درس شرح مائة عامل

درس نمبر 22: افعال مقاربہ 2

 
1

خطبہ

2

عسیٰ کی دوسری نوع کی بحث

النَوْعُ الثَانِی مِنَ النَّوْعَيْنِ الْمَذْكُورَيْنِ: أَنْ يَرْفَعَ الْاِسْمَ وَحْدَهُ۔

بحث ہماری چل رہی تھی عَسَیٰ  کے بارے میں  اس دوسری قسم کا خارج تو بیان کر دیا تھا کہ عَسیٰ جو عمل کرتا ہے اس کا عمل دو قسموں کا ہوتا ہے کبھی کبھار یہ اسم کو  رفع اور خبر کو نصب دیتا ہے اور اس کی خبر فعلِ مضارع ہوتی ہے مع اَن ،  کبھی کبھار یہ فقط اسم کو رفع دیتا ہے۔ خارج میں ،  میں نے بیان کیا تھا کہ یہ صرف اسم کو رفع دیتا ہے، یعنی خبر کا محتاج بھی نہیں ہوتا، خبر کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، خبر میں یہ کوئی عمل بھی نہیں کرتا۔ 

اچھا، فرماتے ہیں: کب یہ اسم کو رفع دیتا ہے فقط؟ یہ اس وقت کہ جب اس کا اسم فعلِ مضارع ہو مَعَ أَنْ۔ اب اشتباہ میں نہیں پڑنا، بہت غور سے اس کو سمجھنا ہے۔ یعنی پچھلی قسم میں خبر فعلِ مضارع تھی مَعَ أَنْ، اور اب کہہ رہے ہیں کہ اگر عَسَیٰ کا اسم فعلِ مضارع ہو مَعَ أَنْ، تو اس وقت یہ فقط اسم کو رفع دے گا۔ وہی فعلِ مضارع جو أَنْ کے ساتھ ہوگا، وہی اس کا اسم ہوگا، اور محلًا مرفوع ہوگا۔ ٹھیک؟

جب یہ فقط اسم کو رفع دے رہا ہوگا، اور اس کا اسم فعلِ مضارع ہوگا مَعَ أَنْ، اس وقت عَسَیٰ بمعنی قَارَبَ کے نہیں ہوگا، بلکہ بمعنی قَرُبَ کے ہوگا۔ پھر یہ ثلاثی مجرد کے معنی میں آ جائے گا، قَرُبَ۔ اور قَارَبَ یہ صرف میں ساری چیزیں  بیان ہو چکی ہیں۔

النَوْعُ الثَانی : عَسَیٰ کے عمل کرنے کی دوسری قسم مِنَ النَّوْعَيْنِ الْمَذْكُورَيْنِ، ان دو اقسام میں سے کہ قسم اول ہم نے ذکر کر دی کہ جہاں یہ اسم کو رفع اور خبر کو نصب دیتا تھا۔ اب آگئی قسم ثانی، ان دو انواع  میں سے جو ہم نے پیچھے ذکر کی تھی۔ نَوْع ثَانی کیا ہے؟ دوسری قسم کیا ہے؟ دوسری قسم عَسَیٰ  کی  یہ ہے:

أَنْ يَرْفَعَ الْاِسْمَ وَحْدَهُ، کہ یہ فقط اسم کو رفع دے، وَحْدَهُ، یعنی فقط اسم کو رفع دے، یعنی خبر کی بات اس میں نہیں ہے۔

 وَذَلِكَ، ذَلِكَ کا مشارٌ الیہ  کیا ہے؟ یعنی یہ کب اسم کو رفع دے گا؟ فرماتے ہیں: یہ اس صورت میں ہوگا

إِذَا كَانَ اسْمُهُ فِعْلًا مُضَارِعًا مَعَ أَنْ۔ جَبْ إس عَسَیٰ كا اسم فعل مضارع مع اَن ہو ۔ بہت توجہ، پچھلی قسم میں خبر فعلِ مضارع تھی مَعَ أَنْ، اور اب کہہ رہے ہیں کہ اگر جَبْ إس عَسَیٰ كا اسم فعل مضارع مع اَن ہو، تو اس وقت یہ فقط اسم کو رفع دے گا۔ پس،

 فَيَكُونُ الْفِعْلُ المُضَارِعُ۔ تو اس وقت کیا ہوگا؟ فرماتے ہیں: اس وقت یہی فعلِ مضارع

