النَوْعُ الحَادِي عَشَرَ:  أَفْعَالُ الْمُقَارَبَةِ، وَإِنَّمَا سُمِّيَتْ بِهَذَا الْاِسْمِ، إِنَّمَا سُمِّيَتْ (سُمِّيَتْ میں جو ضمیر ہے وہ أَفْعَالَ کی طرف جائے گی)۔ ان افعال کا نام بِہَذَا الاِسمِ مُقَارَبَةً رکھا گیا ہے، یعنی ان افعال کو افعال مقاربہ اس لیے کہتے ہیں لِأَنَّهَا تَدُلُّ عَلَى الْمُقَارَبَةِ۔ مُقَارَبَة  پر کیا مطلب؟ کس کی مُقَارَبَةً پر؟ فرماتے ہیں: یہ دلالت کرتے ہیں کہ ان کی خبریں، ان کی خبر، ان کی خبر کا ان کے اسم کے لیے حاصل ہونا قریب ہے۔ یعنی کیا ہے کہ قریب ہے؟ میں سمجھا دوں گا کہ یہ خبر اس اسم کو حاصل ہو جائے۔
پھر اگلی سطر یہاں نہیں ہے، میں نے گزارش کی تھی: البتہ یہاں قُرب کے تین معنی ہیں۔ ممکن ہے قُرب بمعنی امید کے ہو، ممکن ہے قرب بمعنی جزم کے ہو، اور ممکن ہے کہ نہیں، قُرب بمعنی کس کے ہو کہ شروع میں کہ بس اس خبر کا اسم کے لیے کہ یہ اسم اس خبر کو حاصل کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب ترجمے میں آئیں گے تو پھر مثال میں واضح ہو جائے گا۔
وَهِيَ أَرْبَعَةٌ: یہ افعال مقاربہ چار ہیں۔ الْأَوَّلُ: پہلا ہے عَسَىٰ  ۔ هُوَ فِعْلٌ: یہ عَسَىٰ  فعل ہے۔ میں نے گزارش کی تھی کہ یہ فعل لکھنے کی ضرورت کیوں آئی؟ وہ اس لیے چونکہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ عَسَىٰ  حرف ہے، فعل نہیں، تو انہوں نے واضح کر دیا کہ هُوَ فِعْلٌ مُتَصِرِّفٌ ، کہ نہیں، یہ فعل متصرف ہے، اس حد تک متصرف ہے۔ یعنی اس کے فعل ہونے پر ہمارے پاس جو دلیل ہے، وہ یہ ہے: لِدُخُولِ تَاءِ التَّأْنِيثِ السَّاكِنَةِ فِيهِ۔ چونکہ تَاءِ التَّأْنِيثِ السَّاكِنَةِ اس پر داخل ہوتی ہے۔ اب یہاں پر ایک سطر  علیحدہ  لکھنی ہے، وہ یہ ہے کہ فعل کی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ فعل پر تَاءِ التَّأْنِيثِ السَّاكِنَةِ داخل ہو سکتی ہے، اور چونکہ یہ تَاءِ التَّأْنِيثِ السَّاكِنَةِ فعل کی خصوصیات میں سے ہے، اور عَسَىٰ  پر بھی یہ تَاءِ التَّأْنِيثِ السَّاكِنَةِ داخل ہو سکتی ہے، لہٰذا یہ دلیل ہوگی  کہ یہ عَسَىٰ  فعل ہے  حرف نہیں اگر یہ حرف ہوتا تو پھر اس پر تَاءِ التَّأْنِيثِ السَّاكِنَةِ داخل نہ ہوتی۔ نَحْوُ عَسَت، لِذَا عَسَىٰ   کو عَسَت پڑھاتے بھی ہیں اور پڑھا بھی جا سکتا ہے۔ ٹھیک ہے جی؟
