درس شرح مائة عامل

درس نمبر 24: افعال مدح اور ذم 2

 
1

خطبہ

2

افعال مدح و ذم: بِئسَ کی بحث

وَ الثانِی  بِئْسَ وَ هُوَ فِعْلُ ذَمِِّ أَصلُه بَئِسَ۔ 

موضوع ہمارا افعالِ مَدْحُ و ذم، یعنی ایسے افعال جو عامل بھی ہیں اور معنی دیتے ہیں۔ مَدْحُ و ذم یعنی کسی کی تعریف کرنی ہو یا کسی کی مذمت کرنی ہو تو اس میں ان افعال کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پہلا فعل تھا "نِعْمَ"، ہم نے کہا تھا کہ وہ فعلِ مَدْحِ ہے، یعنی وہ تعریف کے لیے استعمال ہوتا ہے جب کسی کی تعریف کرنی ہو۔ والثاني، ان افعالِ مَدْحُ و ذم میں دوسرا فعل ہے "بِئْسَ"۔ بِئْسَ مذمت کے لیے آتا ہے، یعنی کسی کی برائی کرنا، کسی کی مذمت کرنا۔ یہ ہمارے ہاں عام جملوں میں چلتا ہے۔ نِعْمَ کی طرح بِئْسَ بھی، جیسے نِعْمَ اصل میں نَعِمَ تھا، بِئْسَ بھی اصل میں بَئِسَ تھا۔ فَاءُ الْفِعْلِ یعنی فَاءُ الْکَلِمَہ ، بَاء کو کسرہ دیا گیا، کیونکہ کلمہ ہمزہ پر کسرہ تھا، اس کی مطابقت کے لیے تو یہ بن گیا بِئِسَ۔ بِئِسَ میں دو کسرے اکٹھے پڑنا اگرچہ مشکل تھا، تو اس مشکل کو ختم کرنے کے لیے ہمزہ کو ساکن کر دیا گیا، تو یہ بن گیا بِئْسَ۔ خوب، آسان ہے۔ جو بات ہم نے نِعْمَ میں پڑھی تھی، بالکل وہی بات یہاں ہے۔

 ہم نے کیا گزارش کی تھی کہ نِعْمَ کے بعد دو اسم ہوں گے، ایک اس کا فاعل ہوگا، ایک مخصوص بہ مدح ہوگا۔ آپ کہیں گے کہ بِئْسَ کے بعد بھی دو اسم ہوں گے، ایک اس کا فاعل ہوگا اور ایک مخصوص بہ ذم ہوگا۔ چونکہ یہ مذمت کرنے کے لیے آتا ہے۔

ہم نے گزارش کی تھی کہ نِعْمَ کے فاعل تین قسم کے ہوتے ہیں

  1. کوئی اسم ہوگا جو مُعَرَّف بِاللَّام کی طرف مضاف ہوگا۔

  2. کوئی اسم ہوگا جو مُعَرَّف بِاللَّام کی طرف مضاف ہوگا۔

  3. ضمیر ہوگی، لیکن اس کی تمیز ایک اسم نکرہ منصوب ہوگی۔

بالکل وہی بات یہاں پر بھی ہے کہ اسی طرح بِئْسَ کا فاعل بھی تین میں سے کوئی ایک ہوگا:

  1. اسم جنس مُعَرَّف بِاللَّام ہوگا۔

  2. کوئی ایسا اسم ہوگا جو مُعَرَّف بِاللَّام کی طرف مضاف ہوگا۔

  3. یا کوئی ضمیر ہوگی، لیکن اس کی تمیز ایک اسم نکرہ منصوب ہوگی۔

وَ الثانِی  بِئْسَ ۔ افعال مدح و ذم میں سے دوسرا ہے  بِئْسَ۔

وَ هُوَ فِعْلُ ذَمِِّ ، بِئْسَ فعلِ ذم ہے۔ جیسے نِعْمَ فعلِ مدح تھا، وہ تھا کسی کی تعریف مقصود ہو تو وہاں نِعْمَ کا استعمال ہوتا تھا۔ یہ بِئْسَ فعلِ ذم ہے، یعنی اگر کسی کی مذمت کرنی ہو، برائی کرنی ہو تو وہاں بِئْسَ کا ذکر ہوتا ہے۔