مَعَ أَنْ فِي مَحَلِّ رَفْعٍ، محلِ رفع میں ہوگا، یعنی یہ محلًا مرفوع ہوگا، مقامِ رفع میں ہوگا۔ کیوں؟ اس لیے کہ

 بِأَنَّهُ اسْمُهُ، اس لیے کہ یہی فعلِ مضارع مَعَ أَنْ اس عَسَیٰ  کا اسم واقع ہو رہا ہوگا۔ چونکہ کئی دفعہ گزارش ہو چکی ہے، نحو میں یا نہیں ہوئی، تو جب بھی فعلِ مضارع پر أَنْ داخل ہو جاتا ہے، تو اس وقت وہ فعلِ مضارع مصدر کی تاویل میں ہوتا ہے۔ ایک ہوتا ہے يَضرِبُ، اب یہ فقط فعلِ مضارع ہے، لیکن جب آئے گا أَنْ يَضرِبَ، تو أَنْ يَضرِبَ تاویلِ مصدر، مصدر کیا ہے؟ ضَربٌ ،  يَخْرُجُ فعلِ مضارع ہے، لیکن اگر ہم پڑھیں گے أَنْ يَخْرُجَ، تو یہ فعلِ مضارع أَنْ تاویلِ مصدر، مصدر کیا ہے؟ یعنی خُرُوج، اس کی تاویل میں ہوتا ہے۔ تو اور جو خُرُوج ہے، ظاہر ہے وہ اسم ہوتا ہے۔

اب تیسری سطر: 

وَيَكُونُ عَسَیٰ حِينَئِذِِ۔ بہت توجہ، حِينَئِذِِ  کا معنی سمجھنا ہے کہ جب عَسَیٰ کا اسم فعلِ مضارع مَعَ أَنْ ہوگا، اور عَسَیٰ فقط اسم کو رفع دے رہا ہوگا، تو اُس وقت عَسَیٰ بمعنی قَارَبَ کے نہیں ہوگا، بلکہ اُس وقت عَسَیٰ ہوگا بِمَعْنَى قَرُبَ، یعنی ثلَاثی مُجَرَّد، عَسَیٰ کے معنی میں آ جائے گا۔ لیکن نقطہ سمجھنا ہے: يَكُونُ عَسَیٰ حِينَئِذِِ بِمَعْنَى قَرُبَ۔ حِينَئِذِِ کا معنی سمجھنا ہے، کیا مطلب حِينَئِذِِ ؟ حِينَئِذِِ  کا معنی آپ یوں کریں گے: تفصیل یوں بیان کریں گے کہ يَكُونُ عَسَیٰ اُس وقت عَسَیٰ ہو جائے گا بِمَعْنَى قَرُبَ کے، کَبْ حِينَئِذِِ ، یعنی جب عَسَیٰ کا اسم فعلِ مضارع مَعَ أَنْ ہوگا، اور عَسَیٰ اُس کو رفع دے رہا ہوگا، اُس وقت عَسَیٰ بِمَعْنَى قَرُبَ ثلَاثی مُجَرَّد کے ہوگا، بِمَعْنَى قَارَبَ کے نہیں ہوگا۔

مثال یہ ہے: عَسَیٰ أَنْ يَخْرُجَ زَيْدٌ۔ اگر پہلی مثال ہوتی تو کیا ہوتا؟ عَسَیٰ زَيْدٌ أَنْ يَخْرُجَ، وہاں ہم نے یہ پڑھتا کہ وہاں زید اسم تھا، أَنْ يَخْرُجَ اس کی خبر تھی جو محلًا منصوب تھی۔ لیکن اس مثال میں کیا ہے؟ عَسَیٰ افعالِ مقاربہ سے آئے، أَنْ يَخْرُجَ یہ فعلِ مضارع مَعَ أَنْ، تاویلِ مصدر میں ہے، یہ عَسَیٰ کا اسم ہے۔ أَنْ قَرُبَ خُرُوجُہ، یعنی قَرُبَ خُرُوجُ زَيْدِِ، یعنی زید کا خُرُوج قریب ہے۔

فَلَا يَحْتَاجُ فِي هَذَا الْوَجْهِ إِلَى الْخَبَرِ۔  فِي هَذَا الْوَجْهِ سے مراد کیا ہے؟ جب عَسَیٰ کا اسم فعلِ مضارع مَعَ أَنْ ہوگا، اور یہ اپنے اسم کو رفع دے رہا ہوگا، تو اس صورت میں یہ عَسَیٰ خبر کا محتاج نہیں ہوگا۔