غَيْرُ مُتَصَرِّفٍ: اور اس لحاظ سے یہ افعال غیر متصرفہ میں سے ہے۔ کیوں؟ إِذْ لَا يُشْتَقُّ مِنْهُ: چونکہ اس سے مشتق نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یعنی کیا؟ اس لحاظ سے کہ اس پر تَاءِ التَّأْنِيثِ السَّاكِنَةِ  فِیہ داخل ہوتی ہے، یہ فعل بھی ہے اور متصرف بھی ہے۔ اور اس لحاظ سے کہ اِذ لَا يُشْتَقُّ مِنْهُ: اس سے مُضارعاََ، وَاِسما فَاعِلٍ، وَمَفْعُولٍ، اسم فاعل اور مفعول وَصِيغَةُ أَمْرٌ، وَنَهْيٌ  (فعل امر اور فعل نہی) لَا يُشْتَقُّ مِنْهُ: وہ اس عَسَىٰ سے، مشتق نہیں ہو سکتے۔ یعنی عَسَىٰ سے فعل مضارع نہیں بنا سکتے، اسم فاعل، اسم مفعول اور  فعل امر اور نہی  نہیں بن سکتے۔ تو اس لحاظ سے ہم اس کو کہتے ہیں کہ یہ ہے تو فعل، لیکن ہے فعل غیر متصرف کہ اس میں مزید گردانیں، مزید اس سے کچھ چیزیں مشتق نہیں ہو سکتیں۔
وَعمَلُهُ: کہ ہماری بات عَوَامِلِ لَفْظِیَّہ میں ہے، تو اس کا مطلب عَسَىٰ ،عَوَامِلِ لَفْظِیَّہ میں سے ہے۔ تو اب بات یہ ہے کہ اس کا عمل کیا ہے؟ فرماتے ہیں:
 وَعَمَلُهُ عَلَى نَوْعَيْنِ۔ یہ عَسَىٰ  دو قسم کے عمل کرتے ہیں، یعنی اس کے عمل کی دو قسمیں ہیں۔
الْأَوَّلُ: ایک یہ ہے أَنْ يَرْفَعَ الْاِسْمَ، کہ یہ اسم کو رفع دیتے، وَهُوَ فَاعِلُهُ، اور وہی اسم اس کا فاعل چکے۔ اگر یہ فعل ہے تو ظاہر ہے اس کے لیے ایک فاعل چاہیے، تو یہ اسم کو رفع دیتا ہے جو کہ اس کا فاعل ہوتا ہے۔ وَيَنْصِبُ الْخَبَرَ، اور خبر کو نصب دیتا ہے۔
وَيَكُونُ خَبَرُهُ فِعْلًا مُضَارِعًا مَنْصُوبًا بِأَنْ، اور اس کی خبر فعلِ مُضَارِع ہوتی ہے، فعلِ مُضَارِع ہوتی ہے لیکن اس سے پہلے أَنْ موجود ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے جی؟ خب،
وَحِينَئِذٍ: حِينَئِذٍ سے مراد کیا ہے؟ حِينَئِذٍ سے مراد یہ ہے کہ جب یہ اسم کو رفع اور خبر کو نصب دے رہا ہوگا، يَكُونُ بِمَعْنَى قَارَبَ، تو اس وقت یہ عَسَىٰ  بمعنی قَارَبَ کے ہوگا، یعنی پھر یہ ثلَاثی مُجَرَّد نہیں ہوگا، بلکہ بمعنی قَارَبَ ہوگا۔ ٹھیک ہے جی؟
