افعالِ مقاربہ میں سے دوسرا فعل ہے كَادَ۔ اب ظاہر ہے، عمل تو ان چاروں کا یہ جیسا ہے کہ چاروں افعالِ مقاربہ اسم کو رفع اور خبر کو نصب دیتے ہیں۔ فرق ان کا آتا ہے دیگر امور میں، کس میں؟ کہ ہم نے کہا ہے کہ عَسَیٰ  کی خبر فعلِ مضارع مَعَ أَنْ ہوتی ہے۔ كَادَ کے بارے میں کیا ہے؟
فرماتے ہیں:
 كَادَ، وَهُوَ يَرْفَعُ الْاِسْمَ۔ کہ یہ كَادَ اور عَسَیٰ  ، یعنی افعالِ مقاربہ میں دوسرا ہے كَادَ۔
 وَهُوَ يَرْفَعُ الْاِسْمَ، یہ بھی اسم کو رفع دیتا ہے،
وَيَنْصِبُ الْخَبَرَ، اور خبر کو نصب دیتا ہے۔ لیکن 
 وَخَبَرُهُ فِعْلٌ مُضَارِعٌ بِغَيْرِ أَنْ، وَقَدْ يَكُونُ مَعَ أَنْ۔ عام طور پر كَادَ کی خبر فعلِ مضارع ہوتی ہے بغیر أَنْ کے۔ بہت توجہ، میری جان! پیچھے عَسَیٰ  میں ہم نے کیا پڑھا تھا کہ اس کی خبر ہوگی فعلِ مضارع بغیر أَنْ کے، لیکن كَادَ کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں کہ وَخَبَرُهُ كَادَ کی خبر ہوگی فعلٌ مُضَارِعٌ بِغَيْرِ أَنْ، فعلِ مضارع بغیر أَنْ کے، وَقَدْ يَكُونُ مَعَ أَنْ، ہاں، کبھی کبھار یہ أَنْ کے ساتھ بھی ہوتی ہے۔ 
تَشَبُّهًا لَهُ بِعَسَیٰ  ، اس کو عَسَیٰ  سے تشبیہ دیتے ہوئے۔ پس ہم کہتے ہیں: كَادَ زَيْدٌ يَجِئُ، یعنی كَادَ زَيْدٌ أَنْ يَجِئَ نہیں پڑھیں گے، بلکہ پڑھیں گے كَادَ زَيْدٌ يَجِئُ ۔ پس، فَزَيْدٌ مَرْفُوعٌ، زید مرفوع ہے، کیوں؟ بِأَنَّهُ اسْمُ كَادَ، اس لیے کہ یہ كَادَ کا اسم ہے، يَجِئُ ، اور یہ يَجِئُ فعلِ مضارع بغیر أَنْ کے، فِي مَحَلِّ النَصَبِ، یہ محلِ نصب ہے، یعنی محلًا منصوب ہے، کیوں؟ 
بِأَنَّهُ خَبَرُهُ، اس لیے کہ یہ كَادَ کی خبر ہے۔ پس، كَادَ زَيْدٌ يَجِئُ کا معنی ہے: قَرُبَ مَجِيْعُ زَيْدٍ، زَيْد کا آنا قریب ہے۔
وَحُكْمُ بَاقِي الْمُشْتَقَّاتِ مِنْ مَصْدَرِهِ كَحُكْمِ كَادَ۔ فرماتے ہیں: اس کے مصدر سے جو كَادَ سے جو اور مشتق ہوں گے، ٹھیک ہے بھئی؟ خوب! مثلاً: لَمْ يَكَدْ، لَا يَكَادُ، وغیرہ۔ فرماتے ہیں: حُكْمُ بَاقِي الْمُشْتَقَّاتِ، جو دیگر مشتقات ہیں، یعنی كَادَ کے جو اور صیغے ہیں، یا مضارع کے صیغے  ہیں، یا جحد کے صیغے ہیں، وغیرہ، جو بھی اس کے مصدر سے مشتق ہوتے ہیں، ان کا حُکْم بھی یہی كَادَ والا حُکْم ہے۔ کیا مطلب ہے كَادَ والے حُکْم کا؟ ایک سطر آپ کاپی پر لکھیں  کیا؟ کہ وہ بھی اسم کو رفع اور خبر کو نصب دیتے ہیں، اور ان کی خبر بھی فعلِ مضارع بغیر أَنْ کے ہوتی ہے، اور کبھی کبھار أَنْ کے ساتھ بھی ہوتی ہے۔ مثال:
لَمْ يَكَدْ زَيْدٌ يَجِئُ، لَا يَكَادُ زَيْدٌ يَجِئُ۔ اب دیکھو، دونوں مقام پر زَيْدٌ، زَيْدجن کا اسم ہے، فعلِ مضارع بغیر أَنْ کے ان کی خبر ہے۔ لَمْ يَكَدْ میں بھی یہی ہے، اور لَا يَكَادُ میں بھی۔
