درس شرح مائة عامل

درس نمبر 23: افعال مدح اور ذم 1

 
1

خطبہ

2

بارویں نوع: افعال مدح اور ذم کی بحث

النَّوْعُ الثَانِي عَشَرَ: أَفْعَالُ الْمَدْحِ وَالذَّمِّ، وَهِيَ أَرْبَعَةٌ: ۔عوامل لفظیہ سماعیہ میں سے  بارہویں نوع ان افعال کے بارے میں ہے جو عامل ہیں، اور ان افعال کو کہا جاتا ہے: أَفْعَالُ مَدْحِ وَالذَّمِّ۔ بہت ترتیب سے آغا جان، آپ پیچھے چلیں، ابتدا میں انہوں نے شروع کیے تھے عَوَامِلَ میں، حروف ، حروف کے بعد انہوں نے عَوَامِلَ ذکر کیے تھے، اسْمَاء، ان کے بعد اب یہ مسلسل چلتے آرہے ہیں کہ جو افعال ہیں اور عامل ہیں، ان افعال میں ایک ہیں أَفْعَالُ الْمَدْحِ وَالذَّمِّ، یعنی وہ افعال جو کسی کی تعریف یا مذمت کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ بھی عامل ہوتے ہیں، ان کے بعد دو اسم ہوتے ہیں، ایک اسم ان کا فَاعِل کہلاتا ہے، اور دوسرا مَخْصُوصٌ بِالْمَدْحِ یا مَخْصُوصٌ بِالذَّمِّ کہلاتا ہے۔ ان شاءاللہ آگے ہم ترتیب سے ساری گزارشات کریں گے۔

أَفْعَالُ الْمَدْحِ وَالذَّمِّ، یعنی کسی کی تعریف کرنے کے لیے یا کسی کی مذمت کرنے کے لیے جو افعال استعمال کیا جاتے ہیں، وہ چار ہیں: نِعْمَ، بِئْسَ، سَاءَ، حَبَّذَا۔ ان شاءاللہ سب پڑھیں گے۔

سب سے پہلے ہے نِعْمَ۔ نون پر کسرہ ہے، عین ساکنہ ہے، نِعْمَ۔ یہ فرما رہے ہیں کہ نِعْمَ اصل میں نَعِمَ تھا، نَعِمَ چونکہ عین پر کسرہ تھا، تو اس کی موافقت کے لیے انہوں نے نون کو بھی کسرہ دے دیا، تو یہ بن گیا نِعِمَ۔ اب چونکہ دو کسرہ دو حروف پر ہی اکٹھے آ گئے، تو ان کو پڑھنا مشکل تھا، تو پھر عین کو ساکن کر دیا، تخفیف کی خاطر، یہ بن گیا نِعْمَ۔ خوب، یہ تو لفظی بات تھی۔

نِعْمَ افعالِ مَدْح میں سے ہے، یعنی جب کوئی شخص کسی کی تعریف کرنا چاہتا ہے، مَدْح کرنا چاہتا ہے، تو وہ اس کے لیے نِعْمَ سے کرتا ہے۔ اب نِعْمَ اگر فعل ہے، البتہ اس میں بھی ایک بات ہے، ان شاءاللہ آپ بڑی کتاب پڑھیں گے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ نِعْمَ اور بِئْسَ افعال نہیں، بلکہ حروف ہیں، لیکن بہرحال ان کا نظریہ یہ ہے کہ نہیں، یہ افعال ہیں۔ جناب، اگر نِعْمَ فعل ہے، تو فعل کو فاعل چاہیے ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں: کوئی مشکل نہیں، ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ اس کے بعد دو اسم ہوں گے، ایک ان کا فاعل کہلائے گا، اور ایک مَخْصُوصٌ بِالْمَدْحِ یا مَخْصُوصٌ بِالذَّمِّ ہوگا۔