 أَصلُه بَئِسَ کا اصل، یعنی بِئْسَ اصل میں تھا بَئِسَ۔

مِمن بَابِ عَلِمَ ، جیسے عَلِمَ  کے وزن پر ہے  بَئِسَ۔ 

فَکُسِرَتِ الْفَاءُ، بھولنا نہیں کہ جناب بِئْسَ میں تو کوئی فَاءہے نہیں، تو یہ فَاء کہاں سے آگئی؟ اس کا ترجمہ ہم یوں کریں گے کہ بِئْسَ میں فَاءکَلِمَہ کو کسرہ دیا گیا۔ فَاءُ سے مراد کیا ہے؟ جو پہلا پہلا حرف ہے، وہ ہے بَاء۔ بَاء کو کہتے ہیں فَاءُ الْفِعْلِ۔ ہمزہ ہوگا عَیْنَ الفعل، سِین ہوگا لَام الْفِعْلِ۔ یہ ساری صرف میر میں ساری باتیں آپ نے پڑھی ہیں۔ فَکُسِرَتِ الْفَاءُ، یعنی فَاءُ الْفِعْلِ کو بِئْسَ میں فَاءُ کیا ہے؟ بَاء کو کسرہ دیا گیا، کیوں؟

لِتَبَعِيّّةِ الْعَیْنِ، چونکہ عَیْنَ الْفِعْلِ پر کسرہ تھا۔ بَئِسَ، یعنی اس کا عَیْنَ الْفِعْلِ تھا ہمزہ، چونکہ ہمزہ مکسور تھا، تو اس کی اتباع کرتے ہوئے فَاءُ الْفِعْلِ یعنی بَاء کو بھی کسرہ دیا گیا، تو یہ بن گیا بِئِسَ۔

ثُمَّ اُسْکِنَتِ الْعَیْنُ، بعد میں عَیْنَ الْکَلِمَةِ کو، یعنی ہمزہ کو ساکن کر دیا، کیوں؟

 تَخْفِیفًا، تخفیف کے لیے، اس لیے کہ بِئِسَ دو کسرے اکٹھے پڑنا دُشوار تھا، مشکل تھا، سخت تھا، تو ہم نے اس کو آسان کرنے کے لیے عَیْنَ الْفِعْلِ کو، یعنی ہمزہ کو ساکن کر دیا، تو یہ بن گیا

 فَصارَتْ بِئْسَ۔ یہ بن گیا بِئْسَ۔

وَ فَاعِلُهُ أيضاً، أيضاً سے مراد کیا؟ یعنی جیسے نِعْمَ کا فاعل تین میں سے کوئی ایک ہوتا تھا، فَاعِلُہُ اس بِئْسَ کا فاعل بھی

 أَحَدُ الْأُمُورِ الثَّلَاثَةِ، اُن تین چیزوں میں سے کوئی ایک ہوگا،

 الْمَذْكُورَةِ فِی نِعْمَ، جو نِعْمَ کے فاعل میں ذکر ہوئے۔ وہاں کیا کہا تھا؟ ہم نے کہا تھا کہ نِعْمَ کا فاعل یا اسم جنس مُعَرَّف بِاللَّام ہوگا، یا ایسا اسم ہوگا جو مُعَرَّف بِاللَّام کی طرف مضاف ہوگا، یا ضمیرِ مُسْتَتِر ہوگی، لیکن اُس کی تمییزِ نکرہِ منصوب ہوگی۔ بِئْسَ میں بھی وہی الفاظ آپ یہاں کہہ دیں کہ بِئْسَ کا فاعل یا اسم جنس ہوگا مُعَرَّف بِاللَّام، یا ایسا اسم ہوگا جو مُعَرَّف بِاللَّام کی طرف مضاف ہوگا، یا ضمیرِ مُسْتَتِر ہوگی، لیکن اُس کی تمییزِ نکرہِ منصوب موجود ہوگی۔

وَ حُکْمُ الْمَخْصُوصِ بِالذَّمِّ، کحُکْمِ الْمَخْصُوصِ بِالْمَدْحِ، جو حُکْم مخصوص بِالْمَدْحِ کا تھا، وہی حُکْم مخصوص بِالذَّمِّ کا ہے۔ کس میں؟