بِخِلَافِ الْوَجْهِ الْأَوَّلِ، لیکن پہلی صورت میں، یہ جہاں اسم کوئی اور تھا اور خبر فعلِ مضارع مَعَ أَنْ تھی، وہاں یہ خبر کا محتاج ہوتا ہے۔ کیوں؟

لِأَنَّهُ لَا يَتِمُّ الْمَقْصُودُ فِيهِ بِدُونِ الْخَبَرِ، چونکہ پہلی قسم میں بغیر خبر کے مقصودِ متکلم تام نہیں ہوتا، بات مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ خبر کو ذکر نہ کیا جائے۔پس،

 فَيَكُونُ الْأَوَّلُ نَاقِصًا، وَالثَّانِي تَامًّا۔ لہٰذا بہت غور ہوگا، جہاں عَسَیٰ اسم کو رفع اور خبر کو نصب دے رہا ہوگا، وہ عَسَیٰ ناقص ہوگا، اور جہاں فَقَطِ اسم کو رفع دے رہا ہوگا، تو اس صورت میں چونکہ وہ محتاجِ خبر نہیں ہوتا، وہ عَسَیٰ تام ہوگا۔ وہ جیسے پیچھے ہم نے پڑھ لیا تھا، کَانَ کبھی ناقصہ ہوتا ہے اور کبھی تامہ، تو آپ یہاں بھی کہہ سکتے ہیں کہ عَسَیٰ کبھی ناقصہ ہوتا ہے، اور کبھی تامہ۔
ناقص وہاں ہوتا ہے جہاں اسم کو رفع اور خبر کو نصب دے رہا ہوگا، اور تام وہاں ہوتا ہے جہاں فَقَطِ اسم کو رفع دے رہا ہوگا۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہاں یہ خبر کا محتاج ہی نہیں ہوتا۔ ٹھیک ہو گیا؟

3

افعالِ مقاربہ: "كَادَ" کی بحث

افعالِ مقاربہ میں سے دوسرا فعل ہے كَادَ۔ اب ظاہر ہے، عمل تو ان چاروں کا یہ جیسا ہے کہ چاروں افعالِ مقاربہ اسم کو رفع اور خبر کو نصب دیتے ہیں۔ فرق ان کا آتا ہے دیگر امور میں، کس میں؟ کہ ہم نے کہا ہے کہ عَسَیٰ  کی خبر فعلِ مضارع مَعَ أَنْ ہوتی ہے۔ كَادَ کے بارے میں کیا ہے؟
فرماتے ہیں:

 كَادَ، وَهُوَ يَرْفَعُ الْاِسْمَ۔ کہ یہ كَادَ اور عَسَیٰ  ، یعنی افعالِ مقاربہ میں دوسرا ہے كَادَ۔

 وَهُوَ يَرْفَعُ الْاِسْمَ، یہ بھی اسم کو رفع دیتا ہے،

وَيَنْصِبُ الْخَبَرَ، اور خبر کو نصب دیتا ہے۔ لیکن 

 وَخَبَرُهُ فِعْلٌ مُضَارِعٌ بِغَيْرِ أَنْ، وَقَدْ يَكُونُ مَعَ أَنْ۔ عام طور پر كَادَ کی خبر فعلِ مضارع ہوتی ہے بغیر أَنْ کے۔ بہت توجہ، میری جان! پیچھے عَسَیٰ  میں ہم نے کیا پڑھا تھا کہ اس کی خبر ہوگی فعلِ مضارع بغیر أَنْ کے، لیکن كَادَ کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں کہ وَخَبَرُهُ كَادَ کی خبر ہوگی فعلٌ مُضَارِعٌ بِغَيْرِ أَنْ، فعلِ مضارع بغیر أَنْ کے، وَقَدْ يَكُونُ مَعَ أَنْ، ہاں، کبھی کبھار یہ أَنْ کے ساتھ بھی ہوتی ہے۔ 

