اَلنَّوعُ الثَالِثُ عَشَر
أَفعالُ القُلُوبِ وَإِنَّما سُمِّيَت بِهَا؛ لِأَنَّ صُدُورَهَا مِنَ القَلبِ وَلَا دَخَلَ فِيه لِلَجوارِحِ، وَتُسَمّى أفعالُ الشَكِّ وَاليقينِ أيضاً؛
الحمد للہ عوامل لفظیہ سماعیہ کی تیرا انواع تھیں جن میں سے بارہ کی بحث مکمل ہوگئی ، آج تیرویں اور آخری نوع ہے جس کے بعد عوامل معنویہ کی بحث آجائے گی ۔
تیرویں نوع عوامل لفظیہ سماعیہ میں سے ہیں افعال القلوب ، قلوب ، قلب دل کو کہتے ہیں ، یہ افعال قلوب کیا مطلب ؟ اس کا مطلب ہے کہ یہ وہ افعال ہیں جن کا تعلق قلب ، دل کے ساتھ ہے ۔
فرماتے ہیں :  افعال القلوب،  ان افعال کے معنی اعضاء و جوارح سے صادر نہیں ہوتے، بلکہ ان کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، جب میں کہتا ہوں: "مجھے یقین ہے کہ یہ کام ایسا ہوا ہے"، تو یقین کا تعلق آنکھ، ہاتھ، یا زبان سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق دل سے ہے۔ جب میں کہتا ہوں: "مجھے فلاں بات پر شک ہے"، تو شک کا تعلق بھی کسی ظاہری عضو (جیسے ہاتھ، پاؤں، زبان، یا آنکھ) سے نہیں ہوتا، بلکہ اس کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ چونکہ یہ افعال کے معنی دل سے صادر ہوتے ہیں، اس لیے انہیں "افعال القلوب" کہا جاتا ہے، یعنی دل سے متعلق افعال۔
انہی افعال القلوب کو "افعال شک و یقین" بھی کہا جاتا ہے۔ لہٰذا، اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ افعال القلوب کون سے ہیں، تو آپ انہیں بتا سکتے ہیں۔ اگر وہ یہ بھی پوچھے کہ افعال شک و یقین کون سے ہیں، تو آپ پریشان نہ ہوں، کیونکہ یہی افعال القلوب ہیں، جنہیں افعال شک و یقین بھی کہا جاتا ہے۔
افعال شک و یقین کیوں کہا جاتا ہے؟ ان شاءاللہ ہم آگے بتائیں گے کہ یہ کل سات ہیں: تین شک کے لیے استعمال ہوتے ہیں، تین یقین کے لیے استعمال ہوتے ہیں، اور ایک فعل مشترک ہے، جو شک اور یقین دونوں میں استعمال ہو سکتا ہے۔
افعال القلوب جملہ اسمیہ پر داخل ہوتے ہیں، یعنی اگر یہ افعال جملہ اسمیہ پر داخل نہ ہوں، تو جملہ اسمیہ میں مبتدا اور خبر ہوتے ہیں۔ لیکن جب افعال القلوب جملہ اسمیہ پر داخل ہوتے ہیں، تو مبتدا اور خبر دونوں منصوب ہو جاتے ہیں اور ان افعال کے مفعول بن جاتے ہیں۔
اَلنَّوعُ الثَالِثُ عَشَر ، تیرویں  اور آخری نوع عوامل لفظیہ سماعیہ میں سے ہیں افعال القلوب  کے بارے میں ہیں ،سوال ہوگا :  قلوب  جمع ہے، قلب کی قلب کہتے ہیں  دل کو ، یہ افعال قلوب کیا مطلب ؟
