درس شرح مائة عامل

درس نمبر 21: افعال مقاربہ 1

 
1

خطبہ

2

گیارویں نوع: افعال مقاربہ کی بحث

النَوعُ الحادِی عشر: اَفعَالُ الُمقَارَبَۃِ۔ وَإِنَّمَا سُمِّيَتْ بِهَذَا الْاِسْمِ لِأَنَّهَا تَدُلُّ عَلَى الْمُقَارَبَةِ ۔ وَهِيَ أَرْبَعَةٌ:

بحث ہماری چل رہی تھی عوامل لفظیہ کی ، ابتداء میں انہوں نے فرمایا تھا کہ لفظیہ میں سے کچھ سماعی ہوتے ہیں اور کچھ قیاسی ہوتے ہیں ، ان سماعی کی سترہ قسمیں ہیں جن میں سے دس کا ذکر گزر گیا ، آج عواملِ لفظیہ سماعیہ کی گیاروں نوع شروع ہو رہی ہے ۔

یہ گیاروں نوع افعال مقاربہ کے بارے میں ہے ، کیا مطلب یہ مقاربہ قُرب سےہے ، قرب کیا ہوتا ہے ؟ ایک چیز کا دوسری چیز کے قریب ہونا۔

اب اس کی معنی سے بھی واضح ہے کہ ان میں قرب کا معنی پایا جاتا ہے ، تو افعال مقاربہ میں کون سا معنی قرب پایا جاتا ہے ؟ یہ افعال دلالت کرتے ہیں کہ ان کی خبر ، ان کے اسم کے قریب ہے ۔ پھر یہاں یہ قرب تین قسم کا ہوتا ہے ۔

  1. بسا اوقات متکلم کو امید ہوتی ہے، یعنی وہ امید کرتا ہے کہ یہ اس کی خبر اس اسم کے قریب ہے، تو وہاں پر ان افعال میں سے کسی ایک کو استعمال کرتا ہے۔ 
  2. بسا اوقات متکلم کو جزم و یقین ہوتا ہے کہ ان کی خبر ان کے اسم کے لیے حاصل ہو چکی ہے۔ 
  3. بسا اوقات یہ افعال قُرب کا معنی دیتے ہیں اس لحاظ سے کہ ان کی خبر ان کے اسموں کے قریب ہونا شروع ہو چکی ہوتی ہے۔
    تو یہاں پر ایک سطر جو یہاں نہیں ہے، آپ اس میں کاپی پر لکھ لیں گے کہ :
    یہ جو افعال مقاربہ ہیں، قرب کی تین قسمیں ہیں: کبھی قرب امید کی بنیاد پر،کہ متکلم امید کرتا ہے کہ ان کی خبر ان کے اسم کے قریب ہے یا ہو جائے گی۔ اور کبھی قرب بطور جزم ہوتا ہے، اس کو یقین ہوتا ہے کہ یہ خبر ان کے اسم کے لیے حاصل ہے۔ اور کبھی ہوتا ہے بمعنی الْاِخْذِ وَالشُّرُوعِ، کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ خبر اس اسم کے قریب ہونا شروع ہو چکی ہے۔ یہ بات ختم۔

اب یہ اس سوال کا جواب بھی آ گیا کہ ان افعال کو افعال مقاربہ کیوں کہتے ہیں۔ دوسرا، یہ افعال مقاربہ کتنے ہیں؟ مشہور کہتے ہیں کہ یہ چار ہیں: عَسَىٰ ،كَادَ، كَرَبَ، اَوشَکَ یہ چار، جیسے کہ انہوں نے بھی چار ہی لکھے ہیں۔ البتہ بعض حضرات سات کے بھی قائل ہیں، جیسا کہ اسی نوع کے آخر میں ان شاءاللہ ہم پڑھیں گے کہ بعض کہتے ہیں کہ نہیں، طَفِقَ، وَأَخَذَ،  تین اور بھی ہیں، کہ یہ مجموعہ سات ہیں۔ بہرحال، یہ چار تو  ہیں یہ تو یقین ہے۔ افعال مقاربہ چارہیں ،  چار میں سے پہلے ہے عَسَىٰ  ۔ پہلا ہے عَسَىٰ ۔

آگے ایک لفظ لکھا ہے، ذرا اس کو غور کرنا ہے۔ فرماتے ہیں: وَهُوَ فِعْلٌ۔ جب پیچھے آپ تقسیم ہی افعال مقاربہ کی کر رہے ہیں کہ افعال مقاربہ چار ہیں، پھر دوبارہ آپ کہتے ہیں کہ "وَهُوَ فِعْلٌ"، کہ یہ عَسَىٰ  فعل ہے۔ بہت توجہ آغا۔ اب یہاں پر درحقیقت دو نکات بیان کرنے چاہتے ہیں۔ 