تَشَبُّهًا لَهُ بِعَسَیٰ  ، اس کو عَسَیٰ  سے تشبیہ دیتے ہوئے۔ پس ہم کہتے ہیں: كَادَ زَيْدٌ يَجِئُ، یعنی كَادَ زَيْدٌ أَنْ يَجِئَ نہیں پڑھیں گے، بلکہ پڑھیں گے كَادَ زَيْدٌ يَجِئُ ۔ پس، فَزَيْدٌ مَرْفُوعٌ، زید مرفوع ہے، کیوں؟ بِأَنَّهُ اسْمُ كَادَ، اس لیے کہ یہ كَادَ کا اسم ہے، يَجِئُ ، اور یہ يَجِئُ فعلِ مضارع بغیر أَنْ کے، فِي مَحَلِّ النَصَبِ، یہ محلِ نصب ہے، یعنی محلًا منصوب ہے، کیوں؟ 

بِأَنَّهُ خَبَرُهُ، اس لیے کہ یہ كَادَ کی خبر ہے۔ پس، كَادَ زَيْدٌ يَجِئُ کا معنی ہے: قَرُبَ مَجِيْعُ زَيْدٍ، زَيْد کا آنا قریب ہے۔

وَحُكْمُ بَاقِي الْمُشْتَقَّاتِ مِنْ مَصْدَرِهِ كَحُكْمِ كَادَ۔ فرماتے ہیں: اس کے مصدر سے جو كَادَ سے جو اور مشتق ہوں گے، ٹھیک ہے بھئی؟ خوب! مثلاً: لَمْ يَكَدْ، لَا يَكَادُ، وغیرہ۔ فرماتے ہیں: حُكْمُ بَاقِي الْمُشْتَقَّاتِ، جو دیگر مشتقات ہیں، یعنی كَادَ کے جو اور صیغے ہیں، یا مضارع کے صیغے  ہیں، یا جحد کے صیغے ہیں، وغیرہ، جو بھی اس کے مصدر سے مشتق ہوتے ہیں، ان کا حُکْم بھی یہی كَادَ والا حُکْم ہے۔ کیا مطلب ہے كَادَ والے حُکْم کا؟ ایک سطر آپ کاپی پر لکھیں  کیا؟ کہ وہ بھی اسم کو رفع اور خبر کو نصب دیتے ہیں، اور ان کی خبر بھی فعلِ مضارع بغیر أَنْ کے ہوتی ہے، اور کبھی کبھار أَنْ کے ساتھ بھی ہوتی ہے۔ مثال:

لَمْ يَكَدْ زَيْدٌ يَجِئُ، لَا يَكَادُ زَيْدٌ يَجِئُ۔ اب دیکھو، دونوں مقام پر زَيْدٌ، زَيْدجن کا اسم ہے، فعلِ مضارع بغیر أَنْ کے ان کی خبر ہے۔ لَمْ يَكَدْ میں بھی یہی ہے، اور لَا يَكَادُ میں بھی۔

اب ایک بحث ہے علیحدہ سے، وہ یہ ہے، انہوں نے اُس کی طرف اشارہ کی ہے، ان شاء اللہ پھر بڑی کتابوں میں اُس کی اور تفصیل آئے گی، کہ اگر اِس كَادَ پر حرفِ نفی داخل ہو جائے، جیسے یہ لَمْ يَكَدْ داخل ہوا ہے، تو آیا یہ کہ كَادَ پھر نفی والا معنی دے گا یا اُسی اِثبات والے معنی میں، یعنی قَرُبَ سے؟ لَمْ يَكَدْ والا معنی دے گا یا اُسی قَرُبَ والے معنی پر باقی رہے گا؟ یہ ایک بحث ہے۔

وَإِنْ دَخَلَ عَلَى كَادَ، اگر كَادَ پر داخل ہو جائے

حرفُ النفی، یہ حرفِ نفی،

 فَفِيهِ خِلَافٌ، نحویوں کا اختلاف ہے اِس کے معنی کے بارے میں کہ جب كَادَ بمعنی قَارَبَ کے، لیکن جب اِس پر حرفِ نفی آ جائے، تو پھر اختلاف ہے۔

(تین نظریہ پائے جاتے ہیں )

پہلا نظریہ :

قَالَ بَعْضُهُمْ: بعض نحات کا نظریہ یہ ہے کیا؟ وہ کہتے ہیں: 

إِنَّ حَرْفَ النَّفْيِ فِيهِ مُطْلَقًا، کہ اگر كَادَ پر حرفِ نفی آ جائے، مُطْلَقًا، کیا مطلب؟ چاہے وہ ماضی پر آ جائے حرفِ نفی، چاہے مضارع پر آ جائے، اِس مُطْلَقًا کا مطلب ہے چاہے ماضی کا صیغہ ہو، چاہے مضارع کا ہو، اگر حرفِ نفی اِس میں آ گیا،