نِعْمَ کا فاعل کیا ہوگا؟ ترتیب سے فرماتے ہیں: اس کا فاعل قَد يَكونُ اِسمُ جِنسِِ مُعَرَّفاً بِاللَّامِ،کبھی کبھی اسم جنس مَعْرِفٌ بِالْاَلْفِ وَاللَّامِ ہوتا ہے، اسمِ جنس ہوگا، اس پر اَلْفِ وَاللَّامِ تعریف کا لگا ہوگا۔ اچھا، جیسے: نِعْمَ الرَّجُلُ زَيْدٌ۔ اب ذرا ترتیب کریں گے تو آپ کہیں گے: نِعْمَ فعل، الرَّجُلُ اس کا فاعل، اور زَيْدٌ مَخْصُوص بِالْمَدْحِ۔ اب بحث جو ہے وہ یہ ہے کہ یہ جو زَيْدٌ ہم نے پڑھا ہے، اس پر یہ جو رفع ہم نے پڑھا ہے، ہم نے پڑھا ہے زَيْدٌ، تو الرَّجُلُ پر جو رفع پڑھا ہے، اس کی سمجھ تو آ گئی کہ وہ نِعْمَ کا فاعل ہو گیا، تو یہ زَيْدٌ مَخْصُوص بِالْمَدْحِ ہے، لیکن جو اس پر رفع پڑھ رہے ہیں، اس کے رفع پڑھنے کی وجہ کیا ہے؟ بہت توجہ کے ساتھ آگا: نِعْمَ الرَّجُلُ زَيْدٌ، الرَّجُلُ اس لیے کہ نِعْمَ کا فاعل ہے، چلو وہ تو کلیر ہو گیا، پھر ہم نے پڑھا ہے زَيْدٌ، اگرچہ مَخْصُوص بِالْمَدْحِ ہے، تعریف ہم زید کی کر رہے ہیں، لیکن اس زَيْدٌ کو زَيْدٌ کیوں پڑھ رہے ہیں، اس پر رفع کیوں پڑھ رہے ہیں؟ فرماتے ہیں: یہاں پر دو نظریہ ہیں۔

 کچھ نحویین کہتے ہیں کہ یہ زَيْدٌ مُبْتَدَا ہے، مُبْتَدَا مُؤَخَّر، اور نِعْمَ الرَّجُلُ اس کی خَبَر مُقَدَّم ہے۔ اصل میں تھا: زَيْدٌ نِعْمَ الرَّجُلُ، زید بہت اچھا انسان ہے، زَيْدٌ مُبْتَدَا، لیکن یہ مُؤَخَّر ، بعد میں آ گئی، نِعْمَ الرَّجُلُ اس کی خَبَر مُقَدَّم ہے۔ ایک ہی جملہ ہے۔

 بعض کہتے ہیں: نہیں، اس طرح نہیں ہے، نِعْمَ الرَّجُلُ بہترین ہے مرد ، یعنی مردوں میں سے بہترین تعریف کرنی ہے رجُلُ کی، ھُوَزَيْدٌ ،ھُوَ مُبْتَدَا، زَيْدٌ اس کی خَبَر، یعنی نِعْمَ الرَّجُلُ  علیحدہ  جملہ ہے۔ ھُوَزَيْدٌ یہاں زَيْدٌ موجود ہے لفظًا، ھُوَ جو ہے وہ مَقَدّر ہے، 

اصل میں نِعْمَ الرَّجُلُ ھُوَ زَيْدٌ کے، ھُوَمُبْتَدَا، اور زَيْدٌ کی خَبَر ہے، اس وجہ سے اس کو زَيْدٌ پڑھتے ہیں۔ خوب، بہرحال ہم واپس جاتے ہیں۔