پہلا نکتہ یہ ہے جو یہاں کتاب میں نہیں ہے، آپ کاپی پر لکھ لیں گے: بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ عَسَىٰ  افعال میں سے نہیں، بلکہ حروف میں سے ہے۔ تو یہ جو کہا "وَهُوَ فِعْلٌ"، گویا یہ ان کا جواب ہے کہ نہیں نہیں، یہ عَسَىٰ  حروف میں سے نہیں، بلکہ یہ فعل میں سے ہے۔ ایک تو ان کا جواب آ گیا۔ 

دوسرا نکتہ جس "وَهُوَ فِعْلٌ" میں ہے، وہ یہ ہے کہ ،  یہ فعل کیوں ہے؟ دلیل کیا ہے؟ فرماتے ہیں: اگر اس لحاظ سے دیکھیں کہ تَائے تَانِیْثٍ سَاکِنَہ سوائے افعال کے کسی اور پر داخل نہیں ہو سکتی، اور یہاں عَسَىٰ  پر یہ تَائے تَانِیْثٍ سَاکِنَہ داخل ہوئی ہے۔ چونکہ تَائے تَانِیْثٍ سَاکِنَہ افعال کی خصوصیات میں سے ہے کہ یہ فقط افعال پر داخل ہوتی ہے، تو عَسَىٰ  پر اس کا داخل ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عَسَىٰ  فعل ہے۔ اور آگے فرماتے ہیں: البتہ یہ دیگر افعال کی طرح مُتَصَرِّفَہ نہیں ہے، کہ یہ اگر فعل ماضی ہے تو اس سے مضارع بن جائے گا، اس سے امر بن جائے گا، اسمِ فاعل بن جائے گا، اس میں مفعول بن جائے گا۔ اس لحاظ سے یہ غیر متصرف ہے، اس میں سے کوئی مضارع، امر، نہی وغیرہ وہ اس سے نہیں مشتق ہو سکتے۔ لیکن چونکہ تَائے تَانِیْثٍ سَاکِنَہ اس پر آ سکتی ہے، اس حد تک یہ متصرف بھی ہے، اور یہ حروف میں سے نہیں، بلکہ یہ افعال میں سے ہے۔ ٹھیک ہو گئے؟ خوب۔

اس سے آگے پھر فرماتے ہیں:

عَمَلُهُ عَلَى نَوْعَيْنِ۔ یہ عَسَىٰ  چونکہ ہم اس کو عَوَامِلِ لَفْظِیَّہ میں سے شمار کر رہے ہیں، تو اس کا مطلب عَسَىٰ  عامل لفظیہ ہے۔ تو یہ عامل ہے، تو اس کا عمل دو قسم کا ہے۔ کیسے؟ بہت آسان کر سمجھاؤں گا۔ یا یوں کہہ دیں کہ دو قسم کا عمل کرتا ہے۔