فِی جَمِیعِ الْأَحْکَامِ الْمَذْكُورَةِ، اُن تمام احکام میں جو مخصوص بِالْمَدْحِ میں ذکر ہوئے۔ ہم نے کیا کہا تھا؟ وہاں ہم نے کہا تھا کہ مخصوص بِالْمَدْحِ کا فعلِ مَدْح کے فاعل کے مطابق ہونا ضروری ہے، اِفراد میں، تثنیہ میں، جمع میں، تذکیر میں، تانیث میں۔ یہی الفاظ یہاں کہیں گے کہ مخصوص بِالذَّمِّ کا بھی فعلِ ذم کے فاعل کے مطابق ہونا شرط ہے، کس میں؟ افراد میں، تثنیہ میں، جمع میں، تذکیر میں، تانیث میں۔ بس ہم کہتے ہیں

بِئْسَ الرَّجُلُ زَیْدٌ۔ الرَّجُلُ  بِئْسَ کا فاعل ہے، مفرد بھی ہے، مذکر بھی ہے۔ اس کا مخصوص بِالذَّمِّ زَیْدٌ، مفرد بھی ہے، مذکر بھی ہے۔

 بِئْسَ صاحِبُ الرَّجُلِ زَیْدٌ۔ اب دیکھو الرَّجُلِ ، اسمَ جنس معرف بِاللَّام تھا، دوسرا صَاحِبُ الرَّجُلِ، وہ صَاحِب جو معرف بِاللَّام کی طرف مضاف ہوکے استعمال ہوا ہے۔

 بِئْسَ رَجُلاََ۔ اب یہاں بِئْسَ میں فاعل ضمیر ہے، لیکن اس کی تمییز رَجُلًا ہے۔ خوب۔

 بِئْسَ الرَّجُلَانِ الزيدانِ، بِئْسَ الرِّجَالَ الزيدونَ،بئستِ المرأةُ هندٌ  بِئْسَ الْمَرْأَتَانِ الهندانِ، بِئْسَتِ النِّسَاء الهندات۔

3

افعال مدح و ذم: سَاءَ ، حَبَّذَا کی بحث

والثالث افعال مدح و ذم میں سے تیسرا فعل وہ ہے

«سَاءَ» وهو مرادِف لـ «بِئْسَ»  یہ سَاءَ مرادف ہے بئس کے ، مرادف ، رِدف دو بندے ایک گھوڑے پر اونٹ پر اکٹھے بیٹھیں  اور ردیف کھتے ہیں اس کو کہ جو پیچھے بیٹھا ہو تو یہاں جو استعمال ہوتا ہے کہ فلاں لفظ فلاں کے مرادف ہے یعنی ہم معنی ہیں ایک جیسے پس  بِئْسَ بھی بِئسَ کے مرادف و ہم معنی ہے جیسے بِئسَ افعال ذم میں سے سَاءَ بھی افعال ذم میں سے ہے ۔

ومُوَافِقٌ لَه في جميعِ وجوهِ الاستعمال،  جس انداز میں بِئْسَ کو استعمال کیا جاتا ہے، یعنی جیسے اس کا فاعل کبھی اسم جنس معرف باللام ہوتا ہے، کبھی وہ اسم ہوتا ہے جو معرف باللام کی طرف مضاف ہو، یا پھر ضمیر مستتر ہوتی ہے۔ اس کے فاعل اور مخصوص کے درمیان موافقت ضروری ہے، تمام چیزوں میں استعمال میں بھی یہ مثل بِئْسَ کی ہے۔

 الرَابِعُ چوتھا افعال مدح و ذم میں چوتھا فعل ہے حَبَّذَا یا حُبَّذَا دو لغات ہیں، یعنی بعض لوگ اسے حَبَّذَا پڑھتے ہیں اور بعض حُبَّذَا ۔حا پر فتحہ یا ضمہ آگے بتاتے ہیں اس کی تفصیل