نِعْمَ فعل، افعالِ مَدْح میں سے ہے۔ جناب، اگر نِعْمَ فعل ہے، تو اس کا فاعل کون کیا ہوگا؟ نمبر ایک: کبھی کبھار اس کا فاعل اسمِ جنس ہوگا، جس پر اَلْفِ وَاللَّامِ تعریف کا ہوگا۔ کبھی کبھار ایک اسم ہوگا، جو کسی مَعْرِفٌ بِالْاَلْفِ وَاللَّامِ کی طرف مُضَاف ہوگا، جیسے: نِعْمَ صَاحِبُ الرَّجُلِ زَيْدٌ۔ دو ہو گئے۔ اور کبھی کبھی اس کا فاعل ضَمِيرمستتر ہوگی، لیکن بعد میں  اس کی تمییز ایک اسمِ نَكِرَہ مَنْصُوبَہ واقع ہوگی، جیسے: نِعْمَ رَجُلًا زَيْدٌ۔ رَجُلًا نِعْمَ سے پہلے اس میں ھُوَضَمِير ہے، جو درحقیقت نِعْمَ کی فاعل ہے، رَجُلًا اس کے ابہام کو دور کرنے کے لیے، یہ اس کی تَمْيِيز ہے، رَجُلًا جو نَكِرَہ بھی ہے اور مَنْصُوب بھی ہے۔ اور کبھی کبھی ضَمِير مستتر ہوتی ہے، جس ضَمِيرٌ ایک بات ہے، جناب، ضَمِير تو وہاں ہوتی ہے جہاں اس کا مَرْجِع موجود ہو۔ اردو میں ہم کہتے ہیں: "جس کے بارے میں میں نے تمہیں کہا ہے"، تو جس وہاں کہتے ہیں، جب ایک کے بارے میں پہلے کوئی بات ہو چکی ہو، تو عربی میں بھی ھُوَ یا ھِیَ ، یہ وہاں ہوتے ہیں جب اس کے بارے میں پہلے ہو۔ تو اب ایک چیز ضَمِير ہے مستتر ہے، تو ہوگا تو ہوگا، اس کے لیے ایک مَرْجِع چاہیے، جس کی طرف ضَمِيرکا رُجُوع ہوگا۔ مَرْجِع کیا ہے؟ پھر وہ یا ذکر ہو چکا ہوگا، یا ذکر نہیں ہوگا۔ پھر ایک بات آتی ہے کہ بسا اوقات اس کا مَرْجِع مَعْهُود ذِهْنِيّ، مَعْهُود ذِهْنِيّ آپ جان یہ ہے کہ آپ نے لفظًا اس کا ذکر اس کے ذہن میں موجود ہے، کہ وہ کس کی بات کر رہا ہے، وہ جو اس کے ذہن میں موجود ہے، یہ ضَمِير کا مَرْجِع اسی مَعْهُود ذِهْنِيّ کو بنائے گا۔ ٹھیک ہے جی، آسان ہے۔

اور چیزیں ہیں، اس کو پہلے کلیئر کر لیں، پھر اور نکات ہیں آپ کی یاد کرنے کی۔

3

نعم کی تطبیق

النَّوْعُ الثَانِي عَشَرَ: أَفْعَالُ الْمَدْحِ وَالذَّمِّ،

أَفْعَالِ مَدْحٍ، کیا مطلب ؟ وہی مطلب جو پہلے بیان کیا ہے، یعنی وہ افعال جن کے ذریعے کسی شخص کی تعریف یا مذمت کا قصد کیا جاتا ہے۔

وَهِيَ أَرْبَعَةٌ، اور یہ افعال جو تعریف اور مذمت کے لیے استعمال ہوتے ہیں، یہ چار ہیں:

الْأَوَّل، ان میں پہلے ہے نِعْمَ۔

أَصْلُهُ نَعِمَ، نَعِمَ بِفَتْحِ الْفَاءِ فَكَسْرِ الْعَيْنِ، یعنی فاء کلمہ نون، اس کا فاء کلمہ، اور عین ظاہر اس کا عین کلمہ ہے، بِفَتْحِ الْفَاءِ سے مراد ہے،

یعنی جو اس کا پہلا فاء کلمہ ہے، وہ ہے نون، فاء کے فتح اور عین کے کسرے کے ساتھ۔ فاء کلمہ ہے نون، یعنی نَعِمَ،

فَکُسِرَتِ الْفَاءُ اِتِّبَاعًا لِلْعَيْنِ، فاء کلمہ کو کسرہ دیا گیا، یعنی نَعِمَ میں فاء کلمہ کیا ہے؟

نون کو فاء کلمہ کو کسرہ دیا کیوں؟

اِتِّبَاعًا لِلْعَيْنِ، وہ عین کے اتباع کرتے ہوئے، اس پر کسرہ تھا، نَعِمَ سے بن گیا نِعِمَ۔ نِعِمَ

ثُمَّ اُسْكِنَتِ الْعَيْنِ، چونکہ دو کسرے اکٹھے پڑنا زبان پر ذرا مشکل تھا، نِعِمَ عین کو ساکن کر گیا

لِلتَخْفِيفِ، اور ثقل کو دور کرنے کے لیے، چونکہ نِعِمَ پڑنا ذرا مشکل تھا، بھاری تھا، اس کو آسان کرنے کے لیے عین کو ساکن کر دیا، عین کلمے کو، تو یہ بن گیا نِعْمَ۔