 يُفِيدُ مَعْنَى النَّفْيِ، تو اُس وقت یہ مُفِيدِ مَعْنَى النَّفْيِ ہوگا، یعنی یہ پھر اِثبات  والا معنی نہیں دے گا، قَرُبَ والا معنی نہیں دے گا، بلکہ نفی والا ہوگا، مثلاََ لَمْ یَقرُب والا یا جو بھی ہوگا، نفی کا معنی دے گا۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ پھر یہ قریب ہونا نہیں، بلکہ قریب نہ ہونے کا معنی دے گا۔

دوسرا نظریہ :

وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بعض نحات کہتے ہیں کہ نہیں،

 إِنَّهُ لَا يُفِيدُہُ بے شک، كَادَ پر حرفِ نفی داخل ہو بھی جائے، جیسے ہم نے کہا ہے کہ لَمْ يَكَدْ ہو جائے، لَا يَكَادُ ہو جائے، بے شک آ بھی جائے، 

لَا يُفِيدُ، وہ حرفِ نفی کوئی فائدہ نہیں دے گا، اس سے منفی والا معنی نہیں ہوگا،

بَلْ الْاِثْبَاتُ بَاقِِ عَلَى حَالِهِ، بلکہ وہی اثبات والا معنی اپنے حال پر باقی ہوگا، یعنی جو كَادَ پر حرفِ نفی داخل ہونے سے پہلے جو معنی مراد تھا، اب اگر حرفِ نفی آ بھی جائے، تو یہ نفی کالعدم شمار ہوگی، لہٰذا اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، اسی طرح وہ اثبات والے معنی پر باقی ہوگا۔دو نظریہ ہو گئے،

 تیسرا نظریہ: 

وَقَالَ بَعْضُهُمْ: جبکہ بعض نحات کا نظریہ یہ ہے کہ 

إِنَّهُ لَا يُفِيدُ النَّفْيَ فِي الْمَاضِي، کہ اگر كَادَ ماضی میں سے ہو، صیغہِ ماضی ہو، صیغہِ ماضی پر اگر کوئی حرفِ نفی داخل ہو جاتا ہے، اس میں تو وہ نفی نفی کا مفید نہیں ہے، یعنی اس میں وہ اپنے اثبات والے معنی پر ہی باقی رہے گا، وَفِي الْمُسْتَقْبَلِ يُفِيدُ، لیکن اگر مضارع کے صیغے میں حرفِ نفی داخل ہو جائے گا، پھر وہ مفید نفی ہوگا، اور پھر اس پر اثبات والا معنی نہیں ہوگا، بلکہ یہ نفی والا معنی لیں گے۔ تو یہ تین نظریہ ہیں۔ بہرحال،

4

افعالِ مُقَارِبَہ: كَرَبَ، أَوْشَكَ، جَعَلَ، طَفِقَ، أَخَذَ کی بحث

وَالثالِثُ: افعالِ مُقَارِبَہ میں سے تیسرا فعل ہے كَرَبَ۔ بالکل اسی طرح،

ھُوَيَرْفَعُ الْاِسْمَ، یہ بھی اسم کو رفع دیتا ہے،

وَيَنْصِبُ الْخَبَرَ، اور خبر کو نصب دیتا ہے۔ پھر فرق کیا ہے باقیوں کے ساتھ؟ فرق بتاتے ہیں:

خَبَرُهُ يَكُونُ فِعْلًا مُضَارِعًا دَائِمًا بِغَيْرِ أَنْ، اس کی خبر ہمیشہ فعلِ مضارع بغیر أَنْ کے ہوگی۔ اب اگر ذرا توجہ کے ساتھ،
عَسَیٰ کی خبر فعلِ مضارع أَنْ کے ساتھ، كَادَ کی خبر فعلِ مضارع عام طور پر أَنْ کے بغیر، کبھی کبھی أَنْ کے ساتھ بھی آ سکتی ہے، لیکن جو كَرَبَ ہے، اس کی خبر بھی فعلِ مضارع ہے، لیکن دائماً، لیکن اس کی خبر ہمیشہ بغیر أَنْ کے ہوگی، کبھی بھی اس کی خبر أَنْ کے ساتھ نہیں ہوگی۔ بالکل آسان، كَرَبَ زَيدٌ يَخرُجُ ہمیشہ یہ ہوگی۔