اب ایک بحث ہے علیحدہ سے، وہ یہ ہے، انہوں نے اُس کی طرف اشارہ کی ہے، ان شاء اللہ پھر بڑی کتابوں میں اُس کی اور تفصیل آئے گی، کہ اگر اِس كَادَ پر حرفِ نفی داخل ہو جائے، جیسے یہ لَمْ يَكَدْ داخل ہوا ہے، تو آیا یہ کہ كَادَ پھر نفی والا معنی دے گا یا اُسی اِثبات والے معنی میں، یعنی قَرُبَ سے؟ لَمْ يَكَدْ والا معنی دے گا یا اُسی قَرُبَ والے معنی پر باقی رہے گا؟ یہ ایک بحث ہے۔
وَإِنْ دَخَلَ عَلَى كَادَ، اگر كَادَ پر داخل ہو جائے
حرفُ النفی، یہ حرفِ نفی،
 فَفِيهِ خِلَافٌ، نحویوں کا اختلاف ہے اِس کے معنی کے بارے میں کہ جب كَادَ بمعنی قَارَبَ کے، لیکن جب اِس پر حرفِ نفی آ جائے، تو پھر اختلاف ہے۔
(تین نظریہ پائے جاتے ہیں )
پہلا نظریہ :
قَالَ بَعْضُهُمْ: بعض نحات کا نظریہ یہ ہے کیا؟ وہ کہتے ہیں: 
إِنَّ حَرْفَ النَّفْيِ فِيهِ مُطْلَقًا، کہ اگر كَادَ پر حرفِ نفی آ جائے، مُطْلَقًا، کیا مطلب؟ چاہے وہ ماضی پر آ جائے حرفِ نفی، چاہے مضارع پر آ جائے، اِس مُطْلَقًا کا مطلب ہے چاہے ماضی کا صیغہ ہو، چاہے مضارع کا ہو، اگر حرفِ نفی اِس میں آ گیا،
 يُفِيدُ مَعْنَى النَّفْيِ، تو اُس وقت یہ مُفِيدِ مَعْنَى النَّفْيِ ہوگا، یعنی یہ پھر اِثبات  والا معنی نہیں دے گا، قَرُبَ والا معنی نہیں دے گا، بلکہ نفی والا ہوگا، مثلاََ لَمْ یَقرُب والا یا جو بھی ہوگا، نفی کا معنی دے گا۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ پھر یہ قریب ہونا نہیں، بلکہ قریب نہ ہونے کا معنی دے گا۔
دوسرا نظریہ :
وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بعض نحات کہتے ہیں کہ نہیں،
 إِنَّهُ لَا يُفِيدُہُ بے شک، كَادَ پر حرفِ نفی داخل ہو بھی جائے، جیسے ہم نے کہا ہے کہ لَمْ يَكَدْ ہو جائے، لَا يَكَادُ ہو جائے، بے شک آ بھی جائے، 
لَا يُفِيدُ، وہ حرفِ نفی کوئی فائدہ نہیں دے گا، اس سے منفی والا معنی نہیں ہوگا،
بَلْ الْاِثْبَاتُ بَاقِِ عَلَى حَالِهِ، بلکہ وہی اثبات والا معنی اپنے حال پر باقی ہوگا، یعنی جو كَادَ پر حرفِ نفی داخل ہونے سے پہلے جو معنی مراد تھا، اب اگر حرفِ نفی آ بھی جائے، تو یہ نفی کالعدم شمار ہوگی، لہٰذا اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، اسی طرح وہ اثبات والے معنی پر باقی ہوگا۔دو نظریہ ہو گئے،
 تیسرا نظریہ: 
وَقَالَ بَعْضُهُمْ: جبکہ بعض نحات کا نظریہ یہ ہے کہ 
إِنَّهُ لَا يُفِيدُ النَّفْيَ فِي الْمَاضِي، کہ اگر كَادَ ماضی میں سے ہو، صیغہِ ماضی ہو، صیغہِ ماضی پر اگر کوئی حرفِ نفی داخل ہو جاتا ہے، اس میں تو وہ نفی نفی کا مفید نہیں ہے، یعنی اس میں وہ اپنے اثبات والے معنی پر ہی باقی رہے گا، وَفِي الْمُسْتَقْبَلِ يُفِيدُ، لیکن اگر مضارع کے صیغے میں حرفِ نفی داخل ہو جائے گا، پھر وہ مفید نفی ہوگا، اور پھر اس پر اثبات والا معنی نہیں ہوگا، بلکہ یہ نفی والا معنی لیں گے۔ تو یہ تین نظریہ ہیں۔ بہرحال،