  1. ایک قسم یہ ہے کہ یہ اسم کو رفع دے گا، جو اس کا فاعل کہلائے گا، اور خبر کو نصب دے گا۔ لیکن جب یہ اسم کو رفع اور خبر کو نصب دے گا، تو اس صورت میں اس کی خبر فعل مضارع ہو گی "أَنْ" کے ساتھ، یعنی "يَضرُبُ" نہیں، بلکہ "أَنْ يَضرُبَ"، "يَنْصُرُ" نہیں، بلکہ "أَنْ يَنْصُرَ"، "يَعْلَمُ" نہیں، بلکہ "أَنْ يَعْلَمَ"، اس طرح کا ہو گا۔ یعنی "يَعْلَمُ" نہیں۔ اب ذرا اس کو غور کرنا ہے، کیونکہ آگے پھر فرق تب سمجھائے گا۔ عَسَىٰ  کے عمل کی ایک قسم یہ ہے کہ عَسَىٰ  اسم کو رفع اور خبر کو نصب دیتا ہے۔ جب یہ خبر کو نصب دے گا، تو اس وقت ضروری ہے کہ اس کی خبر فعل مضارع ہو، لیکن اس فعل مضارع سے پہلے "أَنْ" ناصبہ موجود ہو۔ اس کو کہتے ہیں مضارع مَنْصُوب بِأَنْ، یعنی اس فعل مضارع سے پہلے "أَنْ" ناصبہ موجود ہو۔ ٹھیک ہو گئے۔ پھر فرماتے ہیں: بہت توجہ آغا۔ جب عَسَىٰ  اپنے اسم کے لیے رافع اور خبر کے لیے ناصب ہو گا، جب یہ عمل کر رہا ہو گا، اس وقت عَسَىٰ  بمعنی قَارَبَ ہو گا۔ تھوڑا سا آپ واپس جائیں، ہم نے پیچھے صرف میں پڑھا تھا: ایک ہوتا ہے "ضربَ"، "يضرِبُ"، "ضَرباََ"، اور ایک ہوتا ہے "ضَارَبَ"، "يُضَارِبُ"، "مُضَارَبَۃً"۔ جب یہ(عَسیٰ) اپنے اسم کو رفع اور خبر کو نصب دے گا، اس وقت عَسَىٰ  بمعنی قَارَبَ کے  معنی میں ہو گا، "مُقَارَبَہ " والے معنی میں قَارَبَ۔ خوب۔ اب تھوڑا اور واضح ہو جائے۔ لکھنے میں آسان ۔
    عَسَىٰ  دو قسم کا عمل کرتا ہے۔ پہلی قسم یہ ہے کہ یہ اسم کو رفع اور خبر کو نصب دیتا ہے۔ دوسری لائن میں یہ لکھیں: جب یہ عمل کرے گا، اس کی خبر فعل مضارع ہو گی، لیکن فعل مضارع سے پہلے "أَنْ" ناصبہ موجود ہو گا۔ جب ایسا ہو گا، اس وقت عَسَىٰ  بمعنی قَارَبَ کے ہو گا، یعنی قَرُبَ کے ثلاثی مُجَرَّد نہیں، بلکہ قَارَبَ تاکہ مُقَارَبَۃً کا معنی آ جائے۔
    اب تیسری سطر فرماتے ہیں: جب یہ عَسَىٰ  اسم کو رفع اور خبر کو نصب دے گا، اور اس کی خبر فعل مضارع اَن ناصبہ کے ساتھ ہو گی، اور بمعنی قَارَبَ کے ہو گا، تو ایک اور چیز بھی لازم ہے، وہ کیا ہے؟ کہ پھر واجب ہے کہ اس کی خبر اس کے اسم کے مطابق ہو۔ کیا مطلب؟
    اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسم مفرد ہے تو پھر خبر بھی مفرد ہوگی، اور اگر اسم تثنیہ ہے تو خبر بھی تثنیہ لائیں گے۔ اسم جمع ہوگا تو خبر بھی جمع، اسم مذکر ہوگا تو خبر بھی مذکر، اسم مؤنث ہوگا تو خبر بھی مؤنث۔ اب یہ سطر  علیحدہ  سے یاد کرنی ہے کہ عَسَىٰ  کے عمل کی پہلی قسم میں، کہ جہاں وہ اسم کو رفع اور خبر کو نصب دے رہا ہے، وہاں واجب ہے خبر اور اسم کے درمیان مطابقت۔ کیا مطلب؟ یعنی اگر اسم مفرد ہے (ایک بندے کے لیے ایک ہے) تو خبر بھی مفرد ہوگی، اسم تثنیہ ہے تو خبر بھی تثنیہ ، اور اسم جمع ہے تو خبر بھی جمع۔ اسم مذکر ہے تو خبر بھی مذکر، اسم مؤنث ہے تو خبر بھی مؤنث۔
  2. دوسری قسم: دوسری قسم آغا جان یہ ہے کہ یہ عَسَىٰ  اپنے عمل میں اسم کو رفع اور خبر کو نصب نہیں دیتا، بلکہ فقط اسم کو رفع دیتا ہے۔ دوسری قسم عمل  کی  یہ ہے کہ یہ فقط اور فقط اسم کو رفع دیتا ہے۔ یہ کب ہوگا؟ فرماتے ہیں: جب عَسَىٰ  کا اسم فعلِ مضارع مع اَن ہوگا، تو اس وقت یہ فقط اسم کو رفع دے گا، اور وہ فعلِ مضارع مع اَن ہوگا اور وہ فعل مضارع محلاََ مرفوع ہوگا۔
    اب ذرا غور کرنا ہے۔ پیچھے ہم نے کہا تھا پہلی قسم میں کہ جب یہ اسم کو رفع اور خبر کو نصب دے گا، وہاں ہم نے کہا تھا کہ اس کی خبر فعلِ مضارع ہوگی "أَنْ" ناصبہ کے ساتھ۔ اب ہم دوسری قسم میں کہہ رہے ہیں کہ نہیں، اگر وہ فعلِ مضارع مع اَن اس عَسَىٰ  کا اسم ہو، اس عَسَىٰ  کا اسم ہو، تو یہ فقط اسم کو رفع دے گا۔  دوسری سطر اور جب یہ عَسَىٰ  فقط اپنے اسم کو رفع دے رہا ہوگا اور خبر کی طرف نہیں جا رہا ہوگا، اس وقت یہ عَسَىٰ  بمعنی قَارَبَ کے نہیں، بلکہ بمعنی قَرُبَ ثلَاثی مُجَرَّد، یہ اس کے معنی میں آ جائے گا۔ پھر مُقَارَبَہ والی بات نہیں ہوگی۔ مُقَارَبَہ میں دو چیزیں چاہیے ہوتے ہیں، مُفَاعَلَہ میں۔ اب یہ بن جائے گا بمعنی قَرُبَ، یعنی ثلَاثی مُجَرَّد  میں آ جائے گا، اور اس صورت میں یہ محتاج اپنی خبر کا نہیں ہوگا۔ کیوں؟ فرماتے ہیں: اس لیے کہ وہاں پر اگر خبر نہ ہوتی تو عَسَىٰ  کا معنی تام نہیں ہو رہا تھا۔ گویا وہاں عَسَىٰ  ناقصہ تھا، اسم سے بات نہیں بنتی تھی، بلکہ خبر کا ذکر کرنا ضروری تھا۔ جبکہ یہاں یہ عَسَىٰ  تامہ کہلائے گا۔ کیوں؟ کیونکہ فقط اسم کو اگر ذکر کریں تو بھی بات مکمل ہو جاتی ہے، اور خبر کی ضرورت نہیں رہتی۔