اور چوتھا ہے أَوْشَكَ، بالکل آسان،

 ھُوَيَرْفَعُ الْاِسْمَ،وَيَنْصِبُ الْخَبَرَ، اسم کو رفع اور خبر کو نصب دیتا ہے، جیسا کہ باقی دیتے ہیں۔

وَخَبرُهُ فِعلٌ مضارِعٌ مَع «أَن» أَو بِغَيرِ «أَن»، اس کی خبر فعلِ مضارع ہوتی ہے، لیکن أَنْ کے ساتھ بھی ہوتی ہے، اور بغیر أَنْ کے بھی ہوتی ہے، یعنی گویا کہ برابر برابر ہوتی ہے، کبھی بغیر أَنْ کے، اور کبھی أَنْ کے ساتھ۔ جیسے  «أوشك زيد أن يجيء  یا أو يجيء»ٹھیک ہو گیا ہے۔

اب ذرا توجہ کے ساتھ:

  • عَسَیٰ کی خبر فعلِ مضارع أَنْ کے ساتھ۔
  • كَادَ کی خبر فعلِ مضارع عام طور پر أَنْ کے بغیر، کبھی کبھی أَنْ کے ساتھ۔
  • کَرَبَ کی ہمیشہ ہوگی فعلِ مضارع، لیکن ہمیشہ بغیر أَنْ کے۔
  • جبکہ أَوْشَكَ کی خبر بھی فعلِ مضارع ہوتی ہے، جو أَنْ کے ساتھ بھی صحیح ہے، اور أَنْ کے بغیر بھی صحیح۔

وَقَالَ بَعْضُهُمْ: میں نے ابتدا میں بھی کہا تھا، تینوں نے کہا ہے کہ افعالِ مُقَارِبَہ  چار ہیں، لیکن بعض نحات کا نظریہ کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ نہیں، ابن حجر وغیرہ وہ کہتے ہیں کہ

«إِنَّ أَفعالَ المُقارَبَةِ سَبعَةٌ، افعالِ مُقَارِبَہ چار نہیں، بلکہ سات ہیں۔ اچھا، کون کون سے؟

 ھَذِهِ الْأَرْبَعَةُ الْمَذْكُورَةُ، چار تو یہ ہو گئے جن کا ذکر ہو گیا ہے، کون کون سے؟ عَسَیٰ ، كَادَ، کَرَبَ، أَوْشَكَ، چار تو یہ ہو گئے، اور تین مزید ہیں، وہ کون سے؟ جَعَلَ، طَفِقَ، وَأَخَذَ۔ پس اب آپ توجہ کے ساتھ کہ اگر سوال یہ ہو کہ افعالِ مُقَارِبَہ کتنے ہیں؟ تو آپ کہیں گے: اکثر تو کہتے ہیں کہ افعالِ مُقَارِبَہ چار ہیں، لیکن بعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ چار نہیں، بلکہ سات ہیں۔ وہ سات کس ترتیب سے بنے گے؟ 

عَسَیٰ ، كَادَ، کَرَبَ، أَوْشَكَ، چار یہ ہوگئے، جَعَلَ، طَفِقَ، وَأَخَذَ، تین یہ ہو گئے، یہ ہو گئے سات۔

ھَذِهِ الثلَاثةُ مُرَادِفَۃٌ لِکَرَبَ: یہ جَعَلَ، طَفِقَ، وَأَخَذَ معنی کے لحاظ سے کَرَبَکے مرادف ہیں، بالکل اسی کی طرح ہیں،

وَمُوَافِقَتٌ لَهُ فِي الْاِسْتِعْمَالِ، اور استعمال میں بھی اسی کَرَبَ کے موافق ہیں۔ ٹھیک ہے جی؟ مُوَافِقَتٌ لَهُ، اور اس کے موافق ہیں، کس کے؟کَرَبَ  کے  فِي الْاِسْتِعْمَالِ کیا مطلب استعمال میں؟ کہ ان کی خبر بھی فعلِ مضارع ہوگی، لیکن ہمیشہ بغیر أَنْ کے، کیونکہ کَرَبَ کی بھی فعلِ مضارع ہوتی تھی، اور ہمیشہ بغیر أَنْ کے ہوتی تھی۔ پس ان کا حکم بھی وہی ہے جو کَرَبَکا ہے۔