فَصَارَ نِعْمَ اب نِعْمَ کو پڑنا آسان ہے، کوئی اس میں مشکل نہیں ہے۔

وَهُوَ فِعْلُ مَدْحٍ، یہ نِعْمَ فعلِ مَدْح ہے۔ اب یہاں بھی نکتہ یاد رکھنا ہے، فعل کیوں کہا ہے؟ کیونکہ بعض لوگ اس کو حروف میں شمار کرتے ہیں، اسماء میں شمار کرتے ہیں، یہ کہتے ہیں: نہیں، نہیں، وَهُوَ فِعْلُ مَدْحٍ، یہ نِعْمَ افعال میں سے ہے، اور یہ فعلِ مَدْح، یعنی کسی کی تعریف کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

وَفَاعِلُهُ، پس اگر نِعْمَ اسم نہیں بلکہ فعل ہے، تو پھر اس فعل کا فاعل کیا ہوگا؟ نِعْمَ کے فاعل چار قسم پر واقع ہوتا ہے (تین قسم ہیں بعد میں استاد درست کر رہے ہیں) :

  1. وَفَاعِلُهُ قَدْ يَكُونُ اِسْمَ جِنْسٍ، کبھی کبھار اس نِعمَ کا فاعل اسم جنس ہوتا ہے، مُعَرَّفًا بِاللَّامِ، جو مُعَرَّف بِاللَّامِ ہوتا ہے، یعنی اسم جنس ہوتا ہے جس پر اَلْفِ وَاللَّامِ تعریف کا داخل ہوتا ہے، جیسے: نِعْمَ الرَّجُلُ زَيْدٌ۔ الرَّجُلُ یعنی رَجُلٌ اسم جنس ہے، اس پر اَلْفِ وَاللَّامِ آ گیا تعریف کا، تو یہ بن گیا الرَّجُلُ۔ فَالرَّجُلُ مَرْفُوعٌ، پس الرَّجُلُ مرفوع ہے، کیوں؟ بِأَنَّهُ فَاعِلُ نِعْمَ، چونکہ یہ نِعْمَ کا فاعل ہے، تو لہٰذا الرَّجُلُ مرفوع ہے، نِعْمَ کے فاعل ہونے کی بنیاد پر۔ وَزَيْدٌ، اور زید مَخْصُوصٌ بِالْمَدْحِ۔ نِعْمَ چونکہ فعلِ مَدْح میں سے ہے، میں نے پہلے گزارش کی تھی کہ اس کو دو اسم درکار ہوتے ہیں، ایک اس کا فاعل بنتا ہے، اور ایک مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا مَخْصُوص بِالذَّمِّ، جو بھی ہوگا۔ تو یہ زید مَخْصُوصٌ بِالْمَدْحِ ہے، مرَفُوعٌ اور ہے بھی مرفوع۔ نِعْمَ الرَّجُلُ زَيْدٌ پڑھ رہے ہیں، تو مرفوع کیوں ہے؟ بِأَنَّهُ مُبْتَدَأٌ، اس لیے کہ یہ مبتدا ہے، وَنِعْمَ الرَّجُلُ خَبَرُهُ، نِعْمَ الرَّجُلُ اس مبتدا کی خبر ہے، مُقَدَّمٌ عَلَيْهِ، جو اس پر مقدم ہے۔ یعنی گویا آپ یوں کہیں گے: نِعْمَ الرَّجُلُ خَبَرٌ مُقَدَّم، زَيْدٌ مُبْتَدَأ مُؤَخَّر، اور مبتدا چونکہ مرفوع ہوتی ہے، تو زید بھی مبتدا ہے، لہٰذا یہ مرفوع ہے۔ یہ ہو گئی ایک تعریف۔أَوْ مَرْفُوعٌ، یا بعض کہتے ہیں: نہیں، یہ جو زید مرفوع ہے، بِأَنَّهُ خَبَرُ مُبْتَدَأٍ مَحذُوفٍ، کہ یہ زید مبتدا نہیں، بلکہ یہ خبر ہے ایک مبتدا محذوف کی، یعنی زید خبر ہے، اور اس کی مبتدا محذوف ہے، وَهُوَ الضَمِيرُ، اور وہ مبتدا ہے ضمیر، تَقْدِيرُهُ، وہ کہتے ہیں کہ نِعْمَ الرَّجُلُ زَيْدٌ اصل میں تھا: نِعْمَ الرَّجُلُ هُوَ زَيْدٌ، نِعْمَ فعل از افعالِ مدح، الرَّجُلُ اس کا ہو گیا فاعل، هُوَ مُبْتَدَأ، زَيْدٌ اس کی خبر۔ اب درست توجہ کے ساتھ، نِعْمَ الرَّجُلُ زَيْدٌ میں یا زید مبتدا مؤخر ہے، اور نِعْمَ الرَّجُلُ خبر مقدم، یا یہ  زید خبر ہے، اور اس کی مبتدا ھُوَ ہے جو معروف ہے۔ فَيَكُونُ عَلَى تَقْدِيرِ الْأَوَّلِ، اور پہلی قسم اگر ہم کہتے ہیں کہ زید مبتدا مؤخر اور نِعْمَ الرَّجُلُ خبر مقدم، فَيَكُونُ، تو اس صورت میں یہ بن جائے گا جُمْلَةً وَاحِدَةً، نِعْمَ الرَّجُلُ زَيْدٌ ایک ہی جملہ ہوگا۔ وَعَلَى تَقْدِيرِ الثَّانِي، لیکن اگر ہم دوسری ترکیب کرتے ہیں کہ نہیں، نِعْمَ الرَّجُلُ هُوَ زَيْدٌ اصل میں ہے کہ هُوَ مبتدا ہے، اور زَيْدٌ خبر ہے، تو وَعَلَى تَقْدِيرِ الثَّانِي جُمْلَتَيْنِ، تو پھر یہ ایک جملہ نہیں، دو ہوں گے، یعنی نِعْمَ الرَّجُلُ علیحدہ جُمْلَة ہوگا، هُوَ زَيْدٌ یہ علیحدہ جُمْلَة ہوگا۔ خوب، ختم۔