وَإِنَّما سُمِّيَت بِهَا؛افعال القلوب  کا نام افعال قلوب اس لیئے رکھا گیا ہے  لِأَنَّ صُدُورَهَا مِنَ القَلبِ یہ صادر ہوتے ہیں دل سے یعنی ان کے معانی صادر ہوتے ہیں دل سے  وَلَا دَخَلَ فِيه لِلَجوارِحِ،ان میں انسانی اعضاء و جوارح کا ان افعال کے معانی کے صادر ہونے کے لیئے کسی اعضاء و جوارح کا تعلق نہیں بلکہ ان سب  کا تعلق دل سے ہے  وَتُسَمّى أَفعَالُ الشَكِّ وَاليقينِ أيضاً؛ اور انہی کا نام افعال شک و یقین بھی رکھا جاتا ہے ، انہی کو افعال قلوب بھی کہتے ہیں اور انہی کو افعال شک و یقین بھی کہتے ہیں ۔انہیں افعال شک و یقین کیوں کہتے ہیں ؟افعال قلوب کہنے کی بات تو سمجھ میں آگئی ؟
لِأَنَّ بَعضَهَا لِلشَكِّ وَبَعضَهَا لِليَقِينِ، کیونکہ ان میں سے کچھ افعال شک کے لیئ آتے ہیں اور بعض آتے ہیں یقین کے لیئے یعنی بعض افعال ایسے ہیں کہ انسان کے دل میں شک ہو تو وہاں ان کو استعمال کیا جاتا ہے اور جہاں دل میں یقین ہو تو وہاں وہ استعمال ہوتے ہیں ۔
وَهِيَ تَدخُلُ عَلى المُبتَدَأِ وَالخَبَرِ،یہ افعال مبتدا اور خبر پر داخل ہوتے ہیں ، یعنی اگر یہ افعال قلوب ان پر داخل نہ ہوئے ہوتے تو یہ بعد والے اسم آپس میں مبتدا اور خبر ہوتے ، آگے مثال سے سمجھا دیں گے ۔
وَ تَنصِبُهُما مَعَاً،اور یہ افعال قلوب ان دونوں اسماء ( مبتدا اور خبر ) کو نصب دیتے ہیں اور دونوں ہو جائیں گے منصوب کیوں منصوب ہونگے ؟ أَن يَكُونَا مَفعُولَينِ لهَا، وہ دونوں اسم جو آپس میں مبتدا اور خبر تھے وہ دونوں ان افعال قلوب کے دو مفعول بن جائیں گے ، یعنی افعال قلوب دو مفعولوں کو چاہتے ہیں کبھی تین کو بھی چاہتے ہیں ۔
وَهِيَ سَبعَةٌ ، افعال قلوب ساتھ ہیں   ثَلَاثَةٌ مِنهَا لِلشَّكِّ، تین ہیں شک کے لیئے کیا مطلب ؟ جس چیز کے بارے میں ہمیں شک ہوگا وہاں پر ان تین کو استعمال کریں گے   
وَثَلاثَةٌ مِنها لِليَقِينِ، اور تین ہیں یقین کے لیئے یعنی جس چیز کے بارے میں ہمیں یقین ہوگا ہم ان تین کا استعمال کرتے ہیں ۔  
وَوَاحِدٌ مِنها مُشتَرَكٌ بَينَهما؛  اور ایک ان میں سے مشترک ہے یعنی شک کی صورت میں بھی اور یقین کی صورت میں بھی صحیح ہے ۔
وہ افعال جو شک کے لیئے آتے ہیں یعنی جس چیز کے بارے میں آپ کو شک ہو یقین کی کیفیت نہ ہو وہاں آپ شک کی صورت میں کسی مطلب کو بیان کرنا چاہتے ہیں تو ان تین کا استعمال کریں گے :
	- تین افعال شک کے لیے:
	
		- حَسِبْتُ (سمجھنا) : «حَسِبتُ زَيداً فاضِلاً» (میں نے زید کو فاضل سمجھا) لیکن یہ جو آپ حَسِبْتُ کھ رہے ہیں کہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ مجھے یقین نہیں ہے (حَسِبَ یَحسَبُ  ، گمان کرنا) ( حَسِبْتُ  کا معنی یوں بھی کر سکتے ہیں ، میں نے گمان کیا زید کو فاضل ہے)
