہیں:
     مَثَلًا إِذَا قَالَ الْمُتَكَلِّمُ: زَعَمْتُ اللَّهَ غَفُورًا۔اب "زَعَمْتُ" فعل ہو گیا، پہلا مفعول "اللہ" ہے، اور دوسرا ہے "غَفُورًا"۔ اب یہاں یقین کا معنی ہے کہ مجھے یقین ہے کہ اللہ غفور ہے۔اور اگر متکلم کہتے ہیں:
    زَعَمْتُ الشَّيْطَانَ شَكُورًا۔اب یہاں "زَعَمْتُ" ہے، ہیں دونوں زَعَمْتُ  لیکن وہ کہتے ہیں کہ میں نے زعم کیا کہ شیطان شاکر ہے۔ اب یہاں شیطان کا شاکر ہونا یقین نہیں ہے۔ یہ نہیں ہے۔ گویا آپ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے شک ہے، مجھے ظن ہے، مجھے وہم ہے، جو بھی کہیں، یہ شیطان شاکر ہے۔تو لہٰذا موارد فرق کرتے ہیں۔اگرچہ دونوں میں "زَعَمْتُ" ہے، لیکن یہی "زَعَمْتُ" جب "اللہ غَفُور" پر داخل ہوا، تو یہ یقین کے معنی میں ہے۔ اور جب "شَیطان شَكُور" پر داخل ہوا، تو یہاں پر یہ شک کا معنی دے گا۔
    پس ہم یوں ترجمہ کریں گے:
  • زَعَمْتُ اللَّهَ غَفُورًا۔ (مجھے اللہ کے غفور ہونے کا یقین ہے۔)
  • زَعَمْتُ الشَّيْطَانَ شَكُورًا۔ (مجھے شیطان کے شاکر ہونے کا شک ہے۔) دونوں میں "زَعَمْتُ" ہے، لیکن یہ مشترک  ہے۔

المذكورة، مثل: «حبّذا زيد»، و«حبّذا الزيدان»، و«حبّذا الزيدون»، و«حبّذا هند» و «حبّذا الهندان»، و«حبّذا الهندات»، ويجوز أن يكون قبله أو بعده اسم موافق له منصوباً على التمييز أو على الحال، مثل: «حبّذا رجلاً زيد»، و«حبّذا راكباً زيد»، و«حبّذا زيد رجلاً»، و«حبّذا زيد راكباً».

واعلم أنّه لا يجوز التصرّف في هذه الأفعال غير إلحاق التاء فيها؛ ولهذا سمّيت هذه الأفعال غيرَ متصرِّفةٍ.

النوع الثالث عشر

أفعال القلوب وإنّما سمّيت بِها؛ لأنَّ صُدورها من القلب ولا دخل فيه للجوارح، وتسمّى أفعال الشكّ واليقين أيضاً؛ لأنَّ بعضها للشكّ وبعضَها لليقين، وهي تدخل على المبتدأ والخبر، و تنصبهما معاً بأن يكونا مفعولين لها، وهي سبعة: ثلاثة منها للشكّ، وثلاثة منها لليقين، وواحد منها مشترَك بينهما؛ أمّا الثلاثة الأُوَل فــ «حَسِبْتُ» و «ظَنَنْتُ» و «خِلْتُ»، مثل: «حسبت زيداً فاضلاً»، و«ظننت بكراً نائماً»، و«خلت خالداً قائماً»، و«ظننت» إذا كان من الظنّة بمعنى التهمة لَم يقتضِ

المفعول الثاني، مثل: «ظننت زيداً»، أي: أتّهمته، وأمّا الثلاثة الثانية فـ «عَلِمْتُ» و «رَأَيْتُ» و «وَجَدتُ»، مثل: «علمت زيداً أميناً»، و «رأيت عمرواً فاضلاً»، و«وجدت البيت رهيناً»، و «علمت» قد يجيء بمعنى «عرفت»، نحو: «علمت زيداً» أي: عرفته، و «رأيت» قد يكون بمعنى «أبصرت» كقوله تعالى: ﴿فَانظُرْ مَاذَا تَرَى [الصافات: ۱۰۲]، و«وجدت» قد يكون بمعنى «أصبت»، مثل: «وجدت الضالّة» أي: أصبتها؛ فإنَّ كلّ واحد من هذه المعاني لا يقتضي إلّا متعلَّقاً واحداً فلا يتعدّى إلّا إلى مفعول واحد، والواحد المشترَك بينهما هو «زعمت» مثل: «زعمت الله غفوراً»؛ فهو لليقين، و «زعمت الشيطان شكوراً» فهو للشكّ، وفي هذه الأفعال لا يجوز الاقتصار على أحد المفعولين؛ لأنّهما كاسم واحد؛ لأنّ مضمونهما معاً مفعول به في الحقيقة، وهو مصدر المفعول الثاني المضافُ إلى المفعول الأوّل؛ إذ معنى «علمت زيداً فاضلاً»: «علمت فضل زيد»؛ فلو حذف أحدهما كان كحذف بعض أجزاء الكلمة الواحدة، وإذا توسّطت هذه الأفعال بين مفعوليها، أو تأخّرت عنهما جاز إبطال عملها، مثل: «زيد ظننت قائم»، و«زيداً ظننت قائماً»، و «زيد قائم ظننت» و «زيداً قائماً ظننت»؛ فإعمالُها وإبطالُها