  2.  وَقَدْ يَكُونُ فَاعِلُهُ، کبھی کبھار نِعْمَ کا فاعل اسمًا مضافًا، (نِعْمَ کا فاعل کبھی اسم جنس معرّف باللام ہوتا ہے اور کبھی )ایک ایسا اسم ہوتا ہے جو مضاف ہوتا ہے آگے کسی معرّف باللام کی طرف، یعنی نِعْمَ کا فاعل اسم ہے، لیکن وہ اسم مضاف ہوا ہے کسی اور معرّف باللام کی طرف، جیسے: نِعْمَ صَاحِبُ الرَّجُلِ زَيْدٌ۔ اب دیکھیں، صَاحِبُ جو الرَّجُلِ کی طرف مضاف ہے، اور زَيْدٌ مَخْصُوصٌ بِالْمَدْحِ ہے۔ صَاحِبُ الرَّجُلِ یہ ہے، اب اس کا مضاف مضاف ہے، مل کر یہ اس کا بنے گا نِعْمَ کا اسم۔ دو ہو گئے۔
  3.  وَقَدْ يَكُونُ ضَمِيرًا مُسْتَتِرًا، اور کبھی کبھی اسی نِعْمَ کا فاعل اسمِ ظاہر نہیں، بلکہ ضمیر ہوتی ہے، اور وہ ضمیر مستتر، بارز نہیں ہوتی، ضمیرِ مستتر ،اس کے اندر ہوتی ہے، لیکن مُمَيِّزًا بِنَكِرَةٍ مَنْصُوبَةٍ، لیکن اس کی تمیز ایک اسمِ نَكِرَہ  مَنْصُوبَہ کو لایا جاتا ہے، یعنی اب یوں کہیں گے کہ نِعْمَ کا جو فاعل ہے، وہ تو ہے ضمیرِ مستتر، اب مستتر کا معنی چھپی ہوئی، اب اس میں ابہام ہے، پتہ نہیں کیا ضمیر ہے، کیا چیز ہے، تو اس ابہام کو رفع کرنے کے لیے تمیز لائی جاتی ہے، وہ تمیز پھر کیا ہوگی؟ وہ تمیز اسم نَكِرَہ لائی  جائے گی، جو کہ منصوب ہوگی، اس پر نصب ہوگا، جیسے: نِعْمَ رَجُلًا زَيْدٌ۔ اب ذراغور کرنا یہ نہیں کہنا کہ رَجُلًا نِعْمَ کا اسم ہے بلکہ آپ کہیں گے: نِعْمَ افعالِ مَدْحِ میں سے ہے، اس کا فاعل درحقیقت تو ھُوَ کی ضمیر ہے، جس کی تمییز رَجُلًا ہے۔ یہ رَجُلًا اس ھُوَ کی تمییز ہے، اور زَيْدٌ مَخْصُوص بِالْمَدْحِ ہے۔ وَالضَّمِيرُ الْمُسْتَتِرُ، اب کوئی کہے گا: جناب، اگر نِعْمَ میں ضمیر ہے، تو ضمیرِ مستتر کے لیے تو ایک مَرْجِع چاہیے، کہ وہ ضمیر کس کی طرف پلٹ رہی ہے، اس سے مراد کیا ہونے ہے؟ تو جواب دیں گے: وَالضَّمِيرُ الْمُسْتَتِرُ عَائِدٌ إِلَى مَعْهُودٍ ذِهْنِيٍّ، وہ جو زید جس کو زبان پر نہیں لایا تھا، جس کا ذکر نہیں کیا تھا، لیکن ایک شخص اس کے ذہن میں تو تھا، جس کی وہ تعریف کرنا چاہ رہا تھا۔ پس جو اس کے ذہن میں تھا، نِعْمَ میں ھُوَ کی ضمیر اسی مَعْهُود ذِهْنِيّ کی طرف جائے گی۔ ٹھیک ہو گیا ہے۔
    وَقَدْ يُحْذَفُ الْمَخْصُوصُ إِذَا دَلَّ عَلَيْهِ الْقَرِينَةُ، اب ذرا غور کرنا ہوا، پھر نتیجہ کیا ہوا؟ کہ فعلِ نِعْمَ کا فاعل بہت توجہ ، فعلِ نِعْمَ کا فاعل یا اسم ہوگا، اسم جنس ہوگا جو مَعْرِفٌ بِاللَّامِ ہوگا، یا وہ اسم ہوگا جو مَعْرِفٌ بِاللَّامِ کی طرف مضاف ہوگا، دو، یا اس کا فاعل ضمیرِ مُسْتَتِرٌ ہوگی، جس کی تمییز بعد میں ایک اسمِ نَكِرَہ مَنْصُوبَہ ہوگی۔ ٹھیک، ختم، تین ہو گئے۔ گویا کہ چار نہیں، بلکہ اس کا فاعل جو ہے، وہ تین قسم کا ہوتا ہے۔ ختم، یہ بات یہاں ختم ہوگی۔اگلی بات: ، میں نے گزارش کی ہے، یہ جو افعالِ مَدْح اور ذَمّ ہیں، ان کو دو اسم چاہیے ہوتے ہیں، ایک ان کا فاعل ہوتا ہے، اور ایک مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا مَخْصُوص بِالذَّمِّ واقع ہوتا ہے۔ وَقَدْ يُحْذَفُ الْمَخْصُوصُ، کبھی کبھی اس مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا مَخْصُوص بِالذَّمِّ کو حذف کر دیا جاتا ہے، یعنی فقط اس کا فاعل موجود ہوتا ہے، لیکن مَخْصُوصٌ، یعنی مَخْصُوصٌ بِالْمَدْحِ یا مَخْصُوصٌ بِالذَّمِّ کو ذکر نہیں کیا جاتا، حذف کر دیا جاتا ہے۔ وہ کیوں؟