		اب پچھلی باتیں یہاں ملائیں:
 حَسِبْتُ افعالِ قلوب میں سے ہے۔ اس کا مدخول ہے  زَیْدًا فَاضِلًا۔ اب اگر اس زَیْدًا فَاضِلًا سے پہلے حَسِبْتُ نہ ہوتا، صرف زَیْدٌ اور فَاضِلٌ یہ دو اسم ہوتے، تو یہ آپس میں مبتدا اور خبر تھے، یعنی زَیْدٌ فَاضِلٌ۔ زَیْدٌ مبتدا ہے، فَاضِلٌ اس کی خبر ہے۔ اب جب اس سے پہلے حَسِبْتُ آگیا، تو اب یہ دونوں اس حَسِبْتُ کے مفعول بن گئے۔ زَیْدًا ،مفعولِ اول ہے، فَاضِلًا ،مفعولِ ثانی ہے۔
 حَسِبْتُ میں نے جیسے کہا ہے،  گمان کرنا۔ پس حَسِبْتُ افعالِ قلوب میں سے ہے۔ زَیْدًا فَاضِلًا یہ دو اس کے مفعول ہیں، اور ان دونوں کو نصب اس حَسِبْتُ نے دیا ہے۔ حَسِبْتُ میں نے گمان کیا زید کو کہ وہ فاضل ہے۔ اب سمجھ آگئی۔ 
 
اسی طرح آگے فرماتے ہیں:
ظَنَنْتُ، ظَنَّ، یَظُنُّ۔ ظَنَّ، یَظُنُّ بھی گمان کے معنی میں آتا ہے۔ یہ ہم اردو میں استعمال کرتے ہیں کہ میں گمان کرتا ہوں، میں نے گمان کیا۔ مثال: ظَنَنْتُ بَکرًا نَائِمًا۔ (میں نے گمان کیا کہ بکر سو رہا ہے۔) اب بَکراََ مفعول اول نَائِماََ مفعول ثانی۔
«خِلتُ خَالِداً قَائِماً» خَالَ ، یَخَالُ یہ ہوتا ہے خیال کرنا یہ وہی گمان کی معنی ہے   یہ دو اسی گمان کے معنی میں ہیں۔میں نے خیال کیا کہ  خالد کو  کہ وہ  کھڑا ہے۔ اب خیال جو ہے  وہ  یقین نہیں ہوتا۔ پس حَسِبْتُ، ظَنَنْتُ، اور خِلْتُ یہ یقین کے برخلاف، یعنی شک کے لیے آتے ہیں۔ ٹھیک ہے۔
آگے ایک جملہ ہے، جیسے میں نے کہا ہے:
ظَنَنْتُ ایک ہوتا ہے:ظَنَّ، یَظُنُّ۔ فرماتے ہیں: و«ظَنَنتُ» إِذَا كَانَ مِن الظِنَّةِ۔ یہی ظَنَنْتُ ایک دفعہ یہ مصدر اس کا ہوتا ہے: اَلظَّنُّ۔گمان  اَلظِّنَّةُ ، یعنی ظا کے اوپر  کسرہ ہوتا ہے۔ اگر یہ ظَنَنْتُ ، اَلظِّنَّةُ سے مشتق ہو، تو اَلظِّنَّةُ کامعنی ہوتا ہے، تہمت لگانا، اب دھیان سے غور کرنا ہے۔ اگر ظَنَنْتُ بمعنی گمان کے ہوگا، کہ میرا ظَن یہ ہے، میرا گمان یہ ہے، پھر تو یہ ہوگا افعالِ قلوب میں سے، اور اس کے مفعول بھی بعد میں دو ہوں گے۔ لیکن اگر یہی ظَنَنْتُ ،الظِنَّہ سے مشتق ہو، الظِنَّةِ کہتے ہیں تہمت کو، تو پھر یہ افعالِ قلوب سے نہ ہوگا۔
 لَمْ يَقْتَضِ مَفْعُولَ الثَّانِيَ، اور پھر یہ دوسرے مفعول کو تقاضا بھی نہیں کرے گا، چونکہ پھر یہ افعالِ قلوب میں سے ہی نہیں ہوگا۔
مثلاً آپ کہیں گے:
ظَنَنْتُ زَیْدًا۔اگر یہ اَلظِّنَّةُ سے مشتق ہوگا، تو اس کا ترجمہ ہوگا: میں نے زید پر تہمت لگائی،اب یہاں اس کا افعالِ قلوب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
أَي: أِتَّهَمتُهُ،یعنی میں نے اس پر تہمت لگائی۔ یہ تین تو ہوگئے جو افعالِ شک ہیں۔