بِفَتحِ الفَاءِ أَو ضَمِّهَا، حَبَّذَا  یا حُبَّذَا  اب بحث یہ ہے کہ یہ حَبَّذَا  اور حُبَّذَا  یہ حا پر فتح اور ضمہ مسئلہ کیا ہے؟ فرماتے ہیں ہاں مسئلہ یہ ہے کہ یہ حَبَّ   اصل میں یا حُبَّ اصل میں تھا حَبُبَ۔ بہت غور کرنا ہے حَبُبَ۔ اب ایک لفظ ذرا یاد رکھنا حَبَّ  یا حُبَّ  علیحدہ ہے ذَا علیحدہ ہے یعنی دونوں ملکر ایک نہیں ہیں، ایک ہے حَبَّ  یا حُبَّ  اور ایک ہے ذَا۔ خوب اب پہلے ہم پڑھتے ہیں کہ یہ حَبَّ  یا حُبَّ کا فرق کیوں نظر آ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں اس لیے کہ یہ اصل میں تھا حَبُبَ ۔ بعض کہتے ہیں چونکہ دو حرف ایک جنس کے کٹھے ہو گئے،  دو باء  کٹھے ہو گئے، پہلی باء کو ساکن کیا، اس کو دوسری میں ادغام کیا تو یہ بن گیا حَبَّ۔ بعض کہتے ہیں نہیں، حَبُبَ میں پہلی باء کے ضمے کو نقل کر کے ما قبل حا کو دیا، حا کا اپنا فتحہ گرانے کے بعد باء ہو گئی ساکن، اس باء کو دوسری باء میں ادغام کیا تو یہ بن گیا حُبَّ۔ تو گویا اختلاف کس بات میں ہے کہ آیا حَبُبَ میں پہلی باء پر جو ضمہ ہے آیا وہ نقل کر کے پیچھے حا کو دینا ہے یا نقل کر کے نہیں دینا بلکہ اس کو وہیں ساکن کرنا ہے جو ساکن کر دیتے ہیں  ڈائریکٹ ،  وہ اس کو حَبَّ پڑہتے ہیں جو اس کو نقل کر کے ما قبل حا کو دیتے ہیں، وہ اس کو حُبَّ پڑہتے ہیں۔ ٹھیک ہوگئے۔

والرابعُ: «حبَّذَا» بفتحِ الفاء أو ضمِّها،۔ چوتھا ہے حبَّذا فتحہ کے ساتھ یا ضمے کے ساتھ خوب جو بھی ہے

 أصلُه حَبُبَ اصل میں تھا حَبُبَ ۔ اس لفظ کو ذہن میں رکھنا ہے کہ حبَّذَا یعنی حَبَّ علیحدہ ہے ذَا علیحدہ ہے، یہ ملکے ایک نہیں ہیں۔ آگے بتاتے ہیں خوب أصلُه اصل میں تھا حَبُبَ بضمّ العين عین الفیل وہ جو پہلی با ہے جو حَا کے بعد ہے جو عین الفیل بنتی ہے وہ مضموم تھی حَبُبَ ۔ اچھا پھر 

فَأُسكِنَتِ الباءُ الأولى پہلی با کو ساکن کر دیا یعنی اس کے ضمے کو ہی گرا دیا،  ڈائریکٹ دو حرف ایک جنس کے ہو گئے، پہلا ساکن دوسرا متحرک۔ 

وأدغمت في الثانية پھر ثانیہ پہلی با کو دوسری با میں ادغام کر دیا۔

على اللغة الأولى،اس لغت کے مطابق جو اس کو حَبَّ  پڑتے ہیں حَبُبَ ، با کا ضمہ جب گرا دیا تو بن گیا حَببَ۔ تو اس با کو دوسری با میں ادغام کر دیا تو یہ بن گیا حَبَّ۔

أو نُقلت ضمّتُها إلى الحاءیا دوسری لغت کہتے ہیں کہ نہیں، حَبُبَ میں پہلی با کے ضمہ کو نقل کر کے ماقبل یعنی حا کو دیا  ،حا کا اپنا  فتحہ گرانے کے بعد 

وَأُدغِمَتِ الباءُ في الباءِ بعد میں بھی پہلی با کو دوسری با میں ادغام کیا تو یہ بن گیا حُبَّ  ۔ چونکہ حا کا فتحہ ختم کر کے با والا ضمہ چلا گیا تھا حُبَّ  ۔ تو پس اب سمجھ آگئی کہ یہ بعض اس کو پڑتے ہیں حَبَّ اور بعض پڑتے ہیں حُبَّ  ۔ اس کی اصل وجہ کیا تھی؟ ختم 

«حَبَّ» لا يَنفصل عَن «ذَا» في الاستعمال حَبَّ کبھی بھی ذَا کے بغیر استعمال نہیں ہوتا، یعنی ہمیشہ حَبَّ پڑہیں ہیں یا  حُبَّ،ذَا ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔

لهذا يُقال في تقريرِ الأفعال:یہی تو وجہ ہے کہ جب بھی علماء افعال مدح و ذم کو  ذکر کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں نعم، بئس،ساء پر حَبَّ نہیں کہتے کیوں کہ یہ حَبَّ کبھی ذَا سے جدا نہیں ہوتا ہے۔(یعنی ہمیشہ حَبَّذَا کہتے ہیں) «حبذا»، وهو مرادف لـ«نِعْمَ» حبّذا ، نعم کے ہم معنیٰ ہے  یعنی جیسے نعم افعال مدح میں سے ہے یہ حبَّذا بھی افعال مدح میں سے ہے ۔

وفاعله «ذا» فرق یہ ہے کہ نِعْمَ کا فاعل تین چیزوں میں سے کوئی ایک واقعہ ہو سکتی تھی،
(۱) اسم جنس معرف باللام (۲) یا اسم جو معرف باللام کی طرف مضاف ہو (۳) یا ضمیر مستتر ہوگی۔ لیکن حَبَّ کا فاعل ذَا جو ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ فرق ہے۔ اسم ذَا کے علاوہ کوئی اور اس کا فاعل نہیں ہوتا۔

والمخصوصُ بالمدحِ مذكورٌ بعدَه ہاں مخصوص بالمدح کیا ہوا جو بھی ذَا کے بعد آئے گا وہی اس کا  مخصوص بالمدح ہوگا۔ یعنی حَبَّذَا زَیْدٌ، ذَا اس کا فاعل ہے اور زَیْدٌ اس کا مخصوص بالمدح ہے۔

وإعرابُه كَإعرابِ مخصوصِ «نعم» في الوجهين المذكورين ، مخصوص بالمدح جو تھا ہم نے کہا تھا کہ وہ مرفوع ہوتا ہے۔  یعنی ہم نے کہا تھا کہ اوہ ہم نے کہا تھا نِعْمَ الرَّجُلُ زَیْدٌ میں ہم نے کہا تھا کہ یا زَیْدٌ مبتدا مؤخر ہے اور نِعْمَ الرَّجُلُ خبر مقدم ہے۔ یا یہ تھا کہ نہیں نِعْمَ الرَّجُلُ علیحدہ جملہ ہے۔ ھُوَ زَیْدٌ زَیْدٌ خبر ہے اور ھُوَ مبتدا محذوف ہے۔ فرماتے ہیں وإعرابُه پس اس حَبَّذَا  کے مخصوص بالمدح  کا اعراب بھی وہی ہے جو نِعْمَ کے مخصوص بالمدح  کا اعراب تھا ۔

في الوجهين المذكورين  یعنی اسی میں یا حَبَّذَا زَیْدٌ میں یا زَیْدٌ مبتدا مؤخر ہے اور حَبَّذَا خبر مقدم ہے یا حَبَّذَا ھُو زَیْدٌ یا زَیْدٌ خبر ہے اور ھُو مبتدا محذوف ہے۔

لَكِنَّه لَا يُطَابِقُ فاعِلَه في الوجوهِ المذكورةِ لیکن ایک اور فرق ہے کس کے درمیان ؟  نِعْمَ کے مخصوص بالمدح اور حَبَّذَا کے مخصوص بالمدح کے درمیان ، وہاں ہم نے کہا تھا کہ نِعْمَ کا مخصوص  بالمدح اس نِعْمَ کے فاعل کے مطابق ہوگا افراد، تثنیہ ، جمع، تذکیر و تانیث میں۔ لیکن حَبَّذَا کا مخصوص بالمدح وہ اس کے فاعل کے مطابق نہیں ہوگا کیوں؟ اس لیئے  کہ حَبَّذَا کا فاعل تو ذَا ہے جو ہمیشہ وہی رہتا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آنی

«حبّذا زيد»، و«حبّذا الزيدان»، و«حبّذا الزيدون»، و«حبّذا هند» و «حبّذا الهندان»، و«حبّذا الهندات»۔ اب آپ نے دیکھا کہ ان میں مفرد، تثنیہ، جمع میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔ وہی ذَا ہی حبَذَا کا فاعل رہا۔ مذکر اور مؤنث میں بھی کوئی فرق نہیں ہے، وہی ذَا ہی   اس کا فاعل رہا۔ ٹھیک ہو گیا؟ خوب!