إِذَا دَلَّ عَلَيْهِ الْقَرِينَةُ، اگر کلام میں کوئی قرینہ ایسا موجود ہو جو یہ بتا رہا ہو کہ یہاں مَخْصُوص بِالْمَدْحِ کون ہے یا مَخْصُوص بِالذَّمِّ کون ہے، تو وہاں پر یہ اس مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا ذَمٍّ کو حذف کر دیا جاتا ہے، اس کو ذکر کی ضرورت نہیں ہوتی، کیونکہ قرینہ خود بتا رہا ہے کہ یہاں کس کی تعریف کی جا رہی ہے یا کس کی مذمت کی جا رہی ہے۔ جیسے آیتِ مجیدہ ہے: نِعْمَ الْعَبْدُ، بس اتنا ہے۔ اب نِعْمَ فعل ہے اور اَلْعَبْدُاسکا فاعل ہے، لیکن مَخْصُوص بِالْمَدْحِ کو ذکر نہیں کیا گیا، کیوں؟ نِعْمَ الْعَبْدُ اَیوبُ، جبکہ مَخْصُوص بِالْمَدْحِ تعریف کس کی ہو رہی تھی؟ جنابِ اَیوبُ کی۔ قرینہ کیا ہے؟ کس چیز نے بتایا کہ یہاں نِعْمَ الْعَبْدُ سے مراد جنابِ اَیوبُ ہیں؟

