النَّوْعُ الثَانِي عَشَرَ: أَفْعَالُ الْمَدْحِ وَالذَّمِّ،
أَفْعَالِ مَدْحٍ، کیا مطلب ؟ وہی مطلب جو پہلے بیان کیا ہے، یعنی وہ افعال جن کے ذریعے کسی شخص کی تعریف یا مذمت کا قصد کیا جاتا ہے۔
وَهِيَ أَرْبَعَةٌ، اور یہ افعال جو تعریف اور مذمت کے لیے استعمال ہوتے ہیں، یہ چار ہیں:
الْأَوَّل، ان میں پہلے ہے نِعْمَ۔
أَصْلُهُ نَعِمَ، نَعِمَ بِفَتْحِ الْفَاءِ فَكَسْرِ الْعَيْنِ، یعنی فاء کلمہ نون، اس کا فاء کلمہ، اور عین ظاہر اس کا عین کلمہ ہے، بِفَتْحِ الْفَاءِ سے مراد ہے،
یعنی جو اس کا پہلا فاء کلمہ ہے، وہ ہے نون، فاء کے فتح اور عین کے کسرے کے ساتھ۔ فاء کلمہ ہے نون، یعنی نَعِمَ،
فَکُسِرَتِ الْفَاءُ اِتِّبَاعًا لِلْعَيْنِ، فاء کلمہ کو کسرہ دیا گیا، یعنی نَعِمَ میں فاء کلمہ کیا ہے؟
نون کو فاء کلمہ کو کسرہ دیا کیوں؟
اِتِّبَاعًا لِلْعَيْنِ، وہ عین کے اتباع کرتے ہوئے، اس پر کسرہ تھا، نَعِمَ سے بن گیا نِعِمَ۔ نِعِمَ 
ثُمَّ اُسْكِنَتِ الْعَيْنِ، چونکہ دو کسرے اکٹھے پڑنا زبان پر ذرا مشکل تھا، نِعِمَ عین کو ساکن کر گیا
لِلتَخْفِيفِ، اور ثقل کو دور کرنے کے لیے، چونکہ نِعِمَ پڑنا ذرا مشکل تھا، بھاری تھا، اس کو آسان کرنے کے لیے عین کو ساکن کر دیا، عین کلمے کو، تو یہ بن گیا نِعْمَ۔
فَصَارَ نِعْمَ اب نِعْمَ کو پڑنا آسان ہے، کوئی اس میں مشکل نہیں ہے۔
وَهُوَ فِعْلُ مَدْحٍ، یہ نِعْمَ فعلِ مَدْح ہے۔ اب یہاں بھی نکتہ یاد رکھنا ہے، فعل کیوں کہا ہے؟ کیونکہ بعض لوگ اس کو حروف میں شمار کرتے ہیں، اسماء میں شمار کرتے ہیں، یہ کہتے ہیں: نہیں، نہیں، وَهُوَ فِعْلُ مَدْحٍ، یہ نِعْمَ افعال میں سے ہے، اور یہ فعلِ مَدْح، یعنی کسی کی تعریف کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
وَفَاعِلُهُ، پس اگر نِعْمَ اسم نہیں بلکہ فعل ہے، تو پھر اس فعل کا فاعل کیا ہوگا؟ نِعْمَ کے فاعل چار قسم پر واقع ہوتا ہے (تین قسم ہیں بعد میں استاد درست کر رہے ہیں) :
	- وَفَاعِلُهُ قَدْ يَكُونُ اِسْمَ جِنْسٍ، کبھی کبھار اس نِعمَ کا فاعل اسم جنس ہوتا ہے، مُعَرَّفًا بِاللَّامِ، جو مُعَرَّف بِاللَّامِ ہوتا ہے، یعنی اسم جنس ہوتا ہے جس پر اَلْفِ وَاللَّامِ تعریف کا داخل ہوتا ہے، جیسے: نِعْمَ الرَّجُلُ زَيْدٌ۔ الرَّجُلُ یعنی رَجُلٌ اسم جنس ہے، اس پر اَلْفِ وَاللَّامِ آ گیا تعریف کا، تو یہ بن گیا الرَّجُلُ۔ فَالرَّجُلُ مَرْفُوعٌ، پس الرَّجُلُ مرفوع ہے، کیوں؟ بِأَنَّهُ فَاعِلُ نِعْمَ، چونکہ یہ نِعْمَ کا فاعل ہے، تو لہٰذا الرَّجُلُ مرفوع ہے، نِعْمَ کے فاعل ہونے کی بنیاد پر۔ وَزَيْدٌ، اور زید مَخْصُوصٌ بِالْمَدْحِ۔ نِعْمَ چونکہ فعلِ مَدْح میں سے ہے، میں نے پہلے گزارش کی تھی کہ اس کو دو اسم درکار ہوتے ہیں، ایک اس کا فاعل بنتا ہے، اور ایک مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا مَخْصُوص بِالذَّمِّ، جو بھی ہوگا۔ تو یہ زید مَخْصُوصٌ بِالْمَدْحِ ہے، مرَفُوعٌ اور ہے بھی مرفوع۔ نِعْمَ الرَّجُلُ زَيْدٌ پڑھ رہے ہیں، تو مرفوع کیوں ہے؟ بِأَنَّهُ مُبْتَدَأٌ، اس لیے کہ یہ مبتدا ہے، وَنِعْمَ الرَّجُلُ خَبَرُهُ، نِعْمَ الرَّجُلُ اس مبتدا کی خبر ہے، مُقَدَّمٌ عَلَيْهِ، جو اس پر مقدم ہے۔ یعنی گویا آپ یوں کہیں گے: نِعْمَ الرَّجُلُ خَبَرٌ مُقَدَّم، زَيْدٌ مُبْتَدَأ مُؤَخَّر، اور مبتدا چونکہ مرفوع ہوتی ہے، تو زید بھی مبتدا ہے، لہٰذا یہ مرفوع ہے۔ یہ ہو گئی ایک تعریف۔أَوْ مَرْفُوعٌ، یا بعض کہتے ہیں: نہیں، یہ جو زید مرفوع ہے، بِأَنَّهُ خَبَرُ مُبْتَدَأٍ مَحذُوفٍ، کہ یہ زید مبتدا نہیں، بلکہ یہ خبر ہے ایک مبتدا محذوف کی، یعنی زید خبر ہے، اور اس کی مبتدا محذوف ہے، وَهُوَ الضَمِيرُ، اور وہ مبتدا ہے ضمیر، تَقْدِيرُهُ، وہ کہتے ہیں کہ نِعْمَ الرَّجُلُ زَيْدٌ اصل میں تھا: نِعْمَ الرَّجُلُ هُوَ زَيْدٌ، نِعْمَ فعل از افعالِ مدح، الرَّجُلُ اس کا ہو گیا فاعل، هُوَ مُبْتَدَأ، زَيْدٌ اس کی خبر۔ اب درست توجہ کے ساتھ، نِعْمَ الرَّجُلُ زَيْدٌ میں یا زید مبتدا مؤخر ہے، اور نِعْمَ الرَّجُلُ خبر مقدم، یا یہ  زید خبر ہے، اور اس کی مبتدا ھُوَ ہے جو معروف ہے۔ فَيَكُونُ عَلَى تَقْدِيرِ الْأَوَّلِ، اور پہلی قسم اگر ہم کہتے ہیں کہ زید مبتدا مؤخر اور نِعْمَ الرَّجُلُ خبر مقدم، فَيَكُونُ، تو اس صورت میں یہ بن جائے گا جُمْلَةً وَاحِدَةً، نِعْمَ الرَّجُلُ زَيْدٌ ایک ہی جملہ ہوگا۔ وَعَلَى تَقْدِيرِ الثَّانِي، لیکن اگر ہم دوسری ترکیب کرتے ہیں کہ نہیں، نِعْمَ الرَّجُلُ هُوَ زَيْدٌ اصل میں ہے کہ هُوَ مبتدا ہے، اور زَيْدٌ خبر ہے، تو وَعَلَى تَقْدِيرِ الثَّانِي جُمْلَتَيْنِ، تو پھر یہ ایک جملہ نہیں، دو ہوں گے، یعنی نِعْمَ الرَّجُلُ علیحدہ جُمْلَة ہوگا، هُوَ زَيْدٌ یہ علیحدہ جُمْلَة ہوگا۔ خوب، ختم۔