تو اب بحث جہاں مکمل ہو گئی کہ افعالِ مُقَارِبَہ، افعالِ مُقَارِبَہ کیا ہے؟ قرب پایا جاتا ہے، یعنی اس میں معنی قرب پایا جاتا ہے۔ معنی قرب کیا تھا جو میں نے پہلے گزارش کیا تھا؟ کہ یہ افعال یہ بتاتے ہیں کہ ان کی خبریں ان کے اسم کے قریب ہیں، یا ان کا اسم ان کی خبر کے قریب ہونے والا ہے۔ وہ جیسے تھا: کَرَبَ زَيْدٌ یَخرُجُ، یعنی زید کا خروج قریب ہے۔ اب خروج تو ظاہر ہے وہ خبر تھی، زید اسم تھا کہ اس کے قریب ہے۔

إذ لا يشتقّ منه مضارعٌ واسمَا فاعلٍ ومفعولٍ وأمرٌ ونَهْيٌ مثلاً، وعمله على نوعين: الأوّل: أن يرفع الاسم وهو فاعله، وينصب الخبر، ويكون خبره فعلاً مضارعاً مع «أن»، وحينئذ يكون بمعنى «قارب»، نحو: «عسى زيد أن يخرج»؛ فـ«زيد» مرفوع بأنه اسمه وفاعله، و«أن يخرج» في موضع النصب بأنّه خبره بمعنى «قارب زيد الخروج»، ويجب أن يكون خبره مطابقاً لاسمه في الإفراد والتثنية والجمع والتذكير والتأنيث، نحو: «عسى زيد أن يقوم»، وعسى الزيدان أن يقوما»، و«عسى الزيدون أن يقوموا»، و«عست هند أن تقوم»، و «عست الهندان أن تقوما»، و«عست الهندات أن يقمن» وهذا أي: كون الخبر مطابقاً للفاعل، إذا كان الفاعل اسماً ظاهراً، أمّا إذا كان مضمَراً فليست المطابقة بينهما شرطاً.

النوع الثاني من النوعين المذكورين: أن يرفع الاسم وحدَه، وذلك إذا كان اسمه فعلاً مضارعاً مع «أن» فيكون الفعل المضارع مع أن في محلّ الرفع بأنّه اسمه، ويكون «عسى» حينئذ بمعنى «قرب»، مثل: «عسى أن يخرج زيد» أي: قرب خروجه، فلا يحتاج في هذا الوجه إلى الخبر، بخلاف الوجه الأوّل؛ لأنّه لا يتمّ المقصود فيه بدون الخبر؛ فيكون الأول

ناقصاً، والثاني تامًّا، والثاني: «كَادَ» وهو يرفع الاسم وينصب الخبر، وخبره فعل مضارع بغير «أن»، وقد يكون مع «أن» تشبّها له بـ «عسى»، مثل: «كاد زيد يجيء» فـ «زيد» مرفوع بأنّه اسم «كاد»، و«يجيء» في محلّ النصب بأنّه خبره، معناه: «قرب مجيء زيد»، وحكم باقي المشتقّات من مصدره كحكم «کاد»، مثل: «لَمْ يكَد زيد يجيء»، و«لا يكاد زيد يجيء»، وإن دخل على «كاد» حرف النفْيِ ففيه خلاف، قال بعضهم: «إنّ حرف النفْيِ فيه مطلقاً يفيد معنى النفْيِ»، وقال بعضهم: «إنّه لا يفيده بل الإثبات باقٍ على حاله»، وقال بعضهم: «إنّه لا يفيد النفْيَ في الماضي وفي المستقبل يفيده»، والثالث: «كَرَبَ» وهو يرفع الاسم وينصب الخبر، وخبره يجيء فعلاً مضارعاً دائماً بغير «أن»، نحو: «كرب زيد يخرج» والرابع: «أَوْشَكَ» وهو يرفع الاسم وينصب الخبر، وخبره فعل مضارع مع «أن» أو بغير «أن»، مثل: «أوشك زيد أن يجيء أو يجيء»، وقال بعضهم: «إنّ أفعال المقارَبة سبعة: هذه الأربعة المذكورة و «جَعَلَ» و «طَفِقَ» و «أَخَذَ»، وهذه الثلاثة مرادِفة لـ «كَرَبَ» وموافِقة له في الاستعمال».