اب اس کا ترجمہ کرتے ہیں، ان شاءاللہ۔

3

افعال مقاربہ کے متن کی تطبیق

النَوْعُ الحَادِي عَشَرَ:  أَفْعَالُ الْمُقَارَبَةِ، وَإِنَّمَا سُمِّيَتْ بِهَذَا الْاِسْمِ، إِنَّمَا سُمِّيَتْ (سُمِّيَتْ میں جو ضمیر ہے وہ أَفْعَالَ کی طرف جائے گی)۔ ان افعال کا نام بِہَذَا الاِسمِ مُقَارَبَةً رکھا گیا ہے، یعنی ان افعال کو افعال مقاربہ اس لیے کہتے ہیں لِأَنَّهَا تَدُلُّ عَلَى الْمُقَارَبَةِ۔ مُقَارَبَة  پر کیا مطلب؟ کس کی مُقَارَبَةً پر؟ فرماتے ہیں: یہ دلالت کرتے ہیں کہ ان کی خبریں، ان کی خبر، ان کی خبر کا ان کے اسم کے لیے حاصل ہونا قریب ہے۔ یعنی کیا ہے کہ قریب ہے؟ میں سمجھا دوں گا کہ یہ خبر اس اسم کو حاصل ہو جائے۔

پھر اگلی سطر یہاں نہیں ہے، میں نے گزارش کی تھی: البتہ یہاں قُرب کے تین معنی ہیں۔ ممکن ہے قُرب بمعنی امید کے ہو، ممکن ہے قرب بمعنی جزم کے ہو، اور ممکن ہے کہ نہیں، قُرب بمعنی کس کے ہو کہ شروع میں کہ بس اس خبر کا اسم کے لیے کہ یہ اسم اس خبر کو حاصل کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب ترجمے میں آئیں گے تو پھر مثال میں واضح ہو جائے گا۔