وَالْقَرِينَةُ سِيَاقُ الْآيَةِ، اس لیے کہ آیتِ مجیدہ جو چل رہی ہے، سیاقِ کلام، اندازِ کلام، قصہ کس کا ہے، بات کس کی ہو رہی ہے، تو وہ خود یہاں قرینہ ہے کہ جب بات ساری حضرت اَیوبُ سے متعلق ہو رہی ہے، تو یہاں نِعْمَ الْعَبْدُ جو اللہ پاک تعریف کر رہا ہے، تو وہ تعریف بھی اسی جنابِ اَیوبُ  کی ہی مَدْح ہو رہی ہے، کسی اور کی نہیں۔ یہ بات ختم ہو گئی۔

اگلی بات یہ ہے، وہ بالکل آسان ہے: 

شَرْطُ الْمَخْصُوصِ أَنْ يَكُونَ مُطَابِقًا لِفَاعِلٍ، میں نے گودارش کی ہے، ان کے بعد دو اسم چاہیے ہوتے ہیں، ایک ان کا فاعل ہوتا ہے، اور ایک مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا مَخْصُوص بِالذَّمِّ ہوتا ہے۔ اب اس میں ایک نکتہ یاد رکھنا ہے، وہ کیا ہے؟ مَخْصُوص بِالْمَدْحِ ہو یا مَخْصُوص بِالذَّمِّ، اس کو اس فاعلِ مَدْح یا ذَمّ کے فاعل کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ کیا مطلب؟ یعنی اگر فاعل مفرد ہے، تو وہ مَخْصُوص بھی مفرد لائیں گے، فاعل تثنیہ ہے تو مَخْصُوص بھی تثنیہ لائیں گے، اگر فاعل جمع ہے تو مَخْصُوص بھی جمع لائیں گے، فاعل مذکر ہے تو مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا ذَمٍّ بھی مذکر لائیں گے، اگر فاعلِ مَدْح یا ذَمّ کا فاعل مؤنث ہے تو ان کا مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا ذَمّ بھی مؤنث لائیں گے۔ اب یاد رکھنا ہے کہ مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا ذَمّ کا فعلِ مَدْح یا ذَمّ کے فاعل کے مطابق ہونا شرط ہے، کہ فاعل مفرد ہوگا تو مَخْصُوص بھی مفرد۔

وَشَرْطُ الْمَخْصُوصِ، یعنی مَخْصُوص بِالْمَدْحِ ہو چاہے مَخْصُوص بِالذَّمِّ ہو، اس میں شرط یہ ہے کہ 

أَنْ يَكُونَ مُطَابِقًا لِفَاعِلٍ، کہ وہ فعلِ مَدْحٍ یا فعلِ ذَمٍّ کے فاعل کے ساتھ مُطَابَقَت رکھتا ہو، کس بات میں؟

فِي الْإِفْرَادِ، اِفْرَادٍ میں، کیا مطلب؟ یعنی اگر فاعل مفرد ہے تو مَخْصُوص بھی مفرد ہوگا،

وَالتَّثْنِيَةِ، اگر ان کا فاعل تثنیہ ہے تو مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا ذَمّ بھی تثنیہ ہوگا،

وَالجَمعِ اگر فاعل جمع ہے تو مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا ذَمّ بھی جمع ہوگا،

والتذكيرِ اگر فاعل مذکر ہے تو مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا ذَمّ بھی مذکر ہوگا،

والتأنيثِ اگر فاعل مؤنث ہے تو مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا ذَمّ بھی مؤنث ہوگا۔

مثل: «نِعم الرجلُ زيدٌ» اب آپ نے دیکھا: الرَّجُلُ کیا ہے؟ مذکر بھی ہے، مفرد بھی ہے۔ زَيْدٌ مفرد بھی ہے، مذکر بھی ہے۔

و«نعم الرجلانِ الزيدانِ»الرجلانِ تثنیہ بھی ہے، مذکر بھی ہے، الزيدانِ جو مَخْصُوصٌ بِالْمَدْحِ ہے، وہ تثنیہ بھی ہے،مذکر بھی ہے،

«نعم الرِجالُ الزيدُونَ» الرِجالُ  جمع بھی ہے مذکر بھی ہے الزيدُونَ جو مَخْصُوص بِالْمَدْحِ ہے، وہ جمع بھی ہے مذکر بھی ہے ۔