-  وَقَدْ يَكُونُ فَاعِلُهُ، کبھی کبھار نِعْمَ کا فاعل اسمًا مضافًا، (نِعْمَ کا فاعل کبھی اسم جنس معرّف باللام ہوتا ہے اور کبھی )ایک ایسا اسم ہوتا ہے جو مضاف ہوتا ہے آگے کسی معرّف باللام کی طرف، یعنی نِعْمَ کا فاعل اسم ہے، لیکن وہ اسم مضاف ہوا ہے کسی اور معرّف باللام کی طرف، جیسے: نِعْمَ صَاحِبُ الرَّجُلِ زَيْدٌ۔ اب دیکھیں، صَاحِبُ جو الرَّجُلِ کی طرف مضاف ہے، اور زَيْدٌ مَخْصُوصٌ بِالْمَدْحِ ہے۔ صَاحِبُ الرَّجُلِ یہ ہے، اب اس کا مضاف مضاف ہے، مل کر یہ اس کا بنے گا نِعْمَ کا اسم۔ دو ہو گئے۔
-  وَقَدْ يَكُونُ ضَمِيرًا مُسْتَتِرًا، اور کبھی کبھی اسی نِعْمَ کا فاعل اسمِ ظاہر نہیں، بلکہ ضمیر ہوتی ہے، اور وہ ضمیر مستتر، بارز نہیں ہوتی، ضمیرِ مستتر ،اس کے اندر ہوتی ہے، لیکن مُمَيِّزًا بِنَكِرَةٍ مَنْصُوبَةٍ، لیکن اس کی تمیز ایک اسمِ نَكِرَہ  مَنْصُوبَہ کو لایا جاتا ہے، یعنی اب یوں کہیں گے کہ نِعْمَ کا جو فاعل ہے، وہ تو ہے ضمیرِ مستتر، اب مستتر کا معنی چھپی ہوئی، اب اس میں ابہام ہے، پتہ نہیں کیا ضمیر ہے، کیا چیز ہے، تو اس ابہام کو رفع کرنے کے لیے تمیز لائی جاتی ہے، وہ تمیز پھر کیا ہوگی؟ وہ تمیز اسم نَكِرَہ لائی  جائے گی، جو کہ منصوب ہوگی، اس پر نصب ہوگا، جیسے: نِعْمَ رَجُلًا زَيْدٌ۔ اب ذراغور کرنا یہ نہیں کہنا کہ رَجُلًا نِعْمَ کا اسم ہے بلکہ آپ کہیں گے: نِعْمَ افعالِ مَدْحِ میں سے ہے، اس کا فاعل درحقیقت تو ھُوَ کی ضمیر ہے، جس کی تمییز رَجُلًا ہے۔ یہ رَجُلًا اس ھُوَ کی تمییز ہے، اور زَيْدٌ مَخْصُوص بِالْمَدْحِ ہے۔ وَالضَّمِيرُ الْمُسْتَتِرُ، اب کوئی کہے گا: جناب، اگر نِعْمَ میں ضمیر ہے، تو ضمیرِ مستتر کے لیے تو ایک مَرْجِع چاہیے، کہ وہ ضمیر کس کی طرف پلٹ رہی ہے، اس سے مراد کیا ہونے ہے؟ تو جواب دیں گے: وَالضَّمِيرُ الْمُسْتَتِرُ عَائِدٌ إِلَى مَعْهُودٍ ذِهْنِيٍّ، وہ جو زید جس کو زبان پر نہیں لایا تھا، جس کا ذکر نہیں کیا تھا، لیکن ایک شخص اس کے ذہن میں تو تھا، جس کی وہ تعریف کرنا چاہ رہا تھا۔ پس جو اس کے ذہن میں تھا، نِعْمَ میں ھُوَ کی ضمیر اسی مَعْهُود ذِهْنِيّ کی طرف جائے گی۔ ٹھیک ہو گیا ہے۔
 وَقَدْ يُحْذَفُ الْمَخْصُوصُ إِذَا دَلَّ عَلَيْهِ الْقَرِينَةُ، اب ذرا غور کرنا ہوا، پھر نتیجہ کیا ہوا؟ کہ فعلِ نِعْمَ کا فاعل بہت توجہ ، فعلِ نِعْمَ کا فاعل یا اسم ہوگا، اسم جنس ہوگا جو مَعْرِفٌ بِاللَّامِ ہوگا، یا وہ اسم ہوگا جو مَعْرِفٌ بِاللَّامِ کی طرف مضاف ہوگا، دو، یا اس کا فاعل ضمیرِ مُسْتَتِرٌ ہوگی، جس کی تمییز بعد میں ایک اسمِ نَكِرَہ مَنْصُوبَہ ہوگی۔ ٹھیک، ختم، تین ہو گئے۔ گویا کہ چار نہیں، بلکہ اس کا فاعل جو ہے، وہ تین قسم کا ہوتا ہے۔ ختم، یہ بات یہاں ختم ہوگی۔