نَحْوٌ: عَسَىٰ زَيْدٌ أَنْ يَخْرُجَ۔ اب دیکھو: عَسَىٰ زَيْدٌ، یہ زید اس کا اسم ہے اور اس کا فاعل ہے، مرفوع ہے۔ أَنْ يَخْرُجَ، اب يَخْرُجَ فعلِ مُضَارِع ہے، اس کی خبر ہے، لیکن اس سے پہلے أَنْ موجود ہے، اور یہ خبر محلًا منصوب کہلاتی ہے۔ عَسَىٰ زَيْدٌ قریب ہے لیکن زيد  أَنْ يَخْرُجَ، زید خارج ہو، یعنی خروج زید کے قریب ہے۔ فَزَيْدٌ مَرْفُوعٌ، پس زید مرفوع ہے، کیوں؟ بِأَنَّهُ اِسْمُهُ، کیونکہ یہ زید عَسَىٰ کا اسم ہے، وَفَاعِلُهُ، اور اس کا فاعل ہے۔ وَأَنْ يَخْرُجَ فِي مَوْضِعِ النَّصْبِ، اور أَنْ يَخْرُجَ  یہ جو يَخْرُجَ ہے، اس سے پہلے أَنْ ناصب موجود ہے۔ فرماتے ہیں: یہ أَنْ يَخْرُجَ فِي مَوْضِعِ النَّصْبِ ،  لَفْظًا نہ سھی، لیکن یہ مَوْضِعِ نَصْب پر ہے، اس کو کہتے ہیں کہ یہ محلًا منصوب ہے، بِأَنَّهُ خَبَرُهُ، اس لیے کہ یہ عَسَىٰ  کی خبر ہے۔
بس، عَسَىٰ زَيْدٌ۔ اب ہم نے کیا کہا تھا کہ جب عَسَىٰ اسم کو رفع اور خبر کو نصب دے گا، اس وقت عَسَىٰ بمعنی قَارَبَ کے ہوگا۔ تو لہٰذا عَسَىٰ زَيْدٌ أَنْ يَخْرُجَ، اب اس کا معنی یہ ہوگا: قَارَبَ زَيْدٌ الْخُرُوجَ، کہ خروج زید کے قریب ہے۔ یہ زید  خروج کے قریب ہے ٹھیک ہے جی؟
وَيَجِبُ أَنْ يَكُونَ خَبَرُهُ مُطَابِقًا لِاسْمِهِ، اور واجب ہے اس صورت میں کہ جب عَسَىٰ اسم کو رفع اور خبر کو نصب دے گا، اور اس کی خبر فعلِ مُضَارِع مَنْصُوب بِأَنْ ہوگی، واجب ہے کہ عَسَىٰ کی خبر عَسَىٰ کے اسم کے مُطَابِق ہو، یعنی اس کے اسم اور خبر کے درمیان مُطَابَقَت پائی جاتی ہو۔ کس کس بات میں؟
فِي الْاِفرَادِ: کہ اگر اسم مفرد ہے تو خبر بھی مفرد ہو۔
وَالتَّثْنِيَةِ: اگر اسم مثنی ہے تو خبر بھی مثنی ہونی چاہیے۔
وَالْجَمْعِ: اگر اسم جمع ہے تو خبر بھی جمع ہونی چاہیے۔
وَالتَّذكِيرِ: اگر اسم مذکر ہے تو خبر بھی مذکر ہونی چاہیے، 
وَالتَّأنِيثِ : اور اگر اسم مؤنث ہے تو خبر بھی مؤنث ہونی چاہیے۔
اب مثالیں ایک ایک  کر کے سمجھاتا ہوں :
عَسَىٰ زَيْدٌ أَنْ يَقُومَ۔ اب زَيْدٌ مفرد ہے اور مذکر ہے، تو اس کی خبر أَنْ يَقُومَ صحیح ہے، صیغہ واحد غائب کا ہے، مفرد بھی ہے اور مذکر کا بھی ہے۔
عَسَىٰ زَيْدَانِ أَنْ يَقُومَا۔ چونکہ عَسَىٰ کا اسم زَيْدَان تثنیہ مذکر ہے، تو اس کی خبر بھی أَنْ يَقُومَا تثنیہ بھی ہے اور صیغہ بھی مذکر کا ہے۔