 نِعْمَتِ المرأةُ هِندٌ ، المرأةُ  مفرد بھی ہے، اور مؤنث بھی ہے، هِندٌ مَخْصُوص بِالْمَدْحِ مفرد بھی ہے، مؤنث بھی ہے۔

 نِعْمَتِ الْمَرْأَتَانِ الهِندانِ ، الْمَرْأَتَانِ  مونث بھی ہے تثنیہ بھی ہے، الهِندانِ جو مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یہ تثنیہ بھی ہے، اور مؤنث بھی ہے۔

 وَنِعْمَتِ النِّسَاءُ الهنداتُ، النِّسَاءُ   اَلْهِنْدَاتُ، اب الْهِنْدَاتُ، اب آپ دیکھیں کہ النِّسَاءُ چونکہ جمعِ مؤنث ہے، تو الْهِنْدَاتُ بھی جمعِ مؤنث، جو مَخْصُوص بِالْمَدْحِ ہے۔

صَلَّى اللَّهُ محمدِِ وَآلِ محمدِِ

النوع الثاني عشر

أفعال المدح والذمّ، وهي أربعة: الأوّل: «نِعْمَ» أصله

«نَعِمَ» بفتح الفاء وكسر العين، فكسرت الفاء؛ اتباعاً للعين، ثم أسكنت العين للتخفيف، فصار «نِعْمَ»، وهو فعل مدح، وفاعله قد يكون اسم جنس معرَّفاً باللام، مثل: «نعم الرجل زيد»؛ فـ «الرجل» مرفوع بأنّه فاعل «نعم»، و«زيد» مخصوص بالمدح، مرفوع بأنّه مبتدأ، و«نعم الرجل» خبره مقدم عليه، أو مرفوع بأنّه خبر مبتدأ محذوف وهو الضمير تقديره: «نعم الرجل هو زيد»؛ فيكون على التقدير الأوّل جملة واحدة، وعلى التقدير الثاني جملتين، وقد يكون فاعله اسماً مضافاً إلى المعرَّف باللام، نحو: «نعم صاحب الرجل زيد»، وقد يكون ضميراً مستَتِراً مميَّزاً بنكِرة منصوبة، مثل: «نعم رجلاً زيد»، والضمير المستتر عائد إلى معهود ذِهْنِيِّ، وقد يحذف المخصوص إذا دلَّ عليه القرينة، مثل: «نعم العبد» أي: نعم العبد أيّوبُ، والقرينة سِياق الآية، وشرط المخصوص أن يكون مطابقاً للفاعل في الإفراد والتثنية والجمع والتذكير والتأنيث، مثل: «نعم الرجل زيد»، و«نعم الرجلان الزيدان»، و«نعم الرجال الزيدون»، و«نعمت المرأة

هند»، و«نعمت المرأتان الهندان» و «نعمت النساء الهندات»، والثاني: «بِئْسَ» وهو فعل ذمّ، أصله «بَئِسَ» من باب «عَلِمَ»؛ فكسرت الفاء؛ لتبعيّة العين، ثم أسكنت العين تخفيفاً، فصارت «بِئْسَ»، وفاعله أيضاً أحد الأمور الثلاثة المذكورة في «نِعْمَ»، وحكم المخصوص بالذمّ كحكم المخصوص بالمدح في جميع الأحكام المذكورة، مثل: «بئس الرجل زيد»، و«بئس صاحب الرجل زيد» و «بئس رجلاً زيد» و «بئس الرجلان الزيدان»، و«بئس الرجال الزيدون»، و«بئست المرأة هند»، و«بئست المرأتان الهندان» و «بئست النساء الهندات»، والثالث: «سَاءَ» وهو مرادِف لـ «بِئْسَ» وموافِق له في جميع وجوه الاستعمال، والرابع: «حبَّذَا» بفتح الفاء أو ضمِّها، أصله حبُبَ بضمّ العين؛ فأسكنت الباء الأولى وأدغمت في الثانية على اللغة الأولى، أو نقلت ضمّتها إلى الحاء وأدغمت الباء في الباء على اللغة الثانية، و «حَبَّ» لا ينفصل عن «ذَا» في الاستعمال؛ ولهذا يقال في تقرير الأفعال: «حبذا»، وهو مرادف لـ«نِعْمَ»، وفاعله «ذا»، والمخصوص بالمدح مذكور بعده، وإعرابه كإعراب مخصوصِ «نعم» في الوجهين المذكورين، لكنَّه لا يطابق فاعلَه في الوجوه