وَهِيَ أَرْبَعَةٌ: یہ افعال مقاربہ چار ہیں۔ الْأَوَّلُ: پہلا ہے عَسَىٰ  ۔ هُوَ فِعْلٌ: یہ عَسَىٰ  فعل ہے۔ میں نے گزارش کی تھی کہ یہ فعل لکھنے کی ضرورت کیوں آئی؟ وہ اس لیے چونکہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ عَسَىٰ  حرف ہے، فعل نہیں، تو انہوں نے واضح کر دیا کہ هُوَ فِعْلٌ مُتَصِرِّفٌ ، کہ نہیں، یہ فعل متصرف ہے، اس حد تک متصرف ہے۔ یعنی اس کے فعل ہونے پر ہمارے پاس جو دلیل ہے، وہ یہ ہے: لِدُخُولِ تَاءِ التَّأْنِيثِ السَّاكِنَةِ فِيهِ۔ چونکہ تَاءِ التَّأْنِيثِ السَّاكِنَةِ اس پر داخل ہوتی ہے۔ اب یہاں پر ایک سطر  علیحدہ  لکھنی ہے، وہ یہ ہے کہ فعل کی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ فعل پر تَاءِ التَّأْنِيثِ السَّاكِنَةِ داخل ہو سکتی ہے، اور چونکہ یہ تَاءِ التَّأْنِيثِ السَّاكِنَةِ فعل کی خصوصیات میں سے ہے، اور عَسَىٰ  پر بھی یہ تَاءِ التَّأْنِيثِ السَّاكِنَةِ داخل ہو سکتی ہے، لہٰذا یہ دلیل ہوگی  کہ یہ عَسَىٰ  فعل ہے  حرف نہیں اگر یہ حرف ہوتا تو پھر اس پر تَاءِ التَّأْنِيثِ السَّاكِنَةِ داخل نہ ہوتی۔ نَحْوُ عَسَت، لِذَا عَسَىٰ   کو عَسَت پڑھاتے بھی ہیں اور پڑھا بھی جا سکتا ہے۔ ٹھیک ہے جی؟

غَيْرُ مُتَصَرِّفٍ: اور اس لحاظ سے یہ افعال غیر متصرفہ میں سے ہے۔ کیوں؟ إِذْ لَا يُشْتَقُّ مِنْهُ: چونکہ اس سے مشتق نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یعنی کیا؟ اس لحاظ سے کہ اس پر تَاءِ التَّأْنِيثِ السَّاكِنَةِ  فِیہ داخل ہوتی ہے، یہ فعل بھی ہے اور متصرف بھی ہے۔ اور اس لحاظ سے کہ اِذ لَا يُشْتَقُّ مِنْهُ: اس سے مُضارعاََ، وَاِسما فَاعِلٍ، وَمَفْعُولٍ، اسم فاعل اور مفعول وَصِيغَةُ أَمْرٌ، وَنَهْيٌ  (فعل امر اور فعل نہی) لَا يُشْتَقُّ مِنْهُ: وہ اس عَسَىٰ سے، مشتق نہیں ہو سکتے۔ یعنی عَسَىٰ سے فعل مضارع نہیں بنا سکتے، اسم فاعل، اسم مفعول اور  فعل امر اور نہی  نہیں بن سکتے۔ تو اس لحاظ سے ہم اس کو کہتے ہیں کہ یہ ہے تو فعل، لیکن ہے فعل غیر متصرف کہ اس میں مزید گردانیں، مزید اس سے کچھ چیزیں مشتق نہیں ہو سکتیں۔
وَعمَلُهُ: کہ ہماری بات عَوَامِلِ لَفْظِیَّہ میں ہے، تو اس کا مطلب عَسَىٰ ،عَوَامِلِ لَفْظِیَّہ میں سے ہے۔ تو اب بات یہ ہے کہ اس کا عمل کیا ہے؟ فرماتے ہیں:

 وَعَمَلُهُ عَلَى نَوْعَيْنِ۔ یہ عَسَىٰ  دو قسم کے عمل کرتے ہیں، یعنی اس کے عمل کی دو قسمیں ہیں۔

الْأَوَّلُ: ایک یہ ہے أَنْ يَرْفَعَ الْاِسْمَ، کہ یہ اسم کو رفع دیتے، وَهُوَ فَاعِلُهُ، اور وہی اسم اس کا فاعل چکے۔ اگر یہ فعل ہے تو ظاہر ہے اس کے لیے ایک فاعل چاہیے، تو یہ اسم کو رفع دیتا ہے جو کہ اس کا فاعل ہوتا ہے۔ وَيَنْصِبُ الْخَبَرَ، اور خبر کو نصب دیتا ہے۔

وَيَكُونُ خَبَرُهُ فِعْلًا مُضَارِعًا مَنْصُوبًا بِأَنْ، اور اس کی خبر فعلِ مُضَارِع ہوتی ہے، فعلِ مُضَارِع ہوتی ہے لیکن اس سے پہلے أَنْ موجود ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے جی؟ خب،