اگلی بات: ، میں نے گزارش کی ہے، یہ جو افعالِ مَدْح اور ذَمّ ہیں، ان کو دو اسم چاہیے ہوتے ہیں، ایک ان کا فاعل ہوتا ہے، اور ایک مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا مَخْصُوص بِالذَّمِّ واقع ہوتا ہے۔ وَقَدْ يُحْذَفُ الْمَخْصُوصُ، کبھی کبھی اس مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا مَخْصُوص بِالذَّمِّ کو حذف کر دیا جاتا ہے، یعنی فقط اس کا فاعل موجود ہوتا ہے، لیکن مَخْصُوصٌ، یعنی مَخْصُوصٌ بِالْمَدْحِ یا مَخْصُوصٌ بِالذَّمِّ کو ذکر نہیں کیا جاتا، حذف کر دیا جاتا ہے۔ وہ کیوں؟
إِذَا دَلَّ عَلَيْهِ الْقَرِينَةُ، اگر کلام میں کوئی قرینہ ایسا موجود ہو جو یہ بتا رہا ہو کہ یہاں مَخْصُوص بِالْمَدْحِ کون ہے یا مَخْصُوص بِالذَّمِّ کون ہے، تو وہاں پر یہ اس مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا ذَمٍّ کو حذف کر دیا جاتا ہے، اس کو ذکر کی ضرورت نہیں ہوتی، کیونکہ قرینہ خود بتا رہا ہے کہ یہاں کس کی تعریف کی جا رہی ہے یا کس کی مذمت کی جا رہی ہے۔ جیسے آیتِ مجیدہ ہے: نِعْمَ الْعَبْدُ، بس اتنا ہے۔ اب نِعْمَ فعل ہے اور اَلْعَبْدُاسکا فاعل ہے، لیکن مَخْصُوص بِالْمَدْحِ کو ذکر نہیں کیا گیا، کیوں؟ نِعْمَ الْعَبْدُ اَیوبُ، جبکہ مَخْصُوص بِالْمَدْحِ تعریف کس کی ہو رہی تھی؟ جنابِ اَیوبُ کی۔ قرینہ کیا ہے؟ کس چیز نے بتایا کہ یہاں نِعْمَ الْعَبْدُ سے مراد جنابِ اَیوبُ ہیں؟
وَالْقَرِينَةُ سِيَاقُ الْآيَةِ، اس لیے کہ آیتِ مجیدہ جو چل رہی ہے، سیاقِ کلام، اندازِ کلام، قصہ کس کا ہے، بات کس کی ہو رہی ہے، تو وہ خود یہاں قرینہ ہے کہ جب بات ساری حضرت اَیوبُ سے متعلق ہو رہی ہے، تو یہاں نِعْمَ الْعَبْدُ جو اللہ پاک تعریف کر رہا ہے، تو وہ تعریف بھی اسی جنابِ اَیوبُ  کی ہی مَدْح ہو رہی ہے، کسی اور کی نہیں۔ یہ بات ختم ہو گئی۔
اگلی بات یہ ہے، وہ بالکل آسان ہے: 
شَرْطُ الْمَخْصُوصِ أَنْ يَكُونَ مُطَابِقًا لِفَاعِلٍ، میں نے گودارش کی ہے، ان کے بعد دو اسم چاہیے ہوتے ہیں، ایک ان کا فاعل ہوتا ہے، اور ایک مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا مَخْصُوص بِالذَّمِّ ہوتا ہے۔ اب اس میں ایک نکتہ یاد رکھنا ہے، وہ کیا ہے؟ مَخْصُوص بِالْمَدْحِ ہو یا مَخْصُوص بِالذَّمِّ، اس کو اس فاعلِ مَدْح یا ذَمّ کے فاعل کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ کیا مطلب؟ یعنی اگر فاعل مفرد ہے، تو وہ مَخْصُوص بھی مفرد لائیں گے، فاعل تثنیہ ہے تو مَخْصُوص بھی تثنیہ لائیں گے، اگر فاعل جمع ہے تو مَخْصُوص بھی جمع لائیں گے، فاعل مذکر ہے تو مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا ذَمٍّ بھی مذکر لائیں گے، اگر فاعلِ مَدْح یا ذَمّ کا فاعل مؤنث ہے تو ان کا مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا ذَمّ بھی مؤنث لائیں گے۔ اب یاد رکھنا ہے کہ مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا ذَمّ کا فعلِ مَدْح یا ذَمّ کے فاعل کے مطابق ہونا شرط ہے، کہ فاعل مفرد ہوگا تو مَخْصُوص بھی مفرد۔
وَشَرْطُ الْمَخْصُوصِ، یعنی مَخْصُوص بِالْمَدْحِ ہو چاہے مَخْصُوص بِالذَّمِّ ہو، اس میں شرط یہ ہے کہ 
أَنْ يَكُونَ مُطَابِقًا لِفَاعِلٍ، کہ وہ فعلِ مَدْحٍ یا فعلِ ذَمٍّ کے فاعل کے ساتھ مُطَابَقَت رکھتا ہو، کس بات میں؟
فِي الْإِفْرَادِ، اِفْرَادٍ میں، کیا مطلب؟ یعنی اگر فاعل مفرد ہے تو مَخْصُوص بھی مفرد ہوگا،
وَالتَّثْنِيَةِ، اگر ان کا فاعل تثنیہ ہے تو مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا ذَمّ بھی تثنیہ ہوگا،
وَالجَمعِ اگر فاعل جمع ہے تو مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا ذَمّ بھی جمع ہوگا،
والتذكيرِ اگر فاعل مذکر ہے تو مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا ذَمّ بھی مذکر ہوگا،
والتأنيثِ اگر فاعل مؤنث ہے تو مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یا ذَمّ بھی مؤنث ہوگا۔
مثل: «نِعم الرجلُ زيدٌ» اب آپ نے دیکھا: الرَّجُلُ کیا ہے؟ مذکر بھی ہے، مفرد بھی ہے۔ زَيْدٌ مفرد بھی ہے، مذکر بھی ہے۔
و«نعم الرجلانِ الزيدانِ»الرجلانِ  تثنیہ بھی ہے، مذکر بھی ہے، الزيدانِ جو مَخْصُوصٌ بِالْمَدْحِ ہے، وہ تثنیہ بھی ہے،مذکر بھی ہے،
«نعم الرِجالُ الزيدُونَ» الرِجالُ  جمع بھی ہے مذکر بھی ہے الزيدُونَ جو مَخْصُوص بِالْمَدْحِ ہے، وہ جمع بھی ہے مذکر بھی ہے ۔
 نِعْمَتِ المرأةُ هِندٌ ، المرأةُ  مفرد بھی ہے، اور مؤنث بھی ہے، هِندٌ مَخْصُوص بِالْمَدْحِ مفرد بھی ہے، مؤنث بھی ہے۔
 نِعْمَتِ الْمَرْأَتَانِ الهِندانِ ، الْمَرْأَتَانِ  مونث بھی ہے تثنیہ بھی ہے، الهِندانِ جو مَخْصُوص بِالْمَدْحِ یہ تثنیہ بھی ہے، اور مؤنث بھی ہے۔
 وَنِعْمَتِ النِّسَاءُ الهنداتُ، النِّسَاءُ   اَلْهِنْدَاتُ، اب الْهِنْدَاتُ، اب آپ دیکھیں کہ النِّسَاءُ چونکہ جمعِ مؤنث ہے، تو الْهِنْدَاتُ بھی جمعِ مؤنث، جو مَخْصُوص بِالْمَدْحِ ہے۔
صَلَّى اللَّهُ محمدِِ وَآلِ محمدِِ