آگے فرماتے ہیں:
"یَجُوزُ أَنْ یَکُونَ قَبْلَہُ أَوْ بَعْدَہُ اسْمٌ مُوَافِقٌ لَہُ مَنْصُوبًا عَلَی التَّمْیِیزِ أَوْ حَالًا۔"
فرماتے ہیں: البتہ یہ ایک بات ہے کہ حّبَذَا کے مخصوص بالمدح اور فاعل کے درمیان افراد، تثنیہ، جمع، تذکیر و تانیث میں مطابقت شرط نہیں ہے۔ البتہ ایک بات ہے کہ ایک چیز ہے کہ حبَّذَا کے مخصوص بالمدح سے پہلے یا حبَّذَا کے مخصوص بالمدح کے بعد ایک اور ایسا اسم ہو جو اس مخصوص کے موافق ہو، بنابر تمییز یا بنابر حالیت کے، وہ منصوب ہو۔ یہ جائز ہے، یعنی واجب اور لازم نہیں ہے۔ جیسے:

  • حبَّذَا رَجُلًا زَیْدٌ ،
  • حَبَّذَا زَیْدٌ رَجُلًا

ایسا کہنا جائز ہے کہ زَیْدٌ مخصوص بالمدح ہے۔ آپ چاہیں تو رَجُلًا کو پہلے لیں، چاہیں تو اس کے بعد لیں، یہ جائز ہے۔
"یَجُوزُ أَنْ یَکُونَ قَبْلَہُ أَوْ بَعْدَہُ اسْمٌ مُوَافِقٌ لَہُ مَنْصُوبًا عَلَی التَّمْیِیزِ أَوْ حَالًا۔"
یہ بھی جائز ہے کہ وہ حَبَّذَا کے مخصوص بالمدح سے پہلے ہو یا بعد میں ہو۔ یعنی حَبَّذَا کے مخصوص بالمدح سے پہلے یا بعد میں ایک ایسا اسم ہو جو اس مخصوص بالمدح کے موافق ہو، مَنْصُوبًا  یہ یکون کی خبر ہے اور وہ منصوب ہو۔عَلَی التَّمْیِیزِ أَوْ حَالًا یہ منصوب یا تو تمییز کے طور پر ہو گا یا حال کے طور پر۔

مثال کے طور پر:

  • حبَذَا رَجُلًا زَیْدٌ: یہاں رَجُلًا تمییز ہے، زَیْدٌ مخصوص بالمدح ہے، جو اس سے پہلے ہے۔
  • حبَذَا رَاکِبًا زَیْدٌ: یہاں رَاکِبًا حال ہے، جو زَیْدٌ مخصوص بالمدح سے پہلے ہے۔

یہ رَجلٌ ہو یا رَاکِبٌ، اس سے مراد بھی وہی زَیْدٌ ہے جو اس کے موافق ہے۔ اسی طرح:

  • حبَذَا زَیْدٌ رَجُلًا: یہاں زَیْدٌ مخصوص بالمدح پہلے ہے، اور رَجُلًا تمیز بعد میں ہے۔
  • حبَذَا زَیْدٌ رَاکِبًا: یہاں زَیْدٌ مخصوص بالمدح پہلے ہے، اور رَاکِبًا حال بعد میں ہے۔

یہ جائز ہے کہ وہ پہلے ہو یا بعد میں ہو۔ ختم۔

 

واعلم أنّه لا يجوز التصرّف في هذه الأفعال غير إلحاق التاء فيها؛ ولهذا سمّيت هذه الأفعال غيرَ متصرِّفةٍ.
آخر میں فرماتے ہیں: ایک نکتہ یاد رکھنا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ جو ہم نے افعالِ مدح و ذم ذکر کیا ہیں (نِعْمَ، بِئْسَ، سَاءَ، حَبَّذَا)، ان میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔

وَاعلَم أَنّه لا يَجُوزُ التَّصَرُّفُ في هذه الأفعالِ یعنی ان سے ماضی، مستقبل، مضارع، امر، نہی، یا مفعول بنانا جائز نہیں ہے۔

غير إلحاق التاء فيها؛البتہ تائی تانیث کو ان میں ملحق کرنا جائز ہے۔ مثلاً:

  • نِعْمَ سے نِعْمَتْ
  • بِئْسَ سے بِئْسَتْ

یہی تائی تانیث ہے جو ان افعال کو فعل ثابت کرتی ہے۔اگر یہ تائی تانیث بھی ان کے آخر میں ملحق نہ ہو سکتی تو پھر ان کو فعل ثابت کرنا ہی مشکل تھا۔ یہی تائی تانیث ہے جو بتا رہی ہے کہ یہ افعال ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ تائی تانیث فقط فعل کے ساتھ ملحق ہوتی ہے، اسم کے ساتھ نہیں۔