وَحِينَئِذٍ: حِينَئِذٍ سے مراد کیا ہے؟ حِينَئِذٍ سے مراد یہ ہے کہ جب یہ اسم کو رفع اور خبر کو نصب دے رہا ہوگا، يَكُونُ بِمَعْنَى قَارَبَ، تو اس وقت یہ عَسَىٰ  بمعنی قَارَبَ کے ہوگا، یعنی پھر یہ ثلَاثی مُجَرَّد نہیں ہوگا، بلکہ بمعنی قَارَبَ ہوگا۔ ٹھیک ہے جی؟

نَحْوٌ: عَسَىٰ زَيْدٌ أَنْ يَخْرُجَ۔ اب دیکھو: عَسَىٰ زَيْدٌ، یہ زید اس کا اسم ہے اور اس کا فاعل ہے، مرفوع ہے۔ أَنْ يَخْرُجَ، اب يَخْرُجَ فعلِ مُضَارِع ہے، اس کی خبر ہے، لیکن اس سے پہلے أَنْ موجود ہے، اور یہ خبر محلًا منصوب کہلاتی ہے۔ عَسَىٰ زَيْدٌ قریب ہے لیکن زيد  أَنْ يَخْرُجَ، زید خارج ہو، یعنی خروج زید کے قریب ہے۔ فَزَيْدٌ مَرْفُوعٌ، پس زید مرفوع ہے، کیوں؟ بِأَنَّهُ اِسْمُهُ، کیونکہ یہ زید عَسَىٰ کا اسم ہے، وَفَاعِلُهُ، اور اس کا فاعل ہے۔ وَأَنْ يَخْرُجَ فِي مَوْضِعِ النَّصْبِ، اور أَنْ يَخْرُجَ  یہ جو يَخْرُجَ ہے، اس سے پہلے أَنْ ناصب موجود ہے۔ فرماتے ہیں: یہ أَنْ يَخْرُجَ فِي مَوْضِعِ النَّصْبِ ،  لَفْظًا نہ سھی، لیکن یہ مَوْضِعِ نَصْب پر ہے، اس کو کہتے ہیں کہ یہ محلًا منصوب ہے، بِأَنَّهُ خَبَرُهُ، اس لیے کہ یہ عَسَىٰ  کی خبر ہے۔

بس، عَسَىٰ زَيْدٌ۔ اب ہم نے کیا کہا تھا کہ جب عَسَىٰ اسم کو رفع اور خبر کو نصب دے گا، اس وقت عَسَىٰ بمعنی قَارَبَ کے ہوگا۔ تو لہٰذا عَسَىٰ زَيْدٌ أَنْ يَخْرُجَ، اب اس کا معنی یہ ہوگا: قَارَبَ زَيْدٌ الْخُرُوجَ، کہ خروج زید کے قریب ہے۔ یہ زید  خروج کے قریب ہے ٹھیک ہے جی؟

وَيَجِبُ أَنْ يَكُونَ خَبَرُهُ مُطَابِقًا لِاسْمِهِ، اور واجب ہے اس صورت میں کہ جب عَسَىٰ اسم کو رفع اور خبر کو نصب دے گا، اور اس کی خبر فعلِ مُضَارِع مَنْصُوب بِأَنْ ہوگی، واجب ہے کہ عَسَىٰ کی خبر عَسَىٰ کے اسم کے مُطَابِق ہو، یعنی اس کے اسم اور خبر کے درمیان مُطَابَقَت پائی جاتی ہو۔ کس کس بات میں؟

فِي الْاِفرَادِ: کہ اگر اسم مفرد ہے تو خبر بھی مفرد ہو۔

وَالتَّثْنِيَةِ: اگر اسم مثنی ہے تو خبر بھی مثنی ہونی چاہیے۔

وَالْجَمْعِ: اگر اسم جمع ہے تو خبر بھی جمع ہونی چاہیے۔

وَالتَّذكِيرِ: اگر اسم مذکر ہے تو خبر بھی مذکر ہونی چاہیے، 

وَالتَّأنِيثِ : اور اگر اسم مؤنث ہے تو خبر بھی مؤنث ہونی چاہیے۔

اب مثالیں ایک ایک  کر کے سمجھاتا ہوں :

عَسَىٰ زَيْدٌ أَنْ يَقُومَ۔ اب زَيْدٌ مفرد ہے اور مذکر ہے، تو اس کی خبر أَنْ يَقُومَ صحیح ہے، صیغہ واحد غائب کا ہے، مفرد بھی ہے اور مذکر کا بھی ہے۔

عَسَىٰ زَيْدَانِ أَنْ يَقُومَا۔ چونکہ عَسَىٰ کا اسم زَيْدَان تثنیہ مذکر ہے، تو اس کی خبر بھی أَنْ يَقُومَا تثنیہ بھی ہے اور صیغہ بھی مذکر کا ہے۔