وَعَسَیٰ زَيْدُونَ أَنْ يَقُومُوا۔ عَسَىٰ کا اسم زَيْدُونَ جمع بھی ہے اور مذکر بھی ہے، تو اس لیے اس کی خبر بھی أَنْ يَقُومُوا صیغہ جمع کا بھی ہے اور مذکر کا بھی ہے۔اسی طرح:
وَعسَتْ هِنْدٌ أَنْ تَقُومَ۔ اب چونکہ عَسَت کا اسم هِنْدٌ مؤنث ہے، مفرد ہے، تو اس کی خبر بھی أَنْ  تَقُومَ  مفرد بھی ہے اور صیغہ بھی مؤنث کا ہے۔
وَعَسَتْ الهِنْدَانِ أَنْ تَقُومَا ۔ الْهِنْدَان تثنیہ مؤنث ہے، تو نتیجہ اس کی خبر بھی أَنْ تَقُومَا  تثنیہ بھی ہے اور صیغہ بھی مؤنث کا ہے۔
وَعَسَت الهِنْدَاتُ أَنْ يَقُمْنَ ، الْهِنْدَات اب آپ دیکھیں یہ جمع ہے اور مؤنث ہے، نتیجہ : أَنْ يَقُمْنَ ہے بھی جمع مؤنث کا صیغہ ۔
وَھَذَا : آخری سطر میں ایک جملہ سمجھا رہے ہیں۔ فرماتے ہیں: یہ جو ہم کہہ رہے ہیں کہ جب عَسَىٰ اسم کو رفع اور خبر کو نصب دے گا، اور خبر فعلِ مضارع ہوگی، تو اس کا اسم اور خبر کے درمیان مطابقت ضروری ہے۔ فرماتے ہیں:
 وَھَذَا أَئ كُون الْخَبَرِ مُطَابِقًا لِلْفِعْلِ۔ یہ جو ہم کہہ رہے ہیں کہ خبر کا فاعل کے اسم کے مطابق ہونا ضروری ہے۔
 إِذَا كَانَ الْفَاعِلُ اِسْمًا ظَاهِرًا، یہ اس صورت میں ہے کہ جب فاعل اسمِ ظاہر ہو۔ جب فاعل اسمِ ظاہر ہو، جیسے عَسَىٰ زَيْدٌ میں زَيْدٌ اسمِ ظاہر ہے، زَيْدَان اسم ظاہر ہے، هِنْدٌ اسمِ ظاہر ہے، هِنْدَاتٌ اسم ظاہر ہے۔ جب یہ ہوں۔
أَمَّا إِذَا كَانَ: لیکن اگر إِذَا كَانَ مُضْمَراََ، لیکن اگر ان کا اسمِ فاعل ، اسمِ ظاہر نہ ہو، یہ ان کا فاعل، یا یوں کہیں کہ عَسَىٰ کا اسم، یا کہیں کہ فعلِ عَسَىٰ کا فاعل اگر اسمِ ظاہر نہ ہو، بلکہ مُضْمَر ہو یعنی مستتر ہو ، اس میں ضمیر ہو تو اس صورت میں فرماتے ہیں :
فليست المطابقة بينهما شرطاً پھر اسم اور خبر کے درمیان مطابقت شرط نہیں ہے ،جیسے زَيْدَانِ عَسَىٰ أَنْ یَخرُجَا ، کیوں اب عسیٰ کا فاعل اسم ظاہر نہیں بلکہ عسیٰ میں ضمیر مستتر ہے جو اس کا فاعل بنتی ہے لھذا آپ یہاں پر اَن یَخرُجَا  پڑہیں گے ،زَيْدُونَ  اَن یَخرُجَا  پڑہیں گے  جب کہ زیدون جمع ہے پھر بھی یَخرُجَا  پڑہ رہے ہیں کیونکہ عسی کا فاعل اسمِ ظاہر نہیں بلکہ مستتر ہے ، پس جب عسیٰ کا فاعل اسمِ ظاہر  نہ ہو ضمیر مستتر ہو تو مطابقت واجب نہیں ہے ۔