بس ان افعال میں سوائے تائی تانیث ساکنہ کے، ان کے ساتھ کسی قسم کا اور تصرف جائز نہیں ہے۔ یعنی دیگر ماضی بنانا، مضارع بنانا، امر، نہی، یا مفعول بنانا، یہ سب درست نہیں ہے۔

وَلِهَذَا سُمِّيَت هَذِهِ الأفعالَ غيرَ مُتَصَرِّفةٍ. اسی لیے ان افعال کو "افعال غیر متصرفہ" کہتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ان سے مضارع نہیں بنا سکتے، ان سے امر و نہی نہیں بنا سکتے، اور ان سے مفعول نہیں بناتے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ افعال ہیں، لیکن غیر متصرفہ ہیں، یعنی ان سے مزید گردانیں نہیں کی جا سکتیں۔

هند»، و«نعمت المرأتان الهندان» و «نعمت النساء الهندات»، والثاني: «بِئْسَ» وهو فعل ذمّ، أصله «بَئِسَ» من باب «عَلِمَ»؛ فكسرت الفاء؛ لتبعيّة العين، ثم أسكنت العين تخفيفاً، فصارت «بِئْسَ»، وفاعله أيضاً أحد الأمور الثلاثة المذكورة في «نِعْمَ»، وحكم المخصوص بالذمّ كحكم المخصوص بالمدح في جميع الأحكام المذكورة، مثل: «بئس الرجل زيد»، و«بئس صاحب الرجل زيد» و «بئس رجلاً زيد» و «بئس الرجلان الزيدان»، و«بئس الرجال الزيدون»، و«بئست المرأة هند»، و«بئست المرأتان الهندان» و «بئست النساء الهندات»، والثالث: «سَاءَ» وهو مرادِف لـ «بِئْسَ» وموافِق له في جميع وجوه الاستعمال، والرابع: «حبَّذَا» بفتح الفاء أو ضمِّها، أصله حبُبَ بضمّ العين؛ فأسكنت الباء الأولى وأدغمت في الثانية على اللغة الأولى، أو نقلت ضمّتها إلى الحاء وأدغمت الباء في الباء على اللغة الثانية، و «حَبَّ» لا ينفصل عن «ذَا» في الاستعمال؛ ولهذا يقال في تقرير الأفعال: «حبذا»، وهو مرادف لـ«نِعْمَ»، وفاعله «ذا»، والمخصوص بالمدح مذكور بعده، وإعرابه كإعراب مخصوصِ «نعم» في الوجهين المذكورين، لكنَّه لا يطابق فاعلَه في الوجوه

المذكورة، مثل: «حبّذا زيد»، و«حبّذا الزيدان»، و«حبّذا الزيدون»، و«حبّذا هند» و «حبّذا الهندان»، و«حبّذا الهندات»، ويجوز أن يكون قبله أو بعده اسم موافق له منصوباً على التمييز أو على الحال، مثل: «حبّذا رجلاً زيد»، و«حبّذا راكباً زيد»، و«حبّذا زيد رجلاً»، و«حبّذا زيد راكباً».

واعلم أنّه لا يجوز التصرّف في هذه الأفعال غير إلحاق التاء فيها؛ ولهذا سمّيت هذه الأفعال غيرَ متصرِّفةٍ.

النوع الثالث عشر

أفعال القلوب وإنّما سمّيت بِها؛ لأنَّ صُدورها من القلب ولا دخل فيه للجوارح، وتسمّى أفعال الشكّ واليقين أيضاً؛ لأنَّ بعضها للشكّ وبعضَها لليقين، وهي تدخل على المبتدأ والخبر، و تنصبهما معاً بأن يكونا مفعولين لها، وهي سبعة: ثلاثة منها للشكّ، وثلاثة منها لليقين، وواحد منها مشترَك بينهما؛ أمّا الثلاثة الأُوَل فــ «حَسِبْتُ» و «ظَنَنْتُ» و «خِلْتُ»، مثل: «حسبت زيداً فاضلاً»، و«ظننت بكراً نائماً»، و«خلت خالداً قائماً»، و«ظننت» إذا كان من الظنّة بمعنى التهمة لَم يقتضِ