وَعَسَیٰ زَيْدُونَ أَنْ يَقُومُوا۔ عَسَىٰ کا اسم زَيْدُونَ جمع بھی ہے اور مذکر بھی ہے، تو اس لیے اس کی خبر بھی أَنْ يَقُومُوا صیغہ جمع کا بھی ہے اور مذکر کا بھی ہے۔اسی طرح:
وَعسَتْ هِنْدٌ أَنْ تَقُومَ۔ اب چونکہ عَسَت کا اسم هِنْدٌ مؤنث ہے، مفرد ہے، تو اس کی خبر بھی أَنْ  تَقُومَ  مفرد بھی ہے اور صیغہ بھی مؤنث کا ہے۔

وَعَسَتْ الهِنْدَانِ أَنْ تَقُومَا ۔ الْهِنْدَان تثنیہ مؤنث ہے، تو نتیجہ اس کی خبر بھی أَنْ تَقُومَا  تثنیہ بھی ہے اور صیغہ بھی مؤنث کا ہے۔

وَعَسَت الهِنْدَاتُ أَنْ يَقُمْنَ ، الْهِنْدَات اب آپ دیکھیں یہ جمع ہے اور مؤنث ہے، نتیجہ : أَنْ يَقُمْنَ ہے بھی جمع مؤنث کا صیغہ ۔

وَھَذَا : آخری سطر میں ایک جملہ سمجھا رہے ہیں۔ فرماتے ہیں: یہ جو ہم کہہ رہے ہیں کہ جب عَسَىٰ اسم کو رفع اور خبر کو نصب دے گا، اور خبر فعلِ مضارع ہوگی، تو اس کا اسم اور خبر کے درمیان مطابقت ضروری ہے۔ فرماتے ہیں:

 وَھَذَا أَئ كُون الْخَبَرِ مُطَابِقًا لِلْفِعْلِ۔ یہ جو ہم کہہ رہے ہیں کہ خبر کا فاعل کے اسم کے مطابق ہونا ضروری ہے۔

 إِذَا كَانَ الْفَاعِلُ اِسْمًا ظَاهِرًا، یہ اس صورت میں ہے کہ جب فاعل اسمِ ظاہر ہو۔ جب فاعل اسمِ ظاہر ہو، جیسے عَسَىٰ زَيْدٌ میں زَيْدٌ اسمِ ظاہر ہے، زَيْدَان اسم ظاہر ہے، هِنْدٌ اسمِ ظاہر ہے، هِنْدَاتٌ اسم ظاہر ہے۔ جب یہ ہوں۔

أَمَّا إِذَا كَانَ: لیکن اگر إِذَا كَانَ مُضْمَراََ، لیکن اگر ان کا اسمِ فاعل ، اسمِ ظاہر نہ ہو، یہ ان کا فاعل، یا یوں کہیں کہ عَسَىٰ کا اسم، یا کہیں کہ فعلِ عَسَىٰ کا فاعل اگر اسمِ ظاہر نہ ہو، بلکہ مُضْمَر ہو یعنی مستتر ہو ، اس میں ضمیر ہو تو اس صورت میں فرماتے ہیں :

فليست المطابقة بينهما شرطاً پھر اسم اور خبر کے درمیان مطابقت شرط نہیں ہے ،جیسے زَيْدَانِ عَسَىٰ أَنْ یَخرُجَا ، کیوں اب عسیٰ کا فاعل اسم ظاہر نہیں بلکہ عسیٰ میں ضمیر مستتر ہے جو اس کا فاعل بنتی ہے لھذا آپ یہاں پر اَن یَخرُجَا  پڑہیں گے ،زَيْدُونَ  اَن یَخرُجَا  پڑہیں گے  جب کہ زیدون جمع ہے پھر بھی یَخرُجَا  پڑہ رہے ہیں کیونکہ عسی کا فاعل اسمِ ظاہر نہیں بلکہ مستتر ہے ، پس جب عسیٰ کا فاعل اسمِ ظاہر  نہ ہو ضمیر مستتر ہو تو مطابقت واجب نہیں ہے ۔

النفْيُ، مثل: «ما زال زيد عالماً»، و«ما برح زيد صائماً»، و«ما فتئ عمرو فاضلاً»، و«ما انفكّ بكر عاقلاً»، والثالث عشر: «لَيْسَ» وهي لِنَفْيِ مضمون الجملة في زمان الحال، وقــال بعضهم: «في كلّ زمان»، مثل: «ليس زيد قائماً».

واعلم أنَّ تقديم أخبار هذه الأفعال على أسمائها جائز بإبقاء عملها، مثل: «كان قائماً زيد»، وعلى هذا القياس في البواقي، وأيضاً تقديم أخبارها على أنفسها جائز سوى «ليس» والأفعالِ التي كان في أوائلها «ما»، مثل: «قائماً كان زيـــد»، وقال بعضهم: «تقديم الأخبار على هذه الأفعال أيضاً جائز سوى ما دام» أمّا تقديم أسمائها عليها فغير جائز.

واعلم أنّ حكم مشتقّات هذه الأفعال كحكم هذه الأفعال في العمل.

النوع الحادي عشر

أفعال المقارَبة وإنّما سمّيت بهذا الاسم؛ لأنّها تدلّ على المقارَبة، وهي أربعة: الأوّل: «عَسَى» وهو فعل متصرّف؛ لدخول تاء التأنيث الساكنة فيه، نحو: «عَسَتْ» وغير متصرّف

إذ لا يشتقّ منه مضارعٌ واسمَا فاعلٍ ومفعولٍ وأمرٌ ونَهْيٌ مثلاً، وعمله على نوعين: الأوّل: أن يرفع الاسم وهو فاعله، وينصب الخبر، ويكون خبره فعلاً مضارعاً مع «أن»، وحينئذ يكون بمعنى «قارب»، نحو: «عسى زيد أن يخرج»؛ فـ«زيد» مرفوع بأنه اسمه وفاعله، و«أن يخرج» في موضع النصب بأنّه خبره بمعنى «قارب زيد الخروج»، ويجب أن يكون خبره مطابقاً لاسمه في الإفراد والتثنية والجمع والتذكير والتأنيث، نحو: «عسى زيد أن يقوم»، وعسى الزيدان أن يقوما»، و«عسى الزيدون أن يقوموا»، و«عست هند أن تقوم»، و «عست الهندان أن تقوما»، و«عست الهندات أن يقمن» وهذا أي: كون الخبر مطابقاً للفاعل، إذا كان الفاعل اسماً ظاهراً، أمّا إذا كان مضمَراً فليست المطابقة بينهما شرطاً.

النوع الثاني من النوعين المذكورين: أن يرفع الاسم وحدَه، وذلك إذا كان اسمه فعلاً مضارعاً مع «أن» فيكون الفعل المضارع مع أن في محلّ الرفع بأنّه اسمه، ويكون «عسى» حينئذ بمعنى «قرب»، مثل: «عسى أن يخرج زيد» أي: قرب خروجه، فلا يحتاج في هذا الوجه إلى الخبر، بخلاف الوجه الأوّل؛ لأنّه لا يتمّ المقصود فيه بدون الخبر؛ فيكون الأول

ناقصاً، والثاني تامًّا، والثاني: «كَادَ» وهو يرفع الاسم وينصب الخبر، وخبره فعل مضارع بغير «أن»، وقد يكون مع «أن» تشبّها له بـ «عسى»، مثل: «كاد زيد يجيء» فـ «زيد» مرفوع بأنّه اسم «كاد»، و«يجيء» في محلّ النصب بأنّه خبره، معناه: «قرب مجيء زيد»، وحكم باقي المشتقّات من مصدره كحكم «کاد»، مثل: «لَمْ يكَد زيد يجيء»، و«لا يكاد زيد يجيء»، وإن دخل على «كاد» حرف النفْيِ ففيه خلاف، قال بعضهم: «إنّ حرف النفْيِ فيه مطلقاً يفيد معنى النفْيِ»، وقال بعضهم: «إنّه لا يفيده بل الإثبات باقٍ على حاله»، وقال بعضهم: «إنّه لا يفيد النفْيَ في الماضي وفي المستقبل يفيده»، والثالث: «كَرَبَ» وهو يرفع الاسم وينصب الخبر، وخبره يجيء فعلاً مضارعاً دائماً بغير «أن»، نحو: «كرب زيد يخرج» والرابع: «أَوْشَكَ» وهو يرفع الاسم وينصب الخبر، وخبره فعل مضارع مع «أن» أو بغير «أن»، مثل: «أوشك زيد أن يجيء أو يجيء»، وقال بعضهم: «إنّ أفعال المقارَبة سبعة: هذه الأربعة المذكورة و «جَعَلَ» و «طَفِقَ» و «أَخَذَ»، وهذه الثلاثة مرادِفة لـ «كَرَبَ» وموافِقة